اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحمیم
عزیز بھائیو اور بہنو' مجھے خوشی ہے کہ (پارلیمنٹ) مجلس شورائے اسلامی کا ایک اور قابل فخر سال، ایسی حالت میں پورا ہوا کہ زیادہ افتخار اور سرافرازی حاصل ہوئی۔ میں نے قابل احترام اراکین پارلیمنٹ کی خدمت میں پارلیمنٹ کے اس دور کے آغاز سے اب تک کے بارے میں کچھ باتیں عرض کی تھیں اور پارلیمنٹ کے امور کے بارے میں جو تحقیقات کیں اور جو اطلاعات ملیں، خدا کا شکر ہے کہ ہم نے دیکھا کہ جو برادرانہ اور ہمدردانہ سفارشات میں نے کی تھیں، پارلیمنٹ میں اس پر دقت نظری کے ساتھ عمل ہو رہا ہے۔ اس کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ آج الحمد للہ عوام پارلیمنٹ سے مطمئن ہیں۔ کتنا اچھا ہے کہ لوگ جب ریڈیو کھولتے ہیں یا اخبار پڑھتے ہیں اور بحثوں سے مطلع ہوتے ہیں تو انہیں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی کہ جو مخلص دلوں کو مایوس کرے۔ یہ چوتھی پارلیمنٹ کی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ امید ہے کہ پارلیمنٹ کی حالت انشاء اللہ اسی طرح روز بروز بہتر ہوگی۔
امور مملکت کے ایک ناظر کی حیثیت سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر مجلس شورائے اسلامی میں چار خصوصیات پائی جائیں تو وہ اپنا حقیقی مقام و مرتبہ حاصل کرلے گی۔ الحمد للہ آج تک جو ہم نے مشاہدہ کیا ہے، اس پارلیمنٹ میں یہ خصوصیات موجود ہیں۔ مگر ان خصوصیات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے اور مزید خیال رکھا جا سکتا ہے۔ یہ چار خصوصیات یہ ہیں؛ اول احساس ذمہ داری، دوم خودمختاری، سوم دلیری اور چہارم ہوشیاری، تدبر، علم اور مہارت سے کام لینا۔
اس ملک میں دسیوں سال آئینی حکومت کا نام رہا ہے۔ مگر ایران پر شرمناک، ضرر رساں اور منحوس پہلوی خاندان کی سلطنت کے دور میں پارلیمنٹ جیسے تھی ہی نہیں۔ سوائے اس مختصر عرصے کے کہ جب آیت اللہ کاشانی مرحوم کی فعالیت اور قومی تحریک وجود میں آئی اور پارلیمنٹ میں کئی لوگوں کی جان چلی گئی، ورنہ بقیہ پچاس برسوں میں جو بھی تھا وہ صرف اسم بلا مسمی اور حقیقت و مفہوم سے عاری ظاہری شکل تھی۔
یہ اس پچاس سالہ دور کی حالت تھی اور اس سے پہلے کے بیس سال، آئینی حکومت کا دور تھا اور مجموعی طور پر پارلیمنٹ کی چھٹی کئے جانے، بند کئے جانے اور اس پر توپ سے گولہ باری کے واقعات کے ساتھ، قومی مجلس شورا کے تقریبا چار دور تشکیل پائے جنہوں نے آئینی حکومت کے آغاز میں کام کیا۔ پارلیمنٹ کے ان ادوار کی یہ تاریخ بہت عبرتناک ہے اور ایرانی قوم کے ایک ایک فرد کو یہ جاننے کے لئے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ نے اس ملک کو کیا دیا ہے اور اس قوم کو کیا دیا ہے، ماضی کے اس دور کو ضرور پڑھنا چاہئے۔ جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ ہم کس طرح تھے یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ہمارے پاس آج کیا ہے۔ ان ابتدائی چند برسوں میں، جب ابھی پارلیمنٹ سلاطین، سرداروں، حکام، سلطنت اور بیرونی سفارتخانوں کے زیر اثر نہیں آئی تھی، ایسی پارلیمنٹ کہ ابتدائی ہونے کے باوجود اس نے ملک کے حالات پر اپنے اثرات مرتب کئے۔ جہاں بھی غیر ملکی تسلط کے آثار نظر آتے تھے، پارلیمنٹ پوری قوت سے ڈٹ جاتی تھی۔ روس کا الٹی میٹم ملا تو پارلیمنٹ ڈٹ گئی۔ غیر ملکیوں سے قرض لینے کی بات آئی تو پارلمینٹ ڈٹ گئی۔ وثوق الدولہ معاہدے کے مقابلے میں پارلیمنٹ ڈٹ گئی۔ اس پارلیمنٹ میں کم و بیش مدرس جیسے لوگ تھے۔ ان لوگوں نے بھی جن کے لئے زمانہ گذرنے کے بعد ظاہر ہوا کہ ہمیشہ مدرس اور مدرس کی طرح نہیں رہ سکتے، مدرس اور خیابانی جیسے آزاد اور مومن افراد کے سائے میں، پارلیمنٹ کو حقیقی عوامی شکل دی گئی تھی۔
شروع کے دو ادوار میں صورتحال یہ تھی۔ بعد میں جب اسی پارلیمنٹ میں انہیں افراد کے ہوتے ہوئے، بیرونی پالیسیوں کا اثر بڑھا تو نوبت یہ آ گئی کہ کودتا کے کے بعد وزیر اعظم حسن مشیر الدولہ پیرنیا نے اپنی کابینہ کے اراکین کے نام پارلیمنٹ میں پیش کئے اور پارلیمنٹ نے دو وزیروں کو مسترد کر دیا تو انہوں نے پارلیمنٹ سے کہا کہ ہمارا جنوبی پڑوسی یعنی برطانیہ چاہتا ہے کہ یہ دونوں افراد کابینہ میں رہیں اور پارلیمنٹ نے انہیں اعتماد کا ووٹ دے دیا، صرف جھوٹے جنوبی پڑوسی کی خواہش پر۔ جن دو وزیروں کو پارلیمنٹ نے پہلے مسترد کر دیا تھا، انہیں اعتماد کا ووٹ مل گیا۔ چونکہ برطانیہ نے ہندوستان اور بحرین پر قبضہ کر رکھا تھا اور خلیج فارس میں موجود تھا، اس کو جنوبی پڑوسی کہتے تھے۔ حتی پہلوی دور میں بھی برطانیہ کو جنوبی پڑوسی کہا جاتا تھا۔ جو ملک ایران کے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر یورپ میں تھا، اس کو پڑوسی کا نام دیا گیا تھا اور چونکہ یہ زبردستی کا جھوٹا پڑوسی چاہتا تھا کہ اس کے منظور نظر دو افراد اس کابینہ میں رہیں، نہ مشیرالدولہ کو پارلیمنٹ سے یہ کہنے میں شرم محسوس ہوئی کہ جنوبی پڑوسی چاہتا ہے کہ یہ دو افراد کابینہ میں رہیں اور نہ ہی پارلیمنٹ نے ان دو وزیروں کو جنوبی پڑوسی کی خواہش پر قبول کرنے میں شرم محسوس کی جنہیں وہ نہیں چاہتی تھی۔ وہی پارلیمنٹ جو روس کے الٹی میٹم کے مقابلے میں ڈٹ گئی تھی، جو وثوق الدولہ کے معاہدے کے مقابلے میں اور دیگر معاملات میں ڈٹ گئی تھی، اس کی حالت یہ ہو گئی تھی۔ میں نے ان معاملات کو نوٹ کیا ہے جن پر پہلی اور دوسری پارلیمنٹ نے مزاحمت کی تھی۔ شاید دس یا دس کے قریب مواقع ہیں۔ وہ پارلیمنٹ ایسی پارلیمنٹ تھی جو پوری قوت کے ساتھ ڈٹی ہوئی تھی۔ جس نے عوام کو خوش کر دیا تھا اور حکومتوں کی بھی تقویت کی تھی۔ اگرچہ اس زمانے میں حکومتیں بیمار اور ناتواں تھیں اور ان میں سے اکثر کی سوچ غنڈہ گردی کرنے والی مغربی طاقتوں کو غنڈا ٹیکس دینے پر استوار تھی؛ مگر یہ پارلیمنٹ انہیں حکومتوں کی جہاں تک ممکن تھا حفاظت کرتی تھی۔ یہ پارلیمنٹ کہ ابتدائی ادوار کے باعث جس کا نام تاریخ میں باقی ہے، تدریجی طور پراس کی حالت یہ ہو گئی کہ بعض اراکین مخالفت کی جرئت نہیں کر پاتے تھے، بعض ان اجلاسوں میں آتے ہی نہیں تھے جو ان کے خیال میں ہنگامہ خیز ہوتے تھے۔ کیا اجلاس سے غیر حاضر ہونے سے آپ کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی؟ آپ رکن پارلیمنٹ ہیں، آپ کے اندر ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔
بعض اس بات پر فخر کرتے تھے کہ اس اجلاس میں نہیں تھے جس میں سلطنت ایران شرمناک اور فاسد پہلوی خاندان کو دی گئی جبکہ انہیں اس اجلاس میں جانا اور مخالفت کرنا چاہئے تھا۔ بعض خود مختاری سے عاری اور تابع فرمان تھے۔ ان کے اندر دلیری تھی مگر اس دلیری سے حق کے خلاف اور باطل کے لئے کام لیتے تھے۔ ان کی جیبیں اور پیٹ مال حرام سے بھرے ہوئے تھے۔ رشوت کی لالچ، عہدے کی لالچ اور فلاں شخص کی مدد کی لالچ نے جو آج اقتدار میں ہے یا ممکن ہے کہ اقتدار میں آ جائے، انہیں ایسا چکرا دیا تھا کہ وہ سمجھتے ہی نہیں تھے کہ ذمہ داری کیا ہے؟! ذمہ داری کا احساس نہیں تھا، خودمختاری نہیں تھی، شجاعت نہیں تھی، آگاہی، معرفت اور ہوشیاری نہیں تھی۔ نوبت یہ آ گئی تھی۔ ورنہ اگر آئینی حکومت کی تحریک، آغاز میں ہی، تحریک کے حقیقی، مخلص اور مومن رہنماؤں کے، کہ جن میں بلاشبہ بڑے علمائے کرام تھے اور جو بھی اس حقیقت کا منکر ہو، وہ بالکل واضح اور آشکارا باتوں کا منکر ہے جیسا کہ بعض لوگ انکار کرتے ہیں اور آج ہمارے ماضی کے لئے تاریخ لکھتے ہیں اور حقائق کا انکار کرتے ہیں، ان رہنماؤں کی خواہش کے مطابق اگر یہ تحریک آگے بڑھتی تو ہمارا ملک دنیا کی تاریخ کے حساس ترین دور میں پچاس سال پیچھے نہ رہ جاتا۔ ہمارے پچاس سال ضائع ہو گئے۔ ہمیں، ایرانی قوم کو اس جاہل اور خود سر اور اس کے خاندان، اس کی اولادوں اور اس کے رشتے داروں اور ساتھیوں کے تسلط، اس ملک پر مسلط طاقتوں کے تسلط، اسلامی انقلاب سے پہلے کے پچاس برسوں میں برطانیہ اور پھر امریکا کے تسلط، سے اور پارلیمنٹ کی کوتاہیوں سے کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
پارلیمنٹ شروع سے ہی اس نقصان کی روک تھام کر سکتی تھی۔ آپ آئینی حکومت کی تحریک کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ جب پارلیمنٹ نے اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے تو اس کی قوت کے مقابلے میں ارباب اقتدار اپنی روش کی اصلاح کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بنابریں اس زمانے میں دشمن نے اس وقت کی پارلیمنٹ میں نفوذ حاصل کیا۔ تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت و لکم ماکسبتم یہ عبرت آموز ہے۔
آج ہماری پارلیمنٹ، الحمد للہ دنیا کی ایک مثالی پارلیمنٹ ہے۔ انسان مجلس شورائے اسلامی کے اراکین کے درمیان، پاکیزہ، صاف ستھرے، عوامی، اہل تقوا، اہل علم، اہل معرفت، اہل مہارت، اہل مجاہدت، موثر زبان کی مالک اور دلیر شخصیات کو دیکھتا ہے۔ آج ہماری پارلیمنٹ الحمد للہ کسی بھی منصف مزاج شخص میں کسی بھی قسم کی تشویش پیدا نہیں کرتی لیکن اس کی حفاظت کرنی چاہئے کیونکہ یہ آپ کے ہاتھوں میں امانت ہے۔ معاملات صحیح ہونے چاہئے۔ راستہ صحیح ہونا چاہئے۔ ورنہ اگر چار دن صحیح چلے اور پھر چھوڑ دیا تو فائدہ نہیں ہے۔ آج پارلیمنٹ کی ذمہ داری یہ ہے کہ ایسی بنیاد رکھے، ایسا کام کرے، ایسا طریقہ معین کرے کہ اگر مستقبل میں کوئی رکن یا اراکین اس کے خلاف چلنا چاہیں تو جیسے صحیح مزاج اجنبی چیزوں کو واپس کر دیتا ہے، پارلیمنٹ بھی اس نامناسب رکن کو نکال باہر کرے۔ اس کی بنیاد آج آپ کو رکھنی ہے۔ دشمن بیدار ہیں۔ ہمیں بھی بیدار رہنا چاہئے۔ جس طرح کہ الحمد للہ آج تک بیدار رہے ہیں۔ آج ہماری قوم بیدار ہے۔ ہماری حکومت بیدار ہے۔ ہماری پارلیمنٹ بیدار ہے۔ ہماری عدلیہ کے ذمہ دار افراد بیدار ہیں۔ آج الحمد للہ سب ہی ہوشیار ہیں۔ مگر صرف آج کی ہوشیاری کافی نہیں ہے۔ ایسا انتظام کریں کہ یہ ہوشیاری اور یہ الہی خدمت جاری رہے۔ دعائے کمیل میں جو عبارتیں ہم پڑھتے ہیں وہ ہمارے لئے درس ہیں قو علی خدمتک جوارحی، واشدد علی العزیمۃ جوانحی، وھب لی الجد فی حشیتک والدوام فی الاتصال بخدمتک یہ دوام ضروری ہے۔ پرودگار کی خدمت سے اتصال ضروری ہے۔ یہ درس ہے ہمارے لئے۔ الحمد للہ پارلیمنٹ کی روش اچھی ہے۔ اس زمانے میں جو میں ضروری سمجھتا ہوں یہ ہے کہ معمولی سا بھی ایسا کام جس سے دشمن پرامید ہو، ہمارے ذمہ دار مراکز سے سرزد نہیں ہونا چاہئے۔
غیر ذمہ دار لوگوں سے مجھے کوئی کام نہیں ہے۔ حکومت اور پارلیمنٹ کو ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ چلنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کو حکومت کا مددگار ہونا چاہئے۔ یہ صرف آج سے مخصوص نہیں ہے۔ تمام ادوار میں اسی طرح ہونا چاہۓ۔ کیونکہ اگر اراکین پارلیمنٹ حکومتوں کی مدد نہ کریں تو حکومتیں کوئی کام نہیں کر سکتیں۔ پارلیمنٹ قانون سازی کا مرکز ہے۔ عنان امور پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور بریک بھی اس کے اختیار میں ہے۔ اگر حکومت چل رہی ہے اور بریک لگا دیا تو ظاہر ہے کہ حکومت نہیں چل پائے گی۔ اگر حکومت کی ہدایت میں غفلت ہوئی تو نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔ ہدایت ہونی چاہئے اور وہی آزادی و خودمختاری جس کا ذکر پہلے کیا گیا، ہونی چاہئے۔ البتہ دشمن ممکن ہے کہ ہر چھوٹی سی بات کو دس گنا اور کبھی سو گنا بڑھا کر بیان کر سکتا ہے۔ مگر الحمد للہ پارلیمنٹ حکومت کی پشت پناہ ہے اور حکومت بھی پارلیمنٹ کے تیارکردہ قانون کی راہ میں آگے بڑھ رہی ہے۔
ملک چلانا مشکل کام ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی کی خدمت آتے تھے اور بعض حالات کی شکایت کرتے تھے۔ کوئی کہتا تھا ٹیکس ایسا ہو گیا، کوئی کہتا تھا فلاں جگہ بلدیہ نے اس طرح عمل کیا، گورنر کے آفس نے یہ کیا اور اسی طرح کی باتیں۔ اکثر میں دیکھتا تھا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سوچتے تھے اور پھر فرماتے تھے کہ جناب ملک چلانا سخت کام ہے۔
مطلب یہ ہے کہ تصور میں، بیان کرنے میں اور باتوں میں بہت سے کام ہو سکتے ہیں؛ لیکن جب کام شروع کریں تو مشکلات سامنے آتی ہیں۔ ہمیں انصاف سے کام لینا چاہئے۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ جو کام کرنے والا کر رہا ہے اگر ہمیں کرنا پڑتا تو اس سے بہتر، زیادہ تیزی سے اور بغیر کسی نقص کے انجام دے پاتے یا نہیں۔ اس پر ہمیشہ توجہ ہونی چاہئے۔ البتہ دوسرے اور تیسرے درجے میں حکومت سے جو خطائیں اور غلطیاں سرزد ہوں ان کا دفاع ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کسی سے غلطی ہوئی ہے تو اس کو بتانا چاہئے اور کسی کو اس کا دفاع نہیں کرنا چاہئے۔
الحمد للہ ہمارا صدر مملکت، باخبر، زمانے کے حالات سے واقف، امور مملکت میں ماہر اور ان لوگوں کے درمیان جنہیں ہم پہچانتے ہیں، بعض منفرد صلاحیتوں کے مالک اور ملک کے محافظ ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ کی ہدایات اس کی مدد کریں گی۔ قانون نے آپ کو جو اختیارات دیئے ہیں جیسے ہدایت، یاد دہانی اور سوال کرنا وغیرہ، یہ قانون پر عمل آوری کے اہم ترین وسائل ہیں جو حکومت کو بتاتے ہیں کہ اس راستے پر چلو اور اس راستے پر نہ چلو اور حکومت کا فریضہ ہے کہ ان پر عمل کرے۔ اس اختیار سے آپ خطاؤں اور غلطیوں کی مکمل طور پر روک تھام کر سکتے ہیں۔ آج مشکل ترین دور یعنی تعمیرنو کا دور ہے۔ صورتحال بہت حساس ہے۔ خراب کرنا بنانے سے بہت آسان ہے۔ فرق ہے اس شخص میں جو ٹیڑھی عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے اور اس میں جو صحیح اور سیدھی عمارت تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ منہدم کرنا دو دن کا کام ہے لیکن بنیاد رکھنا اور تعمیر کرنا ممکن ہے کہ دو سال میں بھی نہ ہو پائے۔ بنابریں مشکل وقت ہے اور کام بھی مشکل ہے۔ بیرونی دشمن کی دشمنی بھی شدید ہے۔ اس دشمنی کا ایک حصہ دشمنوں کے پروپیگنڈوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
آپ اراکین پارلیمنٹ کی رسائی ممکن ہے کہ خفیہ باتوں تک بھی ہو۔ اس صورت میں آپ دیکھیں گے کہ دشمن اسلامی جمہوریہ ایران کو اس کے معینہ ہدف تک پہنچنے سے روکنے کے لئے کتنی کوشش کر رہا ہے۔ ان حالات میں الحمد للہ اس مومن، مخلص، اپنے فریضے سے واقف اور دلیر پارلیمنٹ، ملک کے حالات پر کنٹرول رکھنے والی مقتدر اور توانا حکومت اور تمام میدانوں میں تجربہ رکھنے والے صدر کے ہوتے ہوئے، جو بے شمار شعبوں میں فعال رہے ہیں، ہمیں پوری قوت اور تیزی سے آگے بڑھنا چاہئے۔
صحیح سمت میں آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔ ملک کے عوام بھی بہت اچھے لوگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آگاہی، حلم، صبر، حکمت اور گہرائی و گیرائی ہمارے عوام کی غیر معمولی خصوصیات ہیں۔ عوام تمام دشمنوں کو پہچانتے ہیں۔ تمام فرائض سے واقف ہیں۔ ان تمام زحمتوں کا انہیں ادارک ہے جو ملک کے خدمت گزار حکام انجام دے رہے ہیں اور مشکلات کو برداشت کر رہے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ اس قوم، اس ملک، اس حکومت اور اس پارلیمنٹ کے ساتھ کاموں میں روز بروز زیادہ سرعت اور شفافیت آنی چاہئے۔
الحمد للہ پارلیمنٹ کی اندرونی صورت حال بھی بہت اچھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے متعدد معاملات میں مطمئن ہوکر پروردگار عالم کا شکر ادا کیا ہے کہ الحمد للہ پارلیمنٹ کی اندرونی صورتحال، پارلیمنٹ کا انتظام و انصرام اور اس کے کاموں کی کیفیت، اس کے ساتھ ہی کوشش، فعالیت، بحث و مباحثہ، آراء اور افکار کا تبادلہ - جیسا کہ امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ کی آرزو تھی اور آپ فرمایا کرتے تھے، کہ بحث و مباحثہ اور حق بات تک پہنچنے میں مشکل پیش آتی ہے، مگر الحمد للہ نفسا نفسی، ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا اور اشخاص اور جماعتوں کی بے عزتی، یہ باتیں پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔
ہماری دعا ہے کہ انشاء اللہ آپ سبھی بہنوں اور بھائیوں کو کامیابی نصیب ہو۔ انشاء اللہ پارلیمنٹ کے اسپیکر جو الحمد للہ اس نورانی چہرے کے ساتھ ایک بار پھر منتخب ہوئے اور دیگر تمام محترم حضرات جن کے ذمے پارلیمنٹ میں کچھ امور ہیں، سب کامیاب و کامران ہوں۔ خداوند عالم آپ کے لئے اپنی توفیقات روز بروز زیادہ کرے، انشاءاللہ حضرت امام زمانہ اروحنا فداہ و عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی دعائیں آپ کے شامل حال ہوں اور ہمارے بزرگ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور آپ کی پاکیزہ روح آپ سے راضی ہو۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔