بسم اللہ الرحمن الرحیم

خوش آمدید۔ اس کونسل کی مفید عمر کو یہاں تک پہنچانے پر میں آپ لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں، خاص طور پر ان لوگوں کو جو اس کونسل کی تشکیل میں شروع سے ہی شریک اور اخلاص و سنجیدگی کے ساتھ اس کام میں مشغول رہے ہیں۔
الحمد للہ انجام پانے والی کوششیں قابل قدر ہیں۔ میں نے ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ جو جناب ڈاکٹر ہاشمی (1) نے انٹرویو میں پیش کی تھی، اخبار میں تفصیل سے پڑھی ہے۔ امید ہے کہ حضرات ہمت اور محنت سے کام لیکر، جیسا کہ اس کونسل کے نام اور فلسفے کا تقاضا بھی ہے، اس سیدھے راستے یعنی ثقافتی انقلاب میں اہم اور بنیادی کاموں کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ البتہ اس کے لئے شوق و ذوق، سعی و کوشش اور کاموں میں پیشرفت کا یقین رکھنے کی ضرورت ہے۔
جو ادارے کسی مقصد کے تحت قائم کئے جاتے ہیں، ان کی عمر جتنی بڑھتی اور تجربہ جتنا زیادہ ہوتا ہے، کاموں سے اتنی ہی زیادہ واقفیت ہوتی ہے؛ لیکن ایک نقصان بھی ہے جس کی روک تھام ضروری ہے اور وہ کام کا عادت بن جانا ہے۔ یعنی کام کا جذبے، شوق اور نشاط کی حالت سے نکل کے معمول کے رائج کام اور ایک عادت میں بدل جانا۔ یہ بڑا خطرہ ہے۔ شروع میں جب انسان کوئی کام کرتا ہے تو فطری طور پر زیادہ شوق و ذوق ہوتا ہے اور اس کام کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی توجہ دیتا ہے۔ اس شوق و ذوق کو ختم نہیں ہونا چاہئے کہ کام میں یکسانیت آ جائے۔
جناب آقائے یزدی (2) نے کونسل میں بعض افراد کے بڑھنے اور کام میں اس کی تاثیر کا ذکر کیا۔ یہی نکتہ میرے لئے قابل توجہ ہے۔ یعنی ایسا ہونا چاہئے کہ اس کونسل میں شوق و ذوق، تازگی اور سعی پیہم کی حالت کبھی ختم نہ ہو۔ بہر حال اس کا کچھ تعلق کونسل کی اندرونی حالت، اس کی انتظامیہ اور سیکریٹریئیٹ سے ہے، کچھ اس کے اراکین سے مربوط ہے اور کچھ کا ہم سے تعلق ہے۔ امید ہے کہ یہ اعلا کونسل اسی طرح صحیح سمت میں کام کرے گی اور ملک کے ثقافتی میدان میں گہری اور بنیادی کوششوں میں کامیاب رہے گی۔
مدتوں پہلے سے، جب میں بھی اس کونسل میں تھا اور یہ توفیق حاصل تھی کہ ہر ہفتے حضرات سے ملاقات ہوتی تھی، کونسل میں یہ فکر پائی جاتی تھی کہ کونسل اپنے اصلی کام تک ہی جو ثقافتی انقلاب ہے اور اس کا ایک حصہ اعلا تعلیم و تربیت اور یونیورسٹیوں کے شعبے سے متعلق ہے، محدود ہو جائے یعنی ممکن ہے کہ بعض دوسرے کاموں پر توجہ نہ دے اور بعض پر کم توجہ دے۔ البتہ حالیہ دور میں آپ نے مختلف اکیڈمیاں قائم کرکے اور بعض کاموں کی انجام دہی سے، کام کو کسی حد تک وسعت دی ہے، جو قابل تشکر ہے۔ بے شک ملک کے عام ثقافتی مسائل اور یونیورسٹیوں کی حدود سے باہر کے امور پر بھی توجہ ضروری ہے یعنی اس کو کم نہیں سمجھنا چاہئے اور اصولا کونسل کے پروگراموں میں ہونا چاہئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے امور کے ناقابل توقف ہونے، اس کی فوریت اور اس کے دفتری سسٹم کے پیش نظر کونسل کی توجہ اس طرف رہنی چاہئے۔ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔ آپ کو یونیورسٹیوں کے سربراہوں، ہیئت امناء اور مختلف قسم کے دستورالعمل تیار کریں۔ اس لئے میں بھی اپنی گزارشات کو یونیورسٹیوں کے مسئلے سے مخصوص کروں گا۔
یونیورسٹیوں میں ہدف طالب علم ہے۔ یعنی اساتید، تحقیق اور تجربہ گاہیں، یہ سب طالب علم کے ہیں۔ یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق اس لئے ہے کہ یہ انسانی قوت رشد کرے اور کام کی وہ صلاحیت پیدا کرے جو ایک دانشور اور کارآمد انسان کے ذمہ ہے تاکہ وہ کام کر سکے۔ یونیورسٹی کا فلسفہ یہی ہے۔ ورنہ یونیورسٹی اس لئے نہیں ہے کہ مثال کے طور پر کچھ لوگوں کا یہاں تقرر ہو اور یہاں سے روزی کمائیں۔ یہ تو نتیجے میں ہوتا ہی ہے لیکن ہدف یہ نہیں ہے۔ ہدف یہ ہے کہ یہاں طالب علم ضروری صلاحیت حاصل کر سکے۔ طالب علم کے لئے ہم سے جو بھی ہو سکے کرنا چاہئے۔
طالب علم کی تربیت کے دو بنیادی عنصر ہیں جن میں سے کسی کی طرف سے بھی غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر غفلت ہوئی تو ہمیں نقصان ہوگا۔ ایک علم و تحقیق علمی افادیت اور علمی استعدادوں میں نکھار اور اسی قسم کے دوسرے امور ہیں اور دوسرے دینداری، صحیح جذبہ، صحیح سمت میں حرکت اورطالب علم کی صحیح معنوی اور روحانی تربیت ہے۔ یونیورسٹیوں میں یہ دونوں عنصر ایک دوسرے سے الگ نہیں کئے جا سکتے اور ان دونوں پر ملک کی توانائی کے لحاظ سے بھر پور کام ہونا چاہئے۔
اگر پہلے عنصر میں کوتائی کی تو نتیجہ کیا ہوگا؟ سب جانتے ہیں۔ وہ یونیورسٹی جو طالب علم کو علم اور تحقیق نہ دے سکے اور طالب علم کو، عالم، استاد، باصلاحیت، موجد نہ بنا سکے اور معاشرے کے بے شمار شعبوں میں سے کسی بھی شعبے کا انتظام چلانے کی توانائی نہ دے سکے، وہ یونیورسٹی، یونیورسٹی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں استاد، نصابی کتب، تعلیم کے ماحول، تجربہ گاہ اور علمی جرائد کا مسئلہ ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمیشہ ہماری زبان پر رہتی ہیں اور ہم سب ان کی فکر میں رہتے ہیں۔ تقریبا آپ سب کا تعلق یونیورسٹیوں سے ہے، ان مسائل پر آپ کی پوری توجہ ہے اور آپ ان کی فکر میں رہتے ہیں اور ان شاء اللہ روز بروز ملک کے وسائل اور امکانات کے تناسب سے زیادہ پیشرفت کریں۔
دوسرا عنصر ہے جذبہ، دینداری، صحیح سمت میں حرکت، اور طالب علم کی معنوی اور روحانی تربیت۔ البتہ آپ اس کی طرف سے بھی غافل نہیں ہیں۔ میں اصولی طور پر اس سے واقف ہوں کہ یہ اجتماع اس دوسرے مسئلے سے غافل نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ میں سے تقریبا ہر ایک کے ساتھ اس کونسل میں یا اس کونسل سے باہر میری نشست و برخاست رہی ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ سب کی توجہ اس مسئلے پر ہے، لیکن یونیورسٹی کی عام فضا میں اس دوسرے نکتے یعنی جذبے، دینداری، طالب علم کی آگاہی، اور بے فائدہ اور بے ہدف علمی عنصر کی حالت سے باہر نکال کے بامقصد علمی عنصر میں تبدیل کرنے پر کما حقہ توجہ نہیں ہے۔
انسان کمپیوٹر سے مختلف مخلوق ہے۔ کمپیوٹر کو پروگرام دیتے ہیں، وہ مسئلے کا جواب نکال کے پیش کر دیتا ہے۔ لیکن انسان اس طرح تو نہیں ہے۔ انسان خود ہی اپنا پروگرام تیار کرتا ہے، خود فیصلہ کرتا ہے اور خود سمت کا تعین کرتا ہے۔ اگر ہم اس دوسرے پہلو سے غفلت برتیں گے تو یونیورسٹیاں وہی بن جائيں گی جن کی طرف سے امام نے مسلسل اور تکرار کے ساتھ خبردار کیا ہے۔
آپ تمام حضرت جو یونیورسٹیوں میں رہے ہیں اور ہم سے زیادہ یونیورسٹیوں کو پہچانتے ہیں اور دینی جذبہ بھی رکھتے ہیں، اس کی گہرائی سے واقف ہیں۔ اگر یونیورسٹی دین سے الگ اور دین سے بیگانہ ہو جائے، تو یہ ایک ناقابل تلافی المیہ ہوگا۔ یعنی اس کی تلافی کے لئے بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی اور بڑی مشکلات آئیں گی اور اس کے بعد بھی کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس کی تلافی ہوگی یا نہیں۔
اسلامی جمہوریہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی انسان سازی کی مشین کو صحیح کام کرنا چاہئے اور اسلامی جمہوریہ کے اہداف سے ہماہنگ انسان تیار کرنے چاہئیں۔ ورنہ اگر ہم صرف پڑھے لکھے لیکن ان مقدس آرزوؤں سے عاری انسان تیار کرنا چاہیں، جو ایک قوم بالخصوص مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں تو بہتر ہوگا کہ ہم اپنے طلبا کو ان ملکوں میں بھیجیں جن کے علمی ادارے، زیادہ جدید اور وسائل سے لیس ہیں۔ وہاں جائیں، پڑھیں اور آئیں۔ ہدف یہ نہیں ہے۔ ہدف یہ ہے کہ ملک علمی اور فکری لحاظ سے صالح انسانوں کے ذریعے اپنے اہداف کی سمت میں حرکت کرے اور یہ کام صرف اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب اپنے لوگ اہداف کو پہنچانتے اور قبول کرتے ہوں۔
اگر یونیوسٹی ایسی ہو کہ جہاں سے فارغ التحصیل ہوکے نکلنے والے لوگ، نہ انقلاب کی نسبت حساس ہوں، نہ دین کے تئیں حساس ہوں، نہ ملک کی نسبت حساس ہوں، نہ قومی خود مختاری کو اہمیت دیں اور نہ بڑی قومی امنگوں کی فکر میں ہوں تو یہ یونیورسٹی علمی لحاظ سے کتنی ہی اعلا کیوں نہ ہو، ثمر بخش ثابت نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ اس یونیورسٹی کے تیار کردہ افراد بہت آسانی سے مختلف پالیسیوں کے زیر اثر آ جائیں گے۔
بنابریں یونیورسٹیوں میں ہمارے پروگرام واضح اور متعین ہونے چاہئیں یعنی ہمیں یونیورسٹیوں میں دینداری اور انقلابی جذبے نیز قومی خود مختاری پر توجہ دینی چاہئے۔ خاص طور پر غیروں پر انحصار کا نکتہ ایسا ہے کہ افسوس کہ آج دنیا کے چھوٹے ممالک یعنی سیاسی حالت اور سیاسی پوزیشن کے لحاظ سے چھوٹے ممالک اور سابق تیسری دنیا کے ممالک اور زیادہ تر اسلامی ریاستیں اس سے دوچار ہیں اور ان کی آنکھیں اس طرف سے بند ہیں۔
اس انحصار کو حصول علم کے اس اشتیاق سے کہ انسان کو جہاں بھی علم ملے گا وہاں جائے گا، خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ کبھی علم ہمارے دشمن کے پاس ہے۔ دشمن کے پاس جائیں، احترام کریں اور اس سے علم حاصل کریں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ علم کی اہمیت اس سے زیادہ ہے کہ اس کے لئے انسان اس کے پاس نہ جائے جو اس کا مخالف ہے، یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن علمی پہلو سے الگ ہٹ کے دشمن کے زیر اثر جانا، سیاسی پہلو سے اور ثقافتی لحاظ سے اس سے متاثر ہو جانا، ایک الگ بحث ہے۔ ہمارے لئے جس چیز کا بند و بست کیا گیا ہے وہ یہی آخر الذکر صورت ہے۔ رائج اصطلاح کے مطابق تیسری دنیا کے لئے جس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے وہ یہی دوسری صورت حال ہے۔ ایسی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے کہ پہلی والی پوزیشن پیدا ہونے کا کوئی راستہ باقی نہ رہے۔
یہ ذہین افراد کے ملک سے چلے جانے کا مسئلہ جو موجودہ پسماندہ دنیا میں دسیوں سال سے درپش ہے، اسی قضیے کا حصہ ہے۔ وہ ذہین اور اچھے افراد کو ورغلا کر لے جاتے ہیں۔ لے جاتے ہیں اور جو لوگ سیکھ لیتے ہیں اور با استعداد ہیں انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ اپنے ملکوں کے لئے کام کریں۔ یہ دوسرا مسئلہ اگر یہ نہ کہا جائے کہ یونیورسٹیوں میں پہلے مسئلے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے تو کم سے کم اس کی اہمیت اس کے برابر تو ضرور ہے۔
یونیورسٹیوں میں دین کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری یونیورسٹی بے دینی کے عالم میں وجود میں آئی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے۔ دین سے عاری حالت میں قائم ہوئی۔ یعنی منصوبہ تیار کیا کہ یونیورسٹی بے دین وجود میں آئے۔ اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ کسی یونیورسٹی کا بانی متدین تھا یا متدین نہیں تھا۔ اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ یونیورسٹی کی بنیاد غیر دینی بلکہ دین کی مخالفت پر استوار رہی ہے۔ جیسے ہمارے ملک کی روشنفکری کی تحریک، شروع سے ہی بے دین پیدا ہوئی۔
حقیقی دین کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختلف مراکز اور جگہوں اور انسانی مجموعوں میں نفوذ کے لئے کسی کی اجازت کا انتظار نہیں کرتا۔ دین یونیورسٹی، روشنفکری کی فضا اور علم کے ماحول میں بھی داخل ہوا اور ہر جگہ پہنچا۔ لیکن بنیاد، غلط تھی۔ یہ بنیاد تبدیل ہونی چاہئے۔ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ یونیورسٹی دوبارہ اسی حالت میں چلی جائے۔ البتہ دشمن بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہے گا۔
انقلاب کے بعد ثقافتی انقلاب کے لئے، یعنی یونیورسٹیوں کو اسلامی سمت اور جہت دینے کے لئے واقعی قابل تشکر کوشش ہوئی ہے۔ کچھ اساتذہ، طلبا اور ملک کے حکام نے واقعی ایسے کام کئے ہیں کہ جو خدا اور اس قوم کے نزدیک ان کے ہمیشہ باقی رہنے والے ذخائر ہیں۔ یہ تمام کام قابل تشکر ہیں لیکن ابھی ادھورے ہیں، پورے نہیں ہوئے ہیں۔ ثقافتی انقلاب کی اعلا کونسل کو اپنے ضروری فرائض میں سے ایک یہ قرار دینا چاہئے کہ ہم کیا کریں کہ یونیورسٹی کا ماحول ایسا ہو کہ وہاں طالب علموں کی سیاسی آگاہی اور سرشار طالب علمی کے جذبے کے ساتھ دینی اور انقلابی تربیت ہو۔ یہ ان جملہ کاموں میں سے ہے جو آپ کو کرنا ہے۔ اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو اس قوم کے دشمن وہ کام کریں گے جو اس کے برعکس ہے۔ چنانچہ اس وقت بھی کر رہے ہیں البتہ طریقہ مختلف ہے۔
یہ ثقافتی یلغار کا مسئلہ جس پر میں نے بارہا زور دیا ہے، ایک روشن حقیقت ہے۔ اس سے انکار کرکے ہم اس یلغار کو ختم نہیں کر سکتے ہیں۔ ثقافتی یلغار سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ یہ یلغار جاری ہے۔ امیر المومنین (علیہ السلام ) کے بقول من نام لم ینم عنہ (3) اگر مورچے میں آپ کو نیند آگئي تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کے مقابل مورچے میں دشمن بھی سو گیا ہے۔ آپ سوئے ہوئے ہیں، خود کو بیدار کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ ثقافتی انقلاب خطرے میں ہے۔ اسی طرح ہماری اسلامی اور قومی ثقافت کو بھی دشمنوں کی جانب سے خطرات لاحق ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جنگ کے اوائل میں رپوررٹیں مل رہی تھیں کہ دشمن فلاں جگہ تک آ گیا ہے، دشمن اس جگہ پر بمباری کر رہا ہے، حزب اللہی سپاہیوں کی طرف سے مختلف انقلابی اداروں میں یہ بات بار بار کہی جا رہی تھی۔ وہ بندہ خدا جو مسلح افواج کا ذمہ دار تھا، (4) اس سے انکار کرتا تھا اور کہتا تھا کہ جھوٹ ہے۔ کون کہتا ہے کہ عراق ہم پر حملہ کر رہا ہے؟ عوام میں افواہ تھی کہ عین خوش پر دشمن کا قبضہ ہو گیا ہے۔ مسلح افواج کا عہدہ دار وہاں گیا اور ٹیلیویزن پر اس کا انٹرویو ہوا۔ اس نے اعلان کیا کہ ' لوگ کہتے ہیں کہ عین خوش پر دشمن کا قبضہ ہو گیا ہے۔ میں اس وقت عین خوش میں انٹرویو دے رہا ہوں۔ وہ عین خوش سے باہر آیا اور تین چار گھنٹے کے بعد دشمن نے عین خوش پر قبضہ کر لیا۔ پتہ چلا کہ دشمن عین خوش سے باہر تھا۔ عین خوش میں نہیں تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ دشمن نہیں تھا۔
جو چیز واضح اور روشن ہے ہمیں اس سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ یونیورسٹی میں یونیورسٹی سے باہر حتی ہمارے ذرائع ابلاغ عامہ میں جو کتابیں لکھی جا رہی ہیں ان میں، جو ترجمے کر رہے ہیں، جو اشعار اور نظمیں کہی جا رہی ہیں ان میں، دنیا میں کئے جانے والے ان ظاہری ثقافتی پروگراموں میں جن کا تعلق ہم سے نہیں ہے اور ان کی خبریں اصولا آپ حضرات جو ثقافتی عنصر ہیں، سنتے ہیں، ہر جگہ انقلاب کے خلاف بہت خطرناک ثقافتی اور فوجی صف بندی کی گئی ہے۔
یہ وہ چیز نہیں ہے جو مثلا سو سال پہلے سے ہو۔ جی ہاں، سو سال پہلے بھی اسلام کے خلاف ثقافتی یلغار تھی۔ لیکن جب سوئے ہوئے دشمن کا مقابلہ ہو تو فوجی صف بندی ایک اور طرح ہوتی ہے؛ جب بیدار دشمن سامنے ہو تو فوجی صف بندی دوسری طرح کی ہوتی ہے۔ اس دور میں عالم اسلام خواب آلود تھا بلکہ غافل، نشے میں اور مست تھا۔ دشمن کبھی اس پر وار لگاتا تھا، اس کی رگوں میں ایک سوئی ڈالتا تھا اور کوئی مادہ داخل کر دیتا تھا اور چلا جاتا تھا۔ لیکن اب اسلام بیدار ہے۔ مغربی دنیا کا دشمن آج بیدار ہے۔ ایک سورما کی طرح میدان میں ہے۔ امام جیسی ہستی کی کبھی نہ ختم ہونے والی یاد اس کے ساتھ ہے۔ اس کے پاس اتنے زیادہ ذخائر ہیں، اتنے زیادہ اچھے نوجوان ہیں، یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ آج دشمن ہماری موجودہ حالت کے مقابلے میں، وہ سو سال یا پچاس سال پہلے والی فوجی صف بندی اور حکمت علمی سے کام نہیں لے گا۔ ہمیں دشمن کی نئی صف بندی کو پہچاننا چاہئے۔ اگر نہ پہچانا اور سو گئے تو ختم ہو گئے۔ وہی من نام لم ینم عنہ ہے۔ ان اخا الحرب الارق من نام لم ینم عنہ (5) مرد جنگ کو بیدار رہنا چاہئے۔ اگر تم سو گئے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمھارے مد مقابل مورچے میں تمھارا دشمن بھی سو گیا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ بیدار ہو۔
یہ بات یونیورسٹی پر صادق آتی ہے۔ افسوس کہ کبھی یہ کام اپنوں کے وسیلے سے انجام پاتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ کام سیاسی فضا میں یا یونیورسٹی کی فضا میں علمائے کرام کی شخصیت اور اہمیت کو ختم کرکے شروع کئے جا رہے ہیں، تو یہ کام معمولی اور صرف پیشہ ورانہ نہیں ہیں۔ یہ کہ ہم دینی تعلیم کے مراکز کے نظام کو ایک تقلیدی چیز ظاہر کریں، جو تحقیق، دقت نظر، بنیاد سازی، تجدید نظر، نئی بات پیش کرنے اور جدت پر استوار ہے، یہ بات تو بالکل واضح ہے، دینی تعلیم کے مراکز میں تعلیم و تربیت کا طریقہ اور سبک شروع سے ہی تحقیق کی بنیاد پر رہا ہے۔ اور مطہری اور بہشتی جیسی شخصیات، دینی تعلیم کے مراکز کے پروردہ ان ہستیوں کو دینی تعلیم کے مراکز کی استثنائی شخصیات قرار دیں (6) یہ غلط ہے۔ فطری طور پر جو دینی تعلیم کے مراکز کو نہیں پہچانتا، جس کو یہ نہیں معلوم ہے کہ حوزہ علمیہ (دینی تعلیم کا مرکز) کیا ہے وہی اس غلطی کا مرتکب ہوگا۔ البتہ زیادہ امکان یہ ہے بلکہ شاید یقینی طور پر انسان جانتا ہے کہ، یہ بات کسی خاص غرض کے بغیر کہی جاتی ہیں، یعنی غلط نیت نہیں ہے، لیکن بات حقیقت کے خلاف اور فتنہ انگیز ہے۔ یہ اس بات کا باعث ہوتی ہے کہ یونیورسٹی والوں اور یونیورسٹی طلبا کی نگاہ میں علماء کی جو دین کے نمائندے اور دین کے علم بردار ہیں، معنوی اور علمی حیثیت ختم ہو جائے۔ چنانچہ اسی طرح کا کام البتہ زیادہ بیہودہ طریقوں کے ساتھ انقلاب سے پہلے بھی کیا جاتا تھا اور اس کی تاثیر کم نہیں تھی۔ واقعی انقلاب سے پہلے، یونیورسٹی والے علماء کو زیادہ باتونی، نادان، زیادہ توقعات رکھنے والے اور کچھ نہ جاننے والے سمجھتے تھے۔ میرا ایسے بہت سے لوگوں سے سامنا رہا ہے۔ مثال کے طور پر کسی میٹنگ میں دینی تعلیمی مرکز کے کسی طالب علم کے ساتھ بیٹھتے تھے اور اس سے کچھ اہم اور معقول بات سنتے تھے تو کہتے تھے کہ تعجب ہے، علماء میں آپ جیسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں؟ جب کہ وہ طالب علم ایک معمولی طالب ہوتا تھا۔ وہ علماء کو نہیں پہچانتے تھے۔ یعنی ملک کی یونیورسٹیوں اور علمی مراکز میں علماء کے بارے میں غلط تاثر پایا جاتا تھا۔ حوزہ علمیہ (دینی تعلیم کا مرکز) علم و تحقیق کا مرکز ہے۔ ہمارے ملک میں اگر کوئی مرکز خالص علمی مرکز اور محنتانہ کے قصد کے بغیر بے لوث علمی مرکز کا مصداق قرار پا سکتا ہے تو وہ یہی دینی تعلیم کا مرکز ہیں۔ لیکن وہ اس کو علم سے عاری مرکز سمجھتے تھے۔
وہ زہد، دنیا سے بے اعتنائی، وہ پارسائی جو علماء میں، طالب علمی کی زندگی میں اور طالب علمی کی زندگی سے باہر موجود تھی اور الحمد للہ آج بھی اکثر و بیشتر پائی جاتی ہے، اس کو ماڈرن یونیورسٹی والوں کی نظر میں اس بات سے تبدیل کر دیا تھا کہ علماء کی جماعت مفت خور ہے۔ مفت خور کی تعبیر واضح تھی۔ جب کسی جگہ کہتے تھے مفت خور تو بغیر کسی اشارے اور قید کے جیسے ضمیر اپنے مرجع کو پہچانتی ہے، اس سے مراد علماء کو سمجھا جاتا تھا۔ یہ پروپیگنڈہ تھا جو کیا گیا تھا۔
اس پروپیگنڈے کا ہدف کیا تھا؟ اس پرپیگنڈے میں نشانہ علماء نہیں تھے، علماء کی تو کوئی بات ہی نہیں تھی، اس پروپیگنڈے میں نشانہ دین تھا۔ اگر ہم علماء، فقیہوں اور فقہاء کے علمی مرتبے اور ملک کی کلی حرکت میں اس کے اثرات کے منکر ہو جائیں، یا اس پر سوالیہ نشان لگا دیں، یا اسے مشکوک بنا دیں تو درحقیقت ہم نے ایک کارآمد اور عظیم طبقے کے دینی رجحان پر وار لگایا ہے۔ یہ وہی کام ہے جو وہ چاہتے تھے۔ یہ دشمن کی مرضی کا کام کرنا ہے۔ لہذا یونیورسٹی کے ماحول میں اس نکتے پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
طلبا کے انقلابی جذبے پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ ہمارے یونیورسٹی طلبا، دنیا کے دیگر تمام طلبا کی طرح، انقلاب کو آگے بڑھانے والے اور انقلاب کے بنیادی ستون بنیں اور انقلابی مسائل سے لا تعلقی کا احساس ہرگز اپنے اندر پیدا نہ ہونے دیں۔ اس کے لئے کچھ طریقے ضروری ہیں۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو حکم دینے سے ہو جائے۔ یہ حکم والی چیز نہیں ہے کہ طلبا سے کہیں کہ جوش و جذبے کے ساتھ انقلاب کے اہداف کی طرف آگے بڑھیں۔ جوش و جذبہ وہ چیز ہے جو ہر طبقے میں پیدا کی جاتی ہے۔ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دیکھیں اور غور کریں کہ یہ جوش و جذبہ کیسے وجود میں لایا جائے۔ یونیورسٹی طلبا میں یہ جوش و جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
یونیورسٹیوں میں طلبا کے انقلابی جذبے کو کمزور نہیں پڑنے دینا چاہئے۔ کچھ ایسا کام کیا جائے کہ جو لوگ لا تعلق بھی ہیں، ان میں بھی انقلابی جہت اور انقلابی جذبہ پیدا ہو۔ نہ یہ کہ خدا نخواستہ اس کے بر عکس ہو اور ایسے کام انجام دئے جائیں کہ جن لوگوں میں انقلابی جہت اور جذبہ ہے آہستہ آہستہ ان کے اندر لا تعلقی کا رجحان پیدا ہو۔ یہ خطرہ بہت بڑا ہے۔
یوینورسٹی طلبا کا طبقہ استثنائی طبقہ ہے۔ حتی چھوٹی عمر کے طلبا اس لحاظ سے یونیورسٹی طلبا سے مختلف ہے۔ یونیورسٹی کے طالب علم نوجوان ہیں۔ علم و دانش کے راستے پر گامزن ہیں۔ آزاد فضا سے آشنا ہیں۔ ایک جگہ جمع ہیں اور وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں۔ یہ خصوصیت اور یہ کیفیت خاص حالت اور تاثیر رکھتی ہے۔ ان تاثیرات کو قبول کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ یونیورسٹی طلبا کی جماعت حکومت کی پالیسیوں کو پورے وجود سے مکمل طور پر قبول کرلے گی۔ البتہ اداروں کے ذمہ داروں کی تیار کردہ پالیسیوں کو تسلیم کرنا چاہئے، اس میں شک نہیں ہے۔ جب ملک کے ادارے اور امور مملکت چلانے والے، کوئی فیصلہ کریں تو اس فیصلے پر ان تمام لوگوں کے لئے عمل کرنا ضروری ہے جو ان کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ لیکن یونیورسٹی طلبا کو یہ حق دینا چاہئے کہ اپنی نوجوانی اور اپنے جوش و جذبے اور شوق و ذوق کے تقاضے کے تحت ان کے اندر سوال کی کیفیت پائی جائے، ممکن ہے کبھی اعتراض کریں، تجاویز پیش کریں۔ یونیورسٹی کی فضا میں اس کو برداشت کرنا اور قبول کرنا چاہئے۔ یہ ان جملہ عوامل میں سے ہے کہ جو ان کے اندر جوش و جذبے کو زندہ رکھتے ہیں اور انہیں طالب علم باقی رکھتے ہیں۔
البتہ اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہئے کہ طلبا کا ماحول پیشہ ور سیاستدانوں کی سیاستبازی کا میدان نہ بن جائے۔ یہ بات کہ کوئی اٹھے اور اپنے سیاسی اغراض اور غلط مقاصد کے لئے یونیورسٹی جائے اور وہاں انتشار پیدا کرے، کچھ طالب علموں کے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کرے، قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ خود طلبا کو چاہئے کہ اس قسم کے افراد کو پہچانیں، انہیں مسترد اور اپنے ماحول سے باہر کر دیں۔ یونیورسٹی طلبا کا ماحول طالب علموں والا اور پاک و صاف ماحول ہونا چاہئے۔
سیاسی آگاہی اور سیاسی شعور وجود میں لانا ایک الگ مسئلہ ہے۔ لیکن سیاستدانوں کی سیاستبازی کا ہدف بننا دوسرا مسئلہ ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ یونیورسٹی کے ماحول میں جن کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اگر یہ کام انجام دے دئے جائیں تو فطری طور پر یونیورسٹی میں دین کے ظواہر کی خود بخود پابندی ہوگی۔ البتہ اس وقت جیسا کہ میں سنتا ہوں، یونیورسٹیوں کی حالت چاہے وہ سرکاری یونیورسٹیاں ہوں یا آزاد (پرائیویٹ) یونیورسٹی ہو، اس لحاظ سے بہت اچھی ہے۔ لیکن ہر لحاظ سے اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آپ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کی مدد کرے کہ آپ یہ عظیم اور مقدس فریضہ اچھی طرح انجام دے سکیں۔ میری نظر میں کوئی بھی نیکی اس سے زیادہ موثر، جاریہ اور باقی رہنے والی نہیں ہے جو کام آپ نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ ان شاء اللہ تائید الہی آپ کو حاصل رہے اور آپ کامیاب رہیں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ

------------------------------------------------------------------------
1- ثقافتی انقلاب کی اعلا کونسل کے اس وقت کے سیکریٹری۔ 2- ثقافتی انقلاب کی اعلا کونسل کے نائب صدر۔ 3- نہج البلاغہ ، خط نمبر 62 4- بنی صدر۔ 5-نہج البلاغہ، خط نمبر 62 6-ایک سیاسی و ثقافتی جریدے میں شائع ہونے والے ایک قلمکار کے تجزیئے کی طرف اشارہ ۔