قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم ‌اللّه ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌

تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں، مومنین، جوش و جذبے سے بھرے ہوئے نوجوانوں، علمائے کرام اور خاص طور پر شہدا کے باعظمت اہل خانہ کو خوش آمدید کہتا ہوں، جو طویل سفر طے کرکے یہاں تشریف لائے، آج یہاں جمع ہوئے اور ہمارے اس حسینیہ کو منور فرمایا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اس باشرف مہینے (رجب المرجب) میں تمام مخلص بندوں اور مومنین کو اپنے فضل و کرم اور لطف و عنایت سے نوازے۔
سب سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے عزیز بھائیوں اور بہنوں اور خاص طور پر نوجوانوں کی توجہ ماہ رجب کی انفرادی اہمیت کی طرف مبذول کراؤں۔ ایام اور مہینوں کی خصوصیات اور ان مناسبتوں سے بآسانی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اہل دل اور اہل سیر و سلوک بزرگوں نے ماہ رجب کو ماہ رمضان المبارک کا مقدمہ قرار دیا ہے۔ ماہ رجب اور ماہ شعبان در حقیقت انسان کے لئے ماہ مبارک رمضان کی خاطر خود کو آمادہ کرنے کا موقعہ فراہم کرتے ہیں۔ ماہ رجب اور ماہ شعبان، ماہ رمضان میں وارد ہونے کے لئے زاد سفر حاصل کرنے اور ضروری تیاریاں مکمل کرنے کا موقع ہے۔ آمادگی کا کیا مطلب ہے؟ آمادگی کے لئے سب سے پہلی شرط ہے توجہ اور حضور قلب۔ انسان خود کو علم الہی اور محضر خداوندی میں حاضر محسوس کرے۔ «سبحان من احصى كلّ شى‌ء علمه»(1)- اپنے تمام حالات کو، جملہ حرکات و سکنات کو، اپنی نیتوں اور قلبی واردات کو اس طرح دیکھے کہ گویا وہ سب بارگاہ خداوندی اور علم الہی کے احاطے میں ہیں۔ سب سے پہلے یہ چیز ضروری ہے۔ جب یہ کیفیت پیدا ہو جائیگی تو پھر اپنے جملہ اعمال، کلام و سکوت، آمد و رفت اور گفتار و کردار پر ہماری توجہ بڑھ جائےگی۔ ہم خیال رکھیں گے کہ کیا بول رہے ہیں، کہاں جا رہے ہیں، کیا کر رہے ہیں، کس کے خلاف بات کر رہے ہیں، کس کے حق میں گفتگو کر رہے ہیں؟ جب انسان خود کو ہمیشہ بارگاہ الہی میں حاضر محسوس کرنے لگے تو اپنے حرکات و سکنات اور کردار و گفتار پر اس کی توجہ بڑھ جاتی ہے۔ ہماری بیشتر مشکلات اپنے اعمال و کردار کی طرف سے ہماری غفلت کا نتیجہ ہیں۔ جب انسان غفلت کی حالت سے باہر نکل آئے اور اس جانب متوجہ ہو جائے کہ اس پر ہمیشہ نظر ہے اور اس کا محاسبہ کیا جا رہا ہے۔ «انّا كنّا نستنسخ ما كنتم تعملون»(2)- اس کے جملہ حرکات و سکنات بارگاہ پروردگار میں پیش کئے جا رہے ہیں تو پھر وہ محتاط رہے گا۔ یہ کیفیت پیدا ہو جانے کی صورت میں انسان بڑی پاکیزگی اور طہارت کے عالم میں ماہ رمضان کی وادی میں قدم رکھتا ہے اور پھر وہ ضیافت پروردگار سے خاطر خواہ استفادہ کرتا ہے، «شست شوئى كن و آن گه به خرابات خرام»۔ ماہ رجب کو اس نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ائمہ علیہم السلام سے ماثور ماہ رجب کی دعاؤں میں غور کرنے پر صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دعائیں توحید و وحدانیت کے پہلو پر مرکوز ہیں، عظمت الہی کی باتیں کرنا، صفات خداوندی کا تذکرہ، اس بیکراں عظمت کے سامنے خود کو حاضر سمجھنا، اللہ کی جانب لے جانے والے روشن راستے کی شناخت حاصل کرنا، اسے سمجھنا اور پھر اس پر چلنے کا شوق دل میں پیدا ہو جانا۔ ماہ رجب کی دعاؤں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں توحید اور اللہ پر، اسمائے الہیہ اور صفات ربانیہ پر بار بار توجہ دلائی گئی ہے۔ اس مہینے کی قدر و منزلت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس مہینے کا نقطہ آغاز امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت با سعادت سے متبرک ہوا ہے اور مہینے کے آخری ایام تاریخ انسانیت کے عظیم ترین واقعے یعنی بعثت پیغمبر کی برکتوں کے حامل ہیں۔ مہینے کے وسط میں کئی سال سے ہمارے نوجوان اعتکاف کی سنت حسنہ پر عمل کر رہے ہیں۔ مساجد میں قیام کرنا اور روزے کے عالم میں دن گزارنا۔ واقعی وہ کتنا پرکشش اور جاذب نظر منظر ہوتا ہے جب ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد، دنیا کے دیگر نوجوانوں کے بر خلاف جو شہوت پرستی اور حصول لذت میں ڈوبے رہتے ہیں، روزے کی حالت میں کسی مسجد میں قیام کرتی ہے، اعتکاف کرتی ہے، اپنے شب و روز ذکر و مناجات، غور و فکر اور تعلیمات خداوندی اور حقیقی علم یعنی علم توحید سے متعلق بحث و گفتگو میں بسر کرتی ہے۔ یہ بے مثال شئے ہے۔ یہ سب اسلامی انقلاب کی برکتیں ہیں۔ انقلاب سے قبل ہم نے نہیں دیکھا اور اگر دیکھا تو بہت شاذ و نادر کہ ماہ رجب کے وسط میں یا دیگر ایام میں کوئی اعتکاف کرے۔ تقریبا ہم سب، تمام عوام رحمت خداوندی کے اس دریچے سے غافل تھے۔ میں نے مشہد میں تو بالکل نہیں دیکھا ہے اور قم میں بہت گنے چنے طالب علم مسجد امام میں جاتے تھے اور نیمہ ماہ رجب کے ایام میں اعتکاف کرتے تھے۔ مگر آج آپ دیکھئے کہ جامع مسجد ہی نہیں، صرف بڑی مساجد ہی نہیں، ایک یا دو شہر نہیں بلکہ ملک بھر میں شہر شہر، تمام مساجد میں ہمارے نوجوان، ہمارے مرد، ہماری عورتیں، ہماری بیٹیاں، ہمارے بیٹے تین دن روزے رکھتے ہیں اور اعتکاف کرتے ہیں۔ ایک قوم کے لئے یہ بڑی قیمتی چیز ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ خصوصیات ہیں، یہ ماہ رجب ہے، اس موقعے سے کما حقہ استفادہ کرنا چاہئے۔ میرے نوجوانو! آپ اس موقعے سے زیادہ بہرہ مند ہوئيے! آپ کے پاکیزہ قلوب، آپ کے پاکیزہ و نورانی ضمیر رحمت الہی کے جلوؤں کے انعکاس اور توجہات الہی سے جلا پانے کے لئے آمادہ ہیں، اس کی قدر و منزلت کو سمجھئے۔
اس راستے سے اور روحانیت و معنویت کی وادی سے ایک قوم جو سرمایہ حاصل کرتی ہے، وہ اس کا بہت بڑا سہارا بن جاتا ہے، اس کے پاس بہت بڑا ذخیرہ تیار ہو جاتا ہے جس کی مدد سے وہ زندگی کے تمام میدانوں میں، عزم محکم کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرتی ہے، بند گرہوں کو کھولتی ہے اور عظیم کارنامے سرانجام دیتی ہے۔ ان تمام چیزوں کا سرچشمہ ہے روحانیت و معنویت۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی) جیسا انسان جب یک و تنہا میدان میں اترتا ہے اور عزم و ارادے اور ایمان و توکل علی اللہ کی طاقت سے پوری قوم کو متحد کرکے ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کر دیتا ہے اور عظیم تحریک کا آغاز کرتا ہے تو اس کا سب سے بڑا سہارا ہوتا ہے توکل، روحانی و قلبی و معنوی برانگیختگی اور معرفت و عبادت۔ یہ عظیم ہستی اپنی عمر کے آخری ایام تک بڑھاپے اور جسمانی اضمحلال کے باوجود آدھی رات کے وقت بیدار ہوکر اللہ سے راز و نیاز کرتی اور گریہ کرتی تھی۔ آپ کے قریبی افراد سے ہمیں یہ اطلاع ملی جو آپ کی جملہ خصوصیات اور عادات و اطوار سے باخبر تھے۔ آپ آدھی رات کو بیدار ہو جاتے اور اللہ کی بارگاہ میں دست نیاز دراز کرتے تھے رھبان اللیل (3)، رات کے وقت یہ عالم اور دن میں شیر کی مانند دہاڑتے ہوئے میدان میں اترتے تھے اور دنیا کی بڑی طاقتوں کو للکارتے تھے، قوموں کی کمزوریاں دور کرتے تھے، عوام کی قوت ارادی بڑھاتے تھے اور اسی روحانی قوت کے ذریعے عوام کے اندر جرئت اقدام پیدا کر دیتے تھے۔
آپ عزیز عوام اور خاص طور پر نوجوان توکل اور عقید کے ذریعے طاقت کے اسی عظیم سرچشمے اور معدن سے خود کو متصل کر سکتے ہیں، اس سے مستفیض ہو سکتے ہیں، اپنے وجود میں جلا پیدا کر سکتے ہیں اور اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلام میں رہبانیت جس کے بارے میں کہا گیا ہے رھبان اللیل نصاری کے یہاں رائج رہبانیت سے مختلف ہے، «و رهبانيّة ابتدعوها ما كتبناها عليهم».(4) نصاری اور دیگر ادیان میں رہبانیت کا مطلب ہے گوشہ نشینی، دنیا سے لا تعلقی اور سب سے الگ تھلگ ہوکر رہ جانا، اسلام میں رہبانیت زندگی کے تمام شعبوں میں سرگرم رہنے کا درس دیتی ہے «سياحة امّتى الجهاد فى سبيل اللّه»(5) - تمام حرکات و سکنات اللہ کی مرضی کے مطابق ہو، پیغمبر اسلام کی امت کی صلح و آشتی، حرکت و سکون اور سکوت و اقدام سب کچھ راہ خدا میں ہونا چاہئے۔ تب نتیجہ یہ نکلے گا کہ : «من كان للّه كان اللّه له»، «ان تنصروا اللّه ينصركم»،(6) «لينصرنّ اللّه من ينصره»؛(7) جب آپ نے راہ خدا میں قدم آگے بڑھایا ہے تو پھر نصرت خداوندی، لطف خداوندی اور اللہ تعالی کی جانب سے حاصل ہونے والی پشت پناہی آپ کا مقدر ہوگی۔ میرے عزیزو! ملت ایران کی کامیابی کا یہی راز ہے۔ آج آپ اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک قوم اتنی دشمنیوں کے باوجود دشمن کی ان تمام پست حرکتوں اور خباثتوں کے باوجود جو مختلف سطح پر، مختلف میدانوں میں، مختلف اطراف سے جاری ہیں، آگے بڑھ رہی ہے، قوم کے پاؤں رکے نہیں ہیں، بلکہ ملت ایران پورے عزم و حوصلے کی طاقت سے، اپنی پیشرفت سے، اپنی مربوط اور مجاہدانہ پیش قدمی سے تمام دشمنوں کو پسپا کر رہی ہے۔ یہ جملہ خصوصیات اسی قوت الہی کا ثمرہ ہیں، یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہےگا۔ توفیق خداوندی سے ملت ایران اس راستے پر مسلسل گامزن رہیگی۔
کچھ عناصر ہمارے نوجوانوں کو دین و مذہب سے دور کر دینے پر تلے ہوئے تھے، ان کی خواہش تھی کہ ہمارے نوجوان زندگی کی لذتوں اور مادیت کی آلودگیوں جیسی چیزوں میں غرق ہو جائیں۔ یہ ان کی بہت بڑی بھول تھی۔ آج ہمارے ملک میں نوجوانوں کی صنف اور نوجوانوں کا طبقہ خصوصیات اور معیار و کیفیت کے اعتبار سے اپنے بزرگوں سے اگر بہتر نہیں تو کمتر بھی نہیں ہے۔ آج ہمارے صاحب ایمان نوجوان جن کے دل انقلاب کے لئے دھڑکتے ہیں، حالانکہ نہ انہوں نے امام خمینی کو دیکھا ہے، نہ انقلابی تحریک کا زمانہ دیکھا ہے، نہ وہ مقدس دفاع کے دوران تھے، ان کا جوش و جذبہ، ان کا عزم و حوصلہ، مقدس دفاع کے زمانے کے نوجوانوں سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ یہ بات میں مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں، یہ محض خیال آرائی اور اندازہ نہیں ہے۔ ہمارے نوجوان آج قومی سطح پر مختلف شعبوں میں جو کارنامے سرانجام دے رہے ہیں، ان میں بعض کی سختی، دباؤ اور خطرہ مقدس دفاع کے زمانے کے خطرات سے کم نہیں ہے۔ اس جوش و جذبے کی حفاظت کرنا چاہئے۔
اس وقت ملک کے سیاسی مسائل میں سب سے اہم مسئلہ انتخابات کا ہے۔ الیکشن ایک دن میں انجام پا جانے والا جمہوری عمل ہے لیکن یہ ان تغیرات میں سے ایک ہے جن کے اثرات بہت دور رس ہوتے ہیں۔ آپ صدارتی الیکشن ایک دن کے اندر انجام دے دیتے ہیں لیکن اس ایک دن میں آپ ایک فرد کو چار سال کے لئے ملک کی تقدیر اور بنیادی مسائل کی باگڈور سونپتے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ اس کے اثرات اسی چار سالہ مدت تک محدود نہیں ہوتے، صدر کے اچھے یا خدانخواستہ غیر تعمیری اقدامات کے اثرات اسی چار سال کی مدت تک نہیں رہتے بلکہ آگے تک جاری رہتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ آپ ایک دن کے اندر ایسا فیصلہ اور ایسا انتخاب انجام دیتے ہیں جس کے اثرات کوتاہ مدت میں چار سال تک اور دراز مدت میں بعض اوقات چالیس سال تک باقی رہتے ہیں۔ تو انتخابات کی یہ اہمیت ہے۔
اس سال کے انتخابات کی خاص اہمیت ہے۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے بھائیو اور بہنو! تمام ملت ایران! اس وقت ملک کے انتخابات جو تقریبا ایک مہینے بعد منعقد ہوں گے ایک عالمی موضوع میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ اسے آپ ذہن میں رکھئے۔ دشمنوں کے فکری مراکز جسے وہ تھنک ٹینک کہتے ہیں، انتخابات اور اس عظیم واقعے کے مقدمات اور تیاریوں کا بغور جائزہ لے رہے ہیں، اس سلسلے میں ان کا خاص منصوبہ اور خاص ہدف ہے۔ آپ کے دشمنوں کا مقصد آپ کے مقصد کے بالکل برخلاف ہے۔ آپ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اس مقصد سے کہ اصلح (سب سے زیادہ موزوں اور سب سے زیادہ اہلیت و لیاقت رکھنے والے) شخص کا انتخاب کریں جو وطن عزیز کو اسی رفتار سے بلکہ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے لے جائے، تمام مادی و روحانی شعبوں میں۔ آپ ایسا الیکشن چاہتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ایک صدر اور ایک حکومت بر سر اقتدار آکر آپ کے وقار کو بلند کرے، آپ کی خود مختاری کو اور بھی تقویت پہچائے، آپ کی زندگی کو مزید رفاہ و آسائش سے آراستہ کرے، مشکلات کی گرہوں کو کھولے، ملک کے اندر جوش و خروش اور امید و نشاط کا ماحول پیدا کرے۔ جبکہ آپ کے دشمن اس کے بالکل برخلاف یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن ہونے ہی نہ پائیں اور اب جب الیکشن کا انعقاد یقینی ہو گیا ہے تو پھر الیکشن ایسا ہو جس کے یہ ثمرات نہ ہوں۔ بلکہ ملک کو دوسروں کا محتاج بنا دے، کمزور کر دے، مختلف میدانوں میں پسماندگی میں مبتلا کر دے، ملک کو آگے لے جانے کے بجائے پیچھے لائے، دشمنوں کا ہدف یہ ہے۔ تو یہ دو متضاد مقاصد ہیں۔ ایک ملت ایران کا ہدف ہے اور دوسرا دشمن محاذ کا ہدف ہے۔ ملت ایران کے مقصد کی تکمیل کا کیا طریقہ ہے؟ دو عوامل سے یہ ہدف پورا ہو سکتا ہے۔ ایک ہے انتخابات، انتخابات کا جوش و خروش کے ساتھ انعقاد ہو، کثیر تعداد میں لوگ شرکت کریں، عوام پورے جوش و جذبے کے ساتھ پولنگ مراکز پر پہنچیں اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ دوسرے، اس الیکشن کے نتیجے میں پرعزم، بلند ہمت اور انقلابی انسان کا انتخاب ہو۔ ان دونوں چیزوں سے ملت ایران کو اپنا مقصود مل جائے گا۔
دشمن کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے؟ دشمن کے مقصد کی تکمیل اس طرح ہو سکتی ہے کہ الیکشن میں کوئی جوش و خروش نہ ہو، عوام بے رغبتی ظاہر کریں، بہت محدود تعداد میں لوگ ووٹ ڈالیں، لوگوں میں یہ تاثر پھیل جائے کہ ہم انتخابات میں شرکت کیوں کریں؟ اس کا فائدہ کیا ہے؟ ہم تو ووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ باتیں دشمن کو خوش کر دیں گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ الیکشن کا نتیجہ وہ نکلے جو حکومت کو اور حکومت کے ساتھ عوام کو بیرونی طاقتوں پر زیادہ سے زیادہ منحصر بنا دے، ان کا پیرو اور مطیع بنا دے، ملک کو دشمنوں کی پالیسیوں کا حامی بنا دے، دشمن کی مرضی یہ ہے۔ تو آپ دیکھئے کہ منظرنامہ بالکل واضح اور شفاف ہے۔ آپ کی منشاء واضح ہے اور دشمن کی خواہش بھی سامنے ہے۔ جہاں تک رہی دوسرے نکتے کی بات یعنی اصلح یا سب سے موزوں امیدوار کی تشخیص کیسے کی جائے، اس بارے میں چند نکات ہیں، اگر زندگی رہی تو انتخابات سے پہلے ان پر روشنی ڈالوں گا۔
آج مجھے انتخابات کے جوش و خروش اور شاندار انعقاد کے بارے میں گفتگو کرنا ہے۔ انتخابات کی جانب عوام کی اجتماعی توجہ کے بارے میں بات کرنا ہے۔ یہ بہت عظیم کارنامہ ہے جسے ملت ایران انجام دینے کا ارادہ رکھتی ہے، دشمن کی کوشش ہے کہ ایسا نہ ہونے پائے۔ عوام کا جوش خروش ختم کرنے کے لئے دشمن کیا حربے استعمال کر رہا ہے؟ عوام میں مایوسی پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ صاحب! ووٹ دینے کا آخر فائدہ ہی کیا؟! ووٹ ڈالنے سے کیا ہو جائے گا؟ عوام میں یہ فکر عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چنانچہ آج اگر آپ صیہونی میڈیا کو دیکھئے، دنیا کی تمام خبروں اور رپورٹوں کو عالمی صیہونی نیٹ ورک سمت و جہت دیتا ہے، یہ نیٹ ورک اپنی مرضی کی خبریں نشر کرتا ہے، اس کی پوری کوشش یہ ہے کہ ہمارے ملک کو بحران زدہ ملک ظاہر کرے۔ یقینا ہمارے ملک میں کچھ مشکلات ہیں، لیکن دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں مشکلات نہیں ہیں؟! بیشک گرانی ہے، بے روزگاری کی مشکل ہے، لیکن دنیا کا کون سے ملک ہے جہاں یہ مشکلات نہیں ہیں؟ آج خود وہ یورپی ممالک جو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈا مہم کے منصوبہ ساز ہیں، گلے تک مشکلات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ چند روز گزرتے نہیں کہ کسی نہ کسی شہر میں عوام سڑکوں پر مظاہرے کرتے دکھائے دیتے ہیں، پریشانی اور بیچارگی کے عالم میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں اور سیکورٹی فورسز ان پر جھپٹ پڑتی ہیں۔ اس حقیقت کو مغربی ممالک، جہاں تک ممکن ہے ڈھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے سامنے بھی کچھ مشکلات ہیں، تاہم ہمیں ان مشکلات کے ساتھ معاشرے کے مثبت پہلوؤں کو بھی دیکھنا چاہئے۔ دنیا کے کس ملک میں ایران جیسی متحد قوم ہے؟ ملک کی تمام قومیتیں، تمام مکاتب فکر، تمام شہر، مختلف علاقے، سب کی سمت ایک ہے، سب کا ہدف ایک ہے، سب کے جذبات و احساسات یکساں ہیں، سب ایک امید کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس اتنے پرنشاط اور زندہ دل نوجوان ہیں؟ آج ہمارے نوجوان عظیم میدانوں کو سر کر رہے ہیں، گوناگوں عالمی مقابلوں میں ممتاز مقام حاصل کر رہے ہیں، کیا یہ کم ہے؟ کون سی قوم ہے جس نے ہماری طرح مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اس طرح عظمت و رفعت اور علاقائی و عالمی مسائل میں موثر مقام حاصل کیا ہے؟ کچھ تو ہمارے دشمن ہیں اور کچھ ان دشمنوں کے فرمانبردار ہیں، جہاں تک ممکن ہے وہ خلاف ورزیاں کرتے ہیں لیکن ملت ایران اس کے باوجود سربلند و سرفراز ہے، بشاش چہرے کے ساتھ میدان میں موجود ہے، اس کے چہرے سے امید جھلکتی ہے، دل میں کسی کا کینہ نہیں ہے اور اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ آپ اس حقیقت کو مد نظر رکھئے۔ دنیا کی دیگر قوموں کے باخبر افراد اور دانشور جو مختلف امور سے واقفیت رکھتے ہیں، آپ کی جانب اشارہ کرتے ہیں، ان سب کو رشک ہو رہا ہے کہ ملت ایران کیسے کیسے میدانوں میں آگے نکل گئی ہے اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں؟! ملت ایران کی پیشرفت کا یہ عالم ہے۔
دشمن اپنے پروپیگنڈوں کے ذریعے مایوسی اور قنوطیت پھیلانے اور ملک کے امور کو تصوراتی بحران کے ذریعے متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، ایسی مشکلات کی باتیں کرتے ہیں جن کا ایران میں دور دور تک کوئی نام و نشان بھی نہیں ہے۔ مستقبل کو تاریک ظاہر کرتے ہیں، قوم کو مایوسی و قنوطیت میں مبتلا دکھانا چاہتے ہیں، دشمن کا ہدف یہی ہے۔
عوام توجہ رکھیں اور اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ الیکشن میں پرجوش شرکت ملک کو مزید تحفظ عطا کریگی، وطن عزیز کے خلاف جارحیت کرنے، رخنہ اندازی کرنے اور دشمتی برتنے کی دشمن کی آرزو ناکام ہو جائیگی۔ عوامی شرکت کے یہ اثرات و ثمرات ہیں۔ دشمن چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہونے پائے۔ البتہ میں یہیں آپ کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ ملت ایران کی جتنی مجھے شناخت ہے اور میرا جو تجربہ ہے اور بار بار فضل و لطف الہی جس طرح ہمارے شامل حال رہا ہے اس کی بنیاد پر میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ملت ایران اس دفعہ بھی گزشتہ مواقع کی مانند دشمن کو ایک اور زبردست طمانچہ رسید کریگی۔ انتخابات میں عوام ایک بار پھر قابل فخر کارنامہ رقم کریں گے اور ملک کے افتخارات کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہوگا۔ یہ لطف خداوندی انشاء اللہ عملی صورت اختیار کریگا۔
اس اہم موقعے پر ضروری ہے کہ عوام بھرپور شرکت کے ساتھ ہی بہترین انتخاب پر بھی توجہ رکھیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا؛ ایک اچھا انتخاب، ایک صحیح انتخاب صرف چار سال نہیں بلکہ بسا اوقات دسیوں سال کی مدت تک اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اچھے انتخاب کے لئے غور و فکر ضروری ہے، معیاروں کو پہچاننا لازمی ہے۔ میں آئندہ تقاریر میں کچھ باتیں عرض کروں گا، یہاں اجمالی طور پر یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اصلی معیار یہ ہے کہ اقتدار میں وہ لوگ پہنچیں جن کا سارا ہم و غم ملک کی عزت و وقار اور انقلاب کے اہداف کی جانب ملک کی پیش قدمی ہو۔ ان برسوں میں ہمیں جو بھی کامیابیاں ملی ہیں بس انقلاب کے انہی اہداف کی برکتوں سے ملی ہیں، جہاں بھی ہم سے غفلت ہوئی اور ہم پیچھے رہ گئے، وہیں ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اسلامی انقلاب کے اہداف سے غفلت کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ اقتدار ان لوگوں کو ملے جو اس آیت کے مصداق ہوں؛«انّ الّذين قالوا ربّنا اللّه ثمّ استقاموا»(8)، استقامت و پائیداری کے راستے پر چلنے والے ہوں، جن کے تن پر توکل علی اللہ اور ذکر خدا کی فولادی زرہ ہو اور اس زرہ کے ساتھ میدان میں اتریں۔ آپ نعروں کو دیکھئے، دیکھئے کہ وہ کیسے نعرے وضع کرتے ہیں، یہ کس طرح کے نعرے ہیں؟ بعض لوگ کبھی کبھی غلطی کر جاتے ہیں، ووٹ حاصل کرنے کے لئے ایسے نعرے دیتے ہیں کہ جن پر عملدرآمد ان کی قوت و اختیار کے باہر ہے۔ ہمارے باشعور عوام ان چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں، تو عوام کو چاہئے کہ اس بات پر نظر رکھیں، غور کرتے رہیں۔ عوام کے لئے جو چیز ضروری ہے، جس کی فوری ضرورت ہے، جو ملک کے حقائق اور وسائل سے مطابقت رکھتی ہے اور جو چیز داخلی قوت میں اضافے کا باعث بننے والی ہے، اسے نعروں میں شامل کرنا چاہئے۔ یہ بھی ایک معیار ہے۔
بہت سے افراد آئے ہیں۔ انشاء اللہ قابل احترام ادارہ 'نگراں کونسل' اپنے قانونی فریضے کے مطابق عمل کرتے ہوئے ان لوگوں کو عوام کے سامنے پیش کرےگا۔ سب کو قانون کے سامنے سر تعظیم خم کرنا ہے۔ ساری مشکل وہیں پیدا ہوتی جہاں قانون کی خلاف ورزی ہونے لگتی ہے۔ سنہ 2009 میں ملک کو جو نقصان پہنچا اور جس طرح عوام چار کروڑ رائے دہندگان کی انتخابات میں شرکت کی لذت سے محظوظ ہونے سے محروم ہو گئے اس کی وجہ قانون کی خلاف ورزی تھی۔ کچھ لوگوں نے ذاتی مفادات کے لئے یا سیاسی اہداف کے لئے یا پھر کسی اور وجہ سے جس کے بارے میں، میں کوئي رائے قائم نہیں کرنا چاہتا، قانون کی خلاف ورزی کی، بہت بڑی غلطی کی، غیر قانونی راستے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی، اس طرح انہوں نے خود اپنی ذات کو بھی نقصان پہنچایا، قوم کو بھی نقصان پہنچایا اور ملک کو بھی نقصان پہنچایا۔ صحیح راستہ، قانون کا راستہ ہے۔ سب کو قانون کا تابع رہنا چاہئے، قانون کی بالادستی تسلیم کرنا چاہئے۔ ممکن ہے کہ کوئی قانون سو فیصدی صحیح نہ ہو لیکن وہ بھی لا قانونیت سے بہتر ہے۔ کبھی ممکن ہے کہ قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے سے کسی موڑ پر کوئی غلطی ہو جائے، ہم اور آپ سمجھ جائیں کہ اس سے فلاں جگہ قانون پر عملدرآمد کرنے میں غلطی ہوئی ہے، لیکن اگر ہمارے پاس قانونی طریقے سے اس غلطی کا تدارک کرنے کا راستہ موجود نہیں ہے تو اس صورت حال کو برداشت کر لینا، غیر قانونی اقدامات پر تل جانے سے بہتر ہے۔ برداشت کر لینا اس سے بہتر ہے کہ ہم غیر قانونی راستے سے اس چیز کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں جو ہماری نظر میں غلط ہے۔ قانون سب سے اچھی کسوٹی اور معیار ہے، قانون ملک کی آسائش و سکون کا ذریعہ ہے، قومی اتحاد کی حفاظت اور عمومی زندگی کو رواں دواں رکھنے کا وسیلہ ہے۔
محترم شورائے نگہبان (نگراں کونسل) میں انتہائی پرہیزگار، متقی اور با صلاحیت افراد ہیں۔ وہ قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو جو صاحب لیاقت ہیں، عوام کے سامنے مناسب امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اب ہمیں اور آپ کو دیکھنا اور پرکھنا ہے کہ ان میں کون سا امیدوار سب سے زیادہ موزوں اور با صلاحیت ہے۔ کون ہے جو عوام کے کام بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے، کون سا امیدوار اس سنگین ذمہ داری کو بہتر طریقے سے نبھا سکتا ہے، کون ہے جو پوری ایمانداری کے ساتھ ملک کو اس راستے پر آگے لے جا سکتا ہے۔ ہمیں اور آپ کو غور کرکے اسے سمجھنا اور تشخیص دینا ہے۔ ہمیں چاہئے کے اس جائزے اور تشخیص کے عمل میں ان لوگوں کی مدد لیں جو باخبر ہیں اور ہماری رہنمائی اور مدد کر سکتے ہیں۔ تا کہ ہم اپنے اس شرعی فریضے سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ انسان اگر شرعی ذمہ داری کو مد نظر رکھ کر کام کرے تو اگر بعد میں اس کی تشخیص غلط ثابت ہوئی تب بھی وہ سربلند ہی رہے گا۔ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے اپنے فریضے پر عمل کیا تھا۔ لیکن اگر کسی نے اپنی شرعی ذمہ داری کے مطابق کام نہ کیا اور اس کی تشخیص غلط ہوئی تو پھر اس کے پاس کوئی عذر نہیں رہے گا، کوئي دلیل نہیں ہوگی اور اپنے آپ کو ملامت کرنے پر مجبور ہوگا۔
البتہ مجھے بہت بھروسہ ہے، اللہ کی ذات پر مجھے پورا بھروسہ ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے کبھی یہ امید اور یہ بھروسہ کم نہیں ہونے دیا، امید کے دریچے کبھی بند نہیں ہونے دئے۔ ملک کے حالات کو دیکھئے تو روز بروز اس قوم کے مستقبل اور اس ملک کے مستقبل کے تئیں اور اس ملک نے جو راستہ اختیار کیا ہے اس کے تئیں بھروسہ اور امید میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ صاحب ایمان عوام، بلند ہمت عوام اور یہ پرجوش نوجوان مختلف میدانوں میں سرگرم عمل ہیں انہیں دیکھ کر انسان کی امید مسلسل بڑھتی جاتی ہے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ فضل الہی ہم سب کے شامل حال رہے، حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کی دعائیں ہمارے شامل حال رہیں۔ خاص طور پر ہمارے سامنے جو اہم امتحان اور آزمائش ہے اس میں امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں اور اللہ کی ہدایت ہم سب کو نصیب ہو۔ جو کچھ اس ملک کی بھلائی میں ہے وہی آپ عوام کے ہاتھوں انجام پائے۔
والسّلام عليكم و رحمة اللّه و بركاته‌
1) مصباح المتهجد، ج 1، ص 305
2) جاثيه: 29
3) وسائل‌الشيعه، ج 15، ص 188؛ «انّ من اخلاق المؤمنين ... رهبان اللّيل اسد بالنّهار»
4) حديد: 27
5) مستدرك‌الوسائل، ج 11، ص 14
6) محمد: 7
7) حج: 40
8) فصلت: 30