قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے بدھ کي رات اپنے خطاب ميں، اسلامي نظام کي تقويت کے لئے، علم کے ميدان ميں مجاہدت، افکار نو سے واقفيت اور نوجوان نسل بالخصوص يونيورسٹيوں اور کالجوں کے طلبا سے براہ راست رابطے کو ضروري قرار ديا۔ آپ نے فرمايا کہ علمائے دين اور طلبا اسلامي نظام کے سپاہي ہيں اور کبھي بھي خود کو اس نظام سے الگ تصور نہيں کر سکتے۔ قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ ايسي حالت ميں کہ امريکا، برطانيہ اور صيہوني حکومت سميت اسلامي نظام کے تمام دشمنوں کي سياست، اسلامی نظام اور علمائے کرام ميں دوري کي تلقين پر استوار ہے، علمائے دين، اسلامي نظام سے خود کو ہرگز الگ نہيں سمجھ سکتے-
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی انقلاب علماء کی مدد کے بغیر ہرگز فتحیاب نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ غیر اسلامی پارٹیاں، تنظیمیں اور روشن خیال افراد ملکی سطح پر علماء جیسی مقبولیت اور اثر و نفوذ نہیں رکھتے تھے۔ آپ نے موجودہ حالات میں علمائے دین کی سنگین ذمہ داریوں کا حوالہ دیتے ہوئے پیغمبر عظیم الشان صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت کو علماء کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا اور فرمایا کہ زمانہ پیغمبر کی جنگ احزاب کی طرح اس وقت بھی عالمی اور علاقائی سطح پر ملت ایران کے تمام دشمنوں نے آپس میں ساز باز کر لی ہے تا کہ اس قوم کے عزم راسخ اور استقامت کو ختم کر دیں، لیکن جس طرح اس جنگ میں مومنین نے خوف و ہراس کو خود سے کوسوں دور رکھا تھا ملت ایران بھی اپنی توانائیوں میں اضافے کی بھرپور کوششوں کے ساتھ ہر دباؤ کا سامنا کرے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے جنگ احزاب کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس جنگ میں کچھ منافقین اور کمزور عقیدہ افراد مومنین کی سرزنش کرتے تھے کہ آپ پسپائی کیوں نہیں اختیار کر لیتے، اپنی حکمت عملی تبدیل کیوں نہیں کر لیتے جبکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب با وفا ان کے جواب میں کہتے تھے کہ ہم ان سختیوں سے متعجب اور خوفزدہ نہیں ہیں اور اپنے راستے پر آگے بڑھتے رہیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌اللّه ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌
الحمد للّه ربّ العالمين والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌ القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين سيّما بقيّة اللّه فى الأرضين.

ہمارے صوبائی دوروں میں جو نشستیں منعقد ہوتی ہیں ان میں ایک انتہائي شیریں اور مسرت بخش نشست علماء، فضلا اور نوجوان طلبہ کی نشست ہے۔ اس باطنی کیفیت کی وجہ میری نظر میں تو بالکل واضح ہے۔ اس کی صرف ایک دو وجہیں نہیں ہیں۔ اگر کسی کو علم دین کے فلسفے سے واقفیت ہے، اگر کسی نے دینی مدارس میں ان نوجوان طلبہ کی ہم نشینی کا شرف حاصل کیا ہے تو اسے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ مجھ جیسا ایک شخص جو اپنی عمر کے ستر سال گزار چکا ہے، نوجوان طلاب علم اور اس راستے کا سفر شروع کرنے والوں سے مل کر اتنا مسرور اور جذباتی کیوں ہو جاتا ہے؟ خوش قسمتی سے انقلاب کے بعد کے ادوار میں طلاب علم کے ساتھ ہی طالبات بھی نمایاں طور پر نظر آنے لگی ہیں۔ طلبہ و طالبات، دینی علوم کے طلاب، در حقیقت دین کے انتہائی حساس مورچے اور ہراول دستے میں کردار ادا کرنے والے عناصر ہیں۔ یہ ہے علمائے دین اور طلاب کا کردار۔
اس شب جہاں تک میری طاقت اور توانائی ساتھ دیگی آپ کی خدمت میں اپنے معروضات پیش کروں گا، اس قوی امید کے ساتھ کہ یہ باتیں آپ کے پاکیزہ و نورانی دلوں پر اپنا اثر ڈالیں گي اور وہ تبدیلی اور پیش قدمی کہ جو ہمارے اس راستے کے لئے ضروری اور ناگزیر ہے آپ کی بلند ہمتی کے نتیجے میں، آپ کے مطالبات کے مطابق اور دینی مدارس کے محترم عہدیداروں کے ارادے سے عملی طور پر انجام پائے گی۔
سب سے پہلے تو میں یہ عرض کروں گا کہ بجنورد کا یہ علاقہ جسے آج خراسان شمالی کے نام سے جانا جاتا ہے، فاروج سے لیکر صوبہ گلستان کی سرحد اور گلستان کے جنگلات تک، مشرقی، مغربی، شمالی اور جنوبی حصوں میں بڑی زرخیز اور اچھی زمین کا مالک ہے۔ میں کوئي مبالغہ آرائی نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی اس علاقے میں علماء کی کثرت کا دیگر شہروں کے علماء کی تعداد سے موازنہ کرنا مقصود ہے، لیکن اتنا ضرور عرض کرنا ہے کہ اس علاقے سے جو علماء نکلے ہیں وہ انتہائی نمایاں اور ممتاز صلاحیتوں کے مالک علمائے کرام ہیں۔
ایک عالم دین جن کی میں خود بھی زیارت کر چکا ہوں، ان کے درس میں شرکت کر چکا ہوں، آقا آمیرزا حسن بجنوردی مرحوم تھے۔ وہ جب انیس سو اکسٹھ یا باسٹھ میں مشہد اور قم کی زیارت کے لئے نجف اشرف سے ایران تشریف لائے تو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اصرار فرمایا کہ وہ قم میں قیام کریں۔ یعنی ان کے علمی مرتبے کا یہ عالم تھا کہ علم ، علمی امور اور اس کے ساتھ ہی روحانیت و اخلاقیات کے سلسلے میں انتہائی محتاط اور سخت گیرانہ مزاج رکھنے والے امام خمینی نے بھی اس شخصیت سے اصرار کیا کہ وہ قم میں ٹھہر جائے۔ انہوں نے قبول کر لیا اور درس کا وقت بھی طے پا گیا۔ لیکن بد قسمتی یہ رہی کہ جس دن آپ درس کے لئے مدرسہ فیضیہ تشریف لانے والے تھے، آپ کو دل کا دورہ پڑا اور بیمار پڑ گئے۔ لہذ انہوں نے قم میں قیام کا ارادہ بدلا اور نجف چلے گئے۔ میں نے نجف اشرف میں ان کے درس کے چند جلسوں میں شرکت کی۔ آقا آمیرزا حسن بجنوردی مرحوم کا درس مسجد طوسی میں ہوا کرتا تھا اور فاضل طلاب کی ایک جماعت اس میں شرکت کرتی تھی۔ وہ علمی استعداد، ذوق اور حافظے کا مجموعہ تھے۔ یہ خصوصیت ہم نے انہی کے اندر پائی۔ یہ ان ممتاز افراد میں ہیں جو اسی علاقے میں پیدا ہوئے۔ ان کے ہمدرس اور رفیق خاص تھے آقا الحاج میرزا احمد بجنوردی مرتضوی مرحوم۔ یہ دونوں افراد علم دین کے حصول کی شروعات میں مشہد آئے اور جناب آقازادہ مرحوم اور الحاج آقا حسین قمی مرحوم کے درس میں شریک ہوئے۔ میرے والد جو اس وقت مشہد کے علمائے افاضل میں شمار کئے جاتے تھے، ان دونوں سے واقف تھے اور یہ دونوں ان کے رابطے میں تھے۔ والد ان دونوں کی بڑی تعریف کرتے تھے۔ اس کے بعد یہ دونوں نجف اشرف چلے گئے۔ بعد میں والد مرحوم بھی نجف اشرف تشریف لے گئے۔ نجف میں بھی ان دونوں سے ان کا رابطہ رہا۔ چند سال بعد الحاج میرزا احمد، بجنورد لوٹ آئے۔ آپ بجنورد کے علاقے میں بڑے با اثر، مقبول عام اور فعال عالم دین تھے۔ اس وقت حکومت علمائے دین کی دشمن تھی اور جہاں کہیں کوئی بااثر اور مقبول عام عالم دین نظر آتا اس کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ یا تو اسے اپنا تابع فرمان بنانے کی کوشش کی جاتی تھی یا پھر اس کے بال و پر کاٹ دئے جاتے تھے۔ حکومت الحاج میرزا احمد کے سلسلے میں ایسا نہیں کر سکی۔ وہ یہاں کے مذہبی قائد تھے، بڑی محترم شخصیت کے مالک تھے۔ جب آپ مشہد آتے تھے تو علمائے مشہد بڑے ان سے بڑے احترام سے پیش آتے تھے۔ وہ ہماری طالب علمی کا زمانہ تھا۔
ان دونوں سے قبل شیخ محمد تقی بجنوردی مرحوم تھے۔ آپ مسجد گوہر شاد کے بڑے معتبر اور محترم امام جماعت تھے۔ آپ کے علم و زہد و بندگی کا بڑا شہرہ تھا۔ البتہ ان کا زمانہ ہماری اس صدی سے قبل کا ہے۔ تقریبا ایک سو تیس سال قبل ان کا انتقال ہوا۔ تا ہم اس وقت سے لیکر ابھی چند سال پہلے تک شیخ محمد تقی کا دولت کدہ مشہد روڈ پر انہی کے نام سے موسوم گلی میں موجود تھا۔ اہل مشہد شیخ کو بخوبی جانتے تھے اور لوگوں کی وہاں بڑی آمد و رفت رہتی تھی۔ عشرہ محرم کی اہم ترین مجالس اسی گھر میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ لوگ نیاز کے طور پر بہت کچھ لاکر پیش کرتے تھے۔ شیخ کے بیٹے شیخ مرتضی مرحوم نے جو علمائے مشہد میں شمار ہوتے تھے اپنے والد کے راستے کو ہی اختیار کیا اور پھر ان کے بیٹے آشیخ رضا کا زمانہ آیا۔ ہم نے آشیخ رضا کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے۔ آقا الحاج میرزا حسن علی مروارید، آشیخ رضا کے داماد تھے۔ تو یہ ہیں اس خطے کی ممتاز ہستیاں۔ تعداد کے لحاظ سے تو یہ زیادہ نہیں ہیں لیکن واقعی بڑی چنندہ اور عظیم ہستیاں ہیں۔
ہم نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں اس استعداد کا باقاعدہ مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے احباب کو بتایا کہ میں آشیخ ہاشم قزوینی مرحوم کے کفایہ اور مکاسب کے درس میں شرکت کرتا تھا، درس میں ایک طالب علم کلاس کے تقریبا دو سو طلبہ میں سب سے زیادہ با صلاحیت تھا۔ دو سو کی تعداد اس وقت بہت تھی۔ آج دینی مدارس کی تعداد بڑھی ہے اور ان میں ترقی ہوئی ہے تو آج کے اعتبار سے یہ تعداد زیادہ نہیں لگتی لیکن اس زمانے میں کسی ایک درس میں دو سو طلبہ کا شرکت کرنا بہت بڑی بات تھی۔ یہ طالب علم کفایہ کے اس درس میں ایسے ایسے سوال کرتا تھا کہ الحاج شیخ نہایت ادق علمی بحث کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ اس طالب علم کا تعلق اسی علاقے سے تھا، غالبا وہ آشخانہ کا رہنے والا تھا۔ اس کا نام تھا شیخ حسین کرد۔ اس علاقے کے کردوں سے اس طالب علم کا تعلق تھا۔ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں یہ صلاحیتیں ناشناختہ رہ جاتی تھیں اور جب ان کی شناخت ہوتی تھی تو ان سے استفادے کا وقت گزر چکا ہوتا تھا۔ کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ فلاں صاحب استعداد طالب علم کہاں تک تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، علم کی نشر و اشاعت میں کہاں تک موثر رہا۔ وہ زمانہ ایسا تھا، لیکن آج کے اس دور میں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
شہید ہونے والے علمائے دین میں سے میں دو کو قریب سے جانتا ہوں۔ البتہ نوجوان طالب علم بھی تھے جو محاذ جنگ پر گئے اور دفاع وطن کے لئے جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ ان طلبہ کے نام میں نے دیکھے (قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ خراسان شمالی کے دورے کے موقع پر علماء اور طلاب دینی سے اپنی اس ملاقات سے قبل شہیدوں کے قبرستان میں جاکر فاتحہ خوانی کی تھی) میں ان سب کو قریب سے نہیں جانتا تاہم دو افراد سے میری باقاعدہ شناسائي رہی ہے۔ مرحوم آشیخ قاسم صادقی گرمہ ای جو گرمہ کے رہنے والے تھے اور مرحوم طیبی۔ مرحوم حاج شیخ قاسم صادقی کئی سال تک میرے ہم مباحثہ (دینی مدارس مین طلبہ درس سے قبل یا بعد میں متعلقہ درس کے سلسلے میں آپس میں علمی مباحثہ کرتے ہیں) رہے۔ شرح لمعہ اور مکاسب کا مباحثہ کرتے تھے۔ وہ واقعی بڑے با استعداد انسان تھے۔ اگر درس کا سلسلہ جاری رہتا تو وہ یقینا ایک نمایاں عالم دین بنتے۔ لیکن افسوس کہ اس وقت یہ رواج نہیں تھا کہ طالب علم سے پوچھا جائے آپ کون ہیں؟ کیا ہیں؟ آگے کیا کرنا چاہتے ہیں؟ رہنمائي کی جاتی، مدد کی جاتی، علمی معاونت کی جاتی، تعلیم کے ضروری وسائل فراہم کئے جاتے! اس زمانے میں یہ سب نہیں تھا۔ چنانچہ وہ جاکر کچھ اور کاموں میں مصروف ہو گئے۔ البتہ انقلابی تحریک جب کامیاب ہوئی تو وہ بھی اور جناب طیبی مرحوم بھی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور جمہوری اسلامی پارٹی کے بہتر شہیدوں میں قرار پائے۔ (دہشت گرد تنظیم ایم کے او نے تہران میں سیاسی جماعت جمہوری اسلامی کے مرکزی دفتر میں دھماکہ کیا تھا جس میں بہتر رہنما شہید ہوئے تھے)۔
نتیجہ یہ نکلا کہ یہ جگہ صلاحیتوں اور استعداد کا سرچشمہ ہے؛ بجنورد سے لیکر ان نواحی علاقوں اسفرائن، شیروان فاروج اور دوسری طرف دیگر اضلاع تک جو یہاں واقع ہیں ان میں شیعہ نشین علاقے بھی ہیں اور سنی نشین علاقے بھی ہیں۔
برادران اہل سنت نے بھی بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ میں نے صبح کی تقریر عرض کیا کہ ترکمن سنی علمائے کرام نے اس علاقے میں ترکمن قوم کے نام سے فتنہ کھڑا کرنے کی کمیونسٹوں کی سازش کو ناکام بنانے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ میں ایسے علما کو قریب سے جانتا ہوں جو بڑے مدبر اور اہل عمل لوگ تھے اور جنہوں نے بڑا موثر کردار ادا کیا۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں اعلی علمی سطح کا معیاری مدرسہ قائم ہو سکتا ہے۔ اساتذہ کو یہاں لایا جا سکتا ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ طالب علم تعلیم کے ابتدائی دور میں ہے ہجرت کرکے بڑے دینی مدارس کی طرف جائے اور پھر اسی شہر کا ہوکر رہ جائے، واپس نہ آئے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ خراسان کے انہی اضلاع میں بڑے جید اور عظیم المرتبت علمائے کرام موجود رہے ہیں۔ میں نے بہت سے اضلاع اور دیہی علاقوں کا سفر کیا ہے۔ میں نے وہاں مرجع تقلید کے مقام پر فائز علمائے کرام کو دیکھا ہے۔ بیرجند میں دو مرجع تقلید تھے، وہ اگر نجف اشرف میں ہوتے تو یقینا معروف مراجع تقلید میں شمار ہوتے۔ مرحوم تہامی اور مرحوم آشیخ محمد حسین آیتی۔ یہ دونوں علماء بیرجند میں سکونت پذیر ہو گئے اور آخر تک وہیں کے عوام کی خدمت کرتے رہے۔ قوچان میں مرحوم آقا نجفی قوچانی جیسی ہستی آکر قیام پذیر ہوتی ہے۔ وہ مرحوم آخوند خراسانی کے ممتاز شاگردوں میں تھے۔ بجنورد میں جیسا کہ ہم نے عرض کیا مرحوم الحاج میرزا احمد مرتضوی تھے۔ دیگر علاقوں میں بھی اسی طرح ممتاز اور نمایاں علمی مقام رکھنے والے علماء تھے۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب وہ زمانہ ایسا تھا کہ چھوٹے بڑے شہروں کے درمیان رابطہ نہیں تھا لہذا علما جہاں تھے وہیں رہنے پر مجبور تھے۔ لیکن اس استدلال سے بالکل برعکس نتیجہ نکلتا ہے۔ آج رابطہ آسان ہے، مواصلات کا دور ہے، آپ ایک کمپیوٹر لیتے ہیں اور بڑے دینی مدارس کے بہترین دروس براہ راست دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ لہذا بڑے مدارس میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو کوئی علمی مسئلہ پیش آ گیا ہے، آپ گاڑی پر سوار ہوئیے اور دو تین گھنٹے میں مشہد پہنچ جائیے۔ وہاں کسی بھی بزرگ عالم دین کی مدد سے اپنا یہ علمی مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ آج جب وسائل کی فراوانی ہے تو (بڑے شہروں کی جانب ہجرت کے بجائے) مختلف اضلاع کے دینی مدارس کی رونق بڑھنا چاہئے۔ ان میں تعداد اور کیفیت کے اعتبار سے فروغ آنا چاہئے۔
میں نے چند سال قبل ہجرت کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس سے ملک بھر میں علمائے کرام کی فعالیت میں وسعت پیدا ہوگی۔ دینی علوم کے مراکز سے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں کی جانب ہجرت کا سلسلہ شروع ہونا چاہئے، خواہ وہ عالم دین اسی دیہی علاقے کا ہو یا کسی اور جگہ سے اس کا تعلق ہو۔ مرحوم محقق سبزواری اصفہان سے آکر مشہد میں سکونت پذیر ہو جاتے ہیں۔ اصفہان اس زمانے میں ایران کا سب سے بڑا شہر تھا اور مشہد بہت چھوٹا سا شہر تھا، کسی دیہات کی مانند تھا۔ مشہد کا مدرسہ باقریہ جسے پرانے طلبہ نے دیکھا ہوگا اور جو اب ختم ہو چکا ہے، وہ مدرسہ ہے جس کی تعمیر آپ کے ہاتھوں سے انجام پائی۔ وہ آتے تھے اور یہاں رہتے تھے، حالانکہ یہ ان کا آبائی وطن نہیں تھا۔ مرحوم میرزا مہدی شہید اصفہانی الاصل جو وحید بہبہانی مرحوم کے ممتاز شاگردوں میں تھے، ان کے چار ممتاز شاگرد مہدی نام کے تھے جنہیں مہادی اربعہ کہا جاتا تھا، وہ بھی جب مشہد آتے تھے تو اسی مدرسے میں قیام کرتے تھے، یہیں وہ شہید بھی کئے گئے۔ ان کے اخلاف میں بہت بڑے علماء پیدا ہوئے۔ تو اس میں کیا مضائقہ ہے کہ ایک عالم دین کسی ایسے علاقے میں جاکر تبلیغ کرے جو اس کا آبائی وطن نہیں ہے؟ اور اگر اسی علاقے کا رہنے والا ہے پھر تو بات ہی الگ ہے ۔ وہیں کے رہنے والے ہیں تب تو بہت ضروری ہے کہ وہاں جائیں۔
مشہد اور قم میں سکونت پذیر بجنوردی علما کو چاہئے کہ جمع ہوں اور اپنے درمیان سے دس لوگوں کا انتخاب کریں اور انہیں یہاں بھیجیں، یہاں ان کے لئے وسائل فراہم کئے جائیں، وہ آکر یہاں درس دیں۔ اعلی سطحی درس دیا جائے، درس خارج (اجتہادی درس) دیا جائے۔ جو طالب علم یہاں درس خارج پڑھ رہا ہے اور اجتہاد کے قریب پہنچ چکا ہے، وہ دو سال، تین سال یا پانچ سال کے لئے قم یا مشہد جائے اور پھر لوٹ آئے۔ اس زمانے میں جو فکر و نظر اور عالم اسلام میں افکار و نظریات کی ترویج کا زمانہ ہے اگر کوئی علمی پختگی رکھنے والا عالم دین کسی شہر میں موجود ہو تو اسے سب معلوم ہوگا کہ دنیا میں کیا کچھ انجام پا رہا ہے؟
آج اس شہر اور اس ضلعے میں طلبہ کی تعداد تقریبا چالیس ہزار ہے۔ ان میں کتنے اسٹوڈنٹس ایسے ہیں جن کے آپ دینی طلاب سے رابطے ہیں؟ ان میں کتنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ ممکن ہے کہ بعض اوقات آپ کو ان کی نشستوں میں شرکت کی دعوت ملتی ہو کہ پچاس یا سو اسٹوڈنٹس جمع ہوں اور آپ کو ان کے درمیان تقریر کرنا ہو۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ آپ کو دو بدو بات کرنا چاہئے۔ اپنے مخاطب شخص کی شخصیت سنوارنے کی کوشش کیجئے، آپ کو محنت کرنی ہے، کام کرنا ہے، اس کے لئے علمی صلاحیت کی ضرورت ہے، فکری و ثقافتی ضرورتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، تبلیغی مشن سے گہرے عشق کی ضرورت ہے۔ یہ کام ضرور انجام دیا جانا چاہئے۔ ماشاء اللہ آپ کی تعداد اچھی خاصی ہے، خواتین بھی اور مرد حضرات بھی اچھی تعداد میں یہاں موجود ہیں۔ آپ محنت سے درس پڑھئے، خود تعلیم حاصل کیجئے، عالم دین بنئے، مولانا بنئے، مضبوط بنئے، نئے نئے نظریات کے تجزئے اور تحلیل کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کیجئے۔ ذیلی کتب کا بھی مطالعہ کیجئے۔ بعض دروس جو قم اور تہران کے دینی مدارس میں باقاعدہ نصاب کے تحت پڑھائے جاتے ہیں وہ ذاتی مطالعے کا موضوع قرار پا سکتے ہیں۔ جیسے فارسی ادبیات، اخلاقیات۔ کچھ اور دروس بھی ہیں۔ البتہ عربی ادب ضروری ہے۔ یہ بڑا اہم ذریعہ ہے ہمارے لئے۔ تو یہ ذیلی موضوعات اگر باقاعدہ نصاب میں شامل نہ ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ میں اس مسئلے میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتا، بس اپنا نظریہ بیان کئے دے رہا ہوں۔ اب منصوبہ ساز افراد اس کا جائزہ لیں اور فیصلہ کریں۔
دینی طالب علم کا ہاتھ کبھی بھی کتاب سے خالی نہیں رہنا چاہئے، ہمیشہ کتاب پڑھے، ہر موضوع کی کتاب پڑھے اور نوجوانی کے ایام میں خوب مطالعہ کرے۔ حافظے کے اس ذخیرے کو جس میں بے پناہ گنجائش ہے، آپ نوجوانی کے ایام میں جہاں تک ممکن ہے پر کیجئے۔ ہم نے نوجوانی کے ایام میں جو باتیں اپنے حافظے میں محفوظ کیں آج تک موجود ہیں۔ ایام پیری میں ہم جو کچھ بھی پڑھتے ہیں، میں اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود آج بھی نوجوانوں سے زیادہ مطالعہ کرتا ہوں، اس میں دوام نہیں ہوتا۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ اپنے اس گراں قدر اور بیش قیمت سرچشمے کو مفید معلومات سے، نفع بخش اطلاعات سے، تبلیغ میں جن باتوں کی ضرورت پڑتی ہیں ان سے جہاں تک ممکن ہو پر کیجئے، اس کا آپ کو ہمیشہ فائدہ پہنچے گا۔
ایک انتہائی اہم نکتہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام سے دینی علوم کے مراکز کی نسبت اور رابطے سے متعلق ہے۔ علمائے دین کی صنف میں کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو عقل و انصاف کو معیار قرار دے اور پھر بھی اسلامی نطام سے خود کو لا تعلق خیال کرے۔ اسلامی نطام نے اسلام کے مبلغین کو بے پناہ وسائل اور امکانات فراہم کئے ہیں۔ کب آپ کو یہ وسائل اور امکانات دست یاب تھے؟ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی عالم دین یا طالب علم ٹیلی ویزن کے پروگرام میں شرکت کرتا ہے اور آدھے گھنٹے تک گفتگو کرتا ہے۔ دس ملین اور بیس ملین لوگ دلچسپی سے اس کا یہ پروگرام دیکھتے ہیں۔ علمائے دین کو پوری تاریخ میں کب ایسے مواقع اور سازگار حالات میسر آئے ہیں؟ یہ عظیم اجتماعات کہاں ہوتے تھے؟ اس پرشکوہ انداز میں نماز جمعہ کا انعقاد کہاں ہوتا تھا؟ دینی معارف و تعلیمات کے تشنگان اور مشتاقین کی یہ کثیر تعداد کب دیکھنے میں آئی؟ آج پر اسٹوڈنٹس اور دیگر نوجوانوں کو دیکھتے ہیں، میں خاص طور پر اسٹوڈنٹس کے لئے یہ بات کہتا ہوں کہ وہ اسلامی معارف و تعلیمات کے تشنہ ہیں۔ انہیں سمجھنے اور ان کا ادراک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں اور آپ کو اتنی تیاری کرنا چاہئے کہ ان کے تمام سوالات اور ہر استفسار کا جواب دے سکیں۔ اس طرح کے مواقع کب ہمیں ملے ہیں؟ ان سب باتوں کے علاوہ آپ کے پاس تبلیغ کے آسان ذرائع موجود ہیں، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سائبر اسپیس، یہ سب کچھ آج آپ کو دستیاب ہے۔ اگر آپ ان وسائل کے استعمال کی روش سے باخبر ہوں تو اپنی ایک صحیح بات کو ایسے ہزاروں افراد تک بھی پہنچا سکتے ہیں جنہیں آپ نہیں پہچانتے۔ یہ بہترین موقع ہے۔ اسے ہرگز ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے۔ اگر ہم نے یہ موقع گنوا دیا تو اللہ کے سامنے ہمیں اور آپ کو جوابدہ ہونا پڑے گا کہ جوانوں کی اتنی بڑی تعداد، ان کے اندر اتنا شدید اشتیاق اور تشنگی موجود ہونے کے بعد آپ نے اسلامی تعلیمات کی تبلیغ اور ترویج کے لئے اس موقع سے کتنا استفادہ کیا؟ اسلامی نظام نے ہم صاحبان عمامہ اور علمائے کرام کو یہ وسائل فراہم کئے ہیں۔ تو کیا ہم پھر بھی کنارہ کشی اختیار کر سکتے ہیں؟
کوئی عالم دین اپنی عبا اپنے دوش پر ڈالے اور دو ٹوک انداز میں کہہ دے کہ بھئی مجھ سے امور مملکت کا کوئی تعلق نہیں ہے، میرا اس نطام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو یہ افتخار کی بات نہیں، شرم کا مقام ہے۔ ایک عالم دین کو ایسے نظام کا جس کا پرچم پرچم اسلام ہے، جس کا قانون فقہ اسلامی ہے، بآغوش باز خیر مقدم کرنا چاہئے۔ مراجع تقلید میں متعدد نے مجھ سے بارہا یہ بات کہی ہے کہ ہم اس نظام کو کمزور کرنے کی ہر کوشش کو حرام جانتے ہیں۔ ان میں بعض اپنی کرم فرمائی کا ثبوت دیتے ہوئے مجھے پیغام بھجواتے ہیں کہ ہم تمہارے لئے ہمیشہ دعا کرتے ہیں۔ یہ اسلامی نظام کی قدر شناسی کی علامت ہے۔ اب کوئی استاد کسی گوشے سے اٹھتا ہے اور خود کو اس نظام سے لا تعلق ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے پاس جواز یہ ہے کہ اسے کسی بات پر سخت اعتراض ہے۔ ایک نہیں آپ کے پاس اگر سو اعتراض ہوں تب بھی یہ درست نہیں۔ ہم صاحبان عمامہ پر ایک دو نہیں بلکہ سو دو سو اعتراض ہیں۔ کیا ہم پر اعتراض نہیں کیا جاتا؟ اب اگر کسی صنف کے اندر کچھ عیوب اور خامیاں ہوں تو کیا انسان اس صنف کی تمام خوبیوں کو یکسر نظر انداز کر دے؟! علمائے دین کی صنف کے اندر بھی بہت سے عیوب ہیں۔ میں بالغ ہونے سے پہلے ہی دینی تعلیم میں آ گیا تھا اور آج تک طالب علم ہوں، مجھے تمام حالات کا بھرپور اندازہ ہے، یہیں ان عیوب کی ایک فہرست زبانی سنا سکتا ہوں۔ ہمارے اندر سو خامیاں موجود ہیں تو کیا ہم علمائے دین کی صنف سے روگردانی کر لیں؟! ان سو خامیوں کے ساتھ ہی ہزار اچھائیاں بھی ہیں۔ اچھائیوں اور برائیوں کا مکمل حساب رکھنے کی صورت میں ہی انسان صحیح راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔
دینی مدارس کو چاہئے کہ خود کو اسلامی نظام کا سپاہی سمجھیں، اسلامی نظام کے لئے کام کریں، نظام کی ہمدردی ان کے دل میں ہونا چاہے، نظام کو تقویت پہنچانے کے لئے کام کریں، یہ طرز عمل، برطانیہ، امریکا، اسرائیل اور کچھ دیگر طاقتوں کی خیفہ ایجنسیوں کی سازشوں اور حرکتوں کے عین مخالف ہوگا۔ ان کی یہ کوشش ہے کہ دراندازی کا کوئی راستہ تلاش کر لیں۔ کہیں کوئی عالم دین ایک ایسی بات کہتا ہے جو بظاہر اسلامی نظام کے کلی اصولوں اور نظریات کے برخلاف ہے تو اس کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ اگر کوئی کم رتبہ انسان ہے تو اس کو بھی بہت اہم شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں تا کہ اسلامی نطام اور علمائے دین کی صنف کے مابین فاصلے اور خلیج کا تاثر دے سکیں۔ بنابریں میں مختصرا یہ کہنا چاہوں گا کہ دینی مدارس خود کو اسلامی نظام سے لا تعلق نہیں بنا سکتے۔
میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ سب پہلے ہی دن سے اسلامی نطام کا کوئی کام سنبھال لیں۔ یہ کہنا مقصود نہیں ہے، انہیں درس پڑھنا چاہئے۔ انقلابی تحریک کے زمانے میں یہ حقیر بھی انقلابی سرگرمیوں میں مصروف رہتا تھا لیکن مشہد میں مکاسب اور کفایہ کا درس دیتا تھا۔ ہمارے شاگردوں میں بھی متعدد ایسے تھے جو انقلابی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ کبھی کبھی انقلابی سرگرمیوں کی اس مصروفیت کی وجہ سے وہ یہ سوچنے لگتے تھے کہ اب مکاسب اور کفایہ کے دلائل کا ہمیں کیا فائدہ پہنچے گا۔ میں ان سے ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ اپنے اندر سرمایہ پیدا کیجئے۔ اگر آپ نے اپنے اندر علمی سرمایہ پیدا کر لیا تو اس تحریک میں امام حمینی رحمت اللہ علیہ جیسا کلیدی کردار ادا کر سکیں گے۔
اسلامی نظام اور علمائے کرام کا رشتہ ہمزاد کا رشتہ ہے۔ اگر علمائے دین نہ ہوتے تو آپ یقین جانئے کہ یہ نظام تشکیل نہ پاتا اور یہ انقلاب بھی کامیاب نہ ہوتا۔ انقلاب سے قبل میرا تعلق روشن خیال حلقوں سے رہا ہے، سیاسی حلقوں سے نزدیکی روابط رہے ہیں، میں ان سب سے بخوبی واقف تھا۔ ان میں بہتوں سے ہماری بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ میں یہ بات پورے یقین اور ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اگر علمائے کرام کی یہ صنف نہ ہوتی تو یہ انقلاب کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پاتا، آئندہ سو سال بھی گزر جاتے تب بھی کامیاب نہ ہو پاتا۔ ہمارے روشن خیال سیاسی رہنما جن میں بعض بڑے اچھے انسان تھے، جذبہ ہمدردی بھی رکھتے تھے، وہ سب منحرف اور گمراہ لوگ نہیں تھے۔ تا ہم زیادہ توانائی نہیں رکھتے تھے، بہت زیادہ شہرت اور مقبولیت نہیں تھی، عوام میں اتنا اثر و نفوذ نہیں تھا، عوام کے دلوں پر راج کرنے کی استعداد نہیں تھی۔ ملکی سطح پر چھا جانے والی اور دلوں کی گہرائیوں میں اپنا نقش چھوڑنے والی صنف علماء کی ہی صنف تھی۔
اوائل انقلاب میں ایک موقع پر میں نے سورہ نحل کی اس آیہ شریفہ کی تلاوت کی «اعوذ باللّه من الشّيطان الرّجيم. و اوحى ربّك الى النّحل ان اتّخذى من الجبال بيوتا و من الشّجر و ممّا يعرشون. ثمّ كلى من كلّ الثّمرات فاسلكى سبل ربّك ذللا يخرج من بطونها شراب مختلف الوانه فيه شفاء للنّاس».(1) میں نے کہا کہ بیشک یہ نوجوان دینی طلاب شہد کی مکھیوں کی مانند معرفت کے ان غنچوں پر جاکر بیٹھے جو امام خمینی کے بصیرت افروز بیانوں سے کھلے تھے، انہوں نے ان پھولوں سے اپنی غذا حاصل کی اور پھر ملک کے گوشے گوشے کی طرف پرواز کر گئے، انہوں نے عوام الناس کو اپنے شہد سے شیریں کام کر دیا اور دشمنوں کو ڈنک بھی مارا۔ تو ان کے پاس شہد بھی تھا اور ڈنک بھی۔ نیش (ڈنک) اور نوش (مرغوب غذا) دونوں چیزیں۔ یہ کام علمائے دین کی صنف کے علاوہ کوئی بھی تنظیم اور کوئی بھی سیاسی جماعت انجام نہیں دے سکتی تھی۔ اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو سماجی انقلاب رونما نہ ہوتا۔ وہ انقلاب جس کا ایک نعرہ اگر عاشور کے روز تہران میں بلند ہوتا تھا تو فورا کسی صوبے کے دورافتادہ دیہات میں اس کی گونج سنائی دیتی تھی اور عوام مظاہرے کرتے تھے، ان کی زبان پر وہی نعرہ ہوتا تھا، وہی مطالبہ ہوتا تھا، وہی بات ہوتی تھی۔ اسے کہتے ہیں سماجی انقلاب جس کا نتیجہ اس طاغوتی حکومت کا سقوط اور ایسی اسلامی حکومت کی تشکیل کی صورت میں نکلا۔ اس نظام کی استقامت و پائیداری ایسی ہے کہ صدیوں تک اس کی جڑیں اپنی جگہ قائم رہیں گی۔
فکری بنیادیں اور زمین بھی علمائے کرام نے تیار اور ہموار کی۔ شہید مطہری، علامہ طباطبائی اور دیگر بزرگ علمائے کرام نے یہ مضبوط فکری بنیاد ہموار کی۔ یہ فکری بنیادی ڈھانچہ کے جس پر فکری عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے، اسے استحکام بخشا جا سکتا ہے، اس کی نئی نئی شاخیں نکالی جا سکتی ہیں اور دور حاضر میں نوجوانوں کی فکری ضرورتوں کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں مارکسسٹ نظریات کو دھنی ہوئی روئی کی مانند ہوا میں اڑا دینے کا کام استاد مطہری مرحوم کی شعلہ بیانی اور ان کے خطبات نے کیا، وہ علامہ طباطبائی کے شاگرد تھے۔ اسی طرح علامہ طباطبائی کے بعض دیگر شاگردوں نے بھی محوری کردار ادا کیا۔ یہ نظام اس طرح کی بنیادوں پر استوار ہے۔
مختصر یہ کہ فریضہ بہت سنگین ہے اور کام بہت زیادہ ہے۔ آپ کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ آپ خودسازی کیجئے، روحانی اعتبار سے بھی، اخلاقی اعتبار سے بھی، دینداری کے اعتبار سے بھی، واجبات اور نوافل کی پابندی کے لحاظ سے بھی، تلاوت قرآن کے اعتبار سے بھی۔ اس عزیز طالب علم نے قرآن کی کیسی دلکش تلاوت کی اور کیسی آیتوں کا انتخاب کیا؟! «لقد كان لكم فى رسول‌اللّه اسوة حسنة لمن كان يرجوا اللّه و اليوم الأخر و ذكر اللّه كثيرا».(2) اگر ہم اللہ اور قیامت کی توقع رکھتے ہیں تو ہمارا نمونہ عمل پیغمبر کی ذات والا صفات کو ہونا چاہئے۔ مراد یہ نہیں ہے کہ ہم بعینہ پیغمبر کا طریق کار اختیار کریں اور انہی کے اعمال انجام دیں کیونکہ یہ محال ہے۔ ہمیں آنحضرت کے راستے پر چلنا چاہئے۔ ایسی صورت میں مومنین جس مقام پر پہنچیں گے وہ بھی واضح کر دیا گیا ہے؛ «و لمّا رءا المؤمنون الأحزاب قالوا هذا ما وعدنا اللّه و رسوله و صدق اللّه و رسوله».(3) جنگ احزاب میں دشمن نے ہر طرف سے یلغار کر دی۔ جنگ بدر میں ایک ہی گروہ تھا، جنگ احد میں ایک ہی گروہ تھا، دوسری جنگوں میں چھوٹے قبائل سے مقابلہ تھا، لیکن جنگ احزاب میں مکے اور دیگر علاقوں جیسے ثقیف وغیرہ کے قبائل آپس میں متحد ہو گئے تھے اور دس ہزار جنگجو جمع ہو گئے تھے۔ پیغمبر کے پڑوس میں جو یہودی آباد تھے اور جنہیں پیغمبر نے امان دیا تھا، انہوں نے غداری کی، یہ بھی دشمن سے جاکر مل گئے تھے۔ اس صورت حال کا موازنہ ہم اپنے آج کے حالات سے کر سکتے ہیں۔ آج امریکا مخالفت کر رہا ہے، برطانیہ دشمنی برت رہا ہے، صیہونی حکومت معاندانہ اقدامات کر رہی ہے، رجعت پسند اور تیل خور حکومتیں ہماری دشمنی پر کمر بستہ ہیں۔ انہوں نے بڑی دولت لٹائی، فوجیں جمع کیں اور جنگ احزاب کا نقشہ تیار کر دیا۔ وہ جنگ احزاب جس نے دلوں کو دہلا دیا۔ اسی سورے کے آغاز میں ارشاد ہوتا ہے۔ «و اذ قالت طائفة منهم يا اهل يثرب لا مقام لكم فارجعوا»؛(4) وہ لوگوں کو خوفزدہ کرتے تھے۔ آج بھی وہی صورت حال ہے۔ آج بھی ایک گروہ ہے جو عوام کو ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جناب آپ ڈرئے، امریکا سے دشمنی مول لینا کیا مذاق ہے؟ وہ آپ کا دیوالہ نکال دیگا! اس کی فوجی کارروائی، اس کی یہ پابندیاں، اس کی تشہیراتی اور سیاسی یلغار۔ اسی سورے کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے؛ «لئن لم ينته المنافقون و الّذين فى قلوبهم مرض و المرجفون فى المدينة لنغرينّك بهم».(5) مرجفون انہی لوگوں کو کہا گيا ہے۔ جب یہ صورت حال پیش آ جائے تو مومنین کا یہ انداز ہوتا ہے۔ «هذا ما وعدنا اللّه و رسوله»؛ لہذا ہمیں اس پر کوئی تعجب نہیں ہے۔
اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم توحید کے پابند رہے، اللہ و رسول پر تمہارا ایمان پختہ رہا تو تمہارے کچھ دشمن ہوں گے جو تم پر حملے کریں گے۔ بالکل اس کی خبر انہوں نے ہمیں پہلے ہی دے دی تھی اور یہ خبر بالکل درست تھی۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں واقعی ہم پر حملے ہو رہے ہیں۔ «و صدق اللّه و رسوله و ما زادهم الاّ ايمانا و تسليما»؛ اس سے ایمان میں اضافہ ہوا۔ ضعیف الایمان منافق کہ جس کی کئی قسمیں ہیں جب دشمن کو دیکھتا ہے تو کانپنے لگتا ہے۔ وہ اللہ کی ذات پر سچا ایمان رکھنے والوں اور راہ خدا میں جفاکشی کرنے والوں کو پریشان کرنے لگتا ہے، انہیں تنگ کرتا ہے کہ آپ اس راستے پر کیوں چل رہے ہیں؟ آپ پسپائی کیوں نہیں اختیار کر لیتے؟ آپ نے یہ حکمت عملی کیوں اختیار کر لی ہے؟ وہ وہی کام کرتا ہے جو دشمن کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ لیکن دوسری جانب سچا ایمان رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی تعجب نہیں ہے، دشمن تو معاندانہ کارروائی کرے گا ہی۔؛ «هذا ما وعدنا اللّه و رسوله».
ایک جگہ اور ارشاد ہوتا ہے؛ «و لن ترضى عنك اليهود و لا النّصارى حتّى تتّبع ملّتهم»؛(6) جب تک آپ ان کی غلامی کا طوق گلے میں نہ ڈال لیں گے اور ان کے راستے پر نہیں چلیں گے، یہی ہوتا رہے گا۔ اپنے کو اتنا مضبوط بنائیے کہ غلامی کی طوق گلے میں نہ پڑنے پائے، ایک جھٹکے سے اسے توڑ دیجئے۔ اپنے نفس کی تقویت کیجئے۔ آپ خود کو اتنا کمزور کیوں بنا لیتے ہیں کہ دشمن کے سامنے جھکنا پڑے، اس کی تعظیم میں سر جھکانا پڑے، اس کے سامنے سجدہ کرنا پڑے؟ میرے عزیز نوجوان طالب علمو! میرے بیٹو! میرے عزیزو! «و ما زادهم الاّ ايمانا و تسليما» کی کیفیت اپنے اندر پیدا کرو اور خلوص نیت کے ساتھ تعلیم حاصل کرو، اس نیت کے ساتھ کہ عظیم میدانوں کے ہراول دستے میں بھی آپ کو سب سے نمایاں نظر آنا ہے۔
میری سفارش یہ ہے کہ مساجد کے اندر ثقافتی اور فنی مراکز کو نظر انداز نہ ہونے دیجئے۔ البتہ یہ کام بسیج (رضاکار فورس) کے تعاون سے انجام دیا جائے۔ مسجد کے پیش نماز اور مسجد کی بسیج کے درمیان کسی بھی قسم کا اختلاف ہونا بری بات ہے۔ رضاکار فورس کے تعاون سے مساجد کے ثقافتی و فنی مراکز کو موثر ادارہ بنانے کی کوشش کیجئے، اس کے لئے محنت کیجئے۔ بیٹھئے، غور و فکر کیجئے، وہاں سے رجوع ہونے والے نوجوان کی ضرورتوں کو سمجھنے اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کیجئے۔ مطالعہ کیجئے۔ ایسی کتابیں دستیاب ہیں جو اس سلسلے میں مددگار واقع ہو سکتی ہیں۔ کتابیں موجود ہیں، آپ جائیے ان کے بارے میں معلومات حاصل کیجئے اور متعلقہ افراد کی مدد سے تحقیق کیجئے۔ خود کو استدلال اور معرفت سے آراستہ کیجئے، اس کے بعد ان ثقافتی و فنی مراکز میں جائیے اور وہاں رجوع کرنے والے نوجوانوں کے سوالوں کے جواب دیجئے۔ خندہ روئی کے ساتھ ان کا استقبال کیجئے، رواداری اور بردباری کے ساتھ پیش آئیے۔ ممکن ہے کہ رجوع ہونے والے کسی نوجوان کی ظاہری وضع قطع اچھی نہ ہو۔ آج ہی استقبال کے لئے آنے والے مجمعے میں کچھ افراد ایسے تھے، کچھ خواتین ایسی تھیں کہ جنہیں عرف عام میں بدحجاب خاتون کہا جاتا ہے لیکن (فرط شوق سے) ان کی آنکھیں گریاں تھیں۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا انہیں اپنے سے دور کر دیا جائے؟ کیا یہ مناسب ہوگا؟ کیا یہ درست ہے؟ نہیں، وہ قلبی طور پر ہمارے اسی محاذ سے وابستہ ہے، وہ دلی طور پر ہمارے انہی اہداف اور مقاصد کی گرویدہ ہے۔ لیکن اس کے اندر (بدحجابی کی) ایک خامی ہے تو کیا ہمارے اندر کوئی نقص نہیں ہے؟ اس کا عیب ظاہر ہے لیکن اس حقیر کا عیب چھپا ہوا ہے۔ لوگ اس حقیر کا عیب نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔
«گفتا شيخا هر آنچه گوئى هستم / آيا تو چنان كه مينمائى هستى؟»
میرے اندر بھی ایک عیب ہے اور اس کے اندر بھی ایک نقص موجود ہے۔ اس طر‌ز فکر کے ساتھ آپ اس سے پیش آئيے۔ البتہ انسان نھی عن المنکر پر بھی عمل کرتا ہے لیکن یہ عمل خندہ پیشانی اور شیریں کلامی کے ساتھ انجام پانا چاہئے، نفرت پیدا کرنے والے طریقے سے نہیں۔ تو آپ اسٹوڈنٹس سے ضرور رابطہ رکھئے۔
جناب فرجام ( ایک ممتاز عالم دین) نے علمائے دین اور طلاب دین کے لباس اور پوشاک کے سلسلے میں بڑے اہم نکتے کی یاد دہانی کرائی۔ جو افراد دینی دروس میں کسی مقام تک پہنچ چکے ہیں اور اب عالم دین کا لباس انہوں نے زیب تن کر لیا ہے تو بہت اچھی بات ہے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس لباس کے ساتھ سنگین ذمہ داریاں انسان کے دوش پر عائد ہو جاتی ہیں۔ یہ تین چار سو گرام کا عمامہ (علمائے دین کی مخصوص دستار) جو آپ کے سر ہے حقیقت میں اس کے اندر بڑا وزن ہے۔ جیسے ہی لوگ آپ کے سر پر عمامہ دیکھیں گے سوالات، اشکالات اور ابہامات کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ آپ کو جو جواب نہیں معلوم ہے، اگر آپ نے صاف گوئی سے کہہ دیا کہ نہیں جانتا اور بعد میں آپ نے جاکر تحقیق کی اور پھر آکر جواب دیا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر آپ نے غلط جواب دیا یا جواب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے آپ غصہ ہو گئے کہ یہ سوالات آپ مجھ سے کیوں کر رہے ہیں تو یہ بالکل درست نہیں ہے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ انسان وہ لباس ہی نہ پہنے۔
مساجد کے امام جماعت کا احترام کیجئے، انہیں اہمیت دیجئے۔ امام جماعت کی ذمہ داری بہت اہم ہے۔ امام جماعت کو چاہئے کہ ہر نماز کے بعد یا کم از کم پنج وقتہ نمازوں میں کسی ایک نماز کے بعد لوگوں سے ہمکلام ضرور ہو۔ دینی حقائق اور مناقب اہل بیت علیہم السلام بیان کرے اور دلوں کو روشن و منور بنائے۔
ہماری یہ گفتگو ذرا طولانی ہو گئی۔ اللہ تعالی جناب مہمان نواز کے وجود کی برکتوں کو قائم رکھے۔ جناب سے جب ملاقات ہوتی تھی تو بار بار بجنورد آنے کی دعوت دیتے تھے، ہم یہی جواب دیتے تھے کہ بسر و چشم! الامور مرھونۃ باوقاتھا بہرحال اب وہ وقت آ گیا۔ یہ بجنورد میں قیام پذیر ہیں، ہہت اچھا کام کر رہے ہیں، آپ کا وجود اس شہر کے لئے مایہ برکت ہے۔ اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، امام جمعہ و جماعت ہیں اور بالکل عیاں ہے کہ آپ اچھے مفکر اور قادر الکلام مقرر ہیں۔ امام جمعہ و الجماعت کے فرائض نصرت پروردگار سے بنحو احسن انجام دے رہے ہیں۔ بجنورد بحمد اللہ جناب مہمان نوازی کے وجود سے کسب فیض کر رہا ہے۔
پالنے والے! ہم جو کچھ بیان کر رہے ہیں، جو کچھ انجام دے رہے ہیں اور جو سوچ رہے ہیں اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ اسے اپنے فضل و کرم سے قبول فرما۔ پالنے والے حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ حضرت کی دعائیں ہمارے شامل حال رکھ۔ پالنے والے! علمائےافاضل اور طلاب کرام کو جو یہاں موجود ہیں اسی طرح اس خطے میں مصروف خدمت دیگر علمائے کرام کو حقیقی معنی میں قرآن و اسلام کا سپاہی قرار دے۔ اس علاقے میں شیعہ و سنی فرقوں کے درمیان جو اخوت و بھائی چارہ ہے اس میں روز بروز اضافہ فرما۔ سب کو راہ خیر و صلاح اور راہ ہدایت پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته‌

1) نحل: 68 و 69
2) احزاب: 21
3) احزاب: 22
4) احزاب: 13
5) احزاب: 60
6) بقره: 120