بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیز بھائیو اور بہنو! خوش آمدید۔ میں ہفتہ اتحاد، یوم استاد اور یوم مزدور کی مبارکبادیں پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے انقلاب کے عظیم شہید آیت اللہ شہید مطہری مرحوم کے لئے درجات کی بلندی کی دعا کرتا ہوں جو حقیقی معنی میں کل آج اور آئندہ کل کے لئے ملک کے بہت عظیم استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ محنتی، مخلص باایمان اور دینی امور پر ملکہ رکھنے والے مفکر تھے۔ معلمی اور جفا کشی بڑے ہی دلچسپ انداز میں اس عظیم انقلابی شخصیت میں ہویدا تھی۔ آج کے دن یا دیگر مناسبتوں پر ہم استاد اور مزدور کی توقیر اور احترام کرتے ہیں تو یہ تکلفات اور رسمی چیز نہیں ہے بلکہ یہ تعلیم و تربیت اور محنت و جفا کشی کے سلسلے میں اسلام کے نقطہ نگاہ کی وضاحت اور ان دونوں شعبوں کے سلسلے میں اسلامی ثقافت کا تعارف ہے۔ بہت سے امور میں معاشرے کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ کسی چیز کو سمجھنے میں غلطی سے کام لیا جاتا ہے۔ اگر سماج میں مزدور کو کام کے وسیلے کے طور پر دیکھا جائے اور اس کے انسانی وقار اور شخصیت کو نظر انداز کر دیا جائے تو اسے مزدوری میں کتنی ہی رقم کیوں نہ دے دی جائے، اس کے لئے اطمینان بخش نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر استاد کے سلسلے میں بھی بس رسمی برتاؤ اپنایا جائے اور منصوبوں، پالیسیوں اور قوانین کے سلسلے میں استاد کے لئے محض مالی پہلو کو مد نظر رکھا جائے اور استاد کے اخلاقی اور انسانی مقام کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ استاد کی توہین ہے۔ یقینا معیشت اہم مسئلہ ہے اور اس کی جانب توجہ دی جانی چاہئے لیکن انسان کا وقار اور عزت و احترام صرف مالی امور تک محدود نہیں ہے۔ اسلام میں معلم کا مقام بہت بلند و بالا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں اسلامی ثقافت رائج ہے تو تمام افراد کو معلمین کا احسان مند ہونا چاہئے کیونکہ استاد خام مادے کی حیثیت رکھنے والے انسان کو ایک فعال، خلاق، پر جوش، مفید، ماہر اور عالم عنصر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ کائنات میں انجام پانے والا یہ بہترین کام ہے۔ مزدور وہ ہے کہ جسکی، سماج کی حرکت اور پیش روی کے عمل میں سب سے زیادہ شراکت ہوتی ہے۔ ترقیاتی کاموں اور پیداواری سرگرمیوں کا بڑا حصہ افرادی قوت سے مختص ہے یعنی مزدور طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر سماج میں مزدور کی ارزش کا حقیقی معنی میں ادراک کیا جائے تو لوگ ہر سہولت اور نعمت کے لئے خود کو مزدور طبقے کا احسان مند سمجھیں گے۔ اس طرح مزدور اور استاد کوشایان شان عزت ملے گی۔ سماج میں اس کی ضرورت ہے۔ پالیسی ساز، منصوبہ ساز ار قانون ساز اداروں کو اگر استاد اور مزدور کی اس عزت و حرمت اور وقار و شرف کا اندازہ ہو تو پالیسی سازی، منصوبہ سازی اور قانون سازی کا عمل ایسے انجام پائے گا کہ ان کا حق انہیں اس انداز سے ملے گا جو ان کے شایان شان ہے۔ اگر حقیقت بیں نگاہوں سے مزدور اور اساتذہ کے طبقے کو دیکھا جائے، جو اصلی معمار اور معاشرے کو چلانے والے ہیں، تو ان کا مقام ان افراد سے بہت بلند ہے جو صارف کی حیثت سے دسترخوان پر بیٹھتے اور صرف (چیزوں کو) استعمال کرتے ہیں، سماج کی ترقی اور فلاح و بہبود میں کوئي کردار ادا نہیں کرتے۔
مزدور طبقے کے سلسلے میں جو چیز ضروری ہے وہ یہ کہ حکومت اپنے امکان بھر جتنی اس کے پاس توانائي ہے، ایسے قوانین وضع کرے اور ایسی پالیسیاں تیار کرے جن سے مزدور کو بھی پیشے کی بابت تحفظ کا احساس ہو اور اسے یہ بھی محسوس ہو کہ اس کی محنت اور جفا کشی کی قدر کی جا رہی ہے۔ مزدوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے لیکن ایسا کوئي اقدام نہ کیا جائے کہ سرمایہ دار، مزدور کو کام پر لگانے سے ڈرے۔ دونوں فریقوں پر مدبرانہ اور حقیقت پسندانہ انداز میں توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ مزدور کو کام کی بابت احساس تحفظ بھی ہو اور اسے اس کے حقوق بھی ملیں۔
اساتذہ کے بارے میں بھی اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ یہ طبقہ جو فریضہ انجام دے رہا ہے وہ بہت عظیم انسانی کام ہے۔ اس کے ذریعے ہونے والی پیداوار بہت قیمتی ہے۔ ماہر، با صلاحیت اور برجستہ شخصیتوں کی پیداوار۔ استاد وہ ہے جو انسانوں کے وجود کے اندر استعداد اور صلاحیتوں کے چشمے جاری کرتا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کی شکل میں خام مادے کو ملک و ملت اور تاریخ کے لئے مفید، اہم اور کارآمد شخصیت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ جن طاقتور شخصیتوں نے تاریخ رقم کی ہے انہیں اساتذہ سے ہی طاقت ملی ہے۔ معلمین نے ہی انہیں کارآمد بنایا ورنہ اگر اساتذہ کی نگرانی، ہمدردی، زخمتیں اور کوششیں نہ ہوتی تو انسانوں کے وجود کےاندر ان کی بہت سی صلاحیتیں دفن ہو جاتیں، نابود ہو جاتیں۔ لہذا استاد کی قدر کی جانی چاہئے۔ اسلامی نظام بھی مزدور اور اساتذہ کے طبقے کا احسان مند ہے۔ انقلاب کے معرض وجود میں آنے اور پھر انقلاب اور اسلامی نظام کی حفاظت و پاسبانی کے عمل میں بھی ان دونوں طبقات کا بڑا تعاون رہا ہے۔ مقدس دفاع کے دوران، اس سے قبل اور اس کے بعد آج تک ان دونوں طبقوں کو اسلامی نظام سے الگ کرنے کے لئے بہت سے عناصر سرگرم عمل رہے اور انہوں نے کمیوں کو اچھالا، ان کے بارے میں مبالغہ آرائي کی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا تاکہ انقلاب کے ان دونوں خدمت گزار اور باایمان طبقات کو انقلاب کے مد مقابل کھڑا کر دیں، وہ اس سازش میں کامیاب نہیں ہوئے اور آج تک انہیں ناکامی ہی ملتی رہی ہے۔ یہ سازشیں آج بھی جاری ہیں ۔ سب کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم حکومت کے عہدہ داروں اور منصوبہ سازو‎ں سے تو کہتے ہی ہیں کہ ان دونوں طبقات کا خیال رکھا جائے اسی طرح دیگر طبقات کے حقوق بھی پامال نہ ہونے پائیں یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر بھی توجہ دی جانی چاہئے لیکن دشمنوں نے پہلے دن سے ہی اساتذہ اور مزدوروں کے طبقات پر توجہ دی انہیں انقلاب اور نظام سے برگشتہ کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ البتہ ان دونوں طبقوں نے دانشمندی اور عقلمندی کا ثبوت دیا نتیجے میں دشمن کی سازشیں ناکام ہوئيں۔ اساتذہ کا طبقہ اس وقت ہمارے ملک میں بہت نیک نام طبقہ ہے۔ بعض عناصر ہیں جو اس طبقے کی اس نیک نامی کو نابود کر دینے کے در پے ہیں۔ اس طرح کی کوششیں ہم دیکھ رہے ہیں۔ بعض افراد ہیں جو عمدا دشمن کی خدمت کر رہے ہیں اور کچھ ہیں جو نادانستہ طور پر دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
آج ملک کوتعلیم و تربیت، تحقیق و ایجادات اور شخصیت کی تعمیر کے شعبے میں سرعت عمل کی اشد ضرورت ہے تاکہ ماضی کی پسماندگی کی تلافی ہو سکے۔ بحمد اللہ ہمیں کافی کامیابی ملی ہے۔ یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مراکز سب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن ہمارے اساتذہ بیدار ہیں۔ انہیں اپنی نیک نامی اور اچھے ریکارڈ کا خیال ہے۔ انہیں علم ہے کہ اگر اغیار کی سازش کا شکار بنے تو وہ طلبا کے والدین کے مد مقابل آ جائيں گے۔ طلبا کے والدین یعنی کون؟ یعنی ملت ایران۔ یہ سازشیں ہیں۔ مزدوروں کے سلسلے میں بھی یہی اقدامات کئے گئے۔
اس وقت دنیا کی سامراجی طاقتوں نے انیسویں صدی سے شروع ہوکر بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہنے والے طرز عمل پر ایک بار پھر دنیا کے ہر اس گوشے کو نگل لینے کی کوششیں شروع کر دی ہیں جہاں زیادہ دولت و ثروت ہے۔ عظیم مشرق وسطی سے موسوم منصوبہ جسے امریکہ کے حکمراں گروہ نے صیہونیوں کی ایما پر تیار کیا کس لئے ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ مشرق وسطی قدرتی دولت سے مالامال علاقہ ہے۔ طمع اور حرص کے مارے انہیں نیند نہیں آ رہی ہے۔ وہ اس پورے خطے کو ہضم کر جانا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا کر نہیں پائیں گے یہ گلے میں اٹک جانے والا لقمہ ہے، اس کو نگلنے کی کوشش کی تو ان کا دم گھٹ جائے گا۔ یہ بد نیتی اور یہ حرص و طمع ہمارے ملک کے سلسلے میں بھی ہے لیکن انہیں ایران سے خوف آتا ہے۔ مجھ سے اور میرے جیسے افراد سے نہیں، یہ لوگ آپ سے ڈرتے ہیں، ملت ایران سے ہراساں ہیں۔ آپ کے ایمان سے خوفزدہ ہیں۔ میدان عمل میں آپ کی موجودگی سے سہمے ہوئے ہیں۔ آپ کے انتخابات ان کے لئے سوہان روح بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ آپ کے قریب نہیں آتے لیکن ان کی حریص نظریں آپ پر لگی ہوئي ہیں۔
آپ ذرا دیکھئے تو سہی! عراق کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ملت فلسطین کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے! اس وقت دہشت گردی سے جنگ کا پرچم امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ پرچم اٹھائے ہوئے وہ کبھی یہاں تو کبھی وہاں جھپٹتا ہے۔ خود کو میمنے اور میسرے سے ٹکراتا ہے، دعوی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ فلسطینی رہنماؤں کےاعلانیہ قتل کی، جو جرائم پیشہ صیہونی انجام دے رہے ہیں، حمایت بھی جاری ہے۔ انہیں شرم بھی نہیں آتی۔ یہ چیز خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا زوال شروع ہو گیا ہے اور ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔ ایک سیاسی نظام کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب اس نظام کے پاس اپنی کارکردگي اور سیاسی حقانیت کے لئے قابل قبول اور منطقی استدلال باقی نہ رہے۔ جب ایک نظام کی سیاسی حقانیت اور اس کے وجود اور کارکردگی کا منطقی استدلال ختم ہو جائے تو اس کی طاقت ختم ہو جاتی ہے اور اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ خواہ ظاہری طور پر یہ چیز سمجھ میں نہ آئے اور خود وہ نظام بھی اسے محسوس نہ کرے۔ یہ لوگ اپنی طاقت کے زعم میں ایسے بد مست ہوئے ہیں کہ اپنی سیاسی حقانیت کے فقدان کے نتیجے میں دنیا میں وہ کس پوزیشن میں پہنچ چکے ہیں اس کا انہیں انداز نہیں۔ صیہونی مجرم یعنی شیرون کو شیخ احمد یسین اور شہید رنتیسی کی ٹارگٹ کلنگ پر مبارکباد دی جا رہی ہے! اس حرکت کا جواز کیا ہے؟ یہ جواز ہے کہ اسرائیل اپنا دفاع کر رہا ہے؟! اچھا! تو دنیا کے آمر جو اپنے مخالفین کا قتل عام کرتے ہیں، ان کی سرکوبی کرتے ہیں، کیا وہ بھی یہی جواز نہیں پیش کرتے؟ دنیا کے سارے منحوس اور خبیث سیاسی چہرے جو مطلق العنانیت اور خباثت کے لئے بہت جانے پہچانے ہیں، اپنے مخالفین کو اسی جواز کے تحت مارتے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہم اپنا دفاع کر رہےہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل اپنے وجود کا دفاع کر رہا ہے۔ سن رسیدہ، مفلوج اور وہیل چیئر پر چلنے والے شیخ احمد یسین بولنے اور سوچنے کے علاوہ کچھ اور کر سکتے تھے؟! آپ کا تو کہنا ہے کہ ہم آزادی بیان و فکر کے حامی ہیں۔ ان پر حملہ کرکے انہیں شہید کر دیتے ہیں اور پھر اس پر مبارکباد بھی پیش کی جاتی ہے۔ ذرا یہ بے شرمی تو دیکھئے! کیا دنیا نے اس اقدام کو قبول کر لیا؟ ہرگز نہیں۔ خود مغربی رای عامہ نے بھی اسے قبول نہیں کیا۔ اسے کہتے ہیں سیاسی حقانیت کا فقدان۔ یعنی اب ان کے پاس کوئي منطقی بات نہیں ہے اور وہ جو کـچھ بھی کہتے ہیں انصاف پسند عالمی رای عامہ اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہی سب اس وقت عراق میں بھی ہو رہا ہے۔ عراق میں جو حالیہ ہنگامہ آرائي ہوئي اور نجف، کربلا ، بصرہ اور دیگر علاقوں میں جو ٹکراؤ شروع ہوا، اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکیوں نے ایک جریدے کو صرف اس لئے بند کروا دیا کہ وہ امریکیوں کے خلاف لکھتا تھا۔ کیوں، آپ تو آزادی قلم کے حامی ہیں؟ کیا آپ یہ جھوٹے دعوے نہیں کرتے کہ آپ آزادی بیان، آزادی اظہارخیال اور آزادی قلم کے حامی ہیں؟ تو آپ نے جریدے پر پابندی کیوں لگائی؟ اس لئے کہ اس نے قابض قوتوں کےخلاف مضمون شائع کیا تھا۔ اس وقت امریکہ اور برطانیہ کےپاس عراق میں اپنی موجودگی کے لئے کوئی جواز نہیں ہے۔ دعوے تو یہ تھے کہ ہم دہشت گردی کا مقابلہ کرنے، انسانی حقوق کے دفاع اور جمہوریت کے قیام کے لئے عراق آئے ہیں۔ یہی جمہوریت ہے؟! اسی کو انسانی حقوق کہتے ہیں کہ عراقی خاتون اور بچے، پیرو جواں اپنی سرزمین اور اپنے گھروں پر اغیار کا قبضہ دیکھیں اور ان کی دھونس دھمکیاں سنیں؟! شروع سے ہی چھپایا گیا کہ وہ کس لئے آئے ہیں۔ لیکن اب جب امریکی رای عامہ نے رفتہ رفتہ مخالفت شروع کر دی ہے تو ایک ہی دو ہفتے قبل امریکہ کے احمق صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر عراق کا تیل ہم استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو فلاں، فلاں ملک کے تیل کی ہمیں ضرورت نہیں رہ جائےگی۔ یعنی اقرار کر لیا کہ وہ تیل کے لئے آئے ہیں۔ اقرار کر لیا کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے دفاع کے لئے ان کا آنا نہیں ہوا ہے بلکہ ان کی کمپنیوں کے مفادات انہیں یہاں کھینچ لائے ہیں۔ یہ طرز عمل اپنی افادیت کھو چکاہے۔ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر رکھا جائے کہ وہ کچھ بول نہ سکیں اور اگر بولیں بھی تو صیہونی ذرائع ابلاغ ان کی بات کو منظر عام پر آنے نہ دیں اس طرز عمل اور فکر پر چلنے والا نظام جو دہاڑتا پھر رہا ہے، کبھی کسی پر تو کبھی کسی پر چڑھ دوڑتا ہے شکست اور نابودی کے علاوہ اس کا کوئی اور انجام نہیں ہے۔ امریکہ نے اپنے ہاتھوں اپنے سامراجی اقتدار کے زوال کا عمل شروع کر دیا ہے اور بہت آگے بھی بڑھ چکا ہے۔ دنیا کے لوگ اس کا مشاہدہ کریں گے۔ عراق میں امریکی پھنس گئے ہیں، ان کے پاس کوئی راہ نجات نہیں ہے۔ بالکل اس بھیڑئے کی مانند جس کی دم جال میں پھنس جاتی ہے تو پنجہ مارتا ہے، غراتا ہے، کوئي چیز سامنے پڑ جاتی ہے تو اس پر جھپٹتا ہے۔ اب یہ بھیڑیا یا تو زور لگائے اور اس کی دم جڑ سے اکھڑ جائے اور اس کی گلو خلاصی ہو جائے یا پھر اسی طرح پڑا چھٹپٹاتا رہے۔ یہ دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ تو یہ ہے مظلوم ملک فلسطین میں صیہونیوں کی حالت اور عراق میں امریکیوں کا انجام۔ آخرکار مظلومیت کی طاقت، بے لگام ظلم و استبداد پر غلبہ حاصل کرکے رہےگی۔
اسلامی جمہوریہ ایران سے بھی ان کی دشمنی بڑی گہری ہے۔ کیونکہ ہم اپنے ملک میں ان حقائق کو آسانی سے پیش کر دیتے ہیں اور عوام سوجھ بوجھ کے ساتھ انہیں درک کرتے ہیں، دنیا میں اس طرح اظہار خیال کا موقع نہیں ملتا۔ اگر کہیں کوئي اس انداز سے حقائق بیان کرتا بھی ہے تو ذرائع ابلاغ اس کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ اس کی بات منظر عام پر نہیں آنے دیتے۔ ایران سے ان کا خوف ایرانی قوم کی وجہ سے ہے، اسلام کی وجہ سے ہے۔ یہ غلط فہمی نہ ہو کہ وہ کچھ افراد سے ڈرتے ہیں۔ اگر عوام کی حمایت اور سہارا نہ ہو تو میں یا میرے جیسے دیگر افراد ہیچ ہیں۔ (عوامی حمایت سے محروم) سیاستداں کمزور دیوار کی مانند ہیں جو ایک دھکا مار کر گرائي جا سکتی ہے۔ استحکام تو عوامی طاقت سے پیدا ہوتاہے۔ قوموں کو بیدار ہونا چاہئے اور آج دنیا میں مسلم قومیں بیدار ہو رہیں ہیں۔ یہ (دشمن) آپ کے اسی جوش و جذبے، ایمان و یقین، ہوشیاری و دانشمندی اور میدان عمل میں بلا وقفہ موجودگی سے ڈرتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں آپ کی بھرپور شرکت سے وہ لرزہ براندام اور مایوس ہو گئے۔ انتخابات کا موقع پھر آنے والا ہے۔ جن علاقوں میں آئندہ چند دنوں میں انتخابات ہونے والے ہیں وہاں کے عوام سے سفارش کرتا ہوں کہ پوری سنجیدگي کے ساتھ انتخابات میں شرکت کریں۔ یہ ملک گیر انتخابات تو نہیں ہیں لیکن پھر بھی درجنوں اراکین پارلیمنٹ کا انتخاب ہونا ہے لہذا جن علاقوں میں انتخابات ہونے ہیں وہاں عوام کا جوش و خروش انتخابات میں ان کی عظیم الشان شرکت کے حسین منظر میں تبدیل ہو جائے۔ دیگر مواقع پر بھی عوام کی دانشمندی اور میدان عمل میں ان کی موجودگی ہی فیصلہ کن ہے اور یہ اسلام، اسلامی تعلیمات اور اسلامی ہدایت کا ثمرہ ہے۔ اسلامی ہدایت اور گہرے دینی و اسلامی ایمان و عقیدے کے بغیر نہ ایسی مزاحمت ممکن تھی اور نہ دشمنوں کے منصوبوں، سازشوں، حیلوں اور مکاریوں کے مقابلے میں یہ حمایت باقی رہتی۔ ہماری قوم جو اس پامردی کے ساتھ کھڑی ہوئي ہے اس کی وجہ حقیقی ایمان ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا، اللہ تعالی کی توفیقات کے نتیجے میں لوگوں کا ایمان اور بھی مستحکم، اسلامی نظام کے لئے ان کی حمایت اور بھی وسیع ہوگی اور دشمن تلملاتا رہے گا۔
میں آپ تمام بھائی بہنوں، عزیز مزدوروں اور اساتذہ اسی طرح ان کے امور دیکھنے والے حکام کے لئے سعادت و کامرانی کی دعا کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں دنیا بھر میں مسلمانوں اور اسلام بالخصوص مظلوم ملکوں کی مدد و نصرت کی التجا کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ