بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد للہ ربّ العالمین والصّلواۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم الصطفی محمّد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین وصحبہ المنتجبین ومن تبعھم باحسان الی یوم الدّین۔
میں آپ سبھی برادران عزیز، محترم حضرات اور مجلس خبرگان کے فعال اراکین کا خیرمقدم اور جناب بوشہری کی تفصیلی تقریر کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجلس خبرگان کے اس سیشن کی تفصیلات اور بہت اہم باتیں بیان کیں۔ بہت اہم مسائل پیش کئے۔ کاش ان مسائل کی پیروی اور ان کا مطالبہ کریں اور ان شاء اللہ یہ امور انجام پائيں۔
آج میں نے آپ حضرات کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے جو باتیں مد نظر رکھی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ مجلس خبرگان، اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے اور ملک کے آئين میں اس کی جو تعریف کی گئی ہے، اس کے لحاظ سے اسلامی جمہوریہ ایران کا انقلابی ترین ادارہ ہے۔ انقلابی ترین سے میری مراد یہ ہے کہ یہ اسلامی انقلاب سے سب سے زیادہ مرتبط ہے۔ میں جو اس کو انقلابی ترین ادارہ کہتا ہوں تو اس کی وجہ رہبر کے انتخاب میں اس کا کردار ہے۔ یہ بہت اہم کام ہے، یہ منفرد کردار ہے اور الحمد للہ کہ مجلس خبرگان اس کردار کے لئے تیار ہے اور اس کو تیار رہنا چاہئے۔ اس سلسلے میں میں چند جملے عرض کروں گا۔
اسلامی نظام کے ڈھانچے اور نظام اسلامی کے تمام اداروں میں رہبر کا کردار انقلاب کے ہدف، سمت اور جہت کا تحفظ ہے۔ یہ رہبرکی اہم ترین ذمہ داری ہے۔
انقلاب ایک ہدف کے لئے آیا ہے۔ البتہ سبھی انقلابات کے اپنے اہداف ہیں۔ بنیادی اہداف ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر نظام زندگی کو متغیر کرتے ہیں، الٹ پلٹ دیتے ہیں۔ اگر اسلامی انقلاب کے ہدف کو مختصرا عرض کرنا چاہیں تو وہ ملک کے عوام کی زندگی میں توحید کی جلوہ گری ہے۔ توحید ایک مفہومی اور معرفتی پہلو رکھتی ہے۔ توحید ایک ایسا امر ہے جو افراد کے فہم ومعرفت کے مطابق قابل توسیع ہے۔ معاشرے کی زندگی میں یہ مفہوم نظر آنا چاہئے کیونکہ توحید کل دین ہے۔ دین کی بنیاد ہے اور کل دین کا نام توحید ہے۔ یہ اسلامی انقلاب کا ہدف ہے، اس کے بارے میں کافی باتیں، بحث، وضاحت اور تشریح ہے جس کو یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اسلامی معاشرے کو اس مفہوم سے نزدیک کرنے اور ایک توحیدی معاشرہ وجود میں لانے کے لئے سعی و کوشش لازم ہے اور اس راہ میں رکاوٹیں بھی ہیں۔ اس ہدف کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں در پیش ہوتی ہیں۔ اس سمت میں بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے محرکات پائے جاتے ہیں۔ محرک موجود ہے۔ یہ محرک یہ ہے کہ انقلاب اور نظام کو آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے اور اپنے ہدف تک پہنچنے سے روکا جائے۔ اس کو روکنا چاہتے ہیں بلکہ پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ اب چاہے یہ پیچھے لے جانا، ماضی کی رجعت پسندانہ صورت کے بجائے نئے لباس میں ہی کیوں نہ ہو۔ لباس نیا ہو لیکن اصل معاملہ وہی ہو۔ اس کے محرکات پائے جاتے ہیں۔
ہم نے دوسرے انقلابات میں بھی یہ محرکات دیکھے ہیں اور وہ کامیاب بھی ہوئے۔ انقلابات کو اہداف تک پہنچنے سے روکنے میں کامیاب رہے۔ انقلابات کا راستہ پلٹ دیا۔ آپ مثال کے طور پر فرانس کے انقلاب کو لے لیجئے، جو ہمارے دور کے عظیم ترین انقلابات میں شمار ہوتا ہے، ابھی انقلاب کو پندرہ برس بھی نہیں گزرے تھے کہ ماضی کی استبدادی اور آمرانہ سلطنت دوبارہ ملک میں قائم ہوئی اور پھر وہی ہوا۔ اتنی زیادہ عوامی تحریک، مشہور فرانسیسی مفکرین کی تحریک، عوامی کوششیں اور حدوجہد، جانی نقصانات، قتل عام، مارپیٹ، یہ سب بیکار ہو گیا۔ پندرہ برس سے کم عرصے میں سب کـچھ ختم ہو گیا! بالکل یہی انجام اس سے بدتر شکل میں انقلاب روس کا ہوا۔ وہ بھی ایک بڑا انقلاب تھا۔ انقلاب روس بہت بڑا انقلاب تھا۔ وہاں بھی یہی ہوا۔ دس سال سے بھی کم عرصے میں وہ سارے دعوے، وہ باتیں، عدل وانصاف کے جو دعوے کئے جا رہے تھے، مخصوص کمیونسٹ عوامی حکومت کا وعدہ، سب کچھ ختم ہو گیا۔ ایک ڈکٹیٹر، اسٹالن جیسا ایک طاقتور ڈکٹیٹر اقتدار میں آیا اور سب کچھ ختم ہو گیا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ سبھی انقلابات کے لئے خطرہ ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں اس بات پر توجہ دی گئی اور اس کی طرف سے خبردار بھی کیا گیا ہے اور وہ بھی ایک بار دو بار نہیں بلکہ شاید دسیوں بار۔ قرآن کی آیات میں بار بار پیچھے کی جانب، پرانی حالت پر پلٹ جانے اور اس سے چھٹکارا پا لینے اور نکل جانے کی بات کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں مومنین کو بھی مخاطب کیا گیا اور خود کفار کو بھی مخاطب قرار دیا گیا ہے۔
کفار کو انتباہ دیا جاتا ہے کہ تم اسی ماضی کی روش پر چل رہے ہو۔ سورہ توبہ کی یہ جو آیہ کریمہ ہے کہ " فاستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الّذین من قبلکم بخلاقھم وخضتم کالّذین خاضوا(2) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں دکھایا جا رہا ہے کہ وہ وہی ماضی کے کام کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تم اسی ماضی کی حالت پر چل رہے ہو۔ یا سورہ ابراہیم کی اس آیہ شریفہ میں کہ "وانذر النّاس یوم یاتیھم العذاب (3) اور پھر یہاں پہنچتے ہیں کہ " وسکنتم فی مساکن الّذین ظلموا انفسھم و تبیّن لکم کیف فعلنا بھم وضربنا لکم الامثال"(4)
قرآن کریم کی متعدد آیات میں مومنین کو بھی مخاطب کرکے انتباہ دیا جاتا ہے اور خبردار کیا جاتا ہے۔ میں نے اس حوالے سے دو تین آیات نوٹ کی ہیں: "یا ایّھا الّذین ءَامَنُوٓاْ ان تطیعوا الّذین کفروا یردّوکم علی اعقابکم فتنقلبوا خاسرین؛(5) یہ سورہ آل عمران میں ہے۔ اگر غفلت کی، اگر ان کی اطاعت کی تو پلٹ جاؤگے، پیچھے کی طرف پلٹ جاؤگے، واپسی ہو جائے گی۔ قرآن کریم خبردار کرتا ہے کہ " یا ایّھا الّذین آمنوا، ان تطیعوا فریقا من الّذین اوتوالکتاب یردّوکم بعد ایمانکم کافرین: (6) یہ بھی سورہ آل عمران میں ہے۔ اور سورہ بقرہ میں فرماتا ہے کہ "ولا یزالون یقاتلونکم حتّی یردّوکم عن دینکم ان استطاعوا(7) یا سورہ بقرہ کی ہی اس آیہ شریفہ میں فرماتا ہے کہ "ودّ کثیرا من اھل الکتاب ود کثیر من اهل الکتاب لو یردونکم من بعد ایمانکم کفارا (8) یعنی پلٹ جانے، رک جانے اور پیچھے کی طرف واپس ہو جانے کا مسئلہ معمولی نہیں ہے، بہت اہم مسئلہ ہے اور قرآن نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے. ہم خود اس تاریخ کی حقیقت کو دیکھتے ہیں جو ہم سے قریب ہے اور ماضی میں بھی یہ دیکھا ہے۔
ماضی کی طرف پلٹنے سے روکنے کے لئے ایک عامل ضروری ہے۔ اسلامی نظام میں یہ عامل قیادت اور رہبری ہے۔ یہ انحراف روکنا قیادت کا کام ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بنابریں مجلس خبرگان کی اہمیت یہ ہے کہ یہ اسمبلی رہبر کے انتخاب کی ذمہ دار ہے۔ اس اسمبلی کی اہمیت یہ ہے۔ اس لئے میں نے عرض کیا کہ مجلس خبرگان انقلابی ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس کی حیثیت یہ ہے۔ مصداق کے لحاظ سے ممکن ہے کہ مختلف صورتحال پیش آئے۔ کبھی یہ کام ہو اور کبھی نہ ہو۔ چنانچہ خود رہبر کے لئے بھی ممکن ہے کہ یہ کام کر سکے اور کبھی نہ کر سکے۔ البتہ یہ ناقابل تصور ہے کہ وہ نہ چاہے۔ چاہنے اور نہ چاہنے کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔
مجلس خبرگان کے تعلق سے ایک اور اہم مسئلہ خود اس اسمبلی کی ذمہ داری کا ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس خبرگان کی تشکیل اور اس کے وجود کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظام رک نہیں سکتا۔ یعنی اس میں وقفہ نہیں ہوگا۔ وقفہ نہیں آ سکتا۔ یعنی مجلس خبرگان موجود ہے جو بعد کے رہبر کا تعین کرے گی یعنی یہ تسلسل پوری قوت اور طاقت اور توانائي کے ساتھ موجود رہے گا۔ مجلس خبرگان کی یہ تیاری، مجلس خبرگان کے وجود کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ شخص جو ہے، نہ رہے تو مجلس خبرگان فورا اقدام کرے گی اور بعد کے فرد کا انتخاب اور تعین کرے گی۔ یہ بات ہے۔
یہاں ایک ذیلی مفہوم بھی ہے جو بذات خود بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ قیادت کی یہ منتقلی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کسی فرد اور شخص سے وابستہ نہیں ہے۔ افراد کا کردار ہے، ان کی ذمہ داریاں ہیں جو انہيں انجام دینی ہیں، ان کے کردار بہت اہم ہیں جو انہیں ادا کرنے ہیں، لیکن نظام ان سے وابستہ نہیں ہے اور اس خاص شخص کے نہ ہونے کی صورت میں بھی اپنے راستے پر گامزن رہ سکتا ہے۔ یہ بات خداوند عالم نے عالم وجود کی اہم ترین اور عظیم ترین ہستی پیغمبر اعظم کے بارے میں بیان کی ہے کہ "أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ؟(9).
غور فرمائيں یہ آیہ کریمہ جنگ احد سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی خداوند عالم تیسری ہجری میں یہ آیت نازل فرماتا ہے۔ اس آیت میں عوام کو خبردار کرتا ہے۔ اس آیت کی زبان، زبان ملامت ہے۔ مواخذے کی زبان ہے کہ تم قتل پیغمبر کی افواہ سے منتشر ہو گئے اور اتنے حواس باختہ ہو گئے کہ بعض ( ایسی ) باتیں کہہ دیں (جو نہيں کہنی چاہئے تھیں)۔ تو کیا پیغمبر نہ ہوتے تو تم پلٹ جاتے؟ انقلبتم علی اعقابکم ۔ اپنے ماضی پر پلٹ جاتے؟ قران مواخذہ کر رہا ہے۔
اب آپ فرض کریں تیسری ہجری میں پیغمبر نہ ہوں، ابھی اسلامی نظام بھی محکم نہیں ہوا ہے۔ اس میں ضروری توانائی نہیں آئي ہے اور پیغمبر کو بھی ان کے درمیان سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ ان حالات میں خداوند عالم یہ قبول نہیں کرے گا کہ لوگ پلٹ جائيں۔ انقلبتم علی اعقابکم ؟ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کا انحصار افراد پر نہیں ہے۔
بہرحال یہ مجلس خبرگان کے اہم ترین فرائض ہیں یعنی جو باتیں میں نے عرض کی ہيں ان سے مجلس خبرگان کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ فطری طور پر یہ اہمیت مجلس خبرگان کے کندھوں پر سنگین فریضہ بھی ڈالتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس خبرگان کو اپنے انتخاب میں بہت زیادہ دقت نظری اور توجہ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ حد اکثر دقت نظری اور توجہ سے کام لے۔
آئین میں رہبر کے لئے ضروری شرائط کا ذکر موجود ہے۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ انقلاب اور ہدف انقلاب پر قلبی اعتقاد رکھتا ہو۔ یہ اعتقاد اور یقین ہونا چاہئے۔ انتھک تحریک اور بغیر رکے آگے بڑھتے رہنے کا عزم ہونا چاہئے۔ یہ ذمہ داری اس کو سونپنا چاہئے جو اس کا اہل ہو۔ افراد میں ان شرائط کو دیکھا جائے اس کے بعد انتخاب کیا جائے۔ یہ کچھ باتیں مجلس خبرگان کے تعلق سے عرض کیں۔
یہ ہمارے زمانے کے عظیم مجاہد کے چالیسویں کے ایام ہیں۔ حقا اور انصافا سید حسن نصراللہ (رضوان اللہ علیہ رفع اللہ قدرہ و اعظم اللہ اجرہ) ہمارے زمانے کے عظیم مجاہد تھے۔ یہ ان کی شہادت کے چالیسویں کے ایام ہیں۔ یہ ان کی یاد کے دن ہیں۔ شہید ہنیہ، شہید صفی الدین، شہید یحی سنوار، شہید نیلفروشان اور دیگر شہدائے استقامت کی یاد کے ایام ہیں۔ میں ان کے بارے میں اپنی گزارشات کے شروع میں عرض کرنا چاہتا تھا، اب عرض کرتا ہوں۔ اس اسمبلی کے شہدا کو بھی یاد کریں، شہید رئیسی (رضوان اللہ علیہ) شہید آل ہاشم (رضوان اللہ علیہ) کو بھی یاد کریں۔ خدا ان سبھی شہدا کے درجات بلند کرے۔
یہ عظیم ہستیاں جن کے نام میں نے لئے، شہید نصراللہ اور حال میں شہید ہونے والے دیگر شہدا، حقا اور انصافا، انھوں نے اسلام کی عزت بڑھائی، استقامتی محاذ کو بھی عزت عطا کی اور اس محاذ کی طاقت و توانائی دگنی کر دی۔ یہ سبھی، جن کے نام میں نے لئے، ان میں سے ہر ایک نے الگ الگ شکل میں یہ کام کیا۔ ہمارے عزیز سید (حسن نصراللہ) شہدا کے اعلی درجات پر فائز ہو گئے۔ وہ خود اس درجے تک پہنچ گئے جس کی انہیں آرزو تھی لیکن انھوں نے یہاں اپنی ایک جاودانی یادگار چھوڑی اور وہ حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ کو سید کی شجاعت، درایت اور اس عجیب وغریب توکل کی برکت سے جو ان کے اندر تھا، غیر معمولی رشد ملا اور حزب اللہ ایک ایسی تنظیم میں تبدیل ہو گئی کہ انواع و اقسام کے اسلحے اور تشہیراتی وسائل سے لیس دشمن اس پر غلبہ نہ پا سکا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی اس پر غالب نہ آ سکے گا۔ شہید سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو ایک ایسی تنظیم میں تبدیل کر دیا۔
البتہ ان کی شہادت میں امریکا کی واضح اور آشکارا مشارکت سب کو معلوم ہے۔ واقعی امریکی حکومت کے ہاتھ ان کے خون سے رنگین ہیں۔ غزہ اور لبنان میں جو جرائم انجام پائے، ان سب میں امریکا کھلا شریک ہے، یہ آج سب جانتے ہیں۔ اس سے پہلے تحلیل و تجزیے میں کہا جاتا تھا لیکن اب سب دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح بعض یورپی ممالک بھی شریک ہیں۔ میں جو بات کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ یہ مجاہدتیں، جو آج الحمد للہ پوری طاقت سے جاری ہیں، لبنان میں بھی، غزہ میں بھی، اور فلسطین میں بھی، یقینا ان سے حق کو کامیابی ملے گی۔ محاذ حق کو کامیابی حاصل ہوگی۔ استقامتی محاذ کو کامیابی ملے گی۔ یہ وہ چیز ہے جس سے ہماری امید وابستہ ہے اور ان تمام حوادث اور وعدہ الہی سے محسوس ہوتی اور یہ حتمی نتیجہ نظر آتا ہے۔
سب سے پہلے تو وعدہ الہی کی دلیل سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ حوادث اس آیہ شریفہ کے مصداق کامل ہیں کہ "اذن للّذین یقاتلون بانّھم ظلموا و انّ اللہ علی نصرھم لقدیر" * الّذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الّا ان یقولوا ربّنا اللہ و لولا دفع اللہ النّاس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع وصلوات ومساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا۔
وہ چرچ پر بمباری کرتے ہیں، اسپتالوں پر حملے کرتے ہیں، مسجد پر حملے کرتے ہیں۔ یعنی واقعی وہ آیہ شریفہ "دفع اللہ النّاس بعضھم ببعض" کے مصداق کامل ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہے؟ اس آیت کے بعد بیان کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ " ولینصرنّ اللہ من ینصرہ انّ اللہ لقوی عزیز(10) وہ تاکید جو اس عبارت میں پائی جاتی ہے، یہ بعض لوگوں کے ذریعے بعض دوسروں کو دفع کرنا ہے۔ یعنی مظلوم کے ذریعے ظالم اور مجاہدین فی سبیل اللہ کی مجاہدت سے جارح اور غاصب کو دفع کرنا۔ نتیجہ یہ ہے۔ ولینصرنّ اللہ من ینصرہ" یہ وعدہ الہی ہے۔ یعنی فرمان الہی ہے اور اس میں شک جائز نہیں ہے۔ وعدہ الہی پر شک جائز نہيں ہے۔ یہ وہ وعدہ ہے جو خداوند عالم نے کیا ہے۔ اب تک وہی ہوا ہے جو خدا نے کہا ہے۔
ایک طرف آیات و وعدہ الہی ہے اور دوسری طرف ہمارا تجربہ ہے۔ ان طویل برسوں کے دوران، تقریبا چالیس برس اور تیس سے زائد برسوں کے دوران، حزب اللہ نے ایک بار صیہونی حکومت کو بیروت سے نکالا۔ ایک بار صیدا سے پیچھے دھکیلا، ایک بار صور شہر سے نکالا، اور ایک بار پورے جنوبی لبنان سے شہروں سے، دیہی بستیوں سے نکال باہر کیا اور لبنان کی پہاڑیوں کو صیہونی حکومت کے نحس وجود سے پاک کیا اور حزب اللہ کی توانائی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ مجاہدین فی سبیل اللہ کے ایک چھوٹے سے گروہ سے یہ ایک اتنی عظیم طاقت میں تبدیل ہو گئی کہ جس نے اس سر تا پا مسلح دشمن کو جو فوجی اسلحے، تشہیراتی اسلحے، سیاسی اسلحے، اقتصادی اسلحے سے اور دنیا کے بڑے فاسقوں اور فاجروں جیسے یہی امریکی صدور وغیرہ کی بھر پور حمایت کے اسلحے سے لیس ہے، اس کو متعدد بار پیچھے دھکیلا اور شکست دی۔ یہ خود ہمارا مشاہدہ ہے۔ بالکل یہی تجربہ فلسطینی استقامتی محاذ کا بھی ہے۔ وہ بھی 2008 سے اب تک نو بار صیہونی حکومت کو جنگ میں شکست دے چکا ہے۔
آج بھی جو معمولی سطح کے انسان کو ظاہر میں نظر آتا ہے، اس کے برخلاف فلسطینی استقامتی محاذ نے صیہونی حکومت پر غلبہ حاصل کیا ہے۔ اس لئے کہ اس کا مقصد حماس کو جڑ سے ختم کرنا تھا، نہ کر سکی۔ اتنے انسانوں کا قتل عام کیا، دنیا کو اپنا کریہہ چہرہ دکھا دیا، اپنی خباثت سب پرثابت کر دی، اپنی مذمت کروائی، الگ تھلگ ہو گئی، تحریک استقامت، حماس کے لیڈران کو شہید کیا، اور یہ سمجھ لیا کہ حماس ختم ہو گئی لیکن حماس اسی طرح جنگ کر رہی ہے، اسی طرح جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کا مطلب صیہونی حکومت کی شکست ہے۔
اسی طرح حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ بھی اسی طرح ہے۔ طاقتور ہے۔ اب کچھ لوگ لبنان میں، اور دوسری جگہوں پر یہ گمان کرکے کہ حزب اللہ کمزور ہو گئی ہے، حزب اللہ کے کاموں پر اس کی برائی کرنے لگے ہیں، وہ غلط کر رہے ہیں، وہ خیال خام میں، وہم میں مبتلا ہیں۔ حزب اللہ توانا ہے۔ جدوجہد کر رہی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین جیسی اس کی عظیم شخصیات باقی نہيں رہیں لیکن یہ تنظیم الحمد للہ اپنے جوانوں کے ساتھ، اپنی اندرونی اور معنوی طاقت کے ساتھ، اپنے جوش و ولولے کے ساتھ باقی ہے اور دشمن اس پر غلبہ نہیں پا سکا ہے اور ان شاء اللہ کبھی اس پر غلبہ نہیں حاصل کر سکے گا۔ ان شاء اللہ یہ علاقہ اور دنیا مجاہدین فی سبیل اللہ کے ہاتھوں صیہونی حکومت کی آشکارا شکست دیکھے گی۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ حضرات بھی مشاہدہ کریں گے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ اس ملاقات جو چھٹی مجلس خبرگان کے دوسرے سیشن کے اختتام پر انجام پائی، پہلے، اسمبلی کے چیئر مین آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی اور وائس چیئر مین حجت الاسلام والمسلمین سید ہاشم حسینی بوشہری نے کچھ باتیں بیان کیں۔
2۔ سورہ توبہ آیت نمبر 69 ؛" ۔۔۔۔ اور تمہیں بھی جو تمھارا حصہ تھا وہ ملا جس طرح کہ ان کو بھی جو تم سے پہلے تھے، وہ ملا جو ان کا نصیب تھا اور تم باطل میں ڈوب گئے جس طرح کہ وہ ڈوب گئے تھے۔ ۔۔"
3۔ سورہ ابراہیم آیت نمبر 44 " اور لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جب ان پر عذاب نازل ہوگا۔
4۔ سورہ ابراہیم آیت نمبر 45 " اور ان کے گھروں میں سکونت اختیار کی جنہوں نے خود پر ظلم کیا تھا اور تم پر آشکارا ہو گیا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا، اور تمھارے لئے مثالیں قائم کیں۔
5۔ سورہ آل عمران آیت نمبر 149 "اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر ان کی اطاعت کی جو کافر ہو گئے تو وہ تمہیں تمھارے عقیدے سے پلٹا دیں گے اور تم خسارے میں رہو گے۔
6۔ سورہ آل عمران، آیت نمبر 100؛ " اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر اہل کتاب کی اطاعت کی تو وہ تمہیں ایمان کے بعد حالت کفر پر پلٹا دیں گے۔
7۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 217؛" ۔۔۔۔ اور وہ مسلسل تم سے جنگ کرتے ہیں تاکہ اگر ہو سکے تو تمہیں تمھارے دین سے پلٹا دیں۔۔۔"
8۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 109 ؛" بہت سے اہل کتاب کی آروز تھی کہ تمہیں تمھارے ایمان کے بعد کافر بنا دیں۔۔۔"
9۔ سورہ آل عمران آیت نمبر 144؛" اگر وہ مر جائيں یا قتل کر دیئے جائيں تو کیا تم اپنے عقیدے سے پلٹ جاؤ گے؟۔۔۔"
10۔ سورہ حج آیات 39 و 40؛ " اور جن لوگوں پر جنگ مسلط کی گئی ہے، انہیں جہاد کی اجازت دی گئی ہے، کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے اور یقینا خدا ان کی کامیابی پر قادر ہے۔ وہ لوگ جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے۔( ان کا کوئی گناہ نہیں تھا) سوائے اس کے کہ کہتے تھے"ہمارا پروردگار خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں میں سے بعض کے ذریعے بعض کو دفع نہ کرتا تو صومعے، چرچ، کنیسے اور مساجد جن میں خدا کا نام بہت لیا جاتا ہے، تباہ اور ویران ہو جاتیں۔ اور یقینا خدا ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اس کی نصرت کرتے ہیں اور خدا بہت طاقتور اور نا قابل شکست ہے۔