قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی ثقافت و ہدایت کے وزیر سید محمد خاتمی اور بیرونی ممالک میں ایران کے ثقافتی نمائندوں (ایرانی کلچر ہاؤس کے سربراہوں ) سے ملاقات میں اس شعبے کی اہم ترین ذمہ داریوں اور کام کرنے کے لئے قوموں کی سطح پر فراہم سازگار ماحول پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے خلاف سامراجی طاقتوں کی تشہیراتی مہم کا بھی ذکر کیا اور ایران کے نمائندوں کو ایران کی اعلان شدہ پالیسیوں پر پوری پابندی کے ساتھ عمل کرنے کی ہدایت دی۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں آپ تمام حضرات کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ سلامت رہیں۔ جیسا کہ جناب خاتمی صاحب نے اشارہ کیا ہے، یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ثقافتی امور میں سرگرم افراد کی حیثیت سے آپ غیر مانوس اور ناسازگار حالات سے روبرو ہیں اور یقینا عالمی سامراج کی نمایاں اور خفیہ پالیسیاں آپ کے سامنے ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ بہت کم جگہیں ایسی ہوں گی یا کوئی جگہ ایسی نہیں ہوگی جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کی موثر کوششوں پر عالمی سامراج اور کفر کا کیمپ حساس نہ ہو اور اپنی توانائی بھر ان کے سد باب کے لئے کوشش نہ کرے۔ آپ جو ان حالات میں سرگرم ہیں، درحقیقت آپ کا کام بذات خود قابل تعریف و ستائش ہے۔
ثقافتی کام اور اس کی اہمیت کے بارے میں جو بھی کہا جائے وہ پہلے کہی گئی باتوں کی تکرار ہی ہوگی۔ یہ وہی ایک نکتہ ہے جو پیغام انقلاب اور اس کی ترویج سے عبارت ہے۔ یہ کام مسلمہ اسلامی اصولوں میں سے ہے۔ تبلیغ یعنی پہنچانا۔ الذین یبلغون رسالات اللہ (40) یعنی پردوں اور رکاوٹوں کو ہٹانا اور حق بات اس مرکز تک پہنچانا جہاں اس کو پہنچنا چاہئے۔ جو بھی کہا جائے اسی نکتے کے بارے میں ہوگا اور اس سلسلے میں ساری باتیں کہی اور لکھی جا چکی ہیں۔
میں جو عرض کر سکتا ہوں یہ ہے کہ آپ اس صورتحال کا جو متوقع ہے، اس صورتحال سے موازنہ کریں جس میں اسلامی جمہوریہ ایران آج ہے۔ اس موازنے کا نتیجہ ہمیں نئے طریقہ کار، نہ انجام پانے والے کاموں یا جو کام ہوئے ہیں ان کی تصحیح کی طرف رہنمائی کرے گا۔ یہاں از سر نو جائزہ، اپنے آپ کو دیکھنا اور اپنے نفس کا محاسبہ ضروری ہے۔
میرے خیال میں جو متوقع ہے، اس کا صحیح تجزیہ بہت اہم ہے۔ اس ماحول میں جس میں تمام عوامل ایمانی اور دینی بالخصوص اسلامی رجحان کے خلاف ہوں، اقوام ان مخالف عوامل کے باوجود روحانی اور معنوی باتیں سننے کی مشتاق ہیں۔ اس عالم میں ایک قوی، صادقانہ اور مستحکم آواز بلند ہوئی اوربولنے والی کی صداقت، اخلاص اور قول سے عمل کی ہم آہنگی کے باعث کہ جس نے ثابت کر دیا کہ یہ صرف بات نہیں ہے اور دنیا کے بد نما چہروں یعنی سامراجیوں، رجعت پسندوں، زراندوزوں اور ایسے ہی دیگر گوناگوں عوامل کی جانب سے اس کی دشمنی کے سبب، اس آواز نے اقوام بالخصوص مسلم قوموں کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی اور حقیقی نیز بہت گہرے اثرات مرتب کئے۔ چنانچہ اوائل انقلاب سے اب تک ہم اور آپ جیسے انقلابی عناصر نے جہاں بھی قدم رکھا ہے، دیکھا کہ ان سے پہلے وہ آواز اور اس آواز کو بلند کرنے والا وہاں پہنچ چکا ہے۔
اوائل انقلاب میں، میں خود ہندوستان گیا اور اس ملک کے تقریبا تمام سیاسی و ثقافتی مراکز میں گیا۔ جہاں بھی میں نے قدم رکھا دیکھا کہ انقلاب اور امام پہلے سے وہاں موجود ہیں۔ ہم گئے تو لوگوں نے ہمارا زبردست استقبال کیا کیونکہ ہم اس مرکز کے نمائندے تھے۔ ایسی کوئی جگہ نہیں تھی جہاں ہم جاتے اور وہاں کے لوگ بے خبر ہوتے اور ہم ان کو بتاتے کہ یہ واقعہ ہوا ہے۔
اب بھی ایسا ہی ہے۔ جن ملکوں میں ہمارے نمائندہ دفاتر نہیں ہیں، آپ ان ملکوں میں جائیں، اگر ممکن ہو تو عوامی حلقوں میں جائیں۔ ان گروہوں کی بات میں نہیں کرتا جو ان مسائل سے دور ہیں۔ اگر آپ یونیورسٹی طلبا، روشنفکر حضرات، مومن اور مخلص لوگوں کے درمیان جائیں تو دیکھیں گے کہ پیغام انقلاب آپ سے پہلے وہاں پہنچ چکا ہے۔ میں نے مختلف جگہوں کے جو دورے کئے ہیں، بلا استثنا تمام ملکوں میں چاہے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی حتی کمیونسٹ ملکوں میں یہی عالم دیکھا ہے۔
بنابریں ملاحظہ فرمائیں کہ اس چشمے کا نفوذ اور اثر اتنا زیادہ ہے کہ بغیر اس کے کہ کوئی مبلغ کہیں جائے، لوگوں کو بھیجا جائے، جیسے عیسائی، کمیونسٹ جماعتیں اور انجمنیں، اپنے عوامل اور مبلغین کی فوج بھیجتی ہیں، حتی بغیر اس کے کوئی رسالہ کوئی تحریر روانہ کی جائے یہ پیغام باد بہاری کی طرح، نسیم سحر کی مانند، بوئے گل کی شان سے سرحدوں کو عبورکرکے ہر جگہ پہنچ گیا۔
جب اوائل میں یہ چیزیں دیکھتا تھا تو درحقیقت میرے ذہن میں یہ تصور مجسم ہو جاتا تھا کہ جیسے کسی باغ میں کسی پر برکت پھول کی خوشبو پھیل گئی ہے۔ پھول کی خوشبو یہ نہیں کہتی کہ باغ بند ہے اور مجھے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے یا یہاں اس باغ کے خاردار تار ہیں اور مجھے حق نہیں ہے کہ اس کو پار کروں بلکہ فضا کو معطر کر دیتی ہے۔ واقعی ہمیشہ میرے ذہن میں یہی تصویر مجسم ہوتی تھی۔ یہ حقیقت کا نقش تھا۔
آپ دنیا میں کس نظریئے ، مکتب، فکر، سلوگن اور دعوت سے واقف ہیں جو اتنی رسا اور سازگار ‌‌فضا رکھتی ہو جتنی ہماری فکر کی تھی؟ ہمارے انقلاب، ہمارے امام ، ان کی فریاد، ان کے عمل اور ان کی قوم کی تاثیر تھی؟ اب ایک نظام کی حیثیت سے ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا؟ ایسی سازگار فضا میں ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا؟ ضروری تھا کہ بلا تاخیر کار آمد لوگ جاتے اور جو کچھ ہوا تھا اس میں نظم اورگہرائی و گیرائی پیدا کرتے۔ ہمیں اس کی ضرورت تھی۔ یعنی ہمیں وہاں پیغام لے جانے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ایسا کام کرنے کی ضرورت تھی کہ جو کچھ خود سے وہاں پہنچا تھا وہ عمیق تر ہو۔ اس کے لئے کام ضروری تھا۔ گہرائی ایسے ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے کام ، ظرافت اور دقت نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے تبلیغی اداروں نے بارہ سال کام کیا۔ آپ خود ان مسائل کے ماہر ہیں۔ ہم جیسے لوگ حقائق سے واقفیت کے لئے آپ جیسے لوگوں سے رجوع کرتے ہیں تاکہ آپ ہمیں بتائیں کہ حقیقت کیا ہے۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ کیا ان بارہ برسوں میں ہم اس فیض بخش، ہمہ گیر، پرکشش اور ولولہ انگیز میدان کے ہموار ہونے کے باوجود، اپنے متاع گراں کے لئے کوئی جگہ بنا سکے؟ اور اس میں گہرائی و گیرائی لا سکے یا نہیں؟ حقائق کا تجزیہ آپ کے ذمے ہے۔
جہاں تک میں معاملات اور امور سے واقفیت رکھتا ہوں، میرا تجزیہ یہ ہے کہ ہماری کارکردگی سازگار زمین کے مطابق نہیں تھی۔ یہ نہیں ہے کہ اس میں کسی کا قصور ہو۔ بحث یہ نہیں ہے۔ جب کسی کمپنی کے اختیار میں کوئی سرمایہ دیا جاتا ہے مثلا دس ملین تومان اس کو دیئے جاتے ہیں کہ تجارت اور کاروبار کرے۔ اگر اچانک اس کو دس ارب تومان دے دئے جائیں تو ظاہر ہے کہ وہ کام نہیں کر سکتی۔ اس میں کسی کا قصور نہیں ہے۔ لیکن جو ہے اور جو ہونا چاہئے، ان کا موازنہ ضروری ہے جس میں ہم کو یہ دیکھنا چاہئے کہ کمیاں کہاں ہیں۔
ضروری ہے کہ کمیوں کو تلاش کیا جائے اور بغیر کسی چشم پوشی کے ان کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ ہمارے کام میں نقص کیا تھا۔ آیا تبلیغ میں متوازی خطوط پر کام کیا گیا اور کسی ایک مرکز کا فقدان موثر رہا ہے؟ آیا ذمہ داروں کی ناواقفیت موثر رہی ہے؟ آیا اس کے ذمہ دار دو اداروں کا ٹکراؤ موثر واقع ہوا ہے؟ آیا ترجیحی بنیادوں پر کاموں کی شناخت کا نہ ہونا موثر رہا ہے؟ آیا جس کام کو تیسرے درجے کی ترجیح دینا چاہئے تھا اس کو پہلی ترجیح دینا یا جس کو پہلی ترجیح دینا چاہئے تھا اس کو تیسری ترجیح دینا، اور ترجیحی سلسلے کی پابندی نہ کرنا موثر رہا ہے؟ آیا مالی بجٹ اور وسائل کی کمی موثر رہی ہے؟ آیا دشمنوں کا وجود اور ان کے کارآمد اور وسائل سے لیس تشہیراتی ادارے جنہیں عالمی سامراج کی پشت پناہی بھی حاصل ہے ، یہ ادارے موثر رہے ہیں؟ ان سب کا امکان ہے۔
آسان ترین کام یہ ہے کہ ہم یہ کہیں کہ یہ سب ایک ساتھ موثر رہے ہیں۔ پیسے کی کمی تھی، افراد کی کمی تھی، مثال کے طور پر اس وقت بیرون ممالک ہمارے جو نمائندہ دفاتر ہیں، یہ اتنے تو نہیں ہیں جتنے کی ضرورت ہے۔ اس سے کئی گنا کی ضرورت ہے۔ اصولا افرادی قوت اور مادی وسائل کی کمی ہے۔ ہمیں ایک حساب کتاب کرنے والے اور ایک دانشور مفکر کی طرح بیٹھ کے ایک چارٹ بنانا چاہئے۔ چارٹ میں ان کمیوں کو لکھیں اور دیکھیں کہ ان میں سے کیا ہمارے اختیار سے باہر ہے اور کیا ہمارے اختیار میں ہے۔ محنت کریں اور مشکلات کو دور کریں۔ اس کام میں غفلت جائز نہیں ہے۔
ہم نے شروع سے کہا ہے کہ انقلاب کا چہرہ، انقلاب کی علامت، انقلاب کا بیرونی منظر، اس کا ثقافتی پہلو ہے۔ ہماری سیاست بھی ثقافت کی پابند ہے۔ ہم یہ تو نہیں چاہتے کہ اپنی دیانت کو سیاست سے الگ کر دیں۔ ہماری ثقافت ہمارے انقلاب ہمارے مکتب اور ہماری تاریخ کی تیار کردہ ہے۔ اس بڑے دعوے کے ساتھ عوام کو ہم سے توقعات ہیں۔ ان چند برسوں میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ہمارے راسخ العقیدہ اور اسلامی جمہوریہ کے وفادار روشن فکر حضرات مختلف عرب اور ایشیائی ملکوں سے آئیں اور مجھ سے ملاقات کریں الا یہ کہ ان میں سے ہر ایک نے آکر ثقافتی تبلیغ کے میدان میں موجود نقائص کی نشاندہی کی ہے۔
ہمیں ان نقائص کو سنجیدگی سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جن لوگوں کو ہم اس کام کے لئے بھیجتے ہیں، ان میں، ان کے انقلابی نظریئے، ثقافتی صلاحیت، عقل اور سب سے بڑھ کر تقوا کو نظر میں رکھیں کہ وہ اپنے فریضے کو محسوس کریں۔ ایسے لوگوں کو بھیجا جائے جو خدا کو حاضر و ناظر جان کر ان وسائل اور سہولتوں سے کام لیں جو انہیں فراہم کرائی جاتی ہیں۔
دنیا کے عوام مشتاق ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کی جو مخالفتیں کی گئی ہیں اور استکباری و سامراجی کیمپ نے اسلام کی دشمنی میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف جو زہریلے پروپیگنڈے کئے ہیں (بحث اسلام کی ہے، ایران کا مسئلہ درپیش نہیں ہے، ان کے باوجود) ان کی وجہ سے ممکن تھا کہ لوگوں کے افکار زیادہ متاثر ہو جاتے لیکن اس کے باوجود اب بھی ہم سے اقوام کی وفاداری زیادہ ہے۔
اپنی صدارت کے دور میں، میں چند ملکوں کے دورے پر جانے والا تھا۔ میرا دورہ شروع ہونے سے پہلے عالمی اور بین الاقوامی سطح پر ہمارے لئے ایک حادثہ رونما ہوا جس کو صیہونی، امریکی اور سامراجی تشہیراتی ادارے کافی ہوا دے رہے تھے۔ میں امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) سے رخصت ہونے اور ہدایات و رہنمائی لینے کے لئے، جو ہر سفر سے پہلے عموما امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) دیا کرتے تھے، ان کی خدمت میں گیا۔ میں نے کہا کہ اتفاق سے ہمارے سفر کے موقع پر یہ حادثہ رونما ہو گیا اور ہمارے دشمن اور حکومتیں اس مسئلے میں کافی حساس ہیں۔ امام نے فرمایا ہاں لیکن اقوام آپ کے ساتھ ہیں اسی سفر میں، میں نے اس بات کا واضح طور پر مشاہدہ کیا جو سو دلیلوں سے بھی اتنی وضاحت کے ساتھ میرے لئے ثابت نہیں ہو سکتی تھی۔
ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔ اقوام ہمارے ساتھ ہیں۔ اقوام کے دل یہاں ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ہماری طرف سے انہیں جواب ملے۔ اگر انہیں احساس ہو کہ ہم ان کی بات سن رہے ہیں، ہمارا دل ان کے بارے میں سوچتا ہے اور ہمارے مختلف شعبوں سے انہیں جواب ملے تو ان کی امید بڑھ جائے گی۔
کام کا خیال رکھیں۔ ملک سے باہر اسلامی جمہوریہ کی اعلان شدہ پالیسیوں کی پابندی بہت اہم امور میں سے ہے۔ آپ جہاں بھی رہیں، یہ کبھی نہ ہو کہ آپ کی فکر، عمل اور گفتار میں، اسلامی جمہوریہ کی اختیار کردہ پالیسیوں پر ذاتی اور انفرادی پسند اور صواب دید غالب آ جائے۔ بالفرض کوئی پالیسی غلط ہو تو بھی اس غلطی کو دور کرنے کا راستہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ سے وابستہ کوئی رکن عوام یا خواص کی محفلوں میں اس کی مخالفت کا اعلان کرے۔ یہ عمل اس بات کا مظہر ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ غلط پالیسی اختیار کرنے کے ساتھ ہی تنظیمی لحاظ سے بھی دیوالیہ ہو چکی ہے۔ یہ دو عیب ہوئے۔
ہر تنظیم میں چاہے وہ خاندان کی ہی تنطیم کیوں نہ ہو، اتحاد ہونا چاہئے تاکہ اس پر اعتماد کیا جا سکے۔ ہمیں ایک دوسرے سے منسلک رہنا چاہئے۔ جس نظام نے اتنا سنگین فریضہ اپنے کندھوں پر لیا ہے، اس کو اتحاد و یک جہتی کا مظہر ہونا چاہئے۔ عوام میں ممکن ہے کوئی ہو جو سرکاری نظریات کا مخالف ہو۔ لیکن جو نظام کا رکن ہے اس کو وہاں نظام کا سرکاری نظریہ ہی بیان کرنا چاہئے اور عملا سسٹم کی تنظیمی یک جہتی کا ثبوت پیش کرنا چاہئے۔ یہ بہت اہم ہے۔ ہم نے اس کا تجربہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ باہر کس طرح پیش کیا جاتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ ان چند برسوں میں ملک میں گوناگوں پالیسیاں رہی ہیں۔ جو بھی ملک سے باہر ڈیوٹی پر جاتا رہا، وہ ممکن ہے کہ کسی زمانے میں کسی پالیسی کا مخالف رہا ہو۔ آپ کو یاد ہے کہ سن انسٹھ ( انیس سو اسی عیسوی ) میں حکومت کی اختیار کردہ سرکاری پالیسیوں کے لحاظ سے کیا صورتحال تھی۔ جن برسوں میں انقلابی عناصر بیرونی ممالک کے دورے کرتے تھے انہیں برسوں میں، میں نے خود تجربہ کیا ہے اور نزدیک سے دیکھا ہے۔ باہر والوں کی نظر میں جو چیز اہم ہے یہ نہیں ہے کہ جو شخص وہاں گیا ہے اور نظام کے کسی اعلی عہدیدار سے اس کے روابط اچھے نہیں ہیں، مثال کے طور پر وہاں وہ کہے کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے یا اس کی بات بہت معتبر نہیں ہے یا اس نے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ غلط ہے، ہمیں قبول نہیں ہے یا کچھ لوگوں کو قبول نہیں ہے۔ اگر وہ پالیسی غلط بھی ہو تو اس کا علاج یہ نہیں ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ اس زمانےمیں غلط پالیسیوں کا بازار گرم تھا۔ ایک طرف تو نظام کے ظاہر و باطن پر مسلط لبرل عناصر کی غلط پالیسی تھی اور دوسری طرف انقلابی عناصر جاتے تھے اور جانتے تھے کہ کیا روش اختیار کریں کہ تنظیمی لحاظ سے نظام پر حرف نہ آئے ۔ یہ بہت بنیادی اور اساسی نکتہ ہے جس پر توجہ ضروری ہے۔
البتہ میں نے وہاں سنا کہ خارجہ پالیسی اور تبلیغات کے نظام میں ٹکراؤ ہے۔ اس سے چند سال پہلے صدارت کے زمانے میں بھی یہ مسئلہ پیش آیا تھا اور شاید اب بھی ہے۔ اس تضاد اور ٹکراؤ کو دور کریں۔اس کو باقی نہیں رہنا چاہئے۔ کبھی مسائل کا تعلق کام سے اور سیاست سے ہوتا ہے اور کبھی مسائل کا تعلق ذات سے ہوتا ہے۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ یہ اختلاف باہر دکھائی دے۔ اگر یہ اختلاف باہر نظر آیا تو یقین جانیں کہ اسلامی جمہوری نظام کو نقصان پہنچے گا۔ اس نکتے پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
خدا وند عالم انشاء اللہ آپ کو تفیق عطا کرے ، آپ کی نصرت کرے۔ یہ بہت سنگین ذمہ داری ہے۔ اسی کے ساتھ بہت بافضیلت بھی ہے۔ آپ نے بہت باشرف اور بافضیلت کام کا انتخاب کیا ہے۔ انشاء اللہ توفیقات و رضائے الہی آپ کو حاصل ہو اور جو اسلام، مسلمین اور انقلاب کے فائدے میں ہے وہ کام آپ کے ہاتھوں انجام پائے۔
میں آپ تمام برادران عزیز، محترم وزیر اسلامی ثقافت و ہدایت جناب آقائے خاتمی اور ان تمام ذمہ دار عہدیداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو دنیا کی سطح پر اس کام میں مصروف ہیں ۔انشاء اللہ یہ کام زیادہ تیزی کے ساتھ، زیادہ بہتر اور زیادہ کارآمدانداز میں اور زیادہ حکمت آمیز طریقے سے آگے بڑھے گا۔
میں نے چند سال قبل، دو تین گھنٹوں پر مشتمل ایک خصوصی میٹنگ میں، پتہ نہیں اس جلسے میں موجود حضرات میں سے کوئی وہاں تھا یا نہیں ، بعض سفارشات کی تھیں۔ اس وقت بھی میرے پیش نظر وہ سفارشات ہیں لیکن میں ان کو دہرانا نہیں چاہتا۔ بہرحال وہ سفارشات بہت زیادہ اہم ہیں۔ انشاء اللہ کامیاب و کامران رہیں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

احزاب ؛ 39 و 40