آپ نے زور دیکر کہا کہ نویں پارلیمنٹ کے انتخابات میں عوام کی اکثریت کی شرکت در حقیقت اسلامی نظام کی حمایت اور نظام پر عوام کے مکمل اعتماد کی علامت ہے اور اس نے دماغ ٹھیک کر دینے والے طمانچے کی طرح ان لوگوں کو جو اسلامی نطام کے وجود، اس کے مستقبل اور عوام کے بارے میں توہمات کا شکار ہیں، ہوش میں لا دیا اور حقیقت کو آشکارا کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ واقعی اس دفعہ کے انتخابات میں عوام نے بھرپور انداز میں اپنا فریضہ پورا کیا، عوام نے دو مارچ کے انتخابات کے موقعے پر مخالف محاذ کے مقابلے میں اپنے ایمان و بصیرت کی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اس عظیم اقدام سے انتخابات کو بے رونق بنانے کے دشمنوں کے کئی مہینوں کے منصوبوں پر پانی پھر گیا۔ آپ نے فرمایا کہ انتخابات میں عوام کی وسیع شرکت در حقیقت ملک میں رحمت خداوندی کی نسیم بہاری کے حرکت میں آ جانے کی علامت تھی، لہذا ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس رحمت خداوندی کی قدردانی میں بارگاہ ایزدی میں سجدہ شکر بجا لانا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس دفعہ کے انتخابات میں حکومت، وزات داخلہ، سیکورٹی حکام، اداروں اور تشہیراتی و نشریاتی اداروں نے واقعی بہت نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس انتہائی حیاتی عمل کو بحسن و خوبی سرانجام دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے دینی جمہوریت اور اس کے اندر انتخابات کی اہمیت کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ انتخابات اسلامی نظام کا ایک اہم جز ہے اور دینی جہموریت کا دار و مدار انتخابات پر ہوتا ہے بنابریں جو شخص بھی اسلامی نظام پر عقیدہ رکھتا ہے، انتخابات میں شرکت کو اپنا فریضہ مانتا ہے چاہے اسے بعض باتوں سے شکایت ہی کیوں نہ ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جمعے کے دن انتخابات میں جن لوگوں نے شرکت کی انہوں نے در حقیقت ایک واجب امر پر عمل کیا اور صحیح ادراک کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا کیونکہ اسلامی جمہوری نطام میں یہ اجازت نہیں ہے کہ کچھ چیزوں سے اختلاف رائے ہونے کی بنا پر انتخابات میں شرکت نہ کی جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ کے انتخابات نے ہوش میں لا دینے والے طمانچے کی مانند ان افراد کو خـبردار کر دیا جو اسلامی نظام اور عوام کے خلاف سازشیں تیار کرتے رہتے تھے، آپ نے فرمایا کہ انتخابات سے ساری حقیقت سامنے آ گئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی صدر باراک اوباما کے حالیہ بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ایران کے خلاف جنگ کے بارے میں نہیں سوچتے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ بات اچھی ہے اور اس سے توہمات سے باہر نکلنے کا اندازہ ہوتا ہے لیکن امریکی صدر نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ ہم پابندیوں کی مدد سے ایرانی عوام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دینا چاہتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پابندیوں کے معاملے میں اب بھی وہ توہم کا شکار ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ توہم جاری رہا تو امریکی حکام شدید نقصان اٹھائیں گے اور ان کے اندازے غلط ثابت ہوتے رہیں گے کیونکہ دشمن محاذ بالخصوص امریکا تینتیس سال سے ایران پر پابندیاں لگائے ہوئے ہے اور خاص طور پر پچھلے سال کے دوران اس نے دباؤ بڑھا کر عوام الناس کو اسلامی نظام سے بیزار بنا دینے کی کوشش کی لیکن دو مارچ کو پوری دنیا نے اسلامی نظام سے عوام کے والہانہ لگاؤ کا مشاہدہ کیا۔
اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔؛
بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں تمام حاضرین محترم، اسلامی جمہوری نظام کے باوقار ماہرین کو خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ حضرات نے اس اجلاس میں جو اہم باتیں بیان کیں ان پر آپ کا شکر گزار ہوں۔ ان باتوں سے ملک کے مسائل و تغیرات کے تئیں آپ کی دلچسپی اور ملک کے مستقبل کے تعلق سے آپ کے احساس ذمہ داری کا اندازہ ہوتا ہے۔ خداوند عالم آپ سب کو اپنی توفیقات سے نوا‌زے اور ہم سب کی مدد فرمائے کہ اپنے دوش پر عائد فرائض کی انجام دہی میں مخلصانہ نیت کے ساتھ اپنی سعی و کوشش کریں۔ ان میں اثر پیدا کرنا اللہ کا کام ہے، ان کی قبولیت کا دارومدار اللہ کے لطف و کرم پر ہے۔ ہم جہاں کہیں بھی مصروف کار ہیں، ہماری یہی کوشش ہونا چاہئے اور ہمیں اس بات کے لئے کمربستہ رہنا چاہئے کہ جملہ امور میں پیشرفت حاصل ہو۔
میں نے جو باتیں نوٹ کی ہیں انہیں بیان کرنے سے قبل اپنے عزیز عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، ان کی قدردانی کرنا چاہوں گا، ان کی تکریم کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے انتخابات میں انتہائی اثر انگیز، بروقت اور برمحل شرکت کی۔ حقیقت میں ہمارے عزیز عوام نے بنحو احسن یہ کارنامہ انجام دیا اور ملک کے مخالفین و معاندین اور عوام الناس کے دشمنوں کے مشترکہ محاذ کے مقابل اس قوت کا میدان عمل میں نظارہ پیش کیا جس کا سرچشمہ ایمان اور بصیرت ہے۔ جسے بھی یہ علم ہے کہ پارلیمانی انتخابات کو کمرنگ کرنے کی دشمنوں نے گزشتہ چند مہینوں کے دوران کتنے بڑے پیمانے پر کوششیں کی تھیں، اگر کسی کو معلوم ہے کہ دشمنوں نے اس پر کتنا بجٹ صرف کیا، کتنے لوگوں کو کرائے پر رکھا، کیسے کیسے منصوبے تیار کئے، کتنے تھنک ٹینک سرگرم عمل رہے کہ عوام الناس کے ذہن کو متاثر کر سکیں اور ان کے اقدام و عمل پر اثرانداز ہو جائیں، وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ عوام نے جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ کتنا عظیم تھا، وہ کتنا بڑا کارنامہ تھا۔
انسان کو سب سے پہلے تو اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے کیونکہ وہ اسی کی تخلیق ہے، اسی کی ملکیت ہے، ارادہ الہی اور رحمت و فضل پروردگار اس کے وجود کا سرچشمہ ہے۔ اس کے بعد انسان کو چاہئے کہ اپنے پورے وجود سے عوام الناس کا شکریہ ادا کرے۔ کیونکہ اس انداز کی باران رحمت بلا سبب اور بے وجہ کسی شخص، کسی قوم، کسی ملت اور کسی ملک کا مقدر نہیں بنتی۔ دعا کا فقرہ ہے،؛ الّھمّ انّی اسئلک موجبات رحمتک ہمیں رحمت کے موجبات یعنی اسباب فراہم کرنا چاہئے تب ہمارے سروں پر رحمت و فضل پروردگار کی موسلادھار اور وجود کو شرابور کر دینے والی بارش ہوگی۔ ہمارے عوام نے رحمت الہی کے اسباب فراہم کر دئے۔ میدان میں عوام کا ورود، دشمنوں کی یلغار کے مقابل ان کی ثابت قدمی، ان کی بصیرت، یہی تو اسباب نزول رحمت الہیہ ہیں۔ ان اسباب کی فراہمی کی توفیق بھی اللہ تعالی کی ہی دین ہے۔ ہم اللہ کے بھی شکر گزار ہیں اور اس کی بارگار میں سجدہ ریز ہیں اور اپنے عزیز عوام کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ عوام کو بھرپور انعام سے نوازے۔
میں جو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ کم و بیش انتخابات سے ہی متعلق ہیں۔ انتخابات کوئی وقتی عمل نہیں ہے، بلکہ دراز مدتی اور گہرے اثرات مرتب کرنے والا عمل ہے۔ لہذا اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ الیکشن، نظام کا اہم ستون ہے۔ دینی جمہوریت میں نظام در حقیقت انتخابات پر تکیہ کرتا ہے۔ انتخابات کے بغیر جمہوریت کا تصور باقی نہیں رہ سکتا۔ عوام پر نظام کے انحصار کا معیار، ایسا معیار جو نمایاں اور قابل مشاہدہ ہے اور جس سے اس انحصار کی حد کا اندازہ ہوتا ہے، یہی انتخابات ہیں۔ بنابریں جو بھی اسلامی نظام پر عقیدہ رکھتا ہے اور اپنے اس عقیدے میں سچا ہے وہ انتخابات میں شرکت کو اپنا فریضہ جانتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسے کچھ چیزوں پر، خود انہی انتخابات پر، کسی انتخابی روش پر کچھ اعتراض بھی ہو، تاہم اس اعتراض کے باوجود وہ انتخابی عمل میں شامل ہوگا۔ یہ ایک فریضہ ہے۔ اسی بنا پر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ملک بھر میں جن حضرات نے اس عمل میں شرکت کی انہوں نے اپنے واجب کو ادا کیا، فریضے کو انجام دیا اور اپنے صائب فہم و ادراک کا ثبوت پیش کیا۔ اس صحیح ادراک سے ثابت ہوتا ہے کہ انتخابات کا مسئلہ نظام کے ستون کا درجہ رکھتا ہے۔ ہم اسے اس بنیاد پر کہ ہمیں فلاں صاحب سے شکایت ہے یا فلاں چیز پر اعتراض ہے، نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہ اعتراض، اس فریضے کی ادائیگی میں سد راہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بنیادی اور اصلی نکتہ ہے۔
انتخابات کا ایک اثر یہ ہوا کہ توہم دور ہو گیا، ویسے غالبا تمام انتخابات میں یہ اثر دیکھنے میں آتا ہے۔ انتخابات ہوش میں لا دینے والے اور متنبہ کرنے والے طمانچے کی طرح ان لوگوں پر پڑتے ہیں جو اپنے کچھ توہمات میں غرق ہوں اور اسلامی نظام کے خلاف، عوام الناس کے خلاف، ملک کے بارے میں اور دشمنوں کے تعلق سے منصوبے تیار کر رہے ہوں اور توہمات میں گرفتار ہوں۔ انتخابات ایسے لوگوں کو ان توہمات سے باہر نکال دیتے ہیں اور حقیقت امر کو ان کی آنکھوں کے سامنے اجاگر کر دیتے ہیں۔
ہم نے دو روز قبل سنا کہ امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم ایران سے جنگ کے بارے میں نہیں سوچ رہے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے، یہ بہت اچھا خیال ہے، بڑی منطقی بات ہے، اسی کو توہمات سے باہر آنا کہتے ہیں۔ تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ہم پابندیوں کے ذریعے ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ پہلے حصے میں توہمات سے باہر آنے کا عندیہ بہت خوشگوار ہے لیکن بیان کے اس دوسرے حصے میں پھر انہیں توہماتی باتوں کا اعادہ انہیں بہت بڑا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جب انسان کے اندازے اور تخمینے صرف تخیلات اور توہمات کی بنیاد پر استوار ہوں، حقائق پر مبنی نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ ان اندازوں کی بنیاد پر ترتیب دئے جانے والے منصوبے شکست سے دوچار ہوں گے۔ آج صورت حال یہی ہے۔ ایک سال سے انہوں نے بقول خود، کمر شکن پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ البتہ ان پابندیوں کو تینتیس سال ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے خود اپنی زبان سے کہا ہے کہ ان کا ہدف عوام الناس کو اسلامی نظام سے روگرداں اور الگ کرنا ہے لیکن انہوں نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ عوام باہر آئے اور اسلامی نظام کی حمایت کا اعلان عام کیا۔ کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر جاکر کسی بھی امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کرنا در حقیقت اسلامی نظام کی حمایت میں حق رائے دہی کا استعمال ہے۔ عوام نے اسے ثابت کر دیا۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ انتخابات ایک طمانچہ ہے۔ اب اس طمانچے کی متعدد اقسام ہیں۔ ایک طمانچہ بیدار اور متنبہ کرنے والا ہوتا ہے۔ ہمارا الیکشن اسی خصوصیت کا حامل طمانچہ ہے۔
دوسرا اہم نکتہ جس کا اشارتا ذکر ہوا، یہ ہے کہ انتخابات در حقیقت اسلامی نظام پر عوام کے بھرپور اعتماد کی علامت ہیں۔ سنہ دو ہزار نو کے ہنگامہ خیز انتخابات اور بعد میں رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے بعض لوگ یہ قیاس آرائیاں کر رہے تھے کہ نظام سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ لوگ اب پولنگ مراکز کا رخ بھی نہیں کریں گے۔ یہ الیکشن اس قسم کے غلط تصورات، غلط اندازوں اور غلط قیاس آرائیوں کا منہ توڑ جواب تھا۔ عوام نے ان قیاس آرائیوں پر خط بطلان کھینچ دیا۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اسلامی نظام کے وفادار ہیں، اس پر بھرپور اعتماد رکھتے ہیں، وہ نظام کی اس آواز پر لبیک کہتے ہیں، پولنگ کا اہتمام کیا گيا ہے، آپ آئیے اور ووٹ کاسٹ کیجئے اور اس طرح پروگرام کو منظم بنائیے۔ عوام اس آواز پر آگے بڑھتے ہیں، میدان عمل میں قدم رکھتے ہں۔ میں نے عرض کیا کہ بیلٹ باکس میں ڈالا جانے والا ہر ووٹ در حقیقت اسلامی نظام کے حق میں پڑنے والا ووٹ تھا۔ یہ واضح اکثریت جو میدان میں آئی جو ان تینتیس برسوں کے دوران انتخابات میں عوام کی شرکت کی بہت بڑی شرح تھی، تینتیس سال گزر جانے کے بعد بھی عوام اتنی بڑی اکثریت میں سامنے آتے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی نظام پر ان کا بھرپور اعتماد ہے۔
اس الیکشن میں ایک اور چیز جو بہت نمایاں طور پر نظر آئی، عوام کا فکری بلوغ اور گہری بصیرت تھی۔ عوام صائب تجزئے کے ساتھ پولنگ مراکز پر پہنچے اور حق رائے دہی کا استعمال کیا، ان کی اپنی خاص نظر تھی، خاص تجزیہ تھا۔ آپ نے دیکھا کہ وہ نوجوان بھی جو پہلی دفعہ ووٹ کاسٹ کرنے جا رہا ہے اور اسی طرح سن رسیدہ افراد، مرد عورتیں سب اس سوال کے جواب میں کہ آپ کس ہدف کے ساتھ ووٹ ڈالنے آئے ہیں، کوئی نہ کوئی تجزیہ پیش کر رہے تھے، مدلل وجہ بیان کر رہے تھے۔ صرف یہ نہیں کہ اب انتخابات ہو رہے ہیں تو چل کر ووٹ دے دیا جائے۔ ایسا نہیں تھا، وہ صراحت کے ساتھ بیان کر رہے تھے کہ کیوں ووٹ ڈالنے آئے ہیں۔ چونکہ ہمارا دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے، چونکہ بھوکے بھیڑئے کمین میں ہیں۔ انشاء اللہ کسی اور تقریر میں میں اس کی تشریح کروں گا کہ کس طرح وہ گھات لگائے بیٹھے تھے، نگل جانے اور پھاڑ کھانے کے لئے۔ اس خام خیالی میں تھے کہ یہ ایرانی عوام تو بکری کے میمنے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، انہیں پھاڑ کھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ قوم کسی شیر کی مانند ہے جس کے قریب کوئی پھٹک بھی نہیں سکتا۔ عوام نے دشمون کے اس محاذ کو، اس محاذ کی معاندانہ کارروائیوں کو، دشمن کی گہری سازشوں کو محسوس کر لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بصیرت کے ساتھ، صائب تجزئے کے ساتھ وہ میدان میں اترے۔ یہ بہت اہم چیز تھی۔
اس الیکشن کے تعلق سے ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ تشکیل پا رہی ہے اس کی ذمہ داریاں بہت سنگین ہیں۔ یہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ ہمارے صدور تو براہ راست عوام کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ کسی بھی سطح کا عہدیدار جب عوام کے ذریعے منتخب ہو تو انتخابات جتنے زیادہ اہم ہوں گے اس عہدیدار کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی زیادہ ہوں گی۔ ان حالات میں، دشمن کی اس ہنگامہ خیزی میں عوام کا میدان میں آنا بہت بڑی بات ہے۔ چنانچہ جو پارلیمنٹ تشکیل پائے گی اس کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہوں گی۔ پارلیمنٹ میں داخل ہونے والے برادران و خواہران عزیز کی خدمت میں جو منتخب ہو چکے ہیں یا دوسرے دور کے انتخابات میں منتخب ہونے والے ہیں، میں ابھی سے یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ وہ محسوس کریں کہ ان کے دوش پر کتنا بڑا فریضہ ہے۔ آئیں اور دانشمندی و تدبر سے کام لیتے ہوئے اپنے فرائض کو انجام دیں۔
ملک کی اہمیت کے لئے اچھے قوانین کی ضرورت ہے۔ ہمیں تمام امور میں گرہیں کھولنے والے قوانین کی ضرورت ہے۔ ارکان پارلیمنٹ حقائق پر نظر رکھیں، ضرورتوں کو محسوس کریں اور ضرورتوں کے مطابق ٹھیک وہی دوا اور علاج انتظامیہ کے سامنے پیش کریں جو اس درد اور شکایت کا ازالہ کر سکے۔ قانون مشکل کشا ہونا چاہئے۔ ایسا قانون جو راستے بند کر دے، جو کاموں کو مشکل بنا دے، جو سرے سے قابل عمل ہی نہ ہو، گوناگوں مشکلات کھڑی کر دے یا اس میں تضاد پایا جاتا ہو وہ عبث ہے۔ یہی کافی نہیں ہے کہ ہم بیٹھ کر ایک قانون تیار کر دیں۔ ہمارے ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ قانون گرہوں کو کھولنے والا ہو، مدبرانہ اور دانشمندانہ قانون ہو۔
حکومت کی تشکیل پارلیمانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کو بخوبی علم ہونا چاہئے کہ کس شخص کو، کس ضرورت کے تحت، کس مقصد کی تکمیل کے لئے، کن خصوصیات اور کیسے امتیازات کی بنا پر منتخب کیا گيا ہے۔ انہیں چاہئے کہ گہری نظر بھی رکھیں اور ساتھ ہی انصاف سے کام لیں۔ میں یہ ہرگز نہیں کہوں گا کہ باریک بینی سے کام لیں خواہ بعض اوقات اس باریک بینی اور ان موشگافی کی وجہ سے انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ ہی کیوں نہ جائے! بیشک بھرپور توجہ دیں لیکن انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے دانشمندی کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ عمل کریں۔ عمل کی صحیح بنیاد تو اخلاص ہی ہے۔ جناب مہدوی صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے کلام کی گہری تاثیر اور آپ کے ذریعے کھینچے گئے نقشے کا عملی جامہ پہن لینا در حقیقت آپ کے اخلاص کا نتیجہ تھا۔ واقعی حقیقت امر یہی ہے۔ وہ انتہائی با اخلاص انسان تھے، یہی نہیں آپ اخلاص عمل کی تصویر تھے۔ اگر ہمارے اندر بھی اخلاص ہو تو ہمارے کام بخوبی آگے بڑھیں گے۔ مقننہ اور عدلیہ کے حکام مذہبی اور سیاسی منصب پر فائز افراد، فوجی عہدیدار سب کے لئے یہ ضروری ہے کہ فریضے کا بخوبی ادراک کریں اور اپنے اس احساس فرض کے تحت کام انجام دیں، دیگر عوامل کو اس میں دخیل نہ ہونے دیں۔ البتہ یہاں میں اس نکتے کی جانب بھی اشارہ کرتا چلوں کہ انتخابی امور کے ذمہ داروں کی قدردانی ضروری ہے۔ جناب یزدی صاحب نے بھی فرمایا کہ شورائے نگبہان (نگراں کونسل) کا تشکر ضروری ہے۔ یہ بالکل صحیح بات ہے۔ جب آپ قریب سے کاموں اور سرگرمیوں کے اتنے بڑے حجم کو دیکھیں، کام کی سختیوں اور دشواریوں کو ملاحظہ کریں تو آپ کا دل ان افراد کی قدردانی پر خود ہی مجبور ہو جائے گا۔ میں نے جناب جنتی صاحب (شورائے نگہبان کے سربراہ) اور بعض دیگر احباب سے یہ عرض کیا کہ جب بھی مجھے آپ کے کام اور ذمہ داریوں کی یاد آتی ہے میں دل سے آپ کی قدردانی کرتا ہوں۔ بار بار آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدایا ان افراد کو قوت و طاقت عطا کر، ان کی، وزارت داخلہ کی اور سیکورٹی کے امور دیکھنے والے حکام کی توفیقات میں اضافہ فرما کہ انہوں نے انتخابات کے لئے سیکورٹی کے بہترین انتظامات کئے، اسی طرح تشہیراتی امور کے ذمہ داروں، قومی میڈیا اور ديگر افراد پر اپنی عنایتیں نازل فرما۔ انہوں نے واقعی بہت عظیم اور نمایاں کام کیا ہے۔ انہوں نے اتنے بڑے کام کو، اتنے بڑے، حیاتی اور اہم پروجیکٹ کو بہترین انداز میں انجام تک پہنچایا۔ یہ اسلامی جمہوریت کا بہترین نمونہ ہے۔ اسلامی جمہوریت میں بنیادی عنصر اور روح کا درجہ رکھنے والا عنصر اسلام ہے۔ اس سے ذرہ برابر بھی انحراف نہیں ہونا چاہئے۔ اب تک انحراف نہیں ہوا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ ہرگز نہیں ہوگا۔ قانون سازی میں، افراد کے انتخاب میں ہمارا معیار اسلام ہے۔ کام کی روش، کام کی ظاہری صورت، انتظامی روش جمہوری ہے، یعنی عوام خود میدان میں اتر کل عمل انجام دیتے ہیں اور پورے وجود سے اسلام کے شیدائی اور وفادار ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کی ظاہری وضع قطع سے کسی کو یہ غلطف فہمی ہو جائے کہ یہ لوگ اسلامی نظام کے پابند نہیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ پوری طرح وفادار ہیں۔ اسلام کے عاشق ہیں۔
ان تیتتیس برسوں کے تجربے سے ثابت ہو چکا ہے کہ اسلام کسی بھی ملک کو وقار عطا کر سکتا ہے، کسی بھی قوم کو سربلند بنانے پر قادر ہے، بہترین اہداف کا خاکہ کھینچ سکتا ہے اور ان اہداف تک رسائی کے راستوں کو متعین اور ہموار و سازگار بنا سکتا ہے۔ علمی تحریک شروع کر سکتا ہے، صنعتی و تکنیکی انقلاب لا سکتا ہے، تقوی و اخلاقیات کا ماحول قائم کر سکتا ہے، دوسری قوموں کی نگاہ میں معزز و قابل احترام بنا سکتا ہے، یہ سب کچھ ہمارے ملک میں انجام پا چکا ہے، یہ بہت عظیم کام ہیں جو اس ملک میں اسلام کی برکت سے انجام پائے ہیں۔ اسلام بدستور ہمارے نظام کی پیشرفت کے عمل کا سب سے بنیادی عنصر ہے اور ہمارے نظام کا پیرایا جمہوری ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ یہ جمہوریت بھی اسلام سے ہی ماخوذ ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ہم نے جمہوریت کا درس مغرب سے سیکھا ہے۔ ظاہری شکل تو یکساں ہے لیکن ہماری جمہوریت کی جڑیں ایک الگ آئيڈیالوجی اور مختلف دینی معرفت کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ ہم انسانوں کے وقار اور کرامت کے قائل ہیں، ان کی مرضی و منشاء کا احترام کرتے ہیں، ان کے تعاون اور شراکت کو اہداف الہی کو جامہ عمل پہنانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جس کے بغیر کبھی بھی یہ اہداف عملی جامہ نہیں پہن سکتے۔ اہل مغرب کا طرز عمل اس سے مختلف ہے۔ ہمارے ضوابط کچھ ہیں اور ان کے ضوابط کچھ اور ہیں۔ ان کے ضوابط ظالمانہ ہیں۔ کسی ملک میں اگر کوئی ہولوکاسٹ کے افسانے پر اعتراض کرتا ہے تو وہ ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں، اسے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتے ہیں، اسے سزا دیتے ہیں کہ اس نے ایک تخیلاتی تاریخی واقعے کے انکار کی جرئت کیسے کی؟ چلئے فرض کر لیتے ہیں کہ یہ محض تخیلاتی واقعہ نہیں ہے، حقیقت رکھتا ہے، تب بھی کسی تاریخی واقعے کا انکار کیا جرم ہے؟ کسی شخص کی نگاہ میں اگر یہ واقعہ حقیقت ثابت نہ ہوا اور اس نے اس کا انکار یا اس میں شک کر لیا تو اسے جیل میں ڈال دیا جائے! آج یورپ کے بڑے مہذب کہے جانے والے ممالک میں صورت حال یہی ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے، اس میں شک کرنے کی غلطی کر بیٹھے، اسے صحیح نہ مانے تو عدالتیں اسے سزا دیتی ہیں۔ لیکن جب پوری تاریخ کے عظیم ترین انسان، پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے، ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کی جاتی ہے تو اسے کوئی منع کرنے والا نہیں، اس گستاخ شخص پر کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ آپ غور کیجئے! یہ کتنے غلط اور گھٹیا اصول ہیں۔ ان کے ضوابط کا یہ عالم ہے۔ اگر کوئي ان کے ملک میں حجاب میں رہنا چاہے، یونیورسٹی میں یا دفتر میں، تو اس نے گویا بہت بڑے جرم کا ارتکاب کر لیا! یہ ان کے ضوابط ہیں! البتہ غلط اور ٹیڑھے ضوابط! فطرت انسانی کے برخلاف ضوابط! فہم و ادراک انسانی کے برعکس اصول! ہمارے ضوابط الہی ضوابط ہیں۔ ہم فسق و فجور اور فحاشی کے مخالف ہیں، ہم انسانی انحرافات کی تمام اقسام کے مخالف ہیں۔ ان انحرافات کے مخالف ہیں جو ہمارے دین اور ہماری شریعت کی تعلیمات کے منافی ہیں۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ان انحرافات کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ زندگی کا طریقہ اسلام و قرآن و الہام و وحی الہی سے سیکھنا چاہئے۔ یہ ہمارے ضوابط ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں اسلامی جمہوریت۔ یہی ہے ہمارا نمونہ عمل۔
مسلمان اقوام کو اگر دلچسپی ہے تو وہ بھی جان لیں کہ اسلامی جمہوریہ کا پیغام کیا ہے؟ ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہم اسلام سے صرف نظر نہیں کر سکتے، احکامات الہیہ کو، ضوابط شرعیہ کو اسلامی شریعت کے اصولوں کو ہم زندگی کے ہر شعبے میں واجب العمل جانتے ہیں اور اسی منزل تک خود کو پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے ہماری روش اور ہمارے عمل کا قالب اور ظاہری شکل دینی جمہوریت کی شکل ہے۔ اس میں عوام کا انتخاب ضروری ہے۔ وہ قانون ساز جو ان ضوابط کی بنیاد پر قانون سازی کرنے جا رہا ہے اس کا انتخاب عوام الناس کے ذریعے عمل میں آنا چاہئے۔ قانون نافذ کرنے والے عہدیدار کا انتخاب عوام کے ہاتھوں انجام پانا چاہئے۔ سب کچھ عوام کے انتخاب سے، عوام کی شراکت سے اور عوام کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام دیا جانا چاہئے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں اس راہ حق پر گامزن رہنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ ہمیں انحرافات سے محفوظ رکھے تا کہ ہم ان اعلی اہدف تک خود کو پہنچا سکیں اور حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی دعاؤں کے مستحق قرار پائیں۔

و السّلام عليكم و رحمةاللّه‌ و بركاته‌