آپ نے فرمایا کہ ملت ایران کو اس بات پر ناز ہے کہ اس نے مادی دنیا میں قرآن و اسلام کی حکمرانی کا پرچم بلند کیا اور اپنے صبر و پائیداری کے ذریعے تمام سختیوں کا سامنا کرتے ہوئے روز بروز اس پرچم کی درخشندگی میں اضافہ کر رہی ہے اور اپنی ہوشیاری و دانشمندی سے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا رہی ہے۔
4 تیر سنہ 1391 ہجری شمسی مطابق 24 جون سنہ 2012 عیسوی کو فرزند علی حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام کے یوم ولادت با سعادت کے مبارک و مسعود موقعے پر، حفظ و قرائت قرآن کے انتیسویں عالمی مقابلوں میں کامیابی حاصل کرنے والے قاریوں اور حافظوں نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات در حقیقت تلاوت کلام پاک کی محفل میں تبدیل ہو گئی اور خوش الحان قاریوں نے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت سے محفل کو نور معنویت سے منور کر دیا۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے آیات قرآن میں تدبر اور قرآن کے سبق آموز معارف کے ادراک کو مسلمان قوموں کی حیاتی ضرورت قرار دیا اور کہا کہ قرآن پاک کی تلاوت کے سلسلے میں خوش الحانی اصلی ہدف و مقصد نہیں ہے بلکہ اسے معارف قرآنی کے فہم و ادراک اور قلبی خشوع کی تمہید کے طور پر دیکھنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کو حاصل وقار و افتخار کو قرآن کی حیات بخش تعلیمات پر عمل آوری کا ثمرہ قرار دیا اور فرمایا کہ مسلمان قوموں کو اس درخشاں نمونہ عمل سے سبق ملتا ہے کہ اگر کوئي قوم زیور ایمان سے آراستہ ہو، الہی وعدوں پر پختہ یقین رکھتی ہو، قرآن و اسلام کے راستے میں استقامت و پائیداری کی تصویر بنی ہوئی ہو اور دشمن کے مکر و فریب سے متاثر نہیں ہوتی تو دشمن کی پیچیدہ ترین فوجی سازشوں اور وسیع ترین سیاسی، اقتصادی و انٹیلیجنس یلغار پر بھی غالب آ جائے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے علاقے میں مسلمان قوموں کے انقلابات کو کچلنے کی امریکا اور صیہونیوں کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عیار اور خونخوار دشمن، قوموں کی اسلامی تحریکوں کے پھیلتے دائرے کو روکنا چاہتے ہیں لیکن قرآن کی تعلیمات پر قوموں کے عمل پیرا ہونے کی صورت میں دشمن کی ساری کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے حفظ و قرائت کلام پاک کے مقابلوں کے تسلسل سے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ قرآن کی تعلیم کا سلسلہ عام ہونے کی صورت میں پورے معاشرے کی فضا قرآنی ہو جائے گی۔
خطاب کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے؛
بسم‌ اللّه‌ الرّحمن‌ الرّحیم

اس مقدس شہر کے مہمانان عزیز کو اور وطن عزیز کے ضیوف قرآنی کو جو دیگر ممالک سے یہاں تشریف لائے ہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمارے دلوں میں، ہمارے عوام کے قلوب میں عشق قرآنی کی شمعیں روشن فرمائیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ اس نے درس قرآنی، قرآن سے انس اور تلاوت کلام پاک کی نعمت سے ہمارے عوام کو بہرہ مند فرمایا۔ طاغوتی (شاہی) دور میں ہمارے ملک میں قرآن متروک ہوکر رہ گیا تھا، قرآن کی ترویج و تبلیغ کے لئے کوئی اجتماعی عمل انجام نہیں پاتا تھا۔ جو کچھ تھا بس ذاتی اور شخصی شوق و شغف کی حد تک تھا۔ اسلامی جمہوریہ کا دور آیا، اسلام کی حکمرانی کا زمانہ آیا تو ملکی حکام کا ایک اہم ایجنڈا ترویج قرآن کی صورت میں سامنے آیا۔ قرآن کی تلاوت، قرآن سے انس، قرآنی مفاہیم کا ادراک، حفظ قرآن، ایجنڈے کا جز قرار پایا۔ اس کا ایک مظہر یہی عالمی قرآنی مقابلہ ہے۔ تلاوت قرآن اور آیات الہی کی خوش الحانی کے ساتھ قرائت در حقیقت قرآن میں غور و خوض کا مقدمہ ہے۔ ہم تلاوت قرآن، قرائت قرآن اور خوش الحانی کے ساتھ آیات الہی کی ادائیگی کو اپنا نصب العین نہیں بنانا چاہتے۔ یہ تو مقدمہ ہے، یہ ایک راستہ ہے۔ دلنشیں آواز میں قرآنی آیات کی تلاوت سے انسان کا دل نرم ہو جاتا ہے، اس میں خضوع و خشوع پیدا ہوتا ہے اور وہ آیات قرآنی اور معارف قرآنی کے فہم و ادراک کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے، ہمیں اس روش پر چلنے کی ضرورت ہے۔
آج عالم اسلام کو اسلامی معارف و تعلیمات سے واقفیت کی اشد ضرورت ہے۔ آج دنیائے اسلام کو ان قرآنی اسباق کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو قوموں کو دئے گئے ہیں اور جن میں استقامت و پائیداری، پاکیزہ زندگی اور وقار اسلامی پر تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں قرآنی دروس، چشمہ حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمیں ان دروس کی احتیاج ہے۔ قرآن کے اصلی مفاہیم کی روشنی اسلامی ممالک میں جس حد تک پھیل سکی ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس حد تک اسلامی رجحان کو فروغ ملا ہے۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ ماضی میں، اسلامی ممالک میں جہاں کہیں بھی کوئی عمومی تحریک وجود میں آتی تھی، بائیں بازوں کے رجحانات یا مارکسی و سوشیلسٹ خیالات سے متاثر ہوا کرتی تھی لیکن آج جہاں بھی کوئی تحریک انگڑائی لے رہی ہے، اس کی ماہیت اسلامی ہے۔
البتہ ان تحریکوں کے بڑے بے رحم اور درندہ صفت عیار دشمن بھی ہیں۔ آج عالمی استکبار، اسلامی تحریکوں کا سب سے بڑا اور تخریب کار دشمن ہے۔ امریکا ان تحریکوں کے خلاف پوری طاقت سے ڈٹا ہوا ہے، صیہونزم اس تحریک کا سد باب کر دینے کے لئے پوری طاقت لگائے ہوئے ہے۔ یہ طے ہے کہ دشمن ایک لمحے کے لئے بھی خاموش بیٹھنے والا نہیں ہے کہ مسلمان قومیں اسلام کے منصوبوں اور نقشہ راہ کے مطابق جس طرح چاہیں عمل کریں، نہیں وہ سد راہ بنا ہوا ہے۔
لہذا کہنا یہ ہے کہ قرآن نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اگر تم صبر و تحمل سے کام لوگے، استقامت کا مظاہرہ کروگے، اپنا راستہ تبدیل نہ کروگے، اپنی سمت و جہت میں تبدیلی نہیں کروگے تو فتح و کامرانی تمہارا مقدر ہوگی۔ یہ قرآن سے ملنے والا سبق ہے۔ قرآن ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر تم اس راستے اور ان اہداف کی حقانیت پر ایمان رکھوگے اور اسی راہ پر گامزن رہو گے تو تمہاری فتح یقینی ہے۔ یہ درس قرآنی ہے۔ مسلم اقوام کو یہ بات ذہن نشیں کر لینا چاہئے، اس پر پورے یقین کے ساتھ باور کر لینا چاہئے، اگر انہوں نے اسے باور کر لیا تو دشمن کے پیچیدہ ترین فوجی اور انٹیلیجنس حربوں پر فتحیاب ہوں گی۔ لیکن اگر انہوں نے تساہلی سے کام لیا، خود کو کمزور و ناتواں فرض کر لیا، اگر اللہ کی ذات پر ان کا توکل متزلزل ہو گیا، اگر دشمن کی مسکراہٹوں اور مسحورکن چالوں میں آ گئیں تو ان کی شکست کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔
آج عالم اسلام کو ان دروس اور تعلیمات کی شدید ضرورت ہے۔ ان اسباق کی ترویج کا بہترین وسیلہ اور بہترین کتاب خود قرآن کریم ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اپنی قوم کے اندر، تمام مسلم اقوام کے اندر قرآن سے انس اور قلبی لگاؤ کو جو تدبر کے ہمراہ ہو، جو وعدہ الہی پر یقین و اطمینان کے ہمراہ ہو، عام کریں، اسے پھیلائیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو گویا ہم نے قوموں کو جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور یہ ایک فریضہ بھی ہے۔
صرف الفاظ کی تکرار اور خوش الحانی کے ساتھ آیات کی ادائیگی پر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے۔ ان چیزوں کو تو ذریعہ اور وسیلہ سمجھنا چاہئے۔ پرکشش آواز اور خوش الحانی قرآن کے لئے ضروری ہے لیکن صرف اس مقصد کے تحت کہ اس سے دل نرم ہوں اور معانی قرآن کے ادراک کے لئے آمادہ ہو جائیں۔ یہ ذہنیت نہیں بننا چاہئے کہ یہی (خوش الحانی کے ساتھ تلاوت) بذات خود اصلی ہدف و مقصد ہے۔ ایسا نہیں ہے، یہ تو مقدمہ اور تمہید ہے، اس مقدمہ کو اس منزل کے ذیل میں انجام دینا چاہئے جس تک رسائی کا یہ مناسب راستہ ہے۔ اس مقدمے کے بغیر مطلوبہ منزل تک رسائی مشکل ہے۔ ہم ملکی سطح پر حفظ قرآن، تلاوت قرآن اور قرآنی جلسوں کی کثرت و وسعت پر جو تاکید کرتے ہیں، علوم قرآنی، فنون قرآنی جیسے تلاوت، کتابت اور دیگر گوناگوں امور جو قرآن کے فروعی امور محسوب ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان امور سے آشنائی کے نتیجے میں، ان فنون پر توجہ دئے جانے کے نتیجے میں ملک کی فضا قرآنی فضا ہو جائے گی۔ ہمیں اس فضا کی شدید ضرورت ہے۔ جب فضا قرآنی ہو جائے گی تو قرآن سے انس بڑھے گا، ہمہ گیر ہوگا اور قرآن سے انس و شغف قرآن میں غور و خوض اور معارف قرآنی کے بارے میں تدبر کا باعث بنے گا۔ آج دنیائے اسلام کو اس کی ضرورت ہے اور ہم ایرانی عوام کو بھی اس کی شدید احتیاج ہے۔
ہمیں فخر ہے کہ اس مادی دنیا میں قرآن و اسلام کی حاکمیت کا پرچم سب سے پہلے ہم نے بلند کیا اور اپنی اس مہم پر ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہم نے اس راہ میں سختیاں بھی اٹھائیں اور ثابت کر دیا کہ اگر کوئی قوم صبر و ضبط سے کام لے اور استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کرے تو نہ صرف یہ کہ دشمنوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گی بلکہ ترقی کی منزلیں بھی طے کرے گی اور آج ہمارے ملک میں یہی ہو رہا ہے۔
روز اول سے دشمنوں کی کوشش رہی کہ ملک کے اندر روشن ہونے والی اس شمع فروزاں کو خاموش کر دیں تینتیس سال سے وہ اپنی پوری توانائی صرف کر رہے ہیں لیکن اس شمع فروزاں کی ضوفشانی بڑھتی جا رہی ہے، اس کی جگمگاہٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ دشمن اس ملک میں اسلام کی حکمرانی کا پرچم سرنگوں نہ کر پائے بلکہ ملت ایران نے بلا وقفہ ترقی حاصل کی۔ آج ملت ایران کی علمی و سائنسی پیشرفت کی رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے گیارہ گنا زیادہ ہے۔ یہ بین الاقوامی علمی مراکز کی رپورٹ کے اعداد و شمار ہیں جس کا وہ اعلان کرتے ہیں۔ آج مختلف شعبوں میں، سیاسی شعبے میں، سائنسی میدان میں اور تعمیراتی شعبے میں ملک برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔
ہمارے ملک میں روحانیت و معنویت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ ہمارے نوجوان اہل دعا و مناجات ہیں، اہل قرآن و اہل اعتکاف ہیں۔ جس کثیر تعداد میں ہمارے ملک کے نوجوان دین و روحانیت سے وابستہ ہیں اس کی ہمیں دنیا میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ قرائن سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ صاحب ایمان اور دین سے قلبی وابستگی رکھنے والے نوجوانوں کی یہ تعداد کہیں اور نہیں ہے، حالانکہ دنیا بھر میں جدید ترین وسائل کے ذریعے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے عوامل و اسباب فراہم کئے جا رہے ہیں۔
ہمارے نوجوان صاحب ایمان ہیں، نیک و صالح ہیں جنہیں دیکھ کر دشمن پیچ و تاب کھاتے ہیں۔ دشمن چاہتا تھا کہ اسلام کی فتح اور حکمرانی کا پرچم ملت ایران کے ہاتھ سے چھین کر اسے سرنگوں کر دے لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی۔ دشمن کے بغص و عناد کے باوجود ہمارا ملک مادی و روحانی اعتبار سے ترقی کرتا رہا ہے اور آگے بھی پیشرفت کی راہ پر گامزن رہے گا۔ انشاء اللہ ایک دن وہ آئے گا جب اسلام اور اسلامی معاشرے پوری دینا کے لئے نمایاں نمونہ عمل قرار پائیں گے، مادی و روحانی ترقی کا نمونہ۔ جن پر دنیا والوں کی پراشتیاق نگاہیں مرکوز ہوں گی اور وہ ان کی تقلید کی کوشش کریں کے۔ بلا شبہ یہ دن آئے گا۔ اور یہ قرآن کی برکت سے ممکن ہوگا۔
سفارش یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے قرآن سے انس بڑھائیے، قرآن سے سروکار رکھئے، اسے زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کیجئے، قرآن میں زیادہ سے زیادہ تدبر کیجئے اور قرآن کو اپنی زندگی کے لئے مشعل راہ قرار دیجئے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ ہمیں اور آپ کو قرآن کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے اور قرآن کا عشق دل میں لئے اس دنیا سے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔

و السّلام علیكم و رحمه ‌اللّه‌ و بركاته