آپ نے ایران کے اسلامی نظام کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی تعلیمات پر استوار نمونہ معاشرے کی سمت گامزن قرار دیا اور اس اعلی ہدف تک رسائی کے لئے حکام کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی نصیحت فرمائی۔ تفصیلی خطاب حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں اس عظیم عید کی پوری ایرانی قوم، آپ محترم حضرات جو یہاں تشریف لائے ہیں، ملک کے حکام اور دنیا کے ان تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، جو ولایت خدا کی راہ میں سعی و کوشش میں مصروف ہیں اور اس کے مشتاق ہیں۔
بیشک عید غدیر کا دن بہت اہم ہے۔ روایات میں ہے کہ اس دن کی عظمت حتی عیدالفطر اور عید الاضحی سے بھی زیادہ ہے۔ یہ ان دونوں عظیم اسلامی عیدوں کی اہمیت کم کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس عید کا مفہوم اعلاتر ہے۔ اس عید کی جو ہمارے لئے سب سے برتر عید ہے، اہمیت یہی ہے کہ یہ مفہوم ولایت کی حامل ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، بزرگان دین اور انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام نے جو زحمتیں اٹھائی ہیں، ان کا مقصد ولایت الہی کا قیام تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے جہاد فی سبیل اللہ میں دین کے لئے جو کوششیں کی جاتی ہیں ان کے بارے میں فرمایا لیخرج الناس من عبادہ العبید الی عبادۃ اللہ ومن ولایت العبید الی ولایۃ اللہ ہدف یہ ہے کہ انسانوں کو وسیع معنوں میں، بندوں اور غلاموں کی ولایت سے نکال کے اللہ کی ولایت تک پہنچائیں۔ مگر عید غدیر میں یہ مفہوم بھی ہے کہ ولایت کی دو بنیاد قلمرو ہے۔ ایک قلمرو نفس انسانی ہے کہ انسان اپنے نفس پر ارادہ الہی کو ولایت دے اور اپنے نفس کو ولایت خدا کا تابع بنائے، یہ پہلا بنیادی قدم ہے جب تک یہ انجام نہ پائے دوسرا قدم نہیں اٹھے گا۔
دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کی فضا کو ولایت خدا سے مملو کریں۔ یعنی معاشرہ ولایت الہی کے ساتھ چلے۔ کوئی بھی ولایت، پیسے کی ولایت، قوم کی ولایت، قبیلے کی ولایت، طاقت کی ولایت، غلط عادات اور آداب ورسوم کی ولایت، ولایت خدا میں رکاوٹ نہ بنے، ولایت خدا کے مقابلے میں سر نہ اٹھائے۔
وہ نکتہ جو خاص طور پر آج کے دن سے تعلق رکھتا ہے، یہ ہے کہ آج کے دن جس کا تعارف کرایا گیا ہے یعنی امیرالمومنین، مولائے متقیان سلام اللہ علیہ، وہ ولایت کی دونوں قلمرو میں ممتاز اور مثالی ہستی ہیں۔ اپنے نفس پر ولایت اور اس کو قابو میں کرنے میں بھی جس کے لئے میں نے عرض کیا کہ اصلی حصہ یہی ہے اور حکومت اسلامی اورولایت الہی کے لئے آپ نے اپنی ذات کا جو نمونہ پیش کیا اور اس ولایت کو جس طرح مستحکم کیا ہے، اس میں بھی آپ کی شخصیت مثالی ہے۔ جو بھی ولایت الہی کو پہچاننا چاہے اس کے لئے مکمل اوراکمل اسوہ حسنہ آپ کی ذات گرامی ہے، جو آج ہمارے لئے درس کے عنوان سے پیش ہونا چاہئے۔ خاص طورپر اس لئے کہ یہ جلسہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی نہ کسی شکل میں، ولایت اسلامی کے نظام میں دخیل ہیں، عہدیدار ہیں اور مرتبہ رکھتے ہیں، یہ ہے کہ ولایت کی دونوں قلمرو میں جن میں، ہمارے مولا علی بن ابیطالب علیہ الصلوات والسلام مثالی ہستی ہیں، ان کے کلام کا ایک ایک لفظ اور ان کے اعمال کا ایک ایک قدم ہر ایک کے لئے درس ہو سکتا ہے، ہمیں سعی و مجاہدت کرنی چاہئے۔
ایک مسئلہ معاشرے میں ولایت خدا کے قیام کا ہے۔ آج کی دنیا میں اس ولایت کے دشمن بہت ہیں جو کھلے عام اس کی دشمنی کرتے ہیں۔ پہلے روز سے ہی اس کے دشمن تھے، یہ آج سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ اس کی وجہ بھی معلوم ہے کہ دنیا اس معاشرے کی مخالف کیوں ہے جو الہی حکومت و ولایت کی اساس پر اپنے امور کو چلانا چاہتا ہے؟ اس بارے میں کہا جا چکا ہے اور ہر چیز تقریبا واضح ہے۔
فطری طورپر جو لوگ ایسے نظام کے بانی اور بنیاد رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں، انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے کام اور سعی وکوشش کا ہر لمحہ، گذشتہ لمحے کی نسبت، اصلی نمونہ عمل سے زیادہ نزدیک ہو۔ یہ ہمارے لئے غدیر کا سب سے پہلے درجے کا درس ہے۔
ایک بار پہلے بھی میں نے کسی جگہ یہ اشارہ کیا ہے کہ بعض لوگوں نے جو کہا ہے کہ کامیابی کو برسوں گذر جانے کے بعد انقلاب کی اقدار کم رنگ ہوگئی ہیں یہ بات اگرچہ تجزئے کی شکل میں کہی گئی ہے مگر در اصل دشمن کی طرف سے جہت دینے کے مترادف ہے۔ صحیح ہے کہ بعض دوستوں نے بھی نا واقفیت میں اس کی تکرار کی ہے، مگر دشمن جس نے اس پر اصرار کیا ہے اور کر رہا ہے، درحقیقت یہ چاہتا ہے کہ ذہنوں میں بات بٹھا دے کہ مبداء انقلاب سے دوری انقلابی قدروں کے کم رنگ ہونے کا باعث ہوئی ہے۔
کیا یہ صحیح ہے؟ یہ کمال بشری کے اصول کے خلاف ہے۔ یہ اس منطق کے خلاف جس نے اسلامی نظام کی تشکیل کو ضروری قرار دیا ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا میں یہ بات ضروری ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہت سے علاقوں میں الہی اور اسلامی حکومت قائم ہوگی۔
انقلاب آنے کے وقت کی بعض خصوصیات ہیں جو یقینا کمزور ہو جائیں گی حتی ممکن ہے کہ تدریجی طور پر ختم ہو جائیں۔ یہ بہت اہم بات بھی نہیں ہے۔ آپ کا کوئی دوست یا آپ کا بیٹا جب سفر سے آتا ہے تو ملاقات کے آغاز میں محبت کے جذبے میں ہیجانی کیفیت ہوتی ہے مگر یہ ہیجانی کیفیت آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے آپ کی محبت اور لگاؤ کم ہوگیا ہے۔ یا آپ کا جذبہ پدری کم ہو گیا ہے۔ اصول و اقدار تدریجی طور پر کم رنگ نہیں ہو سکتیں بلکہ اس کے برعکس تدریجی طور پر زیادہ پر رنگ ، زیادہ نمایاں ، زیادہ واضح اور ذہنوں میں زیادہ راسخ ہوتی ہیں ۔
ابتدائے انقلاب میں بہت تھے جو ہلڑ ہنگامہ کرتے تھے۔ لیکن بعد میں اواسط انقلاب کے تجربات میں نہ چل سکے۔ یا خود کنارے ہو گئے یا انقلاب کی لہر نے خود انہیں کنارے لگا دیا۔ جو باقی ہے واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض ( 1) جو با دوام ہے، جو پرانا نہیں ہو سکتا، جو روز بروز زیادہ تابناک اور زیادہ درخشاں ہو رہا ہے وہ اسلامی اور انقلابی اقدار ہیں۔
لہذا ایسا نہ ہوکہ بعض لوگوں کو یقین آ جائے کہ جتنا وقت گذرتا جائے اتنا ہی ہم انقلابی اقدار کی نسبت زیادہ لاتعلق، زیادہ بے توجہ ، ان کی حفاظت کی طرف سے زیادہ غافل ، معاشرے میں ان کے قیام کی نسبت زیادہ بے حس ہوتے جائيں گے، ایسا نہیں ہے۔ قضیہ اس کے برعکس ہے۔
جس زمانے میں ہم مثلا معاشرے میں جنگ کے مسائل میں سرگرم ہوں تو فطری طور پر کچھ چیزیں ہمیں اپنی طرف کھینچتی تھیں۔ لیکن جب ہمارے پاس خودسازی، باطن سازی اور معاشرے کی تعمیر کے لئے وقت ہو، تو ہمیں اسلامی اور انقلابی اقدار کا زیادہ پابند ہونا چاہئے۔ جو معاشرہ ولایت الہی کی شیرینی سے واقف ہے اس میں ولایت الہی کا استحکام روز بروز شفاف تر، واضح تر، نمایا ں تر اور بادوام تر ہونا چاہئے۔ جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے پانچ سالہ دور حکومت میں یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ہی تھا۔
ہم دوسرے ادوار کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہتے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے دور حکومت میں کہ جب الہی حاکمیت تھی، بیشک ایسا ہی تھا کہ قدریں روز بروز پررنگ تر ہوئیں اور جو چیز اس امر کی بنیاد تھی وہی مفہوم ہے جس کے بارے میں میں نے عرض کیا کہ حضرت امیرالمومنین میں سب سے آشکارا تھا اور وہ آپ کے نفس پر ولایت الہی تھی یعنی خدا کے حضور امیرالمومنین علیہ السلام کی عبودیت کامل اور تمام کاموں اور کوششوں میں خدا کے لئے آپ کا مثالی خلوص تھا۔ یہ وہ چیز ہے جس کا ہمیں امیرالمومنین علیہ السلام سے درس حاصل کرنا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود کو اس سطح تک پہنچا دیں کیونکہ کوئی اس سطح تک پہنچ ہی نہ سکے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں ہرشخص جو کہیں بھی کام کر رہا ہے اس مشق کو کبھی نہ چھوڑے اور کبھی فراموش نہ کرے اور کوشش کرے کہ خدا کے لئے کام کرے۔ جو ذمہ داری بھی قبول کرے خدا کے لئے قبول کرے اور جو کام بھی کرے خدا کے لئے کرے ۔
یہ یقینا آسان کام نہیں ہے۔ آسانی سے خود کو اس مقام تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ لیکن کوشش کریں۔ کوشش سے پہنچ سکتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں جس کے وجود پر اخلاص حاوی تھا اور جس کی تمام حرکات وسکنات میں خلوص تھا، جہاں تک ہم سمجھے ہیں وہ ہمارے امام کی ذات تھی۔ البتہ ہمارے امام اور امیرالمومنین علیہ السلام میں زمین تا آسمان فرق ہے۔ خود آپ بھی ہمیشہ کہتے تھے کہ ہم امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہ الصلوات والسلام کے اعلی مقام کا کسی سے موازنہ نہیں کر سکتے ہیں، حتی تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ بدیہی امر ہے۔ مگر جو انسان کوشش کرتا ہے، مشق کرتا ہے، ریاضت کرتا ہے کہ اس کی کوشش خدا کے لئے ہو، تو دیکھیں کہ کیسے اثرات کا سرچشمہ ہو جاتا ہے۔
تاریخ کے اس دور میں امام نے جو کام کیا میرا خیال ہے کہ اسلام کے بعد پوری تاریخ میں اتنی عظمت اور اتنی جہتوں والی کہیں بھی اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ مصلحین بہت تھے، حق بات کہنے والے بہت تھے، راہ خدا کے مجاہد بہت تھے، مگر وہ انسان جو دنیا میں یہ عظیم تغیر اور بیداری خدا کے نام پر، دین کے نام پر، معنوی اور الہی اقدار کے نام پر، وہ بھی اس دنیا میں جو مادی محرکات سے بھری ہوئی ہے، وجود میں لا سکے، وہ آپ ہی تھے۔ ہم آپ کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے۔ یہ آپ کے اخلاص کی برکت تھی۔ آپ خدا کے لئے اقدام کرتے تھے اور خدا کے لئے بولتے تھے۔ جب انسان جو کہتا ہے اور جو عمل اور ذمہ داری بھی قبول کرتا ہے، وہ خدا کے لئے ہو تو اس انسان کے لئے کام آسان ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ خدا کے لئے ہیں۔ اس میں نفس انسانی کی کوئی مداخلت اور تاثیر نہیں ہوتی۔ نفسانی محرکات اس میدان میں نہیں ہوتے۔ اس لئے ذمہ داری قبول کرنا انسان کے لئے آسان ہوتا ہے۔ عہدہ چھوڑ دینا اس کے لئے آسان ہوتا ہے۔ اقدام کرنا انسان کے لئے آسان ہوتا ہے۔ جو کہنا چاہئے وہ کہنا آسان ہوتا ہے۔ فیصلہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ جام زہر نوش کرنا آسان ہوتا ہے۔ پوری دنیا سے مقابلہ آسان ہوتا ہے۔ سپر طاقتوں کے مقابلے پرآنا آسان ہوتا ہے ۔
جو مسائل کو مشکل بناتا ہے وہ ہمارا نفس ہے۔ ہماری خواہشات ہیں۔ مادی اندازے ہیں۔ کیا ہوگا؟ کیا نقصان پہنچے گا؟ کس چیز سے رہ جائیں گے؟ جب میں درمیان میں نہ ہو شخص درمیان میں نہ ہو نفسانی خواہش درمیان میں نہ ہو اور ہر چیز خدا کے لئے ہو تو تمام بڑے کام آسان ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ اس عظیم اور درخشان تجربے کو تاریخ کے روشن صفحات پر دیکھنا چاہیں تو امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کو دیکھیں۔ جس دن چھوڑدینا چاہئے تھا خرمے کی گٹھلی کی طرح منھ سے پھینک دیا۔ یہ کام کیا ۔ جب محسوس کیا کہ ان کی ذمہ داری ہے ، تو ذمہ داری کے لئے، کسی اور چیز کے لئے نہیں، قبول کرلیا۔ ذمہ داری کا احساس کیا ۔ دین کی حفاظت کے لئے، دشمنان دین سے مقابلے کے لئے، خلافت کا دور تقریبا جنگ میں گزارا۔ اگر ہوائے نفس اور نفسانی محرکات کا مسئلہ ہوتا تو دوسری طرح عمل کرتے۔ نفسانی محرکات نہیں تھے۔ جب ہدف اور مقصد کی راہ میں جان دینا چاہا تو آسانی سے جان فدا کردی۔
یہ وہ روشن صفحہ ہے جو امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کی تاریخ نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے ۔اسی بناء پر اس ہستی پر ہمیشہ عظمت کی نگاہ ڈالی گئی ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ امیرالمومنین کی محبت صرف شیعوں سے مخصوص ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اسلامی دنیا میں امیرالمومنین دلوں پر راج کرتے ہیں اور سبھی آپ کو چاہتے ہیں۔ سب آپ کو قبول کرتے ہیں۔ الا غلط انسانوں کے جو کم اور تھوڑے ہیں۔ اسلام سے باہر کی دنیا میں بھی، جو آپ کو پہچانتے ہیں، آپ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ آپ نے اپنے وجود کی قلمرو میں، اپنے نفس پر پہلے درجے میں اور پھر زندگی اور حکومت کی فضا میں مکمل طور پر ولایت و ارادہ الہی کو نافذ کیا۔
آج ہم اسی لئے آگے بڑھ رہے ہیں اور ہمارا ہدف یہی ہے۔ کوئی اسلامی نظام اور اسلامی حکومت کے ہدف کو سمجھنے میں غلطی نہ کرے۔ ہدف یہ ہے۔ صرف وسائل امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے سے مختلف ہوگئے ہیں۔ طریقے بدل گئے ہیں۔ دنیا بدل گئی ہے۔ دور وسطی سے بہت مختلف ہوگئی ہے۔ مگر اہداف نہیں بدلے ہیں۔ اس دور میں بھی امیر المومنین علیہ السلام کا ہدف یہ تھا کہ معاشرے کو الہی قلمرو میں لائیں جس کا اعلاترین مظہر عدل ہو۔ یہاں ہم خود کو فریب نہ دیں۔ کہ الہی معاشرہ وہ ہے جہاں عدل نافذ ہوتا ہے، ورنہ وہ معاشرہ کہ جس میں عدل نہ ہو، جس میں طبقاتی فاصلے گہرے ہوں، لوگوں کے بڑے طبقے کے ساتھ دوسروں کے ناحق مفادات کے لئے، غلط سلوک ہو، وہ معاشرہ اسلامی نہیں ہے۔ وہ معاشرہ علوی معاشرہ نہیں ہے۔ ہمیں اس معاشرے تک پہنچنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔
یہ بھی یہاں عرض کردوں کہ کوئی ایک نقطہ ڈھونڈ کے فورا یہ نہ کہے کہ یہ حکومت اور یہ نظام تو اسلامی نہیں ہے اسلامی نظام کا مکمل نمونہ وہ ہے جو امیرالمومنین علیہ السلام نے پیش کیا ہے اور ہم نے آپ کی زبان سے سنا ہے اور پہچانا ہے۔ ایسے میں منطقی نمونہ وہ نظام ہے جو اس کامل نمونے کی جانب بڑھے۔ جیسا کہ خود امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں بھی جو تھا وہ اس کامل نمونے کی جانب بڑھنا تھا۔ خود علی علیہ السلام نمونہ کامل تھے مگر اس معاشرے اور نظام کو نمونہ کامل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ابھی مشکلات بہت تھیں۔ لیکن اگر آپ کی حکومت جاری رہتی تو اس نمونے تک پہنچ جاتی۔
ہمیں خود کو اس نمونے سے نزدیک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ اسلامی نظام کو بھی اس نمونہ کامل کے نزدیک کریں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ جب تک اس فریضے کی راہ میں آگے بڑھیں گے، دنیا کی کوئی بھی طاقت نہ امریکا اور نہ کوئی اور، آپ پر غلبہ حاصل نہ کرسکے گا۔ ممکن ہے کہ وار لگا دے ، نقصان پہنچا دے ، اذیت پہنچائے، موذیانہ حرکت کرے ، یہ سب ممکن ہے۔ دشمن سے محبت اور نرمی کی توقع تو نہیں کی جاسکتی۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ آپ پر تسلط اور غلبہ نہیں حاصل کرتا اور آپ کو کمال کی جانب بڑھنے سے نہیں روک سکتا۔ آپ پر برتری نہیں حاصل کرسکتا۔ وانتم الاعلون (2)
دعا ہے کہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی پاک دعائیں اس راہ میں آگے بڑھنے میں ہماری مدد کریں اور خداوند عالم ہمارے عظیم امام کی روح مطہرکو جنہوں نے ہمیں اس راستے پر ڈالا اور شہدا کی ارواح طیبہ کو جنہوں اس راستے کو باقی رکھا، اپنے فضل و رحمت میں شامل کرے ۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- رعد 17
2- محمد 35