تفصیلی خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نوجنوری انیس سو اٹھتر کو قم کے عوام کا خونیں قیام اسلامی تحریک کے خونریز میدانوں میں عوام کی موجودگی کا سرآغاز تھا۔ (نو جنوری کے) اس تاریخی دن کو دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور اس قیام میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے لئے خداوند عالم سے اجر جزیل اور ثواب دائم کی دعا کرتا ہوں۔
قم ہماری قوم اور دیگر اقوام کے لئے، تحریک کے دورکے ایک روشن اور درس آموز نقطہ اور علامت کی حیثیت سے باقی ہے اور انشاء اللہ اسلامی تحریک اور عظیم اسلامی انقلاب کے حساس ترین میدانوں میں دینی تعلیم کے عالیقدر اور اعلی مرتبت مراکز، عزیز نوجوانوں اور عزیز عوام کی محکم موجودگی سے ہمیشہ (اسی حیثیت میں) باقی رہے گا۔ ان مجاہدتوں کی یاد کبھی بھی فراموش نہیں ہوگی۔ یہ باتیں صرف اس لئے نہیں کہی جارہی ہیں کہ ہم عوام کے مخصوص طبقات اور کچھ لوگوں کی ان کی فداکاریوں کی وجہ سے تعریف کرناچاہتے ہیں، البتہ یہ بات اپنی جگہ پر ہے لیکن اہم اس مسئلے کا رمزیہ پہلو ہے۔اس تحریک کے آغازگر، قم کے مبارک عوام اور اس مبارک دن میں جو اشارے نہاں ہیں وہ اہم ہیں۔
تحریک کے آغاز میں بھی جب علم و تقوا کے خورشید فروزاں نے قم سے طلوع کیا اور ایران اور پھر پوری دنیا کو منور کردیا اور اس دن بھی جب انبیاء و اولیاء کے خلف صالح، رہبر بے بدیل، عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) قم کے عوام کی حمایت کے ساتھ کفر و استکبار کے مقابلے پر ڈٹ گئے اور امت اسلامیہ کے دل کی آواز اپنے گلوئے الہی سے بلند کی اور اس دن بھی جب ہمارے عظیم امام ( رضوان اللہ تعالی علیہ ) نے قم کو نور افشانی کا مرکز قرار دیا اور اپنے پیغام اور تعلیمات کو وہاں سے پوری دنیا میں بھیجا، انقلاب کی کامیابی کے دوران بھی، مسلط کردہ جنگ کے دوران بھی، انقلاب کے خطرناک سیاسی موڑوں پر بھی، اکثر حوادث میں، ہرجگہ یہ مومن اور درحقیقت حزب اللہی عوام، حوزہ علمیہ قم، علمائے کرام، مدرسین اور جوش و جذبے سے سرشار طلاب، علم و جہاد کے مرکز مدارس اور درس کے حلقے، انقلاب کی مدد کوآئے اور امام ( رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بازو بن گئے اور انقلاب کو خطرناک ترین گزرگاہوں سے نکالا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ تحریک، عوامی اور دینی ہے، عوام پر استوار ہے، دین کی ہدایت یافتہ ہے اور اہداف الہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور عوام کی بھلائی اور سعادت بھی اس میں ہے۔ قم، اس کے عوام اور اس کے حوزہ علمیہ کا ہماری تحریک میں یہ کردار ہے۔ اسی ترتیب سے یہ انقلاب آگے بڑھا ہے اور اس کے بعد بھی آئندہ بھی آگے بڑھتا رہے گا۔ قم کے بہادر اور میدان میں موجود عوام نےبہت مدد کی ہے اور آج الحمد للہ یہ خدمات اور جو کچھ عوام نے اس ملک میں ہرجگہ انجام دیا ہے، وہ اس اسلامی اور الہی نظام کی شکل میں متجلی ہوا ہے۔
آج جو کچھ ہمارے لئے اہم ہے اور مستقبل سے تعلق رکھتا ہے اور ماضی سے بھی ہمیشہ مستقبل کے لئے کام لینا چاہئے، چند نکات ہیں۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ جوکچھ اس تحریک، اس قوم اور اس قوم کی برکات سے دیگر اسلامی اقوام کے پاس ہے، وہ سب، خدا پر توجہ، اس پر توکل اور یاد خدا کو دلوں میں زندہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر خدا پر توجہ اور لایزال قدرت الہی کے سرچشمے سے نصرت طلب نہ کی جاتی تو مشکل سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ انقلاب، یہ قوم اور یہ تحریک یہ تمام کامیابیاں حاصل کرسکتی ہے۔ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔
اسلامی انقلاب کی بنیاد انسان سازی پر استوار ہے اور انسان سازی کے لئے پہلے مرحلے میں روح و دل کی آباد کاری ضروری ہے۔ وہ دنیا جس میں دولت و ثروت اور آرائش و نعمت ہو لیکن انسان میں انسانیت، اخلاق اور دینداری نہ ہو تو اس دنیا سے اہل دنیا بھی لطف اندوز نہیں ہوسکیں گے اور یہ دنیا انسان کو کوئی سکون نہیں دے سکے گی۔ انسان کو سکون اس جذبے اور کردار سے مل سکتا ہے جس کا سرچشمہ دین ہے اور اس کے لئے دین سے مدد لینی چاہئے۔ جس دنیا میں اخلاق، معنویت اور دین نہ ہو، اس میں وہی ہوگا جو آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتوں اور غارتگروں کے شرمناک اور منحوس سائے میں اقوام کے ساتھ کیا گیا اور کیا ہو رہا ہے۔
ہم میں سے ہرایک جہاں بھی ہے، سب سے پہلے نفس کو کمال کی طرف لے جانے، نفس کی پاکیزگی، باطن کی تعمیر اور اخلاق الہی اور معنوی حلئے میں متجلی ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی رجب کے مہینے میں، اس سال نو جنوری رجب کے مہینے میں پڑی ہے اور یہ بہت اچھا موقع ہے، ملاحظہ فرمائیں کہ اس مہینے کی دعاؤں اور دیگر دعاؤں میں کتنی کوشش کی جاتی ہے کہ انسان کے اندر قلبی اور باطنی تغیر آئے اور وہ اخلاق الہی و انسانی کے زیور سےآراستہ ہو۔ یہ انسان سازی ہے۔ یہ تمام انقلابات الہی اور بعثت انبیاء کا اصلی مقصد اور ہدف ہے۔ الّلہم انّی اسئلک صبر الشّاکرین لک وعمل الخائفین منک ویقین العابدین لک (1) یہ دعاؤں کی بنیاد ہے۔ اپنے اندر اس نور معنویت، اس شکر، اس صبر، اس یقین اور اس عبادت کے جذبےکو روشن اور شعلہ ور کریں تاکہ یہ قوم دیگر اقوام کے لئے مثالی اور نمونہ بن سکے، تاکہ اپنے لئے اور اپنی اقوام کے لئے سعادت حاصل کرسکے، تاکہ ان بلاؤں سے جن میں انسان نفسانی اور روحانی آلودگیوں، خود خواہی اورخود پرستی وغیرہ کے سبب گرفتار ہوتا ہے، محفوظ رہے۔
میں عزیز نوجوانوں سے جن کے دل، الحمدللہ پاکیزہ، ضمیر شفاف، آمادگی زیادہ اور آلودگی کم ہے، چاہوں گا کہ ذکر خدا، خدا پر توجہ اور دعا اوراخلاص کے ذریعے اپنے باطن کو متغیر کرنے کی کوشش کریں۔ یہ نئی نسل ایسی نسل ہے کہ جس کو اسلام اور اسلامی حکومت کی برکت کے سائے میں یہ موقع حاصل ہے کہ اپنے باطن کو اسلامی بنائے۔ ماضی میں یہ آسانی نہیں تھی۔
دوسرا نکتہ، جو بہت اہم ہے، اس انقلاب اور اس نظام کا عوامی ہونا ہے۔ جو بھی کیا اور جو بھی ہوا وہ عوام نے کیا ہے۔ ہمارے عظیم امام ( رضوان اللہ تعالی علیہ) بھی انہیں مومن عوام پر بھروسہ کرتے تھے۔ ملک کے حکام، جوخدمت گزار تھے اور ہیں، ان کی توانائی، ان کی ہمت، استکبار اور شیطانی طاقتوں کے پیدا کردہ خطرات اور ان کی للکار کے مقابلے میں، ان خدمت گزار حکام کی معنوی اور روحانی توانائی، اسی قوم کی حمایت اور پشت پناہی پر استوار ہے۔ عوام سے حکام، حکومت اور نظام کا متصل ہونا، معجزاتی نعمتوں میں سے ہے۔ اگر عوام نہ ہوتے اور یہ اخلاص، یہ جوش وخروش اور یہ بے نظیر اور محیر العقول فداکاریاں نہ ہوتیں، کہ انسان عوام کے اندر اس جذ بۂ ایثار کو دیکھ کے واقعی مبہوت رہ جاتا ہے، تو انقلاب بھی کامیاب نہ ہوتا، جنگ میں بھی کامیابی نہ ملتی، سیاست کے میدانوں میں بھی کامیابی نہ ملتی، دشمن کے اقتصادی محاصرے کے مقابلے میں بھی استقامت کی توانائی نہ ہوتی، ورنہ آپ سوچیں کہ کیا شیاطین، دنیا میں اسلامی حکومت اور اسلامی پرچم کو اس طرح لہراتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں؟
دنیا کے کسی بھی حصے میں، جیسے الجزائر (2) یا سوڈان (3) میں یا دوسرے ملکوں میں جہاں اسلامی رجحان اور اسلامی علامت ظاہر ہوتی ہے، اسلام کی آواز بلند ہوتی ہے، دیکھئے کہ یہ پرپیگنڈہ مشینریاں کیا کرتی ہیں، کیا پروپیگنڈے کرتی ہیں، کیسی سیاسی چالیں چلی جاتی ہیں، کیسے کیسے دباؤ ڈالے جاتے ہیں اور کس طرح غصے سے پیچ و خم کھاتے ہیں اور تحمل نہیں کر سکتے۔ آپ نے دیکھا کہ ان تیرہ برسوں میں پوری دنیا میں شیطانی ہاتھوں اور شیطانی بازوؤں نے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں کیا کیا ہے۔ وہ برداشت نہیں کر سکتے۔ جس چیز نے انہیں آج تک ناکام بنایا ہے کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل نہ کرسکے، یہی عوام سے متصل اور مرتبط ہونا ہے اور میدان میں عوام کی موجودگی ہے۔
اگر کوئی اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھے تو ایک واضح بات کا مشاہدہ کرسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا کے تمام سیاسی و تشہیراتی اور منصوبہ بندی کے ادارے، جو عالمی استکبار بالخصوص بڑے شیطان امریکا سے تعلق رکھتے ہیں، اس کوشش میں ہیں کہ شاید اس قوم کو اس کے انقلاب سے، نظام سے، حکومت سے اور حکام سے الگ کرسکیں۔ جھوٹے پروپیگنڈے کرتے ہیں، مایوسی کی باتیں کرتے ہیں، دباؤ ڈالتےہیں، بہتان باندھتے ہیں، دور سے جھوٹی اور کھوکھلی شان و شوکت دکھاتے ہیں تاکہ شاید، حکام نظام اور حکومت سے جو انقلاب کے مظاہر ہیں، عوام کو دور کر سکیں۔
یہی دباؤ اور اقتصادی محاصرہ جو آج بھی جاری ہے، یہ نہ سمجھا جائے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا اقتصادی محاصرہ ختم کر دیا گيا ہے۔ نہیں، مختلف طریقوں سے اقتصادی دباؤ ہے بھی اور اقتصادی ناکہ بندی بھی ہے اور بہت پیچیدہ (محاصرہ) ہے۔ یہی دباؤ جو ڈالا جارہا ہے، یہی پروپیگنڈے جو کئے جارہے ہیں، یہی وسیع اور بہت خباثت آمیز رکاوٹیں جو پوری دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کی راہ میں ڈالی جارہی ہیں، یہ سب اس لئے ہیں کہ شاید اس طرح اس قوم کو جس نے اپنی لیاقت ثابت کردی ہے، اسلامی جمہوریہ سے الگ کر سکیں۔
میں عرض کروں گاکہ جو سامراج کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہتا ہے، جو اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن کو منہ توڑ جواب دینا چاہتا ہے، بندگان خدا کے دلوں کو شاد اور دشمنان خدا کے دلوں کو افسردہ کرنا چاہتا ہے، اس کو کوشش کرنی چاہئے کہ نظام کے حکام اور عوام کے درمیان محبت مہربانی اور اعتماد روز بروز زیادہ اور قوی تر ہو۔ جو بھی اس کے برعکس عمل کرے وہ سامراج کے مفاد میں کام کر رہا ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے انتخابات (4) ہیں۔ البتہ انتخابات کے بارے میں کچھ باتیں کہنی ہیں جو انشاء اللہ اپنے وقت پر قوم سے عرض کی جائیں گی۔ لیکن اس وقت جو عرض کرنا ہے یہ ہے کہ ابھی سے وہ تمام لوگ جو مؤثر ہوسکتےہیں، چاہے ایک فرد پر صحیح، ایسا کام کریں کہ مجلس شورائے اسلامی کے ان انتخابات میں جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد پہلے پارلیمانی انتخابات ہیں، عوام گذشتہ انتخابات سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ زیادہ سے زیادہ شرکت کریں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی اس کے برعکس عمل کرے۔ ایسا نہ ہو کہ اخبارات میں، ذرائع ابلاغ میں، کسی بھی طرح، یا پروپیگنڈوں میں ایسی بات کی جائے کہ عوام انتخابات کے تعلق سے تذبذب کا شکار ہوجائيں۔ البتہ عوام تذبذب کا شکار نہیں ہوں گے۔ عوام ثابت کرچکے ہیں کہ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں ہوشیاری سے کام لیتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کے مخالفین بھی اس بات سے واقف ہیں لیکن پھر بھی اپنی کوشش اور پروپیگنڈے کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہوکہ اسلامی نظام کے اندر کوئی ایسا ہو جو دشمن کی اس خواہش میں اس کی مدد کرے۔ بعض لوگوں میں معمولی اور جزوی باتوں پر جو اختلافات پائے جاتے ہیں، وہ کم اہمیت اور زیادہ تر ذاتی یا گروہی نوعیت کے ہیں، ایسانہ ہو کہ وہ آئیں اور عوام کو اس عظیم حقیقت کی نسبت جس کو میدان میں ان کی موجودگی متجلی کرتی ہے، تذبذب کا شکار کریں اور ان کے جذبات کو سرد کرنے کی کوشش کریں۔
ہمارے ملک کی جس چیز میں بھی عوام کی مشارکت متجلی ہوتی ہے، عالمی پروپیگنڈوں میں اس کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تہران اور دیگر مختلف شہروں میں یوم قدس کے مظاہروں اور مختلف مناسبتوں پر ہونے والے اجتماعات اور مظاہروں میں دسیوں لاکھ افراد شرکت کرتے ہیں، ان کا وہ اپنے پروپیگنڈوں میں ذکر نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ چیز اسلامی جمہوری نظام سے عوام کے تعلق کو بیان کرتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ دنیا اس پر یقین کرے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایرانی قوم کے اذہان میں یہ یقین پیدا ہو بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کو بہت کم کرکے دکھائیں۔ دس لاکھ کے اجتماع کو دسیوں ہزار کہتے ہیں۔ عالمی پروپیگنڈوں میں یہ ہوتا ہے۔ وہ اس بات کی بھی کوئی پروا نہیں کرتے کہ جن لوگوں نے خود یہ عظیم اجتماعات دیکھے ہیں وہ ان کے بارے میں کیا کہیں گے۔ اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں، شاید نشانے پر لگ جائے۔
جو باتیں عوام کی موجودگی اور نظام، حکومت اور اداروں سے عوام کے تعلق اور رابطے کی عکاسی کریں، ان کو بہت ہلکا کرکے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اپنے یہ کام کریں۔ ایسانہ ہو کہ قلم یہ کام کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ایسی باتیں پھیلائیں جو جذبات کے ہلکا ہونے کی جھوٹی علامت ہو۔ تاکہ شاید وہ بات اس پر جو اس کو پڑھے، اثر انداز ہو اور اس کا جوش و جذبہ کم کر دے۔ یہ کام دشمن کے فائدے میں ہیں۔
میرے بھائیو اور بہنو' ہم بیچ راستے میں ہیں۔ ہم نے، ایرانی قوم نے، عظیم ہدف کے لئے انقلاب کیا ہے۔ ہم اقوام پر سامراج کے خونیں پنجوں کے تسلط سے عاجز آچکے ہیں، اقوام عالم اور سب سے پہلے مسلم اقوام کو بیدار ہونا چاہئے۔ اقوام سے سامراج کا جہنمی تسلط ختم ہونا چاہئے تاکہ اقوام سکون کی سانس لے سکیں اور اپنے بارے میں خود فیصلہ کر سکیں۔ آج دنیا میں یہ چیزیں نہیں ہیں۔ یہ ہونا چاہئے اور ہوگا۔ ایک دن ان باتوں کو بعید سمجھتے تھے۔ آج دنیا کے واقعات اقوام کے لئے درس ہوگئے ہیں۔ چند دنوں قبل تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ دونوں سپر طاقتوں میں سے ایک اس طرح ختم ہوجائےگی؟ لیکن یہ ہوا۔ کچھ دنوں قبل تک کون سوچتا تھا کہ مشرقی بلاک یعنی خدا کا مخالف بلاک، باضابطہ اور آشکارا طور پر نابود ہوجائے گا اور ان کی اقوام دوبارہ دینداری کا رخ کریں گی؟ لیکن یہ ہوا۔ آج بھی جولوگ امریکا کی طاقت کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ختم ہونے والی نہیں ہے، نہیں، ختم ہونےوالی ہے۔ جب تک یہ جہنمی طاقتیں اور یہ جہنمی قوت ختم نہیں ہوگی اقوام سکون کا سانس نہیں لے سکیں گی۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں کیا کررہے ہیں۔ حکومت امریکا سمجھتی ہے کہ دنیا کی مالک ہے اور دنیا کی سرپرستی اس کے پاس ہے۔ یہ اقوام کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں۔ اپنی قوم کو بھی اہمیت نہیں دیتیں۔ اگر کوئی تجزیہ نگار صحیح تجزیہ کرے تو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ انسانوں کے لئے کسی اہمیت کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے لئے، انسانی حقوق کا نام ایک دکان اور حربہ ہے۔ جہاں بھی کسی حکومت کے مخالف ہیں اور اس کے خلاف جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں، اس پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں تو انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھاتے ہیں۔ دنیا میں اتنے ممالک اور حکومتیں ہیں جو انسانی حقوق کی قائل ہی نہیں ہیں۔ حکومت امریکا کے زیر سایہ آرام اور سکون سے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھتا بھی نہیں کہ تمہارے ملک میں انسانی حقوق نام کی کوئی چیز ہے بھی یا نہیں؟ عوام الناس کے لئے اظہار رائے کا کوئی حق ہے یا نہیں؟ کیونکہ ان کے ساتھ ہیں۔ جہاں حکومتیں اور اقوام ان کی مخالف ہوں، ان پر دباؤ ڈالتے ہیں، انواع و اقسام کے بہتان لگاتے ہیں۔ البتہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلےمیں شروع سے ہی یہ روش رہی ہے۔ ابتدائے انقلاب سے ہی انسانی حقوق کا مسئلہ، جیلوں کا مسئلہ اور صاحبان عقل کے لئے اسی طرح کی دوسری مضحکہ خیز باتیں عوام کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے پروپیگنڈوں میں اٹھاتے رہے، شور مچاتے رہے، مستقل کہتے رہے کہ ایران کی جیلیں۔ جن لوگوں کو اطلاع ہے، وہ جانتے ہیں کہ ان ملکوں کی جیلیں پسماندہ ملکوں سے کہیں بدتر ہیں۔ جو چیز ان کے سامنے نہیں ہے وہ انسانی حقوق ہیں، انسان کا وقار ہے۔
ایک حربے کے طورپر، جھوٹی عوام فریبی کے لئے پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ انسان کے لئے حقوق کے قائل نہیں ہیں۔ اورپھر افریقا اور لاطینی امریکا کے ملکوں (5) میں اپنے لوگ بھیجتے ہیں کہ وہاں کے انتخابات پر نظررکھیں۔ تم سے کیا مطلب ہے کہ تم جاکے کسی ملک کے انتخابات کی نگرانی کرو؟ تم ہو کون؟ کیا تم اس قوم کے سرپرست ہو؟ تم اگر انتخابات کے طرفدار ہو تو ان ملکوں میں جاؤجہاں تمھارے منحوس سائے میں ایسی حکومتیں قائم ہوئی ہیں کہ اگر عوام کو اختیار مل جائے تو ایک لمحے کے لئے بھی وہ ان حکومتوں کو باقی نہیں رہنے دیں گے۔ ان حکومتوں کی تعداد کم بھی نہیں ہے۔ اب میں نام نہیں لینا چاہتا ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ میں کن حکومتوں کو کہہ رہا ہوں۔ خود بھی سب سے بہتر جانتے ہیں۔ ان ملکوں میں انتخابات کا نام بھی نہیں ہے لیکن جہاں دباؤ ڈالنا چاہیں اور کوئی محرک ہو، تو امریکا سے لوگوں کو بھیجتے ہیں کہ جاؤ نگرانی کرو کہ اس ملک میں انتخابات صحیح ہوئے یا نہیں۔ تم سے کیا مطلب ؟ کیا تم اقوام کے سرپرست ہو؟ یہ اقوام کی کیسی توہین کررہے ہیں؟ اور پھر انسانی حقوق اور بشری حقوق کی باتیں کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی سب سے بڑی توہین تو وہ خود کر رہے ہیں۔ ایٹمی اسلحے کے بھروسے، جس میں اب ان کا کوئی حریف بھی نہیں ہے، ویٹو کے حق کے بھروسے، دولت اور پیسے کے بل پر ہر جگہ وسیع جاسوسی کے بل پر ہر معاملے میں مداخلت کرتے ہیں۔ نہیں جناب، ایرانی قوم کو اقوام پر امریکا یا کسی اور کی یہ جھوٹی سرپرستی اور سرداری قبول نہیں ہے۔
افواہ پھیلاتے ہیں کہ فلاں ملک اپنے لئے اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ ایران اسلحہ جمع کر رہا ہے۔ اگر اسلحہ حاصل کرنا جرم ہے تو تم کیوں اربوں کے ڈالر کے ہتھیار اپنے زیر اثر ملکوں میں لے جاکے بیچتے ہو اور اس کے لئے قرض دیتے ہو اور مدد کرتے ہو؟ اصولی طور پر تم سے کیا مطلب کہ کوئی ملک اسلحہ جمع کررہا ہے یا نہیں۔ کیا اسلحہ حاصل کرنے کے لئے تم سے اجازت لی جائے؟ البتہ نصف سے زیادہ تو جھوٹ ہے۔ صرف پروپیگنڈے اور دباؤ کے لئے کہا جاتا ہے لیکن ایرانی قوم ان پرپیگنڈوں سے کوئی دباؤ بھی محسوس نہیں کرتی ہے۔ اس لئے کہ اس کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتی ہے۔
بڑی طاقتوں کی ساری برہمی اور غصہ میدانوں میں آپ کی موجودگی کی وجہ سےہے۔ یہ حکومت پورے وجود سے عوام کے لئے کام کررہی ہے، محنت کررہی ہے، یہ حکومت اور صدر مملکت (6) واقعی پورے وجود سے کام کررہے ہیں اور ان کا سارا ہم و غم عوام کی خدمت ہے، اگر اربوں ڈالر خرچ کرکے بھی تم اس حکومت اور قوم میں اختلاف ڈال سکتے تو اس سے دریغ نہ کرتے۔
خداوند عالم کا شکر گزار ہوں کہ اس نے آپ عوام کو آگاہی اور روشن بینی عطا کی ہے اور یہ انقلاب اور آپ کی دینداری کی برکات میں سے ہے۔ جہاں بھی دین ہے، وہاں یہ آگاہی اور ثابت قدمی ہے۔ اس کی حفاظت کریں۔ البتہ بے شک حضرت ولی عصر ( ارواحنافداہ) کی عنایات اور آپ کی پاکیزہ دعائیں اس قوم اور اس ملک کے شامل حال ہے۔ یہ مملکت امام زمانہ کی ہے۔ امید ہے کہ انشاء اللہ ہمیشہ امام زمانہ کی پاکیزہ دعائیں آپ کے شامل حال رہیں گی۔ آپ کی محنت اور کام سے ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مقدس راضی ہوگی اور خدا وند عالم ہمیں توفیق عنایت فرمائے گا کہ ہم اس کی رضا کو سمجھیں اور پورے وجود سے اس کی راہ میں قدم آگے بڑھائیں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- مفاتیح الجنان، دعائے ماہ رجب۔
2- شہدائے ہفتم تیر کے پسماندگان سے ملاقات مورخہ 29-6-1991 کے خطاب کے حاشیے کو دیکھیں۔
3- سوڈان میں حسن عمر البشیر نے برسراقتدار آنے کے بعد اس ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے ارادے کا اعلان کیا۔ چونکہ اس حکومت کو ڈاکٹر حسن الترابی کی قیادت میں سوڈان کی طاقتور اسلامی تحریک کی حمایت حاصل تھی اس لئے، سامراجی پروپیگنڈہ اداروں نے اس تحریک کے خلاف بہت ہنگامہ کیا۔
4- مجلس شورائے اسلامی کے چوتھے دور کے انتخابات۔
5- جنوبی افریقا، ونزوئلا اور گواٹے مالا۔
6- حجت الاسلام والمسلمین ہاشمی رفسنجانی۔