قائد انقلاب اسلامی نے اساتذہ کے اجتماع میں فرمایا کہ آپ یقین رکھئے! اسلامی جمہوریہ ایران بلند ہمتوں، پختہ ایمان اور اخلاص عمل رکھنے والے انسانوں کی مدد سے خوشبختی و پیشرفت کی بلند منزلیں ایک ایک کرکے فتح کرتا جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے یوم استاد کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور معلم بزرگ آیت اللہ مرتضی مطہری شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں بصیرت اور جذبہ ہمدردی رکھنے والا عظیم انسان قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے استاد کے مقام و منزلت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ استاد وہ انسان ہے جس کے ذمے ملک کا مستقبل، عظیم انسانوں، مجاہدین راہ خدا اور ان افراد کی تربیت ہے جو آگے چل کر ملک کی باگڈور سنبھالنے والے ہیں، بنابریں پوری قوم کو استاد کی قدر و منزلت سے آگاہ رہنا چاہئے اور اس کا پاس و لحاظ رکھنا چاہئے، استاد کے اس بلند مقام و منزلت سے لوگوں کو باخبر کرنے کے سلسلے میں ذرائع ابلاغ اور حکام کا کردار بہت موثر ہے۔
اساتذہ کے اس اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل وزیر تعلیم و تربیت جناب حاجی بابائی نے تعلیم و تربیت کے نظام میں بنیادی تبدیلی کے لئے کی جانی والی کوششوں اور منصوبہ بندی کا ذکر کیا۔
تفصیلی خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
تمام بھائیوں اور بہنوں، اساتذہ، اسی طرح ملک کے انتہائی اہمیت کے حامل پیشے تعلیم و تربیت سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس موقعے پر میں پورے ملک کے اساتذہ کو سلام و تہنیت پیش کرنا چاہوں گا اور اللہ تعالی سے خاکسارانہ دعا کروں گا کہ تعلیم و تربیت کی اس مہم کو جو آپ کے دوش پر ہے آپ کے لئے بابرکت قرار دے اور ہماری عزیز قوم کے لئے خیر و برکت کا سرچشمہ بنائے۔
اس موقعے پر ہمیں خراج عقیدت پیش کرنا ہے اپنے جلیل القدر اور لا فانی استاد مرتضی مطہری شہید کو۔ میں یہ بات عرض کر دوں کہ ہمارے ہاں جو مرتضی مطہری شہید کی شہادت کے دن کو یوم استاد قرار دیا گیا ہے وہ ایک بامقصد علامتی عمل ہے۔ حقیقت ہے کہ شہید مرتضی مطہری ایک جلیل القدر اور عظیم انسان تھے۔ ان کی زندگی عالمانہ، مومنانہ اور مخلصانہ مساعی کی ایک طویل فہرست ہے جو احساس ہمدردی، علوم و معارف اور دین و ثقافت کے میدان میں بصیرت کامل سے آراستہ تھی۔ اللہ تعالی نے اس عظیم انسان کو نیک جزا دی اور ان کی قسمت میں شہادت لکھ دی اور اس طرح انہیں زندہ جاوید بنا دیا۔ بل احیاء عند ربھم (1) قم کے دینی علوم کے مرکز سے فارغ التحصیل انسان علم و معرفت کی گہرائیوں سے نکالے گئے موتیوں کے ساتھ معاشرے کی تعلیم و تربیت اور ثقافت کے میدان میں وارد ہوتا ہے، نوجوان نسل کے درمیان پہنچتا ہے تو بے شمار برکتوں کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔
میں یہیں یہ بات بھی عرض کر دوں جو پہلے دینی علوم کے مرکز میں بھی کہہ چکا ہوں کہ دینی علوم کے مرکز کے علمائے افاضل ایسے صاحب لیاقت افراد ہیں جو تعلیم و تربیت کے عظیم میدان میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں اور تعلیم و تربیت سے زیادہ اہم کوئی دوسرا شعبہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تعلیم وتربیت کے شعبے کے لئے جتنی بھی مادی، روحانی اور افرادی سرمایہ کاری کی جائے مناسب ہے۔ تعلیم و تربیت معاشرے کا حیات بخش سرچشمہ ہے۔ موجودہ معاشرے کے لئے بھی اور مستقبل کے معاشرے کے لئے بھی۔
اب یہاں بحث آتی ہے اساتذہ یعنی آپ حضرات کی۔ استاد وہ ہے جو مستقبل قریب میں ملک کا نظم و نسق چلانے اور معاشرے کے امور کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے افرادی قوت کو تیار کر رہا ہے۔ چشم زدن میں آپ دیکھیں گے کہ آپ کے یہی شاگرد، آپ کے یہی نوجوان مرد توانا بن چکے ہیں اور مختلف سطح پر معاشرے کے امور کی ذمہ داریاں ان کے دوش پر ہیں۔ انہی لوگوں کے درمیان سے عظیم انسان اور ممتاز صلاحیتوں کے مالک افراد نکلیں گے، انہی کے درمیان سے راہ حق کے مجاہدین باہر آئيں گے، ان ہی میں پاکباز اور راہ خدا میں اپنے پورے وجود کو وقف کر دینے والے افراد سامنے آئيں گے، انہی کے درمیان سے ایسے با صلاحیت ہاتھ نکلیں گے جو ملکی معیشت کا پہیہ چلائیں گے، ملکی ثقافت کو سنواریں گے، انہی بچوں کو درمیان سے جو آج آپ کی کلاس کے بچے ہیں۔ انہیں سنوارنے کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ آپ ان کی پرورش کر رہے ہیں کہ آگے چل کر وہ جہاں بھی پہنچیں بخوبی اپنی ذمہ داریاں نبھائيں، کام کریں، بحسن و خوبی کام انجام دیں، ملک کی ترقی کے ضامن بنیں، پسماندگی اور اخلاقی انحطاط کا باعث نہ بنیں۔ تو آپ دیکھئے کہ یہ چیز کتنی اہم ہے؟!
میں عرض کر چکا ہوں کہ آپ اساتذہ کی تاثیر بعض مواقع پر جنٹک اثرات سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ موروثی عادتیں اور خصلتیں انسان کے ساتھ لگی رہتی ہیں لیکن مشق اور تمرین کے ذریعے ان خصلتوں اور عادتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس فطرت ثانیہ کو استاد اپنے شاگرد کو ودیعت کرتا ہے۔ یعنی آپ حقیقی معنی میں اسلامی تقاضوں کے مطابق انسان پیدا کر سکتے ہیں، آپ اسلامی جمہوریہ کے شایان شان افرادی قوت کو وجود عطا کر سکتے ہیں۔ یہ ہے استاد کا کردار۔ یہ رسمی جملے نہیں ہیں، یہ عین حقیقت ہے جو موجود ہے۔
قوم کے ہر فرد، ہر چھوٹے بڑے ، حکام سے لیکر عام افراد تک سب کے لئے ضروری ہے کہ استاد کی قدر و منزلت کو سمجھیں! استاد کے وقارسے آشنا ہوں! یہ بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کو بھی چاہئے کہ اپنا کردار نبھائیں اور حکام بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ صرف رسمی انداز میں نہیں بلکہ حقیقت میں لوگوں کو سمجھایا جائے۔ ہم لوگوں کو اس کا بخوبی ادراک ہونا چاہئے کہ یہ مرد یا یہ خاتون کلاس میں ہمارے بچوں کی، ہمارے اولاد کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنی زندگی صرف کر رہی ہے۔ خود استاد کو بھی اپنے اس کردار کی اہمیت کا احساس ہونا چاہئے۔ یہ بنیادی اور اہم ترین چیزوں میں ہے۔ چنانچہ استاد، یوم استاد، ہفتہ استاد یہ ساری چیزیں خاص اہمیت کی حامل اور بہت عظیم ہیں۔
سب کو توجہ دینا چاہئے، عوام کو کسی انداز سے اور حکام کو کسی اور انداز سے، تعلیم و تربیت کے ادارے کو کسی دوسرے انداز سے اور حکومتی عہدیدروں کو اپنے الگ انداز سے۔ استاد کے اس معین مقام و مرتبے کے تعلق سے ہر کسی کی اپنی ذمہ داریاں ہیں مادی و روحانی لحاظ سے اور خاص طور پر توقیر و احترام کے لحاظ سے۔
چند باتیں تعلیم وتربیت کے شعبے کی اصلاح کے بارے میں بھی کہنا ہیں۔ یہ بات میں بارہا عرض کر چکا ہوں، ان نشستوں میں بھی جو آپ اساتذہ کے ساتھ ہوتی ہیں اور ان اجلاسوں میں بھی جو حکام کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اس اصلاح اور تبدیلی کی ضرورت کیا ہے؟ کیونکہ کوئی بھی شخص کسی چیز کو بلاوجہ اور یونہی تو بدلتا نہیں۔ ہم کیوں یہ تبدیلی کرنا چاہتے ہیں؟ اس کی بالکل واضح وجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیم و تربیت کا موجودہ نظام گوناگوں نسلوں کی تربیت کی ضروری توانائی نہیں رکھتا۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ نطام اور یہ سسٹم باہر سے لایا گيا ہے۔ ہماری داخلی ضرورتوں کی بنیاد پر تشکیل دیا جانے والا نظام نہیں ہے۔ یہ ہمارے سامنے ایک بڑی مشکل ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک قوم کے طویل تجربات، قوم کی زندگی کی تاریخ اسے اس نتیجے تک پہنچاتی ہے کہ تعلیم کا یہ انداز ہونا چاہئے اور تربیت کا یہ انداز مناسب ہے، اس شکل کا مکان بنانا چاہئے، اس طرح چلنا چاہئے، انتظامی امور کو اس طرح چلانا چاہئے۔ یہ بالکل درست روش ہے۔ انسان کو دوسروں کے تجربات سے بھی ہمیشہ استفادہ کرنا چاہئے۔ اس میں برا ماننے اور شرمانے کی کوئی بات نہیں ہے کہ دوسروں سے کچھ سیکھیں۔ برائی اس میں ہے کہ ہم دوسری قوموں کے نمونے اور آئیڈیل کو انکی ثقافت کو من و عن اپنے ملک اور معاشرے میں رائج کر دیں اور اپنے حالات، تقاضوں اور مقدمات پر کوئی توجہ نہ دیں۔ سو سال قبل ہمارے ملک میں یہی ہوا تھا۔ جو افراد باہری حکومتوں اور خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ تھے ان سے قطع نظر، ان افراد نے جن کی نیتیں پاک تھیں اور جو ملک کو ترقی کی راہ پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن وہ پوری طرح یہ سمجھ نہیں سکے کہ کس طریقے سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے، انہوں نے یہ سوچا کہ خود کو پوری طرح بدل کر غیر ملکیوں کی مانند بن جائیں۔ انہوں نے کہا بھی اور لکھا بھی کہ ہمیں پوری طرح سراپا انگریز بن جانا چاہئے۔ ان سے یہ بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی۔ اس کی زد میں ہمارا تعلیم و تربیت کا شعبہ بھی آیا۔ ہمارے دوسرے شعبوں کا بھی بد قسمتی سے یہی انجام ہوا۔ ہمارا اقتصاد، ہمارا فن تعمیر، ہماری سماجی زندگی اور دوسری بہت سی چیزیں طاغوتی (شاہی) حکومت کے دور کی سیاسی شخصیات کی غلط فہمی یا خیانتوں کی وجہ سے اس انجام کو پہنچیں۔ الحمد للہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد ہماری سمت اور راستہ بدل گیا۔ ہمارا رخ خود شناسی، خود فہمی اور ذاتی لیاقتوں کی طرف مڑا لیکن اب بھی بہت سی بنیادیں اپنی سابقہ حالت پر باقی ہیں جن میں ایک یہی تعلیم و تربیت کا شعبہ ہے۔ ہمیں دنیا کے تجربات سے مغربی دنیا، مشرقی دنیا اور مختلف اقوام کے تجربات سے بھی اپنے آئیڈیل اور نمونے کو مزید سنوارنے کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔ تو یہ ہے اصلاح اور تبدیلی کی ضرورت۔
یہ تبدیلی ملک کی ضروریات اور روحانی و معنوی خصوصیات کی بنیاد پر تیار کئے جانے والے ایرانی آئیڈیل یعنی در حقیقت حقیقی اسلام اور اس دین مبین اسلام پر استوار نمونے کی بنیاد پر رونما ہونا چاہئے۔ ہمیں اس طرح کے نمونے کی تدوین کی ضرورت ہے۔ تبدیلی اسی نمونے کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کے لئے اس نئے ڈھانچے اور اس نئے آئیڈیل کا ہدف کیا ہونا چاہئے؟ اس کا ہدف اسلامی جمہوریہ کے معیار کے مطابق انسانوں کی تربیت کرنا ہے۔ اگر اسلامی جمہوریہ ایران اپنے ہاتھ میں پرچم اسلام کو باقی رکھنا چاہتا ہے، اگر سعادت و نیک بختی حاصل کرنا چاہتا اور اپنی دنیا و آخرت دونوں کو سنوارنا چاہتا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بھی ہمیں تعلیم دی ہے کہ اپنی دنیا و آخرت کو آباد کرو اور یہ ضروری بھی ہے، اگر وہ چاہتا ہے کہ دوسری قوموں کو امداد بہم پہنچائے کنتم خیر امۃ اخرجت للناس (2) دوسری قوموں کے لئے شاہد و بشارت دہندہ بنے تو ظاہر ہے کہ اس کے کچھ تقاضے اور لوازمات ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ شریف و با استعداد، ذی عقل، خلاقی صلاحیتوں سے سرشار، اخلاق حسنہ سے آراستہ، شجاع اور خطروں سے کھیلنے والے، نئے نئے میدانوں کی سیاحی کا حوصلہ رکھنے والے، احساس کمتری یا احساس برتری دونوں طرح کی نفسیاتی مشکلوں سے آزاد، اللہ کے متوالے اور قدرت خداوندی پر بھرپور توکل کرنے والے، صبر و ضبط اور حلم و بردباری سے متصف، پرامید اور با نشاط انسانوں کی تربیت کی جائے۔ اسلام نے ان تمام خصوصیات کو تمام با ایمان افراد کے اندر جمع کر دیا ہے۔ ہمیں ان خصوصیات کو ایک ایک کرکے مورد توجہ قرار دینا چاہئے اور پھر ان سے استفادہ کرنا چاہئے، ان سے بہرہ مند ہونا چاہئے، ان سے محظوظ ہونا چاہئے اور اپنے وجود کے اندر ان خصوصیات کے ذخیرے میں اضافہ کرنا چاہئے۔ تنگ نظر، سوء ظن رکھنے والے، مایوسی کا شکار، افسردہ خاطر، بے تقوا اور داغدار دامن والے افراد اگر معاشرے کو چلائیں گے اور اسے سعادت و نیک بختی سے ہمکنار کرنا چاہیں گے تو یہ ان کے بس کی بات نہیں ہوگی اور نہ وہ نمونہ عمل قرار پا سکتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں تبدیلی کے سلسلے میں اس نکتے پر خاص توجہ ہے۔
یہ تمام باتیں جو وزیر محترم نے بیان کیں، بہت اچھی ہیں البتہ اہمیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان میں بعض بہت اہم اور بنیادی کام ہیں اور بعض دیگر فروعی اور جزوی امور ہیں۔ یہ ساری چیزیں انجام دی جانی چاہئے لیکن شرط یہ ہے کہ سمت معین ہو۔ آپ کو بخوبی علم ہو کہ آپ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں تبدیلی کا جامع منصوبہ اور نقشہ ہونا چاہئے۔ اسی جامع منصوبے کی بنیاد پر ہم اس کے بعض حصوں پر پہلے اور بعض دیگر پر کچھ بعد میں عملدرآمد کریں۔ آپ ایک وسیع و عریض جگہ پر ایک خوبصورت اور مستحکم عمارت کا نقشہ اپنے ذہن میں بنا لیتے ہیں اور آپ کے ذہن میں تصویر بالکل واضح ہے کہ آپ کو کیسے کام کرنا ہے۔ آپ کسی ایک گوشے سے کام شروع کرتے ہیں۔ کبھی ایک طرف کا کوئی حصہ تعمیر کرتے ہیں اور پھر دوسری جانب دوسرے حصے کو بناتے ہیں۔ کوئی اور شخص اگر دیکھے تو شاید سمجھ نہ سکے کہ آپ کیا تعمیر کر رہے ہیں لیکن آپ کے ذہن میں چونکہ پورا نقشہ ہے اس لئے آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ تعمیر ہونے والا ہر حصہ اس نقشے کے ایک جز کو مکمل کرتا جائے گا۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ کے پاس جامع نقشہ ہو۔ اگر جامع نقشہ نہ ہو، اگر (تعلیم و تربیت کے شعبے میں لائی جانے والی ) اس تبدیلی کے لئے دراز مدتی منصوبہ نہ ہو تو ممکن ہے کہ آپ متضاد کام انجام دیں، بعض کام دوبار انجام دے دئے جائیں، بعض فاضل اور غیر ضروری کام کر دئے جائیں اور نتیجے میں بڑی خامیاں پیدا ہو جائیں۔ بنابریں دراز مدتی منصوبہ اور جامع نقشہ اولیں شرط ہے۔
اس جامع منصوبے میں جن باتوں پر خاص توجہ دی جانی چاہئے ان میں ایک ہے استاد کا مسئلہ۔ نصاب کی کتابوں کے سلسلے میں بہت اچھے کام انجام دئے گئے ہیں، ہمیں کتابوں کے سلسلے میں انجام دئے جانے والے ان کاموں کی کسی حد تک خبر ہے تاہم ابھی اور بھی کام انجام پانے ہیں اور ان شاء اللہ انجام پائیں گے لیکن بہرحال کتابیں پڑھانے کا کام تو استاد کا ہی ہے۔ اگر استاد ذی فہم، دردمند، اہل نظر اور خلاقی صلاحیت رکھنے والا ہو تو کتاب میں خامی ہو تب بھی بات کو صحیح اور کامل شکل میں سمجھائے گا۔ اس کے برخلاف اگر استاد میں لیاقت نہ ہو، امید و نشاط کا جذبہ نہ ہو، جوش و ولولہ نہ ہو اور محض رسم کی ادائیگی کرنے والا ہو تو کتاب کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو شاگرد کو کیا حاصل ہوگا، یہ نہیں کہا جا سکتا۔ لہذا استاد کا مسئلہ بہت اہم ہے۔
ٹیچر ٹریننگ کا مسئلہ، اساتذہ کے لئے آگے تعلیم جاری رکھنے کا مسئلہ جسے (وزیر موصوف نے) بیان کیا یہ ساری چیزیں بہت اچھی ہیں اور ان پر عمل ہونا چاہئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں نمونہ اور آئیڈیل استاد کیسا ہو اس کا تعین کرنے میں آپ اساتذہ کا بڑا اہم کردار ہے۔ بہرحال یہ ہماری ضرورتیں ہیں جنہیں ہم کو پورا کرنا ہے۔ حکومتی اداروں کو چاہئے کہ اس عظیم شعبے کو اس زاوئے سے دیکھیں۔ ہمارا تعلیمی مستقبل ہمارے آج کے تعلیم و تربیت کے شعبے پر منحصر ہے۔ آج یہاں جتنی سرمایہ کاری کی جائے گی یقینی طور پر وقت آنے پر اس کے ثمرات اس سے کہیں زیادہ اہم ہوں گے جتنی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ہمارے ملک کو بہترین تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس قوم نے اپنے دوش پر جو ذمہ داری اٹھائی ہے اور جس کام کا آغاز کیا ہے وہ بہت عظیم کام ہے۔
میرے عزیزو! ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ ہمارے عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی قیادت میں اس مومن و قوی و شجاع قوم نے جو مہم شروع کی وہ عصر حاضر ہی نہیں پوری تاریخ میں کم نظیر ہے۔ یہ بڑا عظیم کارنامہ ہے، بہت بڑا کام ہے جو انجام پایا ہے۔ ہم جو اس مہم کے متن میں موجود ہیں اور ہم میں سے ہر کوئی اپنی توانائی، اپنی طاقت اور اپنی لیاقت کے لحاظ سے کچھ کام انجام دے رہا ہے تو ہم خود اس عظیم تحریک کی قدر و قیمت کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان باہر سے دیکھے، غور کرے، دنیا کے حالات سے اس کا موازنہ کرے، دنیا کی بڑی سماجی تحریکوں کا جائزہ لے، ان سیاسی و سماجی تحریکوں کے پیچھے کارفرما جذبات اور عزائم کا مطالعہ کرے۔ استکباری طاقتوں یعنی وہی جنہیں قرآن کریم میں کہا گیا ہے اکابر مجرمیھا لیمکروا فیھا (3) ان کے کردار کو دیکھے، مفادات کے حصول کے لئے دنیا کو اپنی مٹھی میں کرنے اور انسانیت کو خونیں اور آہنی پنجوں میں جکڑنے کے لئے جاری تخریبی پالیسیوں کے اثرات پر غور کرے اس کے بعد سوچے کہ یہ تحریک کتنی عظیم ہے؟! اسلامی اقدار کے احیاء کے لئے جو اصلی انسانی اقدار بھی ہیں ایک قوم کی عظیم تحریک کا شروع ہونا وہ بھی ایسے ماحول میں جب ان اقدار کے خلاف تمام وسائل اور توانائیوں کو بروئے کار لایا جا رہا ہو، بہت بڑا کارنامہ تھا، یہ بڑا عظیم اقدام تھا۔
یہ بات بھی صحیح ہے کہ قوم اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ میدان میں اتری اور اس نے کار عظیم انجام دیتے ہوئے کامیابی حاصل کی اور ایک نظام تشکیل دیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ قوم بے سہارا تھی اور آج بھی اکیلی ہے۔ اس قوم نے بغیر دوسروں کے سہارے کے اکیلے یہ کام انجام دیا ہے۔ اکیلے اس راستے کو طے کیا ہے لیکن تھکی نہیں، دل برداشتہ نہیں ہوئی، مایوس نہیں ہوئی، خوفزدہ نہیں ہوئی اور گھبرائے بغیر آگے بڑھتی رہی۔ آج اس کی محنتوں کے ثمرات اور اثرات، دنیا میں اس تحریک کے نتائج رفتہ رفتہ سامنے آ رہے ہیں۔
میں یہ بھی عرض کر دوں کہ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا کے علاقے میں جہاں ہمارا ملک بھی واقع ہے بیداری کی لہر پھیلی ہے۔ یہ بیداری کی لہر قلب یورپ تک پہنچنے والی ہے۔ وہ دن بھی آنے والا ہے جب یہی یورپی قومیں اپنے حکمرانوں کے خلاف ارباب اقتدار کے خلاف اور ان طاقتور عناصر کے خلاف جنہوں نے ان قوموں کو امریکا اور صیہونزم کی ثقافتی اور اقتصادی پالیسیوں کا اسیر بنا کر رکھ دیا ہے، قیام کریں گی۔ یہ بیداری یقینی ہے۔ ملت ایران کی تحریک کے دائرے کی وسعت کا یہ عالم ہے۔ یہ بہت عظیم تحریک ہے۔
اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ تحریک اسی رفتار اور اسی سرعت کے ساتھ جاری رہے اور اپنا اثر دکھاتی رہے تو ضروری ہے کہ ہم خود سازی پر توجہ دیں۔ ہمیں کزبر الحدید فولاد کے ٹکڑوں کی مانند مضبوط بننا پڑے گا۔ اپنے ایمان کو پختہ بنانا ہوگا، اپنی بصیرت میں اضافہ کرنا ہوگا، اپنی آگاہی بڑھانا ہوگی، علم و دانش کا دائرہ بڑھانا ہوگا، ہمارے اندر اللہ تعالی نے صلاحیت و استعداد ودیعت فرمائی ہے اس کو نکھارنا ہوگا، ہم نے اتحاد و یگانگت کا جو ہاتھ ایک دوسرے کی جانب بڑھایا ہے اسے استحکام کے ساتھ اسی طرح باقی رکھنا ہوگا۔ یہ بہت ضروری ہے۔
الحمد للہ ہماری قوم اسی انداز سے کام کر رہی ہے، عوام بہت مناسب انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب اگر آپ اس نئی نسل کو صحیح انداز می تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کر لے گئے تو یہ تحریک مزید تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ آپ یقین رکھئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران بلند ہمتی کی بدولت پختہ جذبہ ایمانی کی برکت سے اچھے اور با ایمان افراد کی برکت سے جن کی تعداد بحمد اللہ ہمارے ملک میں بہت ہے، بلند چوٹیوں کو ایک ایک کرکے فتح کرتا جائے گا۔
اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اس راہ کے پیشرو افراد پر، اللہ کی رحمتیں نازل ہوں عزیز شہدا اور سربلند مجاہدین راہ خدا پر، اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پر جنہوں نے ہمارے لئے یہ راستہ تعمیر کیا، اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں تمام ایرانی عوام پر۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
1) آل عمران: 169
2) آلعمران: 110
3) انعام: 123