خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خدائے بزرگ و برتر کا شکر گزار ہوں کہ جتنا وقت گزرتا جا رہا ہے اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیادوں کا استحکام اتنا ہی آشکارا ہو رہا ہے۔ الحمد للہ آج فوج اپنے تمام شعبوں میں مستحکم ہے، لوگوں میں مقبول اور ان کے لئے مرکز امید ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس وقت فوج بہترین پوزیشن میں ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی مشترکہ فوجی ہائی کمان بھی بہت اچھی حالت اور بہترین پوزیشن میں ہے۔ یہ خدا کا کرم ہے۔
مشکلات بہت تھیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے آج تک مختلف سمتوں سے رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ لیکن انقلاب اور ہمارے عظیم الشان امام کا ارادہ تمام رکاوٹوں، مخالفتوں اور مخالفین پرغالب رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے پاس آج جو کچھ ہے اس کی قدر کرنی چاہئے۔ میری نظر میں اس درمیان سب سے اہم چیز فوج کی عوامی حمایت و مقبولیت اور پوزیشن ہے۔ فوج مسلط کردہ جنگ کے دوران اور اس سے پہلے بہت سے مواقع پر اپنا اسلامی جوہر دکھانے میں کامیاب رہی۔ البتہ کمیاں اور نقائص بھی رہے ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ مثبت نقاط کو معیار قرار دیں۔ ہدف کی جانب لے جانے والے راستے کو معین کریں اور اس پر ثابت قدمی سے چلیں۔ اگر عزم و ارادے کے ساتھ راستہ طے کیا جائے تو منفی نقاط، مشکلات اور رکاوٹیں خود بخود دور ہو جائیں گی۔
میں نے جس بات کی فوج سے ہمیشہ سفارش کی ہے اور آج پھر اس کی تکرار کروں گا، یہ ہے کہ فوج کو اپنی مادی اور معنوی توانائی روز بروز بڑھانی چاہئے۔ معنویت مادی توانائی سے زیادہ اہم ہے۔ یعنی اپنی ذمہ داری پر یقین، اس سے لگاؤ، جذبہ، اس راہ میں جان توڑ کوشش اور فداکاری کا جذبہ (ہونا چاہئے)۔ جہاں قوم فوج اور حکام کی پشت پناہ ہو، وہاں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی آپ دیکھتے ہیں کہ ذلت، کمزوری اور دشوار حوادث کے وقت ناتوانی ہے، تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کے حکومتی نظام اور عوام کے درمیان فاصلہ ہے۔
آج امریکا کی پشت پناہی اور صیہونیوں کے سرمائے کے بلبوتے پر صیہونی حکومت، عرب ملکوں سے زور زبردستی سے کام لینے میں کامیاب کیوں ہے؟ مسلمان اور عرب گروہ ایک عرصے تک جعلی، بے بنیاد، مسلط کردہ اور غاصب صیہونی حکومت سے مذاکرات سے اجتناب کرتے رہے، اس کا بائیکاٹ کیا اور اس سے مذاکرات کو برا سمجھتے رہے، آج بہت سی عرب حکومتوں اور سیاستدانوں میں اس سے مذاکرات اور اس کو تسلیم کرنے کی فکر کیوں پائی جاتی ہے؟ اس لئے کہ عوام درمیان میں نہیں ہیں۔ اس لئے کہ ان ممالک کے حکومتی نظام عوام سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اس لئے کہ حکومتوں کا راستہ الگ ہے اور اقوام کا راستہ اور ہے۔ جس کا نتیجہ کمزوری ہے۔ ورنہ اگر آج وہ عرب حکومتیں جنہیں اسرائیل سے مذاکرات منظور ہیں، اپنی اقوام کی حمایت انہیں حاصل ہوتی تو وہ یہ احساس کیوں کرتیں کہ وہ مجبور ہیں کہ اپنے گھر کے دشمن اور اپنی سرزمین کے غاصب کے ساتھ مذاکرات اور اپنی غصب شدہ زمینوں کے بارے میں گفتگو کریں؟ اگر عوام کو میدان میں آنے دیتیں، اگر اپنے عوام کے جذبات ، ان کی فکر، ان کے عزم و ارادے کا احترام کرتیں اور ان کی توانائی پر بھروسہ کرتیں تو اقوام اپنے ملکوں اور عرب حکومتوں کو اس طرح کمزور نہ ہونے دیتیں۔
کیا فلسطین اور اس اسلامی سرزمین کے غصب کئے جانے کے مسئلے میں، پچاس سال پہلے اور آج میں کوئی فرق آ گيا ہے؟ کیا تاریخ اور جغرافیائی حقائق تبدیل ہو سکتے ہیں؟ فلسطین، فلسطین ہے۔ یہ اسلامی سرزمین ہے اور اپنی قوم اور عوام سے تعلق رکھتی ہے۔ کوئی دشمن آکے آپ کے گھر پرغاصبانہ قبضہ کرلے اور پھر زور زبردستی سے کام لیکر آپ سے مطالبہ کرے کہ اس قبضے کو تسلیم کرلیں، اس سے بڑی ذلت اور کیا ہو سکتی ہے؟
اسرائیل کے سلسلے میں ہمارا موقف وہی ہے جو ہمیشہ رہا ہے۔ اسرائیل اس علاقے میں ایک زہریلا سرطانی پھوڑا ہے، اس کو جڑ سے ختم ہونا چاہئے۔ صرف ظاہر پر نظر رکھنے والوں کے برخلاف، جو امریکا کی پشت پناہی کو دیکھتے ہیں اور اس کام کو محال سمجھتے ہیں، یہ کام محال نہیں ہے۔ یہ کام ہو سکتا ہے اور ہوگا۔ بڑی طاقتیں جاودانی نہیں ہیں۔ مادی طاقتیں، آج ہیں تو کل نہیں ہیں۔ کل تک سوویت یونین کے نام سے ایک بڑی طاقت تھی لیکن آج نہیں ہے۔ تاریخ کے تجربے کا یہ منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔
میں نہیں سمجھتا ہوں کہ بعض عرب حکومتیں یہ ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں گی۔ انہیں یہ ذلت قبول نہیں کرنی چاہئے۔ اقوام کسی بھی قیمت پر یہ ذلت برداشت نہیں کریں گی۔ امریکی اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ مشرق وسطی کا مسئلہ اس شکل میں حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو غلطی پر ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جو حکومت بھی غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرے گی، اپنی قوم میں اس کی حیثیت کمزور ہو جائے گی اور علاقے میں عدم استحکام میں روز افزوں اضافہ ہوگا۔
اقوام اپنے راستے پر ثابت قدم ہیں۔ اپنے عوام کے راستے کے خلاف چلنے والی حکومتوں کا حشر وہی ہوگا جو کل کیمپ ڈیوڈ مذاکرات میں حصہ لینے والوں کا ہم نے دیکھا ہے۔ حکومت، فوج اور کام کرنے والے دست و بازو کی عوام کی جانب سے پشت پناہی بڑی تاثیر رکھتی ہے جس سے فوج اور دیگر مسلح افواج طاقت کا احساس کرتی ہیں۔ تنہائی کا احساس نہیں کرتیں۔ آپ (ایرانی افوج) کو یہ افتخار حاصل ہے۔ اس کی حفاظت کریں۔
غیروں کی طرف نہیں، اپنے آپ کو دیکھیں۔ ہم فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو وسائل فراہم کریں گے۔ جتنی ہماری توانائی ہے اس کے مطابق مسلح کریں گے لیکن ہماری مستقل سفارش یہ ہے کہ اپنی توانائیوں اور اپنی قوت پر بھروسہ اور ایجادات کی فکر کریں۔ زمینی فوج ہوائی فوج ، سمندری فوج اپنے اندر بے پناہ صلاحیتیں اور توانائیاں رکھتی ہیں اور ان صلاحیتوں سے زیاد سے زیادہ کام لینا چاہئے۔ الحمد للہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج ان صلاحیتوں سے کام لیا جا رہا ہے۔ لیکن اس سلسلے کو روز بروز بڑھائیں۔ مشترکہ فوجی ہائی کمان بھی تمام مسلح افواج میں ان کوششوں کی نسبت رہنمائی، ہماہنگی اور ان کوششوں کی تکمیل کرنے والے ادارے کا کردار ادا کرے گی۔
دعا ہے کہ اللہ آپ کو کامیاب کرے، ہماری فوج ایسی فوج ہو کہ جو ہماری بہادر قوم کے شایان شان ہو۔ مسلح افواج کے شہیدوں کی ارواح پر میں درود بھیجتا ہوں اور پروردگار عالم سے ان کے لئے مغرفت کی دعا کرتا ہوں۔ اسی طرح اپنے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو جو ملت ایران کے اقتدار اور ارادہ الہی کے سرخیل اور دنیا کی تمام اقوام کے لئے حریت و آزادی کے عظیم معلم تھے ، خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ راہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور آپ کے عظیم اہداف کی راہ پر چلتے ہوئے ملت ایران اور مسلح افواج روز بروز زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کریں۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ