سوال: حزب اللہ کے کمانڈروں، شیخ نعیم قاسم کی قیادت اور شہید نصر اللہ کے بعد حزب اللہ کے تنظیمی ڈھانچے کو آپ نے کس طرح پایا؟
ڈاکٹر لاریجانی: عرض کروں کہ اس سلسلے میں ہمیں اس ٹائم فریم کو، پندرہ ستمبر سے جب پیجروں کے دھماکے کا واقعہ ہوا تھا، پھر شہید سید حسن نصر اللہ کی شہادت، پھر سید ہاشم صفی الدین اور حزب اللہ کے دیگر اہم اراکین کی شہادت سے لے کر آج تک، دو حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔ پہلا حصہ، مثال کے طور پر شروع کے بیس تیس دن کا تھا اور اس کے بعد دوسرا حصہ۔ پہلے حصے میں جو نقصان ہوا وہ سنجیدہ تھا۔ حزب اللہ کے تین چار ہزار لوگ پیجروں کے دھماکے میں مسائل سے دوچار ہوئے اور پھر حزب اللہ کے قائد کی شہادت بہت اہم تھی، یہ وقت وہ تھا جس نے صیہونی حکومت میں یہ احساس پیدا کر دیا کہ حزب اللہ کا کام تمام ہے اور اس نے یہ بات عرب اور مغربی ملکوں سے کہی بھی کہ ان کا کام تمام ہو گيا ہے۔ اسرائيلی جو بعض پیغام دے رہے تھے، ان میں یہی بات تھی لیکن اس دورانئے کے پہلے حصے کے بعد حالات پوری طرح بدل گئے۔ حالات پوری طرح سے ڈھلان کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن اچانک وہ ارتقاء کی طرف جانے لگے۔ ایسا کیوں ہوا؟ واقعہ اس طرح کا تھا، توقع بھی یہ تھی کہ مزاحمتی فورسز جو عقیدے کے لحاظ سے بہت مضبوط ہیں اور میں نے سنا کہ جس دن مرحوم سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی خبر دی گئی، جو ہلا دینے والی تھی اور محاذ پر موجود بہت سارے جانبازوں نے گریہ کیا، عزاداری کی لیکن اس کے بعد انھوں نے مل کر قسم کھائي کہ اپنی جان دے کر بھی لبنان کا دفاع کریں گے۔ سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے واقعے کا اثر یہ تھا۔ یہ اس چیز کے بالکل برخلاف تھا جو نیتن یاہو اور اسرائيل سوچ رہے تھے کہ انھوں نے حزب اللہ کی کمر توڑ دی ہے اور اسے ختم کر دیا ہے۔ مزاحمتی فورسز کو ایک نئي توانائي حاصل ہو گئی، یعنی انھوں نے عاشورائي طرز پر جنگ شروع کی جس کی وجہ سے حالات بدل گئے اور مزاحمت کے تمام عہدوں پر متبادل افراد آ گئے۔ میں نے اس دورے میں ایسے حوصلے اور جذبے دیکھے جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا عزم و استحکام یوم عاشورا جیسا ہے، یعنی میں نے انھیں اس طرح پایا کہ جیسے ہم حدیثوں اور روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ عاشورا کے دن وہ لوگ کس طرح جنگ کر رہے تھے اور وہ کس طرح کے لوگ تھے جو اپنے مقصد پر ڈٹے رہے۔ مثال کے طور یہی شہید محمد عفیف جو حال ہی میں شہید ہوئے، میں نے وہاں ان سے قریب ایک گھنٹے تک ملاقات اور گفتگو کی۔ مجھ سے انھوں نے جو بات کہی وہ یہ تھی: "ہم مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں، آپ جان لیجیے کہ ہم استقامت کی تیاری رکھتے ہیں۔ لبنان میں ہمارے ان دوستوں میں سے کوئي یہ نہ سوچے کہ ہم ٹوٹ جائيں گے، ہم تیار ہیں۔" یہ ایک مثال تھی۔ حزب اللہ کے بہت سے دوسرے دوست، جن سے میں نے ملاقات کی، بہت مضبوط اور شاداب جذبے والے لوگ تھے، جنگ میں جذبہ بہت اہم ہوتا ہے، بہت زیادہ۔ ان کا جذبہ بہت مضبوط ہے اور یہ لوگ مستقبل کی طرف سے پرامید ہیں۔ مطلب یہ کہ ان میں شادابی بھی ہے، مضبوط جذبہ بھی ہے اور وہ مستقبل کی طرف سے پرامید بھی ہیں۔ اس چیز سے مجھے پورا یقین ہو گيا کہ یہی لوگ فاتح ہیں۔ یعنی یہ جذبہ، اتنا ٹھوس کام اور عمل میں اتنی شجاعت، انھیں فاتح بنائے گي۔
میرے خیال میں صیہونی حکومت نے یہاں ایک غلطی کر دی اور سوچنے لگی کہ ان بمباریوں اور پیجر کے دھماکوں وغیرہ سے وہ مثال کے طور پر ایک دو ہفتے میں دریائے لیطانی تک پہنچ جائے گي۔ اس وقت ایک مہینے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے اور صیہونی زمینی سطح پر کوئي سنجیدہ قدم نہیں اٹھا سکے ہیں اور مسلسل ان کے فوجی مارے جا رہے ہیں۔ ابھی حزب اللہ کی اصلی صلاحیتیں سامنے آئي ہی نہیں ہیں۔ ابھی اس کے پاس وسیع پیمانے پر وسائل موجود ہیں اور اب وہ خود انھیں تیار کر رہے ہیں اور وہی اپنے دفاعی ساز و سامان بنا رہے ہیں۔ اس سے پہلے صیہونیوں نے کہا کہ ہم نے ان کے کئي گوداموں کو تباہ کر دیا ہے۔ تو اگر تم نے تباہ کر دیا ہے تو یہ جو فائر ہو رہے ہیں، یہ کہاں سے آ رہے ہیں؟ مریخ سے تو نہیں آ رہے ہیں، ان کے پاس ہیں اور وہ بنا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ مستقبل میں صیہونی حکومت اس بات پر بری طرح پچھتائے گي۔
ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہم لبنان اور لبنان کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور اگر ہم حزب اللہ کی حمایت کرتے ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ وہ لبنان کی سرزمین کے دفاع اور پورے خطے پر اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کا ایک مضبوط مورچہ ہے۔ ورنہ ہم لبنان کے ایک دوست ملک، لبنانی قوم کے ایک دوست ملک کی حیثیت سے پورے لبنان کی حمایت کرتے ہیں اور ہم نے ہمیشہ ہی کہا ہے کہ ہم جنگ بندی کو مفید کام سمجھتے ہیں۔ یہ صیہونی تھے جو جنگ طلب تھے۔ المختصر یہ کہ موجودہ حالات میں یہ کسی حد تک مشکل میں ہے اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے جناب نبیہ بری جو مذاکرات کر رہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ وہ نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔
سوال: آپ کے دورے کے سلسلے میں صیہونی میڈیا اور صیہونیوں سے وابستہ میڈیا اور کچھ دوسروں نے یہ بات بڑے شد و مد سے پیش کی کہ جب آپ لبنان پہنچے تو وہاں آپ کی اور آپ کے ساتھ گئے وفد کی بہت گہرائي اور سنجیدگي سے تلاشی لی گئي۔ یہ بات صحیح ہے یا اس میں سچائی نہیں ہے؟
ڈاکٹر لاریجانی: مجھے لگتا ہے کہ بعض لوگوں نے اس دورے میں ایسے بھونڈے مذاق کیے، مثال کے طور پر جب ہم شام میں تھے تو نیا شگوفہ کھڑا کرنے کے لیے اور ماحول کو الگ رخ دینے کے لیے ہمارے مذاکرات کے مقام کے قریب ایک علاقے پر بمباری کی۔ یا مثال کے طور پر لبنان میں ہمارے پہنچنے سے پہلے ائيرپورٹ کے قریب حملہ کیا۔ اس طرح سے وہ کیا پیغام دینا چاہتے تھے؟ انھوں نے کہا کہ ہم نے اپنا پیغام دے دیا ہے۔ کیا پیغام تھا؟ تم یہ کہنا چاہتے تھے کہ لبنان کی فضا میں ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ کسی بھی جگہ پر حملہ کر سکتے ہیں، تو یہ بات ہم پہلے ہی سے جانتے تھے، تم حملہ کر سکتے تھے لیکن تم اپنا کام کر رہے تھے اور ہم اپنا کام کر رہے تھے، ہم پر کوئي اثر نہیں پڑا۔ کیا پیغام تھا!؟ جس بات کی طرف آپ نے اشارہ کیا یہ بھی ان عجیب جھوٹوں میں سے ایک ہے، مطلب یہ کہ سرے سے بے بنیاد ہے۔ ہم طیارے سے اترے، ہمارے سفیر ہوائي جہاز کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے تھے، وہاں کے کچھ اراکین پارلیمنٹ، حزب اللہ کے نمائندے اور کچھ دوسرے لوگ وہاں موجود تھے۔ وہاں گاڑی کھڑی تھی، ہم گاڑی میں بیٹھے اور آ گئے۔ مطلب یہ کہ ہم ہال میں گئے ہی نہیں کہ کوئي ہمیں دیکھ سکے۔ چونکہ ملاقات میں کچھ تاخیر ہو چکی تھی، ٹریفک بھی تھا اس لیے ہم وہیں سے، جہاز کے پاس سے ہی آ گئے۔
سوال: ایک بات جس کا تجزیہ بہت اہم ہے، وہ حزب اللہ کے سلسلے میں لبنان کے دوسرے گروہوں کی رائے ہے۔ حالیہ واقعات اور ایک مہینے سے زیادہ وقت سے ضاحیہ اور اس کے اطراف جاری ان حملوں کی وجہ سے کیا حزب اللہ کے بارے میں دیگر لبنانی گروہوں کی رائے میں کوئي فرق آیا ہے؟
ڈاکٹر لاریجانی: اگر حقیقت پر مبنی بات کرنا چاہیں تو اس پہلے مرحلے میں حزب اللہ کے لیے حالات کچھ سخت ہو گئے، حالات تھوڑے سے بدل گئے تھے، کچھ آوازیں بھی سنائي دینے لگی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے، یعنی بہت سے لوگ سمجھ گئے، متوجہ ہو گئے کہ حزب اللہ کا یہ مورچہ لبنان کی قومی سلامتی کی حفاظت کے لیے ملک کا ایک سرمایہ ہے اور وہ ان باتوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہے کہ مثال کے طور پر پیجر وغیرہ کے دو چار آپریشنوں سے اسے ختم کیا جا سکے۔ دیکھیے وہ دہشت گردانہ کام، پیجر کے دھماکوں کا مسئلہ، ایک بڑا کام تھا یعنی حزب اللہ کے تین ہزار لوگوں کی آنکھوں کو نقصان پہنچا، ہاتھوں کو نقصان پہنچا، کسی تنظیم کو بہت زیادہ قوی ہونا چاہیے تاکہ ایسا حملہ برداشت کر سکے۔ یا جب اس تنظیم کے سربراہ کو شہید کیا گيا تو یہ کوئي معمولی بات نہیں تھی۔ یہ دونوں واقعات ایک دوسرے کے ساتھ تھے لیکن یہ تنظیم اتنا رشد کر چکی تھی، عقل و دانش، زمینی مہارت اور سیاسی و عقیدتی پہلوؤں سے اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ بہت جلد سب کے متبادل آ گئے اور ڈھانچے کے لحاظ سے بھی یہ تنظیم اس طرح کی تھی کہ اس نے آپریشن شروع کر دیے۔ اب آپ دیکھیے کہ ہر دن وہ کتنے آپریشن کرتے ہیں۔ بنابریں واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ تنظیم اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ دوسرے گروہوں کے رویے میں بھی تبدیلی آ گئي۔
سوال: مزاحمت کی موجودہ صورتحال میں شام اور جناب بشار اسد کے کردار کے بارے میں کچھ بتائيے اور یہ بھی بتائيے کہ اس وقت وہ اس منظرنامے میں کیا پوزیشن رکھتے ہیں اور کون سا کردار ادا کر رہے ہیں؟
ڈاکٹر لاریجانی: حقیقت یہ ہے کہ جناب بشار اسد خطے کے اچھی سوچ والے سیاسی رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور انھوں نے برسوں سے مزاحمت کی حمایت کی یہ روش اختیار کر رکھی ہے، چاہے وہ ان کی تنہائي کا زمانہ ہو، چاہے وہ اب کا زمانہ ہو جب عرب ممالک نے انھیں عرب لیگ اور دوسری تنظیموں میں تعاون کی دعوت دی ہے، وہ ہمیشہ ہی مزاحمت کی حمایت میں ثابت قدم رہے ہیں۔ وہ عرب ملکوں کے معدودے چند سیاسی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو بہت ذہین ہیں اور بہت اچھی طرح کام کرتے ہیں۔
سوال: آيت اللہ خامنہ ای کے پیغام پر جناب بشار اسد اور جناب نبیہ بری کا ردعمل کیا تھا؟ ان دونوں شخصیتوں سے جب آپ کی گفتگو ہوئي اور آپ نے موضوع پیش کیا تو آپ کو کیا فیڈ بیک ملا؟
ڈاکٹر لاریجانی: رہبر انقلاب کے پیغام کے سلسلے میں دونوں محترم شخصیات کا رویہ بہت ہی احترام آمیز تھا، انھوں نے اسے بہت سراہا اور میں رہبر انقلاب کے سلسلے میں ان کی رائے اور نظریے کو پہلے سے ہی جانتا تھا کہ وہ انھیں خطے کے مسائل اور بند گلیوں کے سلسلے میں ایک راہ گشا انسان سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے دونوں کا یہ کہنا تھا کہ اس پیغام میں جو نکات بیان کیے گئے ہیں، وہ وہی مسائل ہیں جن کی ہمیں آج ضرورت ہے اور ہمیں ان پر توجہ دینی چاہیے، ہم ان سارے نکات کو مانتے بھی ہیں اور ان کے سلسلے میں کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ یہ پیغام ایک ایسی شخصیت کی طرف سے آيا ہے جو خطے کا ہمدرد ہے، خطے کے مستقبل پر نظر رکھتا ہے، خطے کے تمام مسائل اور پہلوؤں پر بھرپور توجہ رکھتا ہے اور مسائل کے حل کا خواہاں ہے۔ اس وجہ سے ان لوگوں نے رہبر انقلاب کے پیغام کا کافی خیر مقدم کیا۔
سوال: دشمن اپنے ایک مفروضے پر بہت تاکید کرتا ہے اور اپنے تجزیے میں کہتا ہے خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بازوؤں کو کمزور بنا دیا گيا ہے اور وہ مختلف طریقوں سے مسلسل یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ بازو روز بروز زیادہ کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟ یہ موضوع کس حد تک حقیقت پر مبنی ہے؟ آپ میدان میں تھے اور وہاں تھے تو آپ نے کیا ملاحظہ کیا؟
ڈاکٹر لاریجانی: میں مانتا ہوں کہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں یعنی انھوں نے بڑی حد تک مغربی ملکوں کے بھی اور عرب ملکوں کے بھی ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے۔ شاید یہی باتیں اس بات کا سبب بنیں کہ مغربی ممالک نے یہ سوچا کہ مثال کے طور پر اس وقت ایران کی پوزیشن کمزور ہو گئي ہے تو ہم بھی ایران کے خلاف قرارداد کے لحاظ سے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ آئي اے ای اے میں اس وقت مغربی ممالک جس قرارداد کی کوشش کر رہے ہیں، مجھے یاد آتا ہے کہ اسی طرح کا کام انھوں نے تینتیس روزہ جنگ کے بعد بھی کیا تھا۔ اس وقت ہینری کسنجر نے کہا تھا کہ اب جب یہ علاقائي بحران پیدا ہو گيا ہے تو ایران کے خلاف ایک قرارداد جاری کرنی چاہیے۔ اس وقت بحران، لبنان میں ہے، ان لوگوں نے ہمارے ایٹمی پروگرام کے مسئلے میں کہا کہ ہم قرارداد لانا چاہتے ہیں لیکن جیسے ہی تینتیس روزہ جنگ کے حالات بدلے اور صیہونی حکومت سمجھ گئي کہ اب وہ اس معاملے میں آگے نہیں بڑھ سکتی تو پھر وہ لوگ جنگ بندی کی طرف بڑھ گئے اور اسی وقت انھوں نے کہا کہ ہم ایران کے خلاف ایک قرارداد لا رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے اس وقت خاویر سولانا نے مجھے کال کیا اور کہا کہ مجھے بہت افسوس ہے کیونکہ تخریب کاروں نے اپنا کام کر دیا۔ یعنی انھیں غلطی کا احساس ہو گيا۔ اب آپ دیکھیے کہ اس وقت جب انھوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی کی روک تھام کے لیے قرارداد پیش کی تھی تو کیا روک تھام ہو پائي؟ کیا ایران، اس وقت سے لے کر اب تک کمزور ہوا؟ وہ خود دیکھ ہی رہے ہیں۔ اس وقت بھی وہ اسی طرح کی غلطی کر رہے ہیں۔
تو میں یہ مانتا ہوں کہ اس طرح کی سوچ پیدا ہو گئی ہے لیکن یہ سوچ غلط کیوں ہے؟ دیکھیے میں نے حزب اللہ کے سلسلے میں تشریح کی۔ دشمنوں نے اس تنظیم کے رہنما کو شہید کر دیا، ان کے ڈپٹی کو شہید کر دیا، تنظیم کے بعض بہت اہم افراد کو شہید کر دیا، حزب اللہ کے تین ہزار لوگوں کو زخمی کر دیا کہ جو اس وقت کام نہیں کر سکتے تو نئے افراد کو آنا چاہیے تھا۔ اب جب ہم اس منظر پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں ایک زیادہ جوان نسل برسر کار آ گئي ہے۔ ان جوانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ زیادہ مضبوط عقیدے والے ہیں، زیادہ شجاع ہیں، زیادہ جرات مند ہیں۔ شاید جرات مند، بہت اچھا لفظ نہ ہو لیکن ان کے اندر شجاعت اور جدت عمل کی یہ خصوصیت ہے اور انھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر قسم کھائي ہے کہ لبنان کی حفاظت کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی پھنس گئے ہیں اور اب انھیں بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ جہاں تک مجھے اطلاع ہے اس معاملے میں صیہونیوں کو تقریباً ایک ڈویژن جتنا نقصان ہو چکا ہے۔ تو یہاں ایک نتیجہ نکلا کہ انھوں نے کس کے بازو کو کاٹا؟ کہاں کاٹا؟ ہمیں کسی بازو کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں مزاحمتی فورسز، مزاحمتی فورس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی وہ فورسز جو خطے میں ہیں اور ان کے تشدد آمیز اور توسیع پسندانہ رویے سے تنگ آ چکی ہیں۔ اصل بات یہ ہے۔
سوال: اس بات کے پیش نظر کہ تینتیس روزہ جنگ کے زمانے میں آپ قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری تھے اور لبنان کے امور دیکھ رہے تھے، اس وقت یقینی طور پر آپ کے روابط رہے ہوں گے، بعد میں بھی رہے ہوں گے۔ آپ کے خیال میں لبنانی مزاحمت میں سنہ 2006 سے لے کر اب تک کس طرح کی واضح تبدیلیاں آئي ہیں؟
ڈاکٹر لاریجانی: دیکھیے، دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ تینتیس روزہ جنگ اور موجودہ حالات میں کتنی شباہت ہے؟ اور دوسرے یہ کہ دونوں واقعات کے دوران خطے کے حالات میں کیا تبدیلی آئي ہے؟
تینتیس روزہ جنگ بھی موجودہ حالات جیسی ہی تھی لیکن کچھ فرق کے ساتھ۔ پہلی بات یہ تھی کہ ابتدائي حملے کے معاملے میں وہ آج کے حالات کے مشابہ تھی یعنی تقریباً دو ہفتے یا بارہ دن۔ شروع کے بارہ تیرہ دن اسرائيل کے حملوں کی رفتار بہت زیادہ تھی، قتل اور تباہی بہت تھی، زمینی حملے کے لحاظ سے بھی وہ آگے آ چکا تھا، موجودہ وقت سے بھی زیادہ۔ اس دوران جنگ روکنے کی جو بھی بات کی جاتی تھی، امریکی اس کی مخالفت کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت روم میں ایک کانفرنس ہوئي اور وہاں اٹلی کے وزیر اعظم اور دوسروں نے جنگ بندی کی تجویز دی۔ اس وقت جرمنی کی وزیر خارجہ ایک خاتون تھیں، انھوں نے سخت مخالفت کی اور کہا کہ یہ ان باتوں کا وقت نہیں ہے۔ یہ بات ہو کر ختم ہو گئي اور یہ لوگ سوچ رہے تھے کہ وہ جیت گئے اور حزب اللہ کا کام تمام ہوگيا۔ بارہ تیرہ دن گزرنے کے بعد حالات بدل گئے۔ اس کے بعد تو وہ خود جنگ بندی کے لیے ہاتھ پیر جوڑنے لگے، پھر قرارداد تیار ہوئي۔ اس سے پہلے جو بھی قرارداد تیار ہوتی وہ اسے مسترد کر دیتے تھے۔ خطے کے کچھ وزرائے خارجہ جو ان کے لیے دلال کی حیثیت رکھتے ہیں، لگاتار رابطہ کر رہے تھے کہ آپ بہت جلدی اس کی حمایت کیجیے، اس مسئلے کو حل کیجیے۔ وہ لوگ خود ہاتھ پیر جوڑنے لگے۔ یہ اتار چڑھاؤ اس وقت بھی تھا، اب بھی ہے۔ ایک بات تو یہ ہوئي۔
فرق کی ایک دوسری بات بھی ہے۔ البتہ اس وقت جناب حسن نصر اللہ تھے، شہید سلیمانی تھے، یہ بہت زیادہ حوصلہ عطا کرنے والے تھے، اب یہ لوگ نہیں ہیں لیکن ان کے متبادل آ گئے ہیں۔ شاید اس محاذ کو کچھ بڑی شہادتوں کی ضرورت تھی کہ یہ جوان فورسز مل کر قسم کھائيں اور لبنان کی حفاظت کے لیے ڈٹ جائيں۔ مطلب یہ کہ بات بجائے اس کے کہ ان کے اندر اضمحلال پیدا کرتی، ذہنی کمزوری پیدا کرتی، ان کے اندر ایک نئي توانائی اور نئے جذبے میں بدل گئي اور یہ پوری قوت سے ڈٹ گئے۔ ٹھیک ہے کہ انھیں کچھ کھونا پڑا ہے لیکن خدا نے انھیں یہ توانائي عطا کی ہے، یعنی یہ فورس بڑے بڑے کام کر سکتی ہے۔
اگلی بات یہ ہے کہ حزب اللہ کی صلاحیت کا ماضی سے موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ تینتیس روزہ جنگ میں اس کے پاس آپریشن کا اتنا زیادہ تجربہ نہیں تھا لیکن اب بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح وسائل بھی بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ حزب اللہ نے ابھی اپنے اہم ہتھیاروں کو استعمال ہی نہیں کیا ہے اور اگر وہ ایسا کر لے تو میرے خیال میں منظرنامہ بہت زیادہ بدل جائے گا۔ شاید صیہونی سمجھ گئے ہیں اور اسی لیے وہ جلدی جنگ بندی کرنا چاہ رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ فی الحال مشابہت اور فرق کا منظرنامہ اس طرح کا ہے۔
سوال: لبنان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے خاص طور اس لیے کہ اس وقت لبنان، حملوں کا مرکز بنا ہوا ہے، آپ کے دورے سے پہلے اور بعد کے حالات میں کیا کوئي فرق آيا ہے؟ آپ نے وہاں کے حالات براہ راست دیکھے ہیں، آپ نے لوگوں کے جذبے اور لبنان کے اندر کے ماحول کو کیسا پایا؟
ڈاکٹر لاریجانی: لبنان کے حکام کو، چاہے وہ وزیر اعظم ہوں یا پارلیمنٹ کے اسپیکر جناب نبیہ بری ہوں، میں اہم قومی شخصیات سمجھتا ہوں جو حقیقت میں چاہتے ہیں کہ ان کے ملک کے قومی مفادات کی حفاظت ہو۔ وہ ہمارے دوست ہیں اور جانتے ہیں کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ صیہونی حکومت نے ان کے خلاف جو دباؤ بنایا ہے اس کا مقابلہ کرنے میں لبنان کی حکومت کامیاب ہو۔ لبنان کے لوگوں نے آوارہ وطنوں کے ساتھ بہت شرافت اور عزت کا سلوک کیا، چاہے وہ شیعہ ہوں، سنی ہوں یا عیسائي ہوں، انھوں نے ان آوارہ وطنوں کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دیے۔ یہ بہت گرانقدر کام ہے، یہ ایک ملک میں دکھائي جانے والی بہترین قسم کی یکجہتی ہے کہ آٹھ نو لاکھ لوگوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی جائے اور کچھ لوگوں کو اسکولوں میں رکھ کر ان کی مدد کی جائے۔ ایران کی جانب سے نقد امداد اور دوسری طرح کی امداد لبنان پہنچنے کے بارے میں بھی لبنان کی حکومت نے کہا کہ وہ کوئي راستہ نکالے گي تاکہ اس کام میں آسانی پیدا کی جا سکے۔ یہی بات میں نے شام میں بھی دیکھی کہ جناب بشار اسد نے لوگوں سے کہا کہ آپ میں سے ہر کوئي ایک یا دو فیملی کو اپنے گھر میں جگہ دے اور انھیں اپنا مہمان سمجھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان ایک لاکھ تیس ہزار افراد کو لوگوں نے اپنے گھروں میں رکھا ہے، یہ بہت گرانقدر ہے کہ ان ملکوں اور قوموں کے درمیان اس طرح کی یکجہتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ لبنان کے سیاستداں اپنے مستقبل کے بارے میں ایک بہت اچھی سوچ رکھتے ہیں، ٹھیک ہے کہ ابتدائي واقعات میں بعض لوگوں نے کچھ باتیں کہیں لیکن اب ایسا نہیں ہے اور میں نے مختلف طبقوں اور گروہوں سے جو باتیں کیں ان میں سبھی اس بات پر متفق اور ہمفکر تھے کہ صیہونی حکومت کے مقابلے میں مزاحمت کرنی چاہیے اور وہ ایران کے شکر گزار تھے اور لبنانی عوام بھی اس بات پر متفق تھے کہ ایران حمایت کر رہا ہے۔ لہذا انسان دیکھتا ہے کہ لبنان میں میدان جنگ اور محاذ کے پیچھے یعنی لوگوں کے درمیان اپنی سرزمین کے دفاع کے سلسلے میں حمایت، قصد اور نیت میں بھرپور یکجہتی پائي جاتی ہے۔
سوال: آخری سوال کے طور پر میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کے جو مشاہدات ہیں اور جو سیاسی ماحول آپ دیکھ رہے ہیں جیسے جنگ بندی کا مسئلہ جو اس وقت کافی سنجیدگي اختیار کر گيا ہے یا لبنان کے امور میں امریکا کے خصوصی ایلچی کا بیروت اور مقبوضہ فلسطین کا دورہ یا غزہ کے حالات ان سب کے پیش نظر آپ لبنان کی صورتحال کو کیسا دیکھتے ہیں؟ یا دوسرے الفاظ میں آپ کے خیال میں پورا خطہ کس سمت میں جا رہا ہے؟
ڈاکٹر لاریجانی: میں نے عرض کیا کہ لبنان میں مزاحمتی فورسز کے لحاظ سے حالات کافی مقتدرانہ ہیں اور ان فورسز نے اپنے آپ کو دوبارہ مجتمع کر لیا ہے اور آگے بڑھ رہی ہیں۔ جنگ بندی کے مذاکرات کو جناب نبیہ بری آگے بڑھا رہے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کے مذاکرات کہاں تک پہنچ رہے ہیں۔ وہ بھی پرامید تھے کہ یہ بات کسی نتیجے تک پہنچے گي۔ البتہ ہم بھی جنگ بندی کے خواہاں ہیں۔ یہ کام جتنی جلدی ہو جائے، لوگوں کے لیے بہتر ہے۔ بہرحال سبھی جنگیں جتنی جلدی ختم ہوں، اتنا بہتر ہے لیکن اس کی کیفیت کیا ہو، اس کی جزئیات کیا ہوں، اس میں ہماری کوئي مداخلت نہیں ہے اور خود لبنانی ذمہ دار چاہے وہ جناب نبیہ بری ہوں، چاہے ان کے دوست ہوں، چاہے حزب اللہ ہو وہ پوری گہرائي سے ان باتوں کا جائزہ لیں گے اور امور کے جائزے کے لیے ان کے پاس بہترین صلاحیت ہے۔ یہ لوگ جو بھی فیصلہ کریں گے، ایران، لبنان کی حکومت کی حمایت کرے گا اور یہ بات ہم نے لبنان کے وزیر اعظم سے بھی کہی ہے، جناب نبیہ بری سے بھی کہی ہے اور حزب اللہ کے اپنے دوستوں سے بھی کہی ہے۔ بنابریں مجھے لگتا ہے کہ افق بہت روشن ہے اور حزب اللہ کی توفیق نظر آ رہی ہے یعنی انسان کو ان کی فتح دکھائي دیتی ہے۔
غزہ میں صورتحال تھوڑی الگ ہے۔ البتہ وہاں بھی مزاحمت اپنے زندہ ہونے کے ثبوت پیش کر رہی ہے تاہم لوگوں کے حالات بہت سخت ہیں اور وہاں تقریبا ساری عمارتیں، ساری کی ساری تو نہیں لیکن قریب قریب سبھی عمارتیں تباہ کر دی گئي ہیں۔ اسرائیل نے ایک بڑا المیہ پیدا کر دیا ہے لیکن وہاں بھی ایسا ہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ غزہ، غرب اردن اور فلسطین کے مسلمانوں کا زخم تازہ ہو گيا ہے اور میرے خیال میں یہ نیتن یاہو کی بہت بڑی غلطی تھی۔ انھوں نے سوچا کہ فلسطینی مزاحمت کا قلع قمع کر دیا گيا ہے جبکہ اس سے مزاحمت میں اضافہ ہوگا۔ ہاں اس وقت کے حالات سخت ہیں۔ خطے میں نشیب و فراز جیسے حالات رہے ہیں۔ صیہونی حکومت نے اپنے کاموں سے ایک تشہیراتی ماحول پیدا کر دیا کہ کام تمام ہو گيا۔ یہاں تک کہ خطے کے بعض ممالک نے بھی اس طرح کی باتیں کیں کہ حزب اللہ کو زمینی اور فوجی لحاظ سے شدید نقصان پہنچا ہے اور اس کا خاتمہ ہو گیا ہے لیکن اسے سیاسی لحاظ سے بھی لبنان سے ختم کر دینا چاہیے۔ کوئي بھی ان باتوں کو ماننے والا نہیں ہے۔ یہ اسی پہلے مرحلے کی بات ہے جس میں انھوں نے کچھ تصورات پیدا کر دیے تھے۔ اس وقت ایسا نہیں ہے۔ اس وقت خطے کے ممالک کا ماننا ہے، یعنی اگر سب نہ کہا جائے تب بھی ان میں سے بہت سے ملک کہہ رہے ہیں کہ حالات کو اعتدال پر لایا جائے اور اسرائيل جو باتیں کر رہا تھا وہ ٹھیک نہیں تھیں اور اب ان کی سمجھ میں آ گیا ہے کہ اگر اسرائیل کامیاب ہو جاتا تو خود ان کی بھی خطے میں کوئي پوزیشن نہیں ہوتی، یہ وہ حقیقت ہے جو انھوں نے محسوس کی۔ یہاں تک کہ بعض ممالک، جن کے ہمارے ساتھ سیاسی اختلافات ہیں اور وہ ماضی میں اسرائيل کے سامنے جھکے رہتے تھے، آج محسوس کر رہے ہیں کہ اگر اسرائيل کو ڈھیل دی گئي تو وہ بہت تیزی سے انھیں نگل لے گا۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ حزب اللہ طاقتور بنا رہے جبکہ ماضی میں وہ ایسا نہیں سوچتے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ پورے خطے میں، جو مزاحمت کے لحاظ سے ایک الگ مقام کی سمت بڑھ رہا ہے، صیہونیوں کو قطعی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ شہداء کی تعداد کافی زیادہ ہے لیکن جو نتیجے حاصل ہوئے ہیں وہ خطے کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔ شہیدوں کا خون، ایسا ابلتا ہوا خون بن گیا جس نے اس مزاحمت کو زیادہ مضبوط بنا دیا۔
- KHAMENEI.IR کو اپنا قیمتی وقت دینے کے لیے آپ کا شکریہ۔
ڈاکٹر لاریجانی: سلامت رہیے۔