انتیس بہمن تیرہ سو چھپن ہجری شمسی مطابق اٹھارہ فروری انیس سو اٹھہتر عیسوی ایران کے اسلامی انقلاب کے تعلق سے یادگار تاریخ ہے۔ اس دن صوبہ مشرقی آذربائیجان کے شہر تبریز کے عوام نے چالیس روز قبل انیس دی کو قم میں شاہی کارندوں کے حملے میں شہید ہونے والے مظاہرین کا چہلم منایا۔ یہ چہلم در حقیقت انقلاب کی تحریک میں بہت موثر ثابت ہوا۔ اہل تبریز کے اس اقدام سے انیس دی کے واقعے کی یاد تازہ ہو گئی اور اس واقعے میں شہید ہونے والوں کا خون رائگاں جانے سے بچ گيا۔ اہل تبریز کے اس اقدام کا پورے ملک پر اثر پڑا اور تحریک انقلاب کو وسعت ملی۔ اسی یادگار اور تاریخ ساز واقعے کی مناسب سے قائد انقلاب اسلامی نے مشرقی آذربائیجان کے عوام سے اپنی ملاقات میں واقعے کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ملاقات حسب سابق تہران میں انجام پائی۔  تفصیلی خطاب پیش نظر ہے؛

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

عزیز بھائيو اور بہنو! خوش آمدید۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں آج یہ توفیق نصیب ہوئی کہ اس حسینیہ میں (صوبہ) آذربائیجان اور (شہر) تبریز کے با پاکیزہ صفت عوام، عزیز نوجوانوں اور شہدا کے اہل خانہ کی روحانیت و معنویت اور صفائے باطنی نے حسین ابن علی علیہ الصلاۃ و السلام کے تذکرے سے ہمیں بھی صفائے باطنی عطا کر دی۔ اس صفا وپاکیزگی اور قلبی توجہ نے جو اہل تبریز میں ہمیشہ نمایاں رہتی ہے، ہماری زندگی و اس مقام و ماحول کو منور کر دیا۔
یہ بڑا با معنی حسن اتفاق ہے کہ آج چہلم(سید الشہدا) بھی ہے اور انتیس بہمن کا واقعہ بھی چہلم ہی کا ایک واقعہ ہے۔ کربلا کا چہلم ایک شروعات تھی۔ جب کربلا کا واقعہ رونما ہو گیا، وہ بھیانک المیہ سامنے آ گیا اور اس مقام پر امام حسین علیہ السلام، آپ کے اصحاب و اقربا نے بے مثال فداکاری و ایثار کا مظاہرہ کر دیا تو اب باری تھی اسیروں کی کہ وہ پیغام کو عام کریں اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا اور حضرت سید سجاد علیہ السلام کی حق بیانی، خطبے اور انکشافات، طاقتور ذرائع ابلاغ کی مانند واقعے، اس کے اہداف، اس کے رخ اور (اس کے پیچھے کارفرما) فکر کو وسیع پیمانے پر مشتہر کرتے، اور ایسا ہی ہوا۔ گھٹن کے ماحول کی ایک خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں عوام جن حقائق سے آگاہ ہو چکے ہیں انہیں عملی طور پر ظاہر کرنے کی جرئت و ہمت جٹا نہیں پاتے۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ظالمانہ و استبدادی نظام اس کا موقع ہی نہیں دیتا کہ عوام کچھ سمجھ پائیں، اور اگر بات اس کے کنٹرول سے نکل جائے اور عوام اس سے باخبر ہو جائیں تو وہ عوام کو ہرگز یہ موقع نہیں دیتا کہ اس (حقیقت) پر عمل کریں۔ کوفے میں، شام میں اور راستے میں(دیگر مقامات پر) بہتوں نے حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا یا حضرت سید سجاد علیہ السلام یا دیگر اسیروں کو دیکھ کر بہت کچھ سمجھ لیا تھا۔ لیکن کس میں جرئت تھی اور کس میں یہ طاقت تھی کہ جو سمجھ گیا تھا اسے اس ظالمانہ، استکباری و استبدادی نظام اور رعونت کےسامنے (عملی طور پر) ظاہر کرتا؟ (حقیقت) گلے میں اٹک کر رہ گئی تھی۔ چہلم کے دن پہلی بار یہ باہر نکلی۔
سید ابن طاؤس اور دیگر بزرگوں نے لکھا ہے کہ جب اسیروں کا قافلہ یعنی جناب زینب سلام اللہ علیھا اور بقیہ اہل حرم چہلم کو کربلا پہنچے تو وہاں صرف جابر ابن عبد اللہ انصاری اور عطیہ عوفی ہی موجود نہیں تھے بلکہ بنی ہاشم کے کچھ مرد کچھ افراد اور کچھ عقیدتمند بھی سید الشہدا کی تربت پر جمع تھے۔ وہ زینب کبری کے استقبال کے لئے آئے تھے۔ حضرت زینب کبری نے شام سے واپسی کے سفر میں کربلا جانے پر جو تاکید فرمائی شائد اس کا مقصد یہی رہا ہو کہ اس مقام پر چھوٹا سا ہی سہی لیکن با معنی اجتماع ہو۔ بعض افراد نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اربعین تک کیسے ممکن ہے کہ وہ لوگ کربلا پہنچ جائیں۔ تاہم آیت اللہ قاضی شہید نے اپنی تفصیلی تحریر میں اسے ثابت کیا ہے۔ بہرحال بزرگوں کی کتابوں میں یہ ملتا ہے کہ جب حضرت زینب کبری اور اہل حرم کربلا پہنچے تو عطیہ عوفی، جناب جابر بن عبد اللہ انصاری اور بنی ہاشم کے کچھ لوگ وہاں موجود تھے۔ یہ اس ہدف کی تکمیل کی نشانی تھی جس کے لئے جام شہادت نوش کیا گيا۔ یعنی لوگوں میں جرئت(اظہار) پیدا کرنا۔ یہیں سے توابین کا ماجرا شروع ہوا۔ حالانکہ توابین کی تحریک کچل دی گئی لیکن کچھ دنوں میں حضرت مختار اور کوفہ کے دیگر دلاوروں کے قیام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نتیجتا ظالم بنی امیہ کی بساط سمیٹ دی گئی۔ ویسے اس کے بعد مروانیوں کا سلسلہ حکومت شروع ہو گیا لیکن جد و جہد اور قیام کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ کیونکہ راستہ کھل چکا تھا۔ یہ ثمرہ تھا چہلم کا۔ گویا چہلم میں انکشاف و افشاء بھی ہے، پیغام عمل بھی ہے اور افشاء کے اہداف کی تکمیل بھی اسی چہلم میں ہے۔
تبریز میں بھی یہ واقعہ بعینہ رونما ہوا۔ میں اس سے قبل بھی اہل تبریز کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں کہ اگر انتیس بہمن کا واقعہ رونما نہ ہوتا یعنی شہدائے قم کی یاد اہل تبریز کے ذریعے اس فداکاری و ایثار کے ساتھ تازہ نہ کر دی گئی ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ جد و جہد اور تحریک کا رخ کچھ اور ہو جاتا۔ بہت ممکن تھا کہ یہ عظیم واقعہ جو اس انداز سے رونما ہوا ، رونما نہ ہوتا۔ یعنی انتیس بہمن کا اہل تبریز کا قیام فیصلہ کن تھا۔ قم میں بہنے والے خون اور قم کی تحریک کے بنیادی مقصد کو تبریز کے واقعے نے تازہ و زندہ رکھا۔ ظاہر ہے عوام کو اس کی قیمت چکانی پڑی، عوام نے اپنی جانیں، اپنا چین و سکون، اپنی سلامتی و تحفظ، سب کچھ قربان کر دیا۔ ہاں اس کا ثمرہ ملک گیر بیداری کی صورت میں ملا۔ قم کی واقعے کا چہلم (تبریز میں) منایا گیا۔ انتیس بہمن کے شہدائے تبریز کے چہلم کے تسلسل میں کئی چہلم منائے گئے۔ اس سے تحریک کے پھیلاؤ اور ہمہ گيری کا اندازہ ہوتا ہے۔ صحیح تحریک کی یہی خاصیت ہے۔
خیر یہ تو ایک تاریخی گفتگو تھی جس کا تعلق ماضی سے ہے۔ انتیس بہمن سن تیرہ سو چھپن کو تبریز میں رونما ہونے والے اس واقعے کو اکتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اکتیس سال بہت ہوتے ہیں۔ اس وقت یہاں تشریف فرما حضرات میں بہت سے لوگ شائد اس وقت پیدا بھی نہ ہوئے ہوں اور اگر موجود تھے تو بہت چھوٹے تھے، بچے تھے، سمجھنے سے قاصر تھے۔
جب کوئی واقعہ اچھی نیت اور صحیح طرز فکر کی بنیاد پر رونما ہوتا ہے تو اس میں کچھ سبق آموز باتیں ہوتی ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتیس بہمن کے واقعے سے تین درس ملتے ہیں؛ نمبر ایک آگاہی و بیداری و عدم غفلت کی کیا تاثیر ہے۔ دوسرے جرئت عمل اور تیسرے مستقبل کے سلسلے میں بھرپور امید رکھنا اور سختیوں اور خطرات کو خاطر میں نہ لانا۔ یہ تین درس ہیں۔ سب سے پہلی منزل فہم و ادراک کی ہے۔ بہت سے افراد نے حالات کی اہمیت کو نہیں سمجھا، لیکن اہل تبریز نے حالات کی اہمیت و نزاکت کا ادراک اور پھر (مناسب) اقدام کیا۔ حالات کی اہمیت و نزاکت کا ادراک اور یہ عقلمندی بہت اہم چیز ہے۔ جب حالات کی نزاکت کا اندازہ ہو جائے تو جرئت عمل کی ضرورت پیش آتی ہے، یہ دوسرا نکتہ ہے۔ اس کے بعد یہ ضروری ہوتا ہے کہ اقدام پوری امید، ذات الہی پر توکل و اتکاء اور اللہ تعالی کی ذات سے بھرپور توقعات وابستہ کرکے انجام دیا جائے۔ یہ انتیس بہمن کی بعض سبق آموز باتیں ہیں۔
عوام میں اگر اللہ کی ذات پر ایمان نہ ہوتا، اگر دریائے ایمان لوگوں کے دلوں میں موجزن نہ ہوتا تو واقفیت و آگاہی پیدا ہوکر بھی رائگاں جاتی، اس سے کچھ حاصل نہ ہوتا۔ کیونکہ عملی اقدام انجام نہ پاتا۔ لوگوں کی قوت ایمانی، عوام کی ہوشیاری، بر وقت اقدام، ان ساری چیزوں کا بڑا اہم کردار رہا۔ تو یہ ہمارے لئے درس ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ واقعات کا توجہ اور دانشمندی سے جائزہ لینا چاہئے۔ بہت سی قومیں حساس مواقع پر بر وقت نزاکتت کا ادراک نہ کر سکیں، ان پر حوادث کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، سانحے گزر گئے لیکن وہ غافل ہی رہیں اور حوادث نے انہیں کچل کر رکھ دیا۔ جس وقت رضاخان کی رعونت کے مقابلے مین بعض علما اٹھ کھڑے ہوئے تھے اگر عوام نے اس وقت ان کا ساتھ دے دیا ہوتا۔ اگر لوگوں کو اندازہ ہو جاتا کہ حالات کس رخ پر جا رہے ہیں اور وہ قیام کرتے تو شاید آج ہماری قوم پچاس سال آگے ہوتی ہے اور پٹھو طاغوتی پہلوی حکومت کے پچاس سالہ دور کے انحطاط و تنزلی کا سامنا ملک کو نہ کرنا پڑتا۔ غفلت کے نتیجے میں لوگ ان خساروں کو تحمل کر لیتے ہیں۔ بنابریں غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ جس وقت اس ملک میں امریکیوں نے بغاوت کروائی تھی، جو انیس سو ترپن میں امریکہ اور برطانیہ کی مشترکہ سازش کے نتیجے میں ہوئی تھی اگر وقت کی نزاکت کو سمجھ لیا گيا ہوتا اور مناسب اقدام کیا جاتا تو ملک کو یہ خسارہ نہ ہوتا۔ واقعات پر باریک بینی سے نظر رکھنا چاہئے۔
اس وقت ہماری قوم اپنے سامنے ایک بہت بڑے محاذ کا مشاہدہ کر رہی ہے جہاں سے پوری توانائی کے ساتھ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلامی انقلاب کی سامراج مخالف ماہیت کا خاتمہ ہو جائے۔ انقلاب کی کامیابی کے اوائل سے ہی اس محاذ کی یہ کوشش رہی کہ انقلاب کے بطن سے ظہور پذیر ہونے والا اسلامی نظام قائم و دائم نہ رہ سکے۔ ہر ممکن کوشش کی گئی کہ اسلامی جمہوری نظام کا نشو نما نہ ہو سکے۔ البتہ یہ کوششیں ناکام رہیں۔ سیاسی کوششیں کی گئیں، اقتصادی ناکہ بندی کی گئی، اس قوم پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کی گئی، اس قوم کے دشمنوں کو مسلح کیا گیا، ساز و سامان دیا گيا، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے خلاف داخلی فتنے بھڑکائے گئے لیکن انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ وہ(دشمن) بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ اسلامی نظام کو سرنگوں کرنا ناممکن ہے، کیونکہ اس کی پشتپناہی اور حمایت کے لئے مومن عوام سینہ سپر ہیں۔ دسیوں لاکھ مومن عوام نے اس نظام کی پاسبانی کی ہے۔ یہ صرف حکام اور حکومت کا معاملہ نہیں ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نظام چند افراد پر قائم ہوتا ہے اور ایک مخصوص طبقے کو اس سے فیض پہنچ رہا ہوتا ہے، ایسے نظام سے سامراج کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن کوئی نظام ایسا بھی ہوتا ہے جس کا پورا دارومدار عوام کے ایمان و ایقان پر ہوتا ہے، اس کی تکیہ گاہ عوام کے قلوب ہوتے ہیں، اسے عوام کی بھرپور پشتپناہی حاصل ہوتی ہے، ایسے نظام کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ سامراجی قوتوں کو بھی اس حقیقت کا اندازہ ہو چکا ہے۔ یہی جلوس اور ریلیاں، یہی اس سال (بائيس بہمن مطابق گیارہ فروری) کی عوامی ریلیاں بڑے پر شکور اور عظیم پیغام کی حامل تھیں۔ سائنسی ترقی، مختلف میدانوں میں نوجوانوں کی پیش قدمی، ماضی سے بھی زیادہ جذاب اور موثر واقع ہونے والے انقلاب کے نعرے، اب کوئی بھی عہدہ دار اسلامی انقلاب کے نعروں کے تعلق سے کسی پشیمانی اور خفت کا احساس نہیں کرتا بلکہ حکام ان نعروں پر نازاں ہیں۔ خود مختاری، آزادی، اسلام، اس معتبر اور با معنی آئين پر افتخار کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس نظام کو کوئی ہلا بھی نہیں سکتا۔ دشمن اس نتیجے پرپہنچ چکا ہے کہ اس نظام کو جہاں تک ممکن ہے اندر سے کھوکھلا کیا جائے۔ یہ ثقافتی یلغار جس کی جانب میں نے کئی سال قبل اشارہ کیا تھا، یہ ثقافتی شبخون جس کے آثار مختلف میدانوں میں محسوس کئے جاتے تھے اور آج بھی نظر آ رہے ہیں۔ ان کے پیچھے یہی نیت اور یہی خواہش کارفرما ہے کہ انقلاب کو اس کی روح اور اس کی دینی و اسلامی ماہیت سے تہی کر دیا جائے، جدا کر دیا جائے۔ یہ بھی ان نازک مواقع میں سے ایک ہے جس کے سلسلے میں عوام کی ہوشیاری و بیداری لازمی ہے۔ یہ بھی انتیس بہمن کے واقعے کی مانند ہے۔ بہت سے افراد انتیس بہمن کے واقعے کی نزاکت کو محسوس نہیں کر سکے تھے، لیکن آپ اہل تبریز نے اس کا ادراک کیا اور عملی طور پر بھی اپنے اس فہم و ادراک کو ثابت کیا۔ یہ چیز دائمی ہے۔ عوام کو واقعات و حالات کی حساسیت و نزاکت کا مکمل ادراک ہونا چاہئے اور بحمد اللہ آج قوم اس نزاکت سے پوری طرح واقف بھی ہے۔ عوام پوری طرح بیدار ہیں۔ یہ بھی اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کا ثمرہ ہے۔ عوام بیدار ہو چکے ہیں، ان میں تجزیاتی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے۔
آپ یقین جانئے کہ اب اسلامی نظام کے دشمن اس کی مستحکم بنیادوں کے سامنے خود کو عاجز پاتے ہیں۔
ان کی کوشش یہ ہے کہ گوناگوں حربوں کے ذریعے اس انقلاب کا حصہ رہ چکے افراد کے توسط سے انقلاب کو اندر سے رفتہ رفتہ کھوکھلا کردیں۔ اسلامی جمہوریہ بس نام کا اسلامی جہموریہ رہ جائے، یہ برائے نام انقلابی نظام رہ جائے اس میں انقلاب و اسلام کی روح کا کہیں کوئی نام و نشان نہ رہے۔ خالی نام کی کیا ارزش؟ روح ضروری و لازمی ہے۔ میرا اور آپ سب کا فریضہ یہ ہے کہ ہم انقلاب کی روح اور انقلاب کے با ارزش اصولوں کی حفاظت کریں اور ان با ارزش بنیادوں اور اعلی قدروں کو نظر انداز نہ ہونے دیں۔ یہ ہم سب کا فریضہ ہے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی ایسے لوگوں کا یاور و مددگار ہے جو اس پر ایمان کے ساتھ قدم بڑھا رہے ہیں اور اپنی انسانی طاقت و توانائی کو کسی اہم ہدف کے لئے صرف کر رہے ہیں۔ مقدس اہداف کی راہ میں قدم بڑھانے والے افراد کی اللہ تعالی نصرت و اعانت کرتا ہے۔ جب بھی ہم نے شکست کھائی اور جب بھی ہم اللہ تعالی کی نصرت سے محروم ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے صحیح کام انجام نہیں دیا۔ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ اگر ہم اپنا فریضہ ادا کریں گے تو اللہ تعالی بھی ہماری مدد کرے گا۔ وہ فرماتا ہے اوفوا بعھدی اوف بعھدکم تم میرے ساتھ کیا گیا عہد و پیمان پورا کرو تو میں بھی اس عہد و پیمان کو پورا کروں گا۔ معلوم ہوا کہ مسئلہ دوطرفہ ہے۔ اللہ نے، جو ہماری جان کا مالک اور تمام عطیات کا سرچشمہ ہے، ہم سے دو طرفہ عہد و پیمان باندھا ہے کہ تم اس پر عمل کرو میں بھی اس پر عمل کروں گا۔ یعنی اللہ تعالی نے یہ وعدہ کیا ہے۔ اب اگر ہم نے اپنے فریضے پر عمل نہ کیا تو ہم اللہ تعالی سے نصرت و مدد کی توقع بھی نہیں رکھ سکتے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ وہ میدان عمل و اقدام میں پیش پیش رہنے والی قوم ہے۔ تیس سال تک ہمارے دشمن یہی آس لگائے رہے کہ یہ قوم انقلابی نعروں کو فراموش کر دے گی لیکن تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد آج آپ، عوام کے اجتماعات، ان کے خیالات اور ان کے نعروں کو دیکھئے تو یہ وہی اوائل انقلاب کے نعرے اور خیالات ونظریات ہیں۔ یہ صراط مستقیم پوری طرح محفوظ رہا۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ تاریخ کے دیگر متعدد انقلابوں میں یہ خصوصیت نظر نہیں آتی۔ یہ اللہ تعالی اور اسلام پر ایمان و عقیدے کا ثمرہ ہے۔ انقلاب کے نعروں کی پاسداری و پاسبانی کی جانی چاہئے۔ نوجوانوں کو خاص طور پر اس کی قدر کرنا چاہئے۔ خوش قسمتی سے ہماری آج کی نوجوان نسل اوائل انقلاب کی نوجوان نسل کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کار اور با صلاحیت ہے۔ اس وقت احساسات کا غلبہ تھا تو آج فکر و نظر کی بالادستی ہے، صرف احساسات نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ احساسات و جذبات نہ ہوں، جذبات بھی ہیں لیکن فکر و نظر کے ہمراہ، صحیح ادراک اور جذبہ عمل کے ہمراہ۔
پروردگارا! ہمارے شہدا کی ارواح کو پیغمبر اسلام کے ساتھ محشور فرما، ہمارے بزرگوار امام(خمینی رہ) کو جو اس عظیم تحریک کی روح رواں ہیں اپنے اولیائے کرام کے ساتھ محشور فرمایا۔ ہمیں اسی راہ کے سپاہیوں اور اسی مقدس ہدف کے جاں نثاروں میں قرار دے۔ اللہ تعالی آپ سب بھائیوں بہنوں کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ فرمائے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏