چونکہ 7 اکتوبر کے آپریشن میں صیہونیوں کی سیکورٹی اور انٹیلیجنس برتری، جس پر وہ برسوں سے فخر کرتے چلے آ رہے تھے، پوری طرح مٹی میں مل گئي اس لیے تل ابیب کے حکام نے غزہ میں فلسطینی عورتوں اور بچوں کے نسلی تصفیے کے علاوہ ایک اور اسٹریٹیجی اختیار کی اور وہ مزاحمتی محاذ کے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ تھی۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد، جسے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، صیہونیوں نے مزاحمتی محاذ کے کئي رہنماؤں اور کمانڈروں کو شہید کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی مزاحمتی معاشرے کے خلاف ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن کی مثال نہیں ملتی تاکہ اس معاشرے کو مزاحمتی محاذ سے الگ کر سکیں۔ ان جرائم میں غزہ کے مختلف علاقوں خاص طور پر شمالی غزہ کے شدید محاصرے سے لے کر لبنان میں پیجروں کے دھماکے تک گوناگوں مجرمانہ اقدامات شامل ہیں۔

بڑی واضح سی بات ہے کہ  صیہونی حکومت اس پالیسی کے ذریعے ایک بنیادی ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے اور وہ مزاحمت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ چیز کچھ دن پہلے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے مرحوم رہنما یحییٰ سنوار کی دلیرانہ شہادت کے بعد صیہونی حکومت کے وزیر جنگ یوآف گالانت کے بیان میں بھی پوری طرح عیاں ہے۔ یحییٰ سنوار کی شہادت پر، جو میدان جنگ میں اور ٹینک کے مقابلے میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے، خوشی کے نشے میں چور گالانت نے بڑے متکبرانہ لہجے میں فلسطینی مزاحمت کے جانبازوں کو مخاطب کر کے کہا تھا: "اپنے ہاتھ اوپر کرو اور ہتھیار ڈال دو۔ قیدی بنائے گئے ہمارے لوگوں کو رہا کرو اور گھٹنے ٹیک دو۔"(1) حماس تحریک کے پولیت بیورو کے سربراہ کی شہادت کے بعد جنگی جرائم کے ارتکاب کا حکم دینے والے اس شخص کا لہجہ اور الفاظ، صیہونیوں کی طرف سے صرف ایک پیغام پہنچاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ حماس کے رہنماؤں اور کمانڈروں کی موت کے بعد اس گروہ کا کام تمام ہو چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیوں حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا، صیہونیوں کی خام خیالی اور خواب کے علاوہ کچھ نہیں ہے؟

حماس کے تنظیمی ڈھانچے کا کسی فرد پر منحصر نہ ہونا

اپنے ایک جنگي ہدف یعنی حماس سے ہتھیار رکھوانے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے قریب ہونے کی بات لوگوں کے ذہن میں ڈالنے کی صیہونیوں کی کوشش ایسے عالم میں ہے کہ جب اس مزاحمتی گروہ کا ایک بڑا ہی منظم تنظیمی ڈھانچہ ہے اور یہ ڈھانچہ بنیادی طور پر افراد پر منحصر نہیں ہے کہ ان کے چلے جانے سے اس کا شیرازہ بکھر جائے۔ یہ وہی بات ہے جس کی جانب سیاسی مسائل کے ماہر  فؤاد خفش اشارہ کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: "اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی طاقت، اس کے منظم تنظیمی ڈھانچے میں نہاں ہے۔ یہ ڈھانچہ افراد پر نہیں بلکہ خود پر منحصر ہے۔" یہ سیاسی تجزیہ نگار، حماس کی راہ جاری رہنے پر یحییٰ سنوار کی شہادت کے اثرات کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں: "جو ڈھانچہ کسی فرد پر ٹکا ہوا نہیں ہے وہ فطری طور پر سنوار کی شہادت کے بعد بھی پہلے ہی کی طرح اپنا راستہ جاری رکھے گا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ تنظیمی ڈھانچہ کئي عشرے پرانا ہے اور اپنی حیات کا یہ طویل عرصہ طے کرتے کرتے وہ بہت زیادہ مستحکم ہو چکا ہے۔ پچھلی کئي دہائيوں کے دوران اپنے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کے باوجود حماس جیسے گروہ کے پوری مضبوطی سے قائم رہنے کی وجہ اس کے ڈھانچے کی مضبوطی ہے۔"(2) فؤاد خفش حماس کے بعض کمانڈروں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں: "اگر ہم تحریک حماس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو شیخ احمد یاسین اور عبدالعزیز الرنتیسی جیسے رہنماؤں کی شہادت ہمیں نظر آئے گی، اُس وقت سے لے کر اب تک حماس نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہوئي ہے بلکہ زیادہ مضبوط ہی ہوئي ہے۔"

چھاپہ مار اور طولانی جنگ کے سائے میں مزاحمت کا مضبوط بنے رہنا

"فلسطینی مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کے باوجود، مزاحمت کے شعلے بدستور بھڑک رہے ہیں اور انھیں بجھایا نہیں جا سکتا۔" یہ بات سیاسی امور کے محقق سعید زیاد نے یحییٰ سنوار کے قتل کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی صورتحال کے بارے میں کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس کی موجودہ طاقت و استحکام سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ کمانڈروں کے قتل سے مزاحمت کے شعلے خاموش ہونے والے نہیں ہیں۔ البتہ وہ فلسطینی مزاحمت کے لڑنے کے طریقۂ کار کو بھی ایک دوسری وجہ بتاتے ہیں جو یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد بھی اس گروہ کو کوئي خاص نقصان نہ پہنچنے کی موجب ہے۔ وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت اور خاص طور پر حماس کافی عرصے سے صیہونی دشمن کے ساتھ چھاپہ مار اور طولانی جنگ کے مرحلے میں داخل ہو گئي ہے اور کمانڈروں کی شہادت سے یہ حکمت عملی تبدیل ہونے والی نہیں ہے۔(3)

"سوچ" کو قتل نہیں کیا جا سکتا

غالبا صیہونیوں کو بھی معلوم ہے کہ مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کی اسٹریٹیجی، ذہنوں اور دلوں میں جڑ پکڑ چکی سوچ اور فکر کو ختم نہیں کر سکتی۔ اس کے باوجود شاید ان کے پاس بوکھلاہٹ کی وجہ سے مزاحمت کے خلاف "ڈرٹی وار" کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر قتل کی پالیسی کو جاری رکھنے کے علاوہ کوئي اور چارہ نہیں ہے۔ مصر کی قومی دفاع کی کونسل کے سابق ڈپٹی سیکریٹری جنرل ابراہیم عثمان ہلال کہتے ہیں: "غاصب صیہونی، قتل، جاسوسی کی اطلاعات اکٹھا کرنے، نفسیاتی جنگ، ہوائي، توپخانے اور اسپیشل زمینی فورسز کی فائرنگ کی طاقت کے ذریعے حماس کو سوچ، جدت عمل اور مضبوط تنظیمی ڈھانچے سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ حماس کے رہنماؤں اور کمانڈروں کا قتل، اسرائيل کے لیے ایک فوجی کارنامہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ جب تک سوچنے، کمان سنبھالنے اور قیادت کرنے کے لیے افراد موجود ہیں، رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل سے، مزاحمت ختم نہیں ہوگي۔"(4)

وہ سبق جو صیہونیوں کے لیے کبھی عبرت نہیں بنے

صیہونی حکومت کے رویے اور مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے میں اس کے اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونیوں نے ماضی کے واقعات سے عبرت حاصل نہیں کی ہے۔ ماضی کے واقعات گواہ ہیں کہ صیہونی جس چیز میں اپنی فتح سمجھتے تھے، اس میں انھیں شکست اٹھانی پڑی۔ مثال کے طور پر سنہ 1982 میں جب صیہونی حکومت نے بیروت کا محاصرہ کر لیا جس کی وجہ سے پی ایل او کے مجاہدین کو لبنان سے نکل کر تیونس جانا پڑا تو اس پر صیہونیوں نے فتح کا احساس کیا لیکن یہ موہوم احساس کبھی بھی صیہونی حکومت کے لیے امن و سلامتی کا سبب نہیں بن سکا کیونکہ اس واقعے کے بعد ہی لبنان میں ایک مزاحمتی گروہ کی حیثیت سے حزب اللہ کی تشکیل ہوئي اور وہ صیہونیوں کی خوش خیالی سلب کرنے کا ایک مستقل ذریعہ بن گئی۔ دوسری مثال جنین کیمپ کے محاصرے اور انتفاضۂ دوم کے دوران سنہ 2000 میں اسے تباہ کر دینے کی ہے۔ جنین میں اس تشدد آمیز اور وحشیانہ پالیسی پر عمل درآمد کے باوجود آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئي سال بعد جنین، غرب اردن میں مزاحمت کے جانبازوں کے اصل مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بنابریں حماس کے رہنماؤں کا قتل، اسرائيل کو فتح نہیں دلا سکتا جس طرح سے کہ عزالدین القسام، ابو جہاد، ابو علی مصطفیٰ، شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز الرنتیسی، صالح العاروری اور اسماعیل ہنیہ کا قتل، حماس کے خاتمے کا سبب نہیں بن سکا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت شاید فلسطینی مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کو قتل کر کے ایک وقتی فتح حاصل کرلے لیکن آخر میں اسے شکست اٹھانی ہی پڑے گی۔ اسی بات کی طرف لبنان کی تجزیہ نگار زینب الطحان اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں: "شیخ احمد یاسین اور اسماعیل ہنیہ جیسے رہنماؤں کے قتل کے بعد بھی حماس زندہ ہے اور اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ ہے کہ اگرچہ صیہونیوں نے کمانڈروں کو قتل کر کے ٹیکٹکل طور پر ایک وقتی نتیجہ حاصل کر لیا لیکن اسٹریٹیجی کے لحاظ سے انھیں شکست ہوئي ہے۔"(5)

جب ہم مذکورہ تمام پہلوؤں کو، حماس کے رہنماؤں کے قتل کے بعد اس کی صورتحال کے سلسلے میں ایک ساتھ رکھتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں رہبر انقلاب اسلامی نے کہا ہے: "حماس زندہ ہے اور زندہ رہے گي۔"(6)

 

[1] https://www.skynewsarabia.com/middle-east/1748712-%D8%BA%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%AA-%D9%8A%D8%AF%D8%B9%D9%88-%D9%85%D9%82%D8%A7%D8%AA%D9%84%D9%8A-%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3-%D9%84%D9%84%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%85%D9%82%D8%AA%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%B1

2 https://alqaheranews.net/news/100465/%D8%A7%D9%84%D8%A8%D9%86%D9%8A%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%86%D8%B8%D9%8A%D9%85%D9%8A%D8%A9-%D9%84%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3-%D9%83%D9%8A%D9%81-%D8%AA%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D9%88%D8%B2-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B1%D9%83%D8%A9-%D8%AE%D8%B3%D8%A7%D8%B1%D8%A9-%D9%82%D9%8A%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%AA%D9%87%D8%A7

3 https://www.aljazeera.net/politics/2024/10/18/%D9%85%D8%A7-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%84-%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3-%D9%88%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%AD%D9%87%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B3%D9%83%D8%B1%D9%8A-%D8%A8%D8%B9%D8%AF

4 https://www.youm7.com/story/2024/10/17/%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%88%D8%A7%D8%A1-%D8%A5%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D9%87%D9%8A%D9%85-%D8%B9%D8%AB%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D8%BA%D8%AA%D9%8A%D8%A7%D9%84-%D9%82%D8%A7%D8%AF%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%88%D9%85%D8%A9-%D9%84%D8%A7-%D9%8A%D8%B9%D8%AA%D8%A8%D8%B1-%D9%86%D8%B5%D8%B1%D8%A7-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D9%86%D8%B3%D8%A8%D8%A9/6745261

5 https://www.alahednews.com.lb/article.php?id=75217&cid=185

6 https://urdu.khamenei.ir/news/7744