آپ نے بعثت رسول کو تاریخ انسانیت کا انتہائی اہم موڑ اور نئے راستے کا سرآغاز قرار دیا۔ آپ نے ملکی اور عالمی حالات کا جائزہ لیا اور پوری دنیا کو جنگ زدہ اور غیر محفوظ رکھنے کی سامراجی طاقتوں کی سازش کے مختلف پہلو بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے سامراجی طاقتوں کے سرسام آور فوجی بجٹ پر بھی سخت نکتہ چینی کی۔
تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے:

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

ہم تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں اس عید سعید کی آپ تمام بھئیوں اور بہنوں، ملک کے عہدہ داروں، جلسے میں تشریف فرما مہمانان محترم اور اسلامی ممالک کے سفراء کو۔ اسی طرح با عظمت، با اخلاص اور با ایمان ملت ایران کو، دنیا کے تمام مسلمانوں اور آزاد منش انسانوں کو۔
عید بعثت رسول اس لحاظ سے سب سے بڑا اور نا قابل فراموش تاریخی واقعہ ہے کہ اس کے باعث تاریخ بشر میں بڑا حساس دور شروع ہوا اور انسانیت کو ایک نئی راہ اور نئی ڈگر سے واقفیت حاصل ہوئی۔ ایسی راہ کہ اگر اس پر دنیا کے انسان گامزن ہو جائیں تو انسانیت کی تمام مطلوبہ فطری و قدرتی خواہشات اس پر چل کر پوری ہو سکتی ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالئے تو بے انصافی کے باعث انسانیت سسکتی ہوئي نظر آتی ہے۔ پتہ چلا کہ عدل و انصاف پوری تاریخ میں انسانیت کی اہم ترین خواہش رہی ہے۔ آج بھی اگر کوئی عدل و انصاف کا پرچم بلند کرے تو فی الواقع اس نے انسانیت کی ایک دیرینہ فطری خواہش اور مطالبے کو پیش کیا ہے۔ آئين اسلام، تحریک اسلام، بعثت نبی اکرمۖ کے ذریعے دیگر پیغمبروں کی مانند سب سے پہلے درجے میں عدل و انصاف قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔
انسان کی ایک اور اہم ترین خواہش امن و سلامتی اور سکون و راحت ہے۔ انسانوں کو زندگی بسر کرنے، فکر و نظر کو فروغ دینے، کاموں کی انجام دہی، ذہنی اور نفسیاتی سکون و طمانیت کے لئے امن و سلامتی کی، پر سکون ماحول اور فضا کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر بھی، اپنے کنبے کے اندر بھی، معاشرے کے اندر بھی اور عالمی سطح پر بھی۔ امن و سلامتی اور مفاہمت و آشتی بشر کی بنیادی خواہشات کا جز ہے اور اسلام امن و سلامتی کا پیغام پیش کرنے والا دین ہے۔ یہ جو ہم قرآن اور قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ دین اسلامی دین فطرت ہے اس کا یہی مطلب ہے۔ اسلام نے انسانیت کو جو راستہ دکھایا ہے وہ فطرت کا راستہ ہے، انسانوں کی فطری خواہشات کی تکمیل کا راستہ ہے۔ اس ہمہ گیریت، اس باریک بینی، اس اہتمام و ارتکاز کے ساتھ پروردگار عالم کی جانب سے نبی اکرمۖ کو مبعوث برسالت کیا گیا اور انسانیت کو فلاح و سعادت کا مژدہ سنایا گیا۔ بشیرا و نذیرا (1) یہ بشارت اسی پر سکون زندگی کی بشارت ہے، عدل و انصاف پر قائم زندگی کی بشارت ہے، مزاج و فطرت انسانی سے ہم آہنگ زندگی کی بشارت ہے۔ اس کے بعد ثواب الہی کی بشارت ہے جس کا تعلق انسان کی دائمی زندگی سے ہے۔ بنابریں بعثت پیغمبر در حقیقت رحمت کی نوید ہے۔ اسی بعثت کے باعث رحمت الہی بندگان خدا کے شامل حال ہوئی، یہ نیا راستہ انسانوں کے لئے کھل گیا۔ عدل و انصاف کی بات شروع ہوئی، امن و سلامتی کا تذکرہ شروع ہوا۔ «قد جائكم من اللَّه نور و كتاب مبين. يهدى به اللَّه من اتّبع رضوانه سبل السّلام و يخرجهم من الظّلمات الى النّور».(2) ان فرامین اور ان تعلیمات کے ذریعے پیغمبر اکرمۖ نے انسانوں کو امن و سلامتی کی راہوں سے روشناس کرایا۔ یہ سبل سلام امن کی راہیں، سلامتی کی راہیں، سکون و چین کی راہیں ایسے ہر شعبے سے متعلق ہیں جن کی انسانوں کے لئے اہمیت ہے۔ انسانی کی باطنی قلبی وادی سے لیکر معاشرے، کنبے، مالی سرگرمیوں کے مراکز، اجتماعی زندگی اور عالمی فضا تک۔ یہی وہ چیز ہے جس کے لئے اسلام کوشاں ہے۔
اسلام میں جو بات دشمن کے ہدف اور نصب العین کے طور پر متعارف کرائی گئی ہے وہ عبارت ہے ان باتوں اور نکات سے جو حیات انسانی کی ان بنیادی راہوں سے تضاد رکھتی ہوں۔ جو لوگ عدل و انصاف کے مخالف ہے، جو لوگ امن و آشتی اور سکون و راحت کے مخالف ہیں جو لوگ صفاء و پاکيزگی قلبی اور طہارت روح انسانی کے مخالف ہیں وہ در حقیقت پیغمبر کے پیغام کے دشمن ہیں۔ عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے ہی اللہ تعالی نے مسلمانوں پر جہاد واجب کیا اور یہ اسلام سے ہی مختص نہیں ہے، جہاد تمام ادیان الہی میں موجود رہا ہے۔ جو لوگ پیغام الہی کے خلاف ہیں، بشریت کی آسائش، انسانیت کے چین و سکون، معاشرے کی سربلندی و سرخروئی اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے مخالف ہیں، انسانوں کے مفادات کے دشمن ہیں وہ در حقیقت اس نقطے پر کھڑے ہیں جو اسلام کی زد پر ہے۔ ابتدائے بعثت سے ہی پیغمبر اکرمۖ نے آیات قرآنی کے ذریعے جو پیغمبر پر اترنے والی وحی الہی سے عبارت ہیں صورت حال کو واضح اور روشن کر دیا۔
اسی سورہ مبارکہ اقراء میں، جس کی ابتدائي آیات بظاہر پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والی سب سے پہلی آيتیں ہیں، بعد کی آیتیں کچھ دیر میں نازل ہوئیں البتہ اوائل بعثت سے ہی متعلق ہیں، ارشاد رب العزت ہے کہ «كلّا لئن لم‌ينته لنسفعا بالنّاصية. ناصية كاذبة خاطئة. فليدع ناديه. سندع الزّبانية».(3) جو لوگ دعوت رحمت، دعوت عزت اور دعوت امن و سلامتی کے مد مقابل کھڑے ہو گئے ہیں قرآن کے سب سے پہلے سورے میں انہیں دھمکی دی گئی ہے۔ اسی طرح سورہ مدثر ہے، اسے بھی پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والے ابتدائی سوروں میں شمار کیا جاتا ہے، اس سورے میں بھی عوام الناس کی زندگی میں رخنہ اندازی اور فتنہ انگیزی کرنے والے عناصر کے بارے میں خاص طور پر بات کی گئی ہے۔ «ذرنى و من خلقت وحيدا. و جعلت له مالا ممدودا. و بنين شهودا. و مهّدت له تمهيدا. ثمّ يطمع ان ازيد. كلّا انّه كان لأياتنا عنيدا. سأرهقه صعودا».(4) جو لوگ پیغمبر کے مخالف ہیں، جو لوگ انسانی معاشرے کے مفادات کے دشمن ہیں، جو لوگ راہ حق کے دشمن ہیں ان کے خلاف پائیداری سے ڈٹ جانے کی بات کہی جاتی ہے، اسی لئے اسالم نے جہاد رکھا ہے، مزاحمت رکھی ہے۔ البتہ یہ جہاد اس جنگ کا نام ہے جو حیات بشر کے چین و سکون کے دشمنوں سے لڑی جائے، عدل و انصاف کے مخالفین سے لڑی جائے، سعادت و خوشبختی بشر کے مخالفین سے لڑی جائے۔ چنانچہ اگر آپ قرآن کریم اور سیرت پیغمبر اکرم کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ جب سے اسلامی حکومت تشکیل پائي ہے اسی وقت سے کچھ ایسے غیر مسلم بھی تھے جنہوں نے پیغمبر اسلام کے زیر سایہ چین و سکون کے ماحول میں زندگی گزاری۔ مدینے میں جو یہودی تھے، پیغمبر اسلام نے ان سے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت وہ پیغمبر اسلام کے نزدیک پر سکون اور پر امن زندگی گزاریں لیکن انہوں نے سازشیں رچیں، مخاصمانہ رویہ اپنایا، خیانت کی، پس پشت سے خنجر مارا۔ لہذا پیغمبر اسلام نے ان کا مقابلہ کیا۔ اگر مدینے کے یہودیوں نے مخاصمانہ رویہ نہ اپنایا ہوتا، دشمنی پر نہ تلے ہوتے، خیانتیں نہ کی ہوتیں تو شاید پیغمبر اسلام کبھی بھی ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کرتے۔ اسلام کا پیغام روحانیت و معنویت کا پیغام ہے، یہ مدلل پیغام ہے، یہ انسانیت کے لئے سعادت بخش اور تابناک زندگی گزارنے کی دعوت ہے۔ کچھ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں، اسے ختم کر دینے پر تل جاتے ہیں تو اسلام انہیں راستے سے ہٹانے کی بات کرتا ہے۔ اسلام کبھی بھی پسپائی اختیار کرنے کا قائل نہیں ہے۔ اگر کوئی دشمن ہے جو انسانیت کی سعادت و خوش بختی کی راہ مسدود کر دینے پر تل گیا ہے، راہ حق کی مخالفت پر اتارو ہے تو اسلام اس دشمن سے ٹکرا جاتا ہے، اس کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔ اب آپ اس چیز کا موازنہ کیجئے طول تاریخ میں جارح طاقتوں کی کارکردگي سے اور ان کی آج کی حرکتوں سے۔ یہ طاقتیں توسیع پسندی کی جنگ لڑتی ہیں، بے انصافی اور ظلم کا دائرہ پھیلانے کے لئے قتل و غارتگری کرتی ہیں۔ آج آپ دنیا میں دیکھ رہے ہیں کہ سامراجی اور توسیع پسند طاقتیں اسلحے بناتی ہیں انسانیت کو ہراساں کرنے کے لئے، عدل و انصاف کی ترویج نہیں ظلم و زیادتی کے دائرے کی توسیع کے لئے، انسانیت کو امن و سلامتی فراہم کرنے کے لئے نہیں ان لوگوں کا چین و سکون سلب کر لینے کے لئے جو ان کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے۔ آج دنیا کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے۔
یہ جو ہم دنیا کی عصری جہالت کو ماڈرن جہالت کہتے ہیں اس کی یہی وجہ ہے۔ دور جاہلیت ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ دور جاہلیت عبارت ہے حق کے خلاف جنگ سے، توحید کے خلاف سازش رچنے سے، انسانی حقوق کو پامال کرنے سے، اللہ تعالی کی جانب سے انسانوں کی سعادت و خوشبختی کے لئے معین کردہ راستے کی مخالفت سے۔ یہ حرکتیں آج بھی انجام دی جا رہی ہیں، البتہ ماڈرن شکل میں، سائنس کے استعمال کے ذریعے، پیشرفتہ ٹکنالوجی کے ذریعے، ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے لئے اور حیات بشر کو تباہ و نابود کر دینے والی صنعتوں کے مالکان کی جیبیں بھرنے والے انواع و اقسام کے ہتھیاروں کے استعمال کے ذریعے۔
آج دنیا میں ہتھیاروں اور فوجی اخراجات کا مسئلہ انسانیت کو در پیش انتہائی افسوسناک مسئلہ ہے۔ آج دنیا میں اسلحہ سازی کے کارخانوں میں انواع و اقسام کے اسلحے بنائے جا رہے ہیں کہ یہ ہتھیار فروخت کئے جائیں۔ دنیا میں جنگ کروائی جا رہی ہے، انسانوں کے درمیان دشمنیاں پیدا کی جا رہی ہیں، حکومتوں کو ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کیا جا رہا ہے، خطرات پیدا کئے جا رہے ہیں تاکہ خباثت آمیز حرص اور خیانت آمیز مزاج کی تسکین ہو سکے، پیٹ بھرا جا سکے۔
بنابریں جب تک عالمی مسائل کی باگڈور بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں رہے گی، دنیا میں جنگ ختم نہیں ہوگی۔ جنگ سے ان کے مادی مفادات وابستہ ہیں۔ یہ جنگ عدل و انصاف کے قیام کی راہ میں لڑی جانے والی جنگ نہیں ہے۔ جھوٹے ہیں یہ امریکی اور دوسرے لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم امن و سلامتی قائم کرنے کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ حقیقت حال اس کے بالکل بر عکس ہے۔ جہاں بھی ان کی فوجی موجودگی اور فوجی کارروائیاں جاری ہیں بد امنی، بے انصافی اور انسانوں کی زندگی کو دشوار سے دشوارتر بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جب سے دنیا میں یہ پیشرفتہ ساز و سامان بنا لئے گئے ہیں، اسی وقت سے انسان شدید دباؤ میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سن انیس سو نوے تک پینتالیس سال کے عرصے میں جسے سرد جنگ کا زمانہ کہا جاتا ہے، بین الاقوامی سرکاری رپورٹوں میں بتایا گيا ہے کہ صرف تین ہفتے ایسے گزرے ہیں جب کہیں کوئی جنگ نہیں تھی۔ ان پینتالیس برسوں میں دنیا کے گوشہ و کنار میں کہیں نہ کہیں ہمیشہ جنگ ہوتی رہی ہے۔ یہ جنگیں کس نے شروع کروائيں؟ انہیں لوگوں نے جو اسلحہ سازی کی کمپنیاں چلا رہے ہیں۔ آج بڑی طاقتوں کے فوجی بجٹ بڑے سرسام آور بجٹ ہیں۔ خود ان کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اسی گزشتہ عیسوی سال میں امریکی حکومت نے چھے سو ارب ڈالر سے زیادہ کا بجٹ فوجی اخراجات پر صرف کیا ہے! یہ فوجی اخراجات آج ہم خود اپنے پڑوس کے علاقے میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ اخراجات افغانستان میں کئے جا رہے ہیں کہ افغانستان کے مسلم عوام کی سرکوبی ہو سکے، عراق میں یہ اخراجات ہو رہے ہیں کہ عراقی قوم پر قبضہ جاری رہے، صیہونی حکومت کی مدد کے لئے یہ بجٹ صرف ہو رہا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں دائمی طور پر بد امنی پھیلائے رکھے۔ آج فاسد طاقتوں کی روش یہ ہے۔ اسلام ان کی مخالفت کرتا ہے، ان کے خلاف جد و جہد کی دعوت دیتا ہے۔
کچھ لوگ ہیں جن کا سارا مفاد و منفعت اسی پر منحصر ہے کہ مسلمان قومیں اور مسلم حکومتیں ایک دوسرے سے بر سرپیکار رہیں، ایک دوسرے سے متنفر رہیں، ایک دوسرے سے ہراساں رہیں، ایک دوسرے کو اپنے لئے خطرہ سمجھیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کی استعماری اور سامراجی طاقت کی بقاء دنیا کے جنگ زدہ بنے رہنے پر منحصر ہے۔ جنگ ان کے لئے لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ ہے۔ اتنے سارے انسان تلف ہو جائیں، قوموں کا اتنا بڑا سرمایہ ہتھیاروں کی خریداری میں جھونک دیا جائے، گراں قیمت ہتھیاروں کی پیداوار پر صرف ہو جائے آخر کیوں؟ صرف اس لئے کہ کثیر القومی کمپنیوں کے مالکان کو زیادہ منافع ہو سکے، زیادہ پر تعیش زندگی بسر کر سیں۔ یہ تاریخ انسانیت کا وہی جاہلانہ اور طاغوتی نظام ہے جو بد قسمتی سے توحید کی راہ سے دور انسانوں کی زندگی پر مسلط ہے۔ یہ طے ہے کہ یہ سلسلہ باقی نہیں رہنے والا ہے، کیونکہ یہ خلاف حق ہے، کیونکہ یہ باطل ہے جو مٹ جانے والا ہے۔ «جاء الحقّ و زهق الباطل انّ الباطل كان زهوقا» (5) باطل اسے کہتے ہیں جو خلقت میں سنت الہی کے بر خلاف ہو۔ یہ چیز مٹ جانے والی ہے، ختم ہو جانے والی ہے، یہ باقی رہنے والی نہیں ہے۔ آج اس نابودی کے آثار لوگوں کو دکھائی بھی دینے لگے ہیں۔ انسان اگر عالمی حالات پر نظر ڈالے تو اس زوال کے آثار صاف طور پر دیکھ سکتا ہے۔
دنیا کے حالات بدل گئے ہیں، قومیں بیدار ہو چکی ہیں۔ خوش قسمتی سے مسلمان قوموں میں یہ بیداری زیادہ ہے۔ مسلمان قومیں، مسلمان حکومتیں اسلام کی اہمیت، اسلام کی عظمت، اس قابل اطمینان اور مضبوط پناہ گاہ کی عظمت سے واقف ہو رہی ہیں۔ آج عالم اسلام میں آنے والی اسلامی بیداری کے سبب بڑی طاقتوں کی وہ پہلے والی توانائی باقی نہیں رہی ہے۔ امریکا کی موجودہ حالت ماضی کی پوزیشن سے مختلف ہے۔ دیگر طاقتوں کا بھی یہی عالم ہے جو سب جانتے ہیں۔ مسلمان قوموں کو چاہئے کہ راہ توحید کی قدر کریں، وعدہ الہی پر بھروسہ کریں۔ اس وقت مسلمانوں کی خوشبختی اسی میں ہے کہ اسلام کے محور پر ایک دوسرے سے متحد ہو جائیں۔
البتہ دشمنیاں ہیں اور رہیں گی۔ جہاں بھی بیداری بڑھے گی، وہاں انسانیت کے دشمنوں کو زیادہ خطرے کا احساس ہوگا لہذا دشمنی میں اضافہ بھی ہوگا۔ آج اسلامی جمہوریہ سے جو دشمنی نکالی جا رہی ہے ہمیں اس کا مطلب خوب پتہ ہے۔ ہم اس دشمنی کے اسباب و علل سے بخوبی واقف ہیں، انہیں جانتے اورپہچانتے ہیں۔ چونکہ اسلامی جمہوریہ نے مسلمان قوموں کی بیداری کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھایا ہے، چونکہ اسلامی جمہوریہ نے قوموں کو اور حکومتوں کو اتحاد اور با وقار زندگی کی دعوت دی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ حکومتیں اور قومیں اسلام کے زیر سایہ حاصل ہونے والے اپنے عزو وقار کی قدر کریں، دشمنیاں اسی لئے ہیں، یہ بات ہم جانتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ یہ دشمنیاں لا حاصل رہیں گی جیسا کہ اب تک وہ بے نتیجہ رہی ہیں۔ اکتیس سال سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں اور اکتیس سال سے بفضل الہی اسلامی جمہوریہ کی جڑیں روز بروز زیادہ گہری اور زیادہ مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ یہ دشمنی جتنا آگے بڑھے گی، ہمارے عوام، ہمارے مسلمان عوام، عالم اسلام میں عوامی محاذ میں خود اعتمادی اتنی ہی زیادہ بڑھے گی اور اسے اپنی قوت و توانائی کی اتنی ہی زیادہ بہتر شناخت ہوگی۔
دعا کرتا ہوں کہ خداوند عالم تمام اسلامی حکومتوں اور تمام مسلم قوموں کی مدد فرمائے کہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ اپنی ذات پر بھروسہ کریں، استکباری طاقتوں سے خوفزدہ نہ ہوں، یہ سمجھیں کہ یہ طاقتیں رو بزوال ہیں، ان کی قوت جعلی اور باطل ہے اور یہ باطل باقی رہنے والا نہیں ہے۔ بقاء تو صرف اس چیز کے لئے ہے جو انسانیت کے لئے سودمند اور نفع بخش ہو، بشریت کے لئے سازگار اور کارآمد ہو۔ «و امّا ما ينفع النّاس فيمكث فى الأرض» (6)
دعا کرتا ہوں کہ خداوند عالم بعثت رسول اکرم کی برکت سے ہم سب کو اسلام کے راستے اور اسلام کے حقائق سے زیادہ سے زیادہ نزدیک کرے۔ ہمارے دلوں کو احکام الہی اور معارف الہی سے زیادہ سے زیادہ مانوس کرے۔ مسلمان قوموں کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لائے، مسلمان حکومتوں کے باہمی تعاون میں اضافہ کرے تاکہ امت اسلامیہ بفضل پروردگار اپنی کھوئی ہوئی طاقت اور عزت و آبرو کو دوبارہ حاصل کر سکے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) بقره: 119
2) مائده: 15 و 16
3) علق: 15 - 18
4) مدثر: 11 - 17
5) اسراء: 81
6) رعد: 17