قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں آپ تمام بہنوں اور بھائیوں کو جو ملک کے مختلف علاقوں سے تشریف لائے ہیں، خاص طور پر شہیدوں کے اہل خاندان اور عزیز جنگي معذوروں اور ان کے گھرو والوں اور ان تمام لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جنہوں نے امت اسلامیہ کے امتحان الہی میں جسمانی اور اپنے کنبے کے لحاظ سے مصیبتیں برداشت کیں۔ خداوند عالم آپ سب کو توفیق عنایت فرمائے اور ہم سب کو اپنی عبودیت کے راستے پر چلنے کا شرف عطا کرے۔
وہ بنیادی مسئلہ جو اسلامی انقلاب میں اعلا اور برتر ہدف سمجھا جاتا رہا ہے اور اب بھی سمجھا جاتا ہے، انسان کی پاکیزگی ہے۔ سب کچھ انسان کی پاکیزگی کی تمہید ہے۔ معاشرے میں عدل وانصاف اور انسانی معاشروں میں اسلامی حکومت بھی جو ایک بڑا ہدف شمار ہوتی ہے لیکن خود وہ بھی انسان کے رشد و ترقی کی تمہید ہے جو انسان کی پاکیزگی میں پوشیدہ ہے۔ اس عالم کی زندگی میں بھی اگر انسان سعادت تک پہنچنا چاہے تو طہارت اور پاکیزگی کا محتاج ہے اور دینی اور آخرت کے درجات بھی پاکیزگی پر منحصر ہیں۔ یعنی اعلا مقصد تک انسان کی رسائی پاکیزگی سے وابستہ ہے۔ قد افلح من تزکی۔ و ذکرسم ربہ فصلّی (1) جو اپنے نفس کو پاکیزہ کرے اس نے فلاح اور نجات حاصل کر لی۔
آپ دعوت اسلام کے تمام لمحات میں رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی روش کو ملاحظہ فرمائیں۔ ابتدائی دنوں سے جب آپ بالکل تنہا تھے اور اس تنہائی کے باوجود جاہلیت و کفر کی پوری دنیا کے خلاف جدوجہد کرتے رہے، اسلامی اقتدار کے اوج تک، جب پیغمبر نے مکہ اور طائف کو فتح کرلیا تھااور حجاز مکمل طور پرآپ کے اختیار میں آگیا تھا، ہر موقع پر پیغمبر اکرم نے لوگوں کو نفس کی پاکیزگی اور طہارت کی دعوت دی ہے۔
بھائیواور بہنو' ہمارے وجود میں تمام برائیوں کا سرچشمہ بھی ہے جو وہی ہمارا نفس ہے اور تمام بتوں سے زیادہ خطرناک ہمارے نفس اور خود پسندی کا بت ہے، اور ہمارے وجود میں ہی تمام اچھائیوں، نیکیوں اور کمالات کا سرچشمہ بھی موجود ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو نفس امارہ کے چنگل اور نفسانی ہواوہوس کی برائیوں سے بچالے گئے تو اچھائیوں کا سرچشمہ ہمارے سامنے ہوگا۔
اگر دنیا ظلم و جور سے پر ہے، اگر سامراجی طاقتیں دنیا کے لوگوں کے ساتھ زور زبردستی کرتی ہیں، ان پر ظلم کرتی ہیں، اگر بہت سی اقوام اپنی خاموشی سے اپنے لئے ذلت مہیا کرتی ہیں، اگر بہت سی طاقتیں اور حکومتیں اپنے عوام پر ظلم کرتی ہیں، اگر دنیا میں غربت اور اخلاقیات سے عاری جہالت ہے، اگر خانماں سوز جنگیں ہیں، اگر کیمیائی بم ہیں، اگر ظلم، جارحیت، جھوٹ اور فریب ہے تو یہ سب کا سب انسان کے پاکیزہ نہ ہونے کی دین ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ انسانوں نے اپنا تزکیہ نہیں کیا ہے اور اپنے آپ کو سدھارا نہیں ہے۔ انقلاب اس لئے آیا ہے کہ ہمارے نوجوانوں اور ہمارے عوام کو چاہے وہ جس طبقے سے بھی ہوں، اس بات کا موقع ملے کہ خود کو سدھاریں، برائیوں سے خود کو بچائیں اور دنیا و آخرت کی دوزخوں کی آگ سے خود کو محفوظ بنالیں۔
جو معاشرہ پاک ہو، جس کے لوگ اپنی اصلاح کرچکے ہوں، خود کو سدھار چکے ہوں، اپنے آپ سے اخلاقی برائیاں دور کر چکے ہوں، دو رنگی، جھوٹ، فریب، حرص و طمع،بخل اور دوسری انسانی برائیوں سے خود کو پاک کرچکے ہوں تو یہ معاشرہ آخرت میں بھی کامیاب رہے گا اور اس سے پہلے دنیاوی سعادت بھی حاصل کرے گا۔
اگر انسان کی پریشانیوں کی جڑ کا پتہ لگائیں تو انسان کے نفس کی آلودگی تک پہنچیں گے۔ جہاں بھی کمزوری اور بد نصیبی ہے، اس کی وجہ یا اختلافات ہیں،یا دنیا وی حرص و طمع ہے،یا انسانوں کی ایک دوسرے سے بد دلی ہے، یا ڈر، کمزوری اور موت کا خوف ہے یاہواوہوس ہے۔ انسانی معاشروں کی بدنصیبی کی اصل وجوہات یہ ہیں۔ انہیں کیسے برطرف کیا جاسکتا ہے؟ اخلاقی تزکیے اور پاکیزگی کے ذریعے۔
البتہ طاغوتی حکومت میں اخلاقی تزکیہ بہت مشکل ہے۔ بہت کم ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے طاغوتوں کے دور حکومت میں اخلاقی اور معنوی رشد حاصل کیا ہو تاکہ معنوی اور روحانی درجات حاصل کرسکیں اور امام امت ( امام خمینی) جیسی عظیم ہستیاں وجود میں آئیں۔ لیکن اسلام کی حاکمیت کے دور میں یہ کام آسان ہے۔
جب تک رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی اسلامی رسالت نہیں تھی، ابوذر، مقداد اور عمار جیسی ہستیاں جہالت اور گمراہی میں تھیں۔ دوسرے لوگوں کی طرح حیوانات اور وحشیوں کی زندگی گزار رہی تھیں۔ لیکن خورشید اسلام کے طلوع نے عمار کو اتنی بڑی شخصیت بنادیا کہ اپنی پوری عمر، تقریبا نوے سال، ہمیشہ اسلام کی خدمت کرتے رہے اور مستقل خدا کے لئے کام کرتے رہے اور زحمتیں اٹھاتے رہے۔ اسلام نے مقداداور ابوذر اور دیگر عظیم انسانوں کو بھی مثالی شخصیت بنادیا۔ یہ کون تھے؟ یہ بدو، ابتدائی اور جہالت میں گرفتار انسان تھے۔
ہمارے نوجوان رشد کرسکتے ہیں۔ ہماری عورتیں اور مرد بڑے انسان ہوسکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اس حد تک رشد کرسکتا ہے کہ ديگر اقوام کو بھی اپنی پیروی کی طرف مائل کرلے۔ یعنی مادی اور معنوی دونوں لحاظ سے ترقی کرسکتا ہے۔ مادی ترقی معنوی ترقی کے بغیر بے فائدہ ہے۔
آج دنیا کے بڑے ممالک نے مادی ترقی کی ہے۔ زیادہ پیداوار، سائنسی ترقی، پیچیدہ ٹکنالوجی، مصنوعات کی فراوانی، ہر روز دنیا میں انسان کو ایک سائنسی پیشرفت دکھاتے ہیں۔ لیکن کیا یہ خوش نصیب ہیں؟ کیا ان کی زندگی انسانی زندگی ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ نہ خود انسانی خوش نصیبی کا احساس کرتے ہیں اور نہ ہی اقوام کو خوش نصیبی کا ادراک کرنے دیتے ہیں۔ خود ان کے اندر، اضطراب، پریشانی، قتل، جرائم، خیانتیں، افسردگی، مادی اور معنوی زندگی سے روگردانی، معنویت اور فضیلت سے دوری، خاندانی شیرازے کا انتشار اور اولاد اور والدین کے رشتوں کی نابودی پائی جاتی ہے۔ یہ ان کی مشکلات ہیں۔ دنیا کو کیا دیا ہے یہ بھی آپ دیکھ رہے ہیں۔ دیگر اقوام کو جنگ، غربت، جہالت، اختلاف، بد نصیبی اور تیرہ بختی دی ہے۔ ان کے پاس مادی ترقی ہے لیکن معنوی ترقی نہیں ہے۔ جب مادی ترقی معنوی رشد کے بغیر ہو تو نتیجہ یہی ہوتا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ مادی ترقی کے ساتھ ہی معنوی پیشرفت بھی ہونی چاہئے۔
اس اجتماع میں موجود یونیورسٹی طلبا اور ملک کے تمام یونیورسٹی طلبا اس بات پر توجہ رکھیں کہ آپ کا ایک عظیم ترین فریضہ اخلاقی خود سازی ہے۔ اپنے اخلاق کی تکمیل کیجئے۔ آپ نوجوانوں کے پاس یہ موقع ہے۔ یہ دور آپ کا ہے۔ آپ بہت اچھے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ قرآنی حکومت اور اسلامی ثقافت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس لئے آپ کے پاس اچھا اور اعلا بننے کا موقع ہے۔ اس موقع کو غنیمت سمجھیں۔ علم کو اخلاق کے ساتھ اور صنعتی سائنسی اور مادی ترقی کو اخلاقی رشد کے ساتھ ہونا چاہئے اور خدا پر توجہ اخلاقی رشد کا اصلی سرچشمہ ہے۔
میں ایک جملہ آرٹس کے طلبا سے عرض کروں گا۔ آرٹ ان مفاہیم اور ان مسائل کو بیان کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ افسوس کہ ہمارے اسلام، ایران اور عزت و شرف کے دشمنوں نے آرٹ سے بھی غلط کام لیا اور اب بھی غلط کام لے رہے ہیں۔ شاعری، مصوری، داستان نویسی، ڈرامے اور آرٹ کی دیگر اقسام سے فضیلتوں کو کچلنے، حقائق اور معنوی و اسلامی فضائل کو مٹانے اور مادہ پرستی اور مادی عیش وعشرت کی ترویج کے وسیلے کے طورپر کام لے رہے ہیں۔ اس کی تلافی کس کو کرنی ہے؟ آپ نوجوانوں کو اگر انقلاب اور اسلامی معاشرہ آرٹ اور فن میں ممتاز اور قابل فخر مقام و مرتبہ نہ رکھے تو اپنے قلبی احساسات لوگوں تک نہیں پہنچاسکے گا اور نہ ہی ان سے رابطہ برقرار کرسکے گا۔
فرض کریں اگر کسی معاشرے میں بولنے کا امکان، تقریر کرنے اور لوگوں سے گفتگو کرنے کا امکان صاحبان فضیلت اور مفکرین سے سلب کرلیں اور انہیں بولنے کی اجازت نہ دیں تو کتنا بڑا نقصان ہوگا۔ یہی نقصان بلکہ شاید ایک لحاظ سے اس سے بڑا اس معاشرے کو ہوگا جو آرٹ کے وسیلے سے محروم ہو۔ اس لئے کہ آرٹ خاص طور سے آئندہ کی نسلوں کے لئے اور موجودہ نسل کے لئے بھی،ان مفاہیم کو بیان کرتا ہے جنہیں عام اور سادہ طرز بیان سے پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔
آرٹ کی اہمیت کو سمجھیں اور اس سے اسلامی ہدف کے کام لیں۔ آرٹ کو اسلامی معیاروں کے ساتھ سیکھیں،سکھائیں اور بروئے کار لائیں تاکہ لوگوں کے سامنے اسلامی اور خدائی اقدار و مفاہیم پیش کرسکیں۔ آج دنیا کو اسلامی حقائ‍ق کی ضرورت ہے۔ آج دنیا کی اقوام، اس آفتاب درخشاں، ‍قرآن اور معرفت قرآن کے مفاہیم کی محتاج ہے۔
خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہم سب کو توفیق عنایت کرے تاکہ ہم اسلامی حقائق اور تعلیمات کو اچھی طرح سمجھیں اور انہیں صحیح شکل میں پیش کرسکیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے عمل کو ان تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1-اعلی ؛ 14 و 151-