1392/05/18 ہجری شمسی 09-08-2013عیسوی برابر / شوال سنہ 1434 ہجری قمری کو عید الفطر کے مبارک موقعے پر ملاقات کے لئے آنے والے اعلی سول اور فوجی حکام، تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفیروں اور عوام کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسلمانوں کے درمیان ایمان او اتحاد کو پائیدار بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے بعض اسلامی ملکوں پر باہر سے مسلط کئے جانے والے اختلافات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایمان و اتحاد کو دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں قوموں کی استقامت و پائیداری کا اہم عنصر قرار دیا۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یہ بات زور دیکر کہی کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم اور مسلمانوں کے ایمان و اتحاد کی وجہ سے اختلافات کے زہر آلود تیر ملت ایران کے جسم میں کبھی پیوست نہیں ہو سکے اور یہ قوم اللہ تعالی پر بھروسے اور اس کے وعدوں کے پورے ہونے کی امید کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرتی چلی آ رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے بعض اسلامی ملکوں میں پیش آنے والی عظیم مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مشکلات زیادہ تر اغیار کی جانب سے انجیکٹ اور مسلط کی گئی ہیں اور ان بحرانوں اور اختلافات سے نجات کا راستہ یہ ہے کہ یہ قومیں اپنے دانشوروں، نظریہ پردازوں اور اہل دانش افراد کی ہدایات کی روشنی میں فیصلے کریں اور بیرونی طاقتوں کی مخاصمانہ مداخلت اور عوام کے درمیان نفاق اور اختلافات پیدا کرنے کی کوششوں کا راستہ روک دیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

دنیا کے محتلف خطوں میں آباد امت اسلامیہ کو، عظیم و شجاع ملت ایران کو جس نے مختلف میدانوں میں ہدایت و نعمت الہی سے بہرہ مند ہونے کی لیاقت و اہلیت بار بار ثابت کی ہے، اسی طرح آپ حاضرین محترم کو، ملک کے قابل فحر حکام، تمام مہمانوں، اسلامی ممالک کے سفیروں کو عید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ملت ایران کو حقیقی معنی میں برکتوں سے سرشار ماہ رمضان کے لمحات سے بہرہ مند ہونے پر بھی مبارکباد پیش کرنا چاہئے۔ ایران کے عوام نے اس مہینے میں واجب اور مستحب اعمال انجام دیکر خود کو نزول و حصول رحمت پروردگار کا اہل بنایا۔ ان لمبے اور تپتے ہوئے دنوں میں روزہ رکھنا، ان راتوں کا ذکر و عبادت و دعا و مناجات کی سرگوشیوں سے معمور ہو جانا، ملک بھر میں تلاوت کلام پاک کی یہ نشستیں جن میں عوام اور خاص طور پر نوجوان اور بچے شریک ہوئے اور انہوں نے قران کریم سے اپنے گہرے انس اور لگاؤ کا مظاہرہ کیا۔ یہ شبہائے قدر اور ان شبوں میں تشکیل پانے والی پرمغز اور بامعنی نشستیں اور اجتماعات اور ان میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی شرکت، مختلف پیشوں، مزاج اور وضع قطع کے لوگوں کا ان شبوں میں ذکر و دعا و توسل کے محور (یعنی ذات حق تعالی) کے خیال میں کھو جانا، یہ سب بڑی عظیم اور باارزش چیزیں ہیں۔ ہمارے ملک میں ذکر و دعا و مناجات کا جو ماحول ہے اس کی ہمیں قدر کرنا چاہئے۔ سال کے مختلف اوقات میں اور خاص طور پر ماہ رمضان المبارک اور شبہائے قدر میں نیز اس طرح کی دیگر مناسبتوں کے وقت یہ ماحول اور جذبہ زیادہ نمایاں ہوکر نظر آتا ہے۔
میں ان ایام کی اسی عظمت کی مناسبت سے اور ذکر و یاد الہی کی بے پناہ قدر و قیمت کی بنیاد پر ملک کے محترم حکام سے، جو ملک کے اہم عہدے سنبھالنے والے تازہ دم افراد ہیں اور انشاء اللہ وہ ثبات قدم کے ساتھ اور عزم و ارادے کے ساتھ اپنا کام شروع کریں گے، یہ سفارش کرنا چاہوں گا کہ اس دشوار راستے پر اپنے سفر میں اللہ کی بارگاہ میں ذکر و مناجات و توسل کے ہتھیار کی مدد لیں اور اللہ کی ذات پر اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں۔ «يا من لا يجبه بالرّدّ اهل الدّالّة عليه»(۱) عید الفطر کے دن کے لئے صحیفہ سجادیہ میں جو دعا وارد ہوئی ہے اس میں ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ سے ہمکلام ہوتے وقت گستاخانہ انداز میں اپنی بات کہتے ہیں، اللہ تعالی اپنی رحمت ان کے بھی شامل حال رکھتا ہے۔ اللہ کی رحمت واسعہ سے وہ سارے لوگ بہرہ مند ہوتے ہیں جو اس کے خواہاں اور طلبگار ہوں۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہم اللہ سے رہنمائی اور ہدایت کی دعا مانگیں، رحمت پروردگار کے لئے دست بدعا ہوں، اس کی تمنا کریں تا کہ وہ ہمیں حاصل ہو۔
ملک کے تمام حکام اور خاص طور پر اعلی رتبہ حکام اللہ تعالی کی ذات پر توجہ دیں، اس کی بارگاہ تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کریں۔ بڑے کام، اہم فرائض، عوام الناس کے حقوق ایسی ذمہ داری ہے جو ان کے دوش پر ہے۔ اللہ کی مدد و نصرت سے ان ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے اوپر نصرت الہی کا دروازہ وا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر ہمارے سامنے ایسی کوئی مشکل نہیں ہوگی جو لا ینحل ہو۔ اللہ سے آس لگائیے، اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کام انجام دیجئے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ تساہلی برتی جائے اور کوئی کام نہ کیا جائے لیکن اس کے باوجود رحمت پروردگار کی آس لگائی جائے۔ ہدایت الہی، نصرت الہی اور لطف الہی کا دروازہ اس وقت وا ہوتا ہے جب ہم اپنے وجود کی گہرائیوں اور اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ میدان میں اتریں، البتہ ہماری یہ توانائیاں بھی ہمیں اللہ تعالی سے ہی حاصل ہوئی ہیں۔ ہمیں فکر و تدبر سے، جسمانی توانائی سے، اپنی صلاحیتوں سے، ملک کی عظیم افرادی قوت سے اور تمام دستیاب چیزوں سے استفادہ کرنا ہوگا تب اللہ تعالی ہم پر اپنے لطف و فضل کا سایہ کرے گا۔
بہت سے افراد ایسے بھی نظر آئے جو بعض مواقع پر ملک کے مستقبل کی جانب سے مایوس ہو گئے۔ ہم نے ان تین عشروں سے زیادہ کی مدت میں بہت سی مثالیں دیکھیں، کچھ افراد ایسے تھے جو کوتاہ بیں تھے یا اللہ کی نصرت پر ان کا یقین کمزور تھا یا انہیں اللہ کے وعدوں کے سلسلے میں حسن ظن نہیں تھا۔ بعض مواقع ایسے آتے ہیں جب «و زلزلوا حتّى يقول الرّسول و الّذين ءامنوا معه متى نصر الله»؛(۲) تاریخ میں بھی اس کی مثالیں ہیں۔ ایسے ہی مواقع پر اللہ تعالی نے اپنی نصرت نازل فرمائی ہے۔ آج آپ دیکھئے! ہماری قوم، ہمارا ملک ماضی کے تمام ادوار کی نسبت زیادہ آگے ہے۔ پیشرفت اور ترقی ملت ایران کی پیش قدمی کی لازمی صفت بن گئی ہے۔ ملت ایران روز افزوں ترقی کر رہی ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا، شرط یہ ہے کہ ہم اللہ سے اپنا رابطہ مستحکم رکھیں۔
آج عالم اسلام بڑے مسائل میں دوچار ہے۔ ہمارا ملک ایسے علاقے میں واقع ہے کہ جہاں گرد و پیش کے کئی ملکوں میں گوناگوں مشکلات موجود ہیں جن میں بیشتر مشکلات باہر سے اور اغیار کی جانب سے مسلط اور انجیکٹ کی گئی ہیں۔ یہ طے ہے کہ آج مغربی ایشیا اور شمالی افریقا میں جو واقعات رونما ہو رہے ہیں، اگر اغیار کی مداخلتیں نہ ہوتیں، اگر بڑی طاقتوں کی مفاد پرستانہ پالیسیاں نہ ہوتیں تو حالات اتنے پیچیدہ نہ ہوتے۔ چنانچہ اس کا حل یہ ہے کہ قومیں اپنے امور کے فیصلے خود کریں، اغیار مداخلت بند کریں، دخل اندازی چھوڑ دیں۔ ہمارے اس خطے میں جو حوادث رونما ہو رہے ہیں ان کا واحد حل یہی ہے۔ مصر کا یہی حال ہے، لیبیا کا یہی حال ہے، شام کا بھی یہی حال ہے۔ قومیں اپنے دانشوروں کی مدد سے اپنے رہنماؤں، پیشواؤں کی مدد سے اور اپنے اہل نظر اور اہل فکر افراد کی رہنمائی سے نجات کا راستہ تلاش کر سکتی ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ بیرونی طاقتیں اور اغیار ان کے اندر نفاق و اختلاف کے شعلے نہ بھڑکائیں اور ان میں تنازعہ نہ پھیلائيں۔
فضل پروردگار سے ملت ایران نے اللہ کی نصرت و مدد سے اور اپنے جذبہ ایمانی کی قوت اور اتحاد و یکجہتی کی نعمت سے جو دین اسلام کی برکت سے انہیں حاصل ہوئی ہے اپنا راستہ طے کیا ہے اور آئندہ بھی یہ قوم اسی انداز سے پیش قدمی کرے گی۔
جو سازشیں دیگر ملکوں میں ہوئیں وہ ہمارے ملک میں بے اثر ہو گئیں۔ دیگر ممالک میں لوگوں کو مذہب کے نام پر دست و گریباں کر دیا گیا، قومیت کے نام پر لوگوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا گيا یا جماعتی بنیاد پر انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا گیا، ان خطرناک اور زہرآلود ہتھیاروں میں سے کوئی بھی اسلامی جمہوریہ ایران میں کارگر نہیں رہا۔ ایران میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ، مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اور مختلف سیاسی جماعتوں اور رجحانات سے تعلق رکھنے والے افراد بنیادی مسائل میں مکمل ہم آہنگی اور اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
ملک کے حکام، سیاسی رہنماؤں، نمایاں اور ممتاز مذہبی شخصیات اور افراد سے جو عوام کے درمیان اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں، مقبولت رکھتے ہیں، میری سفارش یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ملت ایران کے اس اتحاد و ہمدلی کو محور قرار دیں، اللہ پر ایمان اور باہمی اتحاد ایسی دو نعمتیں ہیں جو ملکوں کو اور قوموں کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں کامیاب کر سکتی ہیں، ان کے اندر استقامت و مزاحمت کی طاقت پیدا کر سکتی ہیں۔ ملت ایران بحمد اللہ ان دونوں خصوصیتوں سے آراستہ ہے۔ کاش دیگر ممالک میں بھی سیاسی رہنما اور علمی شخصیات اس نکتے پر خصوصی توجہ دیتے اور علاقے کے ملکوں کو در پیش مسائل کا حکمت و تدبر کے ساتھ ازالہ کرنے کی کوشش کرتے۔
ہمیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرنا چاہئے کہ امت اسلامیہ کو پائیدار و سرفراز رکھے! پالنے والے محمد و آل محمد کے صدقے میں دنیا بھر میں امت اسلامیہ پر اپنی رحمت کا سایہ قائم رکھ۔ پالنے والے! اسلامی ملکوں کے عوام کی زندگیوں کو اغیار کی دست برد سے محفوظ فرما!

 

و السّلام عليكم و رحمة الله و بركاته‌

۱) صحيفه‌ى سجاديه، دعا نمبر ۴۶
۲) بقره: ۲۱۴