7 تیر سنہ 1391 ہجری شمسی مطابق 27 جون سنہ 2012 عیسوی کو اپنے اس خطاب میں آپ نے فرمایا کہ حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ تینوں، اسلام، ملت ایران اور ملکی خود مختاری و تشخص کے دفاع کے محاذ میں ایک ساتھ کھڑے ہیں اور استکباری طاقتوں کی سازشوں کا مقابلہ کر رہے ہیں لہذا انہیں چاہئے کہ فروعی اور اختلافی مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں۔
مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے روضہ اقدس کے ایک ہال میں عدلیہ کے سربراہ، اعلی عہدیداروں اور محترم جج حضرات سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی تعلیمات کے تناظر میں عدالتی انصاف قائم کرنے کے لئے عدلیہ کے معیار کے ارتقاء کو گوناگوں مشکلات و مسائل کا حل قرار دیا اور فرمایا کہ ملک میں موجود صلاحیتوں کے پیش نظر جدت عملی اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے سلسلے میں پیش قدمی کے ذریعے عدلیہ کے ارتقاء کے ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
عدلیہ کے سربراہ آيت اللہ شہید بہشتی اور اسلامی انقلاب کے دیگر بہتر وفادار خدمت گزاروں کی اٹھائيس جون سنہ انیس سو اکاسی عیسوی کو دہشت گردانہ حملے میں شہادت کی برسی کی مناسبت سے عدلیہ کے حکام سے ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عدلیہ کے معیار کے ارتقاء کے لئے جامع، کامل اور ہمہ جہتی منصوبہ انتہائی باریک بینی کے ساتھ تیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ عدلیہ کے ارتقاء کے سلسلے میں انتہائی بنیادی حیثیت کا حامل عمل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے لوگوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کو اہم اور ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس مشکل کا بڑا حصہ اخبارات اور ویب سائٹوں کی جانب سے کئے جانے والے پروپیگنڈوں سے متعلق ہے تاہم عدلیہ کے لئے ضروری ہے کہ اس پروپیگنڈے اور ماحول سازی سے ذرہ برابر بھی متاثر نہ ہو۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں تینوں شعبوں کے باہمی تعاون کو وطن عزیز کی موجودہ اہم ترین احتیاج سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ اس وقت دنیا کی استبدادی طاقتیں اسلامی جمہوری نطام اور اس کی عظیم پیش قدمی کے عمل کو جو پورے عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل بن گيا ہے، مسخ کرنے لئے کوشاں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلامی میں پھیلی بیداری کی لہر اور اسلامی امنگوں کی جانب عوام الناس کی روز افزوں رغبت کو اسلامی جمہوریہ ایران کی تحریک کا وسعت پذیر نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی نظام کی ہر علمی پیشرفت اور کامیابی، عوام کے عظیم اجتماعی اقدامات جیسے پرجوش انتخابات، اسی طرح استکبار کے مقابل اسلامی جمہوریہ کی پائیداری و استقامت یہ سب قوموں کے لئے اسلام کے پرچم تلے خود مختاری کے حصول کی ترغیب دلانے والے اقدامات ہیں، یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتیں ایرانی قوم کے خلاف اپنی تمام تر توانائياں صرف کر رہی ہیں کہ کسی صورت سے یہ محوری عنصر اپنی رونق کھو دے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کے محاصرے کے لئے امریکیوں کی جانب سے جاری ہمہ جہتی کوششوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ آج وہ خود کٹھن حالات اور لا ینحل اقتصادی مشکلات کے حصار میں پھنس گئے ہیں جبکہ ایران لطف خداوندی سے اپنی ضرورت کے تمام وسائل سے بہرہ مند ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی خوبیوں کو گنواتے ہوئے وسیع داخلی وسائل و ثروت، بہترین عوام، ماہر افرادی قوت اور غیر ملکی قرضوں سے نجات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس وقت دشمن اپنی پوری طاقت استعمال کر رہا ہے کہ کسی صورت سے ایران کی ان خصوصیات کو ختم کر دے لیکن دوسری جانب ملک کے حکام پوری جانفشانی کے ساتھ دشمن کی اس سازش کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ان حالات میں تمام اداروں خاص طور پر مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کا باہمی تعاون ایک حتمی فریضہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ان تینوں شعبوں اور دیگر اداروں کی ایک دوسرے سے کسی بھی طرح کی لا تعلقی وطن عزیز کے نقصان میں ہے بنابریں سب کو چاہئے کہ آپس میں متحد رہیں اور امداد باہمی کے سلسلے کو فروغ دیں۔
خطاب کا اردو ترجمہ قارئین کے لئے پیش خدمت ہے؛
بسم ‌اللّه ‌الرّحمن ‌الرّحيم

ہفتہ عدلیہ اور یہ سالانہ ملاقات ہمارے لئے موقعہ غنیمت ہے کہ اپنے عزیز اور جلیل القدر شہید جناب شہید بہشتی اور سات تیر مطابق اٹھائیس جون کے دیگر شہیدوں کو کہ ہماری عدلیہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے اپنی سالگرہ کو ایک ایسی بامعنی اور پرمغز مناسبت سے متصل کیا ہے، خراج عقیدت پیش کریں، اظہار تشکر کریں، قدردانی کریں اور عدلیہ کے شعبے میں سرگرم خدمت عزیزوں، محترم جج حضرات، دیگر اہلکاروں، اعلی عہدیداروں اور خود عدلیہ کے سربراہ جناب آملی صاحب کی مربوط مساعی اور مخلصانہ کاوشوں کو سراہیں جو بحمد اللہ فکر و علم و جذبہ عمل و جدت پسندی اور دیگر متعدد خصوصیات کے اعتبار سے اعلی عہدیداروں کے درمیان بہت نمایاں ہیں۔ ہم اپنے عزیز شہیدوں کو یاد کرتے ہیں اور بالخصوص جلیل القدر شہید بہشتی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہ واقعی بڑی عظیم اور صاحب کمال شخصیت تھی۔ عدلیہ کی سربراہی کے اس محدود وقت میں ہی انہوں نے بڑی عظیم بنیادیں قائم کر دیں اور یہ کارنامے اس عظیم ہستی سے ہمیشہ جڑے رہیں گے۔ یہ ہمارے لئے درس بھی ہے کہ محنت اور خلاقیت کے ذریعے کم سے کم وقت کو بھی عظیم اور پائیدار امور کی انجام دہی کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کریں۔ عدلیہ کے سربراہ کی ہی مانند میں بھی اس شعبے کے تمام اہلکاروں، اعلی عہدیداروں، متوسط درجے کے افسروں، پاکدامن و با شرف محترم جج حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور یہ دعا کرتا ہوں کہ آپ کی ان محنتوں اور بلند ہمتی کے نتیجے میں ملک کا وہ اساسی اور کلیدی مقصد یعنی پورے ملک میں عدالتی انصاف کا قیام جامہ عمل پہنے۔
اگر ہم ملک میں قضاوت کے تعلق سے اپنی تمام آرزوؤں کو ایک جملے میں بیان کرنا چاہیں تو خلاصے کے طور پر ہم عدلیہ کے ارتقاء پر تاکید کریں گے۔ ہمیں عدلیہ کو دائمی طور پر ارتقائی عمل میں رکھنا چاہئے۔ یہ تمام مسرت بخش رپورٹیں، خواہ آج پیش کی جانے والی رپورٹ ہو یا دیگر تحریری اور زبانی طور پر ہم تک پہنچنے والی رپورٹیں ہوں، سب اپنی جگہ قابل قدردانی و ستائش ہیں۔ تاہم اصلی ہدف عدلیہ کا ارتقاء ہے، ملک کے اندر عدلیہ کا انصاف بھرپور انداز میں عام ہو۔ یہ تمام مقدمات اس لئے ہیں کہ ملک کے اندر عدالتی انصاف قائم ہو۔ اگر عدالتی انصاف قائم ہو گیا تو بدعنوانیوں کا خاتمہ ہو جائے گا، معاشرے کے حساس اور اہم مراکز بدعنوان افراد کی دست برد سے بالاتر ہو جائيں گے۔ لیاقت مند اور باصلاحیت افراد اپنے شایان شان مراکز میں خدمت کا موقعہ حاصل کر لیں گے۔ یہ سب عدلیہ کے تکامل اور ارتقاء پر منحصر ہے۔ واقعی اگر اسلامی نظام اپنی عدلیہ کو اس انداز سے منظم کر لے جائے اور اس طرح سے سنوارے جس کا ذکر ہمارے دینی مآخذ اور فقہی کتب میں ہے اور جو اسلام کے مد نظر ہے تو ہمارے معاشرے اور ایسا کرنے والے ہر معاشرے کی بیشتر مشکلات کا حل نکل آئے گا۔ جو مسائل اور مشکلات خودغرضی کے باعث، زیادتی کے باعث، توسیع پسندی کے باعث اور جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں وہ برطرف ہو جائیں گی۔ بنابریں بنیادی ہدف عدلیہ کا ارتقاء ہونا چاہئے۔ ہم جب تک معینہ ہدف اور مطلوبہ منزل تک نہ پہنچ جائیں اس وقت تک مطمئن ہرگز نہ ہوں۔ ہمیں منزل پر پہنچنا ہے۔ میری نظر میں یہ راستہ طولانی ضرور ہے لیکن منزل تک رسائی ہمارے امکان میں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم خود کو اور دوسروں کو ناممکن آرزو اور تمنا کی دعوت دے رہے ہیں۔ نہیں، اس منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ آپ کے اندر یہ صلاحیت ہے۔ ملک کے اندر یہ صلاحیت و استعداد موجود ہے۔ ہمیں جدت عملی کے ذریعے، متزلزل نہ ہونے والے جذبے کے ذریعے، قابل افراد، شخصیات اور وسائل کو بروئے کار لاکر اس رہ گزر کو طے کرنا چاہئے۔
اقدامات اور مساعی کے اس مجموعے کے کچھ ذیلی مجموعے بھی ہیں جن میں بیشتر کا ذکر عدلیہ کے محترم سربراہ نے کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہے کہ ان لازمی نکات پر توجہ دی جا رہی ہے اور کوششیں بھی انجام دی گئی ہیں۔ جیسا کہ اس رپورٹ سے واضح تھا۔ بہت مناسب ہوگا کہ یہ رپورٹ اور اس جیسی دیگر رپورٹیں عوام کے سامنے آئیں اور لوگوں کو علم ہو کہ یہ سارے اقدامات رو بہ عمل آ رہے ہیں۔ تاہم میں دو تین نکات پر خاص طور تاکید کروں گا۔
ایک اہم مسئلہ جامع منصوبے کا ہے جس کا ذکر جناب (عدلیہ کے سربراہ) آملی صاحب نے کیا۔ اگر عدلیہ کے پاس اپنے ارتقائی عمل اور مطلوبہ منزل و مقام تک رسائی کے لئے باریک بینی سے تیار کیا گیا جامع اور کامل منصوبہ نہ ہوگا تو اس سفر کا طے ہو پانا یا تو ناممکن ہو جائے گا یا پھر بہت سے تضادات اور گوناگوں دشواریوں سے دوچار ہو جائے گا۔ بنابریں جامع منصوبے کا ہونا ضروری ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ عدلیہ کے محترم سربراہ نے یہ فریضہ اپنے دوش پر لیتے وقت شروع میں ہی اس کا اعلان کر دیا تھا۔ آپ نے جو تازہ رپورٹ مجھے دی ہے اس میں ذکر فرمایا ہے کہ پانچ سالہ لائحہ عمل کا ابلاغ انجام پا چکا ہے تاہم آج کی تقریر میں ہم نے سنا کہ اس کا ابلاغ عمل میں آنے والا ہے۔ اس میں تاخیر نہیں ہونا چاہئے۔ بہت کلیدی کام ہے۔ جامع منصوبہ بہت بنیادی قدم ہے۔
اساسی نکتہ یہ ہے کہ جامع منصوبے کی تدوین ایک مسئلہ ہے اور اس منصوبے کو رو بہ عمل لانے کے لئے راستوں کو ہموار کیا جانا دوسرا مسئلہ ہے۔ منصوبہ تیار ہوکر ابلاغ کے مرحلے سے گزر گیا تو ہمیں اسی پر آسودہ خاطر اور مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے۔ ہم یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ یہ عظیم کارنامہ سرانجام پا گیا۔ نہیں، جامع منصوبہ طبیب کے نسخے کی مانند ہے۔ اس نسخے کا لکھا جانا اور اس کی تمام جزوی باتوں اور پھر دوا کے استعمال پر توجہ ضروری ہے۔ مختلف شعبوں میں بھرپور نظارت ہو تا کہ یہ جامع منصوبہ عملی شکل اختیار کرے اور رو بہ عمل آئے۔
میری نظر میں جامع منصوبہ اور اس کے اندر مذکور تمام باتوں جن میں کچھ کا ذکر میں کروں گا ان سب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہے کہ سرعت عمل کا مظاہرہ ہو۔ عجلت پسندی کا مشورہ دینا مقصود نہیں ہے، تیز رفتاری عجلت پسندی سے مختلف چیز ہے۔ کام باریک بینی اور تحمل کے ساتھ لیکن بغیر کسی تاخیر کے انجام پانا چاہئے۔ یعنی عدم التواء کو ہمیں اپنے کاموں کے لئے بنیادی اصول کے طور پر مد نظر رکھنا ہوگا۔ تاخیر ہرگز نہ ہونے پائے۔ اسلامی اخلاقیات کی رائج اصطلاحات میں جسے تسویف یعنی آگے چل کر انجام دے لیں گے کہا جاتا ہے، یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ عمل انجام دیا جانا چاہئے۔ جب ہم تحقیق اور تشخیص کے مرحلے سے گزر گئے تو پھر فورا عمل آوری کا سلسلہ شروع ہو جانا چاہئے، اس میں کوئی تاخیر اور التواء نہیں ہونا چاہئے۔
ایک اور اہم نکتہ میں عدلیہ کے ارتقاء کے ذیل میں عرض کروں گا البتہ پہلے بھی بارہا اس پر تاکید کر چکا ہوں لیکن چونکہ یہ بہت اہم ہے لہذا اس کا اعادہ کر رہا ہوں۔ یہ فیصلوں کے محکم ہونے اور ان کی درستگی کا مسئلہ ہے۔ عدالتوں کا فیصلہ ہر قسم کی تساہلی اور غفلت سے پاک ہونا چاہئے۔ آپ محترم جج کی حیثیت سے جو فیصلہ صادر کریں وہ ایسا ہو کہ اگر اسے قانونی اور فقہی امور کے ماہرین کے سامنے رکھا جائے تو آپ کو ذرہ برابر تشویش اور خلش نہ ہو۔ آپ اپنے فیصلے پر پوری طرح مطمئن رہیں۔ جج اگر ضروری صلاحیت اور مہارت رکھتا ہے اور اپنے کام اور فیصلے کے تعلق سے پوری طور چوکسی اور احتیاط برتتا ہے تو اس کا صادر کیا ہوا فیصلہ ایسا ہوگا کہ وہ اسی وقت اس فیصلے کے تمام ماہرین کے سامنے پیش کرنے اور اس کا دفاع انجام دینے کے لئے آمادہ نظر آئے گا۔ فیصلے کی درستگی ایسی ہونی چاہئے۔ فیصلے میں کسی طرح کی کوئی غفلت اور تساہلی عدلیہ کی پوری عمارت کو نقصان پہنچائے گی۔ ایک دفعہ میں عرض کر چکا ہوں کہ نچلی عدالتوں کے فیصلوں کا اعلی عدالتوں یا سپریم کورٹ میں پہنچ کر بار بار تبدیل ہونا اس بات کی علامت ہے کہ نچلی عدالت کے فیصلے میں مندرجات یا پیرائے کے لحاظ سے کوئی خامی رہ گئی ہے اور تمام ضوابط اور قوانین کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ لہذا عدلیہ کے پورے محکمے میں اس بات پر توجہ دی جائے اور سنجیدگی سے عمل کیا جائے کہ فیصلے پورے استحکام اور درستگی کے ساتھ صادر ہوں۔
عدلیہ کے سلسلے میں ایک اور اہم مسئلہ جیلوں کا ہے۔ جیل جانا ایک سزا ہے۔ انسان کو محبوس کر دینا، محصور کر دینا ایسی سزا ہے جسے ہمارے تعزیراتی قوانین میں رکھا گیا ہے۔ اسلامی فقہ میں بھی بعض مقامات پر اس کا ذکر ہے، اس میں کوئی اعتراض اور اشکال کی بات نہیں ہے۔ تا ہم ہماری کوشش یہ ہونا چاہئے کہ ایک تو یہ سزا جو افراد کو تادیبی کارروائی کے طور پر دی جاتی ہے ایسے افراد کو ہرگز نہ دی جائے جو سزا کے مستحق نہ ہوں۔ البتہ قانون میں ایسے حالات کا ذکر ہے کہ کسی شخص پر فرد جرم عائد ہو جانے کے بعد بعض وجوہات کی بنا پر اسے وقتی حراست میں رکھا جاتا ہے۔ تاہم اس حراست کے وقتی ہونے اور متعلقہ قانون کا جو اصلی نصب العین ہے اس کی بھرپور پابندی ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ جناب پانچ مہینہ اور چھے مہینہ بھی وقتی حراست ہو سکتی ہے اور دس سال کی مدت بھی ایک طرح سے وقتی حراست کہی جا سکتی ہے جبکہ جس قانون نے حراست کے وقتی ہونے کی بات کی ہے وہ حراست کی مدت محدود ہونے پر تاکید کرتا ہے۔ یعنی چونکہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے اور اس الزام کے باعث، مخصوص وجوہات کی بنا پر اس شخص کو جرم ثابت ہونے سے قبل ہی حراست میں رکھا جائے تاہم کوتاہ ترین مدت کے لئے اور عدلیہ کی جانب سے معین شدہ تمام شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ اس نکتے پر پوری توجہ دی جانا چاہئے۔
جو مالی تنازعات ہیں، ایسے مالی تنازعات جن میں عسرت و تنگدستی کا مسئلہ در پیش ہے۔ دوستوں سے ہماری یہ بحث ہے کہ تنگدستی ثابت ہو جائے تب سزا سے معاف کیا جائے یا نہیں؟ کیونکہ تنگدستی ثابت ہونے کے اپنے کچھ مسائل و مشکلات ہیں۔ ایسے معاملات میں جن میں واقعی جرم انجام نہیں پایا ہے ہمیں جیل کی سزا کا سہارا نہیں لینا چاہئے۔ عدلیہ کی سطح پر آپ اس انداز سے کام کیجئے کہ جیل کی سزا سے کم سے کم تر ہو جائے۔ اس کے لئے حکیمانہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ کچھ تدابیر اختیار تو کی گئی ہیں جن میں بعض درست ہیں اور بعض درست نہیں ہیں، ان کی تفصیلات میں نہیں جانا ہے۔ تاہم جیل مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایک ناپسندیدہ چیز ہے، جیل کی مشکلات، جیل جانے کے عواقب، وہ عواقب جو قیدی کو در پیش ہوتے ہیں اور وہ عواقب جو قیدی کے اہل خانہ کو پیش آتے ہیں، وہ منفی نتائج جو اس کی ملازمت کی جگہ اور دفتر میں پیش آتے ہیں۔ (ناپسندیدہ باتیں ہیں)۔ بنابریں عدلیہ کی پالیسی آپ یہ رکھئے اور اس کے لئے غور و فکر کیجئے، اس پر کام کیجئے، اس کے لئے راہ حل تلاش کیجئے کہ جیل کا مسئلہ حل ہو جائے۔ جیل جانا دیگر عواقب اور منفی نتائج کا باعث نہ بنے اور دوسری بات یہ کہ جہاں تک ممکن ہو جیل کی سزا میں کمی آئے، کوئی اور سزا دی جائے تا کہ جیل کی سزا کے عواقب معاشرے کے دامنگیر نہ ہوں۔
اسی طرح ایک مسئلہ جو عدلیہ کے تعلق سے بہت اہم ہے، البتہ یہاں میرا خطاب عدلیہ نہیں بلکہ میڈیا اور تشہیراتی ادارو‎ سے ہے کہ یہ اہم مسئلہ افراد کی عزت و آبرو کا مسئلہ ہے۔ آپ افراد کی عزت و آبرو کی حفاظت کے سلسلے میں بہت محتاط رہئے۔ شریعت اسلامیہ نے مومن کی عزت کو اس کی جان کے مساوی قرار دیا ہے۔ عدلیہ اور اس کے مختلف شعبے میڈیا کی ماحول سازی سے ہرگز متاثر نہ ہوں۔ میڈیا واقعی اس سلسلے میں بہت سے قابل گرفت کام انجام دے رہا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب ویب سائٹیں فعال ہو چکی ہیں تو متعدد مشکلات پیدا ہو گئی ہیں، یعنی بہت سے ایسے امور جن کا لحاظ کرنا لازمی ہے ملحوظ نہیں رکھے جاتے۔ واقعی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہ ہماری زندگی کی خامیاں ہیں، ہماری کارکردگی کے نقائص ہیں۔ اس کا اپنا ایک علاج اور راہ حل ہے، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں افواہیں پھیلانے کی جو مشکل ہے وہ ایک الگ چیز ہے اور اس کا علاج مختلف ہے۔ تا ہم عدلیہ کو اس کے زیر اثر ہرگز نہیں آنا چاہئے۔ آگر تمام اخبارات نے، تمام ویب سائٹوں نے جو ماحول سازی کرتی ہیں، ذہن سازی کرتی ہیں، کسی معاملے کو کسی مخصوص سمت میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے تو عدلیہ اور متعلقہ عدالت کو جو اس معاملے کی تحقیقات انجام دے رہی ہیں ہرگز اس کے زیر اثر نہیں آنا چاہئے۔ یہ بہت کلیدی نکتہ ہے۔ جرم ثابت ہونے سے قبل ملزم کے نام کی تشہیر یا اگر نام نہیں لیا ہے تو بھی اس انداز سے مسئلے کو بیان کیا جا رہا ہے کہ نام لے لینے کے مساوی ہے، یہ سب قابل اعتراض اقدامات ہیں۔ ان سے ملکی عدلیہ کے ارتقائی عمل کو یقینا نقصان پہنچے گا۔ تو یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ دی جانا چاہئے۔
عدلیہ کے تعلق سے ایک اور اہم مسئلہ بھی ہے ویسے میں نے محسوس کیا کہ عدلیہ کے محترم سربراہ کی اس پر توجہ ہے تاہم اس پر مزید سنجیدگی اور توجہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ ہے عدلیہ کے اعلی عہدوں خاص طور پر انتظامی منصبوں کے لئے کیڈر کی تشکیل۔ یہ عدلیہ کے لئے بہت ضروری ہے۔ دینی علوم کے مراکز اور یونیورسٹیوں کی مدد لی جائے۔ با صلاحیت اور ممتاز شخصیات کی کمی نہیں ہے، معاشرے میں قابلیت کی کمی نہیں ہے۔ یہ بھی بنیادی نکتہ ہے جس پر توجہ دی جانی چاہئے۔ اس کے لئے کام ہو، سرمایہ کاری ہو اور منصوبہ بندی ہو۔
ایک اور نکتہ جو میری نظر میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے، اگرچہ عدلیہ کی کارکردگی سے مربوط نہیں لیکن محکمے کی مجموعی روش اور اس کی حرکت کی سمت سے یقینا جڑا ہوا ہے، شعبوں (مجریہ، مقننہ اور عدلیہ) کا باہمی تعاون ہے۔ آج ملک کو اس کی شدید احتیاج ہے۔
میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج دنیا کی استبدادی طاقتیں اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ اگر اپنی تمام تر توانائیوں کو وہ بروئے کار لائیں تو شاید اسلامی جمہوریہ ایران پر کوئی خراش ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں۔ یعنی شیطان اپنی پوری توانائی اس تحریک کو کچلنے کے لئے استعمال کر رہا ہے جو اسلامی جہوریہ کے وجود سے، اسلامی جمہوریہ کی بقاء اور اس کی پے در پے پیشرفت سے دنیا میں شروع ہو چکی ہے۔ شیطانی قوتیں اس کا اعتراف تو نہیں کرتیں لیکن انہیں بخوبی اس کا اندازہ ہے۔ عالم اسلام میں بیداری کی یہ جو لہر پھیلی ہے، اسلامی امنگوں اور اسلامی اہداف کے تعلق سے عوامی صفوں میں جو شوق و ذوق اور جوش و جذبہ متلاطم ہے، ان طاقتوں کو خوب معلوم ہے کہ یہ عالم اسلام کی رائے عامہ کے دلوں میں موجود اسلامی جمہوریہ کی پرکشش تصویر کی جھلک ہے۔ آپ جو بھی اہم علمی کام انجام دیتے ہیں، آپ جو بھی سیاسی یا سماجی کامیابی حاصل کرتے ہیں، ملک کے اندر جو بھی اہم سماجی خدمات انجام دیتے ہیں جیسے پرشکوہ انتخابات کا انعقاد، استکبار کی توسیع پسندی کے خلاف اسلامی جمہوریہ کی استقامت و پائیداری کا ہر قدم جو عالم اسلام کی سطح پر منعکس ہو، یہ تمام امور ان تمام اقوام کے لئے ایک نوید کا درجہ رکھتے ہیں جو اسلام کے زیر سایہ خود مختاری و آزادی حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ملت ایران نے اسلام کو قوموں کی پیشرفت کے پرچم کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ دشمنوں کو اس کا علم ہے۔ لہذا وہ اس اصلی مرکز کو ہی مسمار کر دینے کے در پے ہیں۔ مختلف معاملات میں آپ یہ جو ہنگامہ خیزی دیکھ رہے ہیں، انسانی حقوق کے مسئلے میں، ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں، اسی طرح دیگر قضیئوں میں یہ سب اسی مخاصمت کا حصہ ہے۔ وہ خود کو عالمی برادری قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ عالمی برادری نہیں ہے۔ یہ تو چند تسلط پسند طاقتیں ہیں۔ یہ بس امریکا ہے اور دنیا کے گوشہ و کنار میں واقع اس کی فرمانبردار چند حکومتیں۔
اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مقدس اسلامی جمہوری نظام کو عوامی حمایت سے محروم کر دیں، اس عظیم پشت پناہی سے محروم کر دیں۔ یہ پابندیاں اور دیگر سرگرمیاں جو آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں ان کا اصلی ہدف یہی ہے۔ ان کا یہ دعوی بالکل جھوٹا ہے کہ پابندیوں کا نشانہ عوام الناس نہیں ہیں، ہم عوام الناس کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ ان کے دیگر دعوؤں کی مانند یہ بھی ان کا جھوٹ، نیرنگ اور فریب ہے۔ ان کا اصلی نشانہ عوام ہی ہیں۔ دباؤ اور سختیاں اس لئے ہیں کہ عوام الناس کو دشواریوں میں ڈال دیں، انہیں تھکا ماریں تا کہ عوام اسلامی جمہوری نظام سے کنارہ کش ہو جائیں۔ اسلامی نظام سے ان کا قلبی رشتہ ٹوٹ جائے۔ انشاء اللہ بفضل پروردگار انہیں اس محاذ پر بھی شکست و ہزیمت کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ ہماری قوم کو نہیں پہچانتے، ہمارے حکام کو نہیں جانتے۔ دشمن کا یہ مکر و فریب ہمارے عوام کے سامنے کھل چکا ہے، عوام بخوبی واقف ہیں کہ ان کے صبر و تحمل کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مختلف میدانوں میں عوام کی شراکت اور پائیداری پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ حکام بھی اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔ ہمارے حکام واقعی دشمن کی ریشہ دوانیوں کے جواب میں بڑی جانفشانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
آج امریکا نے اپنی تمام تر توانائیاں اسلامی جمہوریہ ایران کا، بخیال خویش، اقتصادی محاصرہ کرنے پر مرکوز کر رکھی ہیں۔ لیکن در حقیقت وہ خود محصور ہوکر رہ گیا ہے، خود مشکلات میں الجھ کر رہ گيا ہے۔ آج امریکا اور یورپ بڑی بنیادی اور لا ینحل مشکلات کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، یہ بحران اور یہ مشکلات ان کا پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہیں۔ ان کے حالات ہمارے حالات سے مختلف ہیں۔ بحمد اللہ ہمارے پاس ضرورت کے تمام وسائل موجود ہیں۔ ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ داخلی دولت ہے، بہترین اور قابل فخر قوم ہے، مالیاتی ذخائر ہیں، افرادی قوت ہے، عالمی قرضہ نہیں ہے۔ ملک میں دستیاب وسائل بہترین وسائل ہیں۔ دشمن ہمیں پریشان اور تنگ کرنے کی جو کوششیں کر رہا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے ان وسائل و امکانات میں کمی لائے۔ جبکہ ہمارے حکام کی ساری کوشش یہ ہے کہ دشمن کی سازش نقش بر آب ہو جائے، انشاء اللہ ہمارے حکام کو کامیابی ملے گی، وہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ان حالات میں ہمارے ملک کے لئے جو چیز لازمی اور حتمی فریضہ شمار ہوتی ہے یہ ہے کہ ملک کے تمام ذمہ دار ادارے دشمن کی اس یکسوئی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کریں، ان اداروں کو چاہئے کہ حقانیت کے نقطے پر اپنی توجہات مرکوز کریں۔ مختلف فورسز کا ایک دوسرے سے دور اور لا تعلق ہونا، مجریہ، عدلیہ اور مقننہ کا ایک دوسرے سے بیزار ہو جانا ملک کے نقصان میں ہے، نظام کے نقصان میں ہے۔ سب باہمی امداد اور آپسی تعاون کو ترجیح دیں۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ سب ایک محاذ میں اور ایک صف میں کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اسلام کے دفاع کا محاذ ہے، پروقار اور باشرف ملت ایران کے دفاع کا محاذ ہے، ملکی خود مختاری کے دفاع کا محاذ ہے، انقلاب کے تشخص کی پاسداری کا محاذ ہے جس نے ہماری قوم اور ہمارے عوام کو تشخص عطا کیا ہے، یہی نہیں پوری امت اسلامیہ کو تشخص عطا کیا۔ اس وقت ہمارے اہم ترین اہداف یہی ہیں۔ ان کے لئے تعاون کی ضرورت ہے۔
ایک دوسرے کی کارکردگی کے بارے میں جو چہ میگوئیاں ہوتی ہیں انہیں باہمی تعاون کے صفحے سے مٹایا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی اصولی اور بنیادی تنازعہ ہو، اکثر توہماتی باتیں ہیں۔ آپ عدلیہ کے ارکان کی حیثیت سے اپنے فریضے پر عمل کریں۔
اگر ملک کے مختلف شعبے ایک دوسرے کی کارکردگی کے تجسس میں رہیں اور یہ فیصلہ کر لیں کہ چونکہ دوسرے شعبے نے اپنا کام پورا نہیں کیا لہذا ہم بھی اپنا کام نہیں کریں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کچھ بھی انجام نہیں پا سکے گا۔ اگر ہماری سوچ یہ ہو کہ دوسرے نے اپنا فریضہ پورا نہیں کیا لہذا ہم بھی کام نہیں کریں گے تو یہ درست نہیں۔ ہمیں اپنے فریضے کو بنحو کامل انجام دینا چاہئے۔ اس طرح آپ نے فریضہ الہی پر عمل کیا اور اپنی گردن پر جو حق تھا اسے ادا کر دیا اور ساتھ ہی آپ مددگار اور حوصلہ بخش ثابت ہوں گے دوسروں کے لئے کہ وہ بھی اپنے فریضے کو کما حقہ ادا کریں۔
یہ ہماری سفارش ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو، ہم کو، تمام حکام کو یہ توفیق کرامت فرمائے کہ ہماری گردن پر اس قوم کا جو بہت بڑا حق اور قرض ہے اسے ادا کریں، اسلام کا ہم پر جو حق ہے اسے ادا کر سکیں۔ آپ یقین جانئے کہ کامیابی آپ کا مقدر بنے گی۔ اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے اور اللہ تعالی کا وعدہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ اللہ کا وعدہ، حق اور اہل حق کی نصرت و مدد کا ہے۔ جو لوگ راہ حق میں طاقت فرسائی کر رہے ہیں، اللہ تعالی ان کی مدد کرے گا، ان کی ہدایت بھی کرے گا اور ان کی مدد بھی کرے گا، اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو منزل مقصود پر پہنچانے کی ضمانت لی ہے۔ آج ملت ایران، حکام اور نظام کے عہدیداروں اور کارکنان کی اس عظیم تعداد کا کام یہی ہے۔ واقعی ان کی نیتوں میں اخلاص ہے، سچائی کے ساتھ محنت کر رہے ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں اپنی برکتوں سے نوازے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو توفیقات سے نوازے، ہمارے لئے فتوحات عالیہ کے دروازے یکے بعد دیگرے وا کرے اور ہم اپنے دوش پر عائد ذمہ داریوں اور فرائض پر بنحو احسن عمل پیرا رہیں۔

و السّلام عليكم و رحمة اللّه‌ و بركاته