قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں آپ تمام برادران و خواہران کا بالخصوص شہیدوں کے اہل خانہ، اسلام اور انقلاب اسلامی کے لیے فداکاری کرنے والوں اور اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے معذور جانبازوں کا، جو اس مجمع میں مختلف جگہوں پر تشریف رکھتے ہیں، اور اسی طرح ان حضرات کا جو مثالی شخصیت منتخب ہوئے ہیں، خیر مقدم کرتا ہوں۔ اسلامی جمہوریہ میں مختلف مخصوص ایام کو جو نام دیئے گئے ہیں، شاید ان میں کوئی بھی دن آج کے دن جیسا نہ ہو۔ اس لئے کہ دو بہت اہم، حساس، کارآمد اور بہت با‏عظمت عناوین آج کے دن مجتمع ہوگئے ہیں۔ ایک کا تعلق علم سے ہے اور دوسرے کا تعلق کام سے ہے۔ آج کا دن، علم کا دن بھی ہے اور کام کا دن بھی ہے۔ واقعی اگر صحیح معنی میں دیکھا جائے تو ہر قوم، ہر جماعت اور ہر فرد کی دنیا و آخرت انہیں دو چیزوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک، دوسرے کے بغیر مکمل خاصیت نہیں رکھتی۔ بغیر کام کے علم کا مطلب ہے بغیر عمل کے علم۔ العالم بلاعمل کالشجرۃ بلاثمر کوئی درخت اگا ہے، بڑا ہوا ہے، مظہر قدرت الہی ہے، لیکن پھل نہیں دیتا۔ دوسری طرف المتعبد بلاعلم کالحمار الطاحونۃ اگر کوئی بغیر علم کے کام کرے تو چاہے وہ کام عبادت خدا ہی کیوں نہ ہو، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ اپنے ہی گرد گھومنے کے مترادف ہے۔ جیسے کوئی آگے نہ بڑھے بلکہ اپنے ہی گرد گھومتا رہے۔ ملک کو علم کی بھی ضرورت ہے اور کام کی بھی۔خداوند عالم نے ان دونوں کو حسنہ اور نیکی قرار دیا ہے اور ان دونوں کے لئے اجر اور ثواب معین کیا ہے ۔
جب ہم علم کی تعریف کرتے ہیں تو یہ تعریف درحقیقت معلم کی ہوتی ہے۔کیوں؟ اس لئے کہ وہی ہے جو دوسروں تک علم پہنچاتا ہے۔ اگر معلم نہ ہو تو علم حاصل نہ ہو۔ جس کو بھی جو بھی سیکھنا ہے، استاد سے سیکھنا چاہیے۔ معلم کے بغیر علم کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ کام بھی اسی طرح ہے۔ جو بھی کام کی تعریف کرتا ہے وہ دراصل کام کرنے والے کی تعریف کرتا ہے۔ اس لیے کہ کام کرنے والے کے بغیر کام کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ توجہ فرمائیں، دیکھیں کہ یہ مفاہیم ایک دوسرے سے کتنے مرتبط ہیں۔ علم اور کام، قوم کے لیے، دو پروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم اور کام کے بغیر کوئی بھی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ میں نے اس وجہ سے بارہا عرض کیا ہے کہ ایرانی قوم کو پہلوی اور قاجاری دونوں شاہی سلسلوں پر دل کی گہرائیوں سے لعنت بھیجنی چاہیے کیونکہ ان دونوں خبیث خاندانوں نے اس مملکت اور اس قدیم، ذہین، اور باصلاحیت قوم کے یہ دونوں پر کاٹ دیے تھے۔ قوم کے لئے نہ علم کی سہولت تھی اور نہ ہی کام تھا۔ جو کام تھے وہ وہ بہت معمولی اور کم اہمیت کے تھے۔ علم جو تھا بھی وہ تقلیدی اور سیکنڈ ہینڈ تھا۔ اس مملکت میں انہوں نے بنیادی کام کی ترویج نہیں کی جو دل سے اٹھتا ہے اور درحقیقت زندگی کو سنوارتا ہے۔ جتنا ان کے بس میں تھا برباد کیا اور اس علم کی بساط لپیٹ دی جو دل سے اٹھتا ہے اور ایجادات لاتا ہے۔ ان خاندانوں نے یہ جرائم کیے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایرانی قوم جو علم کے مقابلے اور تمدن، تجربے اور علم و دانش کی پیشرفت میں یا دوسروں سے آگے تھی یا ان سے کم نہیں تھی، برسوں پیچھے چلی گئی۔اب ہمیں کوشش کرنی ہے کہ کم سے کم اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں۔ ان شاء اللہ آپ عوام کی ہمت سے یہ کام کیے جائیں گے اور اس کی علامتیں ابھی سے ظاہر ہیں۔
پہلے قاجاری خاندان نے، ناصرالدین شاہ اور اس کے بعد کے قاجاری بادشاہوں نے اور ان کے بعد پہلوی خاندان نے، اس باپ بیٹے نے، اس ملک اور قوم کا مادی و معنوی سارا سرمایہ غارت کردیا۔ تلک امۃ قد خلت لہا ماکسبت ولکم ما کسبتم وہ چلے گئے اب ان کا سروکار خدا سے ہے۔ اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔ اب ہماری اور آپ کی باری ہے۔ولکم ماکسبتم البتہ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو انقلاب کے شروع سے آج تک علم اور کام کے میدان میں بہت کوشش ہوئی ہے۔ اگر کوئی اس کا انکار کرے تو ایسا ہی ہے جیسے وہ کہے کہ اس وقت دن ہونے کی دلیل کیا ہے؟ اتنا ہی واضح ہے۔ کوئی ملک کی سطح پر نظر دوڑائے تو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا، معلمین، اساتذہ اور ماہرین کی تعداد میں اضافے، بے شمار کارخانوں، زراعت کے کاموں، صنعتی امور، نمایاں اور دقیق کاموں اور بہت زیادہ ایجادات کو دیکھے گا جو ان پندرہ برسوں میں اس ملک میں اسلام لایا ہے۔ میں اور ہم بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ کام ہم نے کیے ہیں۔ یہ ساری برکتیں، اسلام کی ہیں۔ یہ ایمان، عوام کی میدان میں موجودگی اور حکومت کے عوامی ہونے کی خاصیت اور اس کے ثمرات ہیں۔
ایک مسئلہ یہ ہےکہ آیا علم اور کام یا دوسرے الفاظ میں معلمی اور محنت کشی، دوسرے پیشوں کی طرح صرف روٹی کمانے کے لئے ہے؟ جواب یہ ہے کہ نہیں۔ معلمی اور محنت کشی اگرچہ افراد کے لئے روٹی کمانے کا وسیلہ ہے لیکن معلمی اور محنت کشی سے وہ چیزیں حاصل کی جاسکتی ہیں جو روٹی سے بالاتر ہیں انہیں چیزوں میں سے ایک اجر الہی ہے۔ یقین رکھیں کہ معلمی میں ثواب ہے۔ محنت کشی میں ثواب ہے۔ جب آپ کسی مشین پر کھڑے ہوتے ہیں اور کام کرتے ہیں، یا کھیت میں زراعت کا کام انجام دیتے ہیں، یا پروجیکٹ کے کمرے میں بیٹھ کے کسی کام یا کسی چیز کا پروجیکٹ تیار کرتے ہیں، یا کلاس میں جاتے ہیں اورپچاس منٹ تک طلبا کے ساتھ سر کھپانا چاہتے ہیں، یا معلمی کے کام کی تیار کرتے ہیں جیسے کتاب جمع کرتے ہیں یا مطالعہ کرتے ہیں، تو جان لیں کہ وہ عبادت کرتے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ موت کے دروازے پر، جس سے سب کو گزرنا ہے، جو چیز مجھے اور آپ کو ملے گی، وہ، روٹی اور کھانا نہیں ہے جو ہم نے روزآنہ اپنے لئے یا اپنے بیوی بچوں کے لئے حاصل کیاہے۔ وہاں جو چیز ہمارے کام آئے گی، وہ عمل صالح ہے۔ والذین آمنوا وعملوا الصالحات دیکھیے قرآن میں اس لفظ ایمان اور عمل صالح کا کتنی بار اعادہ ہوا ہے۔ انہیں صالح اعمال میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کلاس میں پڑھائیں، یا کارخانے یا کھیت میں کام کریں۔ علم پھیلانا اور کام کرنا قرآن کی تلاوت اور نمازپڑھنے کی طرح عبادت ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ خدا نے پڑھانےاور کام کرنے کو انسان کے لئے باعث ثواب کیوں قرار دیا ہے؟ نعوذ باللہ، خدا مبالغہ تو نہیں کرتا۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ کمال جس پر، خدا چاہتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں فائز ہوجائے، جملہ دیگر باتوں کے ساتھ ہی علم اور کام پر بھی منحصر ہے ۔بیکار، یا کم کام کرنے والے بدکار، بےعلم اور جاہل لوگ اور ان کا معاشرہ جس طرح چاہیے، اس طرح کمال کے مراحل تک خود کو نہیں پہنچا سکتا۔ ان کی دنیاوی زندگی بیکار ہوجائے گی۔ خدا وند عالم کے علم کامل میں جو ہر شئے پر محیط ہے، یہ بات بالکل واضح اور روشن ہے۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ کام کروگے تو ثواب پاؤگے۔ کام جتنا مفید اور بہتر ہوگا ثواب بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ جو علم آپ سکھاتے ہیں، وہ جتنا مفید ہوگا اس کا ثواب بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر قرآن اور دینی علوم پڑھانے کا تو ثواب ہے اور الجبرا، فزکس، ریاضی، وغیرہ پڑھانے کا ثواب نہ ہو۔ آپ کلاس میں پڑھاتے ہیں اور لوگوں کے بچوں کو علم دیتے ہیں، جو پڑھائی بھی انسان کو عالم، دانشور سائنسداں اور معاشرے کے لئے مفید بنائے، اس کو پڑھانا ثواب ہے۔ یہ اسلام کی منطق ہے۔
لہذا ایک نتیجہ ثواب الہی ہے۔ علم اور کام کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ معاشرے کے مستقبل کی تعمیر میں شریک ہوجاتے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ آج دنیا کے تمام جھگڑوں کی بنیاد یہ ہے کہ سامراجی طاقتیں اقوام کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہتی ہیں۔ یہ امریکا جس کو آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج دنیا میں اتنا ہنگامہ اور شوروغل مچا رہا ہے، جو عام طور پر بے فائدہ، بے نتیجہ اور بیکار ہے، یہ اس لئے ہے کہ خود کو سپر طاقت کا حقدار سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ دنیا کی تقدیر اس کے ہاتھ میں ہو۔ اس نے یہ معاملہ کیوں کیا؟ اس حکومت نے فلاں حکومت کو فلاں چیز کیوں بیچی؟ اس ملک نے امریکا کی دلچسپی کے فلاں مسئلے کو مسترد کیوں کیا؟ یا اس مسئلے کی تائید کیوں کی جس کا امریکا مخالف ہے۔ یہ سب باتیں امور دنیا میں مداخلت کے لیے ہیں۔ کیاوہ دنیا کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں لے سکتے ہیں۔ یہ کچھ کمزور اور ناتواں اقوام اور بعض ملکوں کے کمزور حکام ہیں۔ لیکن پرجوش، خون میں ولولہ رکھنے والے کہتے ہیں امریکا بکواس کرتا ہے، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ دنیا کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے لے۔ میں کیا کہتا ہوں؟ میں کہتا ہوں کہ ایک شرط پر وہ ایسا نہیں کرسکتا اور ایک شرط پر کرسکتاہے۔ وہ قوم جو امریکا کی حریف ہے، اگر زندہ، سیاسی بصیرت رکھنے والی، عزم و ارادے کی مالک، جوش وجذبہ رکھنے والی، سعی و کوشش کرنے والی اور محنتی ہو تو امریکا اس پر تسلط نہیں جما سکتا۔ لیکن اگر کوئی قوم جوش و جذبہ نہ رکھتی ہو سعی و کوشش نہ کرتی ہو اور محنتی نہ ہو تو کیا تب بھی امریکا اس کو اپنے تسلط میں نہیں لے سکے گا۔؟ کیوں نہیں۔ لے سکتاہے۔ اتنے ملکوں پر انہوں نے تسلط حاصل کیا۔ ایسا کس لئے ہوا؟ اگر کسی ملک کے حکام امریکا کے ساتھ سودے بازی کرنے والے ہوں اور اس ملک کے عوام بھی بیکارہوں، خواب غفلت میں ہوں اور ہوشیار نہ ہوں تو امریکا اس ملک پر تسلط جما سکتا ہے۔ اگر کسی ملک کے حکام امریکا کے ساتھ مذاکرات اور سودے بازی کرنے والے نہ ہوں لیکن عوام سست ہوں، تب بھی امریکا تسلط حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ وہ حکومت لاچار ہوجائے گی۔ جو لوگ کام نہ کریں، جو لوگ ایجاد کی قوت نہ رکھتے ہوں، جو لوگ اپنی ضروریات کی چیزیں خود تیار کرنے اور ملک چلانے کو اپنا فریضہ نہ سمجھتے ہوں، جو لوگ چیزوں کو استعمال کرنا تو جانتے ہوں انہیں بنانا اور تیار کرنا نہ جانتے ہوں، وہ لوگ ملک اور ان لوگوں کو جو برسراقتدار ہیں بری صورتحال سے دوچار کردیں گے۔ صرف وہ قوم امریکا جیسے ڈھیٹ، زیادہ کی توقع رکھنے والوں، تسلط پسندوں اور منہ زوروں کے مقابلے پر ڈٹ کر مزاحمت اور اپنے حق کا دفاع کرسکتی ہے جو یہ کہے کہ جناب ہم اپنے خود امور چلائیں گے۔ اگر دشمن کہے کہ ہم فلاں چیز تمہارے ہاتھ نہیں بیچیں گے، تو کہے کہ بہت اچھا ہے کہ نہ بیچو۔ تم ہمارے ہاتھ بیچتے ہو تو ہم کاہل ہوجاتے ہیں اور خود تیار نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ جناب پیکنگ کے ساتھ آتا ہے آپ ہمیں مفت دیں، پیسے نہ لیں توبھی ہمارے ساتھ خیانت کریں گے۔ اگر ہمارے ساتھ لین دین بند کردیں اور اپنی بیکار چیزیں ہمارے ملک میں نہ بھیجیں تو ہمارے فائدے میں ہے۔ اس لئے کہ اس صورت میں ہمارے اندر کام ، سعی و کوشش اور پیداوار کا جذبہ پیدا ہوگا۔ یقین کریں جس دن اس بے تجربہ اور کم عقل شخص نے اعلان کیا کہ ایران کے ساتھ امریکا کے اقتصادی روابط منقطع کرنا چاہتا ہے (صیہونیوں کے جلسے میں گیا اور واقعی دھوکے میں آگیا۔ کس نے اس کو فریب دیا میں نہیں جانتا) تو میں واقعی کئی لحاظ سے تہہ دل سے خوش ہوا۔ یہ بعض اوقات ریاکاری میں کچھ کہتے تھے جن کو بعض لوگ گوشہ وکنار میں بیان کرتے تھے کہ جناب، یہ ہمارے اتنے بھی دشمن نہیں ہیں۔ آپ امریکا مردہ باد کہتے ہیں، لوگ امریکا مردہ باد کہتے ہیں، یہ غلط ہے، معیوب اور بری بات ہے۔
بعض کم ذمہ دار یا غیر ذمہ دار افراد چاہتے تھے کہ یہ امریکا مردہ باد کانعرہ جو ہمارے عوام کے دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہے، ان کےگلے میں دبا دیا جائے، باہر نہ نکلنے دیا جائے۔ اب جب ہمارے عوام نے اتنی کھلی دشمنی دیکھی تو ملک میں ہر جگہ سکون کے ساتھ امریکا مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔
مگر اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم نے جنگ کے دوران، ہتھیار، گولے بارود اور جنگی وسائل وغیرہ کے سلسلے میں چاروں طرف سے کافی پابندیوں کا سامنا کیا ہے۔ اب پھر یہ لوگ ہمیں پابندیوں سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم نے جنگ کے آٹھ برسوں کے دوران پابندیوں کا سامنا نہیں کیا ہے؟ وہاں ہم نے کیا کیا؟ میں نے شاید اس سے پہلے بھی ایک بار یہ بات کہی ہے۔ برادران و خواہران! آپ کو تعجب ہوگا یہ جان کر کہ ہمارے حکام نے خاردار تار خریدا تھا اور چاہتے تھے کہ سوویت یونین کے راستے اسے یہاں لائیں۔ سوویت یونین اجازت نہیں دے رہا تھا۔ خاردار تار کیا تھا؟ خاردار تار سے زیادہ دفاعی اور کون سا وسیلہ ہوسکتا ہے؟ اس سے نہیں خریدا تھا کہ کہتا نہیں بیچیں گے بلکہ کہیں اور سے خریدا تھا۔
آپ دیکھیں کہ انہوں نے اسلامی جمہوریہ کے ساتھ کیا کیا ہے۔رائفل گرینیڈ جیسی کم اہمیت چیز بھی ہمارے ہاتھ نہیں بیچتے تھے۔ کسی کو یقین آئے گا؟ یہ اسلامی جمہوریہ وہی ملک ہے کہ جس کو اس زمانے ان تمام پابندیوں کا سامنا تھا۔ آپ جانتے ہیں نتیجہ کیا ہوا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے فضل سے قدرت الہی پر بھروسہ کرکے، اس مملکت کے نوجوان گوداموں اور کارخانوں کے ایک گوشے میں گئے، اپنے اوپر دروازے بند کیے اور کام شروع کردیا۔ آج ہم بہت سے پیچیدہ ترین جنگی، وسائل جو دشمن کی عقل میں بھی نہیں آسکتے، خود ملک کے اندر تیار کرتے ہیں۔البتہ ہمارے اوپر ایٹمی اور کیمیائی بم بنانے کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ جھوٹ ہے۔وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جھوٹ ہے۔ جو حقیقت ہے اس سے وہ واقف نہیں ہیں۔ یہ بات ان کی عقل میں بھی نہیں آتی ہے۔
ہم نے یہ کام کیسے کیا؟ اس ملک میں پائیلٹ امریکی ہوائی جہاز اڑاتا تھا۔ فنی اور تعمیری امور کے ماہرین اس کی تعمیر کرتے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی ان کے پرزے کھولنے اور یہ دیکھنے کی کی جرات نہیں کرتا تھا کہ کس شکل و صورت کا ہے۔ یہ مرمت کرنے والے میکنیک تھے۔ پرزہ اگر خراب ہو جاتا تھا تو اس کو امریکا لے جانا پڑتا تھا وہاں اس کی مرمت ہوتی تھی۔ ہمارے میکنیکوں کو امریکی ہوائی جہاز کے پرزوں کی، جن سے ان کا سروکار تھا، مرمت کی اجازت ہی نہیں تھی۔ ہماری یہی مسلح افواج اور اس ملک کے عوام اس میدان میں بڑی پیشرفت کرنے میں کامیاب رہے۔ کیوں؟ انہیں پابندیوں اور ناکے بندیوں کی برکت سے۔اب ہمیں دھمکی دیتے ہیں کہ ہم ایران کےساتھ تجارتی روابط منقطع کرلیں گے۔ بہت اچھا ہے، جہنم میں جاؤ، روابط منقطع کرلو۔ کیا ہمیں برا لگتا ہے؟ اگر تم ہم سے روابط منقطع کرلو تو ہم خوش ہوں گے لیکن دنیا تمہاری پیروی نہیں کرے گی۔ کیا امریکا کہیں کا چودھری ہے کہ سب اس کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں؟ اچھا ہے، تم اپنے لیے جو چاہے کرو۔ بعض اسلامی ملکوں میں بعض کمزور افراد یہ باتیں سنتے ہیں تو ان پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ کیا بات ہے؟ الحمد للہ ہمارے ملک میں، ملک کے حکام، صدر مملکت سے لے کے پارلیمنٹ کے اسپیکر، عدلیہ کے سربراہ، اراکین پارلیمنٹ اور عوام، سب اس ملک میں محکم اور قوی ہیں۔ سب کی مٹھیاں بھنچی ہوئی ہیں اور سب جوش و جذبے سے سرشار ہیں۔ جو ان کے سامنے آئے گا، پوری قوت اور استحکام کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں گے۔ اس لحاظ سے ہمیں کوئی مشکل نہیں ہے۔ خدا وند عالم آپ کو محفوظ رکھے، اس بابت ہمیں کوئی تشویش نہیں ہے۔
میرے عزیزو! جو چیز ضروری ہے وہ کام اور تعلیم ہے۔ ہمارے عزیز معلم، نوجوانوں کی تعمیر کریں۔ نوجوانوں میں کام ،خود مختاری اور علم پروری کا جذبہ پیدا کریں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ صرف ڈگری حاصل کرنے کی فکر کریں۔ ڈگری کیا ہے؟ ڈگری اس لحاظ سے کہ اس سے یہ ظاہر ہو کہ اس فرد میں یہ معلومات پائی جاتی ہیں، ٹھیک ہے لیکن ڈگری کسی کام کا سرآغاز نہیں ہوسکتی۔ جو چیز اہم ہے وہ علم ہے۔ علم اور کام، معاشرے کے لئے ضروری ہیں۔ سبھی لوگوں اور حکام کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ کام کا جذبہ تو یہ میں صرف رسما نہیں کہہ رہا ہوں۔ اس کے لیے منصوبہ بندی کریں۔کام کا جذبہ عوام میں عام ہونا چاہیے۔ جو بھی کوئی کام کر رہا ہے اس کو یہ سوچنا چاہیے کہ کوئی اس کو اوپر سے دیکھ رہا ہے، چاہے وہ کمرے میں اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔کام پورا، محکم، قوی، ضرورت کے مطابق اور جدت کے ساتھ ہونا چاہیے۔
جن کاموں میں، کام کا جذبہ ضروری ہے ان میں سے ایک تعلیم و تربیت ہے۔ ٹیچر جب ملک کے کسی بھی شہر یا تہران کے کسی بھی دور افتادہ مضافات میں کسی بھی اسکول یا کالج میں کلاس میں پڑھانے کے لیے جائے تو اس طرح محنت سے پڑھائے کہ جیسے انسپکٹر تعلیم کلاس میں موجود ہے اور اس کے کام کو دیکھ رہا ہے یا ایک گھنٹے بعد آئے گا اور اس کے کا م کا نتیجہ دیکھے گا۔ کام کا جذبہ یہ ہونا چاہیے۔ ہم رسما اور تکلفا یہ بات نہیں کہہ رہے ہیں۔
میرے عزیزو! تکلفات کے ساتھ کوئی قوم اپنے اقتدار کی حفاظت نہیں کرسکتی۔ تکلفات کے ساتھ، غدار اور خونخوار دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ عمل، سعی و کوشش اور منصوبہ بندی ضروری ہے۔ ہم نے کہا کام کا جذبہ،اجتماعی نظم و ضبط یا اقتصادی نظم و ضبط۔ ملک کی حکومت، حکام، عدلیہ اور اراکین پارلیمنٹ منصوبہ بندی کریں تاکہ یہ کام انجام پائیں ورنہ اس سے کام نہیں ہوتا کہ تعریف کریں کہ فلاں نے کتنی اچھی تقریر کی۔
عوام مدد کریں، عوام کی ایک ایک فرد، حقیقی کام کرنے والے ہیں۔ میرے عزیزو! یہ گھر، آپ کا گھر ہے۔ یہ مملکت آپ کی مملکت ہے۔ یہ ملک؛ عظیم، بابرکت اور دولتمند ہے۔ اس سرزمین میں بہت دولت و ثروت ہے اور سب آپ کی اور اس ملک کی آئندہ نسلوں کی ہے ۔ اس ملک میں معنوی دولت و ثروت بھی بہت ہے اور سب کا تعلق آپ سے ہے۔ یہ سب علم، استعداد ، معلومات، اچھے اخلاقیات، سب، اسلام کی برکت، قدیم اسلامی ثقافت اوراس قوم کے تجربات کا نتیجہ ہے اور سب آپ سے متعلق ہے۔ تو کب اس سے استفادہ کرسکتے ہیں؟ جب یہ قوم کام کے لئے تیار ہو۔ کمربستہ ہو۔ کوئی بھی اپنے کام میں کوتاہی نہ کرے۔ بیکار بیٹھنے کو اپنے لیے غنیمت نہ سمجھے، ایسے لوگ ہیں جو تھک جانے کے باوجود، اگر کام ہو تو پورے شوق سے کام کرتے ہیں۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تم نے کام کیوں نہ کیا؟ خدا کی طرف سے مؤاخذے اور اور عوام کی ضرورت ان کے اندر کام کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ یہ جذبہ عام ہونا چاہیے۔یہی ہے کام کا جذبہ۔
دعا ہے کہ خداوند عالم مدد کرے اور ان شاء اللہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی پاکیزہ دعائیں کاموں میں آپ کی مدد کریں۔ اس صورت میں، امریکا تو کیا، امریکا اور اس کے اتحادی مل کے بھی، اپنے تمام وسائل سے کام لے کر بھی ایسے عزم و ارادہ کی مالک اس قوم پر کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
دعا ہے کہ خداوند عالم ہمارے عظیم امام کی، جنہوں نے ہمارے سامنے یہ راستہ کھولا، روح مطہر کے درجوں کو روز بروز بلندتر کرے، اس دن کے شہید عزیز، شہید مرتضی مطہری کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے اور اپنی توفیقات، برکتیں، رحمت اور کرم آپ عزیزوں کے شامل حال کرے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ برکاتہ