پہلا خطبہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ و نؤمن بہ ونتوکل علیہ ونصلی ونسلم علی حبیبہ نجیبہ وخیرتہ فی خلقہ سیدنا ونبینا ابی القاسم محمدوعلی آلہ الاطیبین الاطہرین المنتجبین الہداۃ المہدیین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین وصل علی آئمۃ المسلمین وحماۃ المستضعفین وہداۃ المومنین۔
قال اللہ الحکیم فی کتابہ ؛ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجواللہ والیوم الاخر و ذکر اللہ کثیرا ۔
 
تمام بھائیوں، بہنوں اور عزیز نمازیوں کو تقواو پرہیزگاری اور اس روشن راستے پر چلنے کی دعوت دیتا ہوں جو رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام انبیاء و اولیائے الہی نے بشریت کو دکھایا ہے ۔ خدا کو یاد رکھیں اور اپنے تمام افعال اور رفتارو گفتار حتی اپنی یادوں اور افکار میں خدا کو یاد اور اس کا خیال رکھیں۔
آج منجی بشریت، معلم انسان، انسان کی فلاح و نجات کے علمبردار، رسول اکرم حضرت محمد بن عبداللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے فرزند شیعوں کے امام اور مسلمین و اہل زمین پر حجت خدا حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا یوم ولادت باسعادت ہے ۔ ان دونوں میلادوں کی آپ تمام بھائیوں بہنوں، پوری ایرانی قوم اور تمام مسلمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
پہلے خطبے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی زندگی کے بارے میں چند جملے عرض کروں گا۔ خدا وند عالم نے ہم مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ پیغمبر کی پیروی کریں۔ یہ پیروی زندگی کی ہر چیز میں ہونی چاہئے۔آپ کے ارشادات ہی نہیں بلکہ آپ کا عمل، آپ کی پوری زندگی، عوام اور کنبے والوں کے ساتھ آپ کا طرز معاشرت، دوستوں کے ساتھ آپ کا سلوک، دشمنوں اور اجنبیوں کے ساتھ آپ کا رویہ ، کمزوروں اور طاقت والوں کے ساتھ آپ کی روش، سب کچھ اسوۂ حسنہ اور نمونہ عمل ہے۔ ہمارا اسلامی معاشرہ اس وقت حقیقی معنی میں مکمل اسلامی معاشرہ ہوگا جب خود کو سیرت رسول کے مطابق ڈھال لے۔ اگر سوفیصد آنحضرت کی سیرت کے مطابق عمل نہیں ہے ، جو نہیں ہے، تو کم سے کم اس کے مشابہ تو ہو، ہماری زندگی کی رفتار رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے بر عکس تو نہ ہو، آپ کے راستے پر تو چلیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے تین اہم پہلووں کے بارے میں اختصار کے ساتھ عرض کروں گا۔ البتہ اس بارے میں تفصیلی کتابیں لکھی گئي ہیں اور طولانی اور تفصیلی باتیں کہی گئی ہیں اور اس قسم کی تقاریر میں اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ( آپ کی زندگی کے ) ہر خرمن سے گل چینی کرنی چاہئے تاکہ ہمارے اذہان میں آپ ہمیشہ زندہ رہیں۔
پیغمبر کی زندگی کا پہلا پہلو، دعوت (اسلام ) اور جہاد ہے۔ پیغمبر خدا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک اہم کام دعوت حق اور اس دعوت کی راہ میں جہاد تھا۔اپنے دور کی تاریک دنیا کے مقابلے میں پیغمبر اکرم تذبذب میں نہیں پڑے۔نہ اس زمانے میں جب آپ مکے میں تنہا تھے، آپ کے گرد تھوڑے سے مسلمان جمع تھے اور آپ کے مقابلے پر متکبر عرب سردار، صنادید قریش اور نامی گرامی بدمعاش، اپنی تمام تر تشدد پسندی اور طاقت و قوت کے ساتھ موجود تھے۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام لوگوں سے بھی جنہیں معرفت نصیب نہیں تھی، نہ گھبرائے اپنی حق بات کہی اور بار بار کہی ، مسلسل بیان کیا، حقائق کو واضح کیا، توہین برداشت کی ، سختیوں اور مشکلات کو گلے لگایا تب جاکے جمع کثیر کو مسلمان کیا اور نہ ہی اس وقت جب آپ نے اسلامی حکومت تشکیل دی ، خود اس حکومت کی زمام سنبھالی اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس زمانے میں دشمن اور آپ سے جنگ کے لئے آنے والے، مختلف قسم کے لوگ پیغمبر کے مقابلے پر تھے، کتنے مسلح عرب گروہ ، وہ وحشی جو حجاز اور یمامہ کے صحراؤں میں ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے، دعوت اسلام کے ذریعے ان کی اصلاح ہونی چاہئے تھی لیکن وہ مقابلے پر آگئے تھے اور اس دور کی دنیا کے کتنے بڑے بادشاہ، اس زمانے کی دو عالمی سپر طاقتیں، یعنی ایران اور روم کی سلطنتیں، جنہیں پیغمبر نے خط لکھے، ان سے بحثیں کیں، باتیں کیں، لشکر کشیاں ہوئیں، سختیاں برداشت کیں، اقتصادی محاصرے میں آگئے اور نوبت یہ ہوگئی کہ اہل مدینہ کبھی کبھی دو دو تین تین دن تک روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تھی ۔ چاروں طرف سے بے انتہا خطرات نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو گھیر لیا۔ عوام میں سے بعض پریشان ہوجاتے تھے، بعض متزلزل ہوجاتے تھے، بعض طعنہ دیتے تھے، بعض پیغمبر سے کہتے تھے کہ نرمی سے کام لیں اور صلح کرلیں۔ مگر اس دعوت حق اور جہاد کے مرحلے میں پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے کمزوری اور سستی سے کام نہ لیا اور پوری طاقت کے ساتھ اسلامی معاشرے کو آگے بڑھایا اور عزت و طاقت کے اوج تک پہنچایا۔ یہ وہی نظام اور معاشرہ تھا جو دعوت حق اور جنگ کے میدانوں میں پیغمبر اکرم کی پائیداری کے نتیجے میں ، بعد کے برسوں میں دنیا کی سب بڑی طاقت بن گیا۔
پیغمبر کی زندگی کا دوسرا پہلو، عوام کے ساتھ آنحضرت کا سلوک ہے۔ آپ نے عوام کے ساتھ محبت ومہربانی اور عدل و انصاف کے قیام کو ہرگز فراموش نہیں کیا۔ عوام کے درمیان اور عوام کی طرح کی زندگی گزاری۔ ان کے ساتھ آپ کی نشست و برخاست رہی۔ معاشرے کے نچلے طبقات اور غلاموں سے دوستی اور رفاقت کی ۔ ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے ۔ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ ان سے محبت و مہربانی سے پیش آتے تھے۔ اقتدار سے آپ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ قومی دولت نے آپ کو تبدیل نہیں کیا۔ سختیوں کے دور میں اور اس دور میں جب سختیاں دور ہوگئی تھیں، آپ کے طرز عمل میں کوئی فرق نہ آیا۔ آپ ہرجگہ عوام کے درمیان اور عوام کے ساتھ رہے ۔ ان سے مہربانی سے پیش آتے رہے اور عوام کے لئے عدل و انصاف فراہم کرتے رہے۔
جنگ خندق میں جب مسلمین تقریبا چارو طرف سے محاصرے میں تھے اور مدینے میں کھانے پینے کی چیزیں نہیں آرہی تھیں ،اشیائے خورونوش ختم ہوچکی تھیں، دو دو تین تین دن تک لوگوں کو کھانے کے لئے کچھ نہیں ملتا تھا، اسی حال میں پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) خود بھی لوگوں کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں خندق کھودنے میں مشارکت فرماتے تھے اور عوام کے ساتھ بھوکے رہتے تھے۔
روایت میں ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا ( سلام اللہ علہا ) نے حسن اور حسین ( علیہما السلام ) کے لئے جو کمسن بچے تھے، کہیں سے تھوڑا سا آٹا مہیا کیا ، روٹی پکائی ، تو آپ کو یہ گوارا نہ ہوا کہ آپ کے والد بھوکے رہیں، بچوں کے لئے جو روٹی پکائی تھی اس کا ایک ٹکڑا اپنے والد کے لئے لے گئیں۔ پیغمبر نے پوچھا ، بیٹی یہ روٹی کہاں سے لائیں؟ فرمایا؛ بچوں کی ہے ۔ پیغمبر نے ایک لقمہ روٹی کا دہن مبارک میں رکھا اور تناول فرمایا۔ روایت کے مطابق ، اور اس روایت کی سند میری نظر میں معتبر ہے، پیغمبر نے فرمایا میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ آنحضرت عوام کی طرح ان کے ساتھ رہتے تھے اور ان سے دوستی و رفاقت کا سلوک کرتے تھے۔ اس حالت میں بھی اور اس دور میں بھی جب سختیاں دور ہوگئيں، مکہ فتح ہوگیا، دشمن ذلیل و خوار ہوگئے اور سب اپنی اوقات میں آگئے۔
فتح طائف کے بعد پیغمبر کے پاس بہت زیادہ مال غنیمت آیا ۔ آپ سارا مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ کچھ مسلمانوں کا ایمان راسخ تھا جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے ، بعض تازہ اسلام لائے تھے اور اطراف مکہ و طائف کے قبیلوں سے تھے، وہ سب پیغمبر کے پاس آئے ، غنمیت کا مطالبہ کیا اور آپ کو گھیر لیا، اذیت پہنچائی، پیغمبر انہیں مال غنیمت دیتے تھے، وہ لیتے تھے، مگر اس کے بعد بھی مطالبہ کرتے تھے۔ حالت یہ ہوگئی کہ ان نومسلم عربوں نے دوش پیغمبر سے عبائے مبارک بھی کھینچ لی ۔ یہ وہ وقت تھا جب پیغمبر کے پاس عزت و طاقت تھی ، اس کے باوجود پیغمبر مسلمانوں کے ساتھ اسی خوش اخلاقی اور مہربانی سے پیش آتے تھے۔ آپ نے خوش اخلاقی اور مہربانی کے ساتھ آواز دی ایہا الناس ردوا علی بردی اے لوگو' میری عبا مجھے لوٹادو۔ عوام کے ساتھ آپ اس طرح پیش آتے تھے۔
پیغمبر غلاموں کے ساتھ نشست و برخاست کرتے تھے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔آپ زمین پر تشریف فرما تھے اور کچھ غریب لوگوں کے ساتھ کھانا نوش فرما رہے تھے۔ ایک صحرائی عورت کا وہاں سے گزر ہوا۔ اس نے تعجب سے پوچھا یا رسول اللہ آپ غلاموں کی طرح کھانا کھاتے ہیں؟ پیغمبر نے مسکراکے فرمایا ویحک ای عبد اعبد منی مجھ سے بڑا غلام کون ہے؟
آپ سادہ لباس زیب تن فرماتے تھے۔ جو غذا بھی آپ کے سامنے رکھی جاتی تھی ، اسے تناول فرماتے تھے، خاص غذا نہیں چاہتے تھے، کبھی کھانے کو نا پسندیدہ کے نام سے واپس نہیں کرتے تھے۔ پوری تاریخ بشریت میں یہ راہ و روش بے نظیر ہے۔ عام لوگوں کے ساتھ اس طرز معاشرت کے ساتھ ہی ظاہری و معنوی طہارت اور پاکیزگی آپ کے اندر کمال پر تھی ۔ عبداللہ بن عمر کہتےہیں مارایت احدا اجود ولا انجد ولا اشجع ولا اوضا من رسول اللہ رسول خدا سے زیادہ بخشش کرنے والا، آپ سے زیادہ مدد کرنے والا، آپ سے زیادہ شجاع اور آپ سے زیادہ صاف ستھرا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ یہ عوام کے ساتھ پیغمبر کا سلوک تھا۔ انسانی طرز معاشرت، اچھا طرز معاشرت، خود عوام کی طرح کی معاشرت، کسی تکبر کے بغیر ، نخوت کے بغیر ۔ اگرچہ پیغمبر کے اندر فطری اور خدا کی عطا کردہ ہیبت تھی اور آپ کے سامنے لوگ مبہوت ہوجاتے تھے، ان کے حواس قابو میں نہیں رہتے تھے لیکن آپ لوگوں سے خوش اخلاقی اور نرمی و مہربانی سے پیش آتے تھے۔جب آپ لوگوں کے درمیان تشریف فرما ہوتے تھے تو پہچانے نہیں جاتے تھے کہ آپ پیغمبر اور اس عظیم جماعت کے کمانڈر ہیں۔ آپ اعلا درجے کے فوجی اور سماجی منتظم تھے۔ ہر کام پر نظر رکھتے تھے۔ البتہ معاشرہ چھوٹا تھا ، مدینہ اور اطراف مدینہ پر مشتمل تھا، بعد میں مکہ اور ایک دو دیگر شہر بھی اس میں شامل ہوگئے لیکن عوام کے امور پر پوری توجہ تھی ، سارے کام منظم تھے۔ آپ نے بد عربوں کے اس معاشرے میں حساب کتاب، رجسٹر اور لوگوں کو اچھے کام پر سراہنے اور خلاف ورزی پر تنبیہ کا نظام رائج فرمایا۔ یہ پیغمبر کی معاشرتی زندگی تھی جس کو ہم سب کے لئے ، ملک کے حکام کے لئے ، تمام عوام کے لئے اسوۂ حسنہ اور نمونہ عمل ہونا چاہئے۔
پیغمبر کی زندگی کا تیسرا پہلو، ذکر عبات الہی ہے۔ پیغمبر اپنے اس اعلا مقام و مرتبے اور شان و عظمت کے باوجود، کبھی عبادت سے غافل نہ ہوئے۔آدھی رات کے وقت خدا کے حضور گریہ فرماتے تھے دعاو استغفار کرتے تھے۔ ام سلمی نے ایک رات دیکھا کہ آپ دعا میں مشغول ہیں آنسو بہا رہے ہیں ، استغفار کررہے ہیں، فرمارہے ہیں ؛ اللہم ولا کلنی الی نفسی طرفۃ عینی ام سلمی پر گریہ طاری ہوگیا۔ پیغمبر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ؛ یہاں کیا کررہی ہو؟ عرض کیا؛ یا رسول اللہ آپ خداوند عالم کو اتنا عزیز رکھتے ہیں ، آپ کے گناہ تو اس نے بخش دیئے ہیں، لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک و ما تاخر گریہ کیوں فرماتے ہیں؟ یہ کیوں کہتے ہیں کہ میرے خدا مجھے میرے حال پر نہ چھوڑ؟ فرمایا وما یومننی اگر خدا سے غافل ہوجاؤں تو مجھے کون سی چیز باقی رکھے گی؟ یہ ہمارے لئے درس ہے۔ عزت و آسودگی کے زمانے میں ، سختی اور بے نامی کے دور میں ، آسائش کے وقت، دشمن کے محاصرے میں، اس دور میں جب دشمن پوری طرح انسان کی آنکھوں اور اس کے وجود پر خود کو مسلط کردے اور تمام حالات میں خدا کو یاد رکھنا۔ خدا پر بھروسہ کرنا۔ خدا سے طلب کرنا۔ یہ ہمارے لئے پیغمبر کا عظیم درس ہے۔
تمام مراحل میں خداوندعالم پیغمبر کے ساتھ تھا اور رسول اکرم نے ہرمرحلے میں خدا سے مدد طلب کی ۔ انہوں نے خدا سے مدد مانگی اور غیر خدا سے نہ ڈرے اور خوفزدہ نہ ہوئے ۔ خدا کے حضور پیغمبر کی عبودیت کا اصل راز یہ تھا کہ آپ نے خدا کے مقابلے میں کسی کو کچھ نہ سمجھا، کسی سے خوفزدہ نہ ہوئے اوردوسروں کے لئے راہ خدا کو ترک نہ کیا۔ ہمارے معاشرے کو اس سیرت نبوی سے درس لیکر اسلامی معاشرے میں تبدیل ہونا ہے۔
انقلاب اس لئے نہیں ہے کہ کچھ لوگ جائیں اور کچھ لوگ آئیں۔ انقلاب اس لئے ہے کہ معاشرے میں اقدار تبدیل ہوجائیں۔ انسانیت کی حیثیت و اہمیت کا معیار عبودیت خدا ہو، انسان خدا کا بندہ ہو، خدا کے لئے کام کرے ، خدا سے ڈرے، غیر خدا سے نہ ڈرے ، راہ خدا میں سعی و کوشش کرے، خدا کی نشانیوں پر غوروفکر کرے ، عالم کی صحیح شناخت حاصل کرے، دنیا اور انسان کی برائیوں کی اصلاح پر کمر بستہ ہو اوریہ کام اپنے آپ سے شروع کرے ۔ ہم میں سے ہرایک کو چاہئے کہ خود سے شروع کرے۔
پالنے والے تجھے پیغمبر کے مقام و مرتبے کا واسطہ ہمارے اندر ، ہمارے دل و جان میں گہری اسلامی تبدیلی لا۔ پالنے والے ہمیں اس قابل قرار دے کہ ہمارا شمار امت پیغمبر میں ہو۔ پالنے والے امام زمانہ کو جو پیغمبر کے جانشین اور ہمارے زمانے میں حجت خدا ہیں، ہم سے راضی فرما۔ پالنے والے' ہمیں جہاد اور استقامت کے میدان میں ہمیشہ سر‌فراز فرما۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والعصر ان الانسان لفی خسر ۔ الا الذین آمنوا وعملوا الصالحات وتواصو بالحق وتواصو بالصبر ۔
 
دوسرا خطبہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین والصلوات والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم محمد وعلی علی امیر المومنین وعلی الصدیقۃ الطاہرۃ سیدۃ نساء العالمین وعلی الحسن والحسین سبطی الرحمہ وامامی الہدی وعلی علی بن الحسین محمد بن علی وجعفر بن محمد وموسی بن جعفر وعلی بن موسی و محمد بن علی وعلی بن محمد والحسن بن علی والخلف القائم المہدی حججک علی عبادک وامنائک فی بلادک وصل علی آئمۃ المسلمین وحماۃ المستضعفین وہداۃ المومنین ۔ اوصیکم عباداللہ بتقوی اللہ ۔

 
آج ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں، دو اہم مسائل دو یادگار کے عنوان سے ہمارے سامنے ہیں۔ ایک مسلط کردہ جنگ کے مقابلے میں مقدس دفاع کے برسوں کی یاد ہے اور دوسرا مسئلہ ہفتہ وحدت ہے۔ دونوں کے تعلق سے اختصار کے ساتھ کچھ عرض کروں گا۔ سب سے پہلے ان ایام کے شہیدوں کو یاد کریں گے جنہیں ہم عام طور سے یاد کرتے رہتے ہیں۔ فداکار اور مجاہد دانشور شہید ہاشمی نژاد اور (مسلح افواج کے )وہ اعلا افسران جو ان ایام میں شہید ہوئے ہیں، انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
مقدس دفاع کے تعلق سے آٹھ سالہ جنگ کے سخت دور کے گزرنے کے بعد ہماری قوم کو جس پر غور کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ جنگ کس نے مسلط کی ، کیوں مسلط کی اور کیا ہوا کہ وہ کامیاب نہ ہوسکا؟ یہ بنیادی نکات ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ جنگ کس نے شروع کی؟ یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ جنگ اکیلے عراق نے مسلط کی تھی۔ شروع سے ہی تمام قرائن بتارہے تھے کہ سامراج عراق کی پشت پناہی کررہا ہے۔ اس کی فوجی مدد کررہا ہے۔ تشہیراتی لحاظ سے اس کی مدد کررہا ہے اور جارح کی حمایت میں سلامتی کونسل سے کام لے رہا ہے۔اگرچہ اس اہم اور حساس علاقے میں اتنی بڑی جنگ ہوئی لیکن ایک عرصے تک اقوام متحدہ نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دکھایا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ کویت پر عراق کے حملے میں چند گھنٹے میں ہی سلامتی کونسل نے اپنے موقف کا اعلان کردیا۔ لیکن ایران پر عراق کے حملے کے بعد ، جب تک عراقی ٹینک آگے برھتے رہے، سلامتی کونسل خاموش تماشائی بنی رہی ۔ عراق نے ہزاروں کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کرلیا ، اس کے بعد سلامتی کونسل نے ایک لفظ کہااور اس میں بھی جارح کی مذمت نہیں کی اور اس کی لعنت ملامت نہیں کی کہ جنگ کیوں شروع کی۔ بلکہ دونوں فریقوں سے کہا کہ جنگ روک دیں اور جنگ بندی کا اعلان کریں۔ اس کا مطلب ہمارے مقبوضہ علاقوں پر عراقی قبضے کا استحکام تھا۔ ہم نے اسے قبول نہیں کیا اور اس قرار داد کو مسترد کردیا۔
سلامتی کونسل چونکہ بڑی طاقتوں کے اختیار میں تھی اور یہی طاقتیں عراقی حکومت کی پشت پناہی کررہی تھیں اس لئے آخر تک اس نے کبھی بھی اس جنگ کے بارے میں سو فیصد عادلانہ موقف اختیار نہ کیا۔ یہاں تک کہ آخر میں اور وہ بھی کافی زحمتوں اور ہر طرف سے کی جانے والی بہت زیادہ کوششوں کے بعد سلامتی کونسل نے قرار داد نمبر پانچ سو اٹھانوے پاس کی ۔
مغرب و مشرق عراق کی پیٹھ پر تھے۔ تقریبا پورے یورپ نے عراق کی مدد کی ۔ جنگ کے ایام میں ہم یہ باتیں اندازے سے کہتے تھے ، قرائن بتاتے تھے لیکن حالیہ ایک دو سال میں ٹھوس شواہد مل گئے ہیں۔ سب نے اعتراف کیا اور ایک ایک کرکے دستاویزات سامنے آگئیں۔ امریکا نے مدد کی ، نیٹو نے مدد کی، سوویت یونین کی مدد تو پہلے دن سے ہی ظاہر تھی ۔مشرقی بلاک نے ، انہیں مشرقی یورپ کے ملکوں نے جو آج ان مصیبتوں میں گرفتار ہیں، جنگ کے دوران عراقی حکومت کی بہت مدد کی ۔ علاقے کے رجعت پسندوں کی مدد اپنی جگہ ہے۔ بنابریں یہ جنگ عراقی حکومت نے اکیلے ہی ہم پر مسلط نہیں کی تھی بلکہ عراقی حکومت صرف ایک وسیلہ تھی ۔ جنگ پوری استکباری دنیا نے شروع کی تھی ۔ یہ بات آج بالکل واضح ہوچکی ہے اور اس بارے میں زیاد بحث کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ جنگ کیوں شروع کی گئي؟ یہ بھی بالکل واضح ہے۔جنگ اس لئے شروع کی کہ اسلامی نظام کو ختم کردیں یا اپنے سامنے جھکا سکیں۔ ان کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یا تو اسلامی جمہوریہ مسلط کردہ جنگ میں ہونے والے قبضے اور مصیبتوں کے نتیجے میں ختم ہوجائے یا جیسا کہ اکثر ممالک اس قسم کی مصیبتوں میں گرفتار ہونے کے بعد سرانجام کسی طاقت کا سہارا لیتے ہیں اور اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں، شاید ایرانی قوم اور اس قوم کے عظیم الشان قائد (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) بھی مجبور ہو جائیں، دشمنوں کے سامنے جھک جائيں، ہاتھ بڑھائیں اور کہیں کہ بہت اچھا ہم جھکے جاتے ہیں اس بات کی اجازت نہ دیں کہ عراق ہمیں اس طرح برباد کرے ۔ بیشک ان کا ہدف یہی تھا۔ لیکن یہ آرزو بھی ان کے دل میں ہی رہ گئی ۔
اگر ایران امریکا کے سامنے جھک گیا ہوتا تو جنگ پہلے ہی ختم ہوجاتی۔ لیکن امریکی تسلط کی مصیبت جنگ سے سو گنا سخت تر ہے۔بیرونی طاقت کا تسلط ایک قوم کے لئے کسی بھی جنگ اور اس کے ہر طرح کے نقصانات سے زیادہ سخت مصیبت ہے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ عراقی حکومت سے کس طرح پیش آرہے ہیں۔مسلط ہوگئے اور ان کے سامنے جھک جایا گیا تو پھر سامراج کسی حد کا قائل نہیں ہے۔ یہ صرف عوام کی استقامت سے ڈرتے ہیں اسی سے مجبور ہوکے اپنی حد میں رہتے ہیں۔ جس قوم نے بھی سامراج کے سامنے جھکنے کا معمولی سا بھی عندیہ دیا تو وہ ہار گئی اور یہ بہت بڑی شکست ہے۔ ان کا ہدف یہ تھاکہ اسلامی جمہوریہ کو جھکنے پر مجبور کردیں۔ لیکن نہ کرسکے۔
جنگ کے آٹھ برسوں کے بعد اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم قرآن سر پر رکھیں اور قسم کھائیں کہ ہم جنگ میں کامیاب رہے ۔ جنگ میں کامیابی کیا ہے؟ اگر کوئی دشمن اتنی طاقت اور اتنی مادی قوت کے ساتھ کسی قوم پر حملہ کرے ، آٹھ سال اس کے ساتھ جنگ کرے، لیکن آٹھ سال کے بعد سب کچھ پہلے کی حالت پر واپس آجائے ، نہ اس قوم کی ایک بالشت زمین دوسروں کے پاس ہو، اور نہ ہی یہ قوم دشمن کا معمولی سا تسلط بھی قبول کرے، تو کیا یہ کامیابی نہیں ہے؟ ہماری قوم نے ، اپنے نوجوانوں کے ساتھ، اپنے غازیوں کے ساتھ، اپنی فوج اور پاسداران انقلاب اور عوامی رضاکار فورس بسیج کے ساتھ، دلیر قبائیلیوں کے ساتھ، کوچہ و بازار کے لوگوں کے ساتھ، فداکار گھرانوں کے ساتھ، ہوشیار اور بیدار عورتوں اور مردوں کے ساتھ ، اپنے عظیم الشان رہبر کے بے نظیر توکل خدا، ایمان اور شجاعت کے ساتھ امریکا ، یورپ ، سوویت یونین ، مغربی اور مشرقی طاقتوں کے مقابلے پر ڈٹ گئی اور آٹھ سال کے بعد ان سب کو ملت ایران کی فتح اور اپنی شکست کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیا۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہوا کہ جنگ شروع کرنے والے کامیاب نہ ہوسکے؟ ملک کے تمام بہنو اور بھائیو' کیا ہوا کہ آپ کامیاب ہوگئے ؟ آپ کے ایمان ، خدا پر آپ کے توکل، دشمنان خدا کے مقابلے میں استقامت کے آپ کے فیصلے ، اتحاد کہ جس کو وہ کسی بھی وسیلے سے ختم نہ کرسکے،آپ کے نوجوانوں کی فداکاری کہ جنہوں نے عین عالم جوانی میں دنیاوی لذتوں کو خیرباد کہا اور وسوسوں کے سامنے نہ جھکے، وہ ماں باپ جنہوں نے اپنے نوجوانوں کی قربانی پیش کی اور اولاد کی محبت ان پر غلبہ حاصل نہ کرسکی ، دنیاوی مال و دولت سے بے اعتنائی اور اعلا ہدف یعنی اسلام اور مسلمین کی سربلندی کو مد نظر رکھنے کے علاوہ ایرانی قوم کی کامیابی کا کوئی دوسرا عامل تھا؟ اس دن جب دشمن نے چارو طرف سے حملہ کیا ، اگر ایران مشرق ، مغرب ، امریکا، یورپ اور سوویت یونین کا رخ کرتا تو کیا تب بھی کامیاب ہوجاتا؟ وہ اس کو کامیاب نہ ہونے دیتے ۔ جنگ ختم ہوجاتی لیکن یہ جنگ بغیر کامیابی اور بغیر افتخار کے ختم ہوتی اور اس قوم پر ان کا تسلط شروع ہوجاتا۔
بھائیو اور بہنو' انقلاب کو کامیاب ہوئے اور اس ملک سے امریکی تسلط ختم ہوئے ، تقریبا تیرہ سال کا عرصہ ہورہا ہے۔ لیکن امریکا اور عالمی سامراج اب بھی اس قوم پر جس طرح بھی ہوسکے اپنا تسلط قائم کرلیں۔ جان لیں کہ دشمنان خدا آپ کے ایمان ، اسلام اور اتحاد سے خوش نہیں ہے ۔ اس بات سے کہ آپ ملک کے حکام کے حامی ہیں، قرآن اور اسلام کے طرفدار ہیں، دین کے پرچم اور دین کی نشانیوں کے سائے میں چلتے ہیں، دشمن برہم ہیں۔ دشمن اس قسم کی زندگی کو پسند نہیں کرتا ۔ آپ نے دنیا میں سامراجی ثقافت کا شیرازہ بکھیر دیا۔ آج سامراج بڑی مشکل میں ہے۔
یہ ' نیا عالمی نظام' جس کا سامراج ڈھنڈورا پیٹتا ہے، ایسی بات ہے کہ جس کے پیچھے بہت ہی خباثت آمیز اور خیانتکارانہ نیتیں ہیں۔ نیا عالمی نظام یعنی کیا؟ یعنی دنیا کا دو قطبی نظام ختم ہوگیا۔ مشرق اور مغرب کی لڑائی ختم ہوگئی۔ جی ہاں ختم ہوگئی۔ لیکن کیا مشرق اور مغرب کی لڑائی کا ختم ہونا، کمزور اقوام پر امریکا کے روز افزوں تسلط پر منتج ہونا چاہئے؟ یعنی اب دنیا کے کسی بھی گوشے میں اسلام کے طرفداروں اور حریت پسندوں کو سانس لینے کا حق نہیں رہا؟ یعنی مسئلہ فلسطین ، سرزمین فلسطین اور فلسطینیوں کی فروخت پر ختم کردیا جائے؟ نئے عالمی نظام کا مطلب یہ ہے ؟ امریکا یہ چاہتا ہے۔ امت اسلامیہ اس بیداری کی وجہ سے جو اسلامی انقلاب اور جنگ میں آپ کی استقامت سے وجود میں آئی ہے، سامراج اور امریکا کی اس خواہش کے سامنے ہرگز نہیں جھکے گی ۔
یقینا جنگ سے کافی نقصانات ہوئے ہیں۔ دشمن بھی اس سے واقف تھا۔ آج بھی جانتا ہے۔ جنگ کا نقصان صرف اسی وقت نہیں ہوتا کہ جب کہیں توپ کا گولہ یا میزائیل گرتا ہے۔ اس سے تباہی آتی ہے۔ نقصان اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس تباہی کو ختم نہ کردیاجائے۔
آٹھ سال تک ہم پر جنگ مسلط رہی ۔ قوم کو طویل برسوں تک حکومت کی پشت پناہی کرنی ہے اور حکام کو خلوص اور پوری توانائی کے ساتھ کام کرنا ہے اور اس ملک کے قومی سرمائے سے تعمیر نو میں کام لینا ہے تاکہ جنگ میں ہونے والی تباہی دور ہوسکے ۔ جنگ کی تباہی آسانی سے نہیں جاتی ۔
آپ کو پتہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ جاپان ، یورپ اور دوسرے ملکوں کے لئے کس قیمت پر ختم ہوئی؟ کیاآپ جانتے ہیں کہ اس کے بوجھ سے نکلنے میں ان ملکوں کو کتنے سال لگ گئے؟ جبکہ امریکا اور دوسری جگہوں کی دولت سے ان کی حمایت ہوتی رہی ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ملک کی خود از سر نو تعمیر کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنی محنت، اپنے عزم و ارادے اور اپنے پیسے سے ملک کی تعمیر کریں۔ ملک کے مخلص حکام کام کررہے ہیں۔ وہ صحیح تدبیر اور عزم و ارادے اور عوام کی مدد سے انشاء اللہ ان تباہیوں کو دور کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ البتہ تھوڑا وقت لگے گا۔ جنگ میں سختیاں تھیں ۔ تعمیر نو کے دور کی اپنی سختیاں ہوتی ہیں ۔ یہ بھی جنگ کے دور کی سختیوں کا حصہ ہے۔ آج آپ کی مجاہدت ملک کی تعمیر نو اور اتحاد کی حفاظت کے لئےہے ۔
ہفتہ وحدت ، امت اسلامیہ کی وحدت کا ہفتہ ہے۔ دشمن اسلامی فرقوں میں لڑائی کرانا چاہتا ہے۔ خاص طور پر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دشمن نے انقلابی اور اسلامی ایران اور دیگر اقوام کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی ۔ وہ خدا سے چاہتے ہیں کہ اسلامی دنیا میں کہا جائے کہ یہ شیعہ ہیں، ان کا انقلاب شیعہ انقلاب ہے، ہم سنی ہیں ، ہم سے اس انقلاب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایرانی قوم نے ابتدائے انقلاب میں ہی کہہ دیا ہے کہ ہم شیعہ اور محبان اہلبیت پیغمبرہیں۔ لیکن یہ انقلاب ، اسلامی انقلاب ہے جو قرآن ، توحید اور خالص حقیقی اسلام پر استوار ہے اور تمام مسلمانوں کے اتحاد اور ان کی یکجہتی کی بنیاد پر آیا ہے۔ اس کو شروع سے ہی ہماری قوم نے کہا ہے۔ ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے بھی یہی نعرہ دیا ہے اور یہی بیان کیا ہے۔
اس اتحاد کو نقصان نہ پہنچنے دیں۔ دوسرے تمام ملکوں میں تمام مسلم اقوام اس بات کی اجازت نہ دیں کہ بکے ہوئے قلم ایرانی قوم ، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف لکھیں اور ان پر تہمت لگائیں۔ وہ یہ کام کررہے ہیں۔ ہمارے قلمکار ہوشیاری سے کام لیں اور دشمن کے ہاتھ کوئی بہانہ نہ لگنے دیں کہ یہ خلیج وسیع تر ہو۔ ریڈیو ٹیلیویژن، ذرائع ابلاغ ، اخبارات، کتابیں لکھنے والے ، سب ہوشیار رہیں، دشمن کے ہاتھ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کا کوئی بہانہ نہ لگنے دیں۔ ہم نے کہا کہ مسلمان بھائی جہاں بھی ہوں ، ان کا مذہب جو بھی ہو، رہے، لیکن آپس میں بھائی بھائی رہیں اور اسلام توحید اور قرآن کی راہ میں سامراج کے خلاف جو اسلام، توحید اور قرآن کا مخالف ہے، جدوجہد کریں۔
ہمارے اس زمانے کا سب سے تلخ مسئلہ فلسطین کا ہے ۔ فلسطین کا سودا کرنا چاہتے ہیں اس کو بیچ دینا چاہتے ہیں۔ یہ نام نہاد بین الاقوامی کانفرنس ، درحقیقت ایسی کانفرنس ہے جو صیہونیوں کی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہورہی ہے۔ مسلمانوں اور بالخصوص بعض فلسطینی رہنماؤں نے ایسی کمزوری دکھائی ہے کہ اب صیہونی نخرے دکھا رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کانفرنس میں، اس اس شرط پر شرکت کریں گے۔ شرط کیا ہے؟ غیور مسلمان اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرسکتے جس میں سرزمین فلسطین اور فلسطینی قوم کو بیچ دینے کا پروگرام ہے۔ بلکہ غیرت دار مسلمان اس پر خاموش نہیں رہ سکتے۔
میں نے اس بات کی اس پیام میں جو پوری دنیا کے عربی زبان بھائیوں اور بہنوں کے لئے تیار کیا ہے وضاحت کی ہے ۔ اس کو میں پڑھتا ہوں۔
السلام علی ابناء امتنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الی آخر
(ترجمہ)
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 
دنیا کے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں سلام عرض ہے۔
اگرچہ مسلۂ فلسطین پچاس سال سے آج تک ہمیشہ مسلمانوں کا دردناک مسئلہ ہے اور غالبا اسلامی دنیا کا تلخ ترین حادثہ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بالفور اعلامیہ کے بعد سے جو فلسطینیوں کو ان کے گھر سے محروم کردینے کی راہ میں پہلا قدم تھا، آج تک کوئی بھی حادثہ جو مقبوضہ فلسطین کو پیش آیا، اس حادثے سے زیادہ خطرناک نہ ہوگا جو اس وقت امریکا کے ذریعے، بعض دوسری حکومتوں کی مدد سے اور علاقے کی بعض عرب حکومتوں کی خاموشی اور تعاون سے فلسطین اور فلسطینی قوم کے خلاف تیار کیا جارہا ہے۔ اس وقت فلسطینی قوم کے خلاف جو منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے وہ اس قضیے کو ختم کرنے اور فلسطین کی اسلامی سرزمین کو مکمل طور پر غاصب اور جرائم پیشہ صیہونیوں کے ہاتھ بیچ دینے کی سازش ہے۔ یہ مسلمانوں کےخلاف بہت بڑی سازش ہے اور خدا نخواستہ اس پر عمل ہو گیا تو سب کے سب مصیبت میں گرفتار ہوں گے۔ فلسطین سے متعلق منصوبہ بند کانفرنس میں جو چیز تیار کی جا رہی ہے، اسلام کے نقطہ نگاہ سے اس کو قبول کرنا شرعا حرام اور احکام الہی کے خلاف ہے۔ سیاسی نقطہ نگاہ سے یہ حادثہ مسلم اقوام اور مسلم حکومتوں کی سب سے بڑی توہین ہے، یہ تمام اسلامی ملکوں میں مداخلت اور نفوذ کا راستہ ہے، تمام حق پرستوں اور حریت پسندوں کے لئے باعث ننگ و عار اور مشرق وسطی اور پھر پوری دنیا میں مسلمانوں کی بیداری کی تحریکوں کو کچلنے کی تمہید ہے۔
یہ مقبوضہ علاقوں میں توسیع اورصیہونیوں کو نیل سے فرات تک پہنچانے کی زمین ہموار کی جارہی ہے۔ انسانی اور اخلاقی نقطہ نگاہ سے یہ ان تمام شہداء اور مجاہدین کا مذاق اڑانا ہے جنہوں نے گذشتہ پچاس برسوں کے دوران فلسطین کی راہ میں مجاہدت کی اور اپنی جان دی ۔ یہ ان تمام کنبوں اور گھرانوں کے ساتھ ظلم ہے جن کو کیمپوں میں سخت ترین حالات میں زندگی گزارتے ہوئے دو نسلیں گزر گئیں اور ان کا گھر بار ان کا وطن عزیز غاصبوں کے قبضے میں ہے۔
یہ مستقبل میں ہزاروں فلسطینی نوجوانوں کے قتل اور انہیں ایذائیں دینے کے جواز کے مترادف ہے۔ یہ مستقبل میں ہزاروں ناموس کی بے حرمتی کا مصداق ہے۔ یہ ایک سرگرداں قوم کو بے وطنی، غربت، لاچاری اور فلاکت دینا ہے۔
ان تمام باتوں کے بعد حکام اور عوام میں سے کون سا غیرت مند مسلمان فلسطین کے بارے میں امریکی کانفرنس کو قبول کرسکتا ہے یا اس میں شرکت کرسکتا ہے یا اس کے نتائج کو تسلیم کرسکتاہے؟ یہ سب فلسطینی قوم کے ساتھ خیانت ، فلسطینی اقدار کے ساتھ خیانت اور اسلام کے ساتھ خیانت ہے اور اس بڑے المیے پر خاموشی بھی اس خیانت میں شرکت ہے۔
اگر امریکا اور اس کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس قسم کی کانفرنسوں اور فیصلوں سے فلسطین کے مقدس اسلامی قیام کے شعلوں کو خاموش کر سکتے ہیں تو غلطی پر ہیں۔ عرب سیاستدانوں میں سے چاہے وہ فلسطینی ہوں یا غیر فلسطینی، کچھ لوگ یہ تصور کررہے ہیں کہ فلسطینی قوم اور ان کی اقوام اس سازش میں ان کی شرکت کو معاف کردیں گی تو بڑی غلطی پر ہیں۔ فلسطین فلسطینی عوام کا ہے، اسلامی سرزمین کا حصہ ہے ۔غاصب حکومت کو ختم ہونا چاہئے ۔یہ فلسطین کی یقینی تقدیر ہے اور جلد یا دیر انسانی تاریخ اس کا مشاہدہ کرے گی۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اذا جاء نصر اللہ والفتح ۔ ورائت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا ۔ فسبح بحمد ربک واستغفرہ انہ کان توابا۔
 
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ