قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مصر کی حکومت نے گزشتہ برسوں کے دوران امریکہ اور اسرائیل پر اپنے انحصار کے نتیجے میں عوام پر جو ذلت و رسوائی مسلط کی اس سے مصری عوام اور نوجوان سرانجام تھک گئے اور اس طرح ناگہانی طور پر (ان کا رد عمل) سامنے آیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس عظیم عوامی تحریک میں مصری نوجوانوں کے کردار، ایمان اور عزم راسخ کو فیصلہ کن عنصر قرار دیا اور فرمایا کہ نوجوانوں کی سرکردگی میں مصری عوام کی تحریک مسجدوں اور نماز جمعہ (کی مذہبی تقریبات) سے شروع ہوئی اور ایک عظیم انقلاب میں تبدیل ہو گئی۔
اٹھارہ فروری انیس سو اٹھہتر کو صوبہ آذربائیجان کے شہر تبریز کے عوام کے تاریخی قیام کی مناسبت سے منعقد ہونے والے اس اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی نے تاریخ کے مختلف ادوار میں خاص طور پر اسلامی تحریکوں اور اسلامی انقلاب کے دوران اہل تبریز کی مثالی بصیرت و پامردی اور ایمان و اخلاص کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ اٹھارہ فروری سنہ انیس سو اٹھہتر کے اہل تبریز کے قیام کی سب سے اہم خصوصیت بعد کی عوامی تحریکوں کے لئے نمونہ قرار پانا تھا۔ اگر اٹھارہ فروری سنہ انیس سو اٹھہتر کا یہ عوامی قیام نہ ہوتا تو نو جنوری کا اہل قم کا قیام فراموش کر دیا جاتا اور ایرانی عوام کی اسلامی تحریک رک جاتی۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ عزیز بھائيوں اور بہنوں کا فردا فردا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ طویل سفر طے کرکے آپ تشریف لائے اور آج ہمارے حسینیہ (حسینیہ امام خمینی) کو اپنے صفائے باطن سے، اپنی تقاریر سے، اپنے نعروں سے اور اپنے ایمان و صداقت سے زینت بخشی۔
اٹھارہ فروری کے تاریخی دن کی مناسبت سے ہم (صوبہ) آذربائيجان اور (شہر) تبریز کے عوام کی خدمت میں جو بات عرض کر سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ ہمیں اس شجاعت خیز علاقے، اس وادی ایمان اور اس وادی اخلاص کو دیکھ کر فخر ہوتا ہے۔ تاریخ کے جس دور میں بھی انسان آذبائیجان کی طرف نظر ڈالتا ہے، وہاں کے لوگوں کے بارے میں پڑھتا ہے افتخار و سربلندی کی داستانیں ہی نظر آتی ہیں۔
گزشہ ڈیڑھ سو برسوں کے دوران پے در پے رونما ہونے والے اہم واقعات میں آذربائیجان کے لوگ پیش پیش نظر آتے ہیں۔ کبھی تو وہ پیش پیش دکھائي دیتے ہیں اور کبھی اکیلے ہی محاذ سنبھالے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تنباکو کے بائيکاٹ کے مسئلے میں (عراق کے شہر) سامرہ سے (ممتاز عالم دین) میرزا شیرازی نے جب فتوی دیا تو اس پر سب سے پہلے عمل کرنے والے آذربائیجان کے علمائے کرام تھے۔ (بزرگ عالم دین) الحاج میرزا جواد مجتہد اور دوسرے علمائے کرام نے حمایت کی اور تبریز کے عوام میدان میں آ گئے۔ نتیجتا ایک عرصے کے لئے سامراج کی کمر ٹوٹ گئی۔ آئینی انقلاب کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔ بعد کے زمانے میں بھی اسلامی انقلاب تک یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹھارہ فروری ( کے واقعہ) کو آئيڈیل کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ اہمیت اس کی ہوتی ہے کہ کوئي قوم، کوئی گروہ، کوئی جماعت یا کوئی شخص نمونہ عمل پیش کر دے۔ تاکہ اس نمونہ عمل کی بنیاد پر آئندہ بھی عمل انجام پائے۔ اٹھارہ فروری کے دن اہل تبریز کی سب سے بڑی کامیابی یہی تھی۔ ورنہ نو جنوری کا اہل قم کا قیام فراموش کر دیا جاتا۔ اہل تبریز نے قم کے عوام کی اس قربانی کو، اس قیام کو غفلتوں، سازشوں اور پروپیگنڈے کی نذر ہونے سے بچا لیا۔ یعنی در حقیقت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کام کیا۔ اگر حضرت زینب سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں تو واقعہ کربلا باقی نہ رہتا۔ اگر حضرت زینب سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں تو کوئی ضمانت نہیں تھی کہ عاشور کا واقعہ اتنا عام ہوتا اور تاریخ میں زندہ جاوید بن پاتا۔ تو (تبریز کے) عوام کا اقدام اس طرز کا تھا۔ اسی وجہ سے آئيڈیل قرار پایا۔ اہل تبریز نے (اہل قم کے قیام کے شہیدوں کا) پہلا چہلم منایا۔ اس کے بعد پے در پے چہلم منایا گیا اور ایک عظیم تحریک معرض وجود میں آ گئی۔
اسلامی انقلاب بذات خود بھی ایسا ہی ثابت ہوا۔ ایرانی قوم کی اجتماعی ہمت و استقامت کے نتیجے میں یہ انقلاب آئیڈیل بن گيا۔ میرے عزیزو! ان تینتیس برسوں میں اسلامی جمہوریہ پر جس طرح کا دباؤ ڈالا گیا ہے اس کے بارے میں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اس کا اصلی مقصد یہ تھا کہ علاقے کے مسلمان عوام کی نظروں کے سامنے ایک نمونہ عمل کا ظہور نہ ہونے پائے۔ کیونکہ آئیڈیل نہ ہو تو آگے بڑھنا دشوار ہوتا ہے، آئیڈیل مل جانے کی صورت میں تحریک کا راستہ صاف ہو جاتا ہے۔ جب کوئی قوم نمونہ عمل بن جائے، کوئی تحریک آئيڈیل قرار پائے تو اس سے ترغیب ملتی ہے، پنہاں صلاحیتیں انگڑائياں لینے لگتی ہیں۔ وہ (دباؤ ڈالنے والے دشمن) چاہتے تھے کہ یہ نہ ہونے پائے۔
پابندیاں لگاتے ہیں تاکہ بخیال خود اس ملک کو معاشی لحاظ سے مفلوج کر دیں۔ لوگ جب اسے دیکھیں تو یہی نتیجہ اخذ کریں کہ اسلام، قوموں کو معاشی لحاظ سے پسماندگی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں کہ سائنسی ترقی کے عمل کو روک دیں تاکہ ملت ایران سائنسی ترقی کی تحریک کو جو اس نے اسلام اور انقلاب کی بدولت شروع کر دی ہے دنیا کے سامنے پیش نہ کر سکے، امت اسلامیہ کو دکھا نہ سکے۔ گھٹن کے ماحول کے دعوے کرتے ہیں، انسانی حقوق کی خلاف روزی کے الزامات تراشتے ہیں اور اسی طرح کے بہتان باندھتے رہتے ہیں تاکہ کسی صورت عالمی رائے عامہ کو برگشتہ کیا جا سکے۔ لیکن اتنی کوششوں کے باوجود، اتنی خباثتوں اور زہریلے پروپیگنڈے کے ہوتے ہوئے بھی اسلامی انقلاب نے اپنی روشنی بکھیری اور آج بھی ضوفشانی کر رہا ہے۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ پر جیسے جیسے اپنے حملے تیز کئے وہ قوی تر ہوتا گیا۔ آٹھ سالہ جنگ نے ہمیں قوت بخشی۔ اگر آٹھ سالہ جنگ نہ ہوتی تو یہ شجاع سپاہی یہ نمایاں شخصیات سامنے نہ آ پاتیں، قوم کے اندر سے طلوع ہوکر باہر نہ آ پاتیں، عوام کی یہ عظیم الشان با اخلاص تحریک ظہور پذیر نہ ہو پاتی۔ اگر معاشی پابندیاں نہ ہوتیں، سائنسی پابندیاں نہ ہوتیں تو ہمارے نوجوانوں کی استعداد اور پنہاں صلاحیتوں کو نمودار ہونے کا موقع نہ ملتا۔ یعنی سب کچھ موجود تھا، تیار تھا لیکن کوئي اس پر توجہ دینے کی زحمت نہیں گوارا کرتا تھا، کوئی اسے پروان چرھانے کی فکر میں نہیں تھا۔ پابندیاں عائد ہوئيں تو چھپی ہوئی صلاحیتیں نمودار ہوئيں اور قوم کو ترقی حاصل ہوئي، قوم آگے بڑھی اور یہ پرچم اور بھی بلندتر ہوتا گیا۔ آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ «يريدون ليطفؤا نور اللَّه بأفواههم و اللَّه متمّ نوره و لو كره الكافرون»(1) وہ نور کو خاموش کر دینا چاہتے ہیں لیکن اللہ نے اس نور کو نقطہ کمال تک پہنچانے کا ارادہ کر لیا ہے اور وہ نقطہ کمال تک پہنچ کر ہی رہے گا۔
میں اس عظیم واقعے میں تبریز، آذربائیجان اور یہاں کے مومن عوام کے سلسلے میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ ان عوام میں جوش و جذبہ، شعور و بصیرت اور عزم راسخ ہمیشہ موجزن رہا ہے۔ آپ آئندہ بھی اسے قائم رکھئے۔ میں نے تبریز اور آذربائیجان کے عوام میں جو جوش و جذبہ دیکھا ہے اسے عدیم المثال ہی کہنا چاہئے۔ برسہا برس سے یہی عالم رہا ہے۔ میں نے تبریز کے جو دورے کئے، اہل تبریز اور اہل آذربائيجان سے جو ملاقاتیں ہوئیں ( ان میں ہمیشہ یہ خصوصیت واضح طور پر نظر آئی)۔ صرف جوش و خروش ہی نہیں تھا، اس کے ساتھ بصیرت بھی تھی، شعور بھی تھا اور تجزیاتی توانائی بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عوام کبھی بھٹکتے نہیں اور ضرورت پڑنے پر ہمیشہ میدان میں حاضر رہتے ہیں۔ اس خصوصیت کو باقی رکھنا چاہئے۔ آپ نسلا بعد نسل اس کی حفاظت کیجئے، ایک سے دوسرے کو منتقل کرتے رہئے۔
ہمارے آج کے نوجوان، اس اجتماع میں بھی نوجوانوں کی تعداد کافی زیادہ ہے، انہوں نے (آٹھ سالہ) جنگ کو نہیں دیکھا ہے۔ آپ نے شہید باکری (آٹھ سالہ جنگ کے دوران شہید ہونے والے کمانڈر) کو نہیں دیکھا ہے، آپ نے شہید باکری کے ساتھیوں کو نہیں دیکھا ہے۔ آپ نے اس پرمحن دور کو نہیں دیکھا ہے، آپ نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو بھی نہیں دیکھا ہے۔ لیکن آپ کے جذبات و خیالات، آپ کی راہ و روش اور آپ کا فہم و ادراک اسی زمانے کی مانند ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔ یہ کسی رواں دواں دریا کی مانند ہے۔ اس ندی کی مانند ہے جو پورے خطے کو سیراب کرتی ہے۔ اسے کہتے ہیں بصیرت۔ تبریز کے شاعر کے بقول شط اگر اولماسا بغداد اولماز ایک آباد شہر کا وجود اس آبی شریان حیات کا نتیجہ ہے جو اس میں موجزن ہے۔ یہ ایمان اور ایمانی بصیرت وہی شریان حیات ہے، فکروں اور دلوں کو زندگی عطا کرنے والی ہے۔ اس نے دنیا پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں۔
اس وقت عالم اسلام میں بیداری کے اثار صاف دکھائے دے رہے ہیں۔ یہ بات اب صرف ہم ہی نہیں کہہ رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ہم کہتے آئے ہیں کہ اسلامی بیداری کی لہر شروع ہو چکی ہے، اسلامی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے۔ بہت سے افراد سطحی جائزے کی بنیاد پر کہتے تھے کہ نہیں، ایسی تو کوئي بات دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ یہ لوگ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟! لیکن آج آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور کان آوازوں کو صاف طور پر سن رہے ہیں۔ منظر نامہ ایسا ہے کہ سب کچھ بالکل صاف دکھائی دے رہا ہے۔ یہی مصر کا واقعہ اپنی جگہ بیحد اہم واقعہ ہے۔ مصر کو، جو ایک قدیم تہذیب و تمدن، با فہم قوم اور قابل فخر نوجوانوں کی سرزمین ہے، مٹھی بھر خائن اور بکے ہوئے افراد نے امریکہ کا دست نگر بنا دیا تھا، اسے صیہونی دشمن کی آغوش میں ڈال دیا تھا۔ عوام کے دل خون ہوکر رہے گئے تھے لیکن انہیں لب کشائي کی اجازت نہیں تھی، ان پر بیحد شدید دباؤ تھا۔ اس ملک میں جو عظیم تحریک رونما ہوئی، یکبارگی وجود میں نہیں آئي ہے۔ عظیم سماجی تحریکیں دفعتا اور یکبارگی وجود میں نہیں آتیں لیکن ان کے نمودار ہونے کا عمل دفعتا اور یکبارگي انجام پاتا ہے۔ گوناگوں علل و اسباب، اطلاعات، بصیرت، خون جگر، کدورتیں، سب رفتہ رفتہ جمع ہوتا رہتا ہے اور اچانک کسی مناسب موقع پر یہ آتشفشاں پھٹ پڑتا ہے۔ جیسا کہ مصر میں ہوا۔
مصر کے روشن خیال مفکرین اور با خبر افراد سے رابطہ تھا۔ بعض کی آمد و رفت تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ کن حالات اور احساسات سے گزر رہے ہیں، مسائل کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ میں آج بھی مصری نوجوانوں اور عوام کے خیالات اور بیانوں کو دیکھتا ہوں۔ جو چیزیں نشر ہوتی ہیں اور مجھ تک پہنچتی ہیں ان کی بنا پر میں اتنا تو سمجھ سکتا ہوں کہ ان کی خصوصیت کیا ہے؟ اس تحریک کی بنیادی وجہ اس تحقیر و تذلیل سے عوام کے پیمانہ صبر کا لبریز ہو جانا ہے جو پٹھو فرمانرواؤں نے اس قوم پر مسلط کر رکھی تھی۔ جب آپ نے امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، جب امریکہ کو سپر پاور کے طور پر قبول کر لیا تو یہ چیزیں اس کا لازمی نتیجہ ہیں۔ قوم کو چاہئے کہ تسلط پسند طاقتوں کی غنڈہ گردی کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو جائے تاکہ برے عواقب سے محفوظ رہے۔ حکومتیں کمزور تھیں، زبوں حالی میں مبتلا تھیں، کمزور قوت ارادی رکھتی تھیں یا خیانت پیشہ تھیں، کمزور قوت ارادی خیانت پر منتج ہوتی ہے لہذا دونوں میں خاص فرق نہیں ہے، اسی وجہ سے وہ بڑی طاقتوں کے سامنے جھک گئیں، توظاہر ہے کہ اس کے عواقب یہی ہوں گے۔ وہ (سامراج) چاہتا ہے کہ اس علاقے میں اسرائیل کے نام سے ایک جعلی حکومت کو طاقت حاصل ہو تو آپ اس کے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبور ہیں۔ آزاد قوم کا خاصہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جائزہ لیتی ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ کون سا راستہ درست ہے اور اس کی تشخیص اور اس کے ایمان سے میل کھاتا ہے؟ وہ اسی راستے پر چلتی ہے۔ وہی عمل انجام دیتی ہے۔ اگر خود مختاری اور آزادی نہ ہو تو ایسا نہیں ہو پاتا۔ انحصار سے قوم کو ذلت و رسوائي ملتی ہے۔ اسی چیز نے مصری نوجوانوں کے صبر و ضبط کے بند توڑ دئے اور اچانک ان کی تحریک نمودار ہو گئی۔
آج میں دیکھ رہا ہوں، ان کے عزم راسخ کا مشاہدہ کر رہا ہوں، ان کے جذبہ ایمانی کو محسوس کر رہا ہوں۔ مصر میں نوجوانوں کی موجودگی اور کارکردگی صاف نظر آ رہی ہے۔ آپ عزیز نوجوانوں کو اپنی قدر و منزلت کو سمجھنا چاہئے! آپ دنیا کے نوجوانوں کے لئے نمونہ عمل بن گئے ہیں۔ نوجوان نسل فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے، انقلاب آفرین ہوتی ہے، گاڑی کو آگے لے جانے والے انجن کا کام کرتی ہے، بند گرہوں کو کھول دینے والی ہوتی ہے۔ اسے کہتے ہیں نوجوانی کی طاقت۔ آج مصر میں بھی نوجوان بڑے اہم کام انجام دے رہے ہیں، اسی طرح وہ لوگ بھی (مصروف کار ہیں) جنہوں نے ان طاغوتوں کی حکمرانی اور طاغوت کے اقتدار کے سخت ترین دور کو اپنے پورے وجود سے محسوس کیا ہے۔ یہ تحریک مسجدوں سے شروع ہوئی ہے، یہ نماز جمعہ سے شروع ہونے والی تحریک ہے۔ یہ اللہ کے نام سے شروع ہونے والی تحریک ہے۔ اس چیز کی بڑی خاص اہمیت ہے۔ یہ تحریک عوامی تحریک ہے۔
میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جب عوام میدان میں وارد ہو جاتے ہیں تو بڑی طاقتوں کے تمام معاندانہ حربے کند ہو جاتے ہیں۔ امریکہ کسی بھی ملک پر اسی وقت تک دھونس جما سکتا ہے جب تک عوام اس کے مقابلے پر نہ آ جائيں۔ حکومتوں سے غنڈہ گردی کی جا سکتی ہے۔ جن حکومتوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے وہ امریکہ کی مرضی سے آتی اور جاتی ہیں۔ کبھی امریکہ کسی شخص کو منصوب کر دیتا ہے، اس کی حمایت کرتا ہے اور کبھی اپنی حمایت روک دیتا ہے تو اسے جانا پڑتا ہے۔ جب وہ جاتا ہے تو پھر امریکہ اسے گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ جیسا کہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ اس (حسنی مبارک) سے پہلے (شاہ ایران) محمد رضا کے ساتھ اور چند دن پہلے تیونس کے بن علی کے ساتھ یہی ہوا۔ جب حکومت کو عوامی مینڈیٹ حاصل نہ ہو تو یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ عوام جب میدان میں آ جائیں، جب وہ حقیقت سے آگاہ ہو جائیں، جب وہ حقیقت حال کو محسوس کر لیں، جب وہ فیصلہ کر لیں تو پھر بڑی طاقتوں کے بس میں کچھ بھی نہیں رہتا۔ اس کی ایک مثال آج مصر میں نظروں کے سامنے ہے۔ جب تک عوام میدان میں موجود ہیں کوئی گڑبڑ نہیں کر سکتا۔
اس وقت مصر میں امریکی اس کوشش میں ہیں کہ عوام کو بیوقوف بنا دیں، انہیں ورغلا دیں، بالکل ابتدائی اور جزوی چیزوں سے مطمئن کر دیں، انہیں ان کے گھروں کی جانب واپس بھیج دیں تاکہ وہ پھر میدان میں نہ آ سکیں۔ لیکن اس حربے کا کارگر ہونا بعید ہے۔ جب عوام بیدار ہو چکے ہیں، جب وہ اپنی طاقت سے واقف ہو چکے ہیں، جب انہیں اپنی قوت کے اثرات کا علم ہو چکا ہے تو (اس حربے کا) کوئي نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ عوام میدان میں حاضر رہیں گے اور اگر ان کے لئے اعلی اہداف کا تعین کر دیا جائے تو اسے حاصل بھی کر لیں گے۔
ہم اپنی عظیم الشان قوم کی استقامت و پائيداری کا خوشگوار نتیجہ دیکھ رہے ہیں جو عبارت ہے اسلامی مملکت ایران کے پرعزم چہرے سے، عز و وقار سے، علاقے اور حتی علاقائی حدود کے باہر گوناگوں امور میں ایران کے اثر و رسوخ سے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام اور ایمان سے ہمیں عزت ملی، ہمیں ترقی حاصل ہوئی، ہم اس کی بدولت اپنے اہداف کے قریب تر پہنچے۔ ہم اپنی قوت ایمانی کو جتنا زیادہ بڑھائيں گے، ہم معاشرے میں اور اپنے درمیان اسلام اور اسلامی اقدار پر جس حد تک عمل کریں گے ہمارے وقار کو اسی انداز سے چار چاند لگیں گے، ہمیں اتنی ہی زیادہ ترقی ملے گی اور ہماری مادی و روحانی زندگی میں اتنی ہی بہتری آئے گی۔ اس کا دارومدار نوجوانوں کی بلند ہمتی اور عوام کے حوصلے پر ہے، لوگوں کے ایمان و ایقان پر ہے۔ خوش قسمتی سے یہ چیزیں آج نمایاں طور پر دکھائي بھی دے رہی ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں، مختلف قومیتوں میں اور مختلف شعبوں میں مرد و زن اور پیر و جواں سب کے اندر یہ عزم و حوصلہ موجود ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی موجود رہے گا۔ انشاء اللہ آپ نوجوان اپنی آنکھوں سے وہ دور دیکھیں گے جب ایران، اسلام کی برکت سے، قرآن کی برکت سے عظمت و بلندی کے نقطہ کمال پر پہنچ چکا ہوگا۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ تمام اہل آذربائيجان پر اور اہل تبریز پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے! دعا کرتا ہوں کہ خداوند عالم عزت و شرف کے اس راستے پر پوری استقامت و سرعت سے گامزن رہنے میں ملت ایران کی مدد کرے اور ہمارے عزیز شہیدوں پر اپنی رحمت و مغفرت کا سایہ کرے۔

و السّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) صف: 8