خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرات! خوش آمدید ' بہت خوش ہوں کہ عدلیہ کے سربراہ، ذمہ دار عہدیداروں اور جج صاحبان سے ملاقات کا موقع ملا ہے ۔
کسی ملک میں جج صاحبان کا شمار ہمیشہ باوقار اور عالیقدر طبقے میں ہوتا ہے اور جج صاحبان علم اخلاق اور تقوے میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ بلکہ عدلیہ، اس کے ارکان اور علماء کی برادری میں سبھی یا اکثر اس خصوصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں عدالتی فیصلوں کا کام جو ایک خدائی مرتبہ اور پیغمبرانہ عمل ہے، معاشرے کے صالح اور باصلاحیت افراد کو دیا جاتا ہے لہذا فطری ہے کہ یہ خصوصیت ان میں بدرجہ اتم موجود ہو۔ امید ہے کہ خداوند عالم آپ حضرات اور عدلیہ کے محترم حکام کو اس سے زیادہ توفیق عطا کرے گا اور اپ کے کام میں آپ کی مدد کرے گا تاکہ یہ سنگین فریضہ جو آپ کے ذمے ہے پورا ہو سکے۔ میں صرف یاد دہانی کے طور پر اختصار سے چند باتیں عرض کروں گا کیونکہ عدالتی فیصلوں کے بارے میں اسلامی احکام اور عام حقائق جن کے بارے میں اصولی طور پر زیادہ بحث کی ضرورت ہے، آپ حضرات کے اذہان سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
کسی بھی ملک میں عدلیہ اس کے معاشرے کی صحتمندی کا معیار ہوتی ہے۔ اگر عدلیہ پاک اور صاف ہو تو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ملک اور معاشرے کی عام حالت امتیاز، ظلم و ستم اور حق تلفی وغیرہ سے پاک ہے اور یہاں لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔ یعنی فرض کریں اگر کسی کو کسی ملک کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہو تو اس ملک کی عدلیہ کو دیکھے، تحقیق کرے، دیکھے کہ وہاں جج عادل اور مضبوط ہیں، عدالتی نظام مستحکم ہے اور قوانین منصفانہ اور منظم ہیں اور وہاں (عدالتی کام) اچھی طرح کام ہو رہا ہے تو اصولی طور پر اس کو نتیجہ اخذ کرنا چاہئے کہ اس ملک کی حالت اچھی ہے ۔
بعض ملکوں کے بارے میں جو تشہیراتی فلمیں بنائی جاتی ہیں، چونکہ پروپیگنڈے کے لئے بنائی جاتی ہیں اور ان کی حقیقت تشہیراتی ہوتی ہے، اس لئے اس میں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ اپنے ملک کی عدلیہ کو آزاد، کارآمد اور محکم دکھائیں۔ ہم بہت سے ملکوں کے عدالتی نظام سے واقف ہیں۔ جیسا دکھاتے ہیں ویسا ہوتا نہیں ہے۔ اگر چہ بعض جگہوں پر مضبوط نقاط بھی پائے جاتے ہیں، لیکن جو ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور دکھاتے ہیں کہ جج بہت ذہین، مخلص، محنتی اور کسی سے بھی متاثر ہونے والے نہیں ہیں، ان فلموں میں اور ان داستانوں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے ججوں کو ایسا متعارف کرانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس لئے ہے کہ معلوم ہو کہ عدلیہ پاک و صاف ہے تو ملک کے عام مسائل کے بارے میں اچھا نتیجہ نکالا جائے گا۔
بنابریں عدلیہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ حتی الوسع، انسان کی توانائی میں جتنا ہے، اس حد تک، ان تمام کمیوں کے ساتھ جو بہرحال انسان میں پائی جاتی ہیں، عدلیہ اور عدالتی نظام کو کمال تک لے جائیں اور یہ کام انصاف کی فراہمی میں اسلامی احکام و قوانین کی مکمل پابندی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان میں سے ایک اہم چیز ملک کے قوانین اور عدلیہ کے ضوابط سے کام لینے میں امتیاز سے پرہیز ہے۔ یہ شاید عدلیہ کے امور میں ایک بنیادی ترین کام ہے۔ البتہ جرم کی کیفیت کو ہلکا اور سخت کرنے والے عوامل بھی عدالتی امور کے معیاروں میں سے ہیں۔ میں ان کا انکار نہیں کرتا۔ اگر کسی معاملے میں جرم، اس کی کیفیت کو سخت کرنے والے یا ہلکا کرنے والے عوامل کے ساتھ انجام دیا گيا ہو تو انہیں مد نظر رکھا جائے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے۔ لیکن اگر یہ بات نہ ہو تو پھر جن امور پر قوانین کا اطلاق ہونا ہے اس میں افراد کے درمیان فرق نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہم اسی ایک بات پر توجہ رکھیں تو عدلیہ کافی حد تک پیشرفت کرے گی۔
عدلیہ میں اصلاح اور اس کے صحتمند، صاف اور پاک ہونے کی بات مسلسل کی جاتی ہے۔ میں قریب سے شاہد ہوں کہ اس سلسلے میں واقعی بہت زیادہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ عدلیہ کے سربراہ اور اس کے حکام واقعی خلوص کے ساتھ کوششیں کر رہے ہیں۔ انسان اس کو محسوس کرتا ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عدلیہ میں اصلاح کا عمل پہلے درجے میں یہی امور ہیں۔ ہمیں ایسا کام کرنا چاہئے کہ ان قوانین کا اطلاق جن کی اساس پر فیصلے کئے جاتے ہیں، تمام افراد کے لئے یکساں ہو اور کوئی امتیاز نہ ہو۔
میں امیر المومنین علیہ الصلوات والسلام کے حالات زندگی کا مطالعہ کر رہا تھا۔ دیکھا کہ ہم نے آپ کا جو عدل سنا، اگرچہ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ہم شیعوں اور شیعہ معاشروں نے اس عدل اور انصاف کو لمس بھی کیا ہو یا پوری طرح سمجھا ہو کہ کیا تھا، لیکن اتنا عظیم تھا کہ امیر المومنین کے عدل و انصاف کا شہرہ پوری دنیا میں ہے، آپ کا عدل بہت حد تک اس بات سے مربوط تھا کہ آپ جب کرسی عدالت پر ہوتے تھے تو روابط ، تعلقات، رشتے داری، قرابت داری اور حتی اس بات کو بھی مد نظر نہیں رکھتے تھے کہ جس کے مقدمہ کی آپ سماعت کر رہے ہیں اس کا ماضی کیا تھا۔
حسان بن ثابت امیر المومنین علیہ الصلوات و السلام کے مداح تھے۔ انہوں نے آپ کے دشمنوں سے جنگوں میں مقاتلہ کیا تھا۔ ان سے ایسا عمل سرزد ہو گیا کہ ان پر حد جاری کرنا ضروری تھا۔ امیر المومنین علیہ الصلوات والسلام نے فرمایا کہ ان پر حد جاری کی جائے۔ حسان نے کہا یا امیرالمومنین میں وہ ہوں کہ جس نے آپ کی شان میں اتنے قصیدے کہے ہیں ۔ اب ہم ہوں تو اس منزل میں کیا سوچیں گے؟ میرے ذہن میں جو ہے وہ یہ ہے کہ حضرت نے فرمایا میں ان چیزوں کی وجہ سے حد خدا کو معطل نہیں کرسکتا رمضان میں شراب پی تھی۔ شراب پینے کی حد جاری کی۔ بیس کوڑے رمضان المبارک کی حرمت ضائع کرنے کے جرم پر لگائے گئے۔ مجموعی طور پر سو کوڑے مارے گئے۔ آخری بیس کوڑوں نے حسان کو زیادہ ناراض کیا تھا کہ یہ کیوں؟ یہی واقعہ اس بات کا باعث ہوا کہ حسان کوفے سے شام، معاویہ کے دربار میں چلے گئے اور شاید وہاں انہوں نے امیر المومنین علیہ الصلوات والسلام کے خلاف اشعار کہے۔
جو نہج البلاغہ میں ہے اس کے مطابق عبداللہ ابن عباس جو امیرالمومنین کے اصحاب میں تھے اور اپنی شخصیت، ماضی اور امیرالمومنین علیہ الصلوات والسلام کی جو خدمت کی تھی، اس کے لحاظ نظام خلافت کی دوسری اہم شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ عبداللہ ابن عباس کو امیر المومنین علیہ الصلوات و السلام سے جو نسبت تھی وہ سب جانتے ہیں۔ بصرے کے پیسے کے سلسلے میں آپ کو جو اطلاع دی گئی تھی اس کے بعد آپ نے انہیں ایک خط لکھا۔ جواب میں انہوں نے شکایت کی۔ مگر آپ نے ان کے گلے کا سخت جواب دیا کہ گلہ کیوں کرتے ہو؛ میں تم سے حساب مانگ رہا ہوں۔ اس کے سبب عبداللہ ابن عباس بصرے سے ہی مدینے چلے گئے اور پھر کوفے نہیں آئے۔ البتہ امیرالمومنین علیہ الصلوات و السلام کے دشمنوں سے نہیں ملے لیکن علی علیہ السلام کے محاذ سے نکل گئے۔
انسان اگر دقت نظر سے دیکھے تو امیرالمومنین علیہ الصلوات و السلام کی زندگی میں اس قسم کے واقعات بہت ہیں۔ ان میں سے ہمیں بھی تھوڑا بہت اپنی زندگی میں نافذ کرنا چاہئے۔ امیر المومنین علیہ الصلوات و السلام جو عمل انجام دیتے تھے، اس سے ہمیں اپنے افکار کی اصلاح کرنی چاہئے۔ عدلیہ کی بنیادی پالیسی یہ ہونا چاہئے کہ کسی بھی قسم کے امتیاز کے قائل نہ ہوں۔
آج ملک کی عدلیہ درحقیقت ماضی کی عدلیہ سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ البتہ ماضی میں بھی اچھے اور شریف جج زیادہ تھے۔ میں خود اس وقت کے ایسے ججوں سے واقف تھا اور اب بھی جانتا ہوں جو پاکدامن، صحیح، بے عیب، دلیر تھے اور اس دور کے اعلا عہدیداروں سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم یہ سمجھیں کہ ماضی کی عدلیہ میں سب غلط آدمی تھے۔ جی نہیں ' وہاں اچھے اور اپنے دل میں انصاف کی قسم کھانے والے جج بھی موجود تھے۔ میں نے ایسے ججوں کو دیکھا ہے کہ جو اس دور کے فرعونی دربار کے دباؤ کے مقابلے میں بھی ڈٹ جاتے تھے۔ لیکن سسٹم اور نظام ایسا تھا کہ عدلیہ میں اس قسم کے مفید افراد کا وجود پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔ شاید اس لئے کہ اس کا کوئی اثر نہیں تھا۔ اس زمانے کی عدلیہ میں کتنا ظلم اور امتیاز تھا۔ کتنی سفارش کام کرتی تھی۔ کتنے جرائم ہوتے تھے اور مظلوم ستمگروں اور ظالموں کا تاوان ادا کرتے تھے۔
آج ہماری عدلیہ کے نظام کا ماضی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ آج ہمارے جج صاحبان دینی اور ایمانی جذبے کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے۔ جو اس کا انکار کرے اس نے گویا بدیہی چیزوں کا انکار کیا اور درحقیقت بے انصافی کی ہے۔ ہمیں اپنی ان پابندیوں کا امیرالمومنین کی سیرت سے موازنہ کرنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ حقیقت کیا ہے۔ ہم دعوی نہیں کرتے کہ امیر المومنین کی طرح عمل کر سکتے ہیں۔ خود آپ نے بھی فرمایا ہے کہ الا و انکم لاتقدرون علی ذلک (1) لاتقدرون اپنے کھانے پینے کے بارے میں فرمایا ہے۔ ان کے اقوال پر عمل آوری معنوی مسائل کی پابندی سے بہت آسان ہے۔ ظاہر ہے کہ ان معنوی مسائل میں کوئی بھی آپ تک نہیں پہنچ سکتا۔ کسی نے دعوی بھی نہیں کیا ہے۔ لیکن ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنا چاہئے۔ اس صورت میں عدالتی نظام پر لوگوں کا اعتماد بڑھے گا اور اس سے ان کی امیدیں وابستہ ہوں گی۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک عرصے سے بعض معاملات میں بہت ہی خوبصورت سرعت عمل کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ کوئی جرم ہوتا ہے تو فورا تحقیق ہوتی ہے۔ منصفانہ فیصلہ صادر ہوتا ہے اور خدا کی معین کردہ حدود جاری ہوتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ جہاں یہ ہوتا ہے لوگوں میں کیا جوش و ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ وہاں عدلیہ کی عزت و آبرو کتنی بڑھ جاتی ہے۔
ہمیں ایسا کام کرنا چاہئے کہ عوام کی پوری زندگی میں، معاشرے کے ایک ایک فرد کی حیات میں، ملک کی سطح پر نہیں عرض کر رہا ہوں ؛ ملکی سطح (پر یہ تاثر قائم کرنا تو) ایک لازمی چیز ہے۔ (شخصی اور ایک ایک فرد کی سطح پر) امید کی یہ حالت پیدا ہونا چاہئے۔ یعنی جیسے ہی کسی کو کوئی مشکل در پیش ہو یا معمولی سی بھی حق تلفی ہو تو اپنی زبان اور دل سے کہے کہ ظالم کو اس کی اوقات تک پہنچانے کے لئے عدالت سے رجوع کروں گا۔ لوگوں میں یہ جذبہ پیدا ہونا چاہئے۔ یہ پروپیگنڈے سے نہیں ہوگا۔ یہ وہ امور ہیں کہ جن میں پروپیگنڈے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ امور لوگوں کی روز مرہ کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ لوگ خود دیکھتے ہیں اور حقیقت کو سمجھتے ہیں۔
میں ضروری سمجھتاہوں کہ جناب آقائے یزدی ( عدلیہ کے سربراہ) کا جو واقعی ایک نعمت الہی ہیں، ان کا وجود نعمت اور برکت ہے، ان زحمتوں پر شکریہ ادا کرتا ہوں جو وہ انجام دیتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ اور دیگر حضرات جو عدلیہ کے اعلی عہدوں پر ہیں اور مختلف شعبوں کی ذمہ داریاں ان کے ذمے ہیں، تمام جج صاحبان اور عدلیہ کے دیگر موثر کارکن حضرات برکات الہی کے مستحق ہوں گے۔ انشاء اللہ روز بروز عدلیہ کے امور میں پیشرفت و ترقی کا مشاہدہ کیا جائے اور اس اسوہ حسنہ کی سمت بڑھیں جو اسلام نے ہمیں عطا کیا ہے اور امیر المومنین کی سیرت میں ہم جس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
شہید مظلوم وعالیقدر آیت اللہ بہشتی کو خراج عقیدت پیش کرنا بھی ضروری ہے۔ واقعی وہ انقلاب کے بہت سے امور منجملہ ملک کے عدالتی نظام کے لئے بہت ہی موثر اور ممتاز ہستی تھے اور یہ عدلیہ کا اقبال تھا کہ اسلامی جمہوریہ میں اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد اسی ہستی نے رکھی جو عظیم، فاضل، عالم، عزم محکم کی مالک، متقی، آگاہ اور ذہین شخصیت تھی۔ انشاء اللہ اسی بنیاد پر اور اسی سمت میں روز بروز نمایاں پیشرفت ہوگی۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1- نہج البلاغہ : خط نمبر 45