قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ ا لرحمن الرحیم

برادران عزیز، انتظامی فورس کے زحمت کش اور خدمت گزار کمانڈرو اور اس فورس کے سیاسی و عقیدتی ادارے کے عہیدارو' خوش آمدید۔ امید ہے کہ آپ اس عظیم اور کارآمد مجموعے میں جہاں بھی ہیں اور جو ذمہ داری بھی آپ نے قبول کی ہے، اپنے خطیر فرائض کی انجام دہی میں کامیاب ہوں گے۔
کہا جاسکتا ہے اور جانا جا سکتا ہے کہ آج انتظامی فورس ایک انقلابی ادارہ ہے۔ ایسا مجموعہ ہے کہ انقلاب نے اس کو چاہا اور بنایا۔ فطری طور پر اس عظیم مجموعے سے انقلابی توقعات بھی ہیں۔ جب ہم نے کسی مجموعے اور ادارے کو انقلاببی سمجھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری توقعات اس کی انقلابی حیثیت کے جو فطری طور پر اپنی خاص خصوصیت رکھتی ہے، مطابق ہیں۔ آج الحمد للہ ہماری انتظامی فورس ایسی ہے۔
ذمہ داریوں کی تقسیم اور مختلف شعبوں کے ایک دوسرے سے الگ ہونے سے قطع نظر ایک ذمہ داری ہے جو بنیادی مسئلہ ہے۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے انتظامی فورس ان علمائے کرام کو جو اس فورس میں خدمت میں مشغول ہیں، سب کو مل کے مشترکہ طور پر کام کرنا چاہئے۔ وہ ذمہ داری معاشرے میں اسلامی امن وسلامتی کا تحفظ ہے۔ یہ انتظامی فورس کا بنیادی ترین کام ہے۔ یہ بہت عظیم کام ہے۔
آپ نے سنا ہے کہ نعمتان مجھولتان الصحۃ والامان (1) یہ کلام چاہے فلاسفروں کا کلام ہو یا اولیاء کا، اس میں سلامتی کو صحت اور تندرستی کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ قرآن میں اس سے بالاتر کہا گیا ہے۔ سورہ قریش میں جہاں فرماتا ہے کہ فلیعبدوا رب ھذا البیت (2) اس کے بعد فرماتا ہے کہ الذی اطعمھم من جوع وامنھم من خوف (3) یعنی بھوک سے نجات اور بدامنی سے نجات کو ایک ساتھ برابر قرار دیا گیا ہے۔
آپ دیکھیں کہ ہر ملک میں حکومتی نظام کی کتنی کوششیں، کتنی قوتیں اور کتنی باطنی طاقتیں قوم کو بھوک سے بچانے کے لئے صرف ہوتی ہیں یا کتنی کوشش اس لئے ہوتی ہے کہ قوم بیماریوں اور جسمانی بلاؤں سے محفوظ رہے، اتنی ہی طاقت و توانائی بد امنی سے نجات کے لئے بھی صرف ہونی چاہئے۔ البتہ بدامنی کے گوناگوں حالات اور عوامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک ملک کی سڑکوں، گلیوں، شہروں، گاوؤں، شاہراہوں اور صحراؤں کی بدامنی ہے۔ اس سے مقابلہ ہونا چاہئے۔ اس کے خلاف کب صحیح مہم چلائی جاسکتی ہے؟ جب دیندار اور اصولوں کے پابند ہوں۔ اگر دینداری اور اصولوں کی پابندی نہ ہو تو سلامتی بھی ناقص ہوگی۔ حتی دنیا میں جن ملکوں کی پولیس نظم و ضبط میں مشہور ہے، اگر اس میں معنوی پابندی، اس کے باطن میں پایا جانے والا جذبہ جو تمام جذبات و احساسات پر غالب رہتا ہے، اس کے اندر نہ ہو تو وہ بھی کارآمد نہیں رہے گی۔ وہ جذبہ کیا ہے؟ بعض کے ہاں وطن پرستی ہے، بعض کے ہاں نیشنلزم ہے، یا تنظیم اور ادارے سے وفاداری ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ سب جذبات کہیں نہ کہیں بیکار ہوجاتے ہیں۔ وہ جذبہ جو ہر جگہ اپنی کاٹ اور تیزی رکھتا ہے، وہ دینی جذبہ اور پروردگار کے حضور موجودگی کا احساس ہے۔ جہاں بھی ہوں، چاہے تہران میں ادارے کے مرکز میں، کسی کمرے میں ہوں،یا ملک کے کسی گوشے میں کسی دور افتادہ چوکی میں حملوں کی زد میں ہوں، یہ خدا کے حضور موجود رہنے کا احساس ضروری ہے تاکہ انسان میں قوت وتوانائی کا احساس ہو اور تھکن کا احساس نہ ہو۔
اس منزل میں سیاسی و عقیدتی شعبے میں کام کرنے والےبراداران کا کام واضح ہوتا ہے۔ سیاسی و عقیدتی شعبے کی تمام کوششیں اس لئے ہیں کہ فورس کے ایک ایک فرد میں یہ دیانتداری کا جذبہ اور خدا کے حضور موجود ہونے کا احساس پیدا ہو۔ یعنی جہت یہ ہے۔ ہم دروس، ثقافتی کوششوں، کلاسوں اور انتخاب کے لئے امتحانات کو اور ان تمام چیزوں کو جو ان کاموں میں شمار ہوتی ہیں، اس معیار پر پرکھیں اور دیکھیں کہ آیا یہ کام افراد کو خدا سے نزدیک کرتا ہے، آیا ان کے اندر خدا کے سامنے موجود ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے، یا نہیں ؟ اگر پیدا کرتا ہو تو بہت اچھا ہے۔ ورنہ نہیں۔
البتہ ہمارے علما حضرات جانتے ہیں اور یقینا ان کی توجہ اس بات پر ہونی چاہۓ کہ عمل کا اثر زبان سے زیادہ ہوتا ہے۔ بہترین خطباء بہت ہی میٹھی زبان بولنے والے معلمین اور واعظ حضرات کے عمل میں اگر نقص ہو تو ان کی یہ شیریں بیانی نقش بر آب ہوجائے گی۔ ہمیں اپنا عمل ٹھیک کرنا چاہئے۔ معیار، وہی بلندی نگاہ، طہارت، لوگوں کے پاس کیا ہے اس کی طرف سے بے توجہی، مال دنیا کی جانب سے التفاتی، معاشرتی اصولوں کے مطابق ہمیں جو ملنا چاہئے اس سے زیادہ کی لالچ نہ کرنا، صلابت بیان، حقائق پر عمل اور کمزوری اور گھبراہٹ کو اپنے قریب نہ آنے دینا ہے۔
یہ ہمارا عظیم انقلاب یہ مستحکم اسلامی جمہوریہ جو الحمد للہ قائم ہوئی ہے، یہ بلند حیثیت جو آج اسلامی جہموریہ نے سیاست کی دنیا میں حاصل کی ہے، یہ عزت جو اسلامی جمہوریہ کی برکت سے اسلام کو ملی ہے، یہ سب معجزاتی کام ہیں۔ یہ معجزاتی کام زبان، تبلیغ، صدقے قربان ہوکے اور طاقت کے ذریعے نہیں کئے جا سکتے۔ ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) جو اس کارواں کے قائد تھے، اگر ان کی بات ان کے عمل کے مطابق نہ ہوتی تو یہ کام ممکن نہیں تھے لیکن آپ نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جس پر خود عمل نہ کیا ہو۔ کہنے سے پہلے عمل کیا اور ذاتی اور اجتماعی عمل میں پہاڑ کی طرح اپنے موقف پر باقی رہے۔
اسلام کی بیناد بھی یہی ہے۔ ازواج رسول خدا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میں سے کسی سے رسول خدا کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ کانّ خلقہ القران (4) آپ کا اخلاق قران تھا۔ یعنی آپ قرآن میں کسی انسان کے اچھے اور پسندیدہ رفتاروکردار اور مستحسن اخلاق کے بارے میں پڑھتے ہیں، وہ سب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وجود مبارک میں مجسم اور متجلی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے جو تحریک شروع کی اور تاریخ کی بلندی میں جو گیند پھینکی ہے وہ اب بھی پوری قوت کے ساتھ حرکت میں ہے اور، چودہ سوسال سے زیادہ عرصہ پہلے حضور ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معنوی اور معجز نما دست مبارک نے جس تحریک کا آغاز کیا اس کی برکات سے ہم اور تمام مسلمین عالم آج بھی پیشرفت کررہے ہیں۔
ہمارا کردار اس کے مطابق ہونا چاہئے جو ہم کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں۔ کونوا دعاۃ النّاس بغیر السنتکم (5) یعنی باعمالکم اگر ہم دنیاوی مال و دولت کی طرف سے بے اعتنا رہے، اگر ہم ان راستوں میں جن کے معتقد اور مبلغ ہیں، ثابت قدم رہے، اگر ہم نے دینی اصولوں، اسلامی ضوابط، اپنے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے فرمودات اور اسلامی جمہوری نظام میں جو مقرر ہے، اپنے عمل میں اس کی پابندی ثابت کردی تو ہماری بات جب فضا میں پھیلے گی تو اس کا اثر ہوگا۔ اس صورت میں بہت زیادہ تاکید اور اصرارکی ضرورت نہیں رہے گی۔ بلکہ ہمارے عمل کی کشش دوسروں کو اس سے ہم آہنگ ہونے، اس کے ساتھ چلنے اور اس کا ساتھ دینے پر مجبور کردے گی۔
میں عرض کروں گا کہ اس فورس سے اسلامی سلامتی کی توقع، ایسی نہیں ہے جس کو زیادہ کہا جائے۔ ملک کی انتظامی فورس میں جو کیفیت اور حالت ہے وہ انتظامی فورس کی تاریخ کے آغاز سے آج تک بے نظیر ہے۔ اس ملک میں جب سے پولیس اور جنڈارمری (سیکورٹی فورس ) وجود میں آئی، اس وقت سے آج تک، جب کہ الحمدللہ ہمارے پاس انتظامی فورس متحد اور ہمہ گیر ہے، اچھی اور مثبت ہونے کے لحاظ سے ہماری انتظامی فورس کی جو حالت آج ہے، کسی بھی زمانے میں نہیں تھی۔ کسی بھی وقت فورس اور اس کی کمان اتنی اچھی نہیں رہی۔ اتنے اچھے کمانڈر کبھی نہیں رہے۔ کسی بھی وقت انتظامی فورس کے ارکان تعداد اور صلاحیت کے لحاظ سے ایسے نہیں رہے۔ عوام کے درمیان یہ فورس جس طرح آج مقبول ہے، ویسی کبھی نہیں رہی۔ ماضی میں انتظامی افواج کو عوام میں مقبولیت حاصل نہیں رہی۔ جو لوگ انتظامی افواج یعنی پولیس اور جنڈارمری میں طویل برسوں کا تجربہ رکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور عوام کا نظریہ انتظامی افواج کے بارے میں کیا تھا۔ آج انتظامی فورس کو عوام میں مقبولیت حاصل ہے۔‏ عوام آپ کی وردی کو پسند کرتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔ یہ سب خدا کی نعمتیں ہیں لیکن اگر آپ نے کام چھوڑ دیا اور اپنے فرائض پر استحکام کے ساتھ عمل نہ کیا تو یہ صورتحال باقی نہیں رہے گی۔
انتظامی فورس کی تشکیل نو کو ایک عرصہ گزر رہا ہے اور لوگ انتظار کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ ادارہ جو ان کی نگاہوں میں کافی خوبیاں رکھتا ہے اور حکام نیز ان شخصیات سے جن کی باتوں کو وہ قبول کرتے ہیں، اس کی کافی تعریف سنی ہے، کیا کام کرے گی۔ وہ شہریوں کے دل میں وہ ضروری اطمینان وجود میں لاتی ہے یا نہیں؟ یہ انتظامی فورس کی پیشرفت کاایک راز ہے۔
ایک ایک شہری کو دل سے انتظامی فورس پر اطمینان اور اعتماد حاصل ہونا چاہئے۔ یعنی جب دکان بند کرتے وقت اس کو تشویش ہو تو کہے کہ انتظامی فورس کا اہلکار ہے۔ سفر پر گھر چھوڑ کے جائے تو کہے کہ انتظامی فورس ہے۔ اگر گاڑی پر بیٹھے تاکہ کسی جگہ سے روانہ ہو اور کسی دوسری جگہ بیابانوں میں پہنچے اور سلامتی سے متعلق کوئی مشکل پیش آئے، اگر کہیں کہ مشکل ہے، مجرمین سڑک پر آگئے ہیں اگر کہیں کہ کچھ لوگ، لوگوں کی عزت و آبرو کے لئے خطرہ پیدا کر رہے ہیں، اگرکہیں کچھ لوگ لوگوں کی عزت و ناموس پر حملہ کرتے ہیں تو اس کے دل میں امید کی شمع روشن ہو کہ انتظامی فورس ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ لوگ انتظامی فورس کو امن و امان برقرار کرنے والے اور سلامتی کے مرکز کی حیثیت سے دیکھیں۔ آپ کو یہ حالت وجود میں لانی چاہئے۔
اسلامی معاشرے میں اس بات کی اجازت نہیں ہوتی ہے اور نہیں دینی چاہئے کہ کچھ لوگ سرعام عوام کے دینی طور طریقوں کی توہین کریں اور اس کی حرمت پامال کریں۔ کون سا مرکز ان لوگوں کو روکے؟ انتظامی فورس۔ اسلامی معاشرے میں اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی اور نہیں دی جانی چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے زندگی کے اصولوں اور شہری، دیہی اور صحرائی قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی کی جائے۔ کوئی ماحول کو خراب کرے اورامن و امان کو برباد کرے۔ کون سا مرکز انہیں روکے؟ انتظامی فورس۔ اسلامی معاشرے اور اسلامی نظام میں شرعی قوانین، پارلیمنٹ کے قوانین، ملک کے اصول و ضوابط کے مطابق لوگوں کی آشکارا زندگی میں (دینی مقدسات کی بے حرمتی) ممنوع ہے اور اس کا ہونا جائز نہیں ہے، اگر دیکھنے میں آئے تو کوئی طاقتور ہاتھ اس قانون شکنی کو روکے، وہ ہاتھ کس کا ہے ؟ انتظامی فورس کا۔
انتظامی فورس کس چیز کے ذریعے مقبولیت حاصل کرسکتی ہے؟ قانون کی سخت پابندی اور اس چیز کے ذریعے جو قوانین اس سے چاہتے ہیں۔ کسی کے ساتھ بھی مروت نہ کریں، کسی جماعت کا بھی خیال نہ کریں، کسی بھی طبقے اور گروہ کے ساتھ رعایت نہ کریں۔ اگر یہ کام ہوا اور قانون سے ماوراء رعایتیں دی گئیں تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔ انتظامی فورس کو جس چیز کا خیال رکھنا ہے وہ قانون کی پابندی، اخلاق کی پابندی اور قانون کے نفاذ کا خیال ہے۔ البتہ قانون کے نفاذ میں دو طرح سے عمل کیا جاسکتا ہے۔ ایک بد اخلاقی، کج خلقی، بدمزاجی، تکبر اور نخوت وغیر ہ کے ساتھ اور دوسرے خوش اخلاقی اور مہربانی لیکن استحکام کے ساتھ۔ اس دوسرے طریقے پر عمل ہونا چاہئے۔ عمل میں استحکام اور اچھا اخلاق۔
کبھی یہاں ٹیلیفون کرتے ہیں یا خط لکھتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ فلاں محلے میں کچھ افراد لوگوں کی عزت و آبرو پر حملہ کرتے ہیں۔ ہم ان معاملات میں کہاں جائیں؟ آپ کے پاس۔ ظاہر ہے کہ یہ آپ کا فریضہ ہے۔ کبھی ٹیلیفون کرتے ہیں کہ فلاں گھر کو اخلاقی برائیوں کے مرکز میں تبدیل کردیا ہے۔ ہمارا آرام اور نیند خراب کرتے ہیں۔ شورمچاتے ہیں، ہلڑ ہنگامہ کرتے ہیں اور بد امنی پیدا کرتے ہیں۔ واقعی اس قسم کے معاملات میں ہم کس سے رجوع کریں؟ انتظامی فورس سے۔ کبھی شکایت کرتے ہیں کہ کچھ افراد آتے ہیں اور فلاں گلی میں منشیات تقسیم کرتے ہیں یا منشیات کی خریدوفروخت کرتے ہیں۔ اس قسم کے معاملات میں ہم کہاں جائیں؟ انتظامی فورس کے پاس۔
فراموش نہ کریں کہ معاشرہ انقلابی اور اسلامی ہے۔ اگر کوئی معاشرہ اسلامی اور انقلابی نہیں ہے تو انتظامی فورس اس معاشرے کے تقاضوں کے مطابق ذمہ داری کا احساس کرتی ہے لیکن جس معاشرے میں معیار اسلام ہے وہاں انتظامی فورس کی حساسیت اس چیز کے مطابق ہونی چاہئے جو اس معاشرے کے مد نظر ہے۔ اس معاشرے میں کن چیزوں کو اہمیت حاصل ہے ؟ ان کا تحفظ اور حفاظت اور ان کے مطابق کسی رو رعایت کے بغیر عمل آپ کا، انتظامی فورس کا کام ہے۔ یہ بہت سخت اور سنگین لیکن بہت موثر کا م ہے۔
بد امنی صرف یہ نہیں ہے کہ گھر، دکان، بازار اور سڑک پر چور ہو، یہ بد امنی کی ایک قسم ہے، یہ مالی بند امنی ہے۔ عزت اور ناموس کی بد امنی بھی ہوتی ہے۔ اس کو روکنا بھی آپ کا کام ہے۔ اخلاقی بد امنی بھی ہے۔ اس کی روک تھام بھی آپ کا ہی کام ہے البتہ اخلاقی بدامنی کا ایک مرحلہ ثقافتی ہے۔ ایک مرحلہ خفیہ کام سے تعلق رکھتا ہے ایک مرحلہ جڑوں کا پتہ لگانا ہے۔ یہ دوسرے اداروں کے کام ہیں لیکن جو چیز آنکھوں کے سامنے ہو اور معاشرے میں اخلاقی سلامتی نہ ہونے کا موجب بنے، اس کو روکنا انتظامی فورس کا کام ہے۔
ایسانہیں ہونا چاہئے کہ انتظامی افواج کے ادغام کے بعد کوئی کہے کہ ان امور کی اہمیت کم ہوگئي ہے۔ اس سے پہلے، ایک خاص ادارہ یہ کام کرتا تھا لیکن اب نہیں البتہ ایسا نہیں ہے لیکن اگر یہ ظاہر ہو کہ اہمیت کم ہوگئی ہے تو ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے۔ یہ باتیں غلط ہیں، ملک کو اس ادغام کی ضرورت تھی۔ پارلیمنٹ نے پاس کیا، فعال اور محنتی وزیر نے اس پر کام کیا اور اس کام پر مامور لوگوں نے الحمد للہ پوری لگن سے کام کیا۔ آج انتظامی فورس بہت اچھی، باعظمت اور طاقتور فورس ہے لیکن ہر میدان میں اس کی کارکردگی اور افادیت ثابت ہونی چاہئے۔
بھائیو' آج عالمی سطح پر ہمیں ایسا کام کرنا ہے کہ ہمارے ملک میں اسلامی عمل اور اسلام پرستی نمایاں ہوکے دنیا کی اقوام کو نظر آئے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان مسلمان ملکوں میں جہاں اسلامی محاذ اور اسلامی جماعتیں اپنے جذبات کا اظہار کررہی ہیں، دشمنان اسلام کیسا ردعمل دکھا رہے ہیں اور کس طرح ان جذبات کو کچلنے کے لئے تمام وسائل سے کام لے رہے ہیں۔ اسلام کے طرفداروں کو یہ موقع ملنا چاہئے کہ وہ اسلام کو اتنا پرکشش اور شیریں دکھائیں کہ ان کے جذبات کبھی بھی ٹھنڈے نہ پڑیں اور یہ امید ان کے دلوں میں باقی رہے اور یہ کام اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ہمارا معاشرہ، مادی لحاظ سے بھی اورمعنوی لحاظ سے بھی، نظم و قانون کے لحاظ سے بھی اور سلامتی وسماجی کوششوں کے لحاظ سے بھی، ہر اس میزان اور سطح پر جو کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے میں مد نظر ہوسکتی ہے، پیش پیش رہے۔ ان میں سے ایک یہی آپ کا انتظامی فورس کام ہے۔
امید ہے کہ انشاء اللہ خداوندعالم آپ کو توفیق عطا کرے گا اور آپ کی نصرت کرے گا۔ آپ برادران عزیز جہاں بھی ہیں، کوشش کریں کہ اس محبت، اس ہم آہنگی اور یک جہتی کی ہر سطح پر حفاظت کریں۔ اس فریضے کی بہتر سے بہتر ادائيگی میں جوآپ کے کندھوں پر ہے، ایک دوسرے کی مدد کریں۔ امید ہے کہ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کی پاکیزہ دعائیں آپ کے شامل حال ہوں گی اور ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا قلب مقدس اور شہداء کی ارواح مقدسہ انشاء اللہ ہم سب سے راضی ہوگی۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- امثال وحکم، ج 4 ص 1818
2- قریش ؛3
3- قریش ؛3
4- شرح نہج البلاغہ، ج 6 ص 340
5- مشکاۃ الانوار ص 46