اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس مبارک دن کی جو عالم اسلام کی تاریخ میں خورشید حق و عدل کے طلوع کا دن ہے، تمام مسلمین عالم، ان لوگوں کو جن کے دل حق پسند ہیں، عدل و انصاف کی تشنہ اقوام بالخصوص پوری دنیا کے شیعوں، ایرانی قوم اور آپ حاضرین کرام مخصوصا گرانقدر شہیدوں کے پسماندگان، جنگ میں لاپتہ ہوجانے والے سپاہیوں کے اہل خاندان، جنگي معذوروں اور ان کے گھر والوں اور دشمن کی قید سے آزاد ہوکر آنے والے جنگی قیدیوں کو پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
حضرت امیر المومنین ( علیہ الصلاۃ والسلام ) کے مرتبے کے بارے میں انسان کی زبان اور قوت بیان حقیقت بیان کرنے سے عاجز ہے۔ بلکہ آپ کے مقام ومرتبے اور عظمت کی حقیقت کے تصور سے بھی عاجز ہے۔ ہم اپنی معلومات پر قیاس کے ذریعے کچھ چیزوں کی معرفت اور شناخت حاصل کرسکتے ہیں۔ امیر المومنین ( علیہ الصلاۃوالسلام) ہمارے معیاروں سے بالاتر ہیں۔ ہمارے پاس انسانوں کو پرکھنے اور ان کی فضیلتوں، اچھائیوں اور خوبیوں کو سمجھنے کے جو پیمانے ہیں، ان کے ذریعے آپ کی عظمت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ آپ ان چیزوں سے بالاتر ہیں۔ ہم آپ کی وہ نورانیت دیکھتے ہیں کہ جو آپ کے شیعوں اور محبوں کو ہی نہیں بلکہ ہر انسان حتی آپ کے دشمنوں اور مخالفین کو بھی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ اہلسنت راویوں نے رسول خدا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایاہے کہ علی بن ابی طالب یزہر فی الجنۃ ککوکب الصبح لاہل الدنیا (1) بہشت میں امیرالمومنین (علیہ السلام) کی نورانیت دنیا والوں کے لئے ستارہ صبح کی مانند ہے۔ نور کو دیکھتے ہیں، تجلی نور کو دیکھتے ہیں لیکن اس کے پہلووں اور جزئیات کو نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا ادارک کرسکتے ہیں۔
امیر المومنین ( علیہ السلام ) سے ہماری قوم کا رابطہ، ایک عاشقانہ رابطہ ہے۔ یہ مسئلہ آپ کی ولایت اور امامت پر اعتقاد سے بالاتر ہے۔ ولایت و امامت پر اعتقاد ہے اور ہماری زندگی کا جز ہے۔ گہوارے میں ہمیں پڑھائے جانے والے اولین سبقوں میں سے ہے اور انشاء اللہ یہ اعتقاد ہم اپنے ساتھ قبر میں بھی لے جائیں گے لیکن امیرالمومنین (علیہ الصلاۃ و السلام) سے ہماری قوم کے رابطے کا ایک اور عنصر آپ سے محبت اور عشق کا عنصر ہے۔
آپ کے اندر کشش، اچھائیاں اور تجلیاں اتنی زیادہ ہیں کہ جو دل ان تجلیوں سے آشنا ہو وہ آپ سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ جس نے بھی آپ کو اسی قدر جتنا اس روایت میں ہے، پہچان لیا تو آپ کا دلدادہ و شیدا ہو گیا۔ حتی وہ لوگ بھی جو آپ کی امامت اور ولایت کو اس طرح قبول نہیں کرتے جس طرح ہم عقیدہ رکھتے ہیں، ان فضائل اور مناقب کو جو دونوں فرقوں کی کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں، دیکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کے یہ فضائل صرف شیعوں کی کتابوں میں بیان کئے گئے ہوں۔ بڑے سنی علماء نے بھی ان فضائل کو لکھا ہے۔ جب وہ ان فضائل کو دیکھتے ہیں کہ پورے عالم میں ان کی تجلی ہے تو امیر المومنین کے دلدادہ و شیدا ہوجاتے ہیں۔ لہذا ہمارا مسئلہ امیر المومنین کی نورانیت اور بلندی کی حقیقت کی معرفت کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس کو نہ ہم سمجھ سکتے ہیں نہ تصور کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کا ادراک ہمارے لئے ممکن ہے سوائے ان ہستیوں کے کہ جن کے دل ان پہلووں میں نور ہدایت ومعرفت الہی سے منور ہوچکے ہوں لیکن یہ محبت کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ یہ امیر المومنین ( علیہ السلام) سے عشق و محبت کا رابطہ ایک درخشاں حقیقت ہے۔ اس حقیقت درخشاں سے ہمیں ایک معراج کی مانند استفادہ کرنا اور عروج کرنا چاہئے۔ یہ ہوسکتا ہے۔ محبت کے زینوں سے معرفت کے اعلاترین درجات تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اصل محبت ہے۔
بھائیو اور بہنو'یہ عمر مختصر ہے۔ یہ دنیا ہمارے لئے اور ہر انسان کے لئے چھوٹی ہے اور جلدی چلی جاتی ہے۔ وقت کی قدر کرنا چاہئے اور بے جا تکلفات اور ان باتوں میں وقت نہیں گنوانا چاہئے جو ہمیں آگے نہیں بڑھاسکتیں۔ اس محبت سے ہمیں پیشرفت اور معراج پانی چاہئے۔ یہ کب ہوگا؟ یہ محبت کب ایسا اکسیر اثر دکھائے گی؟ جب ہم امیر المومنین اور اولیائے دین سے اپنی محبت کے رشتے کو سنجیدگی سے دیکھیں گے۔ کیسے ؟ محبت کو سنجیدگی سے دیکھنا یہ ہے کہ ہم کوشش کریں کہ اس راستے پر چلیں جو آپ تک جاتا ہے۔ ورنہ اگر اس راستے کو چھوڑدیا اور خدا نخواستہ اپنے ہر عمل، ہر اقدام اور ہر بات کے ذریعے خود کو ایک قدم آپ سے دور کیا تو یہ محبت تدریجی طور پر کم ہوجائے گی، اس کی گہرائی ختم ہوجائے گی اور یہ صرف سطحی اور ظاہری رہ جائے گی۔
ایک حقیقی محبت ہوتی ہے اور ایک ظاہری۔ آپ کی حقیقی محبت، اپنے بچوں سے آپ کی محبت حقیقی ہے۔ کوئی بھی مصروفیت، آپ کو اپنے بچے کی بیماری اور اس کو لاحق خطرے کی طرف سے بے اعتنا نہیں بنا سکتی۔ یہ محبت حقیقی ہے۔ ایک محبت زبانی ہوتی ہے جو حساس مواقع اور حساس جگہوں پر انسان کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ اگر ہم خدا نخواستہ امیر المومنین (علیہ الصلاۃ و السلام) سے دور ہوجائیں تو یہ ہوگا، ہماری محبت صرف دعوے کی اور زبانی ہوگی۔ جب ہم کو اس کی ضرورت ہوگی تو ہمارے کام نہیں آئے گی لیکن اگر ہم نے اس راستے کو اختیار کیا جو امیر المومنین تک جاتا ہے تو تو جتنا آگے بڑھیں گے محبت گہری ہوتی جائے گی۔
علی بن ابیطالب ( علیہ الصلاۃ والسلام) کی توصیف کے سلسلے میں اس تھوڑے سے وقت میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ وہ چیز جو میں سمجھتا ہوں کہ اس مختصر سے وقت میں کہی جا سکتی ہے، یہ ہے کہ ہم امیرالمومنین کی ذات میں اور آپ کے کردار میں موجود دسیوں صفات پر جن میں سے ہر ایک خورشید کی مانند ضوفشاں ہے، نظر ڈالیں اور ان میں سے چند صفات کا انتخاب کریں اور اپنے اندر وہ صفات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
امیرالمومنین ( علیہ الصلاۃ والسلام ) کی جملہ صفات میں سے ایک یہ ہے کہ ابتدائے زندگی سے آخر عمر تک آپ نے خدا کے بارے میں سوچا اور تمام انسانوں کی مخالفت کے باوجود، غیر خدا اور خدا کے مخالف راستے کے مقابلے میں راہ خدا کا انتخاب کیا۔ اس طرح کی دسیوں صفات امیر المومنین میں نمایاں ہیں۔ یہ ان میں سے ایک ہے۔
جب آپ نے اپنے ایمان کا اظہار کرنا چاہا-- سب سے پہلے امیر المومنین نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان کا اعلان کیا ہے-- تو اس معاشرے میں جتنے لوگ تھے، اس حقیقت کے منکر اور کافر تھے لیکن آپ نے ان کے انکار، عناد اور کفر کی پرواہ نہیں کی۔ یوم الدار کے واقعے میں پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مکے میں عرب سرداروں کو جمع کیا، ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور فرمایا کہ جو بھی آج سب سے پہلے ایمان قبول کرے گا وہ میرے بعد میرا وصی ہوگا۔ آپ نے یہ بات دوسروں کے سامنے پیش کی۔ قریش اور دیگر کفار میں سے کوئی بھی آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوا لیکن امیرالمومنین جو تیرہ سال کے بچے تھے، کھڑے ہوئے اور یہ دعوت حق قبول کرنے کا اعلان کیا اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بھی آپ کے اس اعلان کو قبول کیا۔ آپ کے ایمان کو بھی اور اپنے بعد آپ کے وصی ہونے کو بھی۔ کفار پلٹے اور مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سےکہا کہ تمھارے بیٹے کو تمھارا امیر بنادیا ہے۔ یہ پہلا قدم تھا۔
مکے کی زندگی میں آپ نے ایک لمحے کے لئے بھی تشدد، تعصب، مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہ کی اور حق کا دفاع کیا۔ مدینے کی پوری زندگی میں بھی جہاں خطرہ ہوتا تھا علی بن ابیطالب وہاں موجود ہوتے تھے اور کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ خندق کے واقعے میں جب سب کے سب سر جھکائے ہوئے تھے، آپ کھڑے ہوئے اور دلیر ی کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوئے۔ یعنی آپ اپنی زندگی کو کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اسلام اور حق کے دفاع کے علاوہ کسی بھی چیز کی اہمیت کے قائل نہیں تھے۔ آپ کا صرف ایک کام تھا، حق کا دفاع کرنا۔
انسان کی قوتیں معین اور عمر محدود ہے۔ اس کو ایک سرمائے کی طرح حق و صداقت کے لئے وقف کر دینا چاہئے۔ علی ( علیہ السلام ) کے عقیدت مند کا شیوہ یہی ہے۔ اگر انسانوں میں چاہے چھوٹی سی جماعت میں ہی کوئی ایسا بشر پیدا ہوجائے تو وہ دنیا کو ظلم و جور سے پاک کر دے۔ ہم انسان، کھانے پینے، آرام و آسائش، عیش و عشرت، (دنیاوی ) زندگی، گھر، جاہ وجلال، مقام و مرتبے، اقتدار اورانسان کی دیگر دنیاوی دلچسپیوں اور مصروفیتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، خود کو اس حصار سے نکال کے اس راستے پر نہیں چل سکتے جس کا نتیجہ دنیا میں وہ ہوتا ہے کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں۔
اگر اس جذبے کا کوئی پرتو انسان میں آجائے تو وہی ہوگا جو آپ نے جنگ کے محاذوں پر دیکھا۔ شہیدوں میں دیکھا۔ ہمارے دلاور سپاہیوں میں دیکھا۔ جیلوں میں ہمارے جنگی قیدیوں میں دیکھا۔ ہمارے صابر جنگی معذوروں میں دیکھا۔ ان کے گھر والوں میں، ان کے ماں باپ میں دیکھا۔ انقلاب کے دوران، جنگ کے دوران، آج تک اس قوم میں دیکھا اور مشاہدہ کیا کہ دنیا میں کیسا ہنگامہ مچادیتی ہے یہ قوم۔ یہ ایک ناقص اور معمولی چیز تھی۔ حضرت امیر المومنین ( علیہ السلام) کی ذات کے بحر بیکراں میں جو کچھ ہے، اس کا ایک قطرہ تھا۔
آپ اپنے فیصلوں میں اور اپنے عمل میں، اپنا خیال نہیں رکھتے تھے اور نفسانی خواہشات کو دخیل نہیں ہونے دیتے تھے۔ حضرت پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد بھی اسی طرح رہے۔ پچیس سال تک امت اسلامیہ کی مصلحت کے تقاضے کے مطابق عمل کیا۔ مصلحت سے عدول نہ کیا۔ اس کے بعد کہ جب امیر المومنین (علیہ السلام) کو خلافت ملی تو آپ نے دیکھا کہ ان لوگوں نے جو خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے اور سر میں خلافت کا سودا رکھتے تھے، کیا کیا؟ آپ نے دیکھا کہ کیا جنگیں اور خونریزیاں شروع کیں ؟ علی نے ان پچیس برسوں میں یہ کام نہیں کیا۔ اگر چہ آپ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی ہے۔ آپ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے لیکن اسلام کی مصلحت اس میں دیکھی کہ سکوت کریں۔ آپ نے معاشرے میں جو ہورہا تھا اس کے ساتھ چلنا منظور کرلیا اور جب خلافت ملی تو دور اور نزدیک کے دوستوں اور خود کو دوست ظاہر کرنے والے دشمنوں نے نصیحت کی کہ جلدی نہ کریں۔ اس کو معزول نہ کریں۔ اس کو منصوب نہ کریں۔ یہ بات نہ کریں۔ یہ تقسیم اس طرح انجام نہ دیں۔ یہ پیسہ اور یہ وظیفہ بند نہ کریں۔ آپ نے ان باتوں پر کوئی توجہ نہ دی۔ جو حق سمجھا اس پر عمل کیا۔ یہ امیر المومنین کی جملہ صفات میں سے ایک صفت ہے۔
ہم آپ کے محب ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے دلوں میں امیرالمومنین (علیہ السلام ) کی محبت موجزن ہے۔ یہ ہمارے لئے باعث امید و افتخار ہے۔ لیکن کون سی چیز اس محبت کو عمیق تر کرکے ہماری روح وجان میں شامل کردیتی اور ثمر بخش بناتی ہے؟ یہ کہ ہم امیرالمومنین ( علیہ االصلاۃ والسلام) کی اس صفت کی اقتدا کریں۔
آج دنیا ان لوگوں کے لئے سخت ہے جو مسلمان ہیں۔ آج اسلام صدیوں اقتدار اور حاکمیت کے حقیقی مظاہر سے دور رہنے کے بعد حاکمیت کا دعویدار ہے۔ اقتدار میں ہے۔ ایک ملک چلا رہا ہے۔ اس ملک کے قوانین اسلام کی بنیاد پر ہیں۔ دنیا میں لوگ اسلام کی طرف کھنچ رہے ہیں۔ دل مردہ بشریت اور افسردہ نوجوانوں نے جو ہر طرف سے مایوس ہوچکے ہیں، اسلام کا رخ کیا ہے۔ اسلامی معاشروں کے جذبات بیدار ہورہے ہیں۔ آپ ایسے ممالک کو دیکھ رہے ہیں کہ جن کی اقوام کو اسلام کے عشق نے جوش وجذبے سے سرشار کر دیا ہے۔ آج اسلام کی یہ حالت ہے۔ اسی کے ساتھ اسلام کے دشمن بھی ہیں جو اسلام کو اپنی غارتگری، اقوام پر تسلط قائم کرنے اور عالمی سطح پر انسانوں کو دھوکہ دینے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں وہ اسلام کے سخت دشمن ہیں۔
آج دشمنان اسلام، نبی اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے دور کی طرح منتشر قبائل تک محدود نہیں ہیں۔ جدیدترین ہتھیار ان کے پاس ہیں۔ سب سے زیادہ پیسے ان کے پاس ہے۔ جدید ترین دانش بشر ان کے اختیار میں ہے اور وہ اسلام کے مخالف ہیں۔ اس دور میں مسلمان ہونا اس پرچم کو اٹھانا ہے جس میں قید و بند کی زنجیروں کوتوڑنا، انسان کی سعادت، آزادی، اچھائیاں اور برکتیں ہیں۔ اس پرچم کو اٹھانا جس میں اتنی برکات ہوں، آسان نہیں ہے، اس کے لئے ثابت قدمی اور استقامت کی ضرورت ہے۔
ہماری قوم بہت ہی درخشاں تجربات کے دور سے گزری ہے اور اس کو چاہئے کہ ان تجربات کو فراموش نہ کرے۔ یہ تجربات انقلاب اور اس کے بعد جنگ کے تجربات ہیں۔ یعنی دو کامیابیاں۔ ہم انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے قیام میں کامیاب ہوئے۔ جنگ میں بھی کامیاب ہوئے۔ شیاطین بہت کوشش کرتے ہیں کہ یہ ظاہر کریں کہ ایران جنگ میں کامیاب نہیں ہوا۔ یہ شیطانوں اور کوتاہ بینوں کی بات ہے۔ اس قوم کے لئے کہ پوری دنیا جس کے دشمن کے ساتھ ہو، اس کو اسلحہ اور تمام وسائل جنگ دیں کہ یہ قوم اپنی سرحد سے پیچھے ہٹ جائے، اس کی مسلح افواج ختم ہوجائیں اور اس کے سماجی نظام کا شیرازہ بکھر جائے لیکن ان تمام سازشوں اور دباؤ کے باوجود وہ قوم روز بروز قوی تر ہو، اس کی مسلح افواج قوی تر ہوں اور افراد قوم فوجی ٹریننگ لیں تاکہ اپنی سرحدوں کے استحکام کے ساتھ حفاظت کریں، کیا یہ کامیابی نہیں ہے؟
بھائیو اور بہنو' ہمارے لئے یہ کامیابیاں باعث عبرت ہیں۔ یہ کامیابیاں کیسے حاصل ہوئیں؟ دنیا سے خوفزدہ نہ ہونے سے۔ امریکا سے نہیں ڈرنا چاہئے اور ایرانی قوم نہیں ڈرتی۔ بہادری کے اس جذبے کے ساتھ، خدا پر توکل کے ساتھ اور اس جوش وجذبے کے ساتھ جو ہماری قوم کے تمام طبقات بالخصوص ہمارے نوجوانوں میں پایا جاتا ہے، یہ قوم کامیاب ہوکے رہے گی، اپنے اہداف تک پہنچے گی اور دشمن کو جھکنے پر مجبور کردے گی۔ کوئی بھی دشمن ایرانی قوم کو اس راستے پر چلنے سے نہیں روک سکتا جو اسلام نے اس کو دکھایا ہے۔ صرف یہ نکتہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ علی بن ابیطالب کی طرح کثرت دشمن سے نہ گھبرائے۔
امید ہے کہ یہ میلاد مبارک ہماری پوری قوم کے لئے انشاء اللہ خوشی، مسرت اور تمام امور میں مشکلات کے دور ہونے کا باعث ہوگی۔ انشاء اللہ آپ کے دل امیر المومنین (علیہ الصلاۃ والسلام) کے نور ولایت سے روز بروز زیادہ منور ہو اور حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ ) کی پاکیزہ دعائیں آپ کے شامل حال ہوں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- بحار الانوار، ج 40 ص 76