قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی سیّدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔ قال اللہ الحکیم فی کتابہ؛ یا ایھا الذین آمنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم و اعلموا ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ (1)

میں صوبہ بوشہر اور شہر بوشہر کے عزیز، دلاور اور بہادر عوام کو سلام عرض کرتا ہوں اورآپ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتا ہوں۔ ایرانی قوم اور آپ عزیز عوام کے ماضی اور تاریخ میں جو درج ہوا ہے وہ آپ عظیم عوام کے تدین، بہادری نجابت اور اخلاص کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل اس شہر اور اس صوبے کے ہمارے مسلمان عوام کے مختلف طبقات نے اپنی مجاہدت کی صفوں میں نمایاں اور شایان شان کارنامے انجام دیئے۔ ظالم شاہی حکومت کے خلاف جدوجہد میں آپ کے نوجوانوں، آپ کے مردوں اور خواتین نے قابل تعریف مجاہدت کی ہے۔ آپ کے بعض بڑے علماء جیسے شہید عاشوری ( 2) نے اس راہ میں جام شہادت نوش کیا۔ ظالم شاہی حکومت کے خلاف مجاہدت کے دور سے پہلے بھی بیرونی دشمنوں، انگریزوں کی یلغار کے مقابلے میں استقامت ان لوگوں کی ورد زبان رہی ہے جوان واقعات سے واقف ہیں۔ اس علاقے اور بوشہر پر انگریزوں کے حملے اور قبضے کے دوران رئیس علی دلواری (3) کی دلاوری بھی ملت ایران کے لئے ایک زندہ تاریخی یادگار ہے اور مرحوم آیت اللہ سید عبدالحسین لاری کی مجاہدتوں کی آپ کی جانب سے حمایت بھی ماضی کے نادر واقعات میں ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی جو کچھ ہمیں بوشہر اور اس صوبے کے تمام شہروں کے بارے میں یاد ہے، وہ دلاوری، استقامت اور خطرے کے میدانوں میں موجودگی اور عوامی رضاکار فورس بسیج اور غازیوں کی صفوں میں شرکت کی، سمندری جنگ میں بھی اور زمینی جنگ میں بھی سرگرم شرکت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ آپ کے تدین اور اسلام، قرآن اور مقدس اسلامی تعلیمات سے آپ کی وابستگی کی برکات میں سے ہے۔
خوشی کی بات ہے کہ خداوند عالم نے مجھے ایک بار پھر یہ موقع دیا کہ آپ کے درمیان آؤں، آپ کو نزدیک سے دیکھوں اور آپ کے شہر، آپ کی سرزمین اور آپ کے افتخارات کی یادگاروں اور نشانیوں کی زیارت کروں اور خدا وند عالم سے دعا کروں کہ آپ مومن اور دلاور عوام بالخصوص اس صوبے کے پاک اور نورانی نوجوانوں کو اسلام کے مقدس اہداف کی راہ میں ہمیشہ ثابت قدم رکھے۔
میں نے آج اپنی مختصر گزارشات کے لئے قرآن کریم کی اس آیۂ شریفہ کو عنوان قرار دیا ہے کہ یا ایھا الذین آمنوا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم و اعلموا ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ (4) ہماری زندگی پر قرآن کی حکمرانی اور برکات قرآن موجزن ہونی چاہئے۔ قرآن کے سائے میں ہماری معرفت، بصیرت، دلاوری اور اقدام بامعنی اور صحیح اہداف کی جہت میں ہوتے ہیں۔ قرآن مومنین سے کہتا ہے کہ اے ایمان والو' جب خدا اور پیغمبر تمہیں حقیقی زندگی کی دعوت دیں تو ان کی آواز پر لبیک کہو۔ یہ کیسی زندگی ہے جس کی خدا اور پیغمبر ہمیں دعوت دیتے ہیں؟ ایک جملے میں یہ زندگی انسان کے شایان شان ہے۔
انسان کو اپنی زندگی میں اعلا اور قابل قدر اہداف کی جانب حرکت کے لئے رہنما کی ضرورت ہے۔ جو انسان کا کوئی رہنما نہ ہو اور وہ رہبران الہی سے منہ موڑ لے، وہ کبھی انسان کے شایان شان حیات الہی تک نہیں پہنچ سکتا۔ جیسے وہ اقوام ہیں جنہوں نے احکام الہی سے منہ موڑا اور دنیا کی بڑی طاقتوں کی تسلط پسندی، ظلم وستم میں گرفتار ہوئیں۔ تفرقے اور برادرکشی کا شکار ہوئیں، ذہنی اور نفسیاتی پریشانیوں میں گرفتار ہوئیں اور زندگی کی روز افزوں مشکلات سے دوچار ہوئیں۔ ممکن ہے کہ اس طرح کے لوگوں کے لئے آب و دانہ فراہم ہو۔ لیکن ایک انسان کے شایان شان زندگی صرف کھانا اور پانی نہیں ہے۔ انسان کو ہدف کی ضرورت ہے، انسان کو عشق اور محبت کی ضرورت ہے، انسان اعلا اقدار چاہتا ہے، انسان آزادی اور عزت چاہتا ہے۔ کسی قوم کا پیٹ بھریں لیکن اس کا اختیار اور عزت اس سے سلب کرلیں اور اس کو اپنے فرمانبردار بنالیں تو اس کو ذلیل کیا۔ یہ قوم آرام اور آسائش کا احساس کیسے کرسکتی ہے؟ یہ وہی حالت ہے جو بادشاہوں کے ظالمانہ تسلط میں صدیوں ہماری قوم پر مسلط رہی۔ یہی آپ کا شہر بوشہر، خائن قاجاری حکام اور بادشاہ انگریزوں کی اطاعت سے جیسے ہی معمولی سا بھی انکار کرتےتھے تو یہاں انگریزوں کے فوجی اتر جاتے تھے اور اس علاقے پر قبضہ کرلیتے تھے۔ انگریز بارہا بوشہر آئے اور اس پر قبضہ کیا یا قبضے کی دھمکی دی۔
کوئی قوم ان لوگوں کی حکومت میں آرام سے کیسے زندگی گزار سکتی ہے جو خود دشمنان خدا اور غیروں کے تابع دار ہوں؟ وسیع، سرسبزو شاداب اور استعدادوں سے مالا مال ملک ایران، ان تمام قدرتی ذخائر، ان تمام استعدادوں، اتنی وسیع زمین، قابل کنٹرول پانی کے ذخائر اور زیر زمین قدرتی خزانوں کے ہوتے ہوئے قاجاری اور پہلوی بادشاہوں کے شرمناک دور میں غربت، تہیدستی اور تباہی کا شکار کیسے رہا کہ قوم نے کبھی بھی خوشی اور آسائش نہیں دیکھی ؟ یہی آپ کا صوبہ بوشہر زراعت قدرتی ذخائر اورافرادی قوت کے لحاظ سے ہمارے ملک کے بہت بااستعداد علاقوں میں سے ہے۔ لیکن آپ شاہد ہیں اور اپنے صوبےاور اپنے شہر کی زندگی کا مشاہدہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ پہلوی حکومت کے دور میں اس سے پہلے قاجاری دور میں اس صوبے پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ ان ذخائر سے استفادہ نہ کیا گیا۔ ان زمینوں پر زراعت نہ کی گئی۔ یہاں کے مومن اور خدمت گزار عوام کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ ان کے اختیار میں نہیں دی گئی۔ کسی بھی انسانی معاشرے کی زندگی ان عناصر کی حکومت میں جنہیں خدا سے کوئی سروکار نہ ہو اور عوام کی بھی کوئی فکر نہ ہو، اس سے بہتر نہیں ہوگی۔
انقلاب کے بعد آج تک کی اس مختصر سی مدت، یعنی تیرہ برسوں میں، اس کے باوجود کہ آٹھ سال جنگ تھی، یہ تمام مشکلات تھیں، ہماری اقتصادی ناکہ بندی تھی، ان چند برسوں میں اس صوبے میں جو کام ہوا ہے وہ پہلوی حکومت کے پچاس برسوں میں نہیں ہوا تھا، جبکہ آج جوکام انجام پایا ہے وہ اس سے بہت کم ہے جو انجام پانا چاہئے۔
اس صوبے میں بہت اچھی افرادی قوت، بااستعداد نوجوان، ادب، تہذیب اور آرٹ اور فن کا ماحول، علماء، قلمکار، اور بڑے دانشور ہمیشہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ ان تمام خدا داد صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اور کرنا چاہئے۔ حکام کے پاس اس سلسلے میں کچھ منصوبے ہیں۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ حکام فکر میں ہیں، عوام کے دلسوز ہیں، اپنی پوری توانائی، استعداد اور پوری زندگی عوام کی حالت بہتر بنانے کے لئے وقف کررکھی ہے۔ جو کچھ ہوا ہے اگر اس صوبے کے عوام اس سے واقف ہوں تو ان کا فیصلہ بہت واضح ہوگا۔ چنانچہ الحمد للہ آج بھی ان کا فیصلہ حکام کے بارے میں اچھا ہے۔
بھائیو اور بہنو' آج دنیا ان طاقتوں کے دباؤ کے نیچے فریاد کررہی ہے جو خدا کی دشمن ہیں۔ آج اقوام پر جس چیز کا دباؤ سب سے زیادہ ہے وہ خدا کی دشمن حکومتوں کا تسلط ہے جو انسان کو اس کی فطرت، سرشت اور دلی خواہش سے دور رکھتی ہیں۔ اس بڑی سپر طاقت، سابق سوویت یونین کا زوال ایک بڑی عبرت اور عظیم درس ہے۔ طویل برسوں تک عوام کو طاقت کے ذریعے اپنے دباؤ میں رکھا۔ سمجھ رہے تھے کہ دین کو عوام کے دلوں سے نکال دیا ہے۔ سمجھ رہے تھے کہ دین کو عوام کی زندگی سے باہر کردیا ہے۔ دباؤ جتنا زیادہ ہوگا، دھماکہ اتنی ہی جلدی ہوگا۔ آج جب لوگوں کو کمیونسٹ پارٹی کی خفیہ کمندوں اور حصار سے نجات مل گئ ہے تو آپ دیکھئے کہ سابق سوویت یونین کی اقوام کیا کررہی ہیں۔ ان چیزوں کا رخ کررہی ہیں جو ان کی فطرت کے مطابق ہیں۔ اگر ان کی صحیح ہدایت ہو اور انہیں ہمدرد اور مخلص رہنما اور حکام ملیں تو ان کی حالت بہت اچھی ہوجائے گی اور اگر رہنما نہ ہو تو انسان ایک گمراہی سے نکل کے دوسری گمراہی میں چلا جائے گا۔
مادی طاقتیں اپنے لئے کسی حد کی قائل نہیں ہیں۔ اقوام کی زندگی مادی طاقتوں کے چنگل میں کچلی جارہی ہے۔ آج دینی اعتقاد کے خلاء میں اقوام کا جھکاؤ اسلام کی طرف ہے۔ اس کا ایک نمونہ سوڈان میں قوم کے اسلامی مظاہرے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے ان کی محبت ہے (5) جو اسلام کی وجہ سے ہے، اور دوسرا نمونہ الجزائر (6) کے حالیہ واقعات ہیں کہ اس ملک کی مسلمان قوم نے انتخابات میں، واضح اکثریت سے اسلام کا انتخاب کیا ہے۔ یہ دنیا کا بہت عظیم واقعہ ہے۔
اسلام پھیل رہا ہے اور فروغ پارہا ہے۔ لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں نفوذ کر رہا ہے۔ اسلام پیش پیش ہے۔ آپ نے ایرانی قوم نے دعوت اسلامی کی حقانیت کو ثابت کردیا ہے۔ ایرانی قوم کی استقامت نے صدر اسلام کی یاد تازہ کردی ہے اور یہ اقوام کے لئے ایک درس ، مثال اور نمونہ عمل ہے۔ اس کی قدر کو سمجھیں۔
ہمیں اپنے پورے وجود سے اسلام کی پاسداری کرنی چاہئے۔ ایرانی قوم کو اسلام کی پاسداری کرنی ہے۔ جو چیز ہماری قوم اور تمام اقوام کی دنیا اور آخرت دونوں سنوار سکتی ہے وہ اسلام کی پابندی ہے۔ اسلام پر عمل کرکے دنیا بھی بنائی جاسکتی ہے۔
اسلام انسانو ں کو عزت دیتا ہے۔ جب کوئی انسان اپنے وجود میں عزت کا احساس کرے تو وہ دشمنوں، غیروں اور تسلط پسند طاقتوں کے دباؤ کو قبول نہیں کرتا۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ عالمی طاقتیں اور آج، سب سے بڑھ کے امریکا اقوام اور ملکوں کی زمام اور اختیار اپنے ہاتھ میں لینے میں کامیاب ہوا ہے، تو یہ اس لئے ہے کہ اس نے بعض لوگوں کے نفس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔ پہلے انہوں نے اسلام، اپنی تاریخ اور ثقافت سے اقوام کو دور کیا اور پھر ان کی زمام امور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ یہ وہ روش ہے جس پر انہوں نے پوری دنیا میں عمل کیا ہے لیکن اگر کوئی قوم اپنے قلبی ایمان پر باقی رہے اور اس کا احترام کرے تو در حقیقت اس نے اپنا، اپنی رائے، اپنی نظر اور اپنے فیصلے کا احترام کیا ہے۔
میں بہت خوش ہوں کہ الحمدللہ اقوام میں یہ احساس بڑھ رہا ہے۔ ہمارے لئے خوشی کی بات ہے کہ سنتے ہیں کہ مختلف اقوام جیسے سوڈان اور الجزائر کے عوام اپنے اسلامی ایمان کے ساتھ اپنی حق بات کہہ رہے ہیں اور خود فیصلے کررہے ہیں۔ کیا ماضی میں اقوام کو اجازت دیتے تھے کہ وہ اسلام اور اسلامی حکومت کے بارے میں اتنی صراحت کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کریں۔
بڑی طاقتیں اسلام کی دشمن ہیں۔ اس لئے کہ جانتی ہیں کہ یہ ان کی تسلط پسندیوں کے مقابلے پر اٹھے گا۔ جہاں اسلام کی حکمرانی ہو وہاں امریکا اور دیگر بدمعاش طاقتوں کی حکومت نہیں ہوسکتی۔ اس کو وہ جانتے ہیں اس لئے اسلام کی مخالفت کرتے ہیں۔ ابھی سے الجزائر کے انتخابات (7) کے خلاف پروپیگنڈے شروع ہوگئے ہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے اپنے لئے اسلام ، اسلامی نظام اور اسلامی حکومت کا انتخاب کیا ہے۔ الجزائر کے عوام نے انتخابات میں حصہ لیا۔ اپنے ووٹوں کا استعمال کیا اور صراحت کے ساتھ کہا کہ وہ اسلامی حکومت چاہتے ہیں۔ اس سے زیادہ شفاف ڈیموکریسی نہیں ہوسکتی اور دنیا میں کہیں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے سیاسی حلقوں اور صیہونزم سے وابستہ ذرائع ابلاغ عامہ کو شرم نہیں آتی اور وہ کہتے ہیں کہ الجزائر میں ڈیموکریسی پامال ہورہی ہے۔ تو ڈیموکریسی کے معنی کیا ہیں؟ کیا ڈیموکریسی، عوام کے ووٹوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہے ؟
الجزائر کی قوم کو جان لینا چاہئے کہ جب اس نے اسلام کو قبول کیا اور دشمنان اسلام کو مسترد کیا ہے تو اسے ان طاقتوں کے الزامات اور بہتانوں کا منتظر رہنا چاہئے اور ان الزمات اور تہمتوں سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ جس طرح کہ ایرانی قوم نے برسوں الزامات اور بہتانوں کو برداشت کیا اور ان کی پرواہ نہیں کی۔
اس علاقے میں، مشرق وسطی میں حتی دنیا کے بہت کم علاقوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح ووٹ دینے کی آزادی اور آزاد انتخابات ہوں گے۔ یہ ملک اور یہ نظام وہی ملک اور نظام ہے کہ ابھی اس کے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار ہوئے دو مہینے سے زیادہ نہیں ہوئے تھے کہ عوام پولنگ اسٹیشنوں پر گئے اور اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دیا اور حیرت انگیز اکثریت سے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ انقلاب کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ عوام نے دو اہم انتخابات میں حصہ لیا۔ ملک کے صدر اور ماہرین کی کونسل کے اراکین عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوئے۔ مجلس شورائے اسلامی، ماہرین کی کونسل، صدر مملکت کے انتخاب کے لئے ہونے والے انتخابات میں عوام نے ہمیشہ اپنے ووٹوں کا استعمال کیا اور ملک کی تقدیر کے فیصلے میں براہ راست شریک رہے۔ اس سے اچھی اور اس سے بہتر ڈیموکریسی اور عوام کے ووٹوں کا احترام دنیا میں کہاں ہے؟
ملک کے مختلف سیاسی میدانوں میں، جلوسوں میں، دشمنوں سے نفرت کے اعلان میں، ملک کے حکام کی پشت پناہی میں، اپنے عظیم امام ( رضوان اللہ تعالی علیہ) کی اطاعت میں، مختلف معاملات میں، تمام طبقات کے لوگ اور عوام میدان میں موجود رہے اور ہمشیہ اپنی بات اور اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اسی کے مطابق عمل ہوا ہے۔ اس ملک کے سب سے بڑے تجربے یعنی مسلط کردہ جنگ میں یہی عظیم عوامی رضاکار تھے جو مسلط کردہ جنگ کے میدانوں میں اترے، اگلی صفوں میں جنگ کی، فداکاری کی اور محاذوں کی پشت پر، ماں، باپ، بوڑھے جوان، عورتوں اور مردوں، عوام کی ایک ایک فرد نے اس نظام کا دفاع کیا اور محاذوں پر دفاع میں مصروف سپاہیوں کی حمایت کی۔ یعنی ایک مکمل عوامی نظام ہے یہ۔ اس کے باوجود آپ دیکھیں کہ بارہ تیرہ سال ہوگئے دشمنوں سے جتنا ہوسکا اس نظام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا ہے۔ اس سےان کی دشمنی کا پتہ چلتا ہے۔ جو بھی اسلام کی راہ میں آگے بڑھے، اس کو دشمنان اسلام کی دشمنی اور عناد کا منتظر رہنا چاہئے۔
آج دشمنان اسلام بے حد وسائل سے لیس ہیں لیکن جو چیز سب پر فوقیت رکھتی ہے وہ خدا کا وعدہ ہے۔ خدا کا وعدہ کہتا ہے کہ دشمن کے مادی وسائل، پیسہ، اسلحہ اور اس کے پاس جو دانش ہے جس سے وہ مجرمانہ انداز میں کام لے رہا ہے، ان میں سے کوئی بھی چیز اس قوم کی پیش قدمی کو نہیں روک سکتی جس نے راہ خدامیں قدم رکھا ہے۔ جس طرح کہ آج تک اس کو نہیں روک سکی ہے۔
ہماری عزیز ایرانی قوم کو معلوم ہونا چاہئے اوروہ جانتی ہے کہ ان تیرہ برسوں میں بڑی طاقتوں کی خواہش اور کوششوں اور ایران سے دشمنی میں دشنموں کے درمیان بین الاقوامی تعاون کے باوجود ہم نے روز افزوں پیشرفت کی ہے، اپنے اسلامی اہداف سے نزدیک تر ہوئے ہیں اور خدا کی توفیق کے ساتھ پوری طاقت و توانائی کے ساتھ اس رہ پر آگے بڑھتے رہیں گے اور کوئی بھی چیز ایرانی قوم کو اہداف الہی کی جانب آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔
ہمیں راہ خدا میں آگے بڑھنے کے لئے خود کو ہمیشہ تیار رکھنا چاہئے۔ اس میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مردوں کا بھی فریضہ اور عورتوں کا بھی فریضہ ہے۔ مردوں کو بھی علم و دانش حاصل کرنا چاہئے اور عورتوں کو بھی علم و دانش حاصل کرنا چاہئے۔ مردوں کوبھی چاہئے کہ جہاں تک ہوسکے ملک کی تعمیر کی کوشش کریں اور عورتوں کو بھی ملک کی تعمیر میں بالخصوص نئی نسل کی تعمیر، اس کی اسلامی تربیت میں، جہاں تک ہوسکے کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ایرانی قوم کا یہ عظیم طبقہ یعنی عورتیں، مردوں کے شانہ بہ شانہ، اسلامی حدود میں رہتے ہوئے، علم و دانش حاصل کریں اور وہ کام سیکھیں جو مسلمانوں کے شایان شان ہے اوراس پر عمل کریں تو یقینا زیادہ کامیابی حاصل ہوگی۔
آج الحمد للہ ہماری خواتین نے مختلف میدانوں میں کافی پشرفت کی ہے۔ عورتوں اور لڑکیوں کو حصول علم سے نہیں روکنا چاہئے۔ حصول علم میں ان کی مدد کرنی چاہئے۔ معرفت اور بصیرت میں ان کی مدد کرنی چاہئے۔ عورتیں تمام مسائل میں مردوں کے شانہ بہ شانہ رہ سکتی ہیں۔ البتہ خدا نے جو حدود اور احکام معین کئے ہیں ان کی پابندی ہونی چاہئے۔
آپ عزیز نوجوانوں ، بالخصوص اس سرحدی اور خلیج فارس کے ساحلی علاقے کے نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ آج آپ کے کندھوں پر سنگین ذمہ داری ہے اور وہ خود سازی کی ذمہ داری ہے۔ علمی اور فکری خودسازی، جسمانی قوت کے لحاظ سے بھی خود سازی، اخلاقی خود سازی، معرفت اور دین پر عمل کے لحاظ سے خود سازی اور ملک کی تعمیر کے لئے تجربے کے حصول کے لحاظ سے خود سازی۔ یہ ملک آپ نوجوانوں کا ہے اور آپ نوجوانوں کو اس سنگین امانت کو اپنے سے پہلے کی نسل سے اپنے ذمے لینا ہے اور بعد کی نسل تک پہنچانا ہے۔ اس کے لئے علمی، اخلاقی، جسمانی اور تربیت کی صلاحیتوں کی ضرورت ہے اور سب کا بالخصوص نوجوانوں ک فریضہ ہے کہ یہ صلاحیتیں حاصل کریں۔
امید ہے کہ حضرت ولی عصر (ارواحنافداہ)کاقلب مقدس آپ سب سے راضی اور خوشنود ہوگا ان کی دعائیں آپ کے شامل حال ہوں گی اور آپ کا شمار ان کے اصحاب و انصارمیں ہوگا۔ میں دعا کے چند جملوں کے ساتھ آپ عزیزوں کو خدا کی حفاظت میں دوں گا۔
پالنے والے' ہمارے عوام پر اپنا فضل، رحمت اور برکات نازل فرما۔ پالنے والے' ہم سب کو ہر محاذ پر اسلام کا حقیقی سپاہی قرار دے۔ پالنے والے' ہم سب کو اس قوم اور اس ملک کی خدمت کی توفیق عنایت فرما۔ پالنے والے' اس بہت حسین اور پرشکوہ اتحاد و یک جہتی کو جو ہمارے عوام کے درمیان ہے، روز بروز محکم تر فرما۔ پالنے والے' ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور ہمارے شہیدوں کی مقدس ارواح کو ہم سے راضی اور خوشنود کر۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1و4- انفال ؛ 24
2- آپ بارہ سو تیرہ ہجری شمسی مطابق اٹھارہ سو چونتیس عیسوی میں ورموج میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا آغاز آبائی وطن میں ہی کیا لیکن پھر دینی علوم میں کافی دلچسپی کے سبب نجف اشرف گئے اور پھر حوزہ علمیہ قم میں آئے۔ وہ پہلوی حکومت کے خلاف اپنی مجاہدت میں بہت ہی دلیری اور شجاعت کے ساتھ اس استبداد کے خلاف بولتے تھے جو ملک پر حکمفرما تھا اور حقائق بیان کرتے تھے جس کی وجہ سے کئی بار ساواک ( پہلوی حکومت کی خفیہ سروس) کے ایجنٹوں نے انہیں گرفتار اور جیل میں بند کیا۔ تیرہ سو ستاون ہجری شمسی مطابق انیس سو اٹہتر عیسوی کی عید الفطر کے روز عوام کو نماز عید الفطر کے لئے شہر بوشہر سے آنے کی دعوت دی اور ایک طویل تقریر میں شاہ اور شریف امامی ( پہلوی حکومت کا اس وقت کا وزیر اعظم) کی حکومت پر سخت حملے کئے، عوام کو اس حکومت کے مقابلے میں ان کے فرائض کی یاد دہانی کرائی اور انہیں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ہدایات پر عمل کرنے کی دعوت دی۔ سرانجام تیرہ آبان تیرہ سو ستاون ہجری شمسی مطابق چار اکتوبر انیس سو اٹھہتر عیسوی کو شاہی حکومت کے کارندوں نے ان کے گھر پر حملہ کیا اور ایسی حالت میں کہ وہ وضو کررہے تھے، خودکار بندوق سے ان پر گولیاں برساکر، انہیں شہید کر دیا۔ اس عظیم عالم دین کو شہید کرنے کے بعد حکومت نے ان کے پیکر مطہر کو بوشہر میں سپرد خاک کرنے کی اجازت نہ دی اس لئے رات کی تاریکی میں، بوشہر سے چوبیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چفادک نامی گاؤں کی مسجد کے نزدیک جو خود ان کی قائم کردہ تھی، انہیں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے جو ان دنوں پیرس میں تھے، تعزیت کا پیغام ارسال کرکے ان کے اہل خاندان کو اس شہادت کی مبارکباد اور تعزیت پیش کی اور ان کے لئے خدا وند عالم سے صبر اور اجر کی دعا کی۔
3- وہ بارہ سو نناوے ہجری قمری میں دلوار نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انگریزوں کے بوشہر آنے اور استبدادصغیر سے پہلے تک بچپن اور نوجوانی کے سن میں اپنےوالد کے ساتھ زراعت و باغبانی میں مصروف رہے اور اس درمیان خلیج فارس کے عرب ملکوں کے سمندری سفرکرتے رہے۔ وہ بہت ہی اعلا فوجی صلاحیتوں اور ذہانت کے مالک تھے۔ ان کی فوجی صلاحیتوں میں دشمن پر شب خون مارنے کی کارروائی کی مہارت، خود اعتمادی کے ساتھ جنگ میں مناسب روشیں اختیار کرنے، جنگی آپریشن کی کمان اور جنگی امور میں ضروری پیش بندی کی صلاحیتوں کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ آئینی حکومت کی انقلابی تحریک کے دور میں وہ چوبیس سال کے جوان تھے۔ انہوں نے بوشہر پر قبضے کے دنوں میں، ایک رات انگریز فوجیوں پر حملہ کرکے اپنی دلیری کا اعلان کیا۔ انگریزوں نے جو پہلے ہی ان کو پہچان چکے تھے، سرتاپا مسلح دستے کے ساتھ دلوار گاؤں پر حملہ کیا اور بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری شروع کر دی۔ آیت اللہ سید عبداللہ بلادی بوشہری نے ایران اور وطن کی خودمختاری کے دفاع کے لئے جارحین کے خلاف جہاد کا حکم صادر کیا۔ یہ حکم سے نہ صرف یہ کہ رئیس علی دلواری اور تحریک کے دیگر کمانڈروں کی قلبی تقویت کا باعث ہوا بلکہ بہت سے سپاہیوں کو مجاہدت کے میدان میں لایا۔ رئیس علی نے ایک خط آیت اللہ شیخ محمد حسین برازجانی کو ارسال کیااور اس کا جواب دریافت کیا جس کے آیت اللہ سید عبدالحسین لاری کے فتوے کے ساتھ شائع ہونے سے ہمہ گیر جوش و جذبہ پھیل گیا اور علاقے کی صورتحال دگرگوں ہو گـئی۔ سرانجام وہ تیرہ سو تیرہ ہجری قمری میں انگریز فوجیوں کے خلاف جنگ کے دوران گولی لگنے سے شہید ہو گئے۔ ان کا پیکر خاکی دلوار کے اطراف میں واقع ایک امام زادےکے مقبرے میں چھے مہینے تک بطور امانت سپرد کئے جانے کے بعد نجف اشرف لے جایا گیا اور وادی السلام میں سپردخاک کیا گیا۔

4- سورۂ انفال، آیت 24
5- سابق صدر حجت الاسلام والمسلمین ہاشمی رفسنجانی کے سوڈان کے دورے کی جانب اشارہ ہے جو سنیگال میں اوآئی سی کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد سوڈان گئے جہاں عوام نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔
6- عبدالقادر حشانی کی عارضی قیادت میں الجزائرکے نجات اسلامی محاذ نے، اس ملک کے پہلے پارلیمانی انتخابات میں جو چھبیس دسمبر انیس سو اکیانوے کو منعقد ہوئے، تقریبا اسّی فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور الجزائر کے حکمراں قومی محاذ آزادی پر نمایاں سبقت حاصل کی۔ ( الجزائر کے نجات اسلامی محاذ کے رہنما یعنی شیخ عباس مدنی اور علی بلحاج ان دنوں ملک کی سلامتی کے خلاف سازش کے الزام میں جیل میں بند تھے) اس واضح برتری نے الجزائر کے مذہب مخالف حلقوں اور فرانس میں وحشت پیدا کر دی۔ گیارہ جنوری انیس سو بانوے کو پارلیمنٹ کی ایک سو ننانوے نشستوں کے لئے، پارلیمانی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے صرف پانچ دن قبل الجزائر کے صدر شازلی بن جدید نے استعفاد دے دیا اور الجزائر کے سیاسی حالات ہالۂ ابہام میں چلے گئے۔ شازلی بن جدید کے استعفے کے دوسرے دن الجزائر کی سپریم سیکورٹی کونسل نے دوسرے دور کے پارلیمانی انتخابات کو منسوخ کردیا، اسلامی نجات محاذ کے عارضی رہنما عبدالقادر حشانی کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد اس محاذ کے رہنماؤں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوگیا اور سرانجام نو فروری کو الجزائر کی اعلا حکومتی کونسل نے ایک سال کے لئے ملک میں ایمرجنسی لگادی اور اسلامی نجات محاذ کو تحلیل کر دیا۔
7- شہدائے ہفتم تیر کے اہل خاندان سے ملاقات میں آپ کے خطاب ( مورخہ 29-6-1991 ) کے حاشیہ نمبر ایک کو دیکھیں۔