بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ محترم اور معزز حضرات کی خدمت میں آنے کا موقع ملا۔ میں ان تمام حضرات کا جنہوں نے دوسرے شہروں سے یہاں تشریف لانے کی زحمت کی ہے، شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کاش مجھے یہ موقع ملتا کہ اس صوبے کے ایک ایک شہر کا بذات خود سفر کرتا اور آپ حضرات سے ان علاقوں میں ملاقات کرتا جہاں آپ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ مختلف شہروں سے حضرات تشریف لاتے ہیں لیکن افسوس کہ مجھے یہ توفیق حاصل نہیں ہے۔ آپ حضرات سے ملاقات کے پروگرام میں یہ طے نہیں تھا کہ میں مخل ہوں اور تقریر کروں۔ لیکن اب یہ طے پایا ہے کہ میں چند جملے عرض کروں۔ یہ واضح باتوں کی وضاحت ہے۔ لیکن بہرحال یاد دہانی ہمیشہ ہی مفید واقع ہوتی ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ صاحبان علم اور علمائے کرام کے لئے یہ دور بہت اہم ہے۔ چاہے وہ علمائے کرام ہوں جو سرکاری اداروں میں، جیسے عدلیہ میں، یا حکومتی اداروں میں خدمت میں مصروف ہیں اور چاہے وہ حضرات ہوں کہ جو مختلف شہروں میں تعلیم دینے کے کام میں مصروف ہیں، خطیب جمعہ کے فرائض انجام دیتے ہیں، مساجد میں امامت کرتے ہیں اور وعظ و تبلیغ کے کام میں مصروف ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ آج ہم سے عوام کی توقعات ماضی کی نسبت زیادہ ہو گئی ہیں۔ علمائے کرام نے عوام کو دعوت دی، مراجع اسلام اور سب سے بڑھ کے ہمارے عظیم امام (خمینی طاب ثراہ) نے عوام کو اسلام پر عمل کرنے اور معاشرے میں اس کے نفاذ کی دعوت دی۔ یہ دعوت عظیم انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل پر منتج ہوئی۔ اب دعوت دینے والے پر جو نیکیوں کا حکم دینے والا ہے، لازمی طور پر دو فرائض عائد ہوتے ہیں۔ ایک اس کا ذاتی فریضہ ہے کہ وہ خود اللہ کو حاضر و ناظر جان کر عمل کرے اور دوسرا انقلاب کے ساتھ چلنا اور انقلاب کی پیشرفت میں خدمت کرنا۔ دونوں اہم ہیں۔ لیکن اگر خدا نخواستہ ہم پہلے فریضے میں کوتاہی کریں تو معنویت اور علمائے کرام پر عوام کا یقین کمزور ہو جائے گا۔ کیونکہ ہم توپ، ٹینک اور اس طرح کی دوسری چیزوں کے ساتھ تو آگے نہیں آئے ہیں۔ ہم تو اس اعتقاد کے سہارے آگے آئے ہیں جو عوام کا علمائے کرام پر تھا۔
میں نے ایک بار امام (خمینی طاب ثراہ) سے عرض کیا کہ اس انقلاب میں اور اس کی کامیابی میں علمائے کرام کی عزت و آبرو کا ایک ہزار سالہ ذخیرہ کام آیا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ صرف موجودہ نسل کے علمائے کرام اور حضرت امام (رضوان اللہ تعالی علیہ ) کی ذات گرامی نے اکیلے یہ کام کیا ہو۔ ہمارے امام کو جو عزت حاصل تھی وہ عوام میں شیعہ علماء کی ایک ہزار سالہ اچھی تاریخ کی دین تھی۔ شیخ طوسی اور سید مرتضی اور ان کے ادوار سے لیکر ہمارے دورتک کے علمائے کرام میں سے ہر ایک نے شیعہ علماء کی عزت و حیثیت میں اضافہ کیا۔ یہ تمام عزت و حیثیت کام آئی تو انقلاب کامیاب ہوا۔ آپ نے اس بات کی تصدیق کی۔
اگر آج خدا نخواستہ ہماری ذاتی راہ و روش میں کسی ایسی چیز کا مشاہدہ ہو جو اس سے تضاد رکھتی ہو جو عوام ہمارے بارے میں سوچتے ہیں تو عوام کے ایمان پر ضرب لگے گی اور نتیجے میں ستون کمزور ہو جائے گا۔ یہ پہلا فریضہ ہے۔ لہذا ہمارا فریضہ ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ خدائی اور شرعی پہلوؤں کی اور ان باتوں کی جن سے علمائے کرام پہچانے جاتے ہیں، جیسے آزاد منشی، دنیاوی ذخائر سے بے اعتنائی، مادی اقتدار اور مال و دولت سے بے لوثی، خدا سے ارتباط اور توسل، پرہیزگاری، حرام چیزوں سے دوری اور علم پر توجہ کہ عوام علماء کو ان کے علم سے پہچانتے ہیں، ان چیزوں کی پابندی کریں۔ یہ پہلے قسم کے فرائض ہیں جو ہمارے ذاتی فرائض ہیں۔ ان باتوں کا خیال رکھیں اور ان کو اہمیت دیں۔
دوسرا فریضہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے دوام میں مستقل طور پر شریک رہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ عالم دین خود کو الگ کر لے اور کہے کہ ہم سے مطلب نہیں ہے۔ کیسے مطلب نہیں ہے؟ حکومت دین، حکومت اسلام ہم سے تعلق نہیں رکھتی؟ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو ہم سے ہزاروں میل کے فاصلے پر ہے، اگر دین کی بنیاد پر کوئی حکومت قائم ہوتی تو ہمارا اور آپ کا فریضہ تھا کہ اس حکومت کی مدد کریں۔
دین کا قیام فریضہ ہے۔ حاکمیت دین تمام ادیان کا اہم ہدف ہے۔ لیقوم الناس بالقسط (1) عدل و انصاف کا قیام اور حاکمیت الہی، ادیان کا عظیم ہدف ہے۔ ہمارے ائمہ ( علیہم السلام) نے تمام مصیبتیں اور تکلیفیں اس لئے برداشت کیں کہ حاکمیت الہی کی فکر میں تھے۔ ورنہ اگر امام صادق اور امام باقر ( علیہما السلام) ایک گوشے میں بیٹھ جاتے اور چند افراد کو اپنے گرد جمع کرتے اور صرف شرعی مسئلہ بیان کرتے تو کسی کو ان سے کوئی سروکار نہ ہوتا۔ خود امام صادق (علیہ السلام) ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ ھذا ابو حنیفہ لہ اصحاب و ھذا الحسن البصری لہ اصحاب (02) ابوحنیفہ کے بھی اصحاب ہیں اور حسن بصری کے بھی اصحاب ہیں۔ تو ان سے کوئی سروکار نہیں رکھتے؟ اس لئے کہ جانتے ہیں کہ آپ امامت کے دعویدار ہیں لیکن وہ امامت کے دعویدار نہیں ہیں۔ ابوحنیفہ امامت کے دعویدار نہیں تھے۔ یہ معروف اہلسنت علماء ان کے محدثین اور فقہاء امامت کے دعویدار نہیں تھے۔ وہ ہارون، منصور اور عبدالملک کو اپنے زمانے کا امام مانتے تھے۔
کہتے ہیں کہ جب سلیمان بن عبدالملک دنیا سے گیا تو محمد بن شہاب زہری کی کتب کو اس کے خزانے سے نکالا گیا۔ اس کا امام زمانہ سلیمان بن عبدالملک تھا۔ اس کے لئے کتاب لکھتا تھا۔ امام یعنی کیا؟ امام یعنی دین و دنیا کا سرپرست۔ وہ (اس کا ) دین و دنیا کا سرپرست تھا۔ حتی اس کے باوجود کہ ہارون اور بقیہ خلفائے جور جو تھے، انہوں نے کچھ پڑھا نہیں تھا کیونکہ ان کے پاس پڑھنے لکھنے کا وقت نہیں تھا۔ وہ شاہزادے اور آقا زادے تھے۔ جیسے ہارون رشید بائیس سال کا تھا جب خلیفہ بنا ہے۔ بعض پچیس اور تیس سال کے تھےاور کچھ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہی عابد و زاہد جن کے نام سنے ہیں، جیسے عمروبن عبید وغیرہ جب ہارون کا سامنا ہوتا تھا تو اعتراف کرتے تھے کہ ہارون ان سے زیادہ جاننے والا ہے۔
مالک کو کسی معاملے میں مدینے کے گورنر نے زد و کوب کیا۔ اس کے بعد خلیفہ نے اس سے بہت زیادہ عذر خواہی کی اور اس کے لئے پیسے بھیجے۔ پھر مکے اور مدینے کے سفر میں اس کو اپنی طرف مائل کیا اور پھر ابوحنیفہ کے اصحاب سے جو فقہی لحاظ سے مالک کے مخالف تھے، بحث شروع کی اور مالک کے عقائد کو ثابت کیا۔ یعنی کیا ؟ یعنی یہ کہ وہ مجتہد اور فقیہ تھا۔ دین و دنیا کا سرپرست تھا۔
یہ امامت کے دعویدار نہیں تھے۔ امامت کے دعویدار ہمارے یہی مظلوم اور عزیز امام تھے۔ امام صادق ( علیہ السلام ) اور امام باقر (علیہ السلام) امام موسی بن جعفر (علیہ السلام) یہ ان اس کو سمجھتے تھے۔ یعنی واضح تھا۔ البتہ بعض اوقات خلفاء کے سامنے تقیہ کرتے تھے۔ لیکن ظاہر تھا کہ امامت کے دعویدار ہیں۔ ان کے شیعہ ہر جگہ اسی عقیدے کے حامل تھے۔
جب وہ موسی بن جعفر ( سلام اللہ علیہ ) کی برائی کرنا چاہتے تھے تاکہ ہارون آپ کو زندان میں ڈال دے تو جس شخص نے ہارون کے پاس آکے آپ کی برائی کی اس نے کہا خلیفتان فی الارض موسی بن جعفر بالمدینہ یجبی لہ الخراج و انت بالعراق یجبی لک الخراج ( 3) پوچھا کیا دو خلیفہ کے لئے خراج ایک ساتھ ہو سکتا ہے؟ ہارون نے کہا میرے علاوہ کس کے لئے؟ کہا خراسان ہرات اور مختلف جگہوں سے لوگ اپنے مال کا خمس موسی بن جعفر( علیہ السلام) کے پاس لے جاتے ہیں۔
لہذا اچھی طرح توجہ دیں، مسئلہ دعوہ خلافت و امامت کا تھا۔ اس دعوے کی وجہ سے ہماے آئمہ قتل کئے گئے اور زندان میں قید کئے گئے۔ امامت کیا ہے؟ کیا امامت یہی ہے کہ مسئلہ بیان کریں اور دنیا کوئی اور چلائے؟ کیا شیعوں اور مسلمانوں کی نگاہ میں امامت کے معنی یہی ہیں؟ کوئی بھی مسلمان اس کا قائل نہیں ہے۔ ہم اور آپ، شیعہ اس بات کے قائل کیسے ہو سکتے ہیں؟ امام صادق ( علیہ السلام ) امامت چاہتے تھے یعنی دین اور دنیا کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ حالات سازگار نہیں تھے۔ لیکن وہ اس کے دعویدار تھے اور اسی دعوے کی وجہ سے ان ہستیوں کو قتل کیا گیا۔
حاکمیت دین کا مطلب یہی ہے جس کے لئے پیغمبروں نے مجاہدت کی اور آئمہ قتل کئے گئے۔ اب یہ حاکمیت دین ہمارے شہر اور وطن میں، دنیا کے کسی کونے میں نہیں (بلکہ ہمارے ہاں) قائم ہوئی ہے؛ کیا ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ میں دیندار ہوں، عالم ہوں اور خود کو اس دین کا سپاہی نہ سمجھے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ جو بھی دینداری کا دعوا کرے لیکن اس حکومت کو جو دین کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو، اس کو اپنی حکومت اور اس کے دفاع کو اپنا فریضہ نہ سمجھے، غلط بیانی کرتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غلطی کر رہا ہے، حقیقت کے خلاف بول رہا ہے لیکن سمجھ نہیں رہا ہے۔ بعض لوگ متوجہ نہیں ہیں۔ ان کی تشخیص اور ہے۔ وہ اس بات کے منکر ہیں کہ یہ منصوبے دین کی اساس پر ترتیب دئے گئے ہیں۔
اس وقت ہمارے یہ قوانین کس بنیاد پر ہیں؟ دین کی بنیاد پر نہیں ہیں؟ تو نگہبان کونسل کا کام کیا ہے؟ عدلیہ کے قوانین، ملک کے قوانین اور تمام چیزیں شرع پاک کی اساس پر ہیں۔ ایک ایسی حکومت قائم ہوئی ہے۔ اب ہم اپنی عبا کا دامن سمیٹیں، خود کو الگ کر لیں اور کہیں کہ مجھے ان کاموں سے کوئی واسطہ نہیں ہے؟ ان کاموں سے آپ کو واسطہ کیسے نہیں ہے؟ امیرالمومنین ( علیہ السلام) کے زمانے کے تقدس مآبوں کی طرح کہ جب علی بن ابیطالب ( علیہ السلام) معاویہ یا اہل شام یا اہل بصرہ سے جنگ کرتے ہیں تو آپ کی خدمت میں آکے کہتے ہیں یا امیر المومنین انا شککنا فی ھذا القتال (4) فرمایا شک؟ کیسا شک؟ کہا وہ مسلمان بھائی ہیں۔ ہمیں سرحدوں کی نگرانی کے لئے بھیج دیجئے۔ فرمایا جاؤ، مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ واقعی امیر المومنین (علیہ السلام ) کو ان جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں تھی۔ کہتے ہیں ربیع بن خثیم تھے، لیکن میں ان سے یہ بات منسوب نہیں کروں گا۔ عبداللہ بن مسعود کے اصحاب انہیں باطل خیالات کے ساتھ امیر المومنین سے دور ہو گئے۔ آج ہم آپ انہیں پسند نہیں کرتے۔
آپ عمار کو سلام اللہ علیہ کہتے ہیں لیکن ایک اور صحابی، عمار کے ساتھی کو سلام اللہ علیہ نہیں کہتے جبکہ وہ بھی مکے سے تھا اور اس نے بھی مکے میں مار کھائی تھی۔ اس لئے کہ نازک وقت میں عمار نے غلطی نہیں کی حقیقت فہمی سے کام لیا لیکن اس نے غلطی کی ۔
دیکھئے عمار کے راستے کو سیدھا راستہ کہتے ہیں۔ میری نظر میں عمار کو کما حقہ اب بھی نہیں پہچانا جا سکا ہے۔ عمار یاسر کو خود ہم بھی اچھی طرح نہیں پہچانتے۔ عمار یاسر ایک پختہ حجت الہی ہیں۔ میں نے امیر المومنین ( علیہ الصلوات والسلام) کی زندگی پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ عمار جیسا کوئی نہیں ہے۔ یعنی اصحاب رسول میں سے کوئی بھی اس مدت میں عمار کا کردار نہیں رکھتا تھا۔ وہ زندہ نہ رہے لیکن ان کی بابرکت حیات جاری رہی۔ جب بھی اصحاب کے سلسلے میں امیر المومنین ( علیہ السلام ) کے لئے کوئی ذہنی مشکل در پیش ہوئی، یعنی کسی گوشے میں شبہ پیدا ہوا تو اس ہستی کی زبان نے شمشیر براں کی طرح آگے بڑھکر مسئلے کو حل کر دیا۔ آپ کی خلافت کے آغاز میں بھی اور جمل و صفین کی جنگوں میں بھی۔ صفین میں عمار کی شہادت واقع ہوئی۔
عمار کی طرح ہوشیار رہنے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا فریضہ کیا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ہم سے کیا واسطہ۔ آج ہر عالم دین اور اپنے سر پر عمامہ رکھنے والے ہر شخص کا، اس کے (عالم دین کے ) لباس کی بنا پر فریضہ ہے کہ اسلامی حکومت اور حاکمیت قرآن کا دفاع کرے۔ ہر شخص جیسے بھی اس سے ہو سکے۔ کوئی اسلحہ اٹھا کر محاذ پر جاتا ہے، کوئی منبر پر جاکر خطابت کرتا ہے، کوئی عدالتی یا غیر عدالتی عہدے پر خدمت کرتا ہے، جس سے جو بھی ہو سکے، انجام دیتا ہے۔ اہل مسجد و محراب ہے، کوئی حرج نہیں ہے۔ سب یہ جان جائیں کہ یہ عالم دین خود کو اس انقلاب کا خادم سمجھتا ہے۔ یہ افتخار ہے۔ انقلاب کی خدمت افتخار ہے۔
ہم خواب میں بھی نہیں سوچتے تھے کہ ایسا موقع پش آئے گا کہ ہم اس طرح اسلام کی خدمت کر سکیں گے۔ آج میدان کھلا ہوا ہے، حالات ساز گار ہیں اور قوم اتنی اچھی ہے۔ آپ اپنے لرستان کو ہی دیکھیں، آپ کے یہ عوام واقعی جواہر ہیں۔ لرستان کے عوام واقعی جواہر ہیں۔ پاکیزہ، منور، مخلص، آب زلال کی طرح شفاف اور عاشق دین۔ جیسے ہی کسی سے غلطی ہو ہمیں فورا پیشانی پر بل نہیں ڈالنا چاہئے اور یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اس نے سمجھا ہی نہیں اور یہ غلطی کر ڈالی۔ ہمیں اور آپ کو چاہئے کہ اس غلطی کو دور کریں۔ ایسے عوام کی خدمت، دین کی خدمت ہے۔ یہ وہ دو فرائض ہیں جو میں سمجھتا ہوں کا سر پر عمامہ رکھنے والے ہم اور آپ لوگوں کے ذمے ہیں۔
خدا وند عالم انشاء اللہ فرائض کی انجام دہی اور فرائض ہدایت کی توفیق ہمیں عنایت فرمائے۔ ہمیں ہرگز اس مقدس روحانی منصب سے الگ نہ کرے۔ ہمیں دین کے راستے اور اس مقدس اور افتخار آمیز شعبے کی خدمت کے لئے زندہ رکھے اور اسی راہ میں ہمیں موت دے۔ دعا ہے کہ حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ و عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا قلب مقدس ہم سے راضی ہو اور توفیق الہی سے ہم اسی طرح اپنے فرائض کو انجام دیں جو ہمارے عظیم امام ( رضوان اللہ تعالی علیہ) کے شایان شان ہے۔ حق یہ ہے کہ امام نے دین اور علمائے دین کوعزت عطا کی ہے۔ علمائے دین میں، جہاں تک ہم نے پہچانا ہے، غیبت صغری کا دور شروع ہونے کے بعد، دور اول سے لیکر اب تک ہمیں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) جیسی ممتاز اور برگزیدہ ہستی نظر نہیں آتی۔ حق یہ ہے کہ سب آپ سے چھوٹے ہیں۔ البتہ علمی لحاظ سے عظیم مجتہد اور بانیوں میں دوسرے بھی ہیں لیکن تمام پہلووں کے لحاظ سے، وہ چیز جو کسی شخصیت کو وجود میں لاتی ہے، شیخ مفید، سید مرتضی ، محقق، علامہ اور دیگر تمام ہستیوں سے لیکر میرزا شیرازی اور بقیہ علمائے کرام تک، حق یہ ہے کہ کوئی بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ آپ دوسرا ہی عالم تھے، ایک عمیق اور نا پیدا کنار سمندر تھے۔ خدا ہی جانتا تھا کہ آپ کتنے عمیق اور کتنے عجائبات کے مالک تھے۔ بہرحال انشاء اللہ جو آپ کے شایان شان ہے، اس طرح ہم آپ کے راستے پر چلیں اور آپ کے بتائے ہوئے خطوط پر عمل کریں۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1- حدید؛25 2-بحارالانوار، ج 72 ص، 74 3-بحارالانوار، ج48، ص239 4-بحار الانوار،ج 32، ص406