1392/04/19 ہجری شمسی 10/7/2013 عیسوی کو قرآنی روحانیت و معنویت کی خوشبو سے معمور اس محفل میں حافظوں، خوش الحان قاریوں نے اور اساتید قرآنی نے کلام پاک کی آیتوں کی تلاوت کی جبکہ ماہ رمضان کی فضیلت اور پروردگار عالم کی حمد و ثنا پر مبنی منقبت کے اشعار بھی اجتماعی طور پر پڑھے گئے۔ اس محفل سے قائد انقلاب اسلامی نے خطاب کیا، آپ نے تلاوت و تجوید اور حفظ قرآن کو مطلوبہ قرآنی معاشرے کی تشکیل کا مقدمہ قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی معاشرے میں قرآنی تعلیمات اور اسلامی طرز زندگی کا غلبہ ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حفظ اور قرئت قرآن کو مفاہیم قرآن کے ادراک اور قرآنی اخلاقیات سے خود کو آراستہ کرنے کی تمہید قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی معاشرے کی ثقافت قرآنی اخلاق اور معصومین علیہم السلام کے فرمودات کے مطابق ہونی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں قاریوں، حافظوں اور برادران عزیز کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس نشست کو قرآن کریم کی آیات، ذکر اللہ، مدح پیغمبر و اہل بیت رسول علیہم السلام سے معطر کر دیا۔ شروع سے آخر تک یہ بڑی دلنشیں نشست رہی، بڑی جاذب نظر، فیض بخش، انتہائی بامعنی اور فنکارانہ نشست تھی۔ اس کے بعض حصے تو واقعی بہت اہم اور نمایاں رہے۔
ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں قرآن سے مانوس کیا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ہمارا یہ مسلم معاشرہ قرآن سے دلچسپی تو رکھتا تھا، قرآن کا عاشق بھی تھا لیکن اس طرح قرآن سے مانوس نہیں تھا۔ یہ بھی انقلاب کی ایک برکت ہے کہ ہمارے نوجوان جن کے اندر تلاوت کا فن، شوق اور اچھی آواز ہے اور جن میں ضروری صلاحیتیں موجود ہیں انہیں اس میدان میں اترنے کی توفیق حاصل ہوئی اور بحمد اللہ انہوں نے پیشرفت کی۔ البتہ یہ ابھی تمہید اور مقدمہ ہے، قرآن کو سمجھنے اور قرآنی اخلاق سے آراستہ ہونے کا مقدمہ ہے۔ ایک اہم مسئلہ ہے قرآن کے ظواہر کی حرمت و عظمت کی پاسداری کا، یعنی قرآن کے الفاظ، تلاوت کی آواز وغیرہ۔ یہ بھی اپنی جگہ بہت اہم اور محترم ہے۔ تاہم اس سے زیادہ اہم اور بالاتر مرحلہ ہے قرآنی اخلاق سے خود کو مزین کرنے کا، طرز زندگی کو قرآن کے مطابق ڈھالنے کا۔ تاریخ میں ہمارا اور ہمارے معاشروں کا ایک نقص یہ رہا ہے کہ ہم نے بسا اوقات اپنی تہذیب و ثقافت کو اغیار کی تہذیب و ثقافت سے متاثر کیا۔ کچھ لوگوں نے ہمارے معاشرے میں اور ہمارے ملک میں قصدا اس کی ترویج کی اور ہمیں ان لوگوں کے طرز زندگی کی جانب دھکیلا جن کے دل و جان نور معنویت و روحانیت سے بے بہرہ تھے، ہمیں ان کا طرز زندگی، طرز لباس، ان کی چال ڈھال، طرز معاشرت اور طرز تعلقات اپنانے کی ترغیب دلائی۔ اگر کہیں کسی نے کوئی اعتراض کیا تو برجستہ فرماتے تھے کہ آج کی دنیا اسی سمت جا رہی ہے۔ حالانکہ قرآن ہمیں تعلیم دیتا ہے: «و ان تطع اكثر من فى الأرض يضلّوك عن سبيل الله ان يتّبعون الّا الظّنّ و ان هم الّا يخرصون».(۱) انسان کے لئے جو چیز سیکھنے اور بوقت ضرورت تقلید کرنے کے سلسلے میں اہم ہے وہ ہے راہ ہدایت؛ «صراط الّذين انعمت عليهم»؛(۲) ہمیں اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنا چاہئے کہ ہمیں ان لوگوں کے راستے کی ہدایت عطا کرے جنہیں اللہ کی نعمتیں حاصل ہوئی ہیں، ہمیں ان کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک سوال ہے اس بات کا کہ دنیا کے اکثر لوگ اس انداز سے بات کرتے ہیں، اس انداز سے حرکت کرتے ہیں، ان کا یہ طرز سلوک ہے، تو اس سلسلے میں ہمیں اپنی عقل کو، اپنے دین کو اور ہدایت الہیہ کو معیار قرار دیکر اور ان چیزوں کو اپنی اس کسوٹی پر پرکھنا چاہئے۔ صاحب ایمان اور سچی مسلمان قوم وہ ہے جو قرآن سے اپنا معیار تلاش کرتی ہے اور ہدایت خداوندی سے اپنی کسوٹی حاصل کرتی ہے اور اس کے مطابق عمل کرتی ہے۔
قرآن اور اللہ نے جن چیزوں کی ہمیں تعلیم دی ہے ان میں ایک یہ ہے کہ ہمیں عقل سلیم اور خرد انسانی کی پیروی کرنا چاہئے۔ یہ بھی قرآنی معیار ہے۔ عقل عمومی جس چیز کا حکم کرے اسے اختیار کرنا اور عقل و خرد کے فیصلے کے مطابق عمل کرنا قرآنی معیار ہے، یہ دینی مسئلہ ہے۔ یہ ہیں حقیقی معیارات۔ ہمیں جن چیزوں کی تعلیم اللہ کے برگزیدہ بندوں نے دی ہے، معصومین علیہم السلام نے ہمیں جو کچھ سکھایا ہے وہ ہے حقیقی معیار اور کسوٹی۔ بنابریں اگر مغربی ممالک کے لوگ، مادہ پرست لوگ، دنیا کے فلاں خطے کے لوگ اپنے رفتار و گفتار میں، اپنے سلوک و برتاؤ میں، اپنے امور زندگی میں، اپنے روابط اور تعلقات میں، خاندان تشکیل دینے کے سلسلے میں کسی خاص روش پر عمل کرتے ہیں لہذا ہم بھی اسی طرح عمل کریں، یہ سوچ اور نظریہ غلط ہے۔
قرآن سے ملنے والی ہدایت کو ہمیں اپنی زندگی میں نافذ کرنا چاہئے۔ اللہ کا احسان ہے کہ ہمارے پاس قرآن کی شکل میں عظیم سرمایہ موجود ہے، اہل بیت اطہار علیہم السلام کے فرمودات کی شکل میں ہمارے پاس عظیم دولت موجود ہے۔ «انّى تارك فيكم الثِّقْلَيْن» يا «انّى تارك فيكم الثَّقَلَيْن»؛(۳) میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ بحمد اللہ یہ دونوں گراں قدر چیزیں آج ہمارے پاس ہیں، ہمیں ان سے بھرپور استفادہ کرنے اور مستفیض ہونے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے معاشرے کو ان کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ قرآن کے جلسے، یہ تعلیم قرآن کی نشستیں، تجوید قرآن کی کلاسیں، خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوتیں، سب اس منزل اور مقام تک پہنچنے کی تمہید اور مقدمہ ہے۔ ہمیں ان چیزوں کو اصلی منزل نہیں بلکہ منزل تک پہنچنے کے مقدمے کے طور پر دیکھنا چاہئے، یہیں سے قرآن کی وادی میں قدم رکھنے اور قرآن سے انس حاصل کرنے کا راستہ کھلتا ہے۔
بحمد اللہ آج ہمارا معاشرہ قرآن سے مانوس ہے۔ البتہ ہم اس پر اکتفا نہیں کریں گے، ہمارا نظریہ یہ ہے کہ معاشرے کا ہر شخص قرآن سے گہرا رابطہ برقرار کرنے میں کامیاب ہو، قرآن پڑھے، قرآن کو سمجھے، قرآن کے مفاہیم کے بارے میں تدبر کرے۔ نورانی حقائق تک پہنچنے کا راستہ قرآنی مفاہیم کے بارے میں تدبر ہے۔ قرآن کے حفظ کا یہ سلسلہ جو آپ نوجوانوں کے درمیان، ملک بھر کے نوجوانوں کے اندر رائج ہو گیا ہے، یہ تدبر کا بہترین مقدمہ ہے۔ یعنی حفظ قرآن، قرآن کی آیات کریمہ سے مانوس ہونا، انہیں بار بار پڑھنا اور ان پر توجہ دینا اس بات کا باعث بنے گا کہ آپ قرآنی مفاہیم کے بارے میں تدبر کریں۔
اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ ملک کے قرآنی معاشرے کو روز افزوں ترقی عطا کرے، کامیابیاں عطا کرے، قرآن کے محترم اساذہ کو توفیق دے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کی تربیت کر سکیں، ہمارے ملک اور ہماری قوم کو قرآن کے سائے میں زندہ رکھے۔ پالنے والے! ہماری زندگی کو قرآنی ‌زندگی قرار دے، ہماری موت کو راہ قرآن میں ہونے والی موت قرار دے، قیامت کے دن ہمیں قرآن کے ساتھ محشور فرما! پالنے والے ہمارے ملک، ہمارے عوام اور تمام مسلم اقوام اور ممالک پر اپنی رحمتیں اور اپنا فضل و کرم نازل فرما!

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌

۱) انعام: ۱۱۶
۲) حمد: ۷
۳) بحارالانوار، ج ۲، ص ۲۲۶