قائد انقلاب اسلامی نے مغرب کی کورانہ تقلید پر نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ میں کئی بار یورپ کے درامد شدہ افکار ونظریات اور کلچر کی بات کرچکا ہوں۔ بعض لوگ ممکن ہے کہ اسے تعصب اور ہٹ دھرمی سمجھیں، ہرگز نہیں؛ یہ تعصب اور ہٹ دھرمی نہیں ہے۔ کسی بھی قوم کو زنجیروں میں جکڑنے کے لیے اس سے زیادہ آسان راستہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ عالمی طاقتیں اس قوم کے افکارو نظریات کو اپنی ضرورت کے مطابق تبدیل کر سکیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں یونیورسٹیوں کے کردار اور انقلاب کی کامیابی کے بعد یونیورسٹیوں کو اسلامی انقلاب سے ملنے والے فروغ پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم ‏الله‏ الرّحمن‏ الرّحيم

آپ جیسے پیارے جوانوں کی یہاں موجودگی انتہائی شیریں اور حسین ہے جو کسی مبالغہ آرائی کے بغیر میں کہہ سکتا ہوں کہ ایسے درخشاں ستارے ہیں جنہوں نے ملک کے آسمان مستقبل کو روشن کررکھا ہے۔
مجھے امید ہے کہ آپ میں سے ہر ایک جب آئندہ برسوں میں ، انشا اللہ اس ملک میں اور اپنے لوگوں کے درمیان کامیاب زندگی گزار رہے ہوگا، اسی نورانیت کے ساتھ اس ملک کے اچھے لوگوں کی دل وجاں سے مدد کرسکے گا ۔ جواں طبقے سے انسان علم و معرفت ، تحقیق و روشن خیالی اور دینی و معنوی جذبات نیز مذہبی و انقلابی ولولہ کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع نہیں کرسکتا۔
میں اس یونیورسٹی کے لیے بہت زیادہ احترام کا قائل ہوں۔ پہلے بھی اس یونیورسٹی میں میرا آنا جانا زیادہ رہا ہے؛ قدیم ترین اور شاید مختلف ادوار میں فعال ترین صنعتی یونیورسٹی ۔
تھوڑی دیر قبل محترم اساتذہ کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں ، وائس چانسلر صاحب نے القلاب کے یونیورسٹی میں ہونے والی ترقی وپیشرفت کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی حقیقت میں خوشی کا مقام ہے۔ البتہ میں بذات خود اسی پر قانع نہیں ہوں؛ میں اس یونیورسٹی اور ملک کی دوسری تمام یونیورسٹیوں میں سائنسی ترقی و پیشرفت اور علمی و تحقیقی ترقی کا آرزو مند ہوں اور امید کرتا ہوں کہ یہ آرزو ضرور پوری ہو۔
بات شروع کرنے کے لیے بہتر ہے اس یونیورسٹی کے بارے میں دو قصے بیان کرتا ہوں۔ البتہ میری بات دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ ، میں کچھ باتیں عرض کروں گا اور دوسرے حصے میں سوالات کے جوابات دونگا۔ پہلے جصے میں زیادہ تر اس یونیورسٹی سے مربوط اور یونیورسٹیوں اور طلباء کی دلچسپی کے معاملات پر گفتگو کرونگا۔
یہ دو واقعات القلاب کے شروع کے برسوں کے ہیں، ایک واقعہ ان متعدد میٹنگوں کے بارے مین ہے جو اس یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ کے ساتھ ہوتی رہی ہیں۔ ان میں سے بہت سے طلباء آج بھی ہیں اور ان میں بعض ملک کے اہم عہدیداروں میں سے ہیں اور بہت معروف شخصیات میں انکا شمار ہوتا ہے۔ ان اجلاسوں میں ، ایک طرف سے مجھے دوسری طرف بنی صدر کو جو اس وقت ملک کا صدر بھی نہیں تھا، بلایا جاتا تھا تاکہ ہم خط امام کے بارے میں بحث کریں ۔ کجھ لوگ پہلے ہی دن سے اس بات کے منکر تھے کہ خط امام بھی کوئی چیز ہے ۔ کہتے تھے کہ خط امام کیا ہے چیز ہوتی ہے؟ خط امام کی تشریح اور وضاحت کے لیے یہاں بہت سی میٹنگیں ہوئی جو میرے لیے ناقابل فراموش ہیں۔

ایک اور واقعہ اس بات کے بارے میں ہے جو بار بار مجھ سے منصوب کی گئ ہے ۔ یہی یونیورسٹی تھی جہاں اس حقیر یہ بات کہی تھی۔ اپنے دور صدارت میں ایک بار اسی یونیورسٹی میں ، میں نے تقریر کی تھی اور سوالات کے جوابات دے رہاتھا۔ ایک طالبعلم نے اپنے ایک تحریرسوال میں مجھ سے پوچھاتھا کہ آپ صدارت کے بعد کیا کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ کیونکہ ہر طرح کے اندازے لوگ لگا رہے تھے۔ میں نے جواب دیا تھا کہ اپنے لیے کسی اور مشغلے کے بارے میں ابھی نہیں سوچا، اور نہیں معلوم کہ آگے کیاہو، لیکن اگر امام مجھے زابل میں کی پولیس بٹالین کا نظریاتی اور سیاسی امور کا ذمہ دار بھی بنائنگے تو میں اسے قبول کرلوں گا اور اپنے بال بچوں کو لیکر زابل چلا جاؤنگا۔ یعنی میں اس حوالے اپنے لیے کسی خاص مطالبہ کا قائل نہیں ہوں۔
میں پہلے ہی سے اس یونیورسٹی کے طلباء یہاں کے ماحول اور علمی فضاء سے دلی طور پر متاثر تھا اور اب بھی ہوں ۔ یہ یونیورسٹی، بہت ہی اچھی بہترین یونیورسٹی ہے اور مجھے امید ہے کہ انشاءاللہ اسے اس بات کا موقع ملے گا کہ یہ یونیورسٹی اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمیشہ موثر کردار ادا کرتی ہے گی۔

اب آتا ہوں اس بات کی طرف جو میں آپکے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس بات کو اساتذہ کے ساتھ میٹنگ میں بیان کروں، لیکن وقت نہیں ملا۔ لیہذا بات کو شروع سے عرض کرتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ نئی علمی سوچ پیدا کرنا یونیورسٹیوں کیاہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ کیونکہ جمود کا معاملہ صرف دینی ماحول اور دینی افکار ونظریات کی بلائے جان نہیں ہے ؛ ہر میدان میں جمود کا شکار ہوجانا اور ایک جگہ ٹک کر کھڑے ہونا کہ جو انسان پر مسلط ہوگیا ہے ، چاہے اسکے پیچھے کوئی صحیح منطق ہو یا نہ ہو۔ ایک بلاء ہی تو ہے۔ کسی علمی اور یونیورسٹی فضاء پر جو آئیڈل ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ علمی معاملات کے میدان میں نئي سوچ پیدا کرے۔ تخلیق علم سے حقیقی مراد یہی ہے، تخلیق علم صرف علم کی منتقلی نہیں ہے ؛ سب سے پہلے نئی علمی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات میں نے اس لیے کہی ہے کہ اسے(تخلیق علم کو) ایک کلچر میں تبدیل کرنا ہوگا۔ نئی سوچ کا تعلق صرف اساتذہ سے نہیں ہے ؛ بلکہ نہ صرف طلباء بلکہ پورے علمی ماحول سے اسکا تعلق ہے۔ البتہ اسلامی تعلیمات اور ثقافت میں تخلیق علم کیلیے،جسےاجتہاد کہا جاتا ہے، دو چیزیں ضروری ہیں، تسلط علمی اور دوسری جرات علمی ہے، البتہ علمی تسلط سب سے اہم ہے ۔۔ زبردست ذہانت، لازمی معلومات کا ذخیرہ اور حصول علم کے لیے انتھک محنت، ایسے عوامل ہیں جو علمی تسلط کے لیے ضروری ہیں لیکن صرف یہی کافی نہیں ہیں۔ ایسے بھی بہت سے لوگ ہیں جنکے پاس علمی تسلط تو بلا کا ہے لیکن انکا علمی ذخیرہ کسی کام کا نہیں، کاروان علم کو آگے نہیں لے جارہا، اور کسی قوم کو علمی لحاظ سے بلندی عطا نہیں کررہا۔ بنا برایں جرات علمی بھی ضروری ہے۔
البتہ جب بھی علم کی بات کی جاتی ہے ، ممکن ہے کہ سب سے پہلے صنعتی اور فنّی علوم سے مربوط معاملات ذہن میں آئیں، اس یونیورسٹی میں بھی ان ہی معاملات پر توجہ مرکوز ہے، لیکن مجموعی طور سے میں یہ عرض کرونگا۔ انسانیات (humanity ( سوشیا لوجی، سیاسیات، معاشیات اور دیگر مسائل کہ جو کسی بھی ملک کو سائنٹفک طریقے سے چلانے کے لیے ضروری ہیں، نئی علمی سوچ اور فکر با اجتہاد کے محتاج ہیں۔ جو بات ہماری ایکیڈ میوں میں دکھائی دے رہی ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بڑا عیب ہے ۔ یہ ہے کہ ہم برسوں سے غیرملکی متون(text )
کو رٹے جا رہے ہیں ، دہرا رہے ہیں ، یاد کیے جارہے ہیں اور ان کی بنیاد پر پڑھ بھی رہے ہیں اور پڑھا بھی رہے ہیں۔ لیکن ہمارے اندر سوال کرنےاور اعتراض کرنے کی جرات پیدا نہیں ہوسکی ہے! ان مضامین کو پڑھنا بھی چاہیے اور علم جہاں بھی ہو حاصل کرنا چاہیۓ! لیکن علم کو تکامل کے عمل کے ساتھ، ایسی طاقتور، مضبوط اور کارآمد اسپرٹ(SPRITE ) کی ضرورت ہے جس میں علم کو آگے بڑھانے کا حوصلہ ہو تاکہ ترقی کی جا سکے ۔ دنیا بھر میں علمی و سائنسی انقلابات اس طرح آئے ہیں۔
میرے پیارو! آج ہمارے ملک کو علمی ترقی کی صرورت ہے۔ اگر آج ہم نے علم کے لیے سرمایہ کاری، محنت ارو جدوجہد نہ کی تو ہمارا مستقبل تاریک ہو جائیگا۔ اگر کوئی ، علمی ترقی کی رفتار سست یا اسے روکنا اور یا اسے لاپرواہی کی نظر کرنا چاہتا ہے تو یہ کسی طور اچھی بات نہیں۔ آج ہمارے ملک کو علمی ذخائر میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری ہماری موجودہ نسل پر اور سب سے پہلے آپ طلباء اور اساتذہ(Academics) پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہمارے پاس علم نہیں ہوگا تو ہماری معیشت، ہماری صنعت، یہاں تک کہ مینیجمنٹ اور سماجی معاملات سب پیچھے رہ جائینگے۔ آج جو دنیا پر خدائی کر رہے ہیں؛ وہ خونخوار پنجے جنکے قبضے میں آج دنیا کے عظیم انسانی اور مادی وسائل ہیں اور ساری دانیاکے سمندر اور حساس آبنائے جنکی نگاہوں کے سامنے ہیں اور وہ جہاں چاہتے ہیں مداخلت کرتے پھرتے ہیں، علم ہی کے ہتھیار سے انہوں نے انسانیت کو خاکستر کردیا ہے ! لیہذا انکے مقابلے کے لیے علم لازمی ہے۔ اگر علمی لحاظ سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں تخلیق علم کی جرات بھی پیدا کرنا ہوگی۔ استاد اور طا لبعلم دونوں کو مسلط شدہ علمی تعریفوں قید وبند ، اور انہیں حتمی سمجھ لینے کی زنجیروں کو توڑنا ہوگا ۔
البتہ کوئي غلط فہمی میں مبتلاء نہ ہو؛ میں کسی علمی انارکی پھیلانے اور مہمل علمی باتوں کا مشورہ نہیں دے رہا۔ ہر میدان میں ، اگر کوئی ایسا شخص جو علم سے عاری ہو اور اپنے خیال میں جدت طرازی کرنے کی کوشش کریگا وہ مہمل علمی باتوں میں پھنس جائے گا۔ ہم انسانیات اور مذہبی علوم کے بعض شعبوں میں اسکا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ نہ جاننے والے لوگ ، جنکے پاس نہ تو لازمی تعلیم اور نا ہی کوئی علمی ذخیرہ ہے، میدان میں اترتے ہیں بات کرتے ہیں اپنے خیال خام میں جدت طرازی کر تے ہیں ؛ در حقیقت یہ جدت طرازی نہیں مھمل گوئی ہے ۔ لیہذا علمی مسائل میں ، میں اسکا ہرگز مشورہ نہیں دونگا۔ علم حاصل کیا جائے ، لیکن محض دوسروں کی علمی محصولات کے صارف بن کر نہ رہیں ، حقیقی معنوں میں علم کی تخلیق کرنا ہوگی ، البتہ اس کام کے لیے اور اور لازمی ذہانت اور ضابطے کی ضرورت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں تخلیق علم کی روح بیدار ہوجائے اور زندہ رہے ۔ خوشمتی سے میں طلباء میں یہ شوق اور رجحان محسوس کر رہا تھا اور اساتذہ میں بھی اسے دیکھ رہاہوں۔ ہاتھوں میں ہاتھ دیکر ملک کی علمی سطح کو اوپر لے جائیے۔ جب علم ایمان کی رہنمائی ، صحیح جذبات اور ورشن خیالی و آگاہی کی بنیادوں بر معرفت کے ساتھ مل جائے تو عظیم معجزہ کرتی ہے اور ہمارا ملک معجزوں کی توقع کرسکتا ہے۔
میں علمی غلامی اور مختلف علمی شعبوں میں جمود کے بارے میں نے یہ بات کہی اشارہ کیا ، علمی لحاظ سے یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری علمی درسگا ہوں میں یورپ سے درامد شدہ ، تحکمانہ اور ٹھونسی گئی ثقافت کے بارے میں عمومی بیداری پیدا کرنا ہوگی۔
جب ہم نے ثقافتی حملے کی بات کی تو کچھ لوگ سخت آزردہ ہوگئےاور کہنے لگے ہم ثقافتی حملے کی بات کیوں کررہے ہیں،!؟ حالانکہ ثقافتی حملہ شروع ہوچکا ہے اور ہمیں مقابلے کے لیے میدان میں للکارا جا رہا ہے۔ بعض لوگ اس حملے کو کونے کھدروں میں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! یہ ثقافتی جارحیت ، بعض ظاہری اور سطحی معاملات کے ساتھ محصوص نہیں ہے؛ بات یہ ہےکہ دنیا میں ایک ثقافتی گروپ ، تیل کی طاقت، ویٹو کے حق، کیمیائی و جراثیمی ہتھیاروں، ایٹم بموں اور سیاسی طاقت کے بل پر اپنےمن پسند افکار و نظریات کو دیگرقوموں اور ملکوں پر زبردستی ٹھونسنا چاہتے ہیں ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کوئی ملک کبھی کبھی ترجمہ شدہ افکار ونظریات سے دوچار ہوجاتا ہے ۔ سوچتا تو ہے لیکن وہ بھی ترجمہ شدہ ہی سوچتا ہے اور دوسروں کی فکر ی محصولات کو حاصل کرتا ہے ۔ البتہ اسے تازہ ترین محصولات نہیں ملتی بلکہ استعمال شدہ ،منسوخ شدہ اور بیکار محصولات، جسے وہ کسی ملک کے لیے ضروری سمبھتے ہیں اور پروپیکنڈے کے ذریعے اس قوم میں انجیکٹ کرتے ہیں اور اسے نئی سوچ کے نام سے کسی قوم کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کے لیے کسی بھی مصیبت سے زیادہ سخت تر اور شدید تر ہے۔
ہمارے اساتذہ اور طلباء کے فکری دماغ ایسے لاتعداد قانونی، سماجی اور سیاسی مفاہیم کا، جنکی یورپی شکلیں اور ڈھانچے بعض لوگوں کی نظر میں وحی منزل کا درجہ رکھتی ہیں اور انکے بارے میں ذرّہ برابر بھی شیں کے ک نہیں کیا جاسکتا ہے، مختلف علوم کے عظیم تحقیقاتی تجربہ گاہوں میں پوسٹ مارٹم کریں، ان پر سوال اٹھائیں، جمود کو توڑ ڈالیں اور نئي راہیں تلاش کریں، خود بھی ان راہوں پر چلیں اور انسانیت کی ہنمائی کریں۔آج ہمارے ملک کو اس چیز کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ملک کو اپنی یوینورسٹیوں سے اسی بات کی توقع ہے۔ اس یونیورسٹی کو ملک و قوم کے لیے ایک ہمہ گیر اور جامع سافٹ ویر تحریک شروع کرنا ہوگی تاکہ جو لوگ محنت اور کام کے شوقین ہیں ، اپنی علمی تجاویز، منصوبوں اور جدت طرازیوں کے ذریعے اسلامی افکار و اقدار کی بنیادوں پر حقیقی معنوں میں ایک آباد اور با انصاف معاشرے کی عمارت تعمیر کر سکیں۔ آج ہمارے یونیورسٹیوں سے ہمارے ملک کا یہی مطالبہ ہے۔ یونیورسٹیوں کو کس کن کاموں الجھایا جا‎ئے کہ طالبعلم اور استاد دونوں کو اس کام سے روکا جاسکے؟ یقین جانیے انٹلی جینس ایجنسیوں نے جس بات پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ بیدار مغز ایرانی طالبعلم اور ریسرچ یونیورسٹی کو کس طرح سے ملک کی ترقی کی جانب جانے والے راستے سے ہٹایا جاسکتاہے۔
البتہ میں کئی بار یورپ کے درامد شدہ افکار ونظریات اور کلچر کی بات کرچکا ہوں۔ بعض لوگ ممکن ہے کہ اسے تعصب اور ہٹ دھرمی سمجھیں، ہرگز نہیں؛ یہ تعصب اور ہٹ دھرمی نہیں ہے۔ کسی بھی قوم کو زنجیروں میں جکڑنے کے لیے اس زیادہ آسان اور ممکن راستہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ عالمی طاقتیں اس قوم کے افکارو نظریات کو اپنی ضرورت کے مطابق تبدیل کر سکیں۔ ہر ایسا نظریہ جو کسی قوم کو اپنے اوپر بھروسہ ،خود اعتمادی، آگے بڑھنے کا جذبہ اور آزادی و خود مختاری کی جدوجہد پر ابھارتا ہو، اسکے جانی دشمن وہی ہیں جو طاقت کے بل پر دنیا کو اپنے اختیار میں لیکر اپنے مفاد میں انسانیت کا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔ لیہذا اس نظریے کا مقابلہ کرنے پر اتر آتے ہیں۔ اسکے مد مقابل، وہ کوشش کرتے ہیں کہ مختلف طریقوں اور راستوں سے ، ایسے افکار و نظریات کو اس قوم کے درمیان فروغ دیا جائے کہ وہ قوم ویسا ہی سوچنے لگے جیسا وہ چاہتے ہیں۔ جب ایسا سوچنے لگیں تو پھر ایسےہی عمل بھی کرینگے ۔ یہ ایک رائج ترین طریقہ ہے ؛ یہ استعمار کی تیار کردہ تھیوری ہے۔ یہ کام انہوں نے ایران میں انقلاب کے شروع میں بھی کیا تھا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں مین بھی انہوں نے ایسا ہی کیا ہے ۔ کسی محصوص دور سے بھی اسکا تعلق نہیں ہے ۔
انیسوین صدی میں انگریزوں نے سامراجی مقاصد کے لیے جنگوں اور لشکر کشی کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ افریقہ ،ایشیا ،ہندوستان اور دیگر علاقوں میں جاتے اور ملکوں پر قبضہ کر لیتے اور انسانوں کو غلام بناتے ۔ آج امریکا میں جو لاکھوں کی تعداد میں سیاہ فام لوگ کیسے کیسے حالات سے دوچـار ہیں ، وہ ان ہی غلاموں کی اولاد ہیں جنہیں انیسوین صدی کے تہذیب یافتہ آقاؤں نے ، افریقہ میں انکے گھر والوں اور ماں باپ سے چھین کر ، غلامی اور بیگار کی غرض سے وہاں بسایا تھا۔ یہ کھلا جرم ہے۔ انہوں نے اپنے غیر عقلی ، غیر شرعی اور انسانی اقدار کی اس کھلی خلاف ورزی کی توجیہ کے لیے، نام نہاد روشن خیالی اور موڈریٹ قسم کی تھیوریاں گڑھ رکھی ہیں۔ لفظ استعمار بھی ایسی ایک تھیوری ہے ۔ یعنی ان علاقون کی آباد کاری کے لیے ہم جاتے ہیں! اج بھی دنیا میں باالکل یہ ہی معنی رائج ہیں۔ جو لوگ قوموں پر تسلط اور انکے انسانی وسائل سے کا استحصال کرنا چاہتے ہیں انکا ایک کام یہ ہے کہ وہ دوسری قوموں کے لیے تھیوریاں گڑھتے ہیں۔
میں اپنی یونیورسٹیوں کے ماحول اور طالبعلموں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یورپ سے درامد شدہ تھیوریوں سے پوری طرح ہشیار رہیں کیونکہ انکا مقصد اسکے سواء اور کچھ نہیں ہے کہ دیگر ملکوں کے ساتھ یورپ حاکمانہ تعلقات کو محفوظ رکھا جائے۔ جو ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ اگرچہ مختلف ناموں سے بہت سی باتین کہی جاتی ہیں لیکن انکا مقصد ایک ہے۔ اس انقلاب، اس حکومت اور اس عظیم عوامی تحریک نے اس ملک سے یورپ کے خود کار حاکمانہ تسلط کا خاتمہ کردیا۔ آج ہمارے ملک میں مغربی اقدار رائج اور قانونی شکل میں باقی نہیں ہیں۔ آج ملک کے مفادات کو دوسروں کے سپرد کرنا ، ہمارے ملک میں ایک مذموم فعل سمجھا جاتا ہے۔ لالچ کا دسترخوان جو اس ملک میں بچھایا گیا تھا۔ خاص طور سے امریکیوں کو ۔ لپٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ بڑی طاقتوں اور تسلط پسندوں کے لیے کوئی کم نقصان نہیں ہے۔ صورتحال کو واپس اسی ڈگر پر لانے کے لیے آخر کریں تو کیا کریں؟ انقلاب کے شروع میں بڑی چالاکی سے رویّوں کی جگ چھڑی ؛ لیکن جب انکی ناک رگڑی گئی تب انہیں احساس ہوا کہ اسکا راستہ یہ نہیں ہے۔ لیہذا نہوں نے ثقافتی جنگ کا سہارا لیا۔ ثقافتی جنگ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اسکے لیے مہارت چاہیے۔ لیھذا ماہرین سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں ، سوچتے اور نسخہ لکھتے ہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ بعض افراد ملک کے اند اسی کو ریلے کرنا شروع کر دیتے ہیں! وہ بولتے ہیں اور کچھ لوگ اسے فارسی میں دہراکر ان باتوں کو مقامی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں ! ان باتوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
مجھے اس حوالے سے ، یونیورسٹی، نوجوان طالبعلموں اور اساتذہ سے بہت ساری باتیں کہنا ہیں۔ یہ باتیں انتہائی اہم ہیں، ہمیں انکا سامناکرنا ہوگا۔ اس معاملے کو یونہی نہیں چھوڑا جاسکتا اور خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ بعض لوگ معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جب دشمن کی بات کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ دشمن کون ہے ؟ جب سازشوں کی بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ آپ ہر ایک سے بد بین ہیں! بات کو دبا کر معاملہ ختم نہیں کیا جاسکتا۔ معاملہ ایسے حل نہیں ہوگا۔ سوچنا پڑیگا۔ البتہ میں یہ باتیں ایکیڈمیکس کے ساتھ اس لیے کر رہا ہوں کہ میرے دل میں یونیور سٹی کا بڑا احترام ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے یونیورسٹیوں کی اہمیت کو میں پورے وجود کے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ یونیورسٹی کسی بھی ملک کے لیے اعلی ترین خدمات انجام دیتی ہیں۔ یونیورسٹیاں کسی بھی ملک کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
البتہ انقلاب اور یونیورسٹی نے ایک دوسرے کی بڑی خدمت کی ہے۔ اگر ہم انقلاب اور یونیورسٹیوں کی ایک دوسرے کے لیے خدمات کو گنوانا چاہیں تو تو اسکی ایک لمبی فہرست تیار ہوگی ۔ یونیورسٹی نے انقلاب کے لیے عظیم خدمات انجام دی ہیں۔ سن 42 (ہجری شمسی) میں جب اسلامی تحریک میدان میں آئي یونیورسٹی ہی وہ پہلی جگہ تھی جہاں اسکے قدم جمے ۔ البتہ ان دنوں یونیورسٹیوں کا ماحول پوری طرح غیر مطلوب تھا۔ لیکن ، ایکیڈمکس نے ، اساتذہ اور طالبعلموں نے اقیبت میں ہونے کے باوجود ، خوف نہیں کھایا اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پوری تحریک کے دوران ، سن 42 سے 57 تک کے عرصے میں، یونیورسٹیاں (انقلاب کے) ہراول دستوں میں شامل رہی ہیں۔ اور اس حقیر نے بڑے قریب سے ساری سرکرمیوں کو دیکھا ہے۔ آج تجزیہ و تحلیل کرنے والے اکثر افراد اس وقت یونیورسٹیوں میں نہیں تھے اور بہت سے اس وقت ایران میں بھی نہیں تھے ۔ یورپ میں بیٹھے دور سے تماشاکر رہے تھے۔ اکثر تو دیکھنے کی بھی تاب نہی رکھتے تھے اور حبروں پر ہی اکتفا کیے ہوئے تھے۔ یہ لوگ آج کل یونیورسٹیوں کی خدمات کی بات کرتے ہیں! انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ اس زمانے میں کون کون طالبعلم تھے، کیا کرتے تھے،یونیورسٹی میں کیا کیا کام ہوتے تھے۔ کیا جذبہ تھا، کسی جدوجہد تھی ہوتی تھی۔
مؤذّن بانگ بي‏هنگام برداشت نمي‏داند که چند از شب گذشته است
درازي شب از چشمان من پرس که يک دم خواب در چشمم نگشته است
ہم نے اس دور میں یونیورسٹیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ جب تحریک (انقلاب) شروع ہوئي تو ی آہستہ آہستہ یونیور سٹیوں میں بھی لاوا پکنے لگا ، یہان تک کہ آخری برسوں میں ، یونیور سٹیوں کی فعال سرگرمیوں نے سب کو متاثر کیا ۔ جب انقلاب کامیاب ہوا تو جن لوگوں نے انقلاب کی کامیابی کے پہلے مرحلے میں ، انتہائی اہم کردار ادا کیا وہ یونیورسٹیوں کے ہی لوگ تھے ، میں نے آج محترم اساتذہ کے ساتھ میٹنگ میں ان میں سے بعض دوستوں کو اچانک دیکھا ہے اور میرے ذہن میں امام کی امد کی یادیں اور ان لوگوں کا کردار تازہ ہوگیا۔ ایک ایسا مقام جہاں جھوٹے نام، شہرت اور پیسے کی بات نہیں تھی بلکہ صرف مخلصانہ جدوجہد ہی دکھائی دیتی تھی۔ اور اسکے بعد جنگ کے دوران بھی ، تین ہزار طالبعلموں نے انقلاب اور اسلام کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں سے نوّے طلباء کا آپکی یونیورسٹی سے تھا۔ یہ کوئي کم بات نہیں ہے ، یہ خدمات ہیں یونیورسٹیوں کی۔
انقلاب نے بھی یونیورسٹیوں کی عظیم خدمت کی ہے ۔ میرے خیال میں انقلاب نے یونیورسٹیوں کے لیے دو عظیم کا م کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ یونیورسٹیوں کو قومی تشخص کا ابدی احساس دیا اور یونیورسٹیوں کو غیروں کے آکے ہاتھ پھیلانے ، انکے سامنے مات و مبھوت ہوجانے اور غیروں کے مقابلے میں سرتسلیم خم کرنے سے بچا لیا ۔ انقلاب سے پہلے ایسا ہی ہوتا تھا۔ دوسرے یہ کہ یونیورسٹی اور لوگوں کے درمیان دوستی قائم کی۔ انقلاب سے پہلے یونیورسٹی ، عوام کے ٹھاٹے مارتے سمندر کے درمیان ایک دور افتادہ جزیرے کی مانند تھی ۔ اگر مومن ، پرہیز گار اور اچھے اساتذہ اور طالبعلم کی بات چھوڑ بھی دی جائے تو اس زمانے میں یونیورسٹی کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ اگر یونیورسٹی میں داخل ہوگئے تو پھر آپکو عمومی ثقافت، ایمان، عقائد اور عوام کا درد ، سب سے منہ موڑنا پڑتا تھا۔
اساتذہ اور طلباء کی اکثریت کے لیے یونیورسٹی کا ماحول ذاتی امنگوں سے پر تھا ، چند ایک کو چھوڑ کر جو سیاسی تھے یا مجاہد، ہر ایک کو صرف اپنی فکر تھی ۔ اجتماعی سوچ باالکل نہیں تھی۔ اپنے معاشرے کے درد کو محسوس کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس زمانے میں ہر طالبعلم کی ارزو یہ تھی کہ کس طور بھی ممکن ہو وہ ملک سے باہر چلا جائے۔ یونیورسٹی بھی یورپ سے متاثر تھی اور جدت طرازی کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اساتذہ اور طلباء اس جانب مائل نہیں تھے بلکہ یونیورسٹی کے ماحول میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ دوسروں پر انحصار کی کلچر تھا جسے شاہی حکومت بھی پوری قوت کے ساتھ رواج دے رہی تھی۔ یونیورسٹیوں کے اندر روشن خیالی کا دعوی کرنے والے بھی عوامی روشن خیال نہیں تھے ، وہ تو عوام سے کٹے ہوئے اور قہوہ خانوں کے روشن خیال تھے!
ان میں سے اکثر انقلاب کے بعد چلے گئے اور آج کل مغربی ملکوں میں بھی قہوہ خانوں کی زینت ہیں ! یونیورسٹی کا یہ حال ہوا کرتا تھا۔ انقلاب نے یونیورسٹی کو ان دو آفتوں سے نجات دلائی ہے ۔ یونیورسٹی کو خود فکر، خود مختار، خود اعتماد ، تخلیقی صلاحیتوں کا مالک، علم و فکر کی پرورش کرنے والا۔ عوام کے مختلف طبقات سے مربوط ، عوامی ثقافت کا ساتھی، عوامی جذبات و احساسات کا ترجمان بنادیا ۔ یہ بات انتہائی اہمیت رکھتی ہے ۔
ميں آپ سے کہوں گا کہ یہ دو انہتائی اہم نکات ہیں ، اگر اغیار اور دشمنوں سے یونیورسٹیوں کو کوئی خطرہ ہے تو وہ یہی ہے کہ ان دونوں اہم مراکز پر بمباری کریں ؛ یونیورسٹی سے خوداعتمادی کو چھین لیں، ترجمہ شدہ افکار اور تھیوریوں کو یونیورسٹیوں میں درامد کرکے انہیں اساتذہ اور طلباء کے دماغوں میں ٹھونسے کی کوشش کریں، اور ان میں ایمان اور عوام کا درد باقی نہ رہے۔ یہ بنیادی خطرہ ہے ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ عوامی حلقوں کے افکار کے ساتھ اپنا تعلق برقرار رکھا جائے اور انقلاب اصولوں سختی کے ساتھ کاربند رہا جائے۔ میرے بچوں! انقلاب کے ساتھ تعلق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرو۔ ہماری قوم ، عالمی سطح پر اپنا وقار اور تشخص کھو چکی تھی۔ انقلاب نے ملت ایران کا وقار اور تشخص واپس دلایا ہے۔
آج مغربی تھیوریشینز ((theoreticians اور انکے لاؤڈ اسپیکرز دوبارہ مغرب کے ساتھ لائن جوڑنے کی فکر میں ہیں۔ وہی یورپی تسلط کا الٹا راستہ ۔ البتہ جیسا کہ میں نے کہا کہ وہ یہ سب کچھ روشن خیالی کے نام سے، نئی سوچ کے عنوان سے ، عالمگیریت کی تھیوری اور ڈائیلاگ کے نام سے کرنا چاہتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس دور میں سامراج مخالف طالبعلم بن کر نہیں رہا جاسکتا ۔ کہا جاتا ہے کہ سامراج اور استکبار کی مخالفت اور مردہ باد استکبار کہنے کا دور گزر چکا ہے ؛ انصاف کے مطالبے اور سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے کا زمانہ ختم ہو گیا۔ سیاسی پسند- نا پسند کا دور بھی نہیں ہے؛ نئے طلباء ڈائیلاگ کا مطلب یہ ہے کہ عالمی ڈائیلاگ، عالمگیریت، حقیقت پسندانہ ڈائیلاگ ، نیو ورلڈ آرڈر میں شامل ہونے کی گفتگو، یعنی امریکا کے لشکر میں شمولیت! اس عالمگیریت کا نام تو عالمگیریت ہے ؛ لیکن اسکے پیچھے امریکیت ہے۔ اسکے معنی یہ ہیں کہ ملت ایران، اپنی تمام تر جدوجہد کے بر خلاف، کامیابی چوٹیوں پرچم گاڑنے کے باوجود، اس بیداری کے باوجود جو اس نے مسلم قوموں میں پیدا کی ہے دوبارہ انقلاب سے پہلے کی طرح ، امریکی مفادات کی نگہبانی کے کے ایک ٹول تبدیل ہوجائے۔ مقاصد کی ایسی کھلی اور عریاں صورت اور کیا ہوسکتی ہے؛ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ- عالمگیریت اور تبدیلی و ترقی جیسے خوبصورت ناموں پیچھے چھپایا جا‎ۓ۔
البتہ بیس سال ہوگئے ہیں کہ یورپی ادارے اور انکے تھیوریشینز ان باتوں کی تکرار کر رتے چلے آرہے ہیں ۔ چند برسوں سے ملک کے اندر بھی کچھ نادان اور غافل لوگ ، یا خود غرض اور دیوانے مختلف لہجوں میں انکی (مغرب کی) باتوں کی رٹ لگا رہے ہیں۔ یہ جو نام نہاد لبرل ڈیموکریسی کی بات کی جا تی ہے - جو نہ تو لبرل ہے اور نا ہی اس میں ڈیموکریسی ہے - مطلب صرف ایک عالمی سامراجی اور استحصالی نظام ہے - اور اس میں صہیونی کمپنیوں اسکے اتحادیوں اور حامیوں کے مفادات کی بات ہے ۔ اسکا مقصد اسکے سواء اور کچھ نہیں کہ کسی طور بھی ممکن ہو اپنی طاقت کے بل پر پوری دنیا کے آمدنی کے بنیادی مراکز پر اپنا مکمل کنٹرول اور اجارہ داری قائم کی جاۓ۔ وہ انقلاب پر اجارہ داری کا الزام لکاتے ہیں، کیونکہ یہ انقلاب انکی اجارہ داری کے راستے میں کھڑا ہوگیا ہے ۔ دنیا کو ایک عالمی گاؤں کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ تاکہ اس گاؤن کی چوہدراہٹ انکے قبضے میں رہے۔ ثقافتی اتحاد اور عالمی ثقافت کا نعرہ لگا تے ہیں تاکہ اپنی ثقافت کو دنیا کی دیگر ثقافتوں پر مسلط کریں۔ عالمی سطح پر اپنے مسائل کے بارے میں ،مغربی ثقافت کے حوالے سے ،اور اس ثقافت کے بارے مین جو سامراج ساز رہی ہے، کسی کو ذرّہ برابر اعتراض کرنے اور اس سوال اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے لیکن آپ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ تمہیں اپنی ثقافت میں، اپنے عقائدمیں، اپنے جذبات میں اور اصولوں میں کثیر الجہتی پر یقین رکھنا چاہیے ۔ اجازت دی جانا چاہیے کہ ہر شخص اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق آپکے ایمان ، افکار ، ثقافت اور آپکے مضبوط اصولی ستونوں کے بارے میں جیسے چاہے اظہار خیال کرے۔ لیکن اپنے بارے میں وہ ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتے! دنیا مین کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ امریکی مفادات کے بارے میں کثیرالجہتی نظریات پیش کرسکے! اب سے چند روز قبل ہی ، خبر آئی ہے کہ امریکی کانکریس میں ایک بل پیش کیا گیا ہے کہ ملک کے صدر کو اس بات کا حق دیا جانا چاہیے کہ وہ دنیا بھر میں امریکا کے قتل کرواسکے! اگر ان سے پوچھا جائےکہ کیوں؟ تو وہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں ؛ ایسی دلیل جو امریکی مفادات کی توجیہ کرتی ہے ۔ لیکن ہم سے اور آپ سے کہتے ہیں کہ ہم اسی نظریئے کے ساتھ انکی دلیل کو دیکھیں اور اپنے پورے وجود اور مکمل ایمان کے ساتھ اسے قبول بھی کریں ۔ اس بڑھ کر منہ زوری اور کیا ہوسکتی ہے ؟!
آج سے چار پانچ سال پہلے کی بات ہے ، الجزائر میں آزادانہ انتخابات ہوئے ؛ جب انہوں نے دبکھا کہ اس میں چند ایسے لوگ بھیکامیاب ہو رہے ہیں جنہیں وہ پسند نہیں کرتے تو انہوں نے منصوبہ بندی کی اور مدد کرکے ایک فوجی کودتا کروادیا اور لوگوں کو کچل ڈالا۔ ساری دنیا اس بات کا اعتراف کر رہی تھی کہ یہ آزادانہ انتخابات تھے ۔ عوامی جمہوریت کی علامت اور خود انکے جمہوری انتخابات؛ لیکن اسکے باوجود سب کچھ پامال کرڈالا! اگر کوئی پوچھتا تھا کہ کیوں ایسا کر رہے ہو تو اسکی دلیل بھی پیش کرتے تھے : کیونکہ اسلام پسند ترسر اقتدار آگۓ ہیں اور عالمی مسائل اور جمہوری معاملات میں ہمارے نظریات کے مخالف ہیں! یعنی اپنے مرضی کے ثقافتی اور فکری اصول وضع کرتے ہیں ؛ دنیا بھر میں کسی کو بھی اے بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ان اصولوں کو متنازعہ اور مشکوک بنائیں یا انکی مخالفت کریں۔ لیکن آپکی فکری بنیادوں ، اصولوں اور اقدار ، نیز مضبوط اور ثابت شدہ اصولوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کہا جائے کہ آپ کیوں اعتراض کر رہے ہیں تو کہتے ہیں کہ اسکی تو کئ تشریحات ہوسکتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے اور دوسری تشریح ہے ، فورا ثقافتی پلورلزم(pluralism (کے حامی بن جا تے ہیں! اگر آپ بھی کیوں تو آپ پر جمود اور دقیانوسیت کا الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں اور الٹا کہتے ہیں کہ آپ پلورلزم کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں ؛ حالانکہ خود اپنے مفادات کی وضاحت اور ان مفاہیم کی تشریح میں ہرگز پلورلزم کے قائل نہیں ہیں جنکی بنیاد پر یہ مفادات استوار ہیں اور اسے قبول بھی نہیں کرتے ! یہ ہیں وہ باتیں جن کے مقاصد کے بارے میں مسلم جوانوں اور نوجوان طلباء ، پوری آگاہی اور معلومات کے ساتھ غور و فکر اور تحقیق کریں، فیصلہ کریں ، سوال اٹھائیں اور اقدام کریں۔ کچھ لوگ نئی سوچ کے نام سے ان ہی باتوں کو فارسی میں ترجمہ کرکے بیان کرتے ہیں ، اسکے حوالے سے بات کرتے ہیں ، مقالے لکھتے ہیں اور کسی انقلاب کی ساری اقدار اور کسی بھی قوم کی پائیدار فکری بنیادوں کو مخدوش اور متنازعہ بنا نے کی کوشش کر تے ہیں ۔ حالانکہ یہ نئ سوچ ہرگز نہیں ہے ؛ یہ تو سب سنی سنائی باتیں ہیں اور ان باتوں بنیادیں انکے کہنے والوں کی مقاصد بھی واضح ہیں ۔ جن لوگوں نے یہ فکر اور ثقافت پروڈیوس کی ہے انکا مقصد یہی ہے کہ دیگر قوموں، ملکوں اور ثقافتوں پر اپنا تسلط قائم کیا جائے۔ کیا یہ صحیح ہے کہ ہم انکی باتوں کا ترجمہ اور اسکی رٹ لگائیں؟!
البتہ یونیورسٹیاں اس معاملے میں اہم کردار اداء کر سکتی ہیں۔ میں ایسی یونیورسٹیوں کا حامی ہوں جو اصولی ، سر بلندی کی طالب ہو ، عوام پر توجہ کرنے والی ، فعال اور علمی و فکری لحاظ سے پرنشاط ہو ۔ میں ہرگز یونیورسٹی اور ایکیڈمکس کو قدامت پرستی اور موجودہ فکری ، ثقافتی اور تعریفی نتائج پر ہی اکتفا کرنے کا مشورہ نہیں دونگا ۔ بالکل نہیں؛ یونیورسٹی کو ہمیشہ سربلندی کی منزلیں طے کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قدامت پرستی اور جوکچھ ہے اس پر ہی اکتفاء کرنا اور فکرو ثقافت کے تمام شعبوں میں بلند پروازی کی ہمت کا فقدان ، انقلاب کی قتل گاہ ہے۔ بنیادی طور پر انقلاب ایسی بلند پرواز کا نام ہے جس کے بعد بہت سی اور بھی اونچی پروازیں بھری جا سکیں۔ مفاہیم کو صحیح طور سے سمجھنے اور انکی صحیح حدبندی کرکے چلنے کی ضرورت ہے ۔
آج کل اصلاح پسندی بھی ایک مروجہ اصطلاح ہے۔ میں نے نماز جمعہ میں بھی کہا تھا اور بارہا کہ چکا ہوں ؛ میں سمجھتا ہوں کہ اصلاح پسندی انقلاب کی ذات میں شامل ہے ۔ حقیقت میں انقلاب کے معنی ہی آگے جانب ایک عظیم پیشقدمی ہیں اور اس پیشقدمی میں کہیں کوئی جمود نہیں اور مسلسل آگے ہی آگے بڑھنا ہے ۔ یہ پیشقدمی ہی تو اصلاح پسندی ہے۔ البتہ اگر امریکی ہمیں اصلاح پسندی کا سبق پڑھانے کی کوشش کر یں اور آپ اصلاح پسند بننے کے لیے یہ کام کیجئے تو یہ بات یقینی ہے کہ ہم اسے قبول نہیں کرینگے؛ کیونکہ جسے وہ اصلاح پسندی کہتے ہیں وہ رجعت پسندی ہے ۔ اگر آج ہمارے ملک میں ایک پرجوش،خود مختار اور بہادر عوامی حکومت کے بجائے ایک رجعت پسند اور یورپ کی فرمابردار شاہی حکومت ہوتی تو یہ اسے ایک اصلاح پسند حکومت قرار دیتے۔ اس طرح کی اصلاح پسندی ان ہی کو مبارک ہو، اگر یہ اصلاح پسند ہے تو وہ خود اس پر عمل کیوں نہیں کرتے ۔ اصلاح پسندی اپنے حقیقی معنوں میں انقلاب کا اٹوٹ انگ ہے اور ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی مسلمان طالبعلم اصلاح پسند نہ ہو۔ اصلاح پسندی محض سیاسی ڈھکوسلہ نہیں ہے ۔ اسے سیاسی ڈھکوسلے اور اسکے اور ا سکے دل جیتنے کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اسے خود نمائی کے لیے بھی استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اصلاح پسندی ایک ذمہ داری اور جہاد ہے۔ حکومت اور عوام ، دونوں اصلاح پسندی کے پابند ہیں؛ البتہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جانا چاہیے کہ دوسرے ہمارے لیے اصلاح پسندی کی تعریف کریں۔ ہمیں خود اپنی اصلاح کو سمجھنا ہوگا، اسے تلاش کرنا ہوگا، کھوجنا ہوگا اور اسکی تشریح کرنا ہوگی ۔ اسکے مدمقابل امریکی اصلاح پسندی ہے اور اغیار پسند اصلاح پسندی ہے۔
آج جو بات دشمن کی نفسیاتی جنگ کا ایک اہم محور ہے _ جسے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں_ وہ یہ ہے کہ ، کہا جارہا ہے کہ انقلاب کی تیسری نسل انقلابی امنگوں سے منحرف ہوگئ ہے ! اسکے بعد ایک فلسفہ بھی جھاڑا جاتا ہے ، ایسے تمام جھوٹے، جعلی اور بوگس فلسفوں کی طرح جو عموما کسی ایک جھوٹی بات کی توجیہ کے لیے گھڑا جاتا ہے۔ تاکہ کسی کو یہ کہنے کی جرات نہ ہو کہ یہ بات جھوٹی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ بات ایک فلسفہ پر استوار ہے! وہ فلسفہ کیا ہے؟! وہ فلسفہ یہ ہے کہ ہمیشہ اور ہر انقلاب میں تیسری نسل اس انقلاب سے منحرف ہوئی ہے ! یہ بات جھوٹی، غلط اور بکواس ہے! یہ کونسے انقلاب کی بات ہے؟! سن 1789 میں فرانس میں انقلاب ايا ؛ لیکن تیسری نہیں ، دوسری نہیں بلکہ پہلی ہی نسل انقلاب سے منحرف ہوگئی! چار پانچ سال بعد ہی پہلے والے انقلابیوں کے خلاف بغاوت ہوئی اور تین چار سال حکومت انکے قبضے میں رہی ، پھر دوبارہ چار پانچ سال کے بعد انکے خلاف بھی تحریک چلی، جب 1802 آیا تو اس انقلاب کی شکل و صورت ہی بدل چکی تھی اور نیپولین جیسا شخص اس ملک کا بادشاہ بن بیٹھا تھا! یعنی وہ ملک جس نے بادشاہت کے خلاف جدوجہد کی تھی اور لوئی شانزدہ کو پھانسی گھاٹ اتار دیا تھا، دس بارہ سال میں اس انقلاب نے اپنی ہیبت ایسی تبدیل کرلی کہ نیپولین بونا پارٹ تاج شاہی اپنے سر پہ رکھ کر بیٹھ گیا اور خود کو بادشاہ کہلوانا شروع کردیا اور برسوں حکومت کرتا رہا۔ اسکے بعد بھی تقریبا اسّی نوے سال تک فرانس میں بادشاہتیں چلیں ، البتہ طرح طرح کی بادشاہتیں اور مختلف خاندانوں کی، یہ ملک مسلسل حنگوں، فسادات اور بد عنوانیوں کی لپیٹ میں رہا ! یہ انقلاب تیسری نسل تو دور کی بات ہے دوسری نسل تک بھی نہ پہنچ سکا؛ کیونکہ اس انقلاب کی بنیادیں ، کمزور بنیادیں تھیں۔ آج دو صدیاں گزرنے کے بعد ، بعض لوگ جنہیں شرم بھی نہیں آتی، اسلامی جمہوریہ میں ایسے نظریات کو ، جو اپنے زمانے کے انقلاب کو نہیں بچا سکے ، مکھن پالش لگاکر ایران کے انقلابیوں کو پیش کرتے ہیں ، ایسے انقلابیوں کو جنہوں نے عظیم ترین انقلاب کی مستحکم بنیادیں رکھی ہیں سالہا سال سے طوفانوں کے مقابلے میں اسے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
روس کا انقلاب اکتوبر بھی دوسری اور تیسری نسل تک نہیں پہنچ پایا۔ ابھی اس انقلاب کی کامیابی کو چھے یا سات برس نہیں گزرے تھے کہ اسٹالن ازم برسر اقتدار آگیا ۔ کون اسٹالن برسر اقتدار آیا کہ آج جب دنیا میں کسی پر بدمعاشی ، منہ زوری ، ظلم و ستم ، بے راہروی اور انسانیت سے دوری کا الزام لگاتے ہیں تو اسے اسٹالن سے تشبیہ دی جاتی ہے ! ور صحیح بھی ہے ؛ اسٹالن ایسی بریی صفات کی علامت تھا۔ مزدوروں کی نام نہاد حکومت جو معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے قائم ہوئی تھی ، ایک مطلق العنان استبدادی حکومت میں تبدیل ہوگئی ! اسٹالن تو کیمونیسٹ پارٹی کو بھی ، جو سویت نظام میں سیاہ سفید کی مالک تھی ، اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ کسی بارے میں کوئی فیصلہ کرے ۔ اسٹالن ، تیس سال سے کچھ زیادہ بلا شرکت غیرے حکومت کرتا رہا اور کسی میں بھی اعتراض کرنے کی جرات نہیں تھی۔ شائد آپ نے بھی عجیب و غریب قسم کی شہر بدری اور جلاوطنی کے واقعات سنے ہونگے۔ حکومت روس کا شیرازہ بکھرنے کے بعد سویت یونین کے گھٹن کے ماحول کے بارے میں جو پہلی کتاب شائع ہوئی ہے وہ ایک ناول تھا ۔ جس کا نام ابھی میرے ذہن میں نہیں ہے ۔ اسکی دوجلدیں فارسی میں ترجمہ ہوچکی ہیں اور میں نے پڑھی ہیں ؛ بہت ہی اچھی طرح سے یہ ناول لکھا گیا ہے اور اس زمانے کے صورتحال کو بیان کیا ہے ۔ یہ صورتحال تو اسٹالن کے بعد ہے جب حالات بہت حدتک تبدیل ہوچکے تھے ، لیکن استبدادی طور طریقے باقی رہے ۔ بنابر ایں دوسری اور تیسری نسل کی بات ہی نہیں شروع شروع میں ہی سب ختم ہوگیا تھا۔
یہ کونسا فلسفہ ہے، کونسے انقلاب سے مطابقت رکھتا ہے اور کہاں اسے آزمایا گيا ہے جو کہا جارہا ہے کہ انقلاب کی تیسری نسل انقلاب سے منحرف ہوجاتی ہے؟ ہر گز نہیں، اسکا تعلق انقلاب کی آئیڈیا لوجی سے ہے ۔ اگر کوئی انقلاب دوسری اور تیسری نسل کو اپنی اصلیت اور پاکیزگی کا قائل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ انقلاب امر ہوجاتاہے۔ اسلامی انقلاب کی آئیڈیا لوجی ایک ابدی آئیڈیا لوجی ہے، انصاف پشندی کبھی بھی پرانی نہیں ہوسکتی ؛ حریت پسندی کبھی کہنہ نہیں ہوگی۔ بیرونی مداخلت کے خلاف جنگ کبھی پرانی ہوگی۔ یہ وہ آئیدیا لوجی ہے جو ہر نسل کے لیے کشش رکھتی ہے ۔
تھیوریشنوں بیٹھ کر ایک بات گھڑی، سادہ لوحوں نے اسے مان لیا ؛ کہنے لگے کہ انقلاب کی تیسری نسل انقلابی نظریات کو چھوڑ دیتی ہے اور کیونکہ انقلاب کی کشش کم ہوجاتی ہے اس انقلاب کو انقلابی لوگوں سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں ! > کون ہیں ؟ یعنی وہ لوگ جو انقلاب سے پہلے، برسوں تک اس ملک پر مسلط رہے ہیں! میں کہتا ہوں کہ یہ نظریہ انتہائی بے وقوفی اور احمقانہ ہے ۔ مطمئن رہو کہ وہی جوش ولولہ اور ایمان اور جذنہ جو اس نسل میں تھا اور اس نے یہ کام کر دکھایا ، اس جواں نسل میں بھی موجود ہے۔ یاد رکھو ! انقلاب کی سمت جو بھی پتھر پھنکا جائے گا وہ پلٹ کر خود اسی کے سر پر جا لگے گا۔ انقلاب پرانا نہیں ہوتا اور آتش انقلاب انکی سڑی ہوئی روئی سے ٹکرا ئے گی تو اور بھی شعلہ ور ہوکر جلائے گی ۔
اور اب آتا ہوں یونیورسٹیوں کی طرف۔ میں سمجھتا ہوں کہ یونیورسٹیاں انقلاب کا اصلی مرکز رہی ہیں اور آئند بھی رہیں گی۔ نئی طلباء نسل اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیگی کہ یونیورسٹیاں اس قوم کے دشمنوں اور بیگانوں کے فریب خوردہ عناصر کے لیے پناہگاہ بن جائیں۔ ایک دن انہوں نے حساب کتاب میں غلطی کی تھی ، خود طالبعلموں کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی۔ آج ایک بار پھر کچھ عناصر حساب و کتاب کی وہی غلطی پھر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ؛ لیکن یاد رکھیں کہ انہیں ایک بار پھر طلباء کے ہاتھوں ہی منہ کی کھانا پڑیگی۔
البتہ میں سمجھتا ہوں کہ یونیورسٹیاں خود کفیل ہیں اور انہیں باہر سے امداد فراہم کرنے کی ضرورت نہیں۔ سال 79 (ہجری شمسی) کی یونیورسٹیوں کو 59 کی یونیورسٹیوں جو برتری حاصل ہے وہ یہ کہ: آج مومن اور پرہیز گار اساتذہ کی ایک پوری نسل موجود ہے جو 59 میں ہمارے پاس بہت ہی کم تھی ۔ میں یہ نہیں کہتا ایسی نسل نہیں تھی ،تھی مگر بہت ہی کم تھی۔ آج بحمداللہ ہماری یونیورسٹیاں مومن اساتذہ ، مومن طلباء اور مومن عہدیداروں سے پر ہیں۔ بنا بر ایں مجھے یونیورسٹیوں کی جانب سے کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ البتہ میں آپ طالبعلموں سے یہ کہوں گا کہ اس مورچہ کے نگہبان آپ ہیں ۔ ہوشیار رہو کہ اس مورچے کی بنیادیں کمزور نہ ہونے پائیں۔ مسلسل انکی دیکھ بھا اور مرمت کرتے رہو۔ اسکی بنیادیں ثقافتی اور نظریاتی ہیں ، انکی نگہداشت کرتے رہو۔ فکری، اخلاقی اور انقلابی خود سازی ہر طالبعلم کی ذمہ داری ہے ۔ اپنی ذات کے حوالے سے بھی اور یونیورسٹیوں کے اندر اور اسکے ماحول کے حوالے سے بھی ۔ یہ خود سازی ہی تو مورچے کی تعمیر و مرمت ہے ۔
ان دنوں یونیورسٹیوں میں آزادی کے موضوع پر بہت زیادہ بحث کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آزادی دی نہیں جاتی بلکہ لی جاتی ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ آزادی دی بھی جاسکتی ہے اور لی بھی جا سکتی ہے ، اور سیکھی بھی جا سکتی ہے۔ آزادی دی جاسکتی ہے اسکا کیا مطلب ہے ؟ یعنی حکومتوں کے ذمہ داران یہ حق نہیں رکھتے کہ وہ فطری آزادی ، یعنی قانونی آزادی کسی سے سلب کرلیں ۔ البتہ یہ کوئی حکومتوں کی مہربانی نہیں ہے ؛ آزادی تو دینا ہی چاہیے اور یہ ایک ذمہ داری ہے۔ > یعنی معاشرے کے ہر باشعور اور آگاہ انسان کو اپنے حق آزادی اور اسکے حدود وقیود کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے اور اسکا مطالبہ کرنا چاہیے۔ لیکن > مطلب یہ ہے کہ آزادی کے کچھ ادب آداب ہیں جنہیں سیکھا جاتا ہے ۔ ادب آداب کے بغیر یہ عظیم نعمت نہ تو کسی شخص کے لیے اور نا ہی کسی معاشرے کے لیے ویسے فراہم نہیں کی جاسکتی جیسا کہ اسکا حق ہے ۔ اگر معاشرے میں آزادی کی تمیز نہ ہو اور لوگوں آزادی سے فائدہ اٹھانا نہیں آتا ہو تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ وہ معاشرہ آزادی سے ۔ جو کسی بھی سرگرم اور ترقی پسند معاشرے کے لیے ایک ضرورت شمار ہوتی ہے ۔ محروم ہوجائیگا اور اسلام کی نظر میں یہ کسی معاشرے کے لیے ایک المیہ ہے ۔ آزادی چلی گئی تو یہ ایک المیہ ہے ۔ اسلام کی نظر میں ہر قسم کی آمریت اور استبداد، چاہے یہ شخصی آمریت ہو یا گروپ ڈکٹیٹر شپ ہو ؛ گروپ ذکٹیٹر شپ بھی شخصی آمریت کی طرح ہے، کوئی فرق نہیں ہے۔ پارٹی ڈکٹیٹر شپ بھی شخصی امریت جیسی ہی ہے ، بعض اوقات اس سے بھی بدتر ہوتی ہے ۔ اور یہ بات ناقابل قبول ہے کہ ایک شخص اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق عوام کے مسقبل کا مالک بن بیٹھے ، جہاں بھی ایسا ہو کسی المیہ سے کم نہیں۔ اگر ہمیں معلوم ہی نہ ہو کہ آزادی کے ساتھی کس طرح رہنا ہے اور آزادی کے ادب اداب سے واقف نہ ہوں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایسا ہی ماحول چاہتے ہیں ۔ کجھ لوگ چاہتے ہیں کہ آزادی کے ادب آداب سے ہماری ناواقفیت سے فائدہ اٹھاکر ہرج ومرج پیدا کریں تاکہ عوام ایک طاقتور آمر کی ارزو کرنے لگیں۔ بعض معاشروں میں ہرج ومرج ،فسادات، بد نظمی اور بد انتظامی اس حدتک پہنچ جاتی ہے کہ لوگ یہ ارزو کرنے لگتے ہیں کہ کاش کو جابر اور ڈکٹیٹر آئے اور نظم قائم کرے ! کجھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کا حال بھی ایسا ہی ہوجائے۔ آزادی سے اس قدر برا اور غلط فائدہ اٹھایا جائے اور لوگوں کے افکارو نظریات ، عقیدے و ایمان اور جذبات و احساسات کے ساتھ ایسا غیر ذمہ دارانہ مذاق کیا بائے کہ عوام بلبلا اٹھّیں ۔ یہ آزادی کے دشمن ہیں ۔ آزادی کو بدنام نہ کیا جائے۔ آزادی کو خنجر بنا کر آزادی کے محافظوں کے سینوں میں بھوکا جائے۔ آزادی کے ساتھ کھیل نہ کیا جائے۔ ازادی کا نام لیکر آزادی کے ادب اداب کی ذرّہ برابر پابندی نہ کرنے والے آزادی کو نقصان پہچاتے ہیں ۔ یہ لوگ آزادی کے حامی نہیں ہیں ۔ یہ لوگ آزادی کے ساتھ خیانت کر تے ہیں ۔ آزادی کو قانون شکنی کا ذریعہ اور اسلامی جمہوری نظام کی جڑیں کاٹنے کی کلہاڑی نہیں بنایا جانا چاہیے۔ دنیا کے مشرق سے لیکر مغرب تک کوئی بھی حکومت ان لوگوں کو ہرگز برداشت نہیں کرتی جو ہاتھوں میں کلہاڑیاں اسکی جڑیں کاٹتے پھر رہے ہوں۔ لیکن جمہوری اسلامی کو یہ فضیلت حاصل ہے ۔ طویل عرصے سے کچھ لوگ آزادی کے نام پر ، عوام کے ایمان اور جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ اسلامی حکومت نے بھی خاموشی اختیار کی ،چاہے کسی بھی وجہ سے ہو ، حکومت نے تحمل سے کام لیا ہے اور دوسرے لفظوں میں حکومت نے تخشش دکھائی ہے ۔

آپکے کے ایک خادم کی حثیت سے، آپکے بھائی کی حثیت سے اور اس شخص کی حثیت سے جو آپ سے قلبی محبت و الفت رکھتا ہے نیز طالبعلموں کو پسند کرتا ہے ، آپکی خدمت میں عرض کرنا چا ہتا ہوں کہ، اسلامی حمہوریہ(حکومت) اسکے ذمہ داران کو آج کے بعد سے نہ تو اس بات کا حق ہے اور نا ہی انکا ارادہ ہے کہ وہ ، آزادی کے نام پر عوامی مفادات کے خلاف ، خود اس آزادی کے خلاف اور اس قوم کے مستقبل کے خلاف کام کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت برتیں گے۔ اپنی محفلوں میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ہم (اسلامی حکومت)قانونی خاتمہ کرنا چاہتے ہیں! کتنی عجیب بات ہے! ہم قانونی خاتمہ نام کی کسی شئی کو نہیں جانتے۔ کوئی بھی اقدام جو (حکومت کے) خاتمے کی غرض سے کیا جائے ، آغاز جنگ ہے ۔ اسلام میں محارب کا حکم واضح ہے۔ یہ صرف ہم سے مخصوص نہیں ہے ، البتہ ہمیں اتنے سارے دشمنوں کا سامنا ہے اسطرح سے دنیا میں ہمارا اقتصادی اور تشہیراتی محاصر کیا گیا ، اس جانب زیادہ توجہ دینا چاہیے؛ لیکن دوسرے بھی اس طرح سوچتے ہیں۔
آغاز انقلاب ہی سے ہمیں دو طرح کے انقلابیوں کا سامنا رہا ہے اور ہمارے انقلابیوں نے دو طرح کے کردار ادا کیے ہیں ۔ بعض انقلابی مثبت تھے اور بعض انقلابی منفی انقلابی تھے۔ آغاز انقلاب میں ہم منفی انقلابی ان انقلابیوں کو کہتے تھے جو مشکل حالات میں میدان چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے ۔ انقلابی تو تھے لیکن نام ونمود کے خواہاں اور آرام طلب، ایسے انقلابی جو کہتے تھے کہ میں نے انقلاب سے پہلے جدوجھد کی ہے لیھذا میرا احترام کیا جانا چاہیے۔ بنابرایں ایسے لوگ خطرے کے میدان میں اور ایسی جکہوں پرجہاں چار لوگوں کو شکوہ شکایت ہوتی تھی ، جاتے ہی نہیں تھے۔
ایک گروپ مثبت انقلابیوں کا بھی تھا جو ہر وقت اپنا سب کچھ کو قربان کرنے پر تیار تھے، جہاں انہیں احساس ہوتا کہ انکی موجودگی مددگار ثابت ہوسکتی ہے ، پورے وجود کے ساتھ پہنچ جایا کرتے تھے۔ محاذ جنگ پر ایک طرح سے ، یونیورسٹیوں میں دوسری طرح سے ؛ ثقافتی میدان ہو با سیاسی معرکہ ہر جگہ کود پڑتے۔ منفی انقلابی پیچھے ہٹ جایا کرتے تھے، لیکن اگر کسی وقت کوئی کام انکے گلے پڑ ہی گیا تو ایسے ہوجاتے جیسے وہ کچھ کر ہی نہیں سکتے ،منفی شکل میں اور اپوزیشن کا روپ دھار لیتے؛ جیسے ان کی کوئی ذمہ داری ہی نہیں ہے! مثبت انقلابی اگر خود کچھ بھی نہ تب بھی خود کو سب سے زیادہ ذمہ دار سمجھتا اور میدان میں کود پڑتا۔
میں اپکی خدمت میں عرض کر رہا ہوں: میرے پیارو! جوانوں! مثبت انقلابی بنو۔ یونیورسٹیاں مثبت انقلابیوں کو پروان چڑھائیں؛ اس قوم کو اور تاریخ کو تمہاری ضرورت ہے ؛ خود کو تیار کیجئے۔ اگر آپ میدان میں رہینگے تو تابناک مستقبل اس ملک کا مقدر ہوگا۔ آج ہم بعض امتیازات کے ساتھ دنیا میں بے مثال ہیں؛ بعض امتیازات کی وجہ سے دنیا میں کم نظیر ہیں، سوق الجیشی لحاظ سے ؛ دنیا کے حصوں کے درمیان رابطے کے لحاظ سے اور اپنے محل وقوع کے لحاظ سے ایک ایسے خطے میں ہیں جہاں موسمی تنوع بہت زیادہ ہے اور ہر طرح کے کا م کی سہولتیں ہیں ، دنیا میں بے نطیر ہیں ۔ بعض ذخائر کے لحاظ سے پوری دنیا میں بے مثال ہیں۔ کم از کم قدرتی ذخائر کے لحاظ سے تو ہمار کو ئی ثانی نہیں۔ ایک طرف تیل و گیس اسی جیسے دیگر ذخائر اور دوسر جانب عظیم افرادی قوت ، ہمارے پاس اپنی بڑی تعداد میں جوان ہیں وہ انتہائی با صلاحیت ، ایرانی جوان باصلاحیت، ہوشیار اور آگاہ جوان ہیں۔
اگر حکومت اور عوام ایک دوسرے کی مدد کریں اور مسقبل پر نظر رکھتے ہوئے اتحاد ویکجہتی کے ساتھ ، دشمن کی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوۓ ،کیونکہ دشمن زبر دستی ان باتوں قوم کے دماغ میں تھونسنا چاہتا ہے، میدان میں آجائیں تو ۔ جیسا کہ اب الحمدللہ میدان میں ہیں - اور بھی زیادہ متحد ہوکر کوشش کریں تو آپ یقین جانیے بہت جلد اور یقنا آپ بھی دیکھیں گے کہ یہ ملک سربلندی کی اعلی منزل پر کھڑا ہوگا۔ دنیا انسانی سرمایے میں جو ہمارا حصہ ہے اس کے تناظر میں یہ ہمارا حق ہے ۔ ہمارے اندر صلاحیتیں ہیں، ہماری تاریخ رہی ہے ، ہم چوتھی صدی ہجری یعنی دسویں صدی عیسوی میں ہم نے ترقی کی منازل طے کیں، یہ یورپ میں قرون وسطی کے نام سے معروف دور کے آغاز آغاز کی صدی تھی جو تقریبا چھے ساتھ صدیوں پر محیط رہا ہے ۔ البتہ قرون وسطی کا دور دسویں صدی سے شروع نہیں ہوا اس سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔ لیکن دسویں صدی یورپ میں مکمل تاریکی کا دور تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ دسویں صدی عیسوی اور چوتھی صدی قمری میں آپکے ایران میں اور اسلامی سماج میں کیا ہو رہا تھا؟ چوتھی صدی ہجری، آپکے ملک میں اور پورے عالم اسلام میں علم (سائنس) اور فلسفہ کے فروغ کی صدی تھی؛ ابن سینا کی صدی ؛ فارابی کی صدی؛ رازی کی صدی؛ خدا کے عظیم حکماء صدی ؛ ایسی شخصیات کی صدی جنکی علمی کاوشوں نے آج کی اس دنیا کو بھی، جس میں ، میں اور آپ رہ رہے ہیں تسخیر کر رکھا ہے ۔ بلا شبہہ آج کا ایران اس سے کہیں زیادہ تیار اور آمادہ ہے جب اس نے اپنے دامن میں ابن سینا، فارابی، حوارزمی، رازی ،شیخ طوسی اور ان جیسی دیگر عظیم شخصیات کو پروان چڑھایا تھا۔ یہ کیوں ایسا کرنے نہیں دیتے؟ اور اگر وہ ایسا نہیں کرنے دے رہے تو ہم نے اور آپ نے گھٹنے کیوں ٹیک دیۓ ہیں؟ ہم اور آپ کیوں انکی خواہشات کی مطابق کیوں چل رہے ہیں؟ ایرانی جوان ہوں ، سیاستداں ہوں یا اساتذہ، آخر کیوں بالکل اسی طرز پر کام کریں جسکی امریکا اور صہیونیوں اور دوسرے سیاسی منصوبہ سازوں کو ایران پر دوبارہ تسلط قا‏م کرنے کے لیے ضرورت ہے ؟! یہ ایک کلنک ہے! چاہے کوئی سمجھے جا نہ سمجھے، یہ ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں مثبت انقلابی، سرگرم انقلابی، احساس ذمہ داری رکھنے والے انقلابی، با عہد اور پر امید انقلابی تیار ہونے چاہیں، اور میں امید کرتا ہوں کہ ایساہی ہوگا۔ میں جب یونیورسٹیوں کے ماحول پر نگاہ دوڑاتا ہوں ، خاصکر اس یونیورسٹی کو دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
آخری بات اولمپیاڈ میں شرکت کرنے والے اور نمایاں علمی کام انجام دینے والے طلباء سے مربوط ہے جو اس یونیورسٹی میں بھی ہیں اور دیگر یونیورسٹیوں میں بھی۔ میں اس حوالے سے دو باتیں کہنا چاہوں گا: پہلی بات یہ کہ حکومت اور اسکے عہدیداروں کو انکی اہمیت کو سمجھیں اور انکے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ صرف یہ لوگ ہی ذہنی اور فکری لحاظ سے نمایاں نہیں ہیں ؛ جوان اور نوجوان طلباء اور اساتذہ میں ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں، مختلف امتحانات، تجربات اور مقابلوں میں یہ بات پوری طرح واضح ہے، حکومت کو انکی قدر کرنا چاہیے انکی علمی ترقی کے لیے سہولتیں فراہم کرنا چاہیں تاکہ انہیں کمی کا احساس نہ رہے اور وہ اپنے ماحول سے کٹ جانے پر مجبور نہ ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ خود بھی اپنی اس ذہانت، حافظہ اور صلاحیت کو قومی سمجھیں؛ یہ قومی سرمایہ ہیں، ذاتی دولت تو نہیں ہے۔ ا سے ملک و ملت اور اپنے گھر والوں کی خدمت میں استعمال کیجۓ؛ یہ خدا داد سرمایہ اور امانت ہے؛ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ کوئی یہ نہ کہے کہ حکومت نے ہمیں پوچھا ہی نہیں، اگر حکومت نہ بھی پوچھے تب بھی کوئی بہانہ نہیں ہے۔ یہ میں نے اس لیے کہا کہ یہ اچھے جوان جب پندرہ بیس سال بعد نمایاں علمی شخصیت با کر ابھریں گے تو انہیں میری آج کی باتیں باد رہیں۔

اخبارات و جرائد کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے ؟ کیا اّپ انکے خلاف عدالتی کاروائی کی تائید کر تے ہیں؟
یہ سوال اکثر مجھ سے پوچھا جاتا ہے ۔ میرا جواب یہ ہے: میں اخبارات و جرائد کو اپنے معاشرے اور ہر اس معاشرے کے لیے ضروری ، لازمی اور ناقابل گریز حقیقت سمجھتا ہوں جو اچھی زندگی گزارنے کا خواہشمند ہے۔ میں اخبارات و جرائد کے لیےبھی تین اہم ذمہ داریوں کا قائل ہوں: ایک تنقید و نگرانی کرنا، شفاف اور سچی اطلاع رسانی کرنا معاشرے میں افکار و نظریات کا تبادلہ کرنا۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ آزدی اظہار و بیان ،عوام اور اخبارات و جرائد کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی کنجائش نہیں اور یہ آئین کا واضح اصول ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی بھی معاشرہ آزاد و ترقی پسند اخبارات اور سمجھدار و آزاد لکھنے والوں سے محروم ہو جائے تو وہ اور بھی بہت سی چیزوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ آزاد ذرائع ابلاغ کا ہونا نہ صرف کسی بھی قوم ترقی کی علامت ہے بلکہ حقیقت میں ترقی کا سرمایہ ہے۔؛ مطلب یہ ہے کہ ایک جانب قوم کی آزادی اور ترقی کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی( ذرائع ابلاغ) کسی قوم کی ترقی کی رفتار کو تیز تر کرسکتے ہیں۔ البتہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان باتوں کے ساتھ ساتھ دوسری قدریں اور حقائق بھی ہیں کہ جنہیں ذرائع ابلاغ اور بیان کی آزدی نام پر پامال نہیں کیا جاسکتا۔ اصل مہارت یہی ہے کہ آزادی کی بھی حفاظت کی جائے ،حقیقت کو بھی درک کیا جائے، ذرائع ابلاغ بھی آزاد ہوں اور کوئی خرابی بھی انکے دامن گیر نہ ہو نے پائے۔ ہمیں یہ مشق کرنا ہوگی۔
عدالتی کاروائی کے بارے میں ، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عدلیہ کے کام میں اور عدالت کے احکامات میں مجھ سمیت کسی کو بھی مداخلت کا حق ہے اور نا ہی کوئی مداخلت کرتا ہے ۔ جج کو فیصلہ کرنے کی آزادی ہونا چاہیے۔ جج پرکسی قسم کا دباؤ نہ ہو۔ اس فیصلےیا اس فیصلے کے بارے میں کوئی دباؤ نہ ہو۔ جج کے خلاف بھی کوئی منفی پروپیکنڈا نہ کیا جائے۔ جج ماحول کے دباؤ سے آزاد رہتے ہوئے ، قانون کے مطابق حکم جاری کرسکے۔ بنابر ایں مداخلت نہیں ہونا چاہیے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے ، ذرائع ابلاغ کے کیس کی سماعت کرنے والی عدالت کے کام میں کوئی مداخلت نہیں ہوئی ہے ۔ میں سمبھتا ہوں کہ ذرائع ابلاغ کی نگرانی کرنا ایک ذمہ داری اور ضروری کام ہے ۔ اور یہ آئین ، مطبوعات سے متعلق قوانین اور عمومی قانون کا بھی حصہ ہے ۔ نظارت کے بغیر ذرائع ابلاغ کے ذریعے قومی مفادات اور خواہشات کا تحفظ ممکن نہیں ہے ۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رائے عامہ، فری زون ہے اس کا کوئی قائدہ قانون نہیں جو چاہو کرو ! رائے عامہ تجربہ گاہ کے چوہا نہیں ہے ہر کوئی چاہیے اس کے ساتھ کرتا پھرے۔ غلط تجزیہ و تحلیل، افواہ سازی ، الزام تراشی اور جھوٹ کے سہارے لوگوں کے ایمان ، جذبات، عقائد اور مقدسات کا کو ٹھیس پہنچائی جارہی ہے ۔ یہ اچھا کام نہیں ہے ۔ بنابر ایں نظارت ضروری ہے تاکہ یہ کام نہ ہو ۔ یہ ایک ذمہ داری ہے اور اگر نظارت نہ ہو تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیوں نہیں ہے۔ یہ ذمہ داری کس کی ہے؟ پہلے حکومت کی اور اسکے بعد عدلیہ کی۔ اگر سرکاری ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو پھر بات عدالتوں تک نہیں پہنچے گی ۔ اگر سرکاری ادارے کسی بھی وجہ سے اپنی ذمہ داریاں پو ری نہ کر پائیں تو پھر عدلیہ کو میدان میں آنا چاہیے۔ عدلیہ کی مثال ریفری کی ہے ، عدالت سے حکم جاری نہ کرنے کی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔ ایک ریفری کھیل کے میدان میں کھلاڑی کو اسکی غلطی پر خبردار کرتا ہے اور متنبہ بھی کرتا ہے ۔ اگر اسکا کوئی فائدہ نہ ہو تو پھر اسے پیلا کارڈ دکھاتا ہے۔ اور اسکا بھی اثر نہ ہو تو پھر لال کارڈ دکھاتا ہے ۔ جس کھلاڑی کو وہ متنبہ کرتا ہے ، اور دیکھتا ہے کہ فائدہ نہیں ہوا وار وہ عمل نہیں کر رہا تو ، دوبارہ انتباہ دیتا ہے ؛ پیلا کارڈ دکھاتا ہے ۔ اگر فائدہ نہ ہو تو پھر یقینی ہے کہ قانون اسے لال کارڈ ہی دکھائے گا۔ کوئي چارہ ہی نہیں ہے۔ لیہذا عدالت سے شکوہ ہی نہیں کرنا چاہیے۔ جو بھی غیر ذمہ دارانہ طریقے سے رائے عامہ کو لیڈ کرنے کی کوشش کریگا وہ اس کام کا اہل نہیں ہے ۔ رائے عامہ کی تشکیل مطبوعات کے ذریعے ہی ہونا چاہیے۔ اگر کوئی لاپرواہی کرے اور خدا نہ خواستہ ذاتی مفادات کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کرے تو یقینا وہ غلطی پر ہے ۔ کوئی بھی نشہ میں دھت اور خواج آلودہ ڈرائیور کو ہرگز ڈرائیونگ کی اجازت نہیں دیگا۔ اور اگر اسے اجازت مل بھی کئی تو آپ اسکی گاڑی میں سوار نہیں ہو نگے۔
جو اپنے ھاتھ میں قلم اٹھاتا ہے اسے دوسروں کے بارے میں خوف خدا، صداقت، پاکدامنی، اور انصاف کو اپنی ذات کا ثانوی حصہ بنانا چاہیے۔ میں نے آغاز سال میں اپنی گفتگو کے دوران کہا تھا کہ بعض اخبارات دشمن کے اڈے ہیں تو کچھ لوگوں کو بڑا تعجب ہو تھا ! میں نے حال ہی میں سنا ہے کہ اٹھائیس مرداد سے قبل اخبارات میں سی آئی اے نے اپنے کردار کے بارے میں دستاویزات جاری کی ہیں۔ البتہ میں نے خود نہیں دیکھا؛ لیکن جو بتایا گیا ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ کون کون سے اخبارات ، سی آئي اے کے پیسے، اسکی ہدایات اور فیڈ بیک کے ذریعے اٹھائیس مرداد کے کودتا کا راستہ ہموار کرنے کی غرض سے اس تہران میں تقسیم کیے جاتے تھے ۔ البتہ اور جگہوں پر بھی ہم نے ایسی مثالیں دیکھی ہیں ۔ چلی میں سلوڈور آلنڈے کے دور میں ، آلندے کی دو سالہ کارکردگی کو ناکام ظاہر کرنے اور پوری رائے عامہ کو اسکے خلاف میدان میں لانے میں اخبارات نے اہم کردار ادا کیا اور آخرکار کیا بلا اسکے سر پر نازل کی۔ البتہ کسی نے ان دنوں تو اعتراف نہیں کیا لیکن بعد میں سب سمجھ گئے کہ اسکے پیچھے کون لوگ تھے اور جو لوگ برسر اقتدار آئے ہیں ان کے مقاصد کیا ہیں ، انہیں کہاں سے حکم ملتا ہے اور میدان ہموار کرنے والے کون تھے۔ یہ انتظار نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی سانحہ ہوجائے تب اسکی تحقیقات کی جائیں، آج ہی دیکھنا ہوگا اور آنکھیں کھلی رکھ کر چلنا ہوگا۔
کیا رہبری سے موبوط ادارے اور دفاتر کی بھی نگرانی اور جانچ پڑتال ہوتی ہے یا وہ اس سے مستثنی ہیں؟ کیا مختلف اداروں میں آپکے نمائندوں سے بھی کوئي بازپرس ہوتی ہے یا نہیں؟
میں عرض کرتا ہوں کہ کوئی بھی جانچ پڑتال سے مستثنی نہیں ہے۔ خود رہبری بھی نظارت سے بالاتر نہیں؛ چہ جائے کہ رہبری سے مربوط ادارے ۔ بنا بر ایں سب کی نگرانی ہونی چاہیے۔ جو لوگ حکومت میں ہیں ، انکی نگرانی ، کیونکہ حکومت اپنے ڈھانچے میں طاقت اور دولت کا مرکز ہوتی ہے ؛ یعنی بیت المال اور ملک کا اجتماعی اور سیاسی اقتدار بعض عہدیداروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ وہ امانت داری کا مظاہرہ کریں، ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں اور کہیں انکا نفس انہیں نہ بہکادے ، ضروری اور واجب ہے ۔ البتہ یہ تقسیم بندی ، رہبری کے ذیلی ادرے اور اسکے علاوہ ادرے ، غلط ہے ۔ ایسی کوئی چیز نہیں، آئین کے مطابق ، ملک کے تینوں مقتدر ادارے، مجریہ، مقننہ اور عدلیہ رہبری کی زیر نگرانی ہیں۔ دیگر ادارے بھی اسی طرح ہیں۔ رہبری کی زیرنگرانی ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ رہبری کسی ادارے کو چلاتی ہے؛ بہرحال کوئی فرق نہیں پڑتا نگرانی ضرور ہونا چاہیے۔ البتہ اقسوس کے ساتھ کہنا کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں نگرانی کا طریقہ ابھی تک اسپیشلائزڈ ، سائنٹیفک اور کارآمد نہیں نہیں ہے ، بعض اوقات غیرجانبدادارنہ بھی نہیں ہوتی، اسکا اعتراف کرنا چاہیے۔ البتہ تمام سرکاری اور عوامی اداروں کو نگرانی سے نہیں ڈرنا چاہیے > اپنا حساب کتاب صحیح رکھیے اور احتساب سے نہ ڈریے ۔ بنابرایں ایسا نہیں ہے کہ رہبری سے مربوط ادارے جانچ پڑتال سے معاف ہیں؛ ہرگز نہیں، میرے خیال میں جانچ پڑتال ضروری پے۔ البتہ اب بھی ہے انکی جانچ پڑتال ہوتی۔ البتہ اسکے یہ معنی نہیں ہیں کوئی غلطی ہوتی ہی نہیں ہے ۔ لیکن غلطی کو نظرانداز کرنے اور یا غلطی کی اجازت دینے کا کوئی اردہ نہیں ہے ۔
آپ کن ذرائع سے اور کس طرح معاشرے کے امور و معاملات سے آگا ہی حاصل کرتے ہیں ؟ کیا سب باتیں آپکو بتائي جاتی ہیں؟
میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں ذرائع سے حقائق معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جو رپورٹیں مجھے ملتی ہیں وہ انتہائی جامع ہوتی ہیں۔ انٹیلی جینس اداروں کی رپورٹیں بھی- چاہے وہ وزارت انٹیلی جینس کی ہوں، ملٹری انٹیلی جنس کی ہوں، چاہے سرکاری ادروں کی کارکردگی کے بارے مین ہوں - خود ہمارے دفتر کا ایک کام اطلاع رسانی بھی ہے؛ مثلا شعبہ تعلقات عامہ اور شعبہ احتساب، یہ ٹیلی فون اور خط کے ذریعے عوام سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ مختلف سماجی شخصیات اور حلقوں سے بہت زیادہ ملاقاتین کرتا ہوں اور خطوط بھی بڑی تعداد میں موصول ہوتے ہیں۔ بہر حال میرے کان بہت قوی ہیں لیکن ساتھ ہی میں کہ دعوی نہیں کرتاکہ میں ہر بات سے با خبر ہوں۔ ایسا ممکن بھی نہیں ہے مجھے سب کچھ معلوم ہو۔ ممکن ہے کہ بہت سی باتیں مجھے معلوم ہوں اور بہت سی معلوم نہ ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسی بھی سرکاری عہدیدار کے لیۓ ، چاہے وہ عہدہ جو مجھ حقیر کے پاس ہے چاہے وہ دوسروں کے اختیار میں ہے ، حقائق سے منہ موڑنا اور عوام سے دوری کمزوری کا باعث ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی علدیدار کو معاشرتی حقائق اور سماج میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے لا علم نہیں رہنا چاہیے۔ البتہ عوام سے دوری جو امیر المومنین علیہ السلام کی نظر میں عوام سے احتجاب ہے؛ یعنی لوگون سے پردہ کرنا اور عوام سے کبھی نہ ملنا ، یہ انتہائی خطرناک بات ہے ۔ حضرت نے مالک اشتر سے فرمایا: قلّہ علم بالامور عوام سے دوری کے نتیجے میں انسان کی معلومات میں کمی ہوجاتی ہے۔ میں عام لوگوں کے گھر بھی جاتا ہوں۔ البتہ کبھی زیادہ جانا ہوتا ہے کبھی کم، یہ ایک کام ایسا ہے جو بحمداللہ میں اپنے دور صدارت کے شروع سے آج تک کرتا چلا آربا ہوں۔ میں مختلف عوامی طبقات کے لوگوں کے گھروں میں جاتا ہوں ، انکے فرش پر بیٹھتا ہوں ، ان سے بات چیت کرتا ہوں اور انکی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کرتا ہوں۔ البتہ میں آپکی خدمت میں عرض کروں کے عوام کی خبرگیری کرنا ، اطلاعات کا صرف ایک حصہ ہے ؛ دوسرا حصہ دشمن کی خبر رکھنا ہے ۔ مجھ سے کسی نے نہیں پوچھا کہ آپکو دشمن کی بھی کوئی خبر ہے یا نہیں ؟! لیکن میں خود عرض کرتا ہوں: ہاں، میں دشمن سے بھی غافل نہیں ہوں، بہت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کبھی کبھی دشمن کی بات کرکے اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں ، ہرگز نہیں ، اندھیرے میں تیر چلانا نہیں ہے ، ہم جانتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ دشمن موجود ہے۔ اتفاق سے ابھی چند دن قبل اخبارات نے سی آئی اے کے سربراہ کا بیان شائع کیا ہے جو ہمارے باں کے بھی بعض اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ ہم نے اتنے ملکوں میں ، جن میں اس نے ایران کا نام بھی لیا تھا ، اپنے ان ایجنٹوں کو فعال کردیا ہے جنکی مادری زبان ہی اس ملک کی قومی زبان ہے۔ بعد میں خاص طور سے ایران کا نام لیکر کہا تھا کہ ہمارے ایسے ایجنٹ بھی ہیں جنکی مادر زبان فارسی ہے اور انکی اوسط عمریں تیس سال کے درمیان ہیں۔ ممکن ہے بعض لوگوں کے لیے یہ سوال پیدا ہو کہ میں یہ باتیں کیوں کر رہا ہوں ۔ جب اطلاعات کا بہاؤ بہت ہی فراوان ہو تو پھر اسکی اہمیت کم ہوجاتی ہے ؛ لیہذا خبروں کے حاشیوں سے بھی بہت سی باتیں سمجھی جا سکتی ہیں۔ جی ہاں دشمن سے غافل رہنا کوئی کمال نہیں ہے ۔
حافظ کے زمانے میں چار حکمرانوں نے یکے بعد دیگرے شیراز پر حکومت کی جن میں سے ایک کا نام شیخ ابو اسحاق تھا۔ البتہ اسکا نام شیخ تھا وہ شیخ تھا نہیں۔ حافظ نے بھی کئی جگہ اسکا ذکر کیا ہے ؛ کیونکہ وہ اس سے بہت لگاؤ رکھتے تھے۔ شاہ شیخ ابو اسحاق جوان بھی تھا اور خوبصورت و عیاش بھی۔ امیر مبارزالدین بھی جو اس علاقے کا ایک بادشاہ تھا کرمان سے شیراز کی طرف آتا ہے اور اس شہر پر قبض کرنے کا اردہ کرتا ہے۔ شیراز پر حملے کے لیے وہ بڑی خاموشی کے ساتھ آرہا ہوتا ہے تاکہ شیرازیوں کو کان و کان خبر نہ ہو اور وہ اچانک حملہ کرکے شیراز پر قبضہ کرلے اور انکو دفاع کا بھی موقع نہ مل پائے۔ لیکن بعض لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے اور کچھ سرکار اہلکار بھی با خبر ہوجاتے ہیں لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ شاہ ابو اسحاق کو اسکی اطلاع دیں۔ دشمن شیراز کے قریب آجا تا ہے اور شیراز کے چاروں طرف مورچہ زن ہوکر بیٹھ جاتا ہے ۔ شاہ ابو اسحاق کا وزیر کہتا ہے کہ ایسے کام نہین چلے گا ، کل دشمن شہر پر حملہ آور ہوگا اور بادشا ہ کو کچھ خبر نہیں ہے کہ دشمن شہر کے دروازے پر کھڑا ہے۔ کیا یہ ایک ذمہ دار شخص کے لیے کمال کی بات ہے کہ اسے یہ بک پتہ نہ ہو کہ اسکا دشمن کہاں پر ہے ؟! وزیر شاہ کے پاس جاتا ہے لیکن اس میں بھی براہ راست اسے بتانے کی ہمت نہیں ہوتی ! لیہذا وہ اسکے مزاج کے مطابق بات شروع کرتا ہے ؛ کہتا ہے موسم بہت ہی اچھا اور سہانا ہے اور صحرا بھی سر سبز ہے؛ کیا آپ کا دل نہیں کر رہا کہ محل کی چھت پر جاکر با ہر کا نظارہ کریں؟ اس بہانے سے وہ بادشاہ کو محل سے باہر نکال کر چھت پر لے ہی جاتا ہے ۔ جب بادشاہ چھت سے باہر کی جانب دیکھتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ صحرا میں خیمے لگائے بیٹھے ہیں ۔ وہ پوچھتا ہے کہ یہ خیمے کس کے ہیں؟ کہتا ہے کہ یہ امیرمبارزالدین کے ہیں۔ پوچھتا ہے کہ یہ کب سے بہاں ہین ؟ کہتا ہے کوئی دس ایک روز ہوگئے ہونگے۔ یہ بے غیرت اور بزدل بادشاہ بجائے اسکے کہ فورا جنگی لباس منگواکر پہنتا ۔ کہتا ہے ان لوگوں کو ناگوار نہیں گزرا جو اس بہار موسم میں جنگ کرنے آگئے! ابتہ بعد میں اس نے جنگ کی اور پہلے گرفتار اور بعد میں مارا گیا۔ اس طرح سے معاشرے کی اہم ذم داریوں کا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا۔
آپکی نظر میں تشدد کیا چیز ہے ؟ آپ رحمت، منطق اور مکالمے کی بات کرتے ہیں لیکن بعض لوگ بدستور طبل جنگ بجائے جا رہے ہیں، اسکا کیا علاج ہے؟
تشدد کے بارے میں دو زاویوں سے بات ہوسکتی ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہوں کہ : دو لحاظ سے تشدد کے مسئلہ پر غور کیا جا سکتا ہے۔ ایک اخلاقی اور قانونی لحاظ سے اور دوسرے پروپیکنڈے اور نفسیاتی جنگ کے تنا ظر میں ۔ ان دونوں کو گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے۔ قانونی اور اخلاقی لحاظ سے تو تشدد کے بارے میں ہماری ذمہ داریاں پوری طرح واضح ہیں۔ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ جو کوئی بھی غیرقانونی طریقے سے دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے گا اور تشدد سے کام لیگا وہ قابل مذمت ہے۔ اسلام کا بھی یہی حکم ہے ۔ اسلام میں تو حدود اور قصاص جیسی سزائیں اسی تشدد کی روک تھام کے لیے تو ہیں۔لوگوں کو قتل کرنا کو چوری کرنا جسکی عادت ہو اسے اس کام سے روکنے لیے حدود اور قصاص مقرر کیے گئے ہیں ۔ اس حوالے سے شک کی کوئی گلجائش نہیں ہے۔ اس حقیر نے بار بار بار کہا ہے ، نماز جمعہ کے خطبوں میں بھی کہہ چکا ہوں کہ تشدد اور اسلامی سزاؤں کو ایک ہی معنی میں لینے کا مخالف ہوں، اب کوئی بھی گروپ ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ جب کوئي برا کام ہوجائے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں اچھا جوان، یا فلاں جوان فلاں گروپ کا فلاں جوان، یا فلاں جوان جو اس دھڑے سے تعلق رکھتاہے اس نے یہ کام کیا ہے ، لیھذا اسکی برائی میں تھوڑی کم ہوجاتی ہے ؛ ایسا ہرگز نہیں، جب کوئی برا ہے تو برا ہے؛ اس میں بحث کی بات ہی نہیں۔ لیکن ایک ہے پروپیکنڈا کا پہلو جو انقلاب کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے ۔ پہلی بار کس نے دنیا میں تشدد کو ایک منفی نقطہ کے طور پر ہمارے ملک کے خلاف پیش کیا ؟ وہی جن کے ہاتھ کہنیوں تک بے گناہوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں، یعنی امریکی، وہی جو آج تک دنیا میں جسے چاہتے تھے غیر قانونی طور پر قتل کرڈالتے تھے؛ لیکن اب اسے قانونی شکل دینا چاہتے ہیں ! یہ ہیں جو تشدد کا شور مچاتے ہیں اور تشدد کی مذمت کرتے پھرتے ہیں۔ صہیونی ریڈیو اور صہیونی ہیں جو تشدد پر بحث کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ باتیں سیاسی اور تشیہیراتی معاملے کے طور کی جاتی ہیں ۔ ان باتوں کو کوئی بھی انسان ایک حقیقت کو طور پر قبول نہیں کرتا کہ اس پر اپنی رائے کا اظہار کرے۔ اس سے بھی غفلت نہیں برتنا چاہیے۔ کچھ لوگ جو اقتدار کے بھوکے ہیں، بیمار ہیں اور یا پھر دیوانے ہیں؛ لیھذا ان ہی باتوں کی رٹ لگائے پھرتے ہیں۔ ہمارے عظیم قائدپر بھی جو رحمت اور محبت کی علامت تھے ، تشدد کے الزامات لگاتے ہیں۔ امام خمینی ایک عارف شخص تھے اور حقیقی معنوں میں رحمت کی علامت تھے، ایک ایسے انسان جنہوں نے اتنی پامردی کے ساتھ انقلاب کو آگے بڑھایا، لیکن عاطفی معاملات میں بھی انہتائی گہری نظر رکھتے تھے۔ میں نے کئی بار امام کی شخصیت میں اسکا مشاہدہ کیا ہے۔ ملک کے صوبائ دوروں میں سے ایک میں ، ایک جنگی قیدی ، جسے بعد میں شہید کردیا گیاتھا، اسکی ماں، میرے پاس آئی اور ایک ایسا جملہ کہا جو امام سے اسکی اررادت کی علامت ہے، اس نے کہا اور تاکید کی کہ میں یہ بات امام کو ضرور یہ بات بتاؤں، میں آیا اور امام سے بیان کردیا، میں نے دکھا کہ وہ شدید غمزدہ انسان کی مانند خود میں کھو سے گئے اور آپکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ جنگ کے زمانے میں بھی جب بچے اپنی غلّکوں کو محاذ جنگ کی مدد کے لیے نماز جمعہ میں لائے تھے اور ہدیہ کر رہے تھے ،میں اسکے اگلے دن امام کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ یہ منظر ٹیلی ویژن سے دیکھ چکے تھے اور اس قدر جذباتی اور متاثر دکھائی دے دہے تھے کہ مجھے تعجب ہوا۔
امام جذبات کی بھی علامت تھے۔ وہ با محبت، مہربان اور انتہائی رحم دل انسان تھے۔ ایسے انسان پر بھی سنگدلی کا الزام لگاتے ہیں۔ کس لیے؟ کیونکہ انکے زمانے میں، مرصاد آپریشن کا واقعہ پیش آیا تھا۔ کچھ حملہ آوروں اور جرائم پیشہ لوگوں کو قانون کے مطابق سزا دی گئ تھی۔ ان میں سے کچھ تو اس قوم کے خلاف جنگ کر رہے تھے کہ جنک سزائیں قانون نے معین کردی ہیں، اور امام نے قانون پر عملدرامد کیاتھا۔ البتہ امام نے خود تو یہ کام نہیں کیا تھا۔ ملک کے ذمہ داد اداروں نے یہ کام کیا تھا؛ لیکن امام پر بھی سنگدلی کا الزام لگاتے ہیں! ان دنوں کچھ غافل ، یا بیوقوف ، دشمن کے منصوبوں سے بے خبر انسان،ملک کے اندر ان باتوں کا رٹّا لگا رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں ایک ظلم ہے۔ اگر کوئی بھی ان باتوں کو جو انقلاب ،امام (خمینی )اور اسلامی اقدار کے خلاف نفسیاتی جنگ اور تشہیراتی دعوی ہے، تشدد کے خلاف جدجہد کے نام پر پیش کرے تو اسکا تشدد کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ تشدد کے بارے میں سب کا نظریہ واضح ہے ۔ اس زمانے میں جب امام (خمینی) نے ان لوگوں کے خلاف جو بعض اوقات دوسروں کے ساتھ ظاہر باتوں کا خیال نہیں رکھتے تھے، اور کسی قدر سختی سے کام لیتے تھے ، بیان جاری کیا کرتے ، وہ لوگ تو انقلابی فورسز کے لوگ تھے لیکن امام نے انکے خلاف بھی بیان دیا ؛ کیونکہ تشدد سے کام لے رہے تھے اور انکا کام غیر قانونی اور غیر منطقی تھا۔
طالبعلموں کو ورزگار کی فراہمی اور انکی شادیوں کے لیے کیا سہولتیں مد نظر رکھی گئی ہیں؟
کچھ عرصہ قبل ثقافتی انقلاب کی ا‏علی کونسل کے ارکان کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی تھی ،میں نے ایک بار پھر فارغ التحصیل طلباء کے حوالے سے یادآوری کرائي تھی اور یہ میری نظر میں انتہائی اہم مسئلہ ہے اور میں اس کام کے پیچھے لگا ہوا ہوں۔ حال ہی میں ملک کے بعض اعلی حکام اور خاص طور سے سپریم کونسل برائے روزگار کے ارکان کو میں نے ہدایت بھی کی ہے اور بحمداللہ منصوبہ بندی مکمل ہوچکی ہے کام شروع ہوچکا ہے ۔ مجھے امید ہے کہ ماہر افرادی قوت کے روزگار کا مسئلہ جو انتہائی اہم ہے ، پارلمنٹ، حکومت، ثقافتی انقلاب کونسل اور دیگر متعلقہ اداروں کی کوششوں سے کسی حد تک حل کرلیا جاۓ گا۔ البتہ اسکی تعداد بھی ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کے مطابق ہی ہوگی ، کیونکہ ساری مشکلات تھوڑے عرصے میں تو ختم نہیں ہوسکتیں۔ لیکن اہم کام یقینا ہوسکتے ہیں ۔ البتہ روزگار کا مسئلہ شادی کے مسئلہ کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے اور شادیوں میں رکاوٹ کا ایک اہم سبب بھی یہی روزگار کا مسئلہ ہے ۔ لیکن شادی کے حوالے سے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا: عزیزان من! شادی میں حائل ثقافتی رکاوٹوں کو بھی کم نہ سمجھو۔ شادی جوانوں کے لیے ضروری ہے اور ہر جوان بھی یہی چاہتا ہے۔ البتہ رکاوٹیں بھی ہیں، لیکن ساری رکاوٹیں معاشی نہیں ہیں ،معاشی مشکلات محض ایک حصہ ہیں۔ اصل مشکلات تو ثقافتی معاملات ہیں ۔ عادات اطوار، خاندانی غرور ، آنکھ سے آنکھ ملانا ، تجمل پرستی ۔ یہ ہیں جو کسی حد تک اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ جو کام ہونا چاہیے وہ ہو جائے۔ آپکو اور آپکے گھروالوں کو کہ گھتیاں سلجھانا ہونگی۔ میں طلباء کی شادیوں سے جنکی تقریبات ہرسال ہوتی ہیں، بہت خوش ہوں۔ اگر سادگی کے ساتھ ، کسی تکلف اور رسم کے بغیر شادی کا رواج عام ہوجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت سی مشکلات حل ہوجائینگی۔ اسلام میں شادی بنیاد ہی سادگی پر ہے ۔ انقلاب کے شروع کے برسوں میں بھی ایسا ہی تھا؛ لیکن افسوس کہ ناک اونچی رکھنے ، دنیا دکھاوےاور سرمایہ داری کے اس کلچر نے کام کو تھوڑا مشکل بنادیا ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ بعض اعلی سرکاری عہدیداروں کے گھروں میں بھی ہونے والی ایسی ہی شادیوں نے مشکلات پیدا کردی ہیں ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔