قائد انقلاب اسلامی نے عوام کے ساتھ حکام کے برتاؤ کے سلسلے میں خاص ہدایات دیں۔ تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے ضروری ہے کہ اس علاقے کے نجیب اور متدین عوام کی خدمت کرنے والے ذمہ دار برادران عزیز کا جو مرکز سے دور اس خطے کی ناخوشگوار آب و ہوا میں اجتماعی خدمت انجام دے رہے ہیں، شکریہ ادار کروں ، ہمیشہ شاداب اور پرجوش رہیں۔
آپ عوام کے لئے جو بھی خدمت انجام دیں، جس عہدے اور مقام پر بھی ہوں، وہ نیکی اور حسنہ ہے اور اس کے ساتھ ہی عوام کے بھی فائدے میں ہے۔ اگر آپ کا کام بنیادی قسم کا اور باقی رہنے والا ہو تو حسنۂ جاریہ ہے۔ عظیم اور بیکراں نظام خداوندی میں آپ کا یہ کام ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، ( وہ بیکراں نظام جس میں) کاموں اور ان کے نتائج و ثمرات کے مابین بڑا اہم، بیحد پیچیدہ اور بہت تفصیلی رابطہ ہے جسے سمجھنے اور درک کرنے سے ہماری عقل قاصر ہے۔ ان کاموں کے اچھے آثار ظاہر ہوں گے اور آپ ان کے ثمرات دنیا میں بھی دیکھیں گے اور آخرت میں بھی جس دن ہر انسان کو اس نیکی اور صدقے کی ضرورت ہوگی جو اس نے پہلے سے بھیجا ہوگا۔
جو کام آپ کر رہے ہیں اگر اس کے لوازم پر توجہ کے ساتھ یعنی ضروری دقت نظری، خلوص نیت، استحکام اور دوام کے ساتھ ہو جیسا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فرماتے ہیں کہ رحم اللہ امرء عمل عملا فاحکمہ (1) خدا کی رحمت ہو اس انسان پر جوکام کرے، تو محکم انجام دے، کمزوری، کوتاہ نظری اور بے دلی سے نہ ہو تو مجھ جیسا حقیر اس کے اوصاف کے بیان پر قادر نہیں ہے۔ ان شاء اللہ آپ سب ان مسائل کا خیال رکھیں ہر دن جو گزرتا ہے ، دیوان الہی میں جو بشری حساب کتاب سے بہت زیادہ دقیق ہے، اپنے کام کے رجسٹر میں ایک سطر اور ایک ورق کا اضافہ کریں۔
اسی طرح ضروری ہے کہ اس مسئلے کے لئے جس کی طرف وزیر موصوف (2) نے اشارہ کیا ہے، ان کا اور اس علاقے اور علاقۂ فارس کے جو بظاہر ایک ہی ہے، واٹر سپلائی کے ادارے کے کارکنوں اور اپنے مخلص اور خوش اخلاق گورنر(3) اور آپ میں سے ہر ایک کا جو کسی نہ کسی شکل میں اس کام میں شریک رہے ہیں، تہہ دل سے شکریہ ادا کروں۔
اگر چہ آپ کے صوبے کی محرومیاں اور تلخیاں زیادہ ہیں، لیکن اس کی شیرینی اور اچھائیاں بھی زیادہ ہیں۔ میں اس صوبے میں آپ کی موجودگی کی بعض شیرینیوں کا ذکر کروں گا۔
پہلی شیرینی یہی اتفاق ہے کہ جس کی طرف جناب گورنر صاحب نے اشارہ کیا۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ جہاں دل ایک ساتھ نہ ہوں اور ہاتھ اور زبان ایک دوسرے کے خلاف کام کریں اس کے لئے جو محبت، مہربانی اور انسیت کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے ، جہنم ہے۔ یہاں الحمد للہ بہشت ہے۔ بہشت آنجاست کہ آزاری نباشد'' (4) یعنی بہشت وہاں ہے جہاں کوئی اذیت و آزار نہ ہو۔ یہاں ایک دوسرے کے لئے آزار نہیں ہے، باہمی تعاون ہے۔ اس کو پہلے درجے میں، صوبے کے دو شخصیتوں یعنی یہاں کے فعال، مخلص، روشنفکر اور بہت اچھے امام جمعہ جناب آقائے فاضل فردوسی اور اس صوبے کے عزیز گورنر جن کے حالات سے آپ حضرات واقف ہیں اور بیان کئے گئے، ان دونوں حضرات ، کی خوش خلقی ، نجابت، فراست، صداقت، اور صحیح کارکردگی کی دین سمجھنا چاہئے۔ الحمد للہ مختلف سطح پر یہ بات پائی جاتی ہے۔ اس کی حفاظت اور پاسداری کریں کہ یہ آپ کی اچھی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔
اس کام کا دوسرا حسن یہ ہے کہ یہاں آپ ان لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں جو قدرتی اور استبدادی، دونوں لحاظ سے محرومیت کا شکار ہیں۔ اس لئے کہ باطل اور غلط نظاموں میں جو نقطہ بھی مرکز سے دور ہو، سیاسی مرکز یا انسانی (شاہی) مرکز سے دور ہو، نظام کا ناقص اور معیوب حساب کتاب، اس نقطے کی محرومیت کا سبب بنتا ہے۔ یعنی باطل اور فاسد نظاموں میں جو فرد اور جو ادارہ بھی مرکز اقتدار سے نزدیکتر ہو وہ زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے اور جو ادارہ بھی مرکز سے دور تر ہو وہ عام طور پر زیادہ محروم ہوتا ہے۔ الا یہ کہ جان توڑ کوشش کرکے کسی طرح اپنے آپ کو باقی رکھے۔ یہ غلط حساب کتاب ہے جو باطل نظاموں میں ہمیشہ پایا جاتا ہے۔ شاہی دور کے ایران میں بھی یہی تھا۔ مرکز کو محروم علاقوں کی محرومیت دور کرنے کی کوئی فکر نہیں تھی۔ اگر کبھی آپ دیکھتے تھے کہ محروموں کے فائدے میں کوئی کام کیا جا رہا ہے تو وہ بہت کم اور نادر تھا اور اس کی وجہ محروموں کے ساتھ ہمدردی اور اس کا مقصد محرومیت دور کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ وجہ کچھ اور ہوتی تھی۔ فرض کریں کسی اڈے کے لئے سڑک بناتے تھے تو اس لئے کہ زمینی راستے سے سمندر تک امریکیوں کے لئے رسائی آسان ہو جائے یا سڑک اس لئے بناتے تھے کہ سینٹو (5) کے رکن ممالک ایک دوسرے سے جڑ جائیں۔ ضمنی طور پر چند گاؤں اور شہر بھی اس سڑک سے استفادہ کرتے تھے۔ بعض اوقات علاقے کے لئے مجبورا کوئی کام کیا گیا ہے تاکہ علاقے کے لوگوں کی آواز بلند نہ ہو جائے۔ لیکن جس علاقے سے نہیں ڈرتے تھے اور وہاں انہیں اپنا کوئی یقینی ہدف نظر نہیں آتا تھا تو اس علاقے کو پوری طرح الگ تھلگ رکھتے تھے۔
ہم نے اسلامی انقلاب کے بعد اس بڑے اور وسیع ملک کے علاقوں کو دیکھا ہے کہ کافی آبادی ہونے کے باوجود وہاں کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے۔ بعض علاقوں اور عام طور پر دور افتادہ علاقوں میں محرومیت ثانوی فطرت بن گئی تھی۔ خاص طور پر وہ علاقے جو نظام کے لئے اسٹریٹیجک حیثیت نہیں رکھتے تھے اور وہاں ان کا کوئی کام اور کوئی ہدف نہیں تھا، تو وہاں نہ ریلوے لائن تھی، نہ ڈامر روڈ تھا اور نہ ہی بجلی اور پانی کی کوئی خبر تھی۔ نہ عوام کے ارتباط کی کوئی خبر تھی اور نہ ہی کسی قسم کے کارخانے کی کوئی خبر ہوتی تھی۔ یہ اس نظام کی فطرت تھی۔
کسی سرزمین اور علاقے کو فطرت کی طرح محرومیت کا عادی بنانے کے لئے، پچاس سال تک مسلسل اس پر وار لگانا اور اس کو دبا کے رکھنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کتنے پچاس سال گزر گئے۔ خدا ان دو منحوس سلسلوں کی حکومت کے سربراہوں کو ہرگز معاف نہ کرے کہ جنہوں نے تقریبا دو سو سال تک اس ملک پر حکومت کی اور اس ملک کے گوشہ وکنار میں بری یادیں چھوڑیں۔ اختلاف، نسلی امتیاز، ظلم اور عوام کی طرف سے بے توجہی کی بری نشانیاں چھوڑیں۔
انقلاب سے پہلے میں کافی عرصے تک بلوچستان کے علاقے میں رہا ہوں۔ سن تیرہ سو ستاون ( انیس سو اٹہتر) تک میں وہاں تھا۔ نہیں معلوم کہ آپ جانتے ہیں یا نہیں جانتے کہ اب بھی فارس کو گجر یعنی قاجار کہتے تھے۔ البتہ الحمد للہ انقلاب کے بعد یہ تصور ختم ہو گیا۔ قاجاری حکومت نے وہاں ایسا کام کیا تھا اور ایسی نشانی چھوڑی تھی کہ لفظ قاجار اور ان کے مقامی لہجے میں گجر کے معنی وحشی، بے رحم، سنگدل، قاتل اور نا قابل اعتماد کے ہوتے تھے۔ شاید ہمارا اور آپ کا بوشہر بھی ان جگہوں میں سے ہے کہ وہ غیر انسانی اور انسانیت سوز پالیسیوں پر عمل کرنے والی خبیث حکومت انگریزوں کے خلاف اس علاقے کے عوام کی جدوجہد کے باعث اس کومحروم رکھنا چاہتی تھی۔ کوئی بعید نہیں کہ یہ جذبہ رہا ہو کہ اگر یہاں کے لوگوں نے بہادری اور دلیری دکھائی، انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ غیروں کی حکمرانی انہیں منظور نہیں اور انہوں نے دشمن کی مخالفت کی ہے تو انہیں کچلا جائے۔
بوشہر لارستان اور (صوبہ) فارس کے بعض دیگر علاقے چونکہ انگریزوں کے مخالف تھے، ان میں سے بعض کا تاریخ میں ذکر ہے، اکثر عوام جانتے ہیں، لیکن بہت سے علاقے ایسے ہوں گے کہ جنہیں آپ نہیں جانتے ہوں گے اور افسوس کہ اب بھی تاریخ میں ان کا انداراج نہیں ہوا ہے، فطری طور پر وہ نظام ان علاقوں کی طرف سے بے اعتنائی برتتا رہا؛ اس کے علاوہ جو میں نے عرض کیا، اس نظام کی فطرت یہ تھی کہ ہر جگہ جو مرکز سے دور ہو اس کو محروم رہنا چاہئے۔ جیسے وہ باغ جس کی سطح ہموار نہ ہو، اس میں پانی ڈالیں گے تو ہر جگہ پانی نہیں پہنچے گا۔ ہموار سطح وہ ہوتی ہے کہ باغ میں ایک طرف سے پانی ڈالا جائے تو اس میں بنی ہوئی نالیاں ہر پودے تک پانی پہنچا دیتی ہیں۔ لیکن اگر سطح ہموار نہ ہو تو ہر ایک نقطے تک پانی پہنچے گا ہی نہیں۔ غیر انسانی نظام میں صحیح توازن اور ہموار سلسلہ نہیں ہوتا۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا، مصنوعی استبدادی بھی پیدا کی جاتی ہے۔ اس جگہ سے انہیں بغض، دشمنی اور کینہ تھا اور ایسی جگہوں کے لئے اس نظام کا مزاج سازگار نہیں تھا۔ درحقیقت یہ ایسی جگہ تھی جہاں لوگوں کے ان کے شہر اور وطن سے نکال کے بھیجا جاتا تھا۔ گناوہ اپنے شہر سے نکالے گئے اور شہر بدر کئے گئے لوگوں کے رہنے کی جگہ تھی۔ برازجان ، دیلم، دیّر، یہ سب وہ جگہیں تھیں جہاں لوگوں کے ان کے شہروں سے نکال کے بھیجا جاتا تھا۔ عام لوگوں کو جن کو سخت سزا دینا مقصود نہیں ہوتا تھا، انہیں تھوڑی مدت یہاں لاکے رکھتے تھے۔ سزا یافتہ لوگوں کو یہاں لاکے رکھتے تھے۔ نظام جس جگہ ان لوگوں کو بھیجے جنہیں سزا دینا چاہے، تو اس جگہ کے بارے میں اس نظام کی فکر کیا ہوگی؟ ظاہر کہ اس جگہ پر کوئی توجہ اور فیض پہنچانے کی کوئی فکر نہیں ہوگی۔ بنا یہ تھی کہ ایسی جگہوں کو محروم رکھا جائے۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں اس معیوب فارمولے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس نظام میں اس کے برعکس یہ پالیسی نہیں ہے کہ سب کچھ مرکز میں ہی جمع کر دیا جائے۔ بلکہ مرکزیت سے گریز اس کی پالیسی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض معاملات میں مجبورا اس کی خلاف ورزی ہو جاتی ہو، لیکن نظام کی سوچ اور اس کی منصوبہ بندی یہی ہے۔ ابھی انقلاب کی کامیابی کو دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے مجھے ذمہ داری سونپی اور بلوچستان بھیجا اور کہا کہ چونکہ آپ بلوچستان کے مسائل سے واقف ہیں اس لئے وہاں جائیں اور اس علاقے کی محرومیت کا جائزہ لیں۔ یہ صحیح سمت میں حرکت کی پہلی علامت تھی۔ جب کہ امام بلوچستان نہیں گئے تھے ۔ یہ وہ کیفیت ہے جو نظام کی فطرت سے وجود میں آتی ہے۔
آپ محروم علاقوں میں جائیں۔ محروم علاقوں کا دفتر ایوان صدر میں ہے اور یہی ہمارے عزیز جناب آقائے بشارتی اس کے انچارج ہیں اور اسی وجہ سے میں ان سے بہت انس رکھتا ہوں۔ اس دفتر کا بجٹ ملک کی معمول کی منصوبہ بندی اور بجٹ سے الگ ہے۔
مرد بی برگ و نوا را بہ حقارت مشمار کوزہ بی دستہ چو بینی بہ دو دستش بردار (6) ( یعنی بیکس و بے نوا لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو۔ کیونکہ بے دستے کے پیالے کو دونوں ہاتھوں سے اٹھانا چاہئے۔ )
محروم علاقہ فطری طور پر نظرانداز ہو جاتا ہے۔ نظر نہیں آتا ہے۔ اس لئے اسلامی جمہوریہ کی حکومت نے اس قسم کے علاقوں کے لئے ایک علیحدہ دفتر قائم کیا ہے۔ یہ اسلامی جمہوری نظام کی سوچ ہے۔
البتہ ہمیں اس بات کا اعتراف بھی کرنا چاہئے کہ ان علاقوں کا جو حق ہے اور جتنی ضرورت ہے اتنی توجہ ہم نے نہیں دی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ انصاف کے ساتھ یہ بھی قبول کرنا چاہئے کہ اس میں حکومت قصوروار نہیں ہے۔ آٹھ سال تک جنگ رہی۔ جو سرمايہ ترقیاتی امور پر لگنا چاہئے تھا وہ جنگ کی نذر ہو گیا۔ ایک سال اگر کوئی ملک جنگ کر لیتا ہے تو دس سال تک جنگ کے نتائج کا سامنا کرتا ہے۔ ہمیں آٹھ سال تک جنگ کا سامنا رہا۔ اور وہ بھی ایسی جنگ۔ جنگ کے ساتھ ہی اقتصادی محاصرہ بھی رہا۔ ہمارے ساتھ کمینگی بھی کی جاتی رہی۔ بنیادی کمیاں تو پہلے سے ہی تھیں۔ کہنا چاہئے کہ اس وقت غیر معمولی انداز میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ میں شاہد ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے عزیز اور فعال صدر(7) اور وزراء کیا کر رہے ہیں۔ مستقل کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کاموں کو اس مرحلے تک پہنچائیں کہ ان کا نتیجہ سامنے آئے۔
جو بات آپ براداران عزیز سے براہ راست ربط رکھتی ہے یہ ہے کہ آپ اس علاقے کے محروم عوام کی خدمت کو یہاں کام کرنے کا ایک حسن سمجھیں۔ ان محروم عوام کے لئے جو کام بھی کر سکیں، اس میں کوتاہی نہ کریں۔ یہ وہ جگہ ہے کہ اگر کوئی دفتری کام کا وقت ختم ہو جانے کے بعد دیکھے کہ ابھی کام ہے، بیٹھ جائے اور کام کرے تو جان لے کہ خداوند عالم ، اس کے ملائکہ اور کرام الکاتبین اس کے اضافی کام کے ان لمحات کو بہت زیادہ نیکیوں اور اچھائیوں میں شمار کرتے ہیں۔ جہاں تک ہو سکے کام کریں۔ یہ کام اوور ٹائم کے لئے نہیں ہے۔ اوور ٹائم بہت معمولی چیز ہے، ان کاموں کا اس سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کام اس لئے کریں کہ بہترین، کریم ترین اور مہربان ترین لکھنے والے، کرام الکاتبین اس کو لکھیں اور درج کریں۔
کبھی انسان تھک جاتا ہے سوچتا ہے کہ تھوڑا سا آرام کر لے۔ پھر دیکھتا ہے کہ کوئی کام رہ گیا ہے۔ خود سے کہتا ہے کہ اگر یہ کام کر دوں تو ایک مسئلہ چھوٹا سا ہی صحیح حل ہو جائے گا۔ کتنا اچھا اور بافضیلت ہے کہ انسان اسی لمحے اس کام کو انجام دیدے ۔
ایک اور نکتہ جو آپ کے کام کی اچھائیوں میں شمار ہو سکتا ہے، یہ ہے کہ یہ عوام بہت اچھے، سمجھدار، باشعور، نجیب اور سچے ہیں۔ ہم ملک کے مختلف علاقوں کا جو سفر کرتے ہیں، صدارت کے دور میں بھی ایسا ہی تھا، لوگ آتے ہیں اور اپنے خط دفتر رابطہ عامہ کے ذریعے ہم تک پہنچاتے ہیں۔ کبھی کبھی لوگوں کے خطوط سے ایک بڑی بوری بھر جاتی ہے۔ البتہ ایک خط بھی پڑھنے سے نہیں رہتا۔ پڑھتے ہیں، الگ کرتے ہیں، عام طور پر بعض لوگ جو تقریروں میں آتے ہیں، ان کے پاس خط ہوتا ہے اور وہ اپنا خط دیتے ہیں۔ یہ خطوط جو کل شام کو جمع ہوئے تھے، آج الگ الگ کرکے میرے پاس لائے گئے۔ ہمارے دفتر رابطہ عامہ کے اراکین کا جو اس کام کے ذمہ دار ہیں، تاثر یہ تھا کہ یہ لوگ بڑے خوددار اور غیور ہیں اور عزت نفس رکھتے ہیں۔ اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہوتا کہ یہ محروم لوگ ہیں تو کہتے کہ یقینا محرومیت اور پریشانی نہیں ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ محرومیت میں گرفتار ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ محتاج ہیں۔ بنابریں اظہار نہ کرنے کا عامل کچھ اور ہے اور وہ ان کی غیرت اور خودداری ہے۔
جبکہ خط آسانی سے لکھ سکتے ہیں اور وہاں لوگوں کے خطوط جمع کرنے کے لئے دسیوں ہاتھ ہیں۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں میرے ساتھ جو لوگ بھی ہوتے ہیں وہ سب اس بات پر مامور ہوتے ہیں کہ لوگوں کے خطوص جمع کریں اور انہیں مخصوص مرکز تک پہنچائیں۔ یعنی خط آسانی سے لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن انہوں نے خط نہیں لکھا اور جن لوگوں نے خط دیا بھی ہے، لکھا بھی ہے تو خودداری کے ساتھ لکھا ہے۔ آپ دیکھیں کہ یہ بہت اہم اور بہت اچھی انسانی صفت ہے۔
آج دوپہر تک کئی ہزار لوگ میر پاس آئے سلام علیک کیا مصافحہ کیا اور چلے گئے۔ ان چند ہزار لوگوں میں یقینا شہیدوں اور معذور جانبازوں کے گھرانے کے سیکڑوں لوگ رہیں ہوں گے۔ جن لوگوں نے مجھ سے کہا کہ میں شہید کا باپ ہوں۔ یا میرا بیٹا شہید ہوا ہے، یا میں معذور جانباز ہوں، یا دشمن کی قید سے آزاد ہونے والا جنگی قیدی ہوں، یا ہمارے بیٹے جنگی قیدی تھے، یا میرا شوہر جنگی قیدی تھا، ان کی تعداد دس بھی نہیں ہے۔ یہ وہی خودداری اور استغنا ہے۔ عام لوگوں کے لئے یہ بہت حیرت انگیز اور بہت اچھی صفت ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے کام کیا جائے، یہ بہت اچھے اور اس لائق ہیں کہ ان کے لئے کام کیا جائے۔
آج اسلامی جمہوریہ نے ان تجزیہ نگاروں پر بھی جنہیں جلدی یقین نہیں آتا ہے، ثابت کر دیا ہے کہ یہ نظام باقی رہنے والا ہے۔ میں پیشین گوئی نہیں کرنا چاہتا۔ میرا مقصد پیشین گوئی کرنا نہیں ہے۔ اگرچہ پیشین گوئی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس نظام کی فطرت زوال پذیر نہیں ہے۔ بعض نظام زبردستی اقتدار میں آتے ہیں۔ جیسے مردے کو چند لکڑیوں کا سہارا دیکر کھڑا کر دیں۔ بہت سے نظام ایسے ہیں۔ آپ دیکھیں آج سے دو سال پہلے یا شاید ایک سال پہلے تک یہ سوویت یونین ایک سپر طاقت تھی، سینہ تانے، پورے قد سے کھڑی تھی، اپنے لمبے ہاتھوں اور پیروں سے مشرقی یورپ، افریقا کے ایک حصے اور ایشیا کے ایک حصے پر اور اسی طرح دنیا کی کمیونسٹ پارٹیوں پر سایہ فگن تھی۔ جو نظام واقعی استوار اور محکم ہو اور اس کی بنیادیں ٹھیک ہوں، کیا وہ ایک سال میں اس طرح سے ٹوٹ پھوٹ کے برا بر ہو سکتا ہے؟ لہذا وہ نظام بھی جس کو آپ دیکھتے ہیں کہ اس طرح کھڑا ہے ، وہ بھی بے بنیاد اور بے اساس ہے ۔ قرآن کے الفاظ میں اجتثّت من فوق الارض مالھا من قرار (8) اس درخت کی طرح ہے کہ جس کی جڑ نہیں ہے۔
ہم نے طاغوتی حکومت کے برسوں میں دیکھا تھا کہ جب شاہ مشہد جاتا تھا تو کوئی اس کے استقبال کے لئے نہیں آتا تھا۔ جس راستے سے وہ گزرنے والا ہوتا تھا، اس میں درخت اور پھول وغیرہ نہیں ہوتے تھے، راستے کو سجانا چاہتے تھے تو میں نے دیکھا تھا کہ اس وقت کی بے صلاحیت بلدیہ اور ان برسوں کے کھانے پینے والے گورنر، سبز درخت لاتے تھے اور اس سڑک کے اطراف میں جس سے وہ گزرنے والا ہوتا تھا، لگا دیتے تھے۔ اگر ان کی قسمت خراب ہوتی تھی اور اس کی آمد چار دن کے لئے ٹل جاتی تھی تو درخت خشک ہو جاتے تھے۔
قرآن فرماتا ہے کہ و مثل کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعہا فی السماء تؤتی اکلھا کل حین باذن ربھا (10) درخت طیبہ ہمیشہ پھل دیتا ہے۔ بہار، خزاں اور گرمی کے موسم سے اس پر کوئی فر‍ق نہیں پڑتا، اس کے پتے اور شاخیں ہمیشہ پھول اور پھل دیتے ہیں۔ جب ہم نے دیکھا کہ نظام، محکم ہے اور پھل دے رہا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کلمہ طیبہ ہے، زوال پذیر نہیں ہے۔ لیکن اگر خود ہم آئیں اور اس درخت کے ساتھ برائی کریں اور بالفرض بعض حیوانات کی طرح درخت کے پتوں کو خراب کر دیں یا درخت کی جڑ پر کلہاڑی سے ماریں تو ایسا نہیں ہے کہ درخت ختم نہیں ہوگا، درخت سوکھ جائے گا۔ گناہگار انسان کے ہاتھ اسی شجرۂ طیبہ کو بھی خشک کر سکتے ہیں۔ اگر ہم برا کام کریں تو اسی شجرۂ طیبہ، اس کارنامۂ الہی، خدا کے بنائے ہوئے اس تانے بانے اور رزق الہی کو بھی نابود کیا جا سکتا ہے۔ انسان کی تخریبی خصلت ایسی ہے کہ یہ بھی کر سکتی ہے اور جس طرح اس کی تعمیری صلاحیت کوئی حد نہیں رکھتی، اس کی تخریبی طاقت بھی کوئی حد نہیں رکھتی۔
درخت قدرتی طور پر کھڑا ہے۔ آج دنیا نے اس کو سمجھ لیا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام ایسا نظام نہیں ہے کہ کچھ لوگ یہ آس لگائیں کہ فلاں واقعہ ہوگا تو اس کے پتے سوکھ جائیں گے۔ ایک زمانہ تھا جب کہتے تھے کہ جنگ کے ذریعے اس نظام کو ختم کر سکتے ہیں۔ کبھی کہتے تھے کہ امام ( رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رحلت کے بعد اس نظام کی شکل بدل دیں گے۔ ایک وقت کہتے تھے کہ داخلی اختلافات پیدا کرکے نظام کو ختم کر سکتے ہیں۔ لیکن پھر سمجھ لیا کہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس نظام کو ایک حقیقت کی طرح قبول کرنا چاہئے۔ البتہ طویل المیعاد سازشیں بھی کر رہے ہیں۔ تو یہ مسئلہ دنیا میں ختم ہو گيا ہے یعنی سمجھا جا چکا ہے کہ یہ نظام ایک حقیقت ہے۔ جو ہمارے دشمن ہیں، ان کے جو لوگ زیادہ عاقل اور حقیقت پسند ہیں وہ اس کو تحمل اور قبول کریں، چاہیں یا نہ چاہیں، ان کے بس میں نہیں ہے، قبول کرنا ہی ہے۔ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ وہی نہیں جو دوست ہیں بلکہ وہ بھی جو لاتعلق ہیں، خوش ہیں۔
ملک کے اندر ہماری ذمہ داری کیا ہے کہ وہ لامحدود تباہی جس کا میں نے ذکر کیا، نہ آئے؟ ہم میں سے ہر ایک کی ایک ذمہ داری ہے۔ اجرائی اداروں میں کام کرنے والے برادران، میری مراد صرف مجریہ نہیں ہے، بلکہ وہ تمام ادارے جو کام کر رہے ہیں، مجریہ، عدلیہ، مسلح افواج اور مجموعی طور پر وہ تمام لوگ جن کے ذمہ کوئی کام ہے، وہ سب، اپنی جگہ پر ہوشیار اور بیدار رہیں اور ذمہ داری کا احساس رکھیں۔ صرف آپ کو ہی نہیں کہہ رہا ہوں ۔ قوا انفسکم و اھلیکم (11) آپ خود کو بھی اپنے ماتحتوں کو بھی ، اپنے آپ کو بھی اور اپنے ماتحت کام کرنے والوں کو بھی محفوظ رکھیں۔
نگرانی بہت اہم مسئلہ ہے۔ مستقل طور پر نگرانی رکھیں۔ آپ کی آنکھیں ادارے کے اندر دوڑتی رہیں۔ ایک اچھا مدیر یہ ہوتا ہے۔ اچھا مدیر وہ نہیں ہے کہ جس کی کمر فائلوں کے بوجھ سے جھک جائے۔ شہید رجائی مرحوم کہتے تھے کہ اپنی وزارت عظمی کے دورمیں ایک وزیر کے کمرے میں داخل ہوا، دیکھا کہ فائلوں کا انبار اس کی میز پر پہاڑ کی طرح رکھا ہوا ہے کہ اس کو دیکھا نہیں جا سکتا ہے۔ ان دنوں اداروں میں جو سابق چالاک لوگ موجود تھے، جانتے تھے کہ انقلابی وزیروں کو کس طرح ناکام بنائیں۔ اس کے سامنے مسلسل فائلیں اور بے ربط فضول کام لاکے رکھتے تھے۔ وہ بھی چونکہ بے تجربہ تھا اس لئے ان فائلوں میں غرق ہو جاتا تھا اور پوری طاقت اس قسم کے کاموں پر لگا دیتا تھا۔
اچھا مدیر وہ ہے کہ اپنے کمرے میں رہے یا نہ رہے، ادارے میں کام ہوتا رہے۔ ہم اداروں کے بڑے مدیروں، سربراہوں اور وزیروں سے جتنا اوپر چلتے جائیں، یہ بات اتنی اہم اور حساس ہوتی جاتی ہے۔ آپ مستقل خیال رکھیں اور دیکھیں کہ آپ کے افراد کیا کر رہے ہیں۔
دفتری کاموں میں سب ٹھیک ہے پر محمول نہیں کرنا چاہئے۔ مثلا آپ کہیں کہ یقنیا بیچارے اپنا کام کر ہی رہے ہوں گے۔ نہیں، البتہ سبھی براداران اچھے ہیں؛ لیکن اچھے کا مطلب معصوم نہیں ہے۔ اچھے ہیں یعنی خیانت نہیں کریں گے۔ لیکن کیا غلطی بھی نہیں کریں گے؟ کاہلی بھی نہیں کریں گے؟ کبھی ان پر کاہلی طاری نہیں ہوگی؟ میں اپنے آپ پرنظر ڈالتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کمزور اور سست انسان ہوں۔ بعض جگہوں پر یہی بشری احساسات مجھ پرطاری ہوتے ہیں۔ اگر سرزنش نہ کروں اور میرے حواس مجتمع نہ ہوں تو کاہلی میں غر‍ق ہو جاؤں۔ میں اس طرح کا انسان ہوں، آپ بھی اس طرح ہیں۔ ہم ایک ہی جیسے ہیں۔
ہمیں اپنا اور اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ خیال رکھنا چاہئے کہ کام ہو اور صحیح ہو۔ یعنی غلط اور بری طرح نہ ہو۔ محکم انداز میں انجام دیا جائے۔ کبھی محکم کرنے کے لئے کیل پر دو ہتھوڑی ماری جا سکتی ہے اب اگر ایک ماری جائے تو یہ سستی سے کام لینا کہا جائے گا۔ بنابریں پہلی بات یہ ہے کہ کام ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ صحیح طریقے سے اور صحیح سمت میں ہو، تیسری بات یہ ہے کہ کام محکم ہو اور چوتھے یہ کہ تیز ہو اور پھر آپ حضرات کے پاس لوگ آتے ہیں، اس لئے ایک پانچویں بات بھی ہے کہ خندہ پیشانی سے کام کریں۔ چو وا نمی کنی گرہی خود گرہ مشو ( اگر کسی کی مشکل حل نہیں کرتے تو خود مشکل نہ بنو) ممکن ہے کہ کوئی آپ کے پاس آئے، لیکن آپ اس کی مشکل حل نہ کر سکیں۔ اگر اس کی مشکل حل نہ کر سکیں تو کم سے کم اس کی مشکل بڑھائیں تو نہیں، اس کے کام میں اور مشکل نہ پیدا کریں۔
چو وا نمی کنی گرہی، خود گرہ مشو ابرو گشادہ باش، چودستت گشادہ نیست
(12)
اگراس کے لئے کچھ کر نہیں سکتے تو کم سے کم کشادہ روئي سے ملیں۔ خندہ پیشانی کے ساتھ مسکرا کے نرمی اور ملائمت سے اس سے بات کریں۔ اگر اس کا کام نہیں ہو سکتا تو اس کی وجہ اس کو بتائیں۔ اس کام کے لئے کچھ لوگ ہونے چاہئیں۔ ممکن ہے کہ آپ کہیں کہ میں خود نہیں کر سکتا۔ لیکن آپ کے پاس ایسے لوگ ہوں جو آنے والوں سے بات کر سکیں اور انہیں مطمئن کر سکیں۔
آج لوگ جو میرے پاس آئے، تو اگرچہ یہ آپ کے ساتھ گستاخی ہو رہی ہے، لیکن ایک بات جو مجھ سے کہتے تھے یہ تھی کہ ان اداروں کو دیکھیں اور ان سے کہیں کہ ہمارا جواب دیں۔ آپ، لوگوں کو جواب دیں۔ بہرحال لوگوں کو مطمئن کرکے واپس کریں۔ اگر ایسا ہو گیا تو جان لیں کہ خدا شاہد ہے، تیز ترین تیر بھی اس کشتی میں نفوذ نہیں کر سکے گا۔ کشتی محکم، اس کا قطب نما دقیق اور ہدف واضح ہے اور اتفاق سے ہوا بھی موافق ہے۔ یعنی مرضی الہی بھی صحیح حرکت کے ساتھ ہے۔ اس کے لئے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے اور اس وقت آپ کے لئے اسلامی اور دینی بحث نہیں چھیڑنا چاہتا۔
جس گاڑی کو چلانے کے لئے آپ نے اسٹیرنگ سنبھالی ہے، اگر کام صحیح انجام دیا یعنی گاڑی کو صحیح طرح سے اسٹارٹ کیا، ایکسیلیٹر پر جتنا دباؤ ڈالنا چاہئے ڈالا تو جب کلچ چھوڑیں گے تو یہ گاڑی جس سمت میں آپ لے جانا چاہیں گے، حرکت کرے گی۔ اس گاڑی کو بنانے میں جو اصول مد نظر رکھے گئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ جیسا کہ میں نے کہا آپ نے اس طرح صحیح عمل کیا تو یہ گاڑی چلے گی، جس سمت میں آپ اسے لے جانا چاہیں گے، جائے گی۔ اس کا اسٹیرنگ اس طرح بنایا ہے کہ جس طرف بھی آپ گھمانا چاہیں گے گھوم جائے گی ۔ اہم یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کو کہاں اور کس موقع پر گھمانا ہے۔ اگر آپ یہ نہ سمجھ سکے کہ اسٹیرنگ کو کس وقت گھمائیں، جلدی یا دیر میں گھمایا تو گاڑی چٹان سے ٹکرائے یا کھائی میں گرے ، قصور آپ کا ہوگا۔ اس گاڑی کے لئے جو اصول رکھے گئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ اگر آپ صحیح عمل کریں تو آپ کو آسانی سے، تیزی کے ساتھ، وقت پر منزل مقصود تک پہنچا دے گی۔ انسان کی زندگی کی فطرت اس طرح ہے۔
ہماری اور آپ کی تخلیق میں، اس فطرت کی تخلیق میں جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں، پانی، مٹی، زمین، صنعت، کانوں، سمندروں، حیوانات اور دیگر تمام چیزوں کی تخلیق میں جو قوانین بروئے کار لائے گئے ہیں، اگر آپ نے دستورالعمل کے مطابق، اسلام کے دستورالعمل کے مطابق عمل کیا تو ان قوانین سے آپ فائدہ اٹھائیں گے۔ ہم نے جیسا کہ عرض کیا؛ آپ کشتی صحیح طرح سے چلائیں اور اتفاق سے ہوا بھی آپ کے موافق ہے۔ اگر آپ اسلام کے ساتھ آگے بڑھیں تو آپ فطرت کی رفتار کے خلاف نہیں چل رہے ہیں، جلدی پیشرفت کریں گے۔ زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ اپ دیکھیں گے کہ ملک ترقی کر گیا۔ اقتصاد اچھا ہو گيا۔ صحرائی علاقے آباد ہو گئے۔ محروم علاقے آباد ہو گئے۔ کارخانے لوگوں کے فائدے میں چلنے لگے اور لوگ زندہ، سرسبز و شاداب ہوگئے۔
خداوند عالم آپ سب کو توفیق عطا کرے۔ آپ کی نصرت کرے تاکہ آپ عوام کے لئے زیادہ کام کریں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

----------------------------------------------------------------------
1- بحار الانوار،ج 79، ص 49
2- صوبہ فارس سے صوبہ بوشہر پانی لانے کے بارے میں اس وقت کے وزیر توانائی جناب زنگنہ کی رپورٹ۔
3- جناب صحرابیان۔
4- مصاحب نائینی۔
5- مرکزی معاہدے کی تنظیم سینٹو۔ انیس سو اٹھاون میں عراق اور ترکی نے بغداد فوجی معاہدے) پر دستخط کئے اور اسی سال ایران، پاکستان اور برطانیہ اس میں شامل ہوئے اور امریکا مبصر کی حیثیت سے اس میں شامل ہوا۔ انیس سو انسٹھ میں عراق کے حالات تبدیل ہونے اور عبدالکریم قاسم کی حکومت شروع ہونے کے بعد، عراق اس معاہدے سے نکل گیا اور اس معاہدے کا نام مرکزی معاہدہ ( سینٹو) رکھ دیا گیا اور اس کا ہیڈکوارٹر بغداد سے انقرہ منتقل کر دیا گیا۔ چونکہ سینٹو نے بنگلادیش کے معاملے میں پاکستان کی حمایت نہ کی اس لئے انیس سو چھہتر میں پاکستان اس سے الگ ہو گیا اور ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد یہ معاہدہ عملی طور پر ختم ہو گیا۔
6- امیر خسرو دہلوی ۔
7- حجت الاسلام والمسلمین ہاشمی رفسنجانی۔
8- ابراہیم؛ 26
9- ابراہیم ؛ 26
10- ابراہیم 24 و 25
11- تحریم ؛ 6
12- صائب تبریزی ۔