آپ نے طلبا اور اسٹوڈنٹس یونینوں کی خصوصیات بھی بیان فرمائیں۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

مجھے بڑی خوشی ہے اور میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس اہم یونیورسٹی میں آپ حضرات کے درمیان حاضر ہونے کا موقع ملا۔ طلبا بھی تشریف فرما ہیں، اساتذہ کرام اور یونیورسٹی کے عہدہ داران بھی رونق افروز ہیں۔ بحمد اللہ علم و صنعت یونیورسٹی کا شمار ان یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے جو علمی افتخارات کے ساتھ ہی انقلابی افتخارات کی حامل سمجھی جاتی ہیں۔ اگر یونیورسٹیوں کی ایک اہم ذمہ داری ملک کے مختلف شعبوں کو چلانے اور ملک کی فضا میں موثر کردار ادا کرنے کے لئے مفید، با صلاحیت اور برجستہ افرادی قوت کی تعلیم و تربیت ہے تو آپ کی یہ یونیورسٹی اس لحاظ سے پیشرفتہ ترین یونیورسٹی ہے اور اس میدان میں بہت آگے ہے۔ گزشتہ برسوں میں اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوکر ملک کے مختلف شعبوں میں موثر اور مفید کردار ادا کرنے والے افراد کی ایک لمبی فہرست پیش کی جا سکتی ہے۔ چونکہ یہاں شہدا کا تذکرہ بھی ہوا لہذا میں بعنوان مثال جناب الحاج احمد متوسلیان کا نام لوں گا جو اپنا جاوداں کردار چھوڑ گئے۔ میں انہیں قریب سے جانتا تھا۔ میں نے ان کی محنت، ان کے جوش و جذبے اور سعی و کوشش کو خود دیکھا تھا۔ وہ مقدس دفاع کی اہم شخصیات میں سے ایک تھے۔ میرے خیال میں تو خاص طور پر آپ لوگوں کے لئے ان برجستہ شخصیات کے زندگی ناموں میں بڑے درس پنہاں ہیں۔ آپ ان کا مطالعہ کیجئے۔ خاص طور پر ان حصوں کا جو اس عزیز کمانڈر کے فوجی آپریشن سے متعلق ہیں۔ یہ شخصیات اسی یونیورسٹی کے علمی افتخارات ہیں۔ موجودہ انقلابی، فعال، مفید اور شجاع صدر مملکت بھی اسی یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ میں سے ہیں۔ یہ سب اس یونیورسٹی کی اہم کارکردگی کی علامت ہے۔
ہمارے اس اجتماع میں اگرچہ اساتذہ بھی تشریف فرما ہیں لیکن میرا خطاب بنیادی طور پر طلبا سے ہے البتہ اپنی گفتگو میں میں کچھ کلی مسائل کو بھی پیش کروں گا جن سے بہرحال اساتذہ کا بھی رابطہ ہے۔ میں اپنے وقت کو دو حصوں میں تقسیم کروں گا، پہلے حصے میں میں طالب علمی، طالبا اور طالب علموں کے کردار پر گفتگو کروں گا جو میری نظر میں ملک کے اہم ترین مسائل میں ہے۔ اس کے بعد دوسرے حصے میں تیسرے عشرے کے اختتامی دور میں اسلامی انقلاب، اس کی تاریخ اور دیگر عناصر پر اختصار سے بات کروں گا۔ اس کے بعد پیش رفت و مساوات کے نعرے کے سلسلے میں جو چوتھے عشرے کا بنیادی نعرہ ہوگا، کچھ باتیں عرض کروں گا۔
یونیورسٹیوں میں ہونے والے اجلاس اور طلبا کے اجتماع میرے لئے بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان اجتماعات میں خلوص و صداقت کی فضا حکمفرما ہوتی ہے اور ان میں وہ طلبا ہوتے ہیں جو ملک کے حال و مستقبل کو بنانے سنوارنے میں بنیادی کردار کے حامل ہیں۔ ہمارے طلبا کو یہ نکتہ ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئےـ طلب علم زمانہ حال اور مستقبل دونوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس عظیم مرکز میں اساتذہ کی محنت، جوش و جذبے اور ہدایت و رہنمائی میں بے مثال اہمیت اور افادیت کا مالک بن جانے والا عنصر طالب علم کہلاتا ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یونیورسٹی ملک کی پیشرفت و ترقی کے بنیادی ڈھانچے کا اہم ترین حصہ ہے اور ملک کے کسی بھی شعبے کا بنیادی ڈھانچہ یونیورسٹیوں جیسے مقام کا حامل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ یونیورسٹیاں افرادی قوت کی تربیت کرتی ہیں اور ملک کا اہم ترین سرمایہ افرادی قوت ہے۔ یونیورسٹیوں سے دائمی توقع یہ ہے کہ ملک میں دو حیاتی سلسلوں کا سرچشمہ بنی رہیں۔ ایک علم و تحقیق کا سلسلہ ہے اور دوسرا سیاسی و سماجی اہداف کا تعین اور اقدار کی نشاندہی کا سلسلہ ہے۔ شاید ہی کوئی اور مرکز ملے جہاں سے یہ دو سلسلے ساتھ ساتھ رواں دواں ہوں۔ علم و تحقیق کا سلسلہ جو معاشرے کی زندگی اور عزت و وقار کا ضامن ہے جس سے معاشی، سیاسی اور عالمی وقار حاصل ہوتا ہے، اس کا سرچشمہ یونیورسٹیاں ہیں۔ اسی طرح اہداف کے تعین اور قدرروں کی نشاندہی کا سلسلہ ہے جو بظاہر علم و تحقیق کے سلسلے سے مختلف ہے لیکن دنیا بھر میں یونیورسٹیوں میں طلبا کی موجودگی کی وجہ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ یونیورسٹیاں اعلی اہداف کا تعین اور قدروں کی نشاندہی کریں اور ان کے حصول کے لئے سعی و کوشش اور ان اہداف تک رسائی میں طلبا کی مدد کریں۔ ویسے صورت حال یہ ہے کہ بعض جگہوں پر یہ توقع پوری ہو جاتی ہے اور بعض مقامات پر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتا۔
علم و تحقیق کا جو سلسلہ ہے اس کے بارے میں کہنا چاہئے کہ ماضی میں بھی یہ چیز کم و بیش ہمارے ملک میں تھی۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انقلاب سے قبل یونیورسٹیوں کی کوئی فعالیت نہیں تھی۔ البتہ اس میں خامیاں ضرور تھیں۔ اس وقت بھی قوم کا درد رکھنے والے مخلص دانشور تھے جو یونیورسٹیوں میں خدمات انجام دے رہے تھے لیکن انقلاب کے بعد یونیورسٹیوں میں علمی پیشرفت کا عمل تیز ہوا جس کی خاص وجوہات ہیں۔ حالیہ برسوں میں جو نئے علوم کی تلاش، علمی پیداوار کی تحریک، بیداری کی تحریک اور یونیورسٹیوں میں تحقیق و تجربات کی اہمیت کا جو اشو اٹھایا گيا اس سے اس عمل میں برق رفتاری آ گئی۔ بعض سائنسی میدانوں، علمی شعبوں اور ٹکنالوجیوں میں ہم اس تبدیلی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ میڈیکل سائنسز، ایٹمی ٹکنالوجی، نینو ٹکنالوجی اور دیگر شعبوں میں ہماری یونیورسٹیوں نے بڑی کامیاب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہمارے محققین، ہمارے اساتذہ، ہمارے طلبا اور ہمارے نوجوان اس مقام پر پہنچ سکیں گے اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن آج یہ چیز ہمارے سامنے ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ برق رفتاری اسی انداز سے جاری رہے۔ علمی میدان میں ہم طویل پسماندگی کا شکار ہیں لہذا ہمارے لئے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ اس برق رفتاری کا جاری رہنا ہے۔ ہمیں برسوں اسی رفتار سے آگے بڑھنا ہے۔ ایک لمحے کا توقف بھی ہمارے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ علمی لحاظ سے دنیا کے مقابلے میں ہماری پسماندگی بہت زیادہ ہے۔ ہم اس سے واقف ہیں، اس بات کو سمجھتے اور اس سے کبیدہ خاطر بھی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری قوم میانہ درجے سے کم صلاحیت کی مالک نہیں ہے کہ ہم تسلی کر لیں کہ ہماری قسمت ہی یہی ہے۔ ہماری قوم عالمی سطح پر میانہ درجے سے بلند صلاحیتوں کی مالک ہے۔ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے۔ یہ سب کہتے ہیں اور مانتے ہیں۔ اس کے اثرات بھی بالکل واضح ہیں۔ ہماری تاریخ اور ہماری علمی سرگذشت بھی اس کی تصدیق کرتی ہے۔ دنیا کے اتنے حساس علاقے میں واقع یہ قوم مسلط کردہ غربت اور اس علمی پسماندگی کا شکار رہے، یہ چیز قابل قبول نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اس پسماندگی کی جانب متوجہ کر دیا۔ ہمیں واقف کرا دیا کہ ہم اس ناداری کے شکار ہیں۔ ہم اس بات پر بھی اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمارے اندر یہ جوش و جذبہ، یہ شوق و چاہت اور یہ امید و ہمت رکھ دی ہے کہ ہم اس پسماندگی سے باہر نکل سکتے ہیں۔ بنابریں جو یہ برق رفتاری ہمارے اندر ہے وہ آئندہ کئی برسوں تک برقرار رہے۔
میں نے عرض کیا کہ ہمیں ملک کو علمی وقار کی منزل تک پہنچانا ہے۔ ہمارا ہدف یہ ہے کہ ملک دنیا کے لئے علمی مرکز بن جائے۔ یعنی جس طرح آج آپ علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی تک رسائی کے لئے ان سائنسدانوں، دانشوروں اور کتب سے رجوع کرنے پر ناچار ہیں جن کا تعلق دیگر ممالک سے ہے، اسی طرح ہم خود کو اس مقام پر پہنچائیں کہ علم و دانش کا طالب ہمارے پاس آئے۔ ہماری کتابوں سے رجوع کرے۔ ہماری زبان سیکھے تاکہ ہمارے علم و دانش سے استفادہ کر سکے۔ ہمارا ہدف یہ ہونا چاہئے۔ اور یہ کوئی خوش فہمی اور خام خيالی نہیں بلکہ عملی چیز ہے۔ کیونکہ سائنس و ٹکنالوجی کے جس مقام پر آج ہم فائز ہیں وہ ماضی میں ہمارے لئے خوش فہمی اور نا ممکنات کا درجہ رکھتا تھا۔ انقلاب سے قبل اور انقلاب کے لئے عوامی جوش و جذبے کے سامنے آنے اور بڑی بڑی رکاوٹوں سے مقابلے کی جرئت پیدا ہونے سے قبل اگر یہ کہا جاتا کہ ہمارا ملک سائنس و ٹکنالوجی کے مختلف شبوں میں اس نقطہ کمال پر پہنچ جائے گا تو کوئی یقین نہ کرتا۔ جن بیماریوں کا علاج آج مختلف اضلاع کے تیسرے اور چوتھے درجے کے اسپتالوں میں بآسانی ہو جاتا ہے اس وقت لوگوں کو ان کے علاج کے لئے بیرون ملک جانا پڑتا تھا، اچھی خاصی رقم خرچ ہو جاتی تھی اور احسان الگ سے اٹھانا پڑتا تھا۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے، انقلاب سے پہلے کی بات ہے۔ آج مختلف علوم، سائنسز اور ٹکنالوجیوں میں جس مقام پر ہم ہیں ایک زمانے میں یہی مقام بہت سے افراد کی نظر میں نا قابل رسائی تھی۔ لیکن ہماری قوم اس مقام پر پہنچ گئی۔ ایٹمی مسئلہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح دیگر سائنسی شعبوں سے متعلق مسائل اسی طرح ہیں۔ بنابریں یہ خیال کہ ہمارا ملک اور ہماری قوم ایک دن دنیا میں علمی مرکز بن جائے، بے بنیاد نہیں ہے۔ البتہ اس کی کچھ شرطیں اور اس کے لئے کچھ مقدمات ضرور ہیں جنہیں فراہم کرنا ہوگا۔ ان شرطوں میں ایک تو خود شناسی اور یہ جذبہ ہے کہ ہمیں آگے آنا چاہئے اور ہم اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور ضروری شرط ملک کے لئے جامع علمی منصوبہ بندی ہے تاکہ ملک علوم اور سائنسز کے حصول کے مرحلے میں کسی دقت سے دوچار نہ ہو۔ خوش قسمتی سے یہ مرحلہ طے پا گيا ہے۔ ہمارے محققین، ہمارے احباب اور برجستہ شخصیات نے جو ملک کی یونیورسٹیوں اور خود اس یونیورسٹی سے باہر آئے ہیں، انہوں نے ملک کے لئے جامع علمی منصوبہ بندی کی ہے اور اس کا نقشہ کھینچا ہے۔ یہ کام اپنے اختتامی مراحل میں ہے اور یہ ملک کی علمی ترقی کی راہ میں بہت اہم اور بلند قدم ہے۔ البتہ یہ نقشہ اور منصوبہ تیار ہو جانے کے بعد دوسرے بہت سے کام ہمارے سامنے ہوں گے۔ مثال کے طور پر اس نقشے کے لئے ایک انجینیرنگ نظام تشکیل دینا ہوگا، اس جامع منصوبے کو متعدد سائنسی پروجکٹوں میں تقسیم کرنا ہوگا، ان پروجکٹوں کو ایماندار افراد اور مراکز یعنی انہی یونیورسٹیوں، اساتذہ اور ان کے تحقیقاتی مراکز کے سپرد کرنا ہوگا۔ اس علمی پیشرفت کے عمل، منصبوبے پر صحیح انداز سے عملدرآمد اور اساتذہ، اسٹوڈنٹس اور محققین کی خدمات حاصل کئے جانے کی نگرانی کے لئے بھی ایک سسٹم تیار کرنا پڑے گا۔ کچھ طلبا نے دریافت بھی کیا کہ علمی اور سائنسی ترقی کے سلسلے میں ہمارا فریضہ کیا ہے؟ تو ان نکات کو جامع علمی منصبوبے کے انجینیرنگ نظام میں ضرور ملحوظ رکھا جائے۔ ہر اسٹوڈنٹ اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہر تحقیقاتی مرکز اور ہر تعلیمی ادارہ کردار ادا کر سکتا ہے اور ہر استاد اس میں تعاون کر سکتا ہے۔ بنابریں یہ کئی برسوں پر محیط کام ہے۔ اسے پورے جوش و جذبے، پوری رفتار، بھرپور توجہ اور امید کے ساتھ انجام دینا ہوگا اور انشاء اللہ ہمیں اس کے نتائج بھی حاصل ہوں گے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب آپ دیکھیں گے کہ ایران کی یونیورسٹیاں اور ایرانی سائنسداں اور دانشور علمی مرکز اور محور میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ آپ نوجوانوں کی آنکھوں کے سامنے یہ منظر ضرور آئے گا، اس میں مجھے کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے۔
تو یہ رہی پہلے سلسلے کی بات اور یونیورسٹیوں، طلبا اور طالب علمی سے وابستہ توقعات۔ البتہ اس پورے عمل میں اساتذہ کا کردار فیصلہ کن، اہم اور حساس ہے۔
دوسرا سلسلہ، اہداف کے تعین اور اقدار کی نشاندہی کا ہے۔ اسے طلبا کی تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ تحریک جاری رہنی چاہئے، اسے متوقف نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں طلبا کی یہ تحریک درج ہے اور اس سے لوگ بخوبی واقف ہیں۔ یہ تحریک ہمیشہ، سامراج، توسیع پسندی، استبداد، گھٹن کے ماحول کے خلاف اور انصاف پسندی کی سمت میں آگے بڑھی ہے۔ طلبا کی تحریک کی روز اول سے ہی یہ خصوصیات رہی ہیں۔ اگر کوئی طلبا کی تحریک سے وابستگی کا دعوے دار ہے لیکن اس میں یہ خصوصیات نہیں ہیں تو وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں ہے۔ طلبا کی تحریک کبھی ان افراد سے ہاتھ نہیں ملا سکتی جو فلسطین میں قتل عام کر رہے ہیں، جو عراق میں جرائم پر جرائم انجام دے رہے ہیں، افغانستان میں بے گناہ عوام کو تہ تیغ کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں طلبا کی تحریک کی خصوصیات اس طرح کی ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسے دیگر ملکوں میں بھی اس کی یہی خصوصیات ہوں جو سامراج، تسلط پسندی اور مطلق العنانیت کے مخالف اور عدل و انصاف کے حامی ہیں۔ اس تحریک کا نقطہ آغاز یہی سولہ آذر (سات دسمبر) کا دن ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سولہ آذر سن تیرہ سو بتیس ہجری شمسی ( سات دسمبر انیس سو ترپن) کا سانحہ جس میں تین طالب علم خاک و خوں میں غلطاں ہو گئےاٹھائیس مرداد تیرہ سو بتیس ہجری شمسی (انیس اگست سن انیس سو ترپن) کے واقعے کے تقریبا چار مہینے بعد رونما ہوا۔ یعنی اٹھائیس مرداد کے کودتا اور عجیب و غریب گھٹن کا ماحول پیدا ہو جانے کے بعد اچانک تہران یونیورسٹی کے طلبا کے ہاتھوں فضا اور ماحول میں ایک دھماکہ خیز واقعہ رونما ہوتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ نکسن جو اس وقت امریکا کے نائب صدر تھے ایران آئے۔ امریکہ کی مخالفت کے اعلان کے طور پر اٹھائيس مرداد کے کودتا کے ذمہ دار نکسن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے طلبا نے یونیورسٹی کے اندر مظاہرے کئے جن پر بری طرح حملہ کیا گيا اور ان میں سے تین طالب علم قتل کر دئے گئے۔ لہذا سولہ آذر (سات دسمبر) کے دن کو ان اوصاف کے ساتھ پہچانا جانا چاہئے۔ یہ دن نکسن مخالف طلبا کا دن ہے، امریکہ مخالف طلبا کا دن ہے، تسلط پسندی کے مخالف طلبا کا دن ہے۔ اس کے بعد انیس سو ترسٹھ عیسوی تک جب ہمارے ملک میں علمائے کرام کی دینی، روحانی اور معنوی تحریک کا آغاز ہوا اس وقت تک طلبا کی تحریک کم و بیش سرگرم عمل رہی۔ مجھے یاد ہے، سن انسٹھ ساٹھ اکسٹھ میں طلبا کی تحریک چل رہی تھی تاہم اسے بڑی بے رحمی سے کچلا جاتا تھا اس کے گرد محاصرہ بہت تنگ تھا۔ انیس سو باسٹھ میں علمائے کرام کی تحریک شروع ہوئی جو انیس سو ترسٹھ میں اپنے اوج پر پہنچی۔ اس موقع پر بھی طلبا کی تحریک کے اثرات آپ کو صاف نظر آئیں گے۔ انیس سو ترسٹھ میں علما کی تحریک کے آغاز سے لیکر انیس سو اناسی میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے درمیانی برسوں میں آپ ہر جگہ طلبا کی تحریک کو علمائے کرام کی تحریک کے شانہ بشانہ پائيں گے۔ ملک کی یونیورسٹیاں، ملک کے طلبا، خاص سرگرمیوں کے مرکز و محور تھے۔ ہماری تحریک کے یہ توانا بازو اس پوری مدت میں سرگرم عمل رہے جس کا ہم نے خود نزدیک سے مشاہدہ کیا۔ تحریک اور جد و جہد میں جو افراد بھی شامل تھے اور جنہوں نے بذات خود ان مراحل کا تجربہ کیا ہے وہ طالب علموں کی صف سے تعلق رکھتے تھے۔ بنابریں یونیورسٹیاں علمائے کرام کی تحریک کا اٹوٹ حصہ تھیں۔ البتہ یونیورسٹیوں میں الحادی، دین مخالف اور مارکسسٹ عناصر بھی تھے لیکن با قاعدہ اور سب سے برتر اور سب پر غالب تحریک مسلمان طلبا کی تھی۔ لہذا جو بھی انقلابی گروپ تشکیل پاتے تھے اور جیلوں میں، جس کا تجربہ ہم خود بھی کر چکے ہیں، جو کام انجام دئے جاتے تھے ہر جگہ اور ہر کام میں طلبا موجود ہوتے تھے یعنی اکثر و بیشتر قیدی یا علما تھے یا پھر طلبا۔ یہی وجہ تھی کہ مشہد کے علما اور عوام نے انیس سو اناسی میں انقلاب کی کامیابی سے قبل جب دھرنا دینے کا پروگرام بنایا تو اس کے لئے امام رضا میڈیکل یونیورسٹی کا انتخاب کیا گیا۔ یعنی مرکزیت یونیورسٹی کو دی گئی۔ امام (خمینی رہ) کی وطن واپسی میں تاخیر ہو جانے کے باعث تہران کے علما اور انقلابیوں نے بھی تہران یونیورسٹی میں دھرنا دیا تھا۔ ان سب باتوں سے انقلاب کی کامیابی میں یونیورسٹی اور طلبا کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد طلبا کی تحریک، ان کی سرگرمیاں اور ان کی خدمات بڑا عجیب منظر پیش کرتی ہیں۔ ابتدائی مہینوں مین ہی پاسداران انقلاب فورس کی تشکیل اور اس میں طلبا کی سرگرم شمولیت کا مسئلہ اٹھا۔ کچھ ہی مہینے بعد تعمیراتی جہاد ادارے کا قیام بھی طلبا کے ذریعے عمل میں آیا۔ طلبا نے خود تعمیراتی جہاد ادارہ تشکیل دیا، اسے وسعت بخشی اور اس کے کام کو آگے بڑھایا۔ تعمیراتی جہاد ادارے کو اسلامی نظام کی برکتوں اور افتخارات میں شمار کیا جاتا ہے۔ کچھ مہینوں بعد طلبا نے ان مسلح عناصر کے مقابلے میں محاذ سنبھالا جنہوں نے یونیورسٹی کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا تھا جبکہ ان میں بیشتر افراد طالب علم نہیں تھے۔ یہی تہران یونیورسٹی دھماکہ خیز مواد، ہتھیاروں اور بندوقوں کا ڈپو بن گئی تھی۔ یہ سارا ساز و سامان انہوں نے انقلاب سے لڑنے کے لئے اکٹھا کیا تھا۔ تہران یونیورسٹی سے اس مصیبت کو دور کرنے کا سہرا بھی طلبا کے سر بندھا۔ اس موقع پر بھی طلبا کی عظیم تحریک نے اپنا کمال دکھایا۔ دو سال بعد جب مقدس دفاع شروع ہوا تو طلبا نے جنگ کے محاذوں پر خود کو پہنچایا۔ اس کی متعدد مثالیں ہیں۔ حاج احمد متوسلیان اور ان کے جیسے دیگر افراد تھے جو کردستان میں مغربی علاقوں کی سمت بڑھے۔ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں میرے خیال میں جنگ شروع ہونے کے پانچ چھے مہینے بعد میں نے کردستان کے علاقے کو نزدیک سے دیکھا۔ اسلحے کی کمی، دشمن کی تیز سرگرمیوں اور دائمی بمباری کا سامنا کرتے ہوئے ان مخلص جوانوں نے اس علاقے میں بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔ اس عظیم کمانڈر کے فوجی آپریشن فتح المبین سے قبل ان افراد نے محمد رسول اللہ آپریشن انجام دیا جو طلبا کے جہاد کا مظہر تھا۔ ایسا ہی ایک اور منظر ہویزہ کے واقعے میں نظر آیا۔ وہاں بھی اتفاق سے اسی دن جب یہ طلبا میدان جنگ کی سمت بڑھ رہے تھے میں نے شہید علم الھدی اور شہید قدوسی کو دیکھا۔ یعنی یہ حقیقت ہے کہ مقدس دفاع کے پورے آٹھ برسوں کے دوران ہمیں یونیورسٹیوں نے فعال جوان فراہم کئے۔ جب انیس سو بیاسی تراسی میں یونیورسٹیاں دوبارہ کھلیں تو جہادی دانشگاہی ادارے کی تشکیل عمل میں آئی جو ملک کا بہت حساس اور مایہ افتخار ادارہ ہے۔ اس سے قبل امریکہ کے جاسوسی کے مرکز (تہران میں امریکی سفارت خانے) پر قبضہ بھی طلبا نے ہی کیا۔ تو یہ ایک چھوٹی سی تاریخ ہے جو اب بھی جاری ہے۔ تمام مواقع پر، انقلاب کے دوران، مختلف حساس لمحوں اور واقعات میں با ایمان، با وفا، با انصاف اور در گذر کرنے والے طلبا نے حالات کو صحیح سمت میں موڑا۔ طلبا کی تحریک کے سلسلے میں میرا تاثر اور نظریہ یہی ہے۔ سامراج کی مخالفت، بد عنوانی کی مخالفت، افسر شاہی کی مخالفت، زور زبردستی کی مخالفت، انحرافی رجحانوں کی مخالفت، طلبا کی تحریک کی خصوصیات ہیں۔ انقلاب کے ان گزشتہ برسوں میں ان میدانوں میں طلبا کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ طلبا نے نئے نعرے ایجاد کئے۔ انہوں نے فکری ماحول تیار کیا۔ انہوں نے معاشرے میں سیاسی اور انقلابی فضا کو پروان چڑھایا۔ البتہ میرا یہ نظریہ طلبہ کے پورے طبقے کی بنا پر ہے۔ اب ممکن ہے کہ اس میں کچھ افراد اور لوگ کسی اور خیال کے ہوں۔ ہمیں اس بات پر تعجب نہیں ہے اور ہم اس کے منکر نہیں ہیں۔ یقینا صورت حال ایسی ہی ہے تاہم طلبا کی خصلت اور طالب علمی کے اوصاف یہی ہیں جو میں نے بیان کئے۔ طالب علم ہمیشہ ظلم کا مخالف ہوتا ہے، سامراج کا مخالف ہوتا ہے، اغیار کے تسلط و غلبے کا مخالف اور اعلی اہداف کا عاشق ہوتا ہے۔ وہ ان اہداف تک رسائی کے سلسلے میں پر امید ہوتا ہے۔ در حقیقت معاشرے میں طلبا کا طبقہ گاڑی کے انجن کا درجہ رکھتا ہے۔ طلبا کو اس نکتے پر توجہ رکھنا چاہئے، ملک کے مستقبل کے سلسلے میں ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔
چند جملے اسٹوڈنٹس یونینوں کے بارے میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ میری مراد طلبا کی سیاسی- سماجی یونینو‎ں سے ہے۔ علمی یونینوں کا مسئلہ الگ ہے۔ طلبا یونینیں بے شک فیصلہ کن کردار کی حامل ہیں۔ تاہم اس بات پر توجہ رکھنا ضروری ہے کہ اسٹوڈنٹس یونین وہ پارٹی نہیں ہے جسے آج دنیا میں سیاسی پارٹی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ اس سے مختلف ہے۔ اسٹوڈنٹس یونین اور پارٹی میں فرق ہے۔ دنیا میں جسے سیاسی پارٹی اور جماعت کہا جاتا ہے وہ ایسی جماعتیں ہیں جو اقتدار حاصل کرنے کے لئے معرض وجود میں آئی ہیں۔ انہیں پارٹی اور جماعت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ معاشرے میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے پارٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ یہ پارٹیوں کی خصوصیت اور پہچان ہے جبکہ طلبا یونین کی تشکیل اس ہدف کے لئے نہیں ہوتی ان کا نصب العین یہ نہیں ہوتا۔ طلبا یونینیں اعلی اہداف تک رسائی کے لئے وجود میں آتی ہیں جو سیاسی اقتدار اور حکومت سے بالاتر ہیں۔ سیاسی اقتدار ان کا موضوع بحث نہیں ہوتا۔ سیاسی پارٹیوں کا دل تو یہی چاہتا ہے کہ ان یونینوں کو اپنے اقتدار کا زینہ قرار دیں۔ ہمارے خیال میں یہ مناسب نہیں ہے اور طلبا کو بھی اس سلسلے میں ہوشیار رہنا چاہئے۔ سیاسی جماعتیں کچھ حاصل کرنے کے لئے اپنی طاقت میں اضافہ کرتی ہیں جبکہ طلبا یونینیں اپنی مخصوص سرگرمیوں کے ذریعے اپنی جان، اپنی صلاحیتوں اور اپنے جوش و جذبے کا استعمال کرکے کچھ عطا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ضرورت آن پڑے تو وہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتی ہیں جس کا مشاہدہ آپ کر چکے ہیں۔
طلبا یونینوں سے اسٹوڈنٹس کو اجتماعی کام کا موقع ملتا ہے اور میں اجتماعی کام کی اہمیت کا معترف ہوں اور اسے ہر طالب علم کی ضرورت سمجھتا ہوں۔ مختلف میدانوں میں مہارت حاصل کرنا مثلا سیاسی اور سماجی میدانوں کی مہارت (لازمی ہے)۔ ہمارے عزیز بھائی بہنوں کو اس کا بخوبی انداز ہوگا کہ طلبا کے ارد گرد گوناگوں سازشیں، فریب اور دھوکے موجود ہوتے ہیں۔ انہیں متعدد اقسام کے خطرے گھیرے رہتے ہیں۔ کم از کم ہمارے ملک میں تو یہی صورت حال ہے۔ ہمارے ملک میں سامراجی سازشوں کا ایک نشانہ طلبا ہیں۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ ہمارے ملک میں نوجوانوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح طلبا کی تعداد بھی بہت بڑی ہے اور طالب علم فیصلہ کن کردار کا مالک ہے۔ سیاسی شعبے میں بھی اور سماجی شعبے میں بھی۔ جن عناصر نے (ہمارے) ملک اور قوم کے خلاف سازشیں رچی ہیں ان کو لا محالہ ایرانی طلبہ پر تو محنت کرنی ہی پڑے گی اور شہوانی حربوں سے لیکر سیاسی فریب تک ہر کوشش وہ کریں گے تاکہ ان کی فرضی دینداری اور معنویت کی دوکان چلتی رہے۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔ (ان حالات میں ) طلبا یونینیں نجات بخش بن سکتی ہیں۔ وہ طلبا کو گرداب اور دلدل میں گرنے سے بچا سکتی ہیں۔ ان کی حفاظت کر سکتی ہیں۔ یہ طلبا یونینوں کا اہم کردار ہو سکتا ہے۔ یونینوں کے ذمہ داروں کو چاہئے جو مختلف ناموں سے کام کرتے ہیں خود کو طلبا کی مدد کے اس اہم مقصد کا پابند بنائيں۔ دوسرے یہ کہ طلبا یونینیں بھی محتاط رہیں کہ ہدف سے ان کی نظر چوک نہ جائے۔ طلبا یونینوں کے بنیادی اہداف وہی ہیں جو طلبا کی تحریک کی پیشانی پر نمایاں ہیں۔ سامراج کی مخالفت، ملک کی ترقی میں مدد، قومی اتحاد کو یقینی بنانے میں مدد، علم و دانش کے میدان میں پیشرفت میں مدد، سازشوں اور مخاصمتوں پر ملت ایران کے غلبے کے لئے قومی جد و جہد میں سرگرم شرکت۔ یہ ہیں بنیادی اہداف۔ انہی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ یونینوں کو چاہئے کہ وہ خود کو طلبا کے طبقے سے جدا نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ طلبا کی تقسیم ہو جائے۔ انہیں چاہئے کہ طلبا کے نزدیک رہیں۔
طلبا کے مسئلے کو جس پر گفتگو کچھ طولانی ہو گئی میں یہیں پر روکنا چاہوں گا۔
اب رہا اسلامی انقلاب کی یاد تازہ رکھنے کا مسئلہ تو یہ میری نظر میں بہت اہم ہے۔ اس سلسلے میں بہت تفصیلات میں جانے کا وقت نہیں ہے۔ یوں بھی مجھے سردی تھی لیکن میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ ہماری یہ ملاقات ملتوی ہو اس لئے میں اسی حالت میں چلا آیا۔ اس سے بھی بہرحال گفتگو میں کچھ رکاوٹ پیدا ہوتی ہی ہے۔ متعدد نشیب و فراز پر استوار ہمارے اس انقلاب کی چھوٹی سی تاریخ سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے اس نکتے پر توجہ رکھنا ضروری ہے کہ ہمارا ملک آئینی انقلاب سے قبل برسہا برس سے سلطنتی استبداد کا شکار رہا ہے۔ آئینی انقلاب سے امید تھی کہ اس کے نتیجے میں قوم کو آزادی کی سانس لینے کا موقع مل جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ آغاز سے ہی آئینی انقلاب کی باگڈوراغیار، اس وقت کی تسلط پسند طاقت برطانیہ کے ہاتھ میں چلی گئی۔
آئینی انقلاب کے اوائل میں جو لاقانونیت کا ماحول پیدا ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسی تسلط پسند برطانوی حکومت نے آئینی انقلاب سے قبل کے خطرناک ڈکٹیٹروں مظفر الدین شاہ اور ناصر الدین شاہ سے بھی زیادہ بھیانک ڈکٹیٹر رضا خان کو اقتدار میں پہنچا دیا۔ رضا خان کی مطلق العنان حکومت ہمارے ملک کے لئے مظفر الدین شاہ اور ناصر الدین شاہ سے بھی زیادہ بری ثابت ہوئی۔ اس طرح ہم (آئینی انقلاب کے نتیجے میں) استبدادی دور سے نکل کر آزادی کی فضا میں نہیں پہنچے بلکہ دوسری ایسی استبدادی حکومت کا شکار بن گئے جو اغیار پر منحصر تھی۔ یعنی ہماری قوم آزادی کی سانس نہیں لے پائی۔ یہی وجہ تھی کہ جب ملک میں اسلامی انقلاب کی تحریک کا آغاز ہوا اور امام (خمینی رہ) نے اعلان فرمایا کہ اس تحریک کا مقصد استبدادی حکومت کا اور اغیار کی مداخلتوں اور اثر و رسوخ کا خاتمہ کرنا ہے تو بہت سے پرانے مجاہدین اور ان افراد کو جو جد و جہد کر چکے تھے، یقین نہیں آیا۔ ان کے لئے اس بات کا تصور کرنا ممکن نہیں تھا کہ کوئی شخص اس ملک سے سلطنتی نظام کا خاتمہ کر دے گا۔ مجھے یاد ہے کہ تحریک کے آخری برسوں میں امام (خمینی رہ ) نے حکومت کے سلسلے میں بنیادی امور پر گفتگو کی جو منظر عام پر آ گئی تھی۔ آپ نے اعلان کر دیا تھا کہ شاہ خائن ہے، اسے ملک سے چلا جانا چاہئے۔ بعض مجاہد افراد بھی جنہوں نے تحریک انقلاب میں بڑا کام بھی کیا، کہتے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ امام (خمینی رہ) سلطنت کا مسئلہ کیوں اٹھا رہے ہیں؟ سلطنتی نظام کا کیسے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟ انہیں یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس ملک میں استبدادی حکومت اور گھٹن کا ماحول، اغیار کی مداخلت اور اثر و رسوخ اور سلطنتی نظام کے لئے اغیار کی حمایت سے وابستہ تھا۔ لیکن ایسا ہوا۔ عظیم اسلامی تحریک، عوام کی بلند ہمتی اور امام (خمینی رہ) کی بے مثال قیادت نے جو واقعی ایک بے نظیر شخصیت کے مالک تھے، اپنا کارنامہ انجام دے دیا۔ میں بارہا حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا یہ فقرہ نقل کر چکا ہوں کہ لا یحمل ھذا العالم الا اھل البصر و الصبر بصیرت سے مراد ہے آگاہی اور صبر کے معنی ہیں ضبط و تحمل، پائيداری و استقامت۔ ملت ایران میں یہ دو صفتیں پروان چڑھیں اور اس نے اپنا کام کر دکھایا اور انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ در حقیقت اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل ملت ایران کی دیرینہ خواہش کی تکمیل تھی۔ یہ نظام دائمی ہے، اس میں بقاء کی صلاحیت اور قابلیت ہے۔ اس میں نشو نما اور بالندگی کی صلاحیت ہے۔ اس کی جڑیں گہرائيوں میں اترتی چلی جا رہی ہیں۔ اس نظام سے عناد اور دشمنی آسان نہیں ہے۔
واقعی یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں سلطنتی نظام کا خامتہ کسی بھی تحریک اور جد و جہد کی توانائی سے باہر تھا۔ عزیز نوجوانو! آپ اسے یاد رکھیں اور اس پر یقین رکھیں کہ اسلامی اور دینی تحریک کے علاوہ جو رونما ہوئی، کوئی بھی تحریک ، کوئی بھی جماعت اور کوئی بھی گروہ امریکی طاقت پر منحصر اس سلطنتی نظام کو سرنگوں نہیں کر سکتا تھا۔ اس سے پہلے تمام تحریکیں کچل دی گئی تھیں۔ وہ بائیں بازو کی تحریکیں ہوں یا مسلح گروہوں کی بغاوت، حکومت نے سب کا قلع قمع کر دیا۔ اس باطل حکومت کی سرنگونی عظیم قومی طوفان سے ہی ممکن تھی۔ عوام کی متحد جد و جہد سے ہی ممکن تھی اور یہ چیز دینی جذبے اور بزرگوار امام (خمینی رہ) کے محوری کردار اور علما کی قیادت کے بغیر امکان پذیر نہیں تھی۔ اس (سلطنتی) نظام کی سرنگونی کے بعد اسلامی جمہوری نظام کے علاوہ اگر کوئی بھی نظام تشکیل پاتا تو دشمن کے شدید دباؤ اور گوناگوں مداخلتوں کے سامنے ٹک نہ پاتا۔
ہم نے خود مشاہدہ کیا کہ دنیا میں کتنے انقلاب آئے۔ کچھ بائیں بازو سے وابستہ تھے، کچھ اعتدال پسند افراد پر استوار تھے۔ ان کا وجود صرف چند سال ہی برقرار رہا اس کے بعد امریکہ کی سیاسی مداخلتوں، فوجی دخل اندازیوں اور معاشی ناکہ بندیوں نے سب کو نابود کر دیا۔ آج آپ مشرقی یورپ پر ایک نظر ڈالئے، یہ علاقہ بائيں بازو کی سوشیلسٹ حکومتوں کا مرکز تھا لیکن آج عالم یہ ہے کہ مشرقی یورپ کے انہی ممالک میں امریکہ کے فوجی اور میزائلی مراکز قائم کئے جا رہے ہیں اور امریکی وہاں اپنے پیر جمانے لگے ہیں۔ بنابریں اسلامی جمہوری نظام کے علاوہ کوئی بھی نظام امریکہ کے دباؤ کے سامنے ٹھہر نہیں سکا ہے۔
اس نکتے کی جانب بھی اشارہ کرتا چلوں کہ اسلامی جمہوری نظام سے امریکہ اور صیہونی نیٹ ورک کی قیادت والے سامراجی نظام کے عناد کی بنیادی وجہ اسلامی جمہوری نظام کے کچھ انکار اور نفی اور کچھ اثبات ہیں۔
استحصال کی نفی، تسلط پسندی کی نفی، دنیا کی سیاسی طاقتوں کے ہاتھوں قوموں کی توہین اور تحقیر کی نفی، سیاسی انحصار کی نفی، ملک میں تسلط پسند طاقتوں کی مداخلتوں کی نفی، اخلاقی دیوالئے پن کی نفی، لا ابالی پن کی نفی، اسلامی جمہوری نظام ان چیزوں کی پوری قطعیت سے نفی کرتا ہے۔ یہ نظام کچھ چیزوں کے سلسلے میں اثبات اور حمایت کی پالیسی پر گامزن ہے۔ قومی تشخص کی حمایت، ایرانی تشخص کی حمایت، اسلامی اقدار کی حمایت، دنیا کی مظلوموں کے دفاع کی حمایت، علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں دوسروں کی تقلید پر اکتفا کرنے کے بجائے نئی بلندیوں تک رسائی کی کوشش ان چیزوں میں ہے جس کی اسلامی جمہوریہ ایران حمایت کرتا ہے۔ یہ انکار و حمایت اور نفی و اثبات ہی امریکہ اور عالمی صیہونی نیٹ ورک کے بغض و عناد کی بنیادی وجہ ہے۔ اگر آج ہم امریکہ کا دباؤ قبول کر لیں تو دشمنی کم ہونے لگے گی۔ اگر ہم مختلف طریقوں سے اپنی قوم کی تحقیر اور توہین کی اجازت دے دیں اور اسلامی اقدار اور قومی تشخص کو خیرباد کہہ دیں تو بغض و عناد اور دشمنی میں یقینا کمی آ جائے گی ۔ یہ جو بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنا رویہ تبدیل کرے اس کا مقصد یہی ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ امریکہ جیسے سامراجی ممالک کے سیاسی عہدہ داران جب ایران کے بارے میں بیان دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اسلامی جمہوری نظام کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنا رویہ تبدیل کرے۔ روئے کی تبدیلی سے ان کی یہی مراد ہے۔ یعنی یہ کہ ہم اس نفی و اثبات اور حمایت و انکار سے دستبردار ہو جائیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں۔ اسی نفی و اثبات اور حمایت و انکار کے سلسلے میں استقامت کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران، گوناگوں وسائل سے آراستہ محاذوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران مشرق و مغرب اور یورپ و نیٹو اور بعض عرب ممالک نے مل کر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف محاذ کھولا تھا لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے آخر کار ان سب کو پسپا کر دیا جبکہ خود ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ سیاسی شعبے میں اور جنگ کے بعد کے برسوں میں بھی وہی صورت حال جاری رہی اور اسلامی جمہوریہ ایران نے اس وسیع محاذ کا کامیابی سے سامنا کیا ہے۔ ایران نے صرف سامنا ہی نہیں کیا ہے بلکہ پیش قدمی بھی کی ہے اور دشمن کو ہزیمت کا مزہ بھی چکھایا ہے۔
آپ مشرق وسطی میں امریکہ کی موجودہ حالت دیکھئے اور اس کا موازنہ پندرہ سال قبل کی اس کی پوزیشن سے کیجئے۔ پھر آپ اندازہ کیجئے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کا کیا انجام ہوا ہے۔ وہ روز بروز زیادہ منفور، رسوا اور ناکام ہوتا جا رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین میں کسی اور انداز سے، مسئلہ لبنان میں کسی اور صورت میں، عراق اور افغانستان کے معاملے میں کسی اور شکل میں، امریکہ مشرق وسطی سے متعلق اپنی تمام سازشوں میں جن کا بنیادی ہدف اور نشانہ اسلامی جمہوریہ ایران تھا ناکام رہا ہے۔ اسے مات ہوئی اور اسلامی جمہوریہ ایران کا یہ عالم ہے کہ کامیابی کے ساتھ مقابلہ کئے جا رہا ہے۔ حالانکہ سازشیں بہت زیادہ تھیں۔ انقلاب کے پہلے عشرے میں الگ سازشیں تھیں، دوسرے اور تیسرے عشروں میں ان کی شکل کچھ اور تھی جن کی تفصیلات میں جانے کا وقت نہیں ہے۔ ایک اہم ترین نکتہ جس پر تمام طلبا، یونیورسٹی سے وابستہ افراد پوری قوم اور خاص طور پر دانشوروں اور اہم شخصیات کو توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ اسلامی نظام کے پاس اتنی توانائی اور طاقت ہے کہ جس طرح اب تک تیس سال سے استقامت کا مظاہرہ کرتا آ رہا ہے اسی طرح استقامت کرتا رہے۔ دشمنوں کی پوری کوشش تھی کہ اسلامی جمہوری نظام کو ختم کر دیں لیکن نہ صرف یہ کہ اسلامی نظام ختم نہیں ہوا بلکہ وہ روز بروز مختلف شعبوں میں زیادہ طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔
یہ دوام کی طاقت، یہ قدرت و توانائی اور یہ بقا کی صلاحیت محفوظ رکھی جانی چاہئے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارا جو جی چاہے کرتے رہیں لا پروائی برتیں، حساس اور اہم فرائض سے بے اعتنا رہیں پھر بھی استقامت و پائیداری کی یہ صلاحیت موجود رہے گی۔ جی نہیں، ہم سب کا فریضہ ہے کہ اسلامی نظام کی حفاظت کے سلسلے میں اپنے فریضے کی حقیقی معنی میں ادائگی کریں تاکہ قوم کو اس کے حقوق ملیں اور اس کے مفادات کو تحفظ حاصل ہو، تاکہ یہ قوم ترقی کی بلندیوں پر پہنچے اور اس کی آرزوئیں پوری ہوں۔ جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کا ایک تو قانونی اور آئینی ڈھانچہ ہے جس کے تحت، آئین، پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی، اسلامی حکومت، انتخابات وغیرہ آتے ہیں جن کا آپ مشاہدہ کرتے ہیں ان چیزوں کی حفاظت بھی لازمی ہے تاہم اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ اس قانونی اور آئینی پیرائے کے اندر ایک بنیادی حقیقت موجود رہتی ہے، اس کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ یہ آئینی پیرایا جسم کا درجہ رکھتا ہے لیکن وہ بنیادی حقیقت روح کے مقام کی حامل ہوتی ہے۔ وہ لفظ کے لئے معنی کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ معنی بدل جائے تو اگر ظاہری شکل اور پیرایا باقی بھی رہے تو عبث ہوکر رہ جائے گا، اسے دوام نہیں مل سکتا۔ جیسے کہ کوئی دانت اندر سے سڑ جائے اور صرف خول محفوظ رہے۔ یہ جیسے ہی کسی سخت چیز سے ٹکرائے گا ٹکڑے ہوکر بکھر جائے گا۔ تو یہ بنیادی حقیقت اور وہ اندرونی عنصر بہت اہم ہے، وہ روح کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ بنیادی حقیقت اور اندرونی عنصر کیا ہے؟ وہ اسلامی جمہوری نظام کے بنیادی اہداف ہیں۔ انصاف، انسانی وقار، اقدار کی حفاظت، اخوت و مساوات کے لئے سعی، اخلاقیات، دشمن کے دباؤ کے سامنے استقامت یہ سب اسلامی جمہوری نظام کے داخلی اور بنیادی عناصر و حقائق ہیں۔ اگر ہم اسلامی اخلاقیات کو چھوڑ دیں، اگر ہم عدل و انصاف کے تقاضے فراموش کر دیں، مساوات کے نعرے سے دستبردار ہو جائیں، اگر حکام کی عوام دوستی اور عوامی خدمت سے بے اعتنا ہو جائیں، اگر دیگر ممالک کی مانند ہمارے بھی حکام اپنے عہدوں کو دولت و طاقت کے وسیلے اور حربے کے طور پر دیکھنے لگیں، اگر عوام کی خدمت اور ان کے لئے قربانی کا جذبہ حکام کے ذہن اور کردار سے حذف ہو جائے، اگر سادہ زیستی، عوامی سطح کی زندگی گزارنے کی دلچسپی حکام کے اندر باقی نہ رہ جائے، ختم ہو جائے، اگر دشمن کی جارحیتوں کے مقابلے میں استقامت کا جذبہ برقرار نہ رہے، اگر بے جا لحاظ ذاتی کمزوریاں اور شخصیت کی کمیاں حکام کے سیاسی روابط اور عالمی تعلقات پر اثر انداز ہونے لگیں، اگر اسلامی جمہوری نظام کے بنیادی شعبے اور اہم عناصر ہاتھ سے نکل جائیں تو اسلامی جمہوری نظام کی یہ ظاہری شکل ہمارے کسی کام کی نہیں رہے گی۔ پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی اور ہمارے اسلامی جمہوری نظام میں شامل اسلامی لفظ سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس روح اور بنیادی عنصر کو ہم ہاتھ سے نہ جانے دیں، ذہن سے فراموش نہ ہونے دیں۔ اس کے ظاہری پیرائے کی حفاظت سے ہی ہمیں مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے۔ بنیادی حقیقت اور عنصر کی جانب توجہ اور حقیقی روش کی حفاظت ضروری ہے۔ میں یہ بھی بتا دوں کہ روش کی تبدیلی اور حقیقی تشخص کی تبدیلی بہت رفتہ رفتہ رونما ہوتی ہے۔ بعض افراد اسے محسوس بھی نہیں کر پاتے بلکہ شائد بہت سے افراد کی توجہ اس کی جانب مبذول نہیں ہو پاتی اور جب لوگ متوجہ ہوتے ہیں تب تک سب کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کھلی فکر اور روشن خیالات کے مالک طبقے یعنی یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد اور طلبا کی چشم تیز بیں کو ہمیشہ اس پر نظر رکھنی چاہئے۔
اسلامی نظام ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے اسلامی نظام ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف ظاہری طور پر اسلامی نظام ہو اور آئين میں صدر مملکت کے لئے کچھ شرطیں معین کر دی گئی ہوں اور قائد، عدلیہ کے سربراہ، نگراں کونسل اور دیگر حکام کے لئے کچھ شرائط بیان کر دی گئی ہوں۔ یہ ضروری تو ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ اہداف کے سلسلے میں انحراف، صحیح سمت سے انحراف اور امنگوں کے سلسلے میں کج فہمی سے آپ بہت ہوشیار رہئے۔ جنگ کے بعد اور حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد ہمیں اس مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں ایک سب سے بڑی مشکل یہی تھی۔ اسلامی نظام کی روح اور حقیقی معنی کو ختم کر دینے کی بڑی کوششیں کی گئی ہیں۔ مختلف شکلوں میں، وہ سیاسی میدان ہو کہ اخلاقیات کا شعبہ یا سماجی مسائل ہوں جو باتیں کی گئیں ان میں ہم نے با قاعدہ محسوس کیا کہ اخبارات و جرائد نے اعلانیہ طور پر دین و سیاست میں جدائی کی بات کی۔ دین عین سیاست ہے کے نعرے پر جو اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد ہے سوالیہ نشان لگائے گئے۔ بلکہ ایک بار تو اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر بعض اخبارات نے سفاک اور ظالم و جابر پہلوی حکومت کا دفاع کرنا شروع کر دیا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایسی صورت حال پیدا نہ ہو اور انحرافات کا مقابلہ کیا جا سکے تو ہمیں چاہئے کہ فکری، سیاسی اور عقائد کے سلسلے میں حدود کو نمایاں رکھیں۔ اسلامی تشخص کے معیار واضح رہیں۔ انصاف پسندی، حکام کے طرز زندگی، محنت اور پر خلوص کوشش، بلا وقفہ علمی ترقی اور حصول علم، اغیار کی تسلط پسندی اور حرص و طمع کے مقابلے میں استقامت اور قومی حقوق کے دفاع سے متعلق اصولی معیاروں اور حدود کو نمایاں رکھنا چاہئے۔ مثال کے طور پر ایٹمی مسئلے کو لے لیجئے۔ یہ ملک کی درجنوں اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ یہی ایک مسئلہ نہیں ہے لیکن جب دشمن نے اس نقطے پر اپنی پوری توجہ مرکوز کر دی تو قوم نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اس مسئلے میں جس پر دشمن کی توجہ مرکوز ہے اگر قوم پسپائی اختیار کر لے، اگر ہمارے حکام عقب نشینی کر لیں اور اپنے اس حتمی، مسلمہ اور واضح حق سے دستبردار ہو جائيں تو دشمنوں کے لئے ہمارے قومی حقوق پر دست درازی کا راستہ کھل جائے گا۔
رئیسانہ طرز زندگی سے اجتناب اور اسے اقدار کے منافی قرار دینا ہمارے انقلاب کا خاصہ تھا، بعض افراد نے بتدریج اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ اس کا ہمارے معاشی امور اور نفسیاتی معاملات پر اثر پڑتا ہے۔ رئيسانہ طرز زندگی اور اس کی جانب رجحان انقلاب میں اقدار کے منافی شی تھی۔ یعنی مختلف سطح پر ایسے افراد تھے جو اس چیز سے سخت پرہیز کرتے تھے کہ انہیں رئیس اور تونگر کہا جائے یا رئیسوں کی کوئی خصلت ان سے منسوب کی جائے۔ اس سلسلے میں ملک کے حکام کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے اور انہیں اس کا پابند رہنا چاہئے۔ رفتہ رفتہ اس کی جانب توجہ کم ہوتی جا رہی تھی لیکن خوش قسمتی سے امیرانہ اور رئیسانہ طرز زندگی کو اقدار کے منافی قرار دینے کی ذہنیت ایک بار پھر مضبوط ہوئی ہے یعنی حکومتی افراد اعلی رتبہ عہدہ دار سادہ زیستی کے عادی ہو گئے ہیں، عوامی سطح کی زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ یہ بہت اچھا موقع ہے، یہ بہت بڑی نعمت ہے اور یہ بہت اہم معیار ہے۔
جہاد و شہادت کی ارزش کا مسئلہ بھی ہمارا اہم اصولی معیار ہے۔ جہاد کی قدر و منزلت، شہادت کا بلند مرتبہ ان چیزوں میں ہے جن پر بعض عناصر نے سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی۔ جہاد پر سوالیہ نشان لگائے، شہادت پر سوال اٹھائے۔ یہ تو ہمارے معیارات میں شامل ہے اسے نمایاں رکھنا چاہئے۔ شہدا کا احترام اور جہاد و مجاہدین کا احترام اسلامی جمہوریہ کے پرچم میں بھی نمایاں رہنا چاہئے۔ اسلامی جمہوری نظام تو شہادت و جہاد سے پہچانا جاتا ہے۔
عوامی طاقت پر بھروسہ، عوامی شراکت پر اعتماد۔ بعض افراد عوام کا نام تو لیتے ہیں لیکن در حقیقت عوامی شراکت سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد عوام پر بھروسہ کرنا اور ان کی شراکت پر یقین رکھنا ہے۔
دشمن کے رعب و دبدبے کے مقابلے میں شجاعت کا مظاہرہ بھی ہمارے معیاروں میں شامل ہے۔ دشمن کے سامنے اگر ملک کے حکام مرعوب اور خوف زدہ ہو گئے تو قوم پر بڑی بھیانک بلائیں نازل ہوں گی۔ جو قومیں دشمن کے ہاتھوں مغلوب و رسوا ہوئیں وہ بنیادی طور پر حکام اور قوم کے پیشواؤں میں شجاعت اور خود اعتمادی کے فقدان کی وجہ سے اس انجام کو پہنچیں۔ بسا اوقات عوامی صفوں میں مومن، ایثار پیشہ، فعال اور جانبازی کے لئے ہمیشہ تیار افراد موجود ہوتے ہیں لیکن حکام اور عہدہ داروں میں ہی جب آمادگی نہ ہو تو افرادی قوت ضائع ہو جاتی ہے اور صلاحیتوں پر زنگ لگ جاتا ہے۔ شاہ سلطان حسین کے دور حکومت میں جب شہر اصفہان کو لوٹا اور عوام کا قتل عام کیا گیا اور عظیم صفوی حکومت نابود ہو گئی تو اس وقت بھی بہت سے غیور افراد تھے جو جان کی بازی لگا دینے کے لئے آمادہ تھے لیکن خود شاہ سلطان حسین کمزور تھے۔ اگر اسلامی جمہوری نظام شاہ سلطان حسین جیسے افراد کے ہاتھوں میں پہنچ جائے، ایسے حکام اور عہدہ داران کے رحم و کرم پر اس کے وجود کا انحصار ہو جائے جن میں جرئت و ہمت نہ ہو، جو اپنے آپ میں اور عوام میں توانائی محسوس نہ کرتے ہوں تو اس دن اسلامی جمہوری نظام کا بھی کام تمام ہو جائے گا۔
مسلم اقوام سے قربت اسلامی جمہوری نظام کی بنیادی اسٹریٹیجی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی تشہیراتی مہم میں ملت ایران سے دیگر مسلم اقوام کو دور کرنے کی کیوں کوشش کی جاتی ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ نسلی تعصب اور شیعہ سنی کا مسئلہ کیوں اٹھایا جاتا ہے؟ اس لئے کہ انہیں بخوبی علم ہے کہ یہ اقوام اسلامی جمہوری نظام کی اسٹرٹیجی میں بنیادی مقام کی حامل ہیں۔ کسی بھی قوم کی اسٹریٹیجی اس کی تکیہ گاہ ہوتی ہے۔ وہ (دشمن) نہیں چاہتے کہ ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کو مختلف ممالک میں آباد افراد کی حمایت حاصل ہو۔ ویسے یہ چیز اپنی جگہ پر بہت عجیب ہے۔ آپ کہیں نہیں پائيں گے کہ کسی ملک میں ایک دوسرے ملک کے سربراہ کے احترام میں سیاستداں ہی نہیں عوام سامنے آ جائیں۔ اس کی تصاویر ہاتھوں میں اٹھائیں، اس کے نام کے نعرے لگائيں۔ یہ طرہ امتیاز صرف اسلامی جمہوریہ ایران کا ہے۔ آپ جس مسلم ملک میں بھی تشریف لے جائیے، جہاں بھی اسلامی جمہوریہ ایران سے لوگ واقف ہیں ایرانی عوام اور اسلامی جمہوری نظام کے سلسے میں ان کے اندر یہی جذبات نظر آئیں گے۔ دشمن کو یہی چیز گراں گزرتی ہے۔ دشمن اس لگاؤ کو برداشت نہیں کر پا رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو چاہئے کہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پر پوری توجہ دے کیونکہ یہ بھی ہمارے بنیادی معیاروں میں سے ایک ہے۔
اب آپ دیکھئے کہ بعض عناصر، جن کے بارے میں حسن ظن سے کام لیا جائے انہیں کم سے کم تنگ نظر قرار دیا جائے گا اور حسن ظن نہ رکھا جائے تو انہیں خائن اور خود غرض کہا جائے گا، یہ عناصر لبنانی عوام، عراقی قوم، افغانستان کے باشندوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے رابطے پر آشکارہ تنقیدیں کرتے ہیں۔ آپ نے بعض جرائد اور اخبارات میں یہ چیز پڑھی ہوگی۔ یہ تو اسلامی جمہوری نظام کے ایک بنیادی اصول کی صریحی مخالفت ہے۔ اسلامی جمہوری نظام تمام مسلم اقوام کے مفادات کو اپنے مفادات کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور ان سے خود کو وابستہ تصور کرتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے، مظلوموں کی حمایت کرتا ہے، یہ ملت فلسطین کا حامی و مددگار ہے، یہ ہمارے اصولی معیار ہیں ان کو نمایاں کیا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں طلبا اور یونیورسٹی سے وابستہ افراد اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ معیاروں کا تحفظ، انہیں نمایاں رکھنا، اسلامی جمہوری نظام کی شناخت کو واضح کرنا، اس سلسلے میں آپ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ البتہ خوش قسمتی سے ہماری قوم ایک بیدار قوم ہے۔
میں ترقی اور مساوات کے موضوع پر بھی گفتگو کرنا چاہتا تھا چونکہ اسلامی نظام کا چوتھا عشرہ ترقی و مساوات سے موسوم کیا گيا ہے لیکن دامن وقت تنگ ہے اور میں اس سے زیادہ آپ کو زحمت نہیں دینا چاہتا۔ صرف چند جملے عرض کروں گا اور تفصیلات انشاء اللہ طلبا سے کسی اور ملاقات کے موقع پر بیان کروں گا۔
میں بس یہ عرض کروں گا کہ عزیزو! ان تین عشروں میں جو کچھ انجام پایا ہے اور انقلاب کے پہلے سال اور پہلے عشرے کے دوران بغاوت، کودتا اور دیگر گوناگوں سازشوں سے لیکر آٹھ سالہ جنگ تک اور پھر جنگ کے بعد دوسری شکلوں میں آج تک جاری سازشوں کے مقابلے میں ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام نے ثابت کر دیا کہ وہ بقا اور دوام کی صلاحیت کا حامل ہے۔ یہ نظام پوری توانائی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور آئندہ بھی دنیا کے حوادث اس تناور درخت کو اس کی جگہ سے ہلا نہیں سکیں گے۔ جب یہ درخت پودا تھا تب تو وہ اسے اکھاڑ نہیں سکے تو آج تو وہ پودا تناور درخت بن چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کو متزلزل نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں ہمیں خود محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ اندر سے خرابی نہ پیدا ہونے پائے۔ اگر ہماری معنوی طاقت برقرار ہے اور ہم اسی راستے پر گامزن ہے جس کی نشاندہی اسلام اور اسلامی نظام نے کی ہے اور ہم اس سے منحرف نہیں ہوئے تو ہمیں کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے، کوئی ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔
سامراج کی پالیسیاں، امریکہ کی پالیسیاں، عالمی صیہونی نیٹ ورک کی سازشیں جن کی زد پر خاص وجوہات کی بنا پر اسلامی جمہوریہ ایران ہے، اس نظام کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔ ہم پوری رفتار سے اپنی پیش رفت جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں دشمن کی سازشوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے کیونکہ یہ سازشیں ایک خاص منزل تک جاری رہنے والی ہیں۔ اور وہ خاص منزل یہ ہے کہ ملک ہر لحاظ سے طاقتور اور توانا بن جائے اور یہ کام آپ طلبا اور نوجوان نسل کا ہے۔ جب آپ ملک کو سائنسی و علمی اقتدار اور معاشی قوت کی بلندی پر پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے تب سازشیں ماند پڑ جائیں گی، دشمن مایوس ہو جائیں گے۔ لیکن جب تک ملک اس منزل پر نہیں پہنچ جاتا ہمیں دشمن کی سازشوں کا منتظر اور ان کے مقابلے کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔ انشاء اللہ ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ زیادہ طاقتور بنیں گے اور دشمن کی کمزوریوں میں اضافہ ہوگا اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب قوم کو حتمی فتح حاصل ہوگی۔
پروردگارا! ہم نے جو کچھ کہا اور سنا اسے اپنے لئے موجب خوشنودی اور مقبول بارگاہ قرار دے۔ خدایا! اسلامی جمہوری نظام، اس کے جاں نثاروں، اس نظام کے اہداف کی راہ کے شہیدوں اور اس نظام کے بزرگوار قائد (امام خمینی) پر اپنی برکتیں نازل فرما۔ ان نوجوانوں پر ملک کی نوجوان نسل پر اور ان عزیز طلبا پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ ہمیں اسی راہ کے دائمی مسافروں مین قرار دے، ہمیں اسی راہ میں موت کی آغوش میں پہنچا۔ پروردگارا! ہمارے عزیز شہداء کے درجات کی بلندی میں روز بروز اضافہ فرما۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ