قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

برادران عزیز؛ بہت بہت خوش آمدید۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال آپ سب پر اپنا لطف و کرم نازل کرے گا اور دنیا و آخرت میں آپ کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے گا۔ یہ اجتماع بڑی مناسبت رکھتا ہے؛ اس میں پولیس بھی ہے کہ جو پورے ملک میں لوگوں کی جان و مال اور زندگي کے تحفظ کی ذمہ دار ہے، اور سوشل سیکورٹی کا ادارہ بھی ہے کہ وہ کمزور اور بےکس طبقات کو سلامتی اور سیکورٹی فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔
ایک جملہ اس ادارے کے بارے میں عرض کروں گا کہ اسلامی جمہوری نظام ایک ایسا نظام ہے کہ جو بنیادی طور پر اس سوشل سیکورٹی سے متفق ہے کہ جو آج اس صورت میں دنیا میں رائج ہے؛ یہ ان نظاموں میں سے نہیں ہے کہ جو بنیادی اور فلسفی شکل میں معاشرے میں سیکورٹی کے کاموں کے مخالف ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اسلامی جمہوری حکومت اور ملک کے حکام کو خصوصی شکل میں ان طبقات کو کہ جن کو مدد کی ضرورت ہے، امداد کے کاموں میں شامل کرنا چاہیے کہ یہ کام سوشل سیکورٹی کے ادارے میں مختلف قسم کے کاموں اور سوشل انشورنس کی صورت میں انجام پا رہا ہے۔ بنابریں، یہ کام اسلامی نظام کی بنیاد اور فلسفہ سے مطابقت رکھتا ہے اور جتنی کوشش کی جائے، نئے نئے کام کیے جائيں، صحیح شکل میں اس کو پھیلایا جائے اور مدد اور امداد اس نوعیت کی ہو کہ جو گھرانوں کو اس کے مطابق سعی و کوشش کی ترغیب دے اور معاشرے میں جمود پیدا نہ کرے بلکہ حرکت پیدا کرے، یہ امر اسلامی جمہوری نظام کے اہداف و مقاصد سے اتنی ہی زیادہ مطابقت رکھے گا۔ حکومت بھی مدد کرے تاکہ وہ طبقے جو سوشل سیکورٹی کے تحت آتے ہیں- جیسے ریٹائرڈ افراد- ان میں سے ہر ایک پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ریٹائرڈ افراد ملک کی سرگرم افرادی قوت ہے کہ جس نے کچھ عرصہ قبل کوشش کی، محنت و زحمت کی، ان میں سے بہت سوں نے شب و روز اور اپنی عمر اور جوانی کام میں صرف کی اور ملک کو ان کی زندگی کی مسلسل محنت اور اس کوشش کا بدلہ اور صلہ دینا چاہیے۔ یہ بھی جان لیجیے کہ ریٹائرڈ افراد کی موجودہ حالت درحقیقت ہمیشہ ایک نمونے کی صورت میں حکومت کے موجودہ ملازمین کی آنکھوں کے سامنے رہے گي۔ ملک میں ریٹائرڈ افراد کی حالت جتنی اچھی ہوگي، حکومت کے موجودہ ملازمین اتنی ہی زیادہ دلجمعی سے کام کریں گے؛ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ جب وہ اس حالت کو پہنچیں گے تو ان کے حالات اچھے ہوں گے۔ اگر خدانخواستہ ریٹائرڈ افراد سے بےاعتنائی، بےاحترامی اور بےتوجہی برتی گئی اور وہ مشکل سے دوچار ہوئے، تو یہ آج کے ملازمین کے لیے آئینہ فردا ہوگا۔ یعنی وہ نظر دوڑائیں، دیکھیں کہ ان کا آنے والا کل یہ ہے؛ تو کام سے ان کا دل اچاٹ ہو جائے گا اور وہ اپنی نوکری کے ساتھ نامناسب کاموں کی طرف رخ کریں گے۔ اس لیے حکومتی انتظامیہ کو بنیادی صورت میں ریٹائرڈ افراد- خاص طور پر ان افراد کے مسئلے پر کہ جن کی سوشل سیکورٹی کے ادارے یا حکومتی اداروں کے تحت انشورنس ہو چکی ہے- توجہ دینی چاہیے اور خصوصی طور پر ان کے لئے کام کرنے چاہئیں۔
پولیس کا مسئلہ، ایک بنیادی اور اہم مسئلہ ہے۔ اگر ہم انسانی زندگي کی ضروریات کو اہم ابواب میں تقسیم کرنا چاہیں اور مثلا دو ابواب، تین ابواب اور حداکثر چار ابواب تک پہنچ جائے تو ان چند ابواب میں سے ایک باب سلامتی یا سیکورٹی کا باب ہوگا۔ سیکورٹی کے بغیر نہ کھانا مزہ دیتا ہے، نہ گھرانہ انس و محبت کا ماحول قائم رکھ پاتا ہے اور نہ ہی نوکری اور آمدنی فائدہ دیتی ہے۔ سیکورٹی نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہے۔ سیکورٹی ہوا کی مانند انسان کے لیے مسلسل ضروری ہے۔ اگر معاشرے میں سیکورٹی نہ ہو تو گھٹن کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے؛ اس مجموعہ کی مانند کی جس کے پاس ہوا نہ ہو۔ یہ سیکورٹی کی اہمیت ہے۔ سیکورٹی کا تعلق سب سے ہے۔ تہران کی سیکورٹی اور امن و امان ملک کے جنوب مشرقی اور مغربی سرحدی علاقوں کے لوگوں کی سیکورٹی اور امن و امان سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ خوشحال لوگوں کی سیکورٹی کہ جن کے پاس سرمایہ اور وسائل ہیں، اس مزدور کی سیکورٹی سے زیادہ واجب نہیں ہے کہ جس کی نظر روزانہ کی آمدنی پر ہے۔ لہذا سیکورٹی کا تعلق سب سے ہے۔ پولیس بھی سب سے تعلق رکھتی ہے۔
جو نکتہ پولیس کے محترم کمانڈر نے ذکر کیا کہ جو بالکل صحیح نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ طاغوتی اور غیرعوامی حکومت کے دور میں پولیس کی بنیاد خاص طبقوں کے امن و امان کے تحفظ کے لیے رکھی گئی تھی اور دوسرے لوگوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا تھا، اس کی کوئي اہمیت نہیں تھی! میں اسی گزشتہ حکومت کے دور میں ملک کے سرحدی علاقوں میں جلاوطنی کی زندگي گزار رہا تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ وہاں کی صورت حال کیسی تھی۔ وہاں کا امن و امان اور سیکورٹی علاقے کے بدمعاشوں اور غنڈوں کے سپرد کر دی گئی تھی۔ امن و امان اور سیکورٹی کا مطلب علاقے کے سرمایہ داروں، بڑے افراد اور زمیندار حضرات کی سیکورٹی تھی اور دوسروں کو اس کا کوئي فائدہ نہیں تھا۔ اسی بنا پر اگر اس ملک کے علاقوں اور خاص طور پر دور دراز کے علاقوں میں کوئی بااثر شخص اپنے نوکروں، مزدوروں اور ماتحت افراد کو مارتا تھا، قتل کرتا تھا، قید کرتا تھا، ان کی زندگي اجاڑ دیتا تھا اور ان کی اور ان کے بیوی بچوں کی سلامتی اور سیکورٹی سلب کر لیتا تھا، تو کوئي اعتراض کی بات نہیں تھی اور کوئي نہیں کہتا تھا کہ آپ نے کیوں یہ کام کیا! اگر تھانے میں شکایت بھی کی جاتی تھی تو شکایت کرنے والے کو دھر لیا جاتا تھا! یعنی سیکورٹی، خاص طبقوں کی سیکورٹی تھی، نہ کہ عام سیکورٹی۔
فرض کیجیے کہ تہران اور بعض دیگر شہروں کی مانند بڑے شہروں میں پولیس کی بازاروں گلیوں اور سڑکوں پر ہر جگہ نظر اور نگرانی تھی لیکن درحقیقت یہ عظیم ادارہ کہ اس زمانے میں جو ملک کی سیکورٹی کے لیے قائم کیا گيا تھا، اس کا ہدف و مقصد یہی ( خاص طبقوں کی حفاظت کرنا) تھا۔ اس زمانے میں پولیس کے اندر مؤمن بااخلاص خدمت گذار اور محنتی افراد کم نہیں تھے- ہم قریب سے انہیں جانتے تھے؛ بہت اچھے لوگ تھے لیکن اعلی حکام سیکورٹی سب لوگوں کے لیے نہیں چاہتے تھے۔
اسلامی نظام میں معاملہ اس طرح نہیں ہے۔ سیکورٹی، سب لوگوں کی سیکورٹی ہے۔ زندگي کے تمام شعبوں میں سیکورٹی انسان کی ایک ضرورت ہے۔ عبادت کے دور میں، تعمیرنو کے دور میں، تجارت کے زمانے میں اور انسان جو بھی کام کرنا چاہتا ہے اس کے اندر سیکورٹی کا محتاج ہے۔ یہاں پر پولیس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ پولیس کے جوانو! آپ، قدرت و طاقت کے لحاظ سے کہ جو ملک میں امن و امان میں خلل ڈالنے والے عناصر کو ختم کر سکے اور اخلاق، شرافت، نجابت، امانت اور پاک دامنی کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو جتنا بہتر بنائيں کم ہے۔ اسلامی نظام کی پولیس جیسا کہ یہ حضرات اپنے ترانے میں پڑھ رہے تھے کہ ہم ٹوٹے ہوئے دلوں کی پناہ ہیں حقیقت میں ایسی ہی ہونا چاہیے۔ پولیس کو خوف زدہ اور ڈرے ہوئے دلوں اور ان جانوں کی محفوظ پناہ گاہ ہونا چاہیے کہ جو محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ایک انسان یا ایک گروہ سے خطرہ ہے۔ پولیس کے وجود کو عوام میں امن و سلامتی کا احساس پیدا کرنا چاہیے۔ یہ اسلامی جمہوری نظام میں پولیس کی شان ہے۔
اس کے باوجود کہ پولیس میں یہ سب کام ہوئے ہیں اور الحمد للہ کیفیت کے لحاظ سے کافی کوششیں اور کام ہوئے ہیں- خاص طور پر حالیہ عرصے میں محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کی اندرونی تعمیرنو کے لیے کہ جو وہی معنوی اور انسانی تعمیرنو ہے، ایک سنجیدہ اور حقیقی مہم شروع ہوئی ہے اور پولیس کے اندر واقعی ان افراد کے خلاف کارروائی ہوتی ہے کہ جو بدعنوان ہیں۔ اس عمل کو ہماری تائید حاصل ہے اور ہونی بھی چاہیے اور سنجیدگي کے ساتھ اس کام کو جاری رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم پھر بھی اس پر تاکید کرتے ہیں۔
میرے عزیزو! جتنا بھی ہو سکتا ہے پولیس کی اندرونی فضا کو صاف ستھرا بنانے پر زور دیجیے۔ جتنا بھی ہو سکتا ہے آپ پولیس کے اندر چھوٹی سے چھوٹی خلاف ورزیوں کو بڑا سمجھیے۔ عوام آپ کے کام کے قدرداں ہیں۔ آب یہ نہ دیکھیے کہ اخبار یا مضمون مختلف مقاصد کے تحت کہ جو بعض اوقات بعض صحافی رکھتے ہیں، ایک چھوٹے سے مسئلے پر ہنگامہ کھڑا کر دیں اور بے بنیاد بہانوں سے پولیس کی ساکھ اور اعتبار پر سوالیہ نشان لگا دیں۔ عوام جب دیکھتے ہیں کہ وہ کام کر سکتے ہیں، روزی کما سکتے ہیں، تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، ان کے بچے ملک کے طول و عرض میں اس گاؤں سے اس گاؤں میں جا سکتے ہیں، آئیں اور تعلیم حاصل کریں، ملک کے دور دراز علاقوں میں تعمیرنو کے کام اتنے وسیع پیمانے پر کہ جو آج انجام پا رہے ہیں، تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ امن و امان قائمق ہے۔ اگر ملک کے اوپر امن و سلامتی کی چادر نہ تنی ہو تو کیا یہ تمام کام اور کوششیں ہو سکتی ہیں؟ معلوم ہوا کہ پولیس حاضر، نگران اور سرگرم ہے۔ ان باتوں کو لوگ سمجھتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ مطمئن نہ ہوں۔ اگر ایک مقام پر آپ نے محسوس کیا کہ ملک کے کسی حصے میں پولیس کا عہدیدار ہے کہ جو اپنے فرائض پر عمل نہیں کر رہا ہے، اس کے پیچھے جائیے اور اس کے کام کا جائزہ لیجیے۔ اگر آپ نے کوتاہی دیکھی تو لازمی طور پر اس کوتاہی اور قصور کی تحقیقات کیجیے۔ اگر خدانخواستہ آپ نے کسی کی خلاف ورزی یا خیانت دیکھی تو بالکل بھی چشم پوشی نہ کیجیے۔ ایک وہ مقام کہ جہاں چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے، یہی ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی نے ایک ایسے ادارے میں کہ لوگوں کو جس سے یہ امید ہے کہ وہ خلاف قانون کام کرنے والوں، لوگوں کے آرام و سکون اور امن و امان کے لیے خطرہ بننے والوں کے خلاف ڈٹ جائے گا، خلاف ورزی کا احساس کریں اور خدانخواستہ اس ادارے کے اندر سے لوگوں کے امن و امن کو نشانہ بنایا جائے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے، تاکہ پولیس وہی چیز بن جائے کہ جس کی اسلامی نظام کو ضرورت ہے؛ یعنی طاقتور، سربلند، عزیز، مہربان، محبت والی اور ہر جگہ پر حاضر۔ اس شخص کے مقابلے میں کہ جو لوگوں کی زندگي اور امن و امان کے لیے خطرہ ہے، انتہائی بہادر اور جفاکش؛ اس شخص کے مقابلے میں کہ جو خطرے کا شکار ہے، باپ اور بھائي کی مانند مہربان اور رحم دل۔ اگر ایسا ہو گیا، تو ملک امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا اور سب لوگ اپنے کام اور ذمہ داریاں انجام دے سکیں گے۔ اس وقت ہر کوشش کا معنوی ثواب اور نیکی آپ کو ملے گي اور آپ بھی اس میں شریک ہوں گے۔ ثواب الہی کو تو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دنیوی مسائل معاملے کا ایک حصہ ہیں۔ وما عنداللہ خیر و ابقی (1) اہم ہے۔ جان لیجیے آپ جس رات، جس گھڑی اور جس لمحہ رنج و غم اٹھاتے ہیں، حفاظت کا فریضہ انجام ہیں، کوشش کرتے ہیں اور زحمت اٹھاتے ہیں، کرام الکاتبین اسے لکھتے ہیں، وہ آپ کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے اورجب آپ کو اس کی انتہائي ضرورت ہے تو یہ عمل صالح کی مانند آپ کے لیے حاضر رہے گا اور آپ کی مدد کے لیے آئے گا۔
اچھی عاقبت ان لوگوں کے لیے ہے کہ جو اس راستے میں اس طرح قدم اٹھاتے ہیں۔ ملک ایک ایسے مرحلے میں ہے کہ اسے ان مخلصانہ کوششوں کی شدید ضرورت ہے؛ خصوصا عوام کا ایک بڑا حصہ کہ جو انتہائی اخلاص کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے اور اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی قوانین کے مطابق قدم اٹھانا اور کام کرنا چاہتا ہے اور خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتا۔ خلاف قانون کام کرنے والوں کے خلاف کارروائي ہونی چاہیے؛ سب کو ایکشن لینا چاہیے۔ اس کا کچھ حصہ پولیس سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ کچھ حصہ عدلیہ سے تعلق رکھتا ہے۔ خلاف ورزی کرنے والے کے مقابلے میں کوتاہی اور چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے، تاکہ وہ لوگ، جن کو خلاف ورزی سے نقصان پہنچتا ہے، پرامید ہوں۔ جب ہم ادارے کی بات کرتے ہی تو چاہے وہ عدلیہ کا ادارہ ہو، چاہے قانون ساز ادارہ ہو اور چاہے پولیس کا ادارہ وغیرہ سب کو ان لوگوں کے خلاف کارروائي کرنی چاہیے کہ جو لوگوں کے مال و دولت سے کھیلتے ہیں اور ناجائز اور غیرقانونی دولت حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی کام سے دریغ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ہیں جو کوشش کرتے ہیں اور حقیقتاّ چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام میں ایک نیا اعلی اور ممتاز طبقہ قائم کریں۔ انتخاب، تقرریوں، چالاکیوں، ہاتھ پاؤں مارنے، مال و دولت کے مراکز تک رسائی اور ناجائز طریقے سے کہ جسے چالاکی سے سیکھا ہے، لوگوں کے مال پر ہاتھ صاف کریں اور ایک نیا طبقہ بے درد خوشحال اور اعلی افراد کا طبقہ قائم کریں۔ اسلامی جمہوری نظام نے بے درد متمول افراد، مخالفین اور خلل ڈالنے والوں کے خلاف اُس طرح سخت کارروائي کی؛ اب اسلامی نظام کے اندر سے ایک نیا بےدرد متمول طبقہ پیدا ہو جائے! لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ پروردگار کے فضل سے اسلام اور انقلاب کے مخلص افراد اس طرح کی بڑی گمراہی اور انحراف پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ حرام پیسہ رکھنے والے طبقے کا مقابلہ کیا جائے تو فوراّ کچھ لوگ پریشان ہو جاتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ میں سرمایہ کاری کی سیکورٹی خطرے میں پڑ گئی ہے! نہیں؛ سرمایہ کاری اور اقتصادی سعی و کوشش کا تحفظ خطرے میں نہیں پڑتا، یہ تو سرمایہ کاریوں کی مدد ہے۔ عدلیہ، قانون ساز ادارہ اور ملک کے مختلف اداروں میں غیر قانونی کام کرنے والوں کے خلاف کارروائي کرتے ہیں نہ کہ خلاف قانون کام نہ کرنے والوں کے خلاف۔ جو غلط کام نہیں کرتا ہے وہ کیوں ڈرے؟ جو غلط کام کرتا ہے اور ڈرتا ہے، تو اسے ڈرنے دیجیے اور بدامنی کا احساس کرنے دیجیے۔ اسلامی نظام میں گناہ گار آدمی کو بدامنی کا احساس کرنا چاہیے۔ جس نظام میں بھی بےگناہ ڈریں کہ کہیں ان کے خلاف کارروائي نہ ہو جائے اور بڑے بڑے گناہ گار آرام و آسائش کا احساس کریں، تو وہ نظام ایک گمراہ اور منحرف نظام ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنا نظام ایسا نہ ہونے دیں۔ اسلامی نظام میں قانون کے خلاف کام کرنے والے، گناہ گار اور غلط کام کرنے والے کو - جو بھی ہو - تشویش اور پریشانی کا احساس کرنا چاہیے اور اسے جان لینا چاہیے کہ قانون اور انصاف کے ہاتھ جلد یا بدیر اس کے گریبان تک پہنچ جائيں گے۔ انصاف کے ہاتھ مضبوط ہونے چاہئیں۔ عدلیہ کو مضبوط ہونا چاہیے۔ پولیس کو اس دائرے میں مضبوط ہونا چاہیے جو قانون نے اس کے لیے معین کیا ہے۔ کمزور عوام سے قدرت و طاقت اور فولادی ہاتھ سے نمٹنا بری بات ہے؛ پنکھڑیوں کو چنتے وقت سخت ہاتھ کا استعمال نقصان دہ ہے؛ لیکن پتھروں کو ہٹاتے وقت سخت ہاتھ ہی ضروری ہے۔ غلط کام کرنے والے آدمیوں کو غیرمحفوظ ہونے کا احساس ہونے دیجیے۔ آپ کس چیز سے ڈرتے ہیں؟ کہتے ہیں ہمارے پاس قانون نہیں ہے۔ میں مجلس شورای اسلامی (پارلیمنٹ) سے عرض کرتا ہوں: محترم اراکین پارلیمنٹ! اگر عدلیہ اور پولیس کے پاس غیرقانونی دولت کا مقابلہ کرنے کے لیے قانون کی کمی ہے تو جلد از جلد ان کے لیے قانون فراہم کیجیے۔ میرا خیال ہے کہ بعض مقامات اور مواقع پر قانون کی کمی ہوگي؛ کیونکہ پیش آیا ہے اور ہم نے دیکھا ہے۔
اسلامی نظام، عدل و انصاف کا نظام ہے۔ آپ لوگ جو آخری زمانے میں خورشید مہدویت کے ظہور کے آرزومند اور مشتاق ہیں اور اس وقت تقریبا بارہ سو سال ہو چکے ہیں کہ ملت اسلام اور شیعہ، مہدی موعود عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف و جعلنااللہ فداہ کے ظہور کے منتظر ہیں، ان بزرگوار کے لیے کون سی خصوصیت بیان کرتے ہیں؟ > (2) یہ نہیں کہتے کہ > یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ اس نکتے پر ہم کیوں توجہ نہیں دیتے ہیں؟ اگرچہ عدل و انصاف کا تعلق دین سے ہے لیکن ہزاروں سال سے امت اسلامیہ عدل و انصاف کی دعا کر رہی ہے۔ یہ اسلامی نظام وجود میں آیا ہے؛ اس کا اولین کام عدل و انصاف پر عمل درآمد کرنا ہے۔ عدل و انصاف واجب ترین کام ہیں۔ ہم رفاہ و بہبود بھی عدل و انصاف کے دائرے میں چاہتے ہیں۔ مختلف قسم کے کام جدوجہد، جنگ، تعمیرنو، ترقی و پیشرفت سب عدل و انصاف کے لیے چاہتے ہیں؛ اس لیے کہ معاشرے میں انصاف قائم ہو، سب معاشرے کی اچھائیوں سے استفادہ کر سکیں اور کچھ لوگ محروم پسماندہ اور مظلوم واقع نہ ہوں۔ عدل و انصاف کے ماحول میں ہی انسان ترقی و پیشرفت کر سکتے ہیں، اعلی انسانی درجات و مقامات تک پہنچ سکتے ہیں اور اپنا انسانی کمال حاصل کر سکتے ہیں۔ عدل و انصاف انسان کے آخری کمال کے لیے مقدمۂ واجب ہے۔ اس معاملے سے کس طرح بےاعتنائی برتی جا سکتی ہے؟ یہ دنیا انصاف سے دیکھیں تو ایسی دنیا ہے جو عدل و انصاف سے بےاعتنا ہے۔ ہم اس سلسلے میں کہیں گے کہ ایک حکومت کی حیثیت سے ہم دنیا میں بہت تنہا ہیں۔ دنیا میں جو نعرے لگائے جاتے ہیں، آپ ان کو دیکھیے! دنیا کی حکومتوں کی بنیاد عدل، انسانوں کے حقوق کی رعایت اور کمزوروں اور محروموں کی رعایت پر استوار نہیں ہے۔ آپ دیکھیے آج صیہونی حکومت مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے؛ اسلام اور اسلامی مقدسات کے ساتھ کیا کر رہی ہے؟! دیکھیے امریکہ، کہ ان واقعات کا گناہ عظیم شیطان بزرگ امریکی حکومت کی گردن پر ہی ہے، کس طرح ان کی حمایت کر رہا ہے! کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے، عالم اسلام کا ضمیر جوش میں آتا ہے، عزیز ترین اسلامی مقدسات کی توہین کی جاتی ہے، عالم اسلام میں ہر طرف آوازیں بلند ہوتی ہیں؛ لیکن امریکی اظہار افسوس کے دو لفظ بھی نہیں بولتے! عالم اسلام کے علماء، دانشور اور عوام صیہونیوں کی اس توہین آمیز حرکت کے مقابل جوش میں آ گئے، مجھے واقعات کی ماہیت سے کوئي غرض نہیں ہے؛ عالم اسلام کی حرکت اور اقدام اہم واقعہ ہے، لیکن وہ اس عظیم عوامی حرکت و اقدام کے مقابل صرف افسوس کا اظہار کرتے ہیں؛ بجائے اس کے کہ ظالم سفاک اور قانون شکن صیہونیوں کی حمایت اور اپنے رویے پر تھوڑی سی نظرثانی کریں! یہ ، انسانیت ، انسانی اقدار اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی خواہش سے بےاعتنائي نہیں ہے؟ انسان کی طرفداری کا دعوی بھی کرتے ہیں! آج دنیا میں سماجی انصاف کا نعرہ مظلوم نعرہ ہے۔ یہ پرچم بھی آپ کے ہاتھ میں ہے؛ جس طرح آج معنوی اور روحانی اقدار کے دفاع کا پرچم ملت ایران کے ہاتھ میں ہے۔ البتہ اقوام میں آپ کے بہت سے طرفدار اور حامی ہیں؛ خاص طور پر مسلم اقوام میں بہت سوں کے دل ملت ایران کی اس حرکت و اقدام اور ان نعروں کے لیے دھڑکتے ہیں لیکن حکومتوں کی بات اور ہے۔
سماجی انصاف کا نعرہ بھی اسی طرح ہے۔ ملک میں سماجی انصاف کے مسئلے پر توجہ میں ایک لمحے کے لیے بھی کمی نہیں آنی چاہیے۔ البتہ یہ معاملہ نعرے والا معاملہ نہیں ہے، زبانی جمع خرچ سے بھی مسئلہ ختم نہیں ہو گا؛ تمام اداروں کو کوشش کرنی چاہیے۔ یہی کام جو آج ملک میں انجام پا رہے ہیں، سب ضروری ہیں اور انجام پانے چاہئیں؛ البتہ ان کا رخ سماجی انصاف کے قیام کی جانب ہونا چاہیے۔ انتظامی ذمہ داروں سے لے کر عدالتی حکام، قانون سازوں تک، علمائے کرام تک، ریڈیو ٹی وی پروگراموں کے میزبانوں تک، صحافیوں تک، روشن خیال افراد تک، اور دیگر لوگوں تک سب کو یہ اپنا فریضہ سمجھنا چاہیے۔ اگر ملک میں سماجی انصاف پر توجہ ذرا سی بھی کم ہوئی، تو ملک میں جو کام بھی انجام پائے گا، وہ کمزور طبقوں اور عام لوگوں کے نقصان میں اور چالاک، بدمعاش اور دور تک پہنچ رکھنے والے چند افراد، قانون شکن قانون دانوں کہ جو قانونی راستوں کو جانتے ہیں اور قانون شکنی سے بھی واقف ہیں، کے فائدے میں ہو گا۔ یہ تمام کام سب کے کاندھوں پر ہیں؛ ان میں سے کچھ کام کہ جو بہت اہم ہیں، آپ عزیز پولیس والوں کے کاندھوں پر ہیں۔ اصلاح، فروغ کے راستے اور اسی طرح بقدر ضرورت اقدامات میں اضافے کے راستے کو سنجیدگي کے ساتھ جاری رکھیے؛ جیسا کہ الحمد للہ کچھ عرصے سے محسوس ہو رہا ہے کہ پولیس میں واقعی ایک حرکت پیدا ہوئي ہے۔ اسی حرکت کو قدرت و طاقت کے ساتھ جاری رکھیے؛ خدا بھی آپ کی مدد کرے گا۔ البتہ بجٹ اور تعاون کے شعبے کے حکام کو بھی اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور جہاں تک ملک کے وسائل اجازت دیتے ہیں تعاون اور مدد کرنا چاہئے۔
انشاءاللہ حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی پاکیزہ دعائيں آپ کے شامل حال ہوں اور اُس دنیا میں ہمارے امام بزرگوار (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر آپ کے لیے دعاگو ہو اور یقینا یہ دعائيں اثر کریں گی۔ انشاءاللہ شہدا کی پاک ارواح کی برکات روزبروز آپ کے شامل حال ہوں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

1) قصص : 60
2) کفایۃ الاثر ، ص 89