بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی محمد و آلہ الطاہرین

سب سے پہلے میں اس کانفرنس کے تمام عزیز مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ امید ہے کہ مسئلۂ فلسطین کے بارے میں آپ کے اجتماع کے نمایاں اور فیصلہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ مسئلۂ فلسطین موجودہ عالم بشریت کے بڑے مصائب میں سے ہے۔ جس کسی کے اندر بھی انسان اور انسانی حقوق کا احساس ہے اور مظلوم انسانوں کی حمایت کا دم بھرتا ہے، اس کو اس مسئلے میں آواز اٹھانی چاہئے اور اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھنا چاہئے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ فلسطین کا مسئلہ اور مصیبت تاریخ کے کم نظیر مسائل میں سے ہے۔ جہاں تک ہم نے جانا اور پہچانا ہے، کسی بھی قوم کی نسبت اتنا بڑا حادثہ تاریخ میں شائد ہی کبھی رونما ہوا ہے۔
آپ جو بھی انسانی مصائب فرض کریں، وہ سب فلسطین کے مسئلے میں جمع ہیں۔ بے گناہ لوگوں کے قتل سے لیکر لوگوں کو بے گھر اور آوارہ وطن کرنے تک، ایذارسانیوں، تکلیف دینے، قید اور جلا وطنی وغیرہ سے لیکر انسانی مقام و مرتبے کی توہین تک، انسانوں کی ایک جماعت کے بشری سرمائے کی تباہی سے لیکر، دباؤ، ظلم ، گھٹن اور انسانوں کے ایک گروہ کو نقل و حرکت کی اجازت نہ دینے تک، یہ سب مصائب اگر دنیا کے کسی گوشے میں انسانوں پر ڈھائے جائیں تو انسانیت مجروح اور سوگوار ہوگی جبکہ یہ تمام مصائب پینتالیس سال سے فلسطین میں ڈھائے جا رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی طرفداری کا دم بھرنے والے اگر سچے ہیں تو فلسطینی قوم کے حقوق کی بات کریں۔ آپ کس قوم کو پہچانتے ہیں کہ جس نے ان پینتالیس برسوں میں اتنی تکلیفیں اٹھائی ہوں جو فلسطینی قوم نے اٹھائی ہیں، فلسطینی قوم کی طرح مصیبتیں برداشت کی ہوں اور اس کے حقوق اس طرح نظر انداز کئے گئے ہوں؟
کیا بات ہے کہ دنیا کے کسی گوشے میں کچھ لوگوں پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کچھ لوگ دعوا کرتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کے حامی و غمخوار ہیں، ان کی حمایت کرتے ہیں، ان کی ہمدردی کی بات کرتے ہیں اور اقدام کرتے ہیں، لیکن فلسطینی عوام پر ڈھائی جانے والی ان تمام مصیبتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں؟
ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ فلسطین کے مسئلے میں حقیقت کو الٹ کے پیش کرتے ہیں۔ جو مسئلہ فلسطین کے لئے، یعنی اپنے گھر کے لئے، اپنے انسانی اور قومی حق کے لئے، کوئی اقدام کرتا ہے، اس کو سامراجی دنیا کے اخبارات و جرائد اور سامراج اور صیہونیت سے وابستہ تشہیراتی اداروں کی زبان میں دہشتگرد کے عنوان سے متعارف کرایا جاتا ہے۔ بڑی مصیبت یہ ہے کہ یہ تمام مصائب متمدن دنیا کی تائید اور منظوری سے ایک قوم پر ڈھائے جاتے ہیں۔ نام نہاد متمدن دنیا، انسانی حقوق کی نام نہاد طرفدار دنیا ان کی طرفدار ہے جنہوں نے ایک پوری قوم کے انسانی اور فطری حقوق کو اس طرح نظر انداز کر رکھا ہے۔
صیہونیوں نے آکے فلسطینیوں کے گھروں کو غصب کر لیا۔ انہیں بنیادی ترین حقوق سے محروم کر دیا۔ ان کی سر زمین میں ان کے خلاف حکومت قائم کر دی اور آج نام نہاد متمدن دنیا، امریکا اور سامراج کے لاؤڈ اسپیکر، اس قوم کا ساتھ دینے کے بجاۓ جو مظلوم واقع ہوئی ہے، اس نظام کی طرفداری کرتے ہیں جس نے ان پینتالیس برسوں میں یہ ستم ڈھائے ہیں۔ واقعی اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا؟ اس سے بڑا کوئی ظلم ہمیں نظر نہیں آتا۔ ایک قوم پر اتنا بڑا اور وسیع ظلم کریں اور پھر اگر وہ قوم مجبور ہوکر کوئی اقدام کرے تو اس اقدام کو دہشتگردی اور تشدد قرار دیکر کچلا جائے۔ آج استکباری دنیا کی سیاست کا عالم یہ ہے۔ آج فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرنے کے لئے دنیا کے دولت و طاقت کے نظام متحد ہو گئے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اس مسئلے کے انسانی پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیں اور برعکس ظاہر کریں۔
جن کے دل فلسطینیوں کے لئے جلتے ہیں، جو انسانی حقوق سے محروم کر دیئے جانے والے لاکھوں اور دسیوں لاکھ انسانوں کے لئے اپنا دل جلاتے ہیں، جو سرزمین فلسطین میں غاصب صیہونی حکومت کی موجودگی کی مخالفت کرتے ہیں، انسانیت کے لئے، بیٹوں کا داغ دیکھنے والی ماؤں کے لئے، مومن نوجوانوں کے لئے اپنا دل جلاتے ہیں، ان انسانوں کے لئے اپنا دل جلاتے ہیں کہ جن کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے گھر ہمیں واپس کر دو، ہمارا وطن ہم سے نہ چھینو، ہمارے گھر میں ہمارے اوپر اتنا ظلم نہ کرو، کیا یہ بات غلط ہے؟ کیا یہ بات تشدد اور سرکشی ہے؟ اس دنیا میں اگر کوئی اپنی قومیت کے حقوق کے احیاء کے لئے مجاہدت کرے تو کیا یہ مجاہدت غیر عادلانہ ہے؟ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم مسئلۂ فلسطین کی عادلانہ راہ حل تلاش کرنا چاہتے ہیں، میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ یہ عادلانہ راہ حل کیا ہے؟ فلسطین کس کا ہے؟ کیا فلسطینیوں کے علاوہ کسی اور کا ہے؟
کیا تم نام تبدیل کرکے ایک قوم کو اس کے بنیادی ترین حق یعنی اپنی سرزمین رکھنے کے حق سے محروم کر سکتے ہو؟ کیا جھوٹے پروپیگنڈوں سے اسرائیلی قومیت کے نام سے کوئی جھوٹی قومیت وجود میں لا سکتے ہو؟ کیا یہ چیز قابل قبول ہے؟ کیا یہ بات انصاف کے مطابق ہے؟ کیا یہ بات منصفانہ ہے؟ مسئلہ یہ نہیں کچھ اور ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ استکباری دنیا کو عالم اسلام کے جغرافیائی مرکز کی حیثیت سے سرزمین فلسطین کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسلام کو کچل سکے، اسلامی اقوام پر دباؤ ڈال سکے اور اسلامی تحریک کو روک سکے۔
اسرائیلی حکومت اس خطے میں استکبار کی جانشین ہے تاکہ اس علاقے میں استکبار کے مفادات پورے کرے۔ قضیہ یہ ہے۔ کیا صحیح و سالم اور بے غرض انسان فلسطین کی نسبت استکبار کے جھوٹے اور خباثت آمیز پروپینگنڈوں کے دھوکے میں آ سکتے ہیں؟ آج سامراجی محاذ ملت فلسطین اور اسلامی اقوام کے حق کو پامال کرنے کے در پے ہے۔ کیا اسلامی اقوام کو یہ حق ہے کہ بیٹھ کے ایک مسلمان قوم اور اپنے حقوق کی پامالی کا تماشہ دیکھیں؟
مسئلۂ فلسطین کی راہ حل بالکل واضح ہے۔ جو لوگ اس فریب میں آرہے ہیں کہ جاکے دشمن کے ساتھ یعنی جس نے غصب کیا ہے اس کے ساتھ مذاکرات کریں، وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ وہ اقوام کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ لیکن اقوام دھوکہ نہیں کھائیں گی۔ مسئلۂ فلسطین کی راہ حل یہ نہیں ہے کہ جاکے فلسطین کو غصب کرنے والے اسرائیل سے گفتگو کریں۔ وہ اگر اس علاقے میں امن چاہتے ہیں تو فلسطینیوں کے گھر انہیں واپس لوٹا دیں امن قائم ہو جائے گا۔ تم نے روس، برطانیہ، افریقا، ایشیا، ہندوستان اور دنیا کے دیگر علاقوں سے مختلف اقوام کے لوگوں کو یہاں کیوں جمع کیا ہے؟ تاکہ کچھ لوگوں کو ان کے گھروں سے باہر کر دو؟ اگر تم امن چاہتے ہو تو امن اس میں ہے کہ جو لوگ دوسرے ملکوں سے آئے ہیں وہ اپنے گھروں کو واپس جائیں اور فلسطین فلسطینیوں کو لوٹا دیں۔
فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ اگر فلسطین کے عوام، فلسطین کے اندر، یعنی پورے فلسطین میں، کسی تقسیم کے بغیر، حکومت تشکیل دیں تو امن قائم ہو جائے گا۔ تم اگر سچ کہتے ہو اور فلسطینی قوم، اسلامی اقوام اور اسلام کے خلاف کوئی سازش تمہارے پیش نظر نہیں ہے تو راہ حل یہ ہے۔ لیکن اگر اس راہ حل پر عمل نہ کرنا چاہو تو سامراجی کیمپ کو جان لینا چاہئے کہ ان کانفرنسوں سے جن کا وہ اہتمام کر رہے ہیں اور ان فیصلوں سے مسئلۂ فلسطین حل نہیں ہوگا۔ فلسطینی مجاہدتیں نہیں رکیں گی اور رکنا بھی نہیں چاہئے۔
اسرائیل نے ثابت کر دیا ہے کہ طاقت کی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں سمجھتا۔ اس سے ایک قوم کی طاقت اور پوری دنیا کی امت اسلامیہ کی قوت کی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں بات نہیں کی جا سکتی۔ آپ اسلامی اقوام کے نمائندے ہیں۔ آپ فلسطینی عوام کے نمائندے، اراکین پارلیمنٹ اور اقوام کےنمائندے یہاں جمع ہیں، فلسطین کے بارے میں آپ فیصلہ کریں۔ فیصلہ کچھ اور نہیں بلکہ فلسطین کی نجات کے لئے ہونا چاہئے اور اس کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ وہی راستہ ہے کہ جس کو فلسطین کی مقدس تحریک انتفاضہ کے سپاہیوں نے پہچان لیا ہے اور اس پر چل رہے ہیں، فلسطین کے اندر جد و جہد کا راستہ ۔ علاج یہ ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
آپ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ہیں۔ مسلمانوں کے پاس طاقت کے عظیم ترین وسائل ہیں۔ آج دنیا آپ کے تیل کی محتاج ہے۔ آج دنیا زندگی اور حیات کے لئے آپ کے اہم اور حساس علاقے کی محتاج ہے۔ امریکا آپ پر کوئی چیز کیوں مسلط کرے؟ برداشت نہ کریں۔ قبول نہ کریں۔ یہ نعرے نہیں ہیں یہ حقائق ہیں۔ اگر ہم ہمت کریں اور اس انسانی اور الہی فریضے پر صداقت کے ساتھ عمل کریں تو یہ قابل حصول اور قابل عمل ہے۔
آج فلسطینی قوم کے منتخب اور فداکار افراد، بوڑھے، جوان، عورتیں اور مرد، مقدس سرزمین فلسطین کے اندر مجاہدت کر رہے ہیں۔ ان کی مدد کریں۔ راستہ یہ ہے۔ فلسطین کی مدد یعنی ان مجاہدین کی مدد جو مجاہدت کر رہے ہیں۔ فلسطین کی مدد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان ساز باز کرنے والوں کی مدد کی جائے جن کے دل فلسطین کے لئے نہیں جلتے بلکہ وہ اپنے ذاتی مفادات کی فکر میں ہیں۔ وہ تنظیم قابل قبول ہے اور فلسطینی عوام کے وہ حقیقی نمائندے قابل قبول ہیں کہ جو فلسطینی اقدار کی راہ میں جد و جہد کر رہے ہیں وہ تنظیم نہیں کہ جو فلسطینی اقدار کو دشمن کو ہاتھوں بیچ دے اور اس کا سودا کر لے۔
مسلم اقوام آگے بڑھیں اور ذمہ داری کا احساس کریں۔ جو کچھ میری نظر میں آج کہنا اور انجام دینا ضروری ہے، وہ سب میں نے اعلامیے (1) میں کہہ دیا ہے ۔ اس وقت بھی کہہ رہا ہوں کہ اسلامی اقوام جس طرح بھی ممکن ہو ان لوگوں کی مدد کریں جو فلسطین کے اندر جد و جہد کر رہے ہیں۔
اگر آج آپ نے پسپائی اختیار کر لی تو جان لیجئے کہ دشمن ایک محاذ اور آگے آئے گا۔ دشمنی تو ختم نہیں ہوگی۔ اسرائیل ایک مورچہ اور آگے آ جائے گا۔ امریکا جو عالم اسلام کا دشمن ہے، ایک محاذ اور آگے آئے گا۔ اگر آپ پیچھے ہٹیں گے تو وہ آگے بڑھیں گے۔ ان کے اور آپ ، امت مسلمہ کے درمیان دشمنی تو ختم نہیں ہوگی۔ سامراج کے سامراجی مطالبات تو ختم ہونے والے نہیں ہیں۔
یہاں آپ ایک ٹھوس اقدام اور حتمی فیصلہ کریں۔ تہران کا یہ اجتماع ایک مبارک اجتماع ہو سکتا ہے۔ کام آپ کے ہاتھ میں ہے۔ فیصلہ کریں۔ پارلیمانیں فلسطین کے بارے میں فیصلہ کریں اور حکومتوں کو اس پر عمل کے لئے کہیں۔ روشنفکر اور قلمکار حضرات لکھیں اور رائے عامہ کو بیدار کریں۔ یونیورسٹی طلبا اور نوجوان آمادہ رہیں اور بلند آواز سے اقوام کے مطالبات کا اعلان کریں۔
ایرانی قوم تیار ہے۔ ہم اپنی توانائی اور طاقت بھر آمادہ ہیں کہ اس فریضے پر عمل کریں۔ سامراج کی دشمنی بھی برداشت کریں گے۔ ہمیں فلسطین، فلسطینی انتفاضہ اور فلسطینی عوام کے قیام کی حمایت پر دھمکیاں نہ دیں۔ یہ حمایت ہمارا فریضہ ہے۔ ہم اس کو انجام دیں گے اور کسی بھی دھمکی سے نہیں ڈریں گے۔ انقلاب کے بعد سے ہی ہم استکبار کی دھمکیوں کی زد پر رہے ہیں اور پروردگار کے فضل سے خدا کی قوت و قدرت کی برکت سے استکبار ہمارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ ہم اب بھی اپنے فریضے پر عمل کریں گے۔
میں آپ محترم حضرات اور برادران عزیز سے درخواست کرتا ہوں کہ اس اجتماع پر پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں اور کوشش کریں کہ جلسوں میں کسی فیصلے پر پہنچ جائیں۔ صرف اجتماع اور نشستن، گفتن اور برخاستن کافی نہیں ہے۔ فیصلہ کریں۔ فیصلے کے ساتھ واپس جائیں اور اس فیصلے پر عمل درآمد کریں۔ اس وقت آپ دیکھیں گے کہ جو راستہ بند نظر آتا ہے وہ کھل جائے گا۔ مسلم اقوام کے ارادے کے مقابلے میں کوئی راستہ بند نہیں ہے۔
خدا وند عالم سے آپ حضرات کے لئے توفیقات کا طالب ہوں ۔ مجلس شورائے اسلامی (ایرانی پارلیمنٹ) کا جس نے اس عظیم کام کا بیڑا اٹھایا اور اتنے بڑے اجتماع کا اہتمام کیا، شکریہ ادار کرتا ہوں۔ ایران کی پوری قوم اور تمام حکام سے درخواست کرتا ہوں کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس مجموعے، اس تحریک اور فلسطینی عوام کے قیام کی حمایت کریں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

--------------------------------------------------
1- رجوع کریں میڈرڈ کانفرنس میں امریکا اور اسرائیل کی خباثت آمیز سازشوں کے مقابلے کے لئے مسلم اقوام کے نام (مورخہ 25-7-137- مطابق 17-10- 1991 کے )پیغام سے ۔