آپ کے مطابق عید غدیر شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان افتراق و اختلاف نہیں بلکہ اتحاد کا محور قرار پانا چاہئے۔ آپ نے واقعہ غدیر کے منصفانہ مطالعے کی دعوت دی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی ٹکنالوجی کے حصول کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور اس کے لئے محنت و مشقت کو آئندہ نسلوں کی ترقی کی ضمانت سے تعبیر کیا۔
تفصیلی خطاب پیش نظر ہے:
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں اس با برکت عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ یہ عظیم دن اور تاریخ کا یہ عظیم واقعہ آپ سب بھائی بہنوں، ملت ایران، تمام اہل تشیع اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو مبارک ہو۔ عید غدیر کو عید اللہ الاکبر کہا گیا ہے اور یہ تمام اسلامی عیدوں میں سب سے بالاتر ہے۔ سب سے زيادہ رموز پوشیدہ ہيں اس عید میں۔ اس عید کے اثرات تمام عیدوں سے زيادہ ہيں۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہدایت اور حکومت کے سلسلے میں اسلامی امت کی صورت حال، غدیر کے واقعے سے واضح ہوئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ غدیر میں جو کچھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا اس پر عمل در آمد نہيں ہوا۔ خود پیغمبر نے کچھ روایتوں کے مطابق یہ بتا دیا تھا کہ ان کے حکم پر عمل نہيں کیا جائے گا تاہم غدیر کا معاملہ در اصل ایک معیار کے تعین کا معاملہ ہے۔ اس معیار کو مسلمان رہتی دنیا تک ایک میزان و کسوٹی کے طور پر استعمال کرکے امت مسلمہ کے راستوں کا تعین کر سکتے ہيں۔ یہ جو آنحضرت نے ولایت کے اعلان کے لئے انتہائی حساس وقت کا انتخاب کیا وہ در اصل پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتخاب نہیں تھا بلکہ خدا کا انتخاب تھا۔ پیغمبر اسلام پر وحی نازل ہوئی «بلّغ ما انزل اليك من ربّك» (1) اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو امامت و ولایت کے مسئلے کا اللہ کی جانب سے علم نہيں دیا گیا تھا۔ بالکل دیا گیا تھا۔ بعثت کے فورا بعد سے ہی آنحضرت کے لئے یہ مسئلہ واضح ہو چکا تھا۔ اس کے بعد تیئیس سال کے دوران مختلف واقعات کے ذریعے اس حقیقت کو اس طرح سے عیاں کر دیا گيا تھا کہ کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی لیکن پھر بھی باضابطہ اعلان انتہائی حساس وقت میں ہونا تھا اور یہ اعلان اللہ تعالی کے حکم سے ہوا: «بلّغ ما انزل اليك من ربّك و أن لم تفعل فما بلّغت رسالته»؛(2) یعنی اس پیام کو پہنچانا ایک الہی ذمہ داری ہے، وہ بھی غدیر خم میں، جحفہ کے نزدیک، آنحضرت نے لوگوں کو روکا۔ حاجیوں کے کارواں کو اکٹھا کیا اور وہ اعلان کیا جس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی: «اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى»(3) نعمتیں مکمل ہو گئيں، دین پورا ہو گیا۔ سورہ مائدہ میں «اليوم اكملت» سے قبل یہ آیت ہے: «اليوم يئس الّذين كفروا من دينكم فلا تخشوهم و اخشون»(4) آج دشمنوں کے مایوس اور نا امید ہونے کا دن ہے۔ یعنی معیار کا تعین ہو گیا۔ جب بھی امت اسلام حقیقت کو دیکھنا چاہے تو وہ معیار کو دیکھ لے گی۔ معیار کا مشاہدہ کر لیگی اور کسی بھی طرح کے شک و شبے کی گنجائش نہيں رہے گی۔ غدیر کی اہمیت یہ ہے۔
امامت و ولایت کا معاملہ جس انداز سے اسلامی تاریخ میں مذکور ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک الہی معاملہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے، ذاتی نظرئے کی بنیاد پر حضرت علی علیہ السلام کا انتخاب کیا ہو۔ البتہ اگر کوئی بھی ذاتی نظرئے کو بنیاد بنائے تب بھی یہی نتیجہ نکلے گا کہ پیغمبر کے جانشین علی ہيں لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فیصلہ در اصل خدا کا فیصلہ تھا۔ آغاز بعثت سے ہی یعنی اس وقت سے جب پیغمبر اکرم نے مکے میں خود کو مختلف قبائل کے سامنے (بحیثیت پیغمبر) متعارف کرایا، اسلام کو ان کے سامنے پیش کیا جو خود ہجرت سے قبل کا ایک تفصیلی واقعہ ہے کہ کس طرح سے وہ مختلف قبائل اور قبائلی سرداروں کے پاس جاتے تھے، ایک قبیلے کے سردار نے، غور کریں یہ سب تاریخ کے مسلمہ حقائق ہیں اور ان واقعات کے سلسلے میں شیعہ و سنی نظریاتی اختلافات کی بھی کوئی گنجائش نہيں ہے بلکہ خود برادران اہل سنت نے بھی اسے نقل کیا ہے، (ایک قبیلے کے سردار نے) پیغمبر اسلام سے کہا کہ ہم اجتماعی شکل میں اسلام کو قبول کرنے پر تیار ہیں لیکن ایک شرط ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ آپ کے بعد، یہ مشن ہمارا ہو یعنی ہمارے قبیلے کا سردار آپ کا جانشین قرار پائے۔ تاریخ میں ہے کہ آنحضرت نے اس شخص کے جواب میں فرمایا: نہيں، «هذا امر سماوىّ»؛ یہ چیز ہمارے بس میں نہيں ہے یہ آسمانی معاملہ ہے۔ وہ لوگ ایمان نہيں لائے اور چلے گئے۔ تو اس طرح سے ہم دیکھتے ہيں کہ پیغمبر اسلام کی خلافت کا مسئلہ، خدا کی وحی سے مربوط ہے۔ خداوند عالم کے ارادے پر موقوف ہے۔ حتی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں بھی نہيں تھا لیکن فرض کیجئے، اگر آنحضرت خود اپنی رائے سے کسی کا انتخاب کرتے تو انہيں کس کا انتخاب کرنا چاہئے تھا؟ اصولی طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس کا انتخاب کرتے اسے اسلام کے تمام بنیادی معیاروں کو مکمل طور پر پورا اترنا چاہئے تھا۔ اب پوری دنیا کے مسلمان حضرت علی علیہ السلام کو ان معیاروں پر تولیں، یہ بات بھی صحیح ہے کہ مختلف صحابہ کے لئے تاریخ کی کتابوں میں بہت سے فضائل مذکور ہیں لیکن ہمیں معیاروں پر توجہ دینا ہے، معیاروں سے ملائيں ایک ایک صحابی کو معیاروں پر پرکھیں، ان کا ایک دوسرے سے قرآن اور سنت کی بنیاد پر موازنہ کریں اور دیکھیں کہ اس طرح سے کس کا انتخاب ہوتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا علم کہ جو ایک معیار ہے اس کی حدیں کہاں تک ہیں؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے، جسے تمام مسلمان راویوں نے خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی نقل کیا ہے کہ «انا مدينة العلم و علىّ بابها» (5) اس سے بڑی گواہی اور کیا ہو سکتی ہے؟! قرآن مجید کی یہ آیت «و من النّاس من يشرى نفسه ابتغاء مرضات اللَّه»(6) امیر المومنین علیہ السلام کے جہاد اور ایثار کے بارے میں نازل ہوئی ہے، کسی اور کے بارے میں یہ آیت نازل نہيں ہوئی ہے۔ اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کے انفاق کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے: «و يطعمون الطّعام على حبّه مسكينا و يتيما و اسيرا»(7) اسی طرح حضرت علی اور ان کے با عظمت گھرانے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی: «انّما وليّكم اللَّه و رسوله و الّذين امنوا الّذين يقيمون الصّلاة و يؤتون الزّكاة و هم راكعون»(8) سب نے کہا ہے کہ یہ آیت امیر المومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ معیار جو اسلام میں در اصل انتخاب کے معیار ہيں، عظمت کے پیمانے ہيں، علم، تقوی، انفاق، ایثار، جہاد اور دیگر اسلامی معیار سب کے سب امیر المومنین علیہ السلام کی ذات مقدس سے مکمل مطابقت رکھتے ہيں۔ کیا کوئی حضرت علی علیہ السلام کی ان صفات کا انکار کرسکتا ہے؟
ہم پوری دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہيں کہ وہ ان حقائق پر غور کریں۔ ہم اسلامی امہ میں اتحاد کے نام پر کبھی یہ نہیں کہتے کہ کوئی فرقہ دوسرے فرقے کے عقائد کو جیسے بھی ہو قبول کر لے۔ جی نہيں، اتحاد کے یہ معنی نہيں ہیں۔ اتحاد کے یہ معنی ہيں کہ مختلف مکاتب فکر، مختلف قومیتیں، مشترکہ امور پر توجہ دیں، اختلافی امور کو، برادرکشی، جنگ و دشمنی کی بنیاد قرار نہ دیں۔ اتحاد کے معنی یہ ہیں۔ تاہم حقیقت کے بیان اور اس کی جستجو کی غرض سے تمام مسلمانوں سے یہ ایک منطقی درخواست ہے کہ وہ جائيں، تحقیق کریں، غور کریں، ان چیزوں پر جو شیعہ محققین نے لکھی ہيں۔ خود ہمارے عصر حاضر کے علماء نے جو کچھ تالیفات و تصنیفات انجام دی ہیں اور جن کی علمائے اسلام، اسلامی دانشوروں اور اسلام کی اہم شخصیات نے تعریف کی ہے ان سب چیزوں پر غور کریں، خود کو چہار دیواری میں بند نہ کریں اور ان امور سے خود کو محروم نہ رکھیں۔ سید شرف الدین عاملی مرحوم رضوان اللہ علیہ کی کتابیں، اسی طرح علامہ امینی کی اہم کتاب الغدیر ان کتابوں میں حقائق کو اکٹھا کیا گيا ہے۔ غدیر کا واقعہ تاریخی طور پر ایک مسلمہ واقعہ ہے۔ دسیوں کتابوں میں اس کا ذکر ہے اور علامہ امینی نے اہل سنت کے دسیوں راویوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے غدیر کے واقعہ کو اسی طرح سے نقل کیا ہے جس طرح سے ہم اس واقعہ کا ذکر کرتے ہيں۔ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جس کا ذکر صرف ہماری کتابوں میں کیا گيا ہو۔ ہاں مولا کے معنی میں یقینا کچھ لوگ شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہيں جبکہ کچھ لوگ ایسا نہيں کرتے لیکن بہرحال واقعہ کی حقانیت سے کسی کو انکار نہيں ہے۔ یہ در حقیقت ایک معیار کا تعین ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ امیر المومین علی ابن ابی طالب علیہ آلاف التحیۃ و السلام رفعت و بلندی کا (قابل تقلید) نقطہ کمال ہیں اسلامی حکمرانوں اور اسلامی حکومت کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے بھی۔
ان کی نوجوانی، اسلامی نوجوانوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔ پاکیزگی، بصیرت، صداقت، حقیقت پر نظر، اس کی شناخت، اس کے لئے سعی و کوشش، اس کی اپنے پورے وجود سے حفاظت و پاسداری، خطروں سے کھیلنا، خطروں کو خاطر میں نہ لانا، صحیح راستے سے سوئی کی نوک برابر بھی منحرف نہ ہونا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت پر نظريں گڑائے رکھنا، «يحذو حذو الرّسول» (9) آنحضرت کے نقش قدم پر چلنا، اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا اور اس کے ساتھ ہی ہر لحظہ اپنے علم کے ذخیرے میں اضافہ کرتے رہنا، زندگی کے تمام مراحل میں اپنے علم و عمل میں مطابقت بنائے رکھنا۔ یہ ہے امیر المومنین کی نوجوانی کا دور۔ زندگی کے درمیانی اور آخری دور میں بھی امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی، عجیب و غریب اور سخت امتحانات سے گزری ہے اور ان سب مواقع پر امیر المومنین علیہ السلام نے صبر عظیم اور صبر جمیل کا مظاہرہ کیا اور جب بھی اسلامی مفادات کو کوئی خطرہ لاحق ہوا، آپ نے اسلامی مفادات کو تمام چیزوں حتی اپنے مسلمہ حق پر ترجیح دی۔ امیر المومنین علیہ السلام اگر چاہتے تو جب انہيں یہ محسوس ہوا تھا کہ ان کا حق خطرے میں ہے اور ان کا حق مارا جا رہا ہے تو قیام کر دیتے۔ علی کو تو کسی سے خوف نہيں تھا۔ وہ تو ایسے تھے کہ اگر آگے بڑھتے تو بہت سے لوگ ان کے پیچھے چل پڑتے لیکن «فأمسكت بيدى يدى حتّى رأيت راجعة النّاس قد رجعت عن الإسلام يدعون إلى محق دين محمّد (صلّى اللَّه عليه و آله)»(10) خود آپ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ دین مخالف جذبات، دلوں میں پیدا ہو رہے ہيں اور دشمن اور مخالفین، حالات سے فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہیں، اس لئے میں نے میدان میں قدم رکھا اور دین کا دفاع کیا، اپنا حق چھوڑ دیا۔ حضرت علی علیہ السلام اس طرح سے اسلام کے مفادات پر توجہ دیتے ہيں اور پھر جب، قضا و قدر کے ذریعے ہوئے فیصلوں کے تحت حکومت اور زمامداری آپ تک پہنچتی ہے اور لوگ آپ کے پاس جاتے ہيں، اصرار کرتے ہیں اور امیر المومنین سے درخواست کرتے ہيں کہ وہ اقتدار سنبھال لیں تو آپ پوری طاقت سے میدان عمل میں آ جاتے ہيں: «لايخاف فى اللَّه لومة لائم»(11) کسی چیز سے نہيں گھبراتے، کسی بھی طرح کی ملامت انہيں اپنے راستے سے ہٹانے میں کارگر نہیں ہوتی۔ ایک مکمل نمونہ عمل۔ یہ ہیں امیر المومنین۔ یہ وہ اعلی انسان ہیں جن کی عظمتوں کا شیعہ قصیدہ پڑھتے ہيں۔ اس پر تمام اسلامی امہ کو توجہ دینی چاہئے۔
صاحب الغدیر علامہ امینی مرحوم اور شہید مطہری کی نظر میں غدیر کا واقعہ، اسلامی امت میں اتحاد کا محور ہے۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ غدیر کا واقعہ اختلاف کا باعث ہے۔ جی نہيں، آج آپ غور کریں، ہمیشہ سے کہیں زيادہ، البتہ ماضی میں بھی یہ سلسلہ تھا، شیعوں پر الزامات عائد کئے جا رہے ہيں۔ آپ غور کریں، تشیع وحی الہی کے بارے میں صحیح و خالص عقیدے کا نام ہے، تشیع کے یہ معنی ہیں۔ اس کے معنی اقدار پر یقین، معیاروں پر یقین، ان معیاروں کو پیمانہ بنانے پر یقین ہے جنہیں قرآن مجید نے معیار قرار دیا ہے۔ یہ جو دنیا کے گوشہ و کنار میں بیٹھے کچھ لوگ فضول باتیں کرکے شیعوں پر طرح طرح کے الزامات عائد کرتے ہيں وہ ان چیزوں کا جن سے شیعہ کوسوں دور ہيں جیسے، جعلی و خود ساختہ ہونا یا بعد میں ظہور پذیر ہونا یا سیاسی مکتب فکر ہونا، (الزامات عائد کرتے ہیں) لیکن غدیر کا واقعہ ان تمام الزامات پر خط بطلان کھینچ دینے کے لئے کافی ہے۔
جو لوگ اس عظيم اسلامی مکتب کو، اسلام سے خارج قرار دینے کی کوشش کرتے ہيں انہيں اس سے کیا حاصل ہونے والا ہے؟ آج اس طرح کی پالیسیاں بنائی جا رہی ہيں، اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ شیعہ، ولایت کے جذبے کی وجہ سے ایسا کام کرنے میں کامیاب ہو گئے ہيں جس کی آرزو تمام مسلمانوں کو تھی۔ اسلام کا درد رکھنے والے اور تمام خیر خواہ مسلمانوں کی یہ آرزو تھی کہ کبھی اسلام بھرپور انداز میں اور اپنی پوری حقانیت کے ساتھ زمام اقتدار سنبھالے۔ اسلامی دانشوروں نے گزشتہ چند صدیوں کے دوران اسی آرزو میں زندگی گزاری ہے اور یہ حسرت دل میں لئے اس دنیا سے چلے گئے۔ آج شیعوں نے ان کی آرزو کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ یہ اسلامی حکومت، یہ اسلامی عظمت، یہ اسلامی عزت و وقار، یہ سب کچھ ولایت کے جذبے کی برکتوں سے ہے۔ دشمن جب یہ سب دیکھتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ شیعوں کے کردار کو، ولایت پر ایمان رکھنے والوں کے کردار کو ختم کر دے۔ اسی لئے آج شیعوں پر کسی بھی زمانے سے زیادہ الزامات کی بوچھار کی جا رہی ہے۔ تاریخ میں ہمیشہ ایسے کج فہم افراد رہے ہیں جو شیعوں کے خلاف بولتے تھے، ان پر الزامات عائد کرتے رہتے تھے، ان کے خلاف جھوٹ گڑھتے رہتے تھے لیکن اس وقت الزامات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور اس میں سیاسی اغراض کار فرما ہیں۔ وہ لوگ اسے سمجھ کیوں نہيں رہے ہيں؟
ہمیں بھی یہ سمجھنا چاہئے، ہم شیعوں کو بھی یہ سمجھنا چاہئے، ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ عالمی سامراج کا مقصد، شیعوں کو غیر شیعوں سے الگ کرنا ہے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا اور انہیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کرنا ہے۔ ہمیں اس مقصد کی تکمیل میں تعاون نہيں کرنا چاہئے۔ ہمیں ایسا موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے کہ دشمن کو اپنے اس ہدف کی تکمیل میں سہولت ہو۔ یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے اور غیر شیعہ افراد کی بھی۔ جو لوگ شیعہ نہيں ہیں بلکہ دیگر اسلامی فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان سب کو یہ جان لینا چاہئے کہ آج یہ شیعہ ہیں جو اسلامی مملکت ایران میں اسلامی اقتدار و عزت کے پرچم کو بلند کئے ہيں، اسے مضبوطی سے تھامے ہوئے ہيں، جس کی وجہ سے سامراج، عاجزی کا احساس کر رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے؛ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ یہ جو گزشتہ تیس برسوں کے دوران، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مختلف دشمنوں نے جن کی قیادت امریکا اور خبیث ترین دشمن برطانیہ نے کی ہے، جو سازشیں رچی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب خوف زدہ ہیں، اسلامی تحریک سے، اسلامی بیداری سے۔ وہ اس بات سے ڈرتے ہيں کہ عالم اسلام میں خود شناسی کا جذبہ عام نہ ہو جائے۔ انہيں علم ہے کہ اگر عالم اسلام بیدار ہو جائے گا، سب کچھ سمجھنے لگے گا، خودمختاری کے جذبے سے آشنا ہو جائے گا، اپنی شناخت حاصل کر لے گا، اپنے مقام اور منزلت کا ادراک کر لے گا تو دنیا کا یہ اہم ترین علاقہ، جو مسلمانوں کے قبضے میں ہے اور جہاں مسلمان رہتے ہيں، وہ سامراج کے تسلط سے نکل جائے گا۔ وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں۔ چونکہ ڈرتے ہيں اس لئے سازشیں رچتے ہيں۔ مختلف حربوں کا استعمال کرتے ہيں۔ آج سامراجی پالیسیاں بنانے والے امریکی، صیہونی اور دیگر سامراجی عمائدین اپنی پوری طاقت سے ایرانی قوم کو اور اسلامی نظام کو الگ تھلگ کر دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہيں لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے اور انشاء اللہ مستقبل میں بھی کبھی انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔
آپ اسی ایٹمی معاملے میں دیکھئے، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اب وہ جھوٹ کا سہارا لے رہے ہيں۔ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کر رہے ہيں اور دروغ گوئی پر اتر آئے ہيں۔ کسی ایک ریڈیو نشریات یا کسی مخصوص جریدے اور اخبار کی بات نہيں ہے، تمام مغربی سیاست داں یعنی وہ لوگ جو صیہونیوں کے زیر اثر ہيں، ان کا بس یہی پیشہ ہو گیا ہے: وہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرتے ہيں، جھوٹ بولتے ہيں اور جھوٹے نعرے گڑھتے ہيں۔ ہم ان سربراہان مملکت سے یہ کہتے ہیں کہ اتنا جھوٹ نہ بولیں۔ یہ مغربی حکومتیں، امریکی حکومت، برطانیوی حکومت اور کچھ دوسری یورپی حکومتیں عالمی رائے عامہ کو اتنا گمراہ نہ کریں۔ یہ جھوٹ خود انہيں ہی نقصان پہنچائيں گے۔ وہ خود بھی آزما چکی ہیں، دیکھ چکی ہیں۔ جب بھی انہوں نے جھوٹ بولا اور غلط بات کی اور بعد میں جب حقیقت کھلی تو ان کی عزت مٹی میں مل گئی ہے۔ جیسا کہ حالیہ کچھ امور میں دیکھنے میں آیا۔ ان حکومتوں نے جھوٹ بولا، رائے عامہ کو گمراہ کیا اور اس کی بنیاد پر کچھ اقدامات بھی کر ڈالے، بعد میں حقیقت کھل گئ۔ ان حکومتوں کی اس طرح کی حرکتوں پر خود ان کی قومیں ہی ان کا گریبان پکڑیں گی۔
ایٹمی میدان میں ایران جس چیز کے لئے کوشاں ہے وہ انتہائی اہم ٹیکنالوجی ہے؛ ایسی ٹیکنالوجی جس کے حصول کے لئے اگر ایرانی قوم نے آج کوشش نہيں کی تو کل دیر ہو چکی ہوگی۔ کل جب تیل نہیں ہوگا اور عالمی معیشت کا پہیہ ایٹمی انرجی پر گھومے گا تو ایرانی قوم کا ہاتھ خالی ہو گا، وہ دوسروں کے آسرے پر بیٹھی ہو گی۔ وہ لوگ یہی چاہتے ہیں ۔ ہمارا ایٹمی معاملہ یہ ہے، جس کا ذکر میں کئی بار کر چکا ہوں۔
ہم آج ایٹمی ٹیکنالوجی کے لئے، جو ہمارے لئے انہتائی اہم ہے، محنت کر رہے ہيں تاکہ بیس برس بعد، تیس برس بعد ہماری نسلیں، ہمارے نوجوان، ہماری آئندہ نسل، ایرانی قوم، مغرب کی دست نگر نہ رہے۔ آج جب تیل ہمارے پاس ہے، ہماری سرزمین سے نکالا جاتا ہے اور پھر مغربی ممالک کو دیا جاتا ہے تب تو عالم یہ ہے کہ وہ اسی تیل کی بنا پر ہمارے اوپر دھونس جما رہے ہیں! آج ہمارے علاقے سے نکلنے والے تیل کا جو فائدہ مغرب کو مل رہا ہے وہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ملنے والے فائدہ سے زيادہ ہے! آج جب تیل ہمارا ہے، ہمارے پاس ہے، ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ زور زبردستی کرتے ہيں تو کل جب ہم ایٹمی انرجی خود ان سے حاصل کرنا چاہيں گے تو آپ سوچ سکتے ہيں کہ اقوام عالم کی کیا حالت ہوگی۔ اسلامی جمہوری نظام اس دن کی فکر میں ہے۔ اسی لئے ہمارا یہ اصرار ہے کہ یہ ٹیکنالوجی، یہ علم، یہ دانش اور یہ طاقت خود ہم حاصل کر لیں لیکن وہ ہنگامہ کھڑا کرتے ہيں کہ آپ کیوں یہ چیز حاصل کرنا چاہتے ہيں؟ اس کے ساتھ ہی الزامات عائد کرتے ہيں، عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرتے ہيں کہ یہ لوگ ایٹم بم بنانا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے ہیں ویسے ہيں۔ ...(12) یہ باتیں بالکل واضح ہیں، آپ خود غور کریں، یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ یہ ایرانی قوم کا مسلمہ حق ہے، بس بات یہ ہے کہ عالمی سامراج، ایرانی قوم کو اس کے اس مسلمہ حق سے محروم کرنے کے لئے مختلف حربوں، حیلوں اور مکاریوں سے کام لے رہا ہے۔ (اس لئے) اپنے اندر بصیرت پیدا کرنا چاہئے، با خبر اور بیدار رہنا چاہئے۔ اقوام کو اپنے راستے پر چلنے کے سلسلے میں نازک مواقع پر اس بات پر بھی نظر رکھنا چاہئے کہ دشمن کیا کر رہا ہے۔ جب وہ یہ دیکھتے ہيں کہ کسی قوم سے فوجی راستے سے نمٹنا ممکن نہيں ہے، دھونس دھمکی سے کام نہيں بن رہا ہے تو پھر وہ دوسرے راستوں سے رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا۔ اختلافات پیدا کرتے ہيں، دشمنی کا بیج بوتے ہيں اور بے بنیاد باتیں کرتے ہيں۔
آج عالمی سامراج جن امور پر اپنے تشہیراتی پروپگنڈوں میں خاص توجہ دے رہا ہے ان میں سے ایک ملک کے اندر اختلافات پیدا کرنا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جنہیں اس سلسلے میں (اپنے غیر ذمہ دارانہ عمل کے لئے) خدا کے سامنے جواب دینا ہوگا کہ وہ کیوں ایسا کام کرتے ہيں کہ جسے دشمن، اختلافات کی شکل میں پیش کرتا ہے اور اس کی جرئت بڑھ جاتی ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمیں دشمن کو پہچاننا چاہئے، دشمن کے ہتکنڈے کو پہچاننا چاہئے، ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم کیا کہہ رہے ہيں اور دشمن کس طرح سے ہماری باتوں سے غلط فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کی ہمت بڑھ سکتی ہے، اس کے حوصلے بلند ہو سکتے ہيں اور مداخلت اور دراندازی کی کوششیں تیز کر سکتا ہے؛ یہ وہ امور ہیں جن پر توجہ رہنی چاہئے۔ البتہ الحمد للہ ہماری قوم، صابر، غیرت مند اور ثابت قدم ہے اور اس نے اس کو ثابت بھی کیا ہے۔ ہماری قوم نے گزشتہ تیس برسوں کے دوران اور اس سے پہلے انقلاب کے دوران یہ ثابت کیا ہے کہ ہم صبر سے کام لینے والے ہیں۔ اب یہ سامراجی عمائدین اور ان کے ترجمان اپنے پروپیگنڈوں میں رٹتے رہیں کہ ہمارا صبر ختم ہو رہا ہے، ہماری قوت ضبط جواب دے رہی ہے۔ وہ ایران کے بارے میں اپنے صبر کی بات کرتے ہيں! آپ لوگوں نے تو ایرانی قوم کے معاملے میں کبھی صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا ہی نہيں ہے۔ آپ لوگوں نے کب صبر کیا؟ جب بھی اور جہاں بھی جو بن پڑا کیا، جو کچھ ہو سکا ایرانی قوام کے خلاف آپ لوگوں نے کیا، آپ لوگوں نے کب صبر کیا ؟ کیا سازشیں نہيں کیں؟ اقتصادی پابندیاں عائد نہيں کیں؟ فوجی حملہ نہيں کیا؟ علاقے میں اپنے پالتو کتوں کو آزاد نہيں چھوڑا؟ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اسرائیل کو کھلی چھوٹ نہیں دی؟ آپ لوگوں نے کب صبر کا مظاہرہ کیا کہ جو اب کہہ رہے ہيں کہ ہمارا صبر ختم ہو رہا ہے؟ صابر تو ایرانی قوم ہے۔ یہ ہم ہیں جنہوں نے صبر کیا ہے۔ یہ ہم ہیں جنہوں نے پائیداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے آپ لوگوں کی سازشوں، پروپیگنڈوں اور ہنگاموں کو نظر انداز کیا اور اپنے راستے پر چلتے رہے۔ ہماری قوم اسی راستے پر، اس راستے پر جس کی سمت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ہماری رہنمائی کی ہے، اپنے پورے وجود سے اللہ کی مدد اور قوم کے نوجوانوں کے عزم و ارادے کی بدولت چلتی رہے گی اور انشاء اللہ اپنی منزل مقصود پر پہنچے گی۔
کوشش کرتے رہیں، نوجوانو! عمل کرتے رہو، بصیرت کا دامن تھامے رہو، امیر المومنین علیہ السلام نمونہ عمل ہيں، آپ نوجوانوں کے لئے نمونہ عمل ہيں۔ امیر المومنین علیہ السلام کا علم، ان کا تقوا اور ان کی پاکیزگی نمونہ عمل ہے۔ ان سب چیزوں سے متمسک رہو، اللہ کی راہ میں جہاد، اللہ کی راہ میں جد و جہد، ہر شعبے میں جہاد کے اپنے معنی ہوتے ہيں، ان سب چیزوں سے الگ نہ ہو اور جان لو کہ انشاء اللہ ہمارے ملک کا مستقبل، آج سے کئی گنا بہتر ہوگا اور وہ مستقبل آپ کا ہے۔ خدا کرے امام علی علیہ السلام کی مقدس روح کی تائید اور حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی دعائيں آپ سب کے شامل حال رہيں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) مائده: 67
2) مائده: 67
3) مائده: 3
4) مائده: 67
5) احتجاج، ج 1، ص 78
6) بقره: 207
7) انسان: 8
8) مائده: 55
9) مفاتيح‌‏الجنان، دعائے ندبه‏
10) نهج‏‌البلاغه، 451، نامه‏‌ى 62
11) بحارالانوار، ج 68، ص 360
12) حاضرین کا نعرہ : ایٹمی انرجی ہمارا مسلمہ حق ہے۔