نماز جمعہ کے خطبوں کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں!
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین۔ نحمدہ و نستعینہ و نشکرہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نسلم علی حبیبہ فی خلقہ، حافظ سرہ و مبلغ رسالاتہ، سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین المعصومین۔ سیما بقیت اللہ فی الارضین، و صلی اللہ علی آئمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین۔ قال اللہ الحکیم فی کتابہ شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن۔ ھدی للناس و بینات من الھدی و الفرقان (1)
 
تمام نمازی بہنوں اور بھائیوں کو ان ایام سے توشہ آخرت حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر ان پر برکت ایام اور مبارک گھڑیوں میں ہم کھلی آنکھوں اور نورانی دل کے ساتھ دنوں اور راتوں کا بغور جائزہ لیں تو سعادت، معنویت، مستقبل اور اپنی دنیا کے لئے ان کی اہمیت کا ہمیں اندازہ ہوگا۔ کیونکہ ان دنوں اور ان گھڑیوں کو خداوند مالک الوجود اور خالق الخلق نے کہ تمام چیزیں اسی سے تعلق رکھتی ہیں، شرف اور اہمیت بخشی ہے اور ہمیں اپنی ہدایت اور اذن سے، ان دنوں اور راتوں سے، ان گھڑیوں سے، استفادہ کرنے کی دعوت دی ہے۔
ان پر برکت گھڑیوں میں بہترین توشہ، خداوند عالم سے انس، اس کی ذات میں انہماک، اس سے دل وابستہ کرنا، اس سے چاہنا اور اس سے راز و نیاز کرنا ہے۔ ان دنوں میں اور اس مہینے میں سب سے قیمتی چیز جو خدا سے طلب کی جانی چاہئے وہ تقوا ہے۔
و اسعدنی بتقواک و لاتشقنی بمعصیتک (2) سعادت تقوے میں ہے۔ دنیا تقوے میں ہے۔ آخرت تقوے میں ہے۔ فتح و کامرانی تقوے میں ہے۔ تمام امور میں گرہوں کا کھلنا اور خدا کی نصرت تقوے اور پرہیزگاری میں ہے۔ لہذا خدا سے دعا کریں کہ ہمیں متقی دل عطا کرے۔ یعنی اس کے بجائے کہ ہمارا دل ہوا و ہوس میں گرفتار ہو، ذاتی، مادی اور حقیر دنیاوی کششیں ہمیں اپنی طرف کھینچیں، ارادہ خدا ہمیں اپنی طرف کھینچ لے، اس کی محبت ہمیں اپنا اسیر بنا لے اور ہمارے تمام امور پر یہ چیز سایہ فگن رہے۔ یہ خطبے کے شروع کی سفارشات ہیں۔
پہلے خطبے میں، رمضان کے مبارک مہینے کے بارے میں، کہ آج اس مہینے کا پہلا جمعہ ہے، مختصر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ دوسرے خطبے میں عشرہ فجر (اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ) کے بارے میں جو عید انقلاب، عید تاریخ ایران اور ہمارے امام (خمینی) عزیز کی عید ہے، کچھ باتیں عرض کروں گا۔
رمضان المبارک سے متعلق گفتگو کے لئے صحیفہ سجادیہ کی چوالیسویں دعا سے جو اسی مہینے سے تعلق رکھتی ہے، چند جملوں کا انتخاب کیا ہے اور انشاء اللہ انہیں چند جملوں کا آپ کے لئے ترجمہ کروں گا۔ مگر اس سے پہلے گزارش کروں گا کہ میرے ‏‏عزیز عوام بالخصوص نوجوان، صحیفہ سجادیہ سے انس پیدا کریں۔ کیونکہ اس کتاب میں جو بظاہر دعا کی کتاب ہے، سب کچھ موجود ہے۔ یہ ظاہر میں دعا ہے اور باطن میں سب کچھ ہے۔ حضرت امام سجاد علیہ الصلوات و السلام اس دعا میں صحیفہ سجادیہ کی تمام دعاؤوں کی طرح، اس کے باوجود کہ مقام دعا و مناجات میں ہیں اور خداوند عالم سے مخاطب ہیں، گفتگو استدلالی طریقے پر اور مضامین دلیل کے ساتھ اور اس ترتیب سے بیان فرماتے ہیں کہ علت و معلول واضح ہیں۔ صحیفہ سجادیہ کی تمام دعاؤوں میں جہاں تک میں نے دیکھا ہے، یہی خصوصیت ہے۔ مضامین ترتیب سے چنے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی سننے والے کے سامنے بیٹھ کر اس سے منطقی اور استدلالی گفتگو کر رہا ہے۔ صحیفہ سجادیہ کی عاشقانہ فریادوں میں بھی یہی کیفیت ہے۔
یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ امام علیہ السلام دعا کے شروع میں فرماتے ہیں الحمد للہ الذی جعلنا من اھلہ (3) ہمیں اہل حمد قرار دیا، ہم الہی نعمتوں سے غافل نہیں ہیں، اس کی حمد کرتے ہیں اور شکر بجا لاتے ہیں۔ اس نے ہمارے سامنے ایسے راستے کھولے ہیں کہ حمد کے ذریعے وہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس نے اسی طرح منزلوں اور راستوں کا تعین فرما دیا ہے اور ہمیں ان راستوں پر ڈالا ہے۔
پھر اس جملے تک پہنچتے ہیں کہ و الحمد للہ الذی جعل من تلک السبل شھرہ شھر رمضان حمد ہے اس خدا کے لئے جس نے ان راستوں میں سے جو ہمیں اس تک، معدن عظمت کی بصیرت اور کمال تک پہنچاتے ہیں، ایک راستہ اسی رمضان کو قرار دیا ہے۔
اس کے لئے جو شھرہ کا لفظ استعمال کیا ہے، اپنے مہینے کی جو بات کہی ہے اور شہر خدا یعنی اللہ کے مہینے کو انہیں راستوں میں سے ایک قرار دیا یہ بہت پر معنی ہے۔ اگر غور کریں تو سبھی مہینے خدا کے ہیں اور خدا کے لئے ہیں۔ جب تمام وجود کا مالک، وجود کے ایک حصے کا تعین کرتا ہے اور اس کو خود سے خاص نسبت دیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حصے پر خاص توجہ اور عنایت فرمائی ہے۔ انہیں حصوں میں سے ایک یہی شھراللہ ہے۔ شہر خدا، خدا کا مہینہ۔ یہ نسبت ہی رمضان المبارک کی فضیلت کے لئے کافی ہے۔ شھر رمضان، شھر الصیام و شھر الاسلام روزے کا مہینہ، وہ مہینہ کہ جس کا روزہ نفس کی طہارت کے لئے بہت کارآمد ہے، کیونکہ اس میں بھوک برداشت کرنا اور ہوا و ہوس اور خواہشات سے جنگ نہفتہ ہے۔
شہر اسلام یعنی اسلام الوجہ لدی اللہ خدا کے حضور تسلیم ہونا۔ جی ہاں انسان جوان ہے، روزہ رکھتا ہے تو بھوکا ہوتا ہے، پیاسا ہوتا ہے، فطری تقاضے اس کو خواہشات اور اشتہا کی طرف کھینچتے ہیں، مگر وہ ان میلانات کے مقابلے میں استقامت دکھاتاہے۔ کس لئے؟ خدا کے حکم پر عمل کے لئے۔ یہ خدا کے حضور سرتسلیم خم کرنا ہے۔ سال کے ایام میں کسی بھی دن ایک مسلمان معمولا اس طرح خدا کے حضور سراپا تسلیم نہیں ہوتا جس طرح رمضان کے ایام میں وہ نظر آتا ہے۔ لہذا شھر اسلام ماہ تسلیم ہے۔
امام علیہ السلام اس دعا میں آگے چل کر فرماتے ہیں و شھر الطھور یعنی طہارت کا مہینہ۔ اس مہینے میں ایسے عوامل ہیں جو ہماری روح کو پاک اور طاہر کرتے ہیں۔ یہ عوامل کیا ہیں؟ ایک تو روزہ ہے۔ ایک تلاوت قرآن ہے اور ایک دعا و مناجات ہے۔ یہ تمام دعائیں، طیب و طاہر رزق ہیں۔ یہ الہی ضیافت کے اس دسترخوان کا ایک حصہ ہے جو خداوند عالم نے اپنی ضیافت کے اس مہینے میں لوگوں کے لئے بچھایا ہے۔ امام علیہ السلام کے کلام کا مضمون یہ ہے کہ خدا اس مہمانی میں روزے سے آپ کی خاطر مدارات کرتا ہے۔ روزہ خدا کا ایک دسترخوان ہے۔ قرآن بھی اس عظیم ضیافت میں خدا کا ایک اور دسترخوان ہے۔ ان دسترخوانوں سے جتنا زیادہ استفادہ کریں معنوی بنیادیں اتنی ہی قوی ہوں گی اور آپ کمال و بلندی کا راستہ آسانی سے طے کریں گے اور پھر خوش بختی آپ سے نزدیک تر ہو جائے گی۔
اس کے بعد فرماتے ہیں و شھر التمحیص یہ ماہ تمحیص ہے۔ تمحیص یعنی کیا؟ یعنی خالص بنا دینا۔ مطلب یہ ہے کہ اس مہینے میں ہم خالص ہو جاتے ہیں۔
میرے عزیزو' آپ کے وجود میں ایک قیمتی سونا پوشیدہ ہے۔ اکثر سونے میں مٹی، تانبے یا دیگر کم قیمت اشیاء کی ملاوٹ ہو جاتی ہے۔ آپ کے باطن میں ایک خزانہ ہے جس میں خس و خاشاک شامل ہو جاتا ہے۔ تمام انبیائے الہی کی تمام زحمتیں اور کوششیں اس لئے رہی ہیں کہ ہم اور آپ اپنے وجود کے اس سونے اور اس قیمتی شئے کو خالص بنائیں۔ دنیا کی سختیاں اور آزمائشیں اسی لئے ہیں۔ خداوند عالم کی جانب سے لوگوں پر جو سخت قسم کے فرائض عائد ہوتے ہیں، اسی لئے ہیں۔ راہ خدا میں مجاہدت اسی لئے ہے۔ شہید، جس کی راہ خدا میں اتنی زیادہ اہمیت ہے، اس کی تمام اہمیت اس لئے ہے کہ وہ عظیم مجاہدت کے ذریعے، جان دیکر، فداکاری کرکے، خود کو خالص کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ جس طرح سونا بھٹی سے خالص ہوکر نکلتا ہے۔
یہ مہینہ خالص ہونے کا مہینہ ہے۔ اگر صحیح طور پر نگاہ ڈالیں تو اس مہینے میں خالص ہونا دوسرے طریقوں سے خالص ہونے سے زیادہ آسان ہے۔ ہم اسی روزے اور نفس کے خلاف مجاہدت کے ذریعے خالص ہو سکتے ہیں۔ اکثر گمراہیاں ان گناہوں کی وجہ سے ہوتی ہیں جو ہم سے سرزد ہوتے ہیں یا ہماری بری خصلتوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ثم کان عاقبۃ الذین اساؤوا السوء ان کذبوا بآیات اللہ (4) گناہ گمراہی لاتا ہے۔ سوائے اس کے کہ انسان کے دل میں نور توبہ ضوفگن ہو۔ یہ جو ہم سے مسلسل کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کے بعد فورا توبہ کرو، گناہ کی تکرار سے دوری اختیار کرو اور گناہ نہ کرنے کا عہد کرو۔ اس لئے ہے کہ گناہوں میں ڈوب جانا خطرناک ہے اور کبھی انسان اس مرحلے تک پہنچ جاتا ہے کہ جس کے بعد واپسی کا راستہ نہیں ہوتا۔
ایک گناہ ہے جو گمراہی کا وسیلہ بنتا ہے اور دوسری ناپسندیدہ خصلتیں ہیں۔ بری خصلتیں، موجودہ گناہوں سے زیادہ انسان کو گمراہ کرتی ہیں۔ اگر ہم ہر کام میں، ہر بات میں اور ہر نظریئے میں خودسر اور خود پسند ہوں، دوسروں کو خطاوار قرار دیں اور کہیں کہ صرف میں نے صحیح سمجھا ہے اور میں ہی صحیح عمل کرتا ہوں تو کسی مشورے، کسی استدلال اور کسی منطق کو خاطر میں نہیں لائیں گے اور کوئی حق بات نہیں سنیں گے۔ اگر ہمارے اندر حسد اس حد تک اپنی جگہ بنا لے کہ اچھا، ہمیں برا نظر آنے لگے اور ہم روشن حقیقت کو بھی ماننے کے لئے تیار نہ ہوں تو یہ وہ منزل ہے کہ ہمارے اندر گمراہ کرنے والے خطرناک صفات پیدا ہو گئے ہیں۔
دنیا میں اکثر لوگ جنہیں آپ دیکھتے ہیں کہ گمراہ ہو گئے، انہیں راستوں سے گمراہ ہوئے ہیں۔ ورنہ کل مولود یولدعلی الفطرۃ پاکیزگی تمام روحوں میں پائی جاتی ہے۔ سبھی کے پاس حق پرست ضمیر ہوتا ہے۔ مگر اس نورانی اور شفاف چشمے کو نفسانی خواہشات اور بری خصلتیں جن میں بعض موروثی ہوتی ہیں اور بعض انسان خود اپنے اندر پیدا کرتا ہے، اس کو آلودہ کر دیتی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک نکتہ میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ علمائے اخلاق جو انسان کے آج کے علوم میں، اس علم میں صاحب الرائے ہیں، اگرچہ عملی اخلاق ہمارے اور آپ کے لئے اہمیت رکھتا ہے مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جو علم اخلاق میں مہارت رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم اور آپ موروثی عادتوں کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ مثلا کاہلی، لالچ، موروثی کنجوسی، موروثی حسد اور موروثی ضد کو بدلا جا سکتا ہے۔ بعض لوگ ضدی ہوتے ہیں، کتنی ہی حقیقت ان کے سامنے پیش کی جائے، ضد کی وجہ سے اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں۔ یہ رویہ انسان کو حقیقت سے دور کر دیتا ہے۔ ضدی انسان، ضد کے آغاز میں ہی نورحقیقت کو سمجھ لیتا ہے اور احساس کر لیتا ہے کہ اس کے کام کی بنیاد ضد ہے، لیکن جب ضد کی تکرار ہونے لگتی ہے تو حقیقت کا وہ معمولی ادراک بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر ایسا جھوٹا یقین اور اعتقاد پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر خود پلٹ کر سوچے تو دیکھے گا کہ اس کے ذہن میں جو ہے وہ یقین نہیں ہے۔ عن ظھر القلب وجود کی گہرائی میں نہیں ہے۔ ضد حقیقت، معنویت اور حق کا پیغام سننے میں رکاوٹ اور مانع ہو جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جن لوگوں نے اسلام، اسلامی انقلاب، امام (خمینی) کے ارشادات اور ایرانی قوم کی شفاف مظلومانہ حقیقت کے مقابلے میں ضد اور ہٹ دھرمی کی، کس طرح یہ ضد ان کی گمراہی پر منتج ہوئی۔
واقعی ایرانی قوم کتنی مظلوم ہے؟! یا امیرالمومنین، یا علی بن ابی طالب، اے تاریخ کے مظلوم ترین اور مقتدر ترین انسان، آج دنیا میں آپ کی پیروی کرنے والی ایک قوم ہے جو آپ کی ہی طرح مقتدر اور مظلوم ترین قوم ہے۔ ایرانی قوم آج مقتدرترین قوم ہے۔ شفاف حساب کتاب سے دیکھا جا سکتا ہے کہ دنیا میں ایرانی قوم جیسی قوی کوئی قوم نہیں ہے۔ وہ حساب یہ ہے کہ دنیا کی اقوام سائنسی، اقتصادی اور صنعتی طاقت اور انتھک محنت جیسی بعض اچھی خصلتوں سے آراستہ ہیں لیکن اس کے باوجود نفسانی خواہشات کے مقابلے میں ان کے پاس کوئی محکم رکاوٹ، مانع اور حصار نہیں ہے۔ جبکہ ایرانی قوم نے تقوا اور دینداری کے سائے میں نفسانی خواہشات کو خود سے دور کر دیا ہے۔ اس قوم کے نوجوان، عنفوان شباب میں اس طرح لذتوں سے چشم پوشی کرتے ہیں کہ دیگر اقوام ان کی برابری نہیں کر سکتیں۔ دنیا میں ایسے نوجوان کہاں ملیں گے؟ دنیا کے انصاف پسند اور وہ حضرات جو ضد کرنا نہیں چاہتے، ہمارے اس سوال کا جواب دیں۔ دنیا میں کون سی جگہ آپ جانتے ہیں کہ جہاں تندرست اور طاقتور نوجوان، شہوت کی حرام تسکین سے جو اس کے لئے ممکن اور فراہم ہو، چشم پوشی کرتے ہیں۔ معمولی لذتوں سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ آج ایک نہیں، دو نہیں، سو نہیں، ہزار نہیں، بلکہ ایرانی نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد اس طرح کی ہے۔ البتہ شہوت پرست، خواہشات کے غلام اور برے نوجوان بھی ہیں جو دنیا کے دوسرے نوجوانوں کی طرح ہیں مگر مومن، ذکر خدا کرنے والے، خصوع و خشوع رکھنے والے، عبادت گذار، گناہوں سے پاک اور متقی نوجوان جس طرح پورے ایران میں ہیں، دنیا میں کہاں دیکھے جاتے ہیں؟
اس طاقت کے باوجود ہماری قوم مظلوم ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اس قوم کا پیغام مظلومیت نہیں سنا اور ضد کی وجہ سے حق بات سننے پر تیار نہ ہوئے، یقینا ضد، گمراہی کا نقطہ آغاز ہے اور آپ جان لیں کہ بڑی بری خصلتیں چھوٹی جگہوں سے شروع ہوتی ہیں۔
رمضان ایسا مہینہ ہے کہ جس میں توجہ اور یاد دہانی سے ناپسندیدہ کاموں کی تلافی کی جا سکتی ہے۔ دعائے ابوحمزہ میں ایک لرزہ براندام کر دینے والی عبارت ہے۔ وہ عبارت یہ ہے واعلم انک للراجی بموضع اجابۃ و للملھوفین بمرصد اغاثۃ و ان فی لھف الی جودک و الرضا بقضائک عوضا من منع الباخلین و مندوحۃ عما فی ایدی المستاثرین و ان الراحل الیک قریب المسافۃ و انک لا تحتجب عن خلقک الا ان تحجبھم الاعمال دونک۔(5) دعا اور مناجات کرنے والا کہتا ہے یا خدا میں نے تجھ سے امید کو غیروں سے امید پر ترجیح دی۔ دوسروں کی پناہ میں جانے کے بجائے تیری پناہ میں آیا ہوں اور جانتا ہوں کہ اگر کوئی تیری طرف آنا چاہے تو راستہ بہت نزدیک ہے آپ جہاں بھی ہیں، جو بھی ہیں، جس لباس میں بھی ہیں، جس عمر میں بھی ہیں، اے نوجوانو! اے میرے بیٹو' اے میری بیٹیو' اے ادھیڑ عمر کے مرد و خواتین، اے بوڑھے مردو اور بوڑھی عورتو' اے غریبو، اے پیسے والو، اے علماء اور اے متوسط علم رکھنے والو! آپ جو بھی ہیں، اگر خدا کی ضرورت کا احساس کرتے ہیں اور ہر صحیح انسان یہ احساس کرتا ہے تو جان لیں کہ خدا نزدیک ہے۔ ایک لمحے کے لئے اپنا دل خدا کی طرف متوجہ کریں۔ جواب مل جائے گا۔ ممکن نہیں ہے کہ کوئی دل سے خدا کو پکارے اور خدا کا جواب نہ سنے۔ خدا ہمیں جواب دیتا ہے۔ جب دیکھیں کہ ناگہاں آپ کا دل منقلب ہو گیا تو سمجھ جائیں کہ یہی خدا کا جواب ہے۔ جب آپ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو جائے، جب آپ دیکھیں کہ آپ کی روح بلند ہو گئی، جب دیکھیں کہ طلب آپ کے پورے وجود کی گہرائیوں سے نکلی ہے تو سمجھ لیں کہ یہ وہی الہی جواب ہے۔ یہ خدا کا جواب ہے۔ اس کے بعد جواب، دعا کا مستجاب ہونا ہے۔ اس طلب کا پورا ہونا ہے۔ خدا نے قرآن میں فرمایا ہے کہ واسئلوا اللہ من فضلہ (6) خدا سے طلب کریں و لیس من عادتک ان تامر بالسوال و تمنع العطیۃ کہیں، سوال کریں، طلب کریں، کیا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ طلب کریں اور وہ عطا نہ کرے۔ البتہ خدا سے طلب کرنے میں وقت، جگہ اور ایسی ہی دیگر باتیں بھی موثر ثابت ہوتی ہیں۔
غرض یہ کہ ماہ رمضان کی قدر کو سمجھیں اور اپنی سعادت کے لئے، تقوا کے لئے، اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے، اس عظیم انقلاب اور اس عظیم قوم کی روز افزوں ترقی کے لئے اور اس عظیم ہستی (امام خمینی) کی روح کی سربلندی کے لئے دعا کریں کہ یہ حالات اور احوال، آپ ہی کے ایمان، تقوے اور تحریک کا نتیجہ ہیں، خدا آپ کی روح کو ملکوت اعلی میں انبیاء و الیاء کی ارواح کے ساتھ محشور فرمائے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد و لم یولد و لم یکن لھ کفوا احد۔
 

 

خطبہ دوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین۔ و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا، ابی القاسم محمد و علی المصطفین من آلہ و اہل بیتہ علی امیرالمومنین، و الصدیقہ الطاھرۃ فاطمۃ الزھرا، سیدۃ نساء العالمین و الحسن و الحسین سیدی شباب اھل الجنۃ و علی علی بن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و موسی بن جعفر و علی بن موسی و محمد بن علی و علی بن محمد و الحسن بن علی و الخلف القائم المھدی؛ حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک۔ و صل علی آئمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المومنین۔ اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ۔

آپ تمام بہنوں اور بھائیوں کو تمام امور میں تقوا و پرہیزگاری کی دعوت دیتا ہوں۔ دوسرے خطبے میں، اس عظیم انقلاب پر ایک سرسری نگاہ ڈالنا چاہتا ہوں۔ البتہ ابتدائے انقلاب سے آج تک اس بارے میں ہزاروں گھنٹے تقاریر کی جا چکی ہیں۔ حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ سے لیکر جو اس راہ کو کھولنے والے اور اس صراط مستقیم کے رہبر رہے ہیں، ان تمام لوگوں تک جو اس راستے پر چلے ہیں، کچھ کیا ہے اور معرفت حاصل کی ہے، سب نے اس بارے میں کہا ہے جن پر غور و فکر بہت مفید ہے۔
میں یہیں پر یہ بات عرض کر دوں کہ اگرچہ ہم نے، ایرانی قوم نے اس انقلاب کو اپنے پورے وجود سے لمس کیا ہے، مگر اس کے بارے میں ہمارا تجزیہ دوسروں سے کم ہے جنہوں نے دور اور نزدیک سے اس انقلاب سے رابطہ برقرار کیا ہے۔ البتہ بیرونی تجزیہ نگاروں میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے اور ہیں کہ جو معاندانہ نقطہ نگاہ کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ آج بھی بیرونی دشمن قوم کے لوگوں تک اپنی مخالفت کی آواز پہنچانے کے لئے پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ اگر یہ کہیں کہ اس راہ میں اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں تو مبالغہ نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انقلاب کے بارے میں غلط تجزیئے کے ذریعے، ایسی باتیں بیان کریں جن کی انقلاب نے نفی کی ہے۔
حقیقت میں اعتراف کرنا چاہئے کہ آج انقلاب کا تحلیل و تجزیہ وہ کام ہے جو انقلاب کے دشمن ہم سے زیادہ کر رہے ہیں۔ اس تحلیل و تجزیئے سے وہ انقلاب کے پیغام کو بدلنا اور اس حقیقت کی جو اس قوم کے ذریعے رونما ہوئی ہے، تحریف کرکے، غلط شکل میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بنابرین انقلاب کے بارے میں اپنوں نے جو کچھ کہا ہے، اسے جمع کیا جائے، اس کی فہرست تیار کی جائے اور اس پر کام کیا جائے۔ اس سلسلے میں اب تک کام نہیں کیا گیا ہے اور اگر کیا گیا ہے تو بہت کم ہے۔ بہرحال یہ کام ہونا چاہئے۔ مگر اس راہ میں کام کا نہ ہونا، ہمارے نوجوانوں کے لئے حقائق کو سمجھنے میں مانع نہیں ہونا چاہئے۔ گذشتہ پندرہ برسوں میں انقلاب کے بارے میں انقلاب کے رہنماؤں نے جو کچھ کہا ہے، اس پر توجہ دیں اور غور و فکر کریں۔
میں آج اس انقلاب کے بعض پہلووں کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ ان نکات میں سے جن پر کم بحث ہوئی ہے ایک یہ ہے کہ ہمارا عظیم انقلاب، کامیابی کی کیفیت کے لحاظ سے استثنائی اور منفرد ہے۔ یعنی واقعی ایسے عظیم پہلوؤں کے حامل عوامی انقلاب کی کہ جس میں، سڑکوں پر عوام کی موجودگی، شہروں اور دیہی بستیوں میں شاہی حکومت کے خلاف تمام عوام کی مشارکت سے ایسی مجاہدت ہوئی ہو، کم سے کم اس زمانے تک ہمارے دور کے انقلابوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس زمانے میں دنیا کے گوشہ و کنار میں جو انقلابات آئے تھے، منجملہ لاطینی امریکا، افریقا، ایشیا اور دوسری جگہوں پر آنے والے کمیونسٹ انقلابات کے ان کی شکل اور نوعیت دوسری تھی۔
دوسرے انقلابوں سے ہمارے انقلاب کا فرق یہ تھا یہ انقلاب کسی چھاپہ مار گروہ کے ذریعے نہیں آیا۔ البتہ ایران میں بعض جماعتیں تھیں جو گوریلا اور چھاپہ مار کاروائیاں انجام دیتی تھیں مگر انیس سو پچھتر چھہتر تک یہ سب مفلوج ہو چکی تھیں۔ یہ بات آپ ان لوگوں سے معلوم کر سکتے ہیں جو ان دنوں میدان میں تھے۔ ہم نے یہ حالات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ مگر وہ نوجوان جنہوں نے اس زمانے کے حالات خود نہیں دیکھے ہیں، ان لوگوں سے پوچھیں جو ان واقعات میں موجود تھے۔ انیس سو پچہتر، چھہتر اور ستتر تک، وہ تمام گروہ جو مسلحانہ کاروائیاں انجام دیتے تھے، چاہے مارکسی نظریئے کے حامل رہے ہوں یا اشتراکی، سبھی میدان سے باہر ہو چکے تھے اور ان کا کام صرف یہ رہ گیا تھا کہ ملک کے کسی گوشے میں بم رکھ دیں اور دھماکہ کر دیں یا کسی کو قتل کر دیں۔ ایران میں ان دنوں یہ گروہ جو کام کرتے تھے، وہ آج ایک عرب ملک میں جو ہو رہا ہے، کسی ملک کا نام نہیں لوں گا، تاکہ کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو، خبریں آپ سنتے ہیں کہ اس عرب ملک میں مسلمانوں نے پولیس کے ساتھ جھڑپیں اور جو کام کر رہے ہیں، ایران میں ان دنوں مسلح گروہوں کا کام اس کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھا۔ اب آپ یہ اندازہ لگائیں کہ یہ کامیابی سے کتنا قریب ہیں، پھر یہ اندازہ کریں کہ ان کی کامیابی کا کتنا امکان تھا۔ یہ تصور بھی محال تھا کہ ایران میں چھاپہ مار اور گوریلا کاروئی کبھی کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس کا امکان نہیں تھا۔ اسی طرح فوجی بغاوت کا تصور کرنا بھی ناممکن تھا۔
معاصر دور میں، بعض انقلابات یا نام نہاد انقلابات فوجی بغاوت سے شروع ہوتے ہیں۔ مگر ان دنوں میں فوج پوری طرح امریکیوں کے اختیار میں تھی، کچھ فوجی ظالم شاہی نظام سے، بالخصوص نو جوان اور نچلے طبقے کے بہت سے فوجی، نالاں تھے مگر کسی میں اس نظام کے مقابلے پر اٹھنے کی جرائت نہیں تھی۔ مثال کے طور پر، موازنہ کے مقام میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کی حالت وہی تھی جو آج کے عراق میں مسلح افواج کی ہے کہ پوری طرح حکومت کے پنجے میں ہیں۔
البتہ ان کی مشکلات آج کی عراقی فوج کی مشکلات سے زیادہ تھیں۔ کیونکہ ایرانی فوجیوں کی صرف ان کے اوپر والوں کے ذریعے ہی نگرانی نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے درمیان امریکی عناصر بھی موجود تھے۔ اکثر چھاونیوں میں، بالخصوص اہم فوجی چھاونیوں میں، کئی ہزار امریکی موجود تھے اور بعض فورسز میں امریکیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ بنابریں ان دنوں ایران میں فوجی بغاوت کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ اس وقت کی سیاسی پارٹیاں بھی بہت کمزور تھیں۔ یہی قومی پارٹیاں جو آج اسلامی جمہوریہ کے دور میں، آزادی اور نظام کی فراخدلی سے فائدہ اٹھاکر، مسلسل حکومت کے خلاف بولتی ہیں ان کے لیڈران انٹرویو دیتے ہیں، اعلانات تقسیم کرتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پر گھٹن کا ماحول وجود میں لانے کا الزام لگاتے ہیں، ان دنوں بھی تھے مگر ایران کی آزادی کے لئے کچھ کرنے کی توانائی نہیں رکھتے تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ ان میں سے بعض کے پہلوی درباریوں سے نزدیکی تعلقات تھے، ایک ساتھ عیش وعشرت کی محفلیں گرماتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے تھے اور ان میں بعض جو انجینئر اور ماہرین تھے، وہ پہلوی دربار کی مشینری میں کام کرتے تھے۔ یعنی ان سے پیسے لیتے تھے اور ان کی روٹی کھاتے تھے اورغفلت میں نہیں کھاتے تھے کہ غافل ہو جائیں اور یہ سوچیں کہ اس نظام سے لڑا جا سکتا ہے۔
انہوں نے وہ زمانہ اس طرح گزارا۔ یہاں تک کہ اسلامی جمہوریہ قائم ہوئی، خدا کے فضل سے فضا کھل گئی، لوگ سیاسی فکر کے مالک ہو گئے اور پھر ان کی بھی زبان چلنے لگی۔ ایرانی عوام کو ان پارٹیوں پر بالکل اعتماد نہیں ہے۔ چونکہ ان پر اعتماد نہیں کرتے اس لئے ان کی طرف جاتے بھی نہیں، اس کا غصہ وہ اسلامی جمہوریہ پر اتارتے ہیں۔ اگر ایرانی عوام ان سیاسی جماعتوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور ان پر اعتماد نہیں کرتے تو اس میں کسی کا قصور نہیں ہے۔ کیا کسی نے عوام کو روکا ہے؟ اس زمانے میں بہترین سیاسی پارٹیاں وہ جماعتیں تھیں کہ جن میں دو تین لوگ تھوڑے سے دلیر تھے، مثلا کسی قضیے میں اعلامیہ شائع کرتے تھے اور وہ اعلامیہ بھی عوام الناس میں نہیں بلکہ خود ان کے طرفداروں میں تقسیم ہوتا تھا۔ مثلا کسی بات پر اعتراض میں ایک ہزار اعلامیے تقسیم ہوتے تھے، پھر وہ لوگ گرفتار ہوتے اور جیل میں بند کر دیئے جاتے تھے۔ قید کی مدت میں یا انٹرویو دیتے تھے اور اس انٹرویو کے باعث چھوٹ جاتے تھے یا پھر قید کی مدت پوری کرکے رہا ہوتے تھے۔
ان میں سے بہترین یہ لوگ تھے۔ ان کے کام اور باتوں سے عوام میں کوئی لہر پیدا نہیں ہوتی تھی۔ ایرانی قوم دینی، مذہبی اور علماء پر یقین رکھنے والی قوم ہے اور یہی خصوصیت ظالم شاہی حکومت کے خلاف عظیم عوامی تحریک کا سبب بنی۔ ایک متفق علیہ مرجع تقلید، ایک باوقار اور عظیم الشان عالم دین کہ جس کو ہر ایک جانتا تھا اور اچھا سمجھتا تھا، یہاں تک کہ اس کے دشمن بھی اعتراف کرتے تھے کہ اچھا انسان ہے، ایک متقی اور پرہیز گار انسان، جس میں دشمنوں کے نقطہ نگاہ سے صرف یہ عیب تھا کہ کہتے تھے کہ فلاں جگہ اس نے ہمیں اہمیت نہیں دی یا فلاں فلسفیانہ نظریہ رکھتا ہے۔ ایک صاحب علم اور اعلی سطح کے متقی نے خدا کی نصرت سے میدان میں قدم رکھا۔ پندرہ سال کے عرصے میں اس نے اپنے کچھ ساتھیوں، شاگردوں اور مرجع تقلید کی سطح کے کچھ علماء کو اپنا ہمنوا بنایا۔ عوام نے جب قابل اعتماد علماء کو دیکھا تو شروع میں تھوڑے تھوڑے، پھر گروہ در گروہ اور آخر میں سب ایک ساتھ مل کر میدان میں آ گئے۔
انیس سو ستتر میں ہم میں سے کچھ لوگوں کو ملک کے مختلف علاقوں میں جلا وطن کیا گیا۔ یہ جلا وطنی انیس سو اٹھاسی کے اواسط یا موسم خزاں میں ختم ہوئی۔ میں جب جلا وطنی کی مدت گذارنے کے بعد مشہد واپس آیا تو اس مقدس شہر میں، میں نے جو دیکھا وہ میرے لئے ناقابل یقین تھا۔ اگرچہ جلا وطنی میں خبریں مجھ تک پہنچ رہی تھیں۔ مگر جو حقیقت ہم نے دیکھی وہ بہت عظیم تھی۔ مشہد میں لوگ رات دن جلوس نکالتے تھے۔ یہ جلوس ان کے لئے معمول بن گئے تھے۔ صرف مشہد میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں یہی حال تھا۔
اس سلسلے میں تہران کا کردار مرکزی تھا۔ اس کے بعد بڑے شہر، پھر چھوٹے شہر اور آخر میں سارے دیہات تحریک میں شامل ہو گئے تھے۔ لوگوں نے ہر جگہ جلوس نکالنا شروع کر دیا تھا۔ جلوس اس طرح نکلتے تھے کہ کسی بھی مناسبت سے مرکز کی طرف سے اعلان ہوتا تھا کہ فلاں روز فلاں مناسبت سے جلو‎س نکلیں گے۔ امام (خمینی) کی طرف سے جو ان دنوں پیرس میں تھے یا تہران اور دوسرے شہروں میں اعلی سطح کے علماء کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا تھا۔ جس کے بعد لوگ سیل خروشاں کی طرح سڑکوں پر نکل آتے تھے۔
تدریجی طور پر حکومتی اداروں اور دفاتر میں کام کرنے والے، فوجی یہاں تک کہ اعلی عہدیدار بھی عوام میں شامل ہو گئے۔ اس طرح شاہی حکومت کا شیرازہ بکھرنے کے آثار نمایاں ہو گئے اور سرانجام یہ حکومت ختم ہو گئی۔ جس دن محمد رضا ایران سے بھاگا، درحقیقت اسی دن شاہی حکومت ختم ہو گئی۔ اس نے دیکھا کہ یہاں رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ایک بیچارے، بدبخت اور بدنام شخص کو جو بعد میں اور بدنام ہوا (7) مٹی کا پتلا بناکر بٹھا دیا تاکہ اس حکومت کو جو خاتمے کے دہانے پر پہنچ چکی تھی، چند روز کے لئے سنبھالا دے سکے۔ وہ تیس چالیس روز تک برسراقتدار رہا، یہاں تک کہ امام (خمینی) تشریف لائے اور آپ کے دست مبارک کے ایک اشارے پر سب کچھ ختم ہو گیا۔
ایران میں شاہی نظام ختم ہو گیا۔ کیسے؟ لوگوں کے میدان میں آ جانے سے۔ لوگ میدان میں کس لئے آئے؟ دین کے لئے۔ چونکہ نعرہ اسلامی تھا۔ چونکہ اس کے رہبر، اسلامی پیشوا اور ایسے علماء تھے جن پر لوگوں کو اعتماد تھا۔
عوام میں ایسے لوگ بہت تھے جو علماء کی مدد کرتے تھے، انہیں مشورہ دیتے تھے۔ حتی بعض شہروں میں علماء کی رہنمائی کرتے تھے لیکن عام لوگوں اور پورے ملک کے دسیوں لاکھ عوام نے دیکھا کہ بڑے علماء اور اچھی شہرت رکھنے والے مذہبی رہنماوؤں میں امام (خمینی) سب سے آگے ہیں اور سب اعلی سطح کے علمائے دین اور مراجع تقلید ہیں تو وہ میدان میں آ گئے۔ یہ منفرد انقلاب اس طرح وجود میں آیا اور کامیاب ہوا۔ دوسرے لفظوں میں ہمارا انقلاب عوام کے میدان آنے سے وجود میں آیا اور عوام اپنے دینی اعتقاد کی بنیاد پر میدان میں آئے تھے۔
ان دنوں تمام سیاستداں، حتی بائیں بازو کے چھاپہ مار گروہ، کمیونسٹ اور اشتراکی، جن سے جیلوں میں یا جیلوں سے باہر ہماری ملاقات تھی، رابطہ تھا، دوستی تھی، رفت و آمد تھی اور ان کے ساتھ ہماری میٹنگیں ہوتی تھیں، سبھی اعتراف کرتے تھے کہ ایران میں جو حالت پیدا ہوئی ہے، یہ امام (خمینی) جیسی شخصیت کی قیادت اور دینی نعروں کے علاوہ اورکسی طرح ممکن نہیں تھی۔
انقلاب کے بارے میں جو باتیں کہی جا سکتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اور جو بھی اہل تجزیہ ہوگا اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چنانچہ شروع میں کوئی بھی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہتا تھا۔ صرف کچھ چھوٹے ڈھیٹ گروہ تھے، جن کے اراکین چار پانچ سال جیلوں میں تھے اور انقلاب کی برکت سے جیلوں سے رہا ہوئے تھے، یہ تھے جنہوں نے جیلوں سے نکلتے ہی عوام کے سامنے اپنے پرچم بلند کئے اور عوام نے بھی ان کے پرچم چھین لئے اور پھاڑ کر پھینک دیئے۔ اسی وقت سے یہ لوگ عوام کے دشمن ہو گئے۔ عوام سے انہوں نے منہ موڑ لیا اور ان کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ انہوں نے لوگوں کے گھروں میں، دکانوں میں، چوراہوں پر، شہروں میں بم کے دھماکے شروع کر دیئے۔ ان کے علاوہ، جو کچھ ضدی لوگ تھے اور حق کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، جو بھی دیکھتا تھا، حقائق کو تسلیم کرتا تھا۔
البتہ اس کے ساتھ ہی یہ نکتہ بھی عرض کر دوں کہ انقلاب کی کامیابی میں بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ ہر ایک نے انقلاب کے بارے میں ایک جملہ کہا تھا اور اسی کہنے کے مطابق انقلاب کی کامیابی میں اس نے مدد کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن سو جملوں اور ایک کتاب کے مقابلے میں ایک جملہ کہہ کے انقلاب کی مدد کرنا ایک بات ہے اور انقلاب کی لہر اٹھانا دوسری بات ہے۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ایسا بھی نہیں ہے کہ جس نے بھی انقلاب کے بارے میں کہیں ایک جملہ کہہ دیا اب یہ کہے کہ ہم بھی انقلاب لانے والوں اور انقلاب کے رہنماؤوں میں شامل ہیں۔ یہ تو ویسا ہی ہے جیسے کوئی سو آدمیوں کے لئے پکنے والے کھانے کی دیگ میں ٹڈی کی ایک ران ڈال کے کہے انا شریک۔
یقینا تمام عوام، جنہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈالی، اس انقلاب کے مالک ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے؟ فرض کریں میں نے ہزار جلسوں میں انقلاب کے بارے میں تقریریں کیں۔ کیا یہ تقریر کرنا کسی انسان کے جان دینے کے برابر ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ جنہوں نے انقلاب کی کامیابی کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہ ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ اگر واقعی ہمیں اس بارے میں منصفانہ بات کہنی ہے تو یہ بات کہنی چاہئے۔ بہرحال انقلاب میں عوام کی مشارکت ایک حقیقت ہے۔
ایک اور بات جو اس بات کے ساتھ آتی ہے انقلاب کی کارکردگی کے تعلق سے ہے۔ انقلاب عوام اور ان رہنماوؤں یا رہبر کی قوت ارادی سے کامیاب ہوا جو سوفیصد عوام کی حمایت پر منحصر تھا اور عوام جس سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ اب یہ انقلاب کیا کرنا چاہتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ پہلا کام جو اس طرح کا انقلاب کرتا ہے، ان ظالمانہ سہولتوں کو ختم کرنا ہے جو برسوں سے اس ملک میں بیرونی طاقتوں کو حاصل رہی ہیں۔ یہ کام فطری ہے۔ فرض کریں کہ برطانیہ آئے اور ملک کا تیل لوٹ کے لے جائے، اس سے ہر وطن پرست ناراض ہوگا۔ یہ بالکل بدیہی اور واضح سی بات ہے۔
ماضی میں بہت سی حکومتی شخصیات اور اراکین پارلیمنٹ جو پہلے دو تین ادوار میں، واقعی عوام سے منتخب ہوکے آئے تھے اور ان کی نمائندگی کرتے تھے، یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب رضا شاہ نے پارلیمنٹ پر ہاتھ رکھا، بیرونی طاقتوں کو سہولتیں دیئے جانے کے مخالف تھے۔ حقیقی وطن پرست اور قوم پرست شخصیات سہولتیں دینے کے حق میں نہیں تھیں لیکن ان کے اندر مخالفت کی جرائت بھی نہیں تھی۔ کیوں جرائت نہیں تھی؟ اس لئے کہ عوام ان کے پشت پناہ نہیں تھے اور درحقیقت ان کی شبیہ عوامی نہیں تھی۔ جیسے ہی کوئی وزیر اعظم آکر کوئی ایسی بات کہتا کہ جس سے بیرونی طاقتوں کے مفادات کی مخالفت کی بو آتی، اس کو ہٹا دیا جاتا تھا۔ جیسے ہی کوئی حکومتی عہدیدار ایسا تاثر دیتا یا ایسی بات کہتا جس سے بیرونی طاقتوں کو مراعات دینے پر اعتراض کی بو آتی اس کو برطرف کر دیتے تھے۔ اگر کوئی آیت اللہ مدرس رضوان اللہ تعالی علیہ کی طرح اپنے موقف پر ڈٹا رہتا تو اس کو زدوکوب کرتے تھے، جیل میں بند کر دیتے تھے۔ جلاوطن کر دیتے تھے اور رضا خان جیسے کسی خود سر کے ہاتھوں رمضان میں، روزے کی حالت میں اس کو شہید کروا دیتے تھے۔ جن لوگوں میں آیت اللہ مدرس کا ایمان اور جرائت نہیں ہوتی تھی، جیسے ہی کچھ کہتے تھے، غیر ملکی آقا گھور کے دیکھتے تھے اور وہ خاموش ہو جاتے تھے۔ لہذا ایران میں بیرونی طاقتوں کے لئے مراعات روز بروز بڑھتی گئیں۔
خواتین و حضرات، پورے ملک کے بھائیو اور بہنو' اس ملک میں تیل کی دولت کا انکشاف ہوا۔ تیل ملنے کا مطلب یہ تھا کہ قوم کو خزانہ مل گیا۔ جیسے ہی اس ملک میں اس خزانے کا پتہ چلا اور یہ خزانہ ملا، کچھ غیر ملکی اور زیادہ تر انگریز-اس سلسلے میں سارا قصور انگریزوں کا ہے ---- ایران میں آئے اور اس خزانے پر بیٹھ گئے۔ طویل برسوں تک یہ خزانہ نکالتے رہے اور کھاتے رہے اور کسی میں اتنی جرائت نہیں تھی کہ ان سے کہتا کہ یہ ایرانی قوم کی ثروت کی غارتگری ہے۔ کیا یہ تکلیف دہ نہیں ہے؟ واقعی تیل کا مسئلہ، ایرانی قوم کے انتہائی تلخ مسائل میں سے ہے اور یہ عقدہ اب تک صحیح طور پر نہیں کھل سکا ہے۔
انگریز قاجاری دور میں ایران میں آئے اور اس دور کے خائن حکام کے ساتھ انہوں نے تیل لے جانے کا ساٹھ سال کا معاہدہ کیا۔ ( بظاہر پہلا دارسی معاہدہ ساٹھ سال کے لئے ہوا تھا) ساٹھ سال کے لئے معاہدہ کیا گیا کہ انگریز آئیں اور تیل لے جائیں جس کی انہیں ان دنوں پینے کے پانی کی طرح ضرورت تھی۔ واقعی انگریزوں کے لئے تیل بہت اہم تھا۔ کیونکہ وہ استعماری کاموں میں مصروف تھے، ملکوں پر قبضہ کر رہے تھے لہذا انہیں پیسوں کی ضرورت تھی اور پیسہ کارخانے چلنے سے مل سکتا تھا اور کارخانے تیل سے چلتے تھے۔ انگریز ایران آئے اور اس ملک کا گراں قیمت تیل پانی کے مول لے جانے لگے۔ اگر تیل کی جگہ بیرلوں میں پانی بھرتے تو شاید زیادہ مہنگا پڑتا۔
اس ساٹھ سالہ معاہدے کو ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ رضاخان کو اقتدار میں لائے۔ کمزور قاجاری حکومت کے آخری ایام تھے اور انگریز کوئی ایسا آدمی چاہتے تھے جو ملک کے گوشہ وکنار میں سر اٹھانے والوں کا قلع قمع کر سکے۔ انہیں اس کے لئے کہ ان کے مفادات کو کوئی خطرے میں نہ ڈالے، کسی ایسے غنڈے کی ضرورت تھی جو ان کا زرخرید رہے۔
انہیں رضاخان مل گیا۔ اس کو ٹرینڈ کرنا شروع کیا اور اس کو وہاں تک پہنچا دیا جہاں پہنچانا چاہتے تھے۔ پہلے لشکر کا سردار اور وزیر اعظم بنا اور پھر بادشاہ بن بیٹھا۔ انگریزوں کے ذریعے اقتدار میں آئے ابھی چند سال نہیں ہوئے تھے کہ اس نے سوچا کہ اگر ہو سکے تو تیل کی بابت زیادہ پیسہ حاصل کیا جائے، البتہ انگریزوں کی غلامی اپنی جگہ محفوظ تھی مگر بہر حال غلام اور نوکر کبھی اس فکر میں بھی پڑتا ہے کہ اگر ہو سکے تو آقا سے زیادہ پیسہ کھینچا جائے۔ اس کی منہ زور سرشت نے بھی اس کی مدد کی اور اس نے دارسی معاہدے کے سلسلے میں جس کو پورا ہونے میں ابھی تیس سال باقی تھے، منہ زوری کا مظاہرہ کیا۔ کابینہ میں آیا اور دارسی معاہدے کو اس نے ہیٹر میں ڈال کے جلا دیا۔ جب اس سے کہا کہ ابھی اس معاہدے کے تیس سال باقی ہیں تو اس نے کہا یہ کیسا معاہدہ ہے۔ تیل کی بابت انہیں زیادہ پیسہ دینا چاہئے۔ اس کا مد مقابل کون ہے؟ ایک انگریز کمپنی۔ جیسے ہی رضا خان نے دارسی معاہدے کے ساتھ یہ سلوک کیا، برطانوی حکومت میدان میں آ گئی اور ہنگامہ شروع کر دیا۔ سرانجام انگریزوں نے رضا خان کی ناک رگڑ دی اور ایسا کام کیا کہ یہ معاہدہ جس کی مدت میں تیس سال باقی تھے، اس کو مزید ساٹھ برسوں کے لئے بڑھا دیا گیا۔ یعنی انگریزوں کے ساتھ دوسرا معاہدہ ہوا۔
ایران کے تیل کے سلسلے میں یہ وہ کام تھا جو انگریزوں نے قاجاری دور سے رضا خان کی حکومت کے اختتام تک کیا۔ پھر مصدق کا زمانہ آیا۔ تیل کو قومیائے جانے کا نعرہ بلند ہوا۔ انگریز پھر آئے مگر اس بار تنہا نہیں تھے بلکہ امریکی بھی ان کے ساتھ تھے۔ درحقیقت امریکی انیس سو ترپن سے میدان میں آئے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ اگر ایرانی قوم نے برطانوی حکومت کی نسبت اپنے دل سے دشمنی اور نفرت نہ نکالی ہو اور نہ نکالے تو اسے حق ہے اور ہر عاقل ایرانی قوم کو اس سلسلے میں حق بجانب قرار دے گا۔ انگریزوں نے ایرانی قوم کے ساتھ جو کیا ہے اور اس کو جس مصیبت میں مبتلا کیا ہے، وہ کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔ یہ جو دنیا کے ایک گوشے میں بیٹھے ہیں اور ایرانی حکومت اور قوم کے خلاف بے بنیاد باتیں کرتے ہیں، وہ بھول گئے ہیں کہ ظالم برطانوی حکومت نے ایرانی قوم کے ساتھ کیا کیا ہے۔
البتہ خداوند عالم نے ان کا غرور توڑ دیا اور ان سے وہ طاقت سلب کر لی۔ آج انگریزوں کی دنیا میں نہ کوئی عزت ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی طاقت ہے۔ جیسے ہی امریکیوں نے محسوس کیا کہ ایران میں کھلا میدان ہے اور برطانوی اکیلے اس میدان میں جولانی پر قادر نہیں ہیں، وہ بھی آ گئے۔ انیس سو ترپن سے اسلامی انقلاب کی کامیابی تک انگریز اور امریکی، ایران کے تیل کے کنووں پر اور درحقیقت ایرانی قوم کے خزانے پر بیٹھے رہے اور جتنا لوٹ سکے لوٹا۔ ایرانی قوم کا دل ان سے کیسے صاف ہو؟ پہلوی حکومت برطانیہ اور امریکا کی زرخرید تھی۔ محد رضا ایران میں امریکی ایجنٹ کی طرح کام کرتا تھا۔ امریکی ایجنٹ کی حیثیت سے حکومت اس کے ہاتھ میں تھی اور اس کا کام اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ جب کہا جائے فلاں شخص کو وزیر اعظم بنا دو بنا دے اور جب کہا جائے اس وزیر اعظم کو ہٹا دو ہٹا دے۔ وہ جو چاہتے تھے کرتے تھے۔ اگر کبھی وہ کسی وزیرا‏عظم کو ہٹانا چاہتا تھا اور امریکی اس پر تیار نہیں ہوتے تھے تو امریکا جاتا تھا، اس سے ملتا تھا اس سے ملتا تھا تاکہ فلاں وزیر اعظم کو ہٹانے کی اجازت حاصل کرے۔ صورتحال یہ تھی۔ تہران میں امریکا اور برطانیہ کے سفیر، ملک کے سیاسی خطوط کا تعین کرتے تھے۔
اب آپ سمجھے کہ امریکی کیوں برہم ہیں؟ اب آپ سمجھے کہ آج امریکی حکام بالخصوص ان کا مدقوق اور منفور وزیر خارجہ دنیا کا دورہ کرتا ہے تو یہاں وہاں کہتا پھرتا ہے ہم حکومت ایران پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کہ اپنی سیاست بدلے یہ سیاست کیا ہے جسے وہ بدلنا چاہتے ہیں؟
یہ وہ ہیں کہ کسی زمانے میں، شاہ ایران، وہ روسیاہ بدبخت جو شاہ کے نام پر ایران میں تھا، ان کے سفیروں یعنی امریکا اور برطانیہ کے سفیروں کا مطیع تھا اور ملک کے بنیادی مسائل میں وہ جو بھی کہتے تھے اس پر عمل کرتا تھا۔ لیکن آج ایران میں ایسی حکومت اور ایسا نظام ہے کہ ملک کے بنیادی مسائل میں اس کے سو کاموں میں سے ایک بھی امریکا کی مرضی کے مطابق نہیں ہے۔ آج ایران میں ایسا نظام ہے کہ جس نے آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ان کو جو خصوصی مراعات دی گئی تھیں وہ ختم کر دیں۔ اسلامی انقلاب نے پہلا کام یہ کیا کہ ایران میں امریکا اور برطانیہ کو حاصل مراعات اور سہولیتیں ختم کر دیں۔ یہ انقلاب کے تعلق سے ایک اور حقیقت ہے۔
توجہ فرمائیں! دوسری بات جو میں نے کہی یہ تھی کہ یہ انقلاب چونکہ عوام کی حمایت سے آیا تھا اس لئے یہ ایسا نظام لایا جو عوامی ہے۔ چونکہ اس انقلاب کے رہبر کو عوام میں مقبولیت حاصل تھی اور عوام اس کے پشت پناہ تھے اس کی پیروی کرتے تھے، اس لئے اس نے، بیرونی طاقتوں کی مراعات ختم کرنے میں دیر نہیں کی بلکہ فورا ہی یہ مراعات اور سہولتیں ختم کر دیں۔ البتہ ہم نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے کئی مہینے بعد تک امریکا کےساتھ اپنے روابط منقطع نہیں کئے تھے۔ صرف ایران میں اس کو جو مراعات اور سہولتیں حاصل تھیں انہیں ختم کیا تھا۔ وہ ہمارے تیل سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ ہم نے کہا یہ نہیں ہوگا۔ وہ چاہتے تھے کہ ظالمانہ سرمایہ کاری کے ذریعے، جو گذشتہ حکومت میں ایران میں کی تھی، اور اس سے منافع کما رہے تھے، فائدہ اٹھائیں۔ ہم نے کہا یہ نہیں ہوگا۔ وہ چاہتے تھے کہ فوج اور بالخصوص فضائیہ میں ان کے افراد رہیں، ہم نے کہا یہ نہیں ہوگا۔ وہ چاہتے تھے کہ اپنے سابق سفارتخانے میں جاسوسی کے مرکز کو فعال رکھیں، ہم نے کہا یہ نہیں ہوگا۔
توجہ فرمائیں کہ امریکا کا سفارتخانہ، انقلاب کی کامیابی کے مہینوں بعد تک کھلا ہوا تھا، کام کر رہا تھا، سفارتخانے کے سارے عہدیدار تھے، بعد میں جب یونیورسٹی طلبا نے، سفارتخانے کو اپنے قبضے میں لیا تو دیکھا کہ امریکی سفارتخانہ، انقلاب مخالف عناصر، اسلامی جمہوری نظام کے مخالفین سے رابطے اور جوڑ توڑ کے مرکز میں تبدیل ہو چکا تھا۔ وہی کردار جو برطانوی سفارتخانہ، اٹھارہ اگست کے واقعے سے پہلے ادا کرتا تھا، یعنی اس سے ملو اس سے ملو، اس سے رابطہ قائم کرو، اس کو پیسہ پہنچاؤ، اس کو اسلحہ دو، اس کو طریقہ سمجھاؤ تاکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کوئی حادثہ رونما ہو۔ وہ اس کام میں مشغول تھے۔ ایرانی قوم نے امریکی سفارتخانے کو جاسوسی کے اڈے کا نام دیا اور یہ حقیقت تھی۔ بنابریں یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی انقلاب نے ایران میں امریکا کے، برطانیہ کے مفادات ختم کر دیئے۔ درحقیقت ان دونوں کے ہمارے ملک میں وسیع غیر قانونی اور غیر منصفانہ مفادات تھے۔
البتہ ہم نے دنیا کے ساتھ اپنے روابط کو باقی رکھا۔ آج بھی برطانیہ کے ساتھ ہمارے سیاسی روابط ہیں۔ مگر میری نظر میں یہ کمزور رابطہ ہے۔ کیونکہ انگریز دشمنی سے باز نہیں آ سکتے اور ہر کچھ عرصے کے بعد ایک ڈنک مار دیتے ہیں۔ برطانوی حکومت ایسی ہی ہے۔ بہتر ہوگا کہ برطانوی حکومت ایران کے سلسلے میں زیادہ محتاط رہے۔ کیونکہ ایران میں اس کا ماضی سیاہ اور بہت برا ہے۔ اب جب کہ ایران کی حکومت اور قوم نے اس کے ساتھ اپنا سیاسی رابطہ باقی رکھا ہے، اس کو بہت محتاط رہنا چاہئے اور ایسی بات نہیں کرنی چاہئے کہ ایرانی قوم یہ سمجھے کہ اس کے گندے اور غلط اغراض و مقاصد وہی ہیں جو چند عشرے پہلے تھے۔ اگرچہ آج کا برطانیہ اس زمانے کا برطانیہ نہیں ہے اور ختم ہو چکا ہے۔ یہ ایک بات۔
دوسرا خطبہ ذرا طولانی ہو گیا۔ میں اس بات کی پابندی کرتا ہوں کہ خطبے مختصر ہوں۔ مگر چونکہ ماہ رمضان ہے اور مجھے اور آپ کو جلدی نہیں ہے کوئی حرج نہیں ہے کہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔
دوسری بات جو میں انقلاب کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں، اس انقلاب کے اہم نکات میں سے ہے، وہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب نے عالمی سطح پر اسلام اور مسلمین کو عزت عطا کی۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اس سے پہلے، مسلمان، مسلم معاشرے، مسلم حکومتیں اور مسلم شخصیات دنیا میں ہر جگہ احساس کمتری میں مبتلا رہتے تھے اور اپنے لئے اور اپنے پیغام کے لئے کسی اہمیت کے قائل نہیں تھے۔ تھوڑے سے مسلم دانشور اور مفکرین اسلام کا دفاع کرتے تھے، مگر ان کا دفاع عزت اور طاقت کے احساس کے تحت نہیں بلکہ ہمدردی اور دلی تکلیف کے تحت ہوتا تھا کیونکہ اسلام تنہا تھا۔
افریقا، ایشیا اور مشرق وسطی میں کتنے اسلامی ممالک ہیں جہاں ایک نظام گیا اور دوسرا نظام آیا۔ مگر ہر جگہ مسلمان تنہا اور الگ تھلگ رہے۔ مثلا عراق میں شاہی حکومت تھی، شاہی حکومت ختم ہوئی، دوسری حکومت برسراقتدار آئی، دوسرے لوگ برسراقتدار آئے، پھر وہ بھی گئے اور کچھ دوسرے لوگوں نے ان کی جگہ لی، پھر وہ بھی گئے اور دوسرے آئے، یہاں تک کہ بعثیوں کی باری آئی۔ اس تمام آنے جانے میں، اگر کوئی الگ تھلگ رہا تو وہ مسلمان تھے۔ عراق میں ٹھوس اور مستحکم اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ مگر مذکورہ تغیرات میں ان کی شمولیت نہیں رہی۔ یا مصر کو دیکھیں۔ البتہ وہاں اخوان المسلمین نام کی ایک جماعت تھی، لیکن وہاں تبدیلی آئی، شاہی حکومت ختم ہوئی، جمہوری اور انقلابی حکومت برسراقتدار آئی، جمال عبدالناصر اس کی ممتاز اور نمایاں شخصیت تھے۔ ان کے مرنے کے بعد دوسرا آیا، وہ گیا تو دوسرا آ گیا۔ اس تمام مدت میں، اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے تک، تمام تغیرات اسلامی تحریک اور اسلامی عناصر سے عاری تھے۔ اسلامی عناصر کا کوئی دخل نہیں رہا۔ مصر کے پہلے انقلاب میں، اسلامی عناصر موثر تھے لیکن نئی حکومت تشکیل پاتے ہی وہ کنارے لگا دیئے گئے۔ بعض کو جیل میں بند کر دیا بعض کو قتل کر دیا اور بعض کو میدان سے باہر کر دیا۔ یہاں بھی اسلام کا نام و نشان نہیں تھا۔
ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا۔ اس انقلاب کی کامیابی سے دنیا میں جہاں بھی مسلمان ہوشیار اور باخبر تھے، انہوں نے عزت اور طاقت کا احساس کیا۔ ان برسوں کے دوران بالخصوص انقلاب کے پہلے سال عالم اسلام کی بہت سی ممتاز شخصیات نے ہم سے کہا جیسے ہی ہم نے ریڈیو سے امام (خمینی ) کی آواز کو جو پوری دنیا میں نشر ہو رہی تھی سنا کہ کہہ رہے تھے کہ، ہم اسلامی اور جمہوری اسلامی حکومت تشکیل دیں گے، ہم نے کامیابی کا احساس کیا دنیا میں ہر جگہ ہر مسلمان نے احساس کیا کہ وہ کامیاب ہو گیا، اس کو عزت اور طاقت مل گئی۔
یہ سچ ہے کہ انقلاب کے شروع کے تین چار سال کے دوران، جب بھی کوئی مسلم رہنما، اسلامی شخصیت، کوئی روشنفکر، شاعر، فنکار، سیاستداں یا عالم دین ایران آتا تھا، امام (خمینی ) پر، یا اس حسینیے پر، یا ہم پر، حکام پر، نماز جمعہ پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں سے اشک شوق جاری ہو جاتا تھا، گریہ کرنے لگتا تھا اور کہتا تھا آپ نے اسلامی دنیا کے لئے کیا کارنامہ انجام دیا؟! عزت کا احساس کرتے تھے۔ البتہ اب بھی مذکورہ شخصیات ایران آتی ہیں تو یہی کہتی ہیں اور اب بھی ان کے جذبات وہی ہیں۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ کچھ دوسرے حقائق سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں، میں بعد میں عرض کروں گا۔
یہی احساس عزت تھا جو بعد میں افریقا اور ایشیا میں، ولولہ انگیز واقعات رونما ہونے کا باعث ہوا۔ وہی واقعات جو آج امریکیوں اور مستکبرین کے لئے، زیادہ تشویش کا باعث ہیں۔ انہیں پریشانی ہے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ایران خطرناک ہے یہ جو کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ہمارے مفادات کو خطرے میں ڈال رہی ہے یہ سب اسی تشویش کا نتیجہ ہے۔ الجزائر کو دیکھیں، مصر کو دیکھیں، مقبوضہ فلسطین کو دیکھیں جہاں وہ سمجھ رہے تھے، سب کچھ ختم ہو چکا ہے، دیکھیں کہ وہاں اس وقت لوگوں میں کیا جوش و ولولہ ہے اور کیا مجاہدت کر رہے ہیں۔ یورپ میں بوسنیا ہرزے گووینا کو دیکھیں۔ دیکھیں کہ وہاں کے مسلمان، اس کے باوجود کہ اسلام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ہیں، مسلمان ہونے کا کیا احساس اور کیا جذبہ ان کے اندر پایا جاتا ہے۔ اسی احساس کے باعث جو اسلامی انقلاب نے انہیں دیا ہے، وہ دشمنوں کے مقابلے پر اٹھ کھڑے ہو‏ئے۔
مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے، اپنی صدارت کے دور میں ہم یوگوسلاویہ گئے تھے۔ میں نے اس ملک کے دورے کے بعد کہا کہ بوسنیا ہرزے گووینا کا دورہ بھی کرنا چاہتا ہوں۔ دورے کے انتظامات ہوئے اور ہم، سارائیوو گئے۔ ایک روز ہم سارائیوو کی سڑکوں پر گئے، لوگوں نے سن رکھا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا صدر آیا ہے۔ ہم یوگوسلاویہ کے مہمان تھے اور وہاں کے ذرائع ابلاغ عامہ نے ہماری تصویریں، رپورٹیں اور دورے کی تفصیلات شائع کی تھیں، لوگ جوق در جوق سڑکوں پر جمع تھے۔ عورت مرد سبھی، اسلامی جذبے سے سرشار ہوکر تالیاں بجا رہے تھے اور اشک شوق بہا رہے تھے۔
مقصد یہ ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے کامیاب ہونے سے مسلمانوں میں عزت اور فخر و مباہات کا احساس جاگ اٹھا۔ اسلام کو عزت ملی، مسلمانوں نے محسوس کیا کہ اسلام باعث سربلندی ہے۔ یہ اسلامی انقلاب کی برکات تھیں۔ اس انقلاب کا ایک پہلو یہ ہے۔ ہمارے انقلاب کی اسٹریٹیجی کی گہرائی یہ ہے اور دشمن یہی چیز ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے انسان کے پاس خیمہ ہو، دسیوں رسیاں، دسیوں سرزمینوں میں، مضبوط کھوٹوں سے بندھی ہوں۔ یہ خیمہ اتنا محکم ہوگا کہ کوئی بھی طوفان اس کو ہلا نہیں سکے گا۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایشیا میں، یورپ میں، افریقا میں انقلاب کی حمایت کی جاتی ہے، امام (خمینی ) کے ایک فتوے کی اس طرح حمایت ہوتی ہے، اسلامی انقلاب، یوم فلسطین، رمضان المبارک کے جمعتہ الوداع، یوم قدس اور دیگر مناسبتوں کا اس طرح استقتبال کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں اشعار کہے جاتے ہیں، یہ سب اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی کی گہرائیوں کی حکایت کرتے ہیں۔ دشمن اس کو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتے۔
اس سلسلے میں چوتھی بات افواہوں کے بارے میں ہے۔ اسلامی انقلاب کے تعلق سے ایک اہم مسئلہ جو شاید دنیا کے بہت کم واقعات کے سلسلے میں ہوتا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈوں اور افواہوں کا بازار گرم کرنا ہے۔
بہنو' اور بھائیو' اسلام اور اسلامی انقلاب کی مخالف طاقتیں، جیسے حکومت امریکا، حکومت برطانیہ، صیہونی، البتہ صیہونی اور غاصب اسرائیلی حکومت، امریکا کے آلہ کار ہیں اور امریکا نے اس غاصب حکومت کو اپنے کاموں کے لئے مشرق وسطی میں رکھا ہے، اور ان سے وابستہ ذرائع ابلاغ اور خبررسانی کے ادارے، اسلامی انقلاب کے شروع سے ہی، بہت وسیع پیمانے پر اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈوں میں مصروف ہیں اور جو ان کے منہ میں آتا ہے بولتے ہیں اور کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے، کہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس پر یقین بھی کر لیں، انہیں کا گڑھا ہوا ہے۔
کہتے ہیں ایران میں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں جب کہتے ہیں کہ دلیل دو مثال لاؤ تو ایک فہرست پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں تم نے ان کو سزائے موت دی یہ کون ہیں؟ ہیروئن اور مارفین کے اسمگلر، یعنی جن لوگوں کو سزائے موت دی گئی ان کے لئے ایک بار سزائے موت کم ہے۔ اگر انہیں ایک سے زائد بار سزائے موت دینا ممکن ہوتا تو بہتر تھا کہ ایک سے زائد بار سزائے موت دی جاتی۔ کیا یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے؟ کہتے ہیں ایران دہشتگرد ہے۔ جب پوچھتے ہیں کہ کس دلیل سے کہتے ہو کہ ایران دہشتگرد ہے اور دہشتگردی کو برآمد کرتا ہے؟ تو کہتے ہیں دیکھو فلسطین میں لبنان میں لوگ کیا کر رہے ہیں اچھا تو اس کا ایران سے کیا ربط ہے؟ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین اور لبنان میں کچھ لوگ بیدار ہو گئے ہیں، اسلامی انقلاب سے انہوں نے الہام حاصل کیا ہے۔ وہی لوگ کہتے ہیں کہ تم نے غاصب اسرائیل کو، آوارہ صیہونیوں کو اور جعلی اور غیر قانونی اسرائیلی حکومت کو لاکر لبنان اور فلسطین پر کیوں مسلط کیا ہے؟ اس مسئلے کا ایران سے کیا ربط ہے ؟ اگر کچھ لوگ اپنے وطن کا دفاع کریں تو کیا یہ دہشتگردی ہے؟ اس نام نہاد دہشتگردی کو ایران نے برآمد کیا ہے؟
دیکھئے یہ بات اور یہ دعوا کتنا بھونڈا ہے۔ اس طرح کی باتیں پھیلاتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے کمیشن میں لے جاتے ہیں اور پھر اخبارات، جرائد، ریڈیو اور ٹی وی سے اس کو نشر کرتے ہیں۔ جب تھک جاتے ہیں تو کچھ دنوں کے لئے اس سے ہاتھ روک لیتے ہیں۔ ایک مہینے بعد پھر وہی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ تیسری بار، چوتھی بار مسلسل اس کی تکرار کرتے رہتے ہیں۔ انقلاب کے شروع سے لیکر آج تک یہی باتیں کی جا رہی ہیں اور کچھ سادہ لوح اس پر یقین بھی کر لیتے ہیں۔
ان پروپیگنڈوں اور افواہوں کا مقصد کیا ہے؟ مقصد یہ ہے کہ اسلامی انقلاب نے مسلمانوں حتی غیر مسلموں میں جو مقبولیت حاصل کی ہے، وہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے پروپیگنڈوں اور خبررساں ایجنسیوں میں جو جھوٹی اور غلط خبریں دی جاتی ہیں ان کی بنیاد یہی ہے۔ وہ انتقام لینا چاہتے ہیں۔ اس انقلاب اور اس قوم نے ایران میں امریکا اور برطانیہ کی سامراجی حکومتوں کے بڑے مفادات ختم کر دیئے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس قوم سے انتقام لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ دشمن ہیں۔ اور پھر کچھ لوگ آتے ہیں اور ہم سے کہتے ہیں آیئے عاقلانہ انداز میں سوچئے یہ کیا بات ہوئی؟! ہمارے دشمنوں کو انقلاب سے زک پہنچی ہے اور وہ صرف اس وقت راضی ہوں گے جب یہ انقلاب کنارے لگ جائے اور ان سے کہا جائے جناب چور صاحب یہاں بیچ میں تشریف لایئے' ایران میں آیئے اس دن یہ راضی ہوں گے اور اس سے کم پر ہرگز راضی نہیں ہوں گے۔ صیہونیوں کو بھی ہماری دشمنی کا حق ہے۔ ہم کہتے ہیں مشرق وسطی سے صیہونیوں کی جڑ ختم ہونی چاہئے اسلامی جمہوریہ نے بارہا بہت محکم انداز میں کہا ہے اور کہتی رہے گی کہ صیہونیوں کو ضرور جڑ سے ختم ہونا چاہئے ظاہر ہے کہ ہمارے اس موقف کے ہوتے ہوئے، ان کا دل اسلامی جمہوریہ سے صاف نہیں ہو سکتا۔
یہ اس قضیے کی حقیقت ہے۔ اسی بناء پر وہ جھوٹ اور افواہ پھیلاتے ہیں۔ ان کے پروپیگنڈے ہماری تبلیغات سے قوی تر ہیں۔ ان کے پاس جو وسائل ہیں وہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ وہ ہر جگہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں، پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ ان کے پاس ریڈیو اسٹیشن زیادہ ہیں۔ وہ ملک کے اندر رسوخ پیدا کرنا چاہتے ہیں، ملک سے باہر ہمارے دشمنوں کو مسلح اور آراستہ کرنا اور ہمارے دوستوں کو انقلاب سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے زیادہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ان باتوں سے آپ واقف ہیں۔
البتہ ان ملکوں کے حکام میں کچھ بیدار ضمیر لوگ بھی مل جاتے ہیں۔ جب وہ غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حقیقت ان کے پروپیگنڈوں کے برعکس ہے۔ لیکن ان حکومتوں میں اسلامی انقلاب سے دشمنی کا جنون اتنا زیادہ ہے کہ ضمیر والے بولنے کی جرائت نہیں کرتے اور اگر کبھی بول دیتے ہیں تو اپنی بات واپس لے لیتے ہیں۔ انگریزوں اور امریکیوں میں کبھی کوئی ضمیر والا بھی مل جاتا ہے جو حقیقت کو سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ ایران سے لڑائی کیوں کرتے ہو؟ اسلامی جمہوریہ کو دشمن کیوں سمجھتے ہو؟ افواہ کیوں پھیلاتے ہو؟ یہ جھوٹ ہے حقیقت نہیں ہے لیکن ان کے اندر اسلامی انقلاب سے دشمنی کا جنون اتنا زیادہ ہے کہ اپنی جنون آمیز باتوں اور نعروں میں اس باضمیر شخص کی بات سن بھی نہیں پاتے۔
حقیقت میں ایرانی قوم سے عرض کرتا ہوں کہ یہ دشمنی، یہ عناد، ان تمام تفصیلات کے ساتھ، ہمارے انقلاب کی حقیقت، پائیداری، اقتدار اور قوت سے بہت کم اور پست ہے۔ ہمارا انقلاب ان باتوں سے بہت زیادہ عظیم اور قوی ہے۔ گذشتہ پندرہ سولہ برسوں میں ہمارے دشمنوں سے جو ہوا وہ انہوں نے کیا۔ مگر پروردگار کے فضل سے آج ہم پانچ سال پہلے سے زیادہ قوی ہیں۔ پانچ سال پہلے دس سال پہلے سے قوی تر تھے۔ دس سال پہلے پندرہ سال پہلے ابتدائے انقلاب کے زمانے سے قوی تر تھے۔ یہ نظام، یہ انقلاب اور یہ حکام، پروردگار کے فضل سے روز بروز قوی سے قوی تر ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے دشمنوں کی سعی و کوشش اور توانائی اس سے کم رہی ہے کہ اس انقلاب کو نقصان پہنچا سکتے اور اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔
البتہ ہمیں دشمن کو معولی اور چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہمیں بیدار رہنا چاہئے۔ میں ایرانی قوم سے عرض کرتا ہوں کہ اس کے بعد بھی پروردگار کے فضل سے انقلاب کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ لیکن اس درمیان آپ پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے اتحاد کی حفاظت کریں۔ دوسرے اپنے اندر تقوی کی تقویت کریں۔ اپنے دلوں میں خدا پر بھروسے کے جذبے کو محکم کریں۔ امام (خمینی) ایک وقت یک و تنہا تھے مگر دشمن کی ظاہری ہیبت کے سامنے نہ جھکے، اس کا راز یہ تھا کہ خدا پر بھروسہ کرتے تھے، اس سے مرتبط تھے، خود کو الہی طاقت سے متصل سمجھتے تھے۔ مسلمہ بات ہے کہ جب انسان خدا کی لایزال طاقت سے متصل ہو جائے گا تو ناقابل شکست بن جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں اس ملک اور اس نظام کو اس نقطے تک پہنچا دینا چاہئے کہ کوئی اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔ آپ، قوم، حکومت اور حکام سب، مل کر اس نظام اور اس ملک کو سو فیصد محفوظ بنا دیں۔
اپنی طاقت بڑھائیں۔ قدرتی دولت کو نکالیں اور صحیح راہ میں لگائیں۔ اس ملک میں تعمیر اور پیداوار کو روز بروز زیادہ کریں۔ قوم اور حکومت کو اپنا رابطہ روز بروز زیادہ کرنا چاہئے۔ قوم حکومت کی نسبت اور حکومت قوم کی نسبت، انقلاب کے نعروں کو زندہ رکھے۔ اس نظام کے تمام ارکان میں، انقلابی جذبے کو روز بروز قوی سے قویتر کریں۔ اگر یہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے، اگر اٹھ کھڑا ہو، اگر خدا پر بھروسہ کرکے، قدم اٹھائے تو کسی کا محتاج نہیں رہے گا۔ اسراف کی روش کو جو بعض لوگوں میں، روز بروز بڑھ رہی ہے، روکنا چاہئے۔
اسراف کیوں؟ انسان اس دوکان پر کیوں جائے جو اس کی تذلیل کرے اور اس کا برا چاہے؟ اگر آپ، آپ کی بیوی اور آپ کے بچے کسی دوکان پر جائیں اور دیکھیں کہ دوکاندار سامان بیچنے کے ساتھ ہی آپ کو لوٹ رہا ہے تو اس کے بعد آپ اس دوکان پر نہیں جائیں گے۔ اگر آپ دیکھیں کہ وہ سامان آپ کے ہاتھ بیچ رہا ہے مگر اس کی نیت بری ہے اور آپ کا برا چاہتا ہے تو آپ اس کے پاس نہیں جائیں گے۔ ہم ان کے دروازے پر کیوں جائیں جو ہمارا برا چاہتے ہیں؟ ہم ایسے لوگوں کے ساتھ مالی رابطہ اور لین دین کیوں کریں جو اپنے وجود کی گہرائیوں سے ہمارے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں؟ کیوں؟ کیا ضرورت ہے؟
کوشش کریں کہ خود کفیل ہوں۔ اپنے مفادات کو محفوظ بنائیں۔ ایرانی قوم بڑی قوم اور عظیم طاقت ہے۔ ایران کے ذخائر بھی عظیم ہیں۔ اللہ تعالی پر توکل کریں۔
رمضان دعا کا مہینہ ہے۔ ان تمام کوششوں کے بعد جو میں نے عرض کیں، دعا و مناجات اور خدا سے طلب کرنا فراموش نہ کریں۔ پرودگار اپنی رحمت اور فضل و کرم آپ کے شامل حال کرے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اذا جاء نصر اللہ والفتح و رئیت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا۔ فسبح بحمد ربک و استغفرہ انہ کان توابا۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1 بقرہ 185
2 اللھم اجعلنی اخشاک کانی اراک و اسعدنی بتقواک ولا تشقنی بمعصیتک و حز لی فی قضائک و بارک فی قدرک حتی لا احب تعجیل ما اخرت ولا تاخیر ماعجلت۔۔۔ از دعائے عرفہ امام حسین علیہ السلام - مفاتیح الجنان۔
3 چوبیسویں دعا، صحیفہ سجادیہ
4 روم ؛ 10
5 مفاتیح الجنان، دعائے ابوحمزہ ثمالی۔
6 سورہ نساء آیت نمبر 32
7 مقصود ظالم شاہی حکومت کا آخری وزیر اعظم شاپور بختیار ہے۔
8 ولیم نیکس ڈارسی (1849-1917) آسٹریلوی شخص جو برطانیہ میں پیدا ہوا اور انیس سو ایک میں اس نے قاجاری حکومت سے ایرانی تیل کی اجارہ داری حاصل کی۔