قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دل و جان سے خداوند عالم کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ایک بار پھر یہ توفیق عنایت فرمائی کہ آپ جیسے بلبلان گلزار اہلبیت علیہم السلام اور مداحان خاندان عصمت و طہارت کے ساتھ اس عظیم دن کا جشن منائیں اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کے ذکر سے دل و جان کو جلا بخشیں۔ میں آپ حضرات کا بھی شکر گزار ہوں کہ ہماری عید آپ نے شیریں کر دی اور اپنے پرخلوص توسل سے اس دن کو حقیقیی معنوں میں عید کا دن بنا دیا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں جتنا بھی کہیں کم ہے اور حقیقت میں ہم نہیں جانتے کہ کیا کہیں یا کیا سنیں۔ اس انسیہ حورا، اس روح مجرد اور اس نبوت و ولایت مجسم کا وجود مبارک اتنے وسیع اور لامتناہی پہلو رکھتا ہے کہ جہاں تک طائر فہم کی رسائی ممکن نہیں اور ہم متحیر رہ جاتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ معاصر اور ہم عصر ہونا وہ عوامل ہیں جو شخصیات کی صحیح شناخت میں مانع ہوتے ہیں۔ عالم بشریت کے درخشاں ستارے، اپنے زمانہ حیات میں، ہم عصر لوگوں کے ذریعے پہچانے نہیں گئے، ان میں سے معدودے چند ممتاز ہستیاں ہی اس سے مستثنی نظر آتی ہیں، وہ کچھ انبیاء و اولیاء تھے۔ وہ بھی گنتی کے چند لوگوں کے ذریعے۔ مگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایسی عظیم ہستی ہیں کہ خود آپ کے زمانے میں، نہ صرف آپ کے والد، شوہر، اولادوں اور خاص شیعوں نے بلکہ ان لوگوں نے بھی جو آپ سے خلوص نہیں رکھتے تھے، انہوں نے بھی آپ کی مدح سرائی کی ہے۔ اہلسنت محدثین نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں جو کتابیں لکھی ہیں، اگر انہیں دیکھیں تو ایسی بہت سی روایات ملیں گی جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی مدح میں صادر ہوئی ہیں یا آپ کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت کے بیان پر مشتمل ہیں۔ ان میں بہت سی روایات ان لوگوں سے نقل کی گئی ہیں جو اس طرح کے تھے جیسے بعض روایات ازواج رسول اور دوسرے لوگوں سے منقول ہیں۔ یہ مشہور حدیث عائشہ سے نقل کی گئی ہے کہ کہا و اللہ ما رائیت فی سمتہ و ھدیہ اشبہ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من فاطمہ کسی کو ہیئت میں، چہرے میں، صورت میں، نورانیت میں، حرکات و سکنات میں، فاطمہ سے زیادہ پیغمبر کے مشابہ نہیں دیکھا۔ و کان اذا دخلت الیہ، اذا دخلت علی رسول اللہ قام الیہا جب فاطمہ زہرا آپ کے پاس آتی تھیں تو آنحضرت کھڑے ہو جاتے تھے اور اشتیاق کے ساتھ آپ کی سمت آگے بڑھتے تھے۔ یہ قام الیہا کے معنی ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ جب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کمرے میں داخل ہوتی تھیں تو پیغمبر آپ کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے بلکہ قام الیہا کھڑے ہوتے تھے اور آپ کی طرف آگے بڑھتے تھے۔ ان میں سے بعض روایات میں جو اسی راوی سے منقول ہیں، اس طرح آیا ہے و کان یقبلھا اور یجلسھا مجلسہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو بوسہ دیتے تھے، آپ کا ہاتھ پکڑتے تھے اور لاکے اپنی جگہ بٹھاتے تھے۔ یہ حضرت فاطمہ زہرا کا مرتبہ ہے۔ انسان اس بیٹی کے بارے میں کیا کہے؟ اس عظیم ہستی کے بارے میں کیا لب کشائی کرے؟
میرے عزیزو' حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کہ عظمت آپ کی سیرت میں نمایاں ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی کیا معرفت ہے؟ ایک بات یہ ہے۔ تاریخ میں محبان اہلبیت علیہم السلام نے جہاں تک ہو سکا، دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ جس طرح ہمارے زمانے میں یہ عظیم ہستی دلوں میں اتنی عزیز اور آنکھوں میں اتنی پروقار ہے، ہمیشہ اسی طرح رہی ہو۔ آج الحمد للہ اسلامی دور ہے۔ قرآن کی حکومت کا دور ہے۔ علوی حکومت کا دور ہے۔ حکومت اہلبیت علیہم السلام کا دور ہے۔ اور جو دلوں میں ہے وہی زبانوں پر جاری ہوتا ہے۔ اسلامی دنیا کی سب سے پرانی یونیورسٹی - جو تیسری اور چوتھی صدی ہجری سے تعلق رکھتی ہے- حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام پر ہے۔ مصر کی مشہور الازہر یونیورسٹی کا نام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام سے لیا گیا ہے۔ ماضی میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام پر یونیورسٹی قائم کرتے تھے۔ حتی خلفائے فاطمی، جو مصر پر حکومت کر رہے تھے، وہ شیعہ تھے۔ صدیوں سے شیعہ اس عظیم ہستی کی معرفت اس طرح حاصل کرتے جو حق ہے۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں تمام ستاروں سے راستہ سیکھنا چاہئے۔ وبالنجم یھتدون (1) عاقل انسان اس طرح کے ہوتے ہیں۔ ستاروں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ستارے آسمان میں چمکتے ہیں۔ وہاں عالم عظیم ہے۔ کیا یہ ستارے وہی ہیں جو ہم آپ دیکھتے ہیں؟ بعض ستارے جو آسمان میں ایک نکتے کی طرح جھلملاتے ہیں، در حقیقت کہکشائیں ہیں۔ کوئی ستارہ اس کہکشاں سے بھی جس میں اربوں ستارے ہیں، بڑا ہوتا ہے -- خدا کی قدرت کا کوئی اندازہ نہیں ہے-- مگر ہمیں اور آپ کو وہ ایک چھوٹا روشن ستارہ نظر آتا ہے۔ اچھا، ان باتوں کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ عاقل انسان کو جس کو خدا نے آنکھیں دی ہیں، ان ستاروں سے اپنی زندگی میں استفادہ کرنا چاہئے۔ قرآن فرماتا ہے و بالنجم ھم یھتدون ان کے ذریعے راستہ تلاش کرتے ہیں۔
میر عزیزو' عالم خلقت کے یہ ستارے وہی نہیں ہیں جو ہمیں نظر آتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان باتوں سے بہت بالاتر ہیں۔ ہم صرف درخشندگی دیکھتے ہیں مگر آپ کی ہستی اس سے بہت عظیم ہے۔ ہم اور آپ کیا استفادہ کرتے ہیں؟ کیا جان لینا ہی کافی ہے کہ آپ حضرت زہرا ہیں؟ میں نے روایت میں پڑھا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کی نورانیت ایسی ہے کہ اس سے ملاء اعلی کے رہنے والوں کی آنکھیں بھی خیرہ ہو جاتی ہیں۔ زھراء نورھا للملائکۃ السماء (2) وہ اس نور سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس نورانیت سے ہمیں کیا استفادہ کرنا چاہئے؟ ہمیں اس درخشاں ستارے سے خدا کا راستہ، راہ بندگی، جو سیدھا راستہ ہے اور جس پر چل کر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اعلی مدارج طے کئے، وہ راستہ تلاش کرنا چاہئے۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ خداوند عالم نے آپ کے خمیر کو اعلی قرار دیا ہے تو اس لئے ہے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ ہستی عالم مادہ میں، بشری دنیا میں، امتحان میں کامیاب رہے گی۔ امتحنک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرۃ (3) قضیہ یہ ہے۔ خداوند عالم اگر اس ہستی کے خمیر کی تیاری میں خاص لطف سے کام لیتا ہے تو اس کا تعلق اس سے ہے کہ جانتا ہے کہ وہ کس طرح امتحان میں کامیاب ہوگی۔ ورنہ بہت سے لوگ ہیں جن کا خمیر اچھا تھا، کیا ان میں سے ہر ایک امتحان میں کامیاب رہا؟ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا یہ حصہ وہی ہے جس کی ہمیں اپنی نجات کے لئے ضرورت ہے۔ شیعوں کی ایک حدیث ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا یافاطمتہ اننی لم اغن عنک من اللہ شیاء یعنی اے میری عزیز' اے میری فاطمہ' خدا کے نزدیک میں تمہیں کسی چیز سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔ یعنی تمہیں اپنی فکر خود کرنی ہے۔ اور آپ بچپن سے لے کر اپنی مختصر عمر کے آخر تک اپنی فکر میں رہیں۔ آپ دیکھیں کہ اس ہستی نے کس طرح زندگی گزاری؟ شادی سے قبل، ایک بیٹی کی حیثیت سے اپنے عظیم باپ کی اس طرح خدمت کی کہ ام ابیہا یعنی اپنے باپ کی ماں کا لقب آپ کو دیا گیا۔ اس زمانے میں پیغمبر رحمت و نور، نئی دنیا لانے والا، اس عظیم عالمی انقلاب کا رہبر و سردار، جس کو تا ابد باقی رہنا ہے، پرچم اسلام بلند کر رہا تھا۔ آپ کو بلا وجہ ام ابیہا نہیں کہتے۔ آپ کو یہ لقب، آپ کی سعی و کوشش، خدمت اور مجاہدت پر دیا گیا ہے۔ آپ مکے کی زندگی میں بھی، شعب ابوطالب کی زندگی میں بھی، ان تمام سختیوں اور مشکلات کے ساتھ اور اس وقت بھی جب آپ کی مادر گرامی حضرت خدیجہ اس دنیا سے رحلت فرما گئیں اور پیغمبر تنہا رہ گئے، اپنے والد کے ساتھ اور آنحضرت کی ہمدم و غمخوار رہیں۔ مختصر سے عرصے میں دو بڑے سانحوں، حضرت خدیجہ کبری (سلام اللہ علیہا) کی رحلت اور حضرت ابوطالب (علیہ السلام ) کی وفات سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ مختصر مدت میں یہ دونوں ہستیاں پیغمبر سے رخصت ہو گئیں۔ پیغمبر کو تنہائی کا احساس ہوا۔ اس وقت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اٹھیں اور اپنے ننہے ہاتھوں سے پیغمبر کے چہرے سے غبار غم صاف کیا۔ ام ابیہا، آپ پیغمبر کے لئے باعث تسلی و تسکین بن گئيں، یہ لقب انہیں ایام میں ملا۔
آپ سمندر کی طرح بیکراں اس شخصیت و مجاہدت کو دیکھیں کتنی عظیم ہے؟! اس کے بعد دور اسلام آیا۔ پھر علی بن ابیطالب علیہ السلام سے آپ کی شادی کا مرحلہ آیا۔ وہی علی بن ابیطالب جو انقلاب اسلام کے ایک فداکار سپاہی اور مجسم بسیجی تھے۔ ہفتہ بسیج (عوامی رضاکار فورس) ہے۔ بسیجی یہ ہوتا ہے۔ یعنی اس کا تمام وجود اسلام کے لئے وقف ہوتا ہے۔ اس کے لئے وقف ہے جو پیغمبر چاہتے ہیں اور جس سے خدا خوش ہوتا ہے۔ امیر المومنین علیہ الصلوات والسلام نے اپنی ذات کے لئے کـچھ نہ کیا۔ ان دس برسوں میں - پیغمبر اکرم کی حیات طیبہ کے دس برسوں میں امیرالمومنین علیہ الصلوات والسلام نے جو کچھ کیا وہ اسلام کی پیشرفت کے لئے تھا۔ یہ جو کہتے ہیں کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور امیرالمومنین علیہ السلام کے بچے بھوکے رہتے تھے، وجہ یہی ہے۔ ورنہ یہ جوان اگر کمانے کی فکر کرتا تو سب سے زیادہ کما سکتا تھا۔ یہ وہی علی ہیں جنہوں نے بعد میں بڑھاپے میں کنویں کھودے۔ ایسے کنویں جن سے اونٹ کی گردن کی طرح پانی نکلتا تھا۔ ابھی آپ نے اپنے ہاتھ اور چہرے سے کام کا گرد و غبار صاف نہیں کیا تھا۔ کنویں کھودتے تھے اور وقف کر دیتے تھے۔ آپ نے اس طرح کے کام بہت کئے ہیں۔ کتنے کھجوروں کے باغات لگائے۔ امیر المومنین علیہ السلام جوانی میں بھوکے کیوں رہتے تھے؟ روایت میں ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر اکرم کی خدمت میں تشریف لے گئیں۔ آپ اتنے دنوں سے بھوکی تھیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کے چہرہ مبارک پر بھوک کی نقاہت کا مشاہد ہ کر لیا۔ پیغمبر غمگین ہوئے اور اپنی بیٹی کے لئے دعا کی۔ امیر المومنین علیہ الصلوات والسلام کی تمام کوششیں راہ خدا میں اور اسلام کی پیشرفت کے لئے تھیں۔ آپ اپنے لئے کام نہیں کرتے تھے۔ یہ بسیجی کا مصداق کامل ہے۔
میں اس ملک کے علوی و فاطمی فعال بسیجیوں سے عرض کروں گا کہ امیر المومنین علیہ الصلوات والسلام کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں کیونکہ دنیا کے تمام بسیجیوں کے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ، علی بن ابیطالب علیہ الصلوات والسلام ہیں۔ اس عالم میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے، آپ سے شادی کے خواہشمند اتنے لوگوں میں سے ایسے نوجوان کا انتخاب کیا جو اپنا سب کچھ راہ خدا میں دے چکا تھا اور مسلسل جنگ کے میدانوں میں رہتا تھا۔ آسان نہیں ہے۔ اسلام کے عظیم رہبر اور زمانے کے مقتدر ترین حاکم کی بیٹی، جس سے شادی کے خواہشمند، پیسے والے اور نامی گرامی افراد تھے، مگر ان تمام لوگوں میں خداوند عالم نے فاطمہ زہرا کے لئے علی کا انتخاب کیا تھا اور حضرت فاطمہ زہرا بھی اس الہی انتخاب پر راضی اور خوش تھیں۔ پھر امیر المومنین علیہ الصلوات و السلام کے ساتھ اس طرح زندگی گزاری کہ آپ اپنے پورے وجود سے آپ سے راضی تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں امیر المومنین علیہ الصلوات والسلام سے جو جملے کہے ہیں وہ اس کا ثـبوت ہیں۔ میں اس وقت، اس عید کے دن وہ غمناک جملے نہیں پڑھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے صبر کیا، بچوں کی اس طرح تربیت فرمائی، حق ولایت کا دلیری کے ساتھ دفاع کیا، اس راہ میں اذیتیں اور ایذائیں برداشت کیں اور پھر آغوش شہادت میں چلی گئیں۔ یہ ہیں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا۔
میرے ‏عزیز و' آپ سب، جو بلبل گلزار فاطمی ہیں، مداحان اہلبیت علیہم السلام ہیں، 'انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا (4) کے قصیدہ خوان ہیں، جہاں تک ہو سکے ان نکات پر توجہ کریں، بہت اچھے قصیدے کہنے والوں کے کلام سے استفادہ کریں۔ آج واقعی بہت اچھے قصائد، بہت عمدہ انداز میں پڑھے گئے، قصائد کے مضامین بھی بہت اچھے اور بے نقص تھے۔ جہاں تک ہو سکے عوام کو سنانے کے لئے ان قصائد اور ایسے قصائد کا اتنخاب کریں جن کے مضامین تعمیری ہوں اور ان سے عوام کو جہت ملے، ان کی ہدایت ہو۔ مسلسل یہ کہنا ہی کافی نہیں ہے کہ یہ درخشاں ستارہ ہے۔ یہ درخشندگی جو ہمیں نظر آتی ہے وہ اس نورانیت کا پرتو ہے جس کا بیان ناممکن ہے۔ اس درخشاں ستارے کے اسی پرتو سے ہمیں ہدایت حاصل کرنی چاہئے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ الحمد للہ ہمارے نوجوانوں کے دل یاد فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے اس طرح منور ہیں کہ میں محسوس کرتا ہوں، ہر کوئی محسوس کرتا ہے کہ حالیہ دس پندرہ برسوں میں اس مومن، انقلابی، مخلص اور حزب اللہی قوم کے دل میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی محبت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ آپ کا نام اور آپ سے توسل جو محاذوں پر تھا، جنگ کے دوران تھا، امن اور تعمیرنو کے دور میں بھی ہے۔ الحمد للہ دشمنوں کے مقابلے میں آمادگی میں بھی یہ توسل ہے۔ یہ بہت خوب اور بہت اہم توسل ہے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ، جس شکل میں بھی ممکن ہو، وہی جذبہ ہے جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو پسند ہے۔ یہ مژدگانی ہے ملک کے بسیجی نوجوانوں کے لئے، جو محبان حضرت فاطمہ زہرا بھی ہیں، آپ کی مرضی کے مطابق کام بھی کرتے ہیں اور آپ کے راستے پر چلتے ہیں جو راہ خدا اور راہ عبودیت ہے۔ ان اعبدونی ھذا صراط مستقیم (5)
میر ے پرودگار' دنیا و آخرت میں ہمارے ہاتھوں کو دامان حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے جدا نہ فرما۔
نور زہرائے اطہر سے ہمارے دلوں کی ہدایت فرما۔
میرے پروردگار' آپ کی محبت کو ہمارے دلوں میں روز بروز زیادہ کر۔ ہمیں موت محبت اہلبیت پیغمبر پر آئے اور قیامت کے دن اہلبیت پیغمبر کی محبت پر ہی ہمیں زندہ کرنا۔
میرے پرودگار' تجھے واسطہ ہے محمد و آل محمد کا، عوام کی تمام مشکلات کو اسلام اور اسلامی و الہی احکام سے تمسک کے سا‏ئے میں، برطرف فرما اوراس اجتماع کا ثواب، نور، رحمت اور لطف و کرم، ہمارے عظیم امام (خمینی) اور شہدائے اسلام کی ارواح کو عنایت فرما۔

 
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
 
(1) نحل 16
(2) حدیث پیغمبر، امالی شیخ صدوق، مجلس 24 ص 99
(3) امام صادق علیہ السلام، التہذیب، ج 6 ص 10
(4) احزاب 33
(5) یس 61