قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ مندرجہ ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے مجھے حضرت باری تعالی کا شکر ادا کرنے میں اپنی ناتوانی کا اعتراف کرنا چاہئے کہ جو کچھ ہوا وہ حضرت حق کی عنایت و مہربانی تھی۔ یہی کہ خدا وند عالم نے اس (امور حج کی) ذمہ داری کے لئے با لیاقت اور کارآمد افراد کا انتخاب کیا خود الطاف باری تعالی میں سے ہے۔ واقعی ہمارے عوام کو عیدی دی گئی ہے اورالطاف و رحمت کے مرکز غیب سے، حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ ) کی طرف سے ہمارے عوام کے سروں پر دست شفا پھیرا گیا ہے۔ حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد واقعی ہمارے عوام اس بات کے مستحق تھے کہ پروردگار عالم ان پر یہ کرم فرمائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو ہوا ہے اس پر حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح بھی خوشنود ہوگی ۔
ہم بھی جانتے ہیں اور متعلقہ افراد بھی واقف ہیں کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اپنی نورانی حیات کے آخری سال میں حج کی فکر میں بہت زیادہ تھے۔ بہت چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ لیکن قضائے پروردگار یہ نہیں تھی کہ یہ کام آپ کی حیات میں ہو جاتا لیکن الحمد للہ اس وقت یہ کام انجام پا گیا۔ خدا کا شکر گزار ہوں۔ ہم خود کو اس سے بہت حقیر سمجھتے ہیں کہ اس باران رحمت الہی میں اپنے لئے کسی استحقاق کے قائل ہوں۔ امید ہے کہ حداوندعالم آپ لوگوں کی کثیر زحمتیں قبول فرمائے گا اور اس ملک کے عوام پر ہمیشہ اپنے فضل و رحمت کا سایہ رکھے گا۔
ضروری ہے کہ میں ایک معمولی فرد اور خدمتگزار کی حیثیت سے ان لوگوں کا پر خلوص شکریہ ادا کروں جنہوں نے اس مسئلے میں اپنی تمام فکر اور پورے وجود کے ساتھ جی توڑ کوشش کی اور عظیم ہمہ گیر خدمت میں حصہ لیا۔ برادر عزیز جناب آ‍قائے ری شہری اور دیگر علمائے کرام جو یہاں تشریف فرما ہیں، جناب آقائے جمارانی اور ادارہ حج و زیارت میں خدمت انجام دینے والے دیگر برادران ، جناب آقائے رضائی اور وہ تمام لوگ جو کسی نہ کسی شکل میں اس مسئلے میں سہیم رہے ہیں، دفتری، انتظامی، سیاسی اور ضروری وسائل کی فراہمی کے شعبے سے لیکر جو ادارے کا ایک نمایاں شعبہ ہے، اسی طرح ظرافتوں کا حامل وہ بہت اہم شعبہ جو دیکھنے میں کم آتا ہے، اور وہ تمام لوگ جنہوں نے فکری تعاون کیا اور جن لوگوں نے محنت طلب کام کئے ، جن میں سے بعض کی طرف جناب آقائے پور نجاتی نے اشارہ کیا ہے ، اسی طرح وہ تمام لوگ جنہوں نے وہ تحریریں شائع کیں، حضرت امام ( رضوان اللہ علیہ ) کی وہ تصویر تیار کی ، جس کے بارے جناب آقائے ری شہری نے مجھے بتایا کہ تقریبا دس بارہ روز تک ہر دن کئی گھنٹے ایک آدمی اس تنگ جگہ پر اس کام میں مصروف رہا ، تب جاکے اتنی خوبصورت تصویر تیار ہوئی ہے تاکہ ادھر سے گزرنے والے لوگ اس کو دیکھیں، جن لوگوں نے وہ اعلانات اور بینر تیار کئے، وہ قدس کا ماڈل بنایا، مختصر یہ کہ لکھا، تصویر کشی کی، بنایا اور تیار کیا، ان تمام افراد تک (میں ہر ایک کا شکر گزار ہوں)۔ واقعی لاکھوں کروڑوں فعال لمحے صرف ہوئے ہزاروں صحیح فکریں بروئے کار لائی گئیں اور ہزاروں کار آمد لوگوں اور مفید افرادی قوت نے کام کیا تب جاکے عالم اسلام کے لئے یہ چیز تیار ہوئی۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور آپ حضرات کا بھی شکر گزار ہوں ۔
آپ میں سے جس نے بھی جتنی محنت کی ہے، خداوند عالم اس کو زیادہ جانتا اور زیادہ پہچانتا ہے ہم اتنے چھوٹے ہیں کہ اس سلسلے میں اظہار علم نہیں کر سکتے۔ آپ خود ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ انشاء اللہ خداوندعالم آپ کو اجر عطا کرے گا، آپ کی توفیق میں اضافہ کرے گا اور آپ کی یہ خدمت قبول کرے گا۔
میں جس بات کو عرض کرنا مفید سمجھتا ہوں، یہ ہے کہ حج ایک ایسا عمل ہے جو سال میں ایک بار انجام پاتا ہے۔ لیکن یہ ان مواقع میں سے ہے کہ مناسب ہے کہ صاحبان عقل و خرد اور ذہین و بالیاقت افراد کی ایک جماعت پورے سال ان چند دنوں کے لئے منصوبہ بندی اور تیاری کرے۔ ہاں میں رپورٹ کی اس بات سے متفق ہوں کہ اچھی منصوبہ بندی میدان میں ظاہر ہوتی ہے۔ اگرچہ کسی بھی سال کا کسی دوسرے سال سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور ہر سال کے اپنے مخصوص مسائل ہوتے ہیں، لیکن اس سال یہ مسائل خاص نوعیت کے تھے ، خاص شکل کے تھے اور عالمی سیاست کے مہرے خاص ترتیب سے چنے گئے تھے۔ آپ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اس طرح اپنی موجودگی کو ثابت کیا۔ دوسرا سال پتہ نہیں کیسا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہرسال یقینا دوسرے سال کے لئے نمونہ ہو۔ نہیں ، ممکن ہے کہ اس کے بعد کے سال میں کوئی معمولی یا بڑا واقعہ رونما ہو جو اس میدان میں ترتیب دیئے گئے مہروں کی آرائش کو تبدیل کر دے۔ اس صورت میں اس مجموعے کا منظر کچھ اور ہوگا۔ منصوبہ بندی اصولی، عمومی اور بڑی ہونی چاہئے۔ اگر جزئیات بھی فرض کی جاسکیں تو بہت اچھا اور ضروری ہے۔ لیکن وسیع النظری کی حالت ہونی چاہئے تاکہ انسان ہر حالت سے فائدہ اٹھا سکے۔
جوچیز اہم ہے یہ ہے کہ یہ دیکھیں کہ حج ہم سے کیا چاہتا ہے۔ آج ہماری حکومت اسلامی حکومت ہے۔ ہمارا دعوی یہ ہے کہ ہم اس بات کے معتقد ہیں کہ ہمارے پاس ایک میدان اور جولان گاہ ہے۔ یہ میدان بہت با عظمت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میدان کی عظمت کا باعث وہاں موجود دس بیس لاکھ افراد ہی نہیں، بلکہ پوری اسلامی دنیا ہے کیونکہ ان میں سے ہرایک اپنے ملک، شہر اور گھر کو واپس جاتا ہے تو حج کی خبر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ بنابریں آپ نے انڈونیشیا سے لیکر یورپ تک کا احاطہ کیا ہے۔
ہر جگہ کے مسلمان حج میں موجود تھے اور آپ بھی وہاں موجود تھے۔ اگر آپ حج میں وہ کام کر سکے جو وتکونوا شھداء علی الناس (1) کا تقاضا ہے تو پوری اسلامی دنیا تک آپ کی بات پہنچ گئی ۔ وہ کام ہوا جو کسی اور وسیلے سے ممکن نہیں ہے۔ یعنی اگر ہم کوئی اخبار نکالیں اور اس کو پوری دنیا میں اتنے ہی افراد کے گھروں تک پہنچائیں تو بھی وہ اثر نہیں ہو سکتا جو اس جماعت کی تشکیل، اس کی موجودگی سے اور آپ کے چہروں اور شخصیتوں کو دیکھ کر ان پر ہو سکتا ہے۔ یہ دوسری ہی چیز ہے۔ خاص طور پر اس لئے کہ یہ علاقہ، عجیب ہے۔ وہاں متبرک سرزمینیں ہیں۔ جو بھی مکے اور مدینے میں داخل ہو، میری رائے میں پہلے اس کو جھک کے ان سرزمینوں کو بوسہ دینا چاہئے۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں حضرت پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) ، حضرت فاطمہ زہرا ( سلام اللہ علیہا) اور حضرت سلمان جیسی ہستیوں کے مبارک قدم پڑے ہیں۔ مکہ مکرمہ کی یہ مختلف وادیاں، گھاٹیاں، مکے اور مدینے کے یہ مختلف مراکز، بہت زیادہ مقدس ہیں۔ یہ عجیب و غریب سرزمینیں ہیں۔ گویا کسی اور عالم سے لاکر ہماری دنیا میں سجا دی گئی ہیں۔ ہماری نظر میں ان سرزمینوں کا یہ مقام و مرتبہ ہے۔ ایک طرف ایسی جگہیں موجود ہیں اور دوسری طرف آپ ہیں کہ جن کو وتکونوا شہداء علی الناس (2) بننا ہے۔ ابھی سے اس بنیاد پر منصوبہ بندی کریں۔
برائت من المشرکین کی تقریب بہت اہم ہے۔ واقعی ہمارے حج کے اجتماع کا سب سے اہم موقع یہی ہے۔ ہر مجموعے اور انجمن کا ایک نعرہ اور ایک شناخت ہوتی ہے۔ ہماری شناخت، یہی (برائت من المشرکین) ہے۔ لیکن سب کچھ یہ نہیں ہے۔ ہمیں خود کو ہر ممکنہ سوال کے جو زبانوں پر آسکتا ہے یا ممکن ہے کہ کوئی زبان پر نہ لائے لیکن ہم سے تعلق رکھتا ہو، جواب کے لئے خود کو تیار رکھنا چاہئے۔ ان تمام سوالات کے جوابات کو کتابوں اور کتابچوں کی شکل میں تیار کرکے، ان لوگوں کو پیش کرنا چاہئے جن سے ہمارا رابطہ ہو اور جو بات سننے کے لئے تیار ہوں۔
اس سال میں نے مسائل حج سے مطلع ہونے کے لئے زیادہ کوشش کی اور زیادہ سوالات کئے۔ حج میں ایرانی عازمین حج کی معنویت و روحانیت کی تعریف کی گئی۔ شاید دوسرے برسوں میں بھی ایسا ہی رہا ہو۔ مجھے بتایا گیا کہ آدھی رات کے وقت مسجد الحرام یا عرفات میں ایرانیوں کی بڑی تعداد نظرآئی جو نماز شب پڑھنے میں مصروف تھے یا اپنے پروردگار سے مناجات اور سرگوشی کی خاص حالت میں تھے۔ یہ بہت اہم ہے، میں نے خود حج میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ معنوی حالت رکھتے تھے۔ جب معلوم ہوا کہ وہ کس ملک سے تعلق رکھتے تھے تو اس ملک کے عوام کی نسبت میر ادراک اور جذبات پر اس کا خاص اثر ہوا۔ برسوں گذر گئے مگر یہ بات میں بھول نہیں سکا ہوں۔
حج میں ہمیں اپنے عوام کی ثقافت، اخلاق ، رفتار اور کردار کو اس طرح پیش کرنا چاہئے کہ نمونہ ہو اور انہیں دیکھنے والا کبھی فراموش نہ کر سکے۔ کم سے کم ممتاز اور نمایاں چیزیں ایرانیوں سے حاصل کرے۔ شاید بعض معاملات میں اس کا اثر اس بدگمانی سے زیادہ ہو۔ یہ کوئی قدم نہیں ہے کہ جس کے لئے میں یہ کہوں کہ اٹھایا جائے اور آپ یہ کہیں کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ نہیں ، جو کچھ بھی حج سے متعلق ہے انجام پانا چاہئے۔ بنابریں مسلم اقوام پر تاثیر کے نقطہ نگاہ سے یہ مسئلہ اہم اور بنیادی ہے۔
انہی ایک لاکھ بیس ہزار افراد کے نقطہ نگاہ سے بھی جنہیں ہم وہاں لے جاتے ہیں، یہ مسئلہ اہم ہے۔ ایک لاکھ بیس تیس ہزار، ڈیڑھ لاکھ ، انشاء اللہ آئندہ دو لاکھ افراد، عورتیں ، مرد ، پیر و جواں، بیس، پچیس دن کے لئے، اہم ترین علاقوں میں جہاں انسان کی بات موثر ہوکر ذہنوں میں اتر سکتی ہے، ہماری تحویل میں ہوں گے۔ یہ بہت استثنائی اور انوکھا موقع ہے۔ جب تھوڑے سے لوگوں کو ایک ہفتے کے لئے کسی کیمپ میں لے جاتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ حیرت انگیز تاثیر کے لحاظ سے بہت اچھی جگہ ہے۔ یہ ڈیڑھ لاکھ افراد کا کیمپ ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم انہیں لے جاتے ہیں۔ ذہنوں پر بہت زیادہ اثرات مرتب کئے جا سکتے ہیں۔ الحمد للہ ہمارے پاس گرانقدر سرمایہ بھی موجود ہے۔ اہل علم حضرات، صاحبان فکر، صاحبان زبان، موثر روشوں سے واقف حضرات (ایک سرمایہ ہیں) اس نقطہ نگاہ سے کہ ہم کچھ لوگوں کو کیمپ میں لے گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کو اس طرح متاثر کریں کہ جب واپس آئیں تو تبدیل ہو چکے ہوں ، حج لوگوں کے منقلب ہونے کے لئے ہے ، حج سے ہمیں معنوی انسانوں میں تبدیل ہونا چاہئے۔ جب واپس آئیں تو واقعی ہمیں معنوی انسان ہونا چاہئے۔ جو بھی واپس آئے، وہ ایسا ہو کہ جیسے عالم معنی اور بہشت سے آیا ہے۔ لوگوں کی حالت یہ ہونی چاہئے۔ اس کے لئے بھی منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔
حقیقت امر یہ ہے کہ حج ہم سے تعلق رکھتا ہے۔ حج در اصل متقین کی میراث ہے۔ متقین کہاں ہیں؟ متقین اس ملک میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے ملکوں میں مسلمان اور باتقوا انسان نہیں ہیں۔ کیوں نہیں، ہیں لیکن ان کا راستہ غلط ہے۔ وہ مومنین جو پیغمبر اور آئمہ کے راستے پر ہے، دنیا میں کون لوگ ہیں؟ یہی لوگ جو ایران میں رہتے ہیں۔ حج ان سے تعلق رکھتا ہے۔ حج اس قوم اور اس انقلاب کی میراث ہے اور اس سے تعلق رکھتا ہے ۔
ہمیں حج کے تمام مظاہر ، ظواہر اور شعائر سے استفادہ کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر ہمیں دیکھنا چاہئے کہ عرفات میں ہم کیا استفادہ کر سکتے ہیں۔ میری مراد صرف سیاسی استفادہ نہیں ہے۔ سیاسی اور انقلابی استفادہ اس کا ایک حصہ ہے۔ جتنا ہو سکے استفادہ کرنا چاہئے۔ مثلا منی میں یا خود مکے میں یا مدینے میں کیا استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ حج کے دوران کیا استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ایام حج کےبعد، جب تھوڑا سا سکون اور وقت ملتا ہے، لوگوں کے جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور وہ دوسرے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں، کیا استفادہ ہو سکتا ہے۔ یعنی ہمیں ان میں ایک ایک کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس سال آئندہ سال حج تک پروگرام مرتب کئے جائیں۔ لیکن ہدف اور جہت یہی ہونی چاہئے۔
اسلامی جمہوریہ نے حج کو پہچانا ہے۔ یہ امام کی بصیرت تھی۔ امام نے ٹھیک اساسی جگہوں پر انگلی رکھی تھی۔ اسلام میں بہت سے واجبات ہیں۔ روزہ بھی ایک اساسی واجب ہے لیکن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے نماز جمعہ اور حج پر یعنی اہم اور حساس حصوں پر زیادہ تاکید کی ہے۔ آپ پہلے سال سے ہی ، مستقل حج کے بارے میں بولتے تھے اور پیغام ارسال فرماتے تھے۔ البتہ مجھے یاد ہے کہ اس سے پہلے بھی سن اکتالیس ہجری یعنی سن باسٹھ عیسوی سے عازمین حج کے نام پیغام جاری کرتے رہے ہیں۔ صوبائی اور علاقائی انجمنوں سے متعلق ابتدائی جدوجہد اور حکومت کی جانب سے ان انجمنوں کو تسلیم کئے جانے کے بعد ایک وقفہ آیا، اس وقفے میں جو موسم سرما سے موسم بہار تک کے زمانے پر مشتمل تھا، مدرسہ فیضیہ کا (علماء و دینی طلبہ پر شاہ کے اہلکاروں کے بہیمانہ حملے کا) واقعہ رونما ہوا، یہ بہت ہی تلخ واقعہ تھا، جدوجہد تھی، مجاہدت تھی کوشش تھی اور خطرات تھے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک رات ہم آ‍ قائے شیخ علی حیدری نہاوندی مرحوم کے جو شہدائے جمہوری اسلامی میں شامل ہیں اور دو دیگر افراد کے ہمراہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی خدمت میں گئے تاکہ وہ تجاویز جو حج کے تعلق سے ہمارے ذہنوں میں تھیں، آپ کے سامنے رکھیں۔ ایک تجویز یہ تھی کہ حج کے موقع پر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی جانب سے ایک پیغام جاری ہو۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے پیغام لکھ لیا ہے معلوم ہوا کہ آپ نے حج کے لئے ایک اعلامیہ تحریر کرکے بھیج دیا ہے۔ یعنی سن باسٹھ عیسوی میں جب ابھی مجاہدت کا آغاز ہی ہوا تھا، آپ نے دین کے حساس مواقع کی نشاندہی کر لی تھا اور ان کو اہمیت دے رہے تھے۔
حج ہم سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمیں حج کو ایسی جہت دینی چاہئے جو اسلامی جمہوریہ یعنی انقلاب یعنی سچا اسلام ، رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حقیقی میراث سے ہم آہنگ ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ہم حج کو مومنین کے استفادے کا مرکز قرار دیں ۔ حج کو ایسا (یعنی مومنین کے لئے مرکز استفادہ ) ہونا چاہئے۔ اس کی منصوبہ بندی ہونی چاہئے ۔
میں جانتا ہوں کہ علاقائی اور عالمی ضرورتوں کے پیش نظر سرانجام ان سعودی حکام کے پاس، (اغیار سے) اپنی شدید وابستگیوں کے باوجود ، ہمارے ساتھ آنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہوگا۔ وہ مجبور ہیں کہ حج کے معاملے میں ایک عظیم اسلامی ملک سے ‎تعاون کریں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ محسوس کر لیں کہ ہم سنجیدہ ہیں۔
عالمی سیاست ہمارے معمولی ترین کاموں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں اپنا کام دقت نظر اور ہوشیاری کے ساتھ کرنا چاہئے۔ زیادہ آشکارا اور واضح طور پر انجام دینے کی ضرورت نہیں۔ یعنی ضروری نہیں ہے کہ ہم ابھی سے یہ کہنا شروع کر دیں کہ ہم مکے کو نہیں حج کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہماری نیت واقعی یہی ہونی چاہئے۔ ہمیں حج کو فتح کرنا چاہئے اور اس بنیاد پر منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔
سنا ہے کہ الحمد للہ تحقیقات اور رپورٹیں تیار کرنے کا کام بہت اچھی طرح انجام پایا ہے۔ مختلف شعبوں میں کچھ نقائص تھے۔ کوئی کام بھی بے نقص نہیں ہے لیکن ایک بنیادی کام جو انشاء اللہ خود جناب آقائے ری شہری اور ان کے رفقائے کار کو انجام دینا ہے، وہ ہے نقائص کو سنجیدگی کے ساتھ دور کرنا۔ دیکھیں کہ کہاں اور کس حصے میں نقص ہے۔ اس کو برطرف کریں۔ اس سلسلے میں کوئی رورعایت نہیں ہونی چاہئے۔اس حصے میں یہ منصوبہ تھا، مدیریت یہ تھی ، نقص یہ تھا۔ کسی بھی قیمت پر اس نقص کو دور کریں تاکہ انشاء اللہ روز بروز کامل تر ہو۔
میں ایک بار پھر کتاب اور کتابچوں کی تیاری پر تاکید کروں گا۔ البتہ وہاں اس پر اعتراض ہوگا لیکن، اگر ان کو وہاں لے جانے اور تقسیم کرنا کا کوئی راستہ نہ ہو تو بھی کوئی بات نہیں ہے، کتاب اور کتابچے تیار کئے جائیں۔ ممکنہ سوالات کے واضح جوابات دیئے جائیں۔ ہر دن سوال ہوتا ہے۔ بعض سوالات باربار کئے جاتے ہیں۔ لیکن بعض سوالات وقتی اور خاص واقعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ جوابات بہترین طرزبیان اور سلیس ترین ترجمے کے ساتھ مناسب طباعت کے ساتھ تیار کئے جائیں، پاس رہیں اور انشاء اللہ وہاں دیئے جائیں۔
میں ایک بار پھر جناب آقائے ری شہری اور دیگر برادران عزیز کا جنہوں نے واقعی زحمت کی ہے، جو کام ہو رہے تھے ان سے بے میں بے خبر نہیں تھا، کام کے دوران بھی انہیں سمجھ رہا تھا اور بعد میں برادران عزیز نے آکر بتایا ہے، میں جانتا ہوں کہ کتنی نیندیں خراب ہوئی ہیں، کتنی محنت ہوئی ہے ، کتنی سعی و کوشش ہوئی ہےتب جاکے یہ کام الحمدللہ بخیر وخوبی انجام پایا ہے ، ان سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا ہے کہ خدا وندعالم آپ حضرات کو اس کا اجر، ثواب اور توفیق عطا فرمائے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1- حج ؛ 78 2- حج ؛ 78