قائد انقلاب اسلامی کے دفتر کے سربراہ حجت الاسلام محمدی گلپایگانی نے حکم توثیق پڑھ کرسنایا جس کے بعد ڈاکٹر حسن روحانی نے باضابطہ طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے گيارھویں صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکم توثیق پڑھے جانے کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران کا اسلامی نظام ایک کامیاب دینی جمہوری نظام ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منتخب صدر ڈاکٹرحسن روحانی کے عھدہ صدارت کی توثیق کے حکم میں فرمایا کہ ملت ایران نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل عوامی حکومت کا تجربہ نہیں کیا تھا جبکہ دینی جمہوریت اور اسلامی جمہوریہ ایران میں عوام تمام مسائل میں کلیدی کردار کے حامل ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے خلاف دشمنوں کی پابندیوں کے بارے میں فرمایا کہ پابندیوں کے دوران ملت ایران اور حکام نے گراں قدر تجربے حاصل کئے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پابندیاں ایسا سبق ہیں جو ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ملک کی ترقی کے لئے ملک کی داخلی توانائیوں پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ مغربی ممالک ایران کی علمی اور سائنسی پیشرفت کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالمی یوم قدس کے جلوسوں میں عوام کی بھرپور شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایرانی عوام نے جمعہ کے دن پوری دنیا کو اپنی استقامت سے آگاہ کر دیا اور صیہونی حکومت کے بارے میں اپنا موقف بھی دو ٹوک انداز میں بیان کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتخابات میں عوام کی وسیع شرکت ملت ایران کے سیاسی شعور اور فکری بلوغ کی علامت اور اسلامی انقلاب سے وفاداری، اسلامی نظام پر اعتماد اور شجاع علمائے دین کی صنف پر عوامی بھروسے کا آئينہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

بڑی با شکوہ اور انتہائی اہمیت کی حامل نششت اور بڑا ہی با برکت دن ہے۔ مقدس اسلامی جمہوری نظام میں اجرائی اقتدار پروقار انداز میں، پرسکون انداز میں، پاکیزہ و دوستانہ ماحول میں اسلامی نظام کے خدمت کاروں کے درمیان ایک سے دوسرے کو منتقل ہو رہا ہے، یہ بہت گراں قدر اور اہم عمل ہے۔ یہ اس اسلامی جمہوریت کا ثمرہ ہے جسے ہمارے عظیم الشان امام خمینی نے اپنی خاص مدبرانہ صلاحیتوں اور دور اندیشی کے ذریعے ہمارے نظام کی بنیاد قرار دیا تھا۔ امور عوام کے ہاتھ میں ہیں، انتخاب کا حق عوام کے پاس ہے، جملہ امور اور اقدامات کا محور ہمارا پیارا دین اسلام ہے، یہی اسلامی جمہوریت ہے۔
اسلامی انقلاب کی فتح سے قبل تک ہمارے عوام کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ عوامی اقتدار کیا ہوتا ہے۔ ایران میں آئینی انقلاب کے اعلان سے لیکر اسلامی انقلاب کی فتح تک پچہتر سال کا طویل عرصہ گزرا۔ ان پچہتر برسوں میں پچپن سال تک پہلوی خاندان کی آمرانہ حکومت رہی، جو انتہائی بے رحم اور دنیا کی بڑی طاقتوں کی غلام حکومت تھی۔ ان پچپن برسوں میں تمام امور مملکت کی باگڈور ایسے افراد کے ہاتھوں میں رہی جنہیں اس قوم کی تقدیر اور مستقبل سے کوئی دلچسپی تھی نہ اس قوم کے مفادات سے ذرہ برابر لگاؤ تھا، نہ انہیں وطن عزیز کے شکوہ و وقار کی کوئی فکر تھی اور نہ شان و عظمت و جلالت سے کچھ لینا دینا تھا۔ وہ تو بس اپنے ذاتی مفادات اور اپنے آقاؤں کے مفادات کے پاسباں و محافظ تھے۔ اس سے پہلے کے بیس سال کے دوران ملک نراجیت اور لاقانونیت کی نذر ہوکر رہ گیا تھا۔ یعنی آئینی انقلاب کے آغاز سے لیکر اسلامی انقلاب کی فتح تک کے پورے عرصے میں صرف دو سال کا وقت ایسا گزرا جس میں ایک کمزور قومی حکومت تشکیل پائی، وہ بھی امریکا اور برطانیہ کی مشترکہ سازش کے نتیجے میں ختم ہو گئی۔ باقی پورا یہ طویل عرصہ وطن عزیز نے استبداد اور آمریت کی زنجیر میں جکڑے ہوئے گزارا۔
جمہوریت کی لذت عوام کو اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے بعد محسوس کرنے کا موقعہ ملا۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے وقت سے لیکر اب تک تمام اہم مسائل میں، ملک کی تمام اہم ذمہ داریوں میں، عوام نے کلیدی رول ادا کیا۔ گیارہ دفعہ صدارتی انتخابات، نو دفعہ پارلیمانی انتخابات، کئی دفعہ ماہرین کی کونسل اور بلدیاتی کونسلوں کے انتخابات۔ یعنی ان چونتیس برسوں میں ہر سال اوسطا ایک الیکشن ہوا ہے۔ عوام کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ملک کی تقدیر، ملک کے انتظامی امور اور منصوبہ سازی کا عمل، در حقیقت ان کے ہاتھوں انجام پا رہے ہیں، فیصلہ کرنے کے عمل میں ان کی شراکت ہے، نظارت کے عمل میں ان کی شراکت ہے، اسی کو دینی جمہوریت کہتے ہیں۔ دینی جمہوری نظام کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ عوام اور حکام کا باہمی رابطہ قانونی اور رسمی رابطے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے بالاتر ان کے درمیان جذباتی اور ایمانی رشتہ بھی ہے جس کا سرچشمہ عوام کا عقیدہ، عوام کی دینی بصیرت اور انقلاب کے اصولوں اور بنیادوں کے تئیں عوام کی وفاداری و التزام ہے۔ دنیا میں ہمیں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی جہاں عوام سے حکام کا رشتہ اس انداز کا جذباتی و ایمانی رشتہ ہو اور بنیادی اصولوں سے اس طرح ان کے گہرے لگاؤ اور وابستگی کو ظاہر کرتا ہو۔ یہی رشتہ ہمارے حکام کی رہنمائی کرتا ہے۔ صدر محترم جنہوں نے آج رسمی طور پر صدارت کی انتہائی سنگین اور افتخار آمیز ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھائی ہے، اس نکتے پر توجہ رکھیں کہ عوام، وطن عزیز ایران کو اسلامی تعلیمات اور اسلامی تعریف پر استوار اور ایک حقیقی اسلامی ملک مانتے ہیں، اسی لئے ہمیشہ مدد کے لئے آمادہ رہتے ہیں۔ آپ غور کیجئے! کل اس ملک میں یوم قدس منایا گيا۔ کس نے لوگوں کو مجبور کیا کہ اس تمازت آفتاب میں، روزہ رکھے ہوئے تہران اور دیگر شہروں اور قریوں کی سڑکوں پر نکلیں اور ایک عقیدے اور نظرئے کی بنیاد پر نعرے لگائیں، اپنی استقامت و پائیداری کا اس انداز سے مظاہرہ کریں، اپنا موقف دو ٹوک انداز میں بیان کریں، مسئلہ فلسطین اور غاصب صیہونی حکومت کے بارے میں اپنا نظریہ بیان کریں؟ تجزیہ کاروں کا اس پر کیا تبصرہ ہے؟ اس عظیم واقعے اور اقدام کا کیا تجزیہ کیا جا سکتا ہے؟ یہ عمل ہر سال یوم قدس کے موقعے پر، گیارہ فروری (جشن انقلاب) کے موقعے پر دہرایا جاتا ہے۔ عوام پورے شوق و چاہت کے ساتھ میدان میں آتے ہیں، تمام طبقات اور تمام اصناف سے تعلق رکھنے والے پیر و جواں اور بچے، مرد و زن سب، ملک کے گوشے گوشے میں سڑکوں پر نکل کر ملک کے بنیادی مسائل کے بارے میں اپنے موقف کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ یہی جذبہ ایمانی ہے، یہی ایمانی رشتہ ہے۔ کوئی بھی حکم نامہ اور کوئی بھی مادی ترغیب عوام الناس کو اس طرح میدان میں نہیں لا سکتی۔ الیکشن میں شاندار شرکت بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ اس سال کے پرشکوہ صدارتی انتخابات کو دیکھئے، اسی طرح گزشتہ صدارتی انتخابات کا پرشکوہ انعقاد عوام کے ہاتھوں سے انجام پایا۔ کیونکہ ان کے اندر فرض شناسی کا جذبہ ہے، ذمہ داری کا احساس ہے۔ جذبہ ایمانی اور فریضہ دینی کا احساس انہیں سیاسی میدان میں اور سماجی میدان میں لاتا ہے۔ یہ اسلامی جمہوریت کا طرہ امتیاز ہے۔ ہمارے لئے یہ شاہراہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے تعمیر کی اور ملک کے عوام نے بھرپور وفاداری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے تا حال اسی راستے پر پیش قدمی کی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی اسی شاہراہ پر ان کا سفر جاری رہے گا۔
حکام کا فریضہ بہت سخت اور سنگین ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کے اندر کوئی منصب قبول کرنے کا مطلب اقتدار سے محظوظ ہونا نہیں ہے، اس کا مطلب ہے عوام کی خدمت کے بوجھ کو اپنے دوش پر اٹھانا، زحمتوں کو بخوشی قبول کرنا۔ اسلامی جمہوری نظام میں عہدہ اور منصب سنبھالنے کا یہ مطلب ہوتا ہے۔ حکام کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ عوام الناس کی مشکلات کا ازالہ کریں، ملک کو اس کے اہداف کے قریب پہنچائیں۔ بحمد اللہ ملک کے اندر بے پناہ صلاحیتیں اور توانائیاں موجود ہیں۔ ماضی میں لوگوں نے جو زحمتیں کی ہیں وہ وطن عزیز کی توانائیوں اور صلاحیتوں کا حصہ ہیں۔ ان توانائیوں اور صلاحیتوں سے محترم عہدیداروں کو بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ البتہ میں عوام کو بھی اور حکام کو بھی تحمل اور بردباری سے کام لینے کا مشورہ دوں گا۔ یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ جو مشکلات آج عوام کے سامنے ہیں، خواہ وہ اقتصادی شعبے کی مشکلات ہوں یا دیگر شعبوں سے ان کا تعلق ہو، کوتاہ مدت میں حل نہیں ہوں گی۔ بیشک ہمیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرنا چاہئے پالنے والے ہمارے حکام کو یہ توفیق دے کہ جلد از جلد امور کو آگے لے جا سکیں، تاہم ملک کے بڑے کاموں کی ماہیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس کی انجام دہی کا عمل وقت کا متقاضی ہوتا ہے۔
منتخب صدر محترم اور کابینہ کے ارکان سے جنہیں انشاء اللہ جلد ہی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ مل جائے گا، میری گزارش یہ ہے کہ امور کو، عجلت پسندی سے اجتناب کرتے ہوئے تحمل کے ساتھ انجام دیں، ہر قدم پورے اطمینان اور اعتماد کے ساتھ اٹھائیں۔ ہر شعبے میں کام کے لئے میدان موجود ہے اور بڑے اہداف بھی سامنے ہیں، ملک کے اندر مسرت بخش علامات اور کاموں کے ثمرات کی کمی نہیں ہے۔ البتہ دشمن اس سلسلے میں پوری طرح معاندانہ روئے پر عمل کرتا ہے۔ صدر محترم نے ان پابندیوں اور دباؤ کی جانب اشارہ کیا جو ملت ایران کے دشمنوں کی جانب سے ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے، البتہ ان دشمنوں میں امریکا سرفہرست ہے۔ میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یقینا دشمن کی جانب سے پڑنے والے دباؤ کے نتیجے میں عوام کے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں لیکن اس سے ہمارے حکام اور ہمارے عوام کو گراں قدر تجربہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ اقتصادی دباؤ سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملا کہ جہاں تک ممکن ہو ہمیں اپنے داخلی وسائل کو تقویت پہنچانا ہے۔ حتی المقدور ہمیں اپنے داخلی سسٹم کو خود کفیل بنانا ہے، بیرونی دنیا سے اس کا انحصار ختم کرنا ہے۔ جو لوگ وطن عزیز کی داخلی توانائیوں اور وسائل کے بجائے بیرونی دنیا پر خود کو منحصر کر لیتے ہیں، جب ایسی کسی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں تو بے دست و پا ہو جاتے ہیں۔ ملت ایران کے اندر صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمیں اپنی داخلی ساخت اور وسائل کو مضبوط کرنا ہے۔ میں نے ملک کے اعلی حکام سے ملاقات میں بھی عرض کیا کہ سب سے پہلی مہم ہے اقتصادی اور علمی امور۔ ان پر پوری سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مسائل بھی بہت اہم ہیں۔ میں صدر محترم کی اس رائے کی حمایت کرتا ہوں جس میں انہوں نے گوناگوں عالمی مسائل، سیاسی مسائل، بین الاقوامی روابط سے متعلق مسائل وغیرہ کے سلسلے میں حکمت آمیز روش اختیار کرنے پر زور دیا۔ بے شک حکمت امیز اور دانشمندانہ روش اختیار کرنا چاہئے۔ البتہ ہمارے کچھ ایسے دشمن ہیں جو عقل و منطق کی زبان نہیں سمجھتے۔ تاہم ہمارا فریضہ یہ ہے کہ پوری مضبوطی کے ساتھ اور اسلامی جمہوریہ کے اعلی اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم آگے بڑھیں اور ہمیں اپنے ہر قدم کی باریکیوں کا پورا علم ہو، اہداف ہماری نگاہوں میں واضح ہوں، ہم ان اہداف کو مد نظر رکھیں اور انہیں حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ صدر محترم نے بالکل بجا فرمایا کہ 'امت وسط' یعنی اعتدال پسند ہونا اسلامی معاشرے کی شناخت کا جز ہے۔ «و كذالك جعلناكم امّة وسطا لتكونوا شهداء على النّاس و يكون الرّسول عليكم شهيدا».(۱) میانہ روی کا راستہ اسلام کا راستہ ہے۔ ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اسلام ہمیں کیا حکم دیتا ہے، اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے۔ کامیابی کا راستہ یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ رضائے پروردگار حاصل کرنے اور اپنے فرائض کو انجام دینے کے لئے مصروف عمل رہنا چاہئے۔ اللہ تعالی نے ہمارے لئے راستوں کا تعین فرما دیا ہے۔ اگر ہم ان راہوں سے گزرے، آگے بڑھے تو یقینا ہمیں کامیابی حاصل ہوگی۔ ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جب سے اسلامی انقلاب کامیاب ہوا ہے اسی دن سے کچھ دشمن ایسے موجود ہیں جنہوں نے صریحی طور پر اعلان دشمنی کیا۔ اعلانیہ طور پر کہا کہ ہم اس انقلاب کو مٹا دیں گے اور اسلامی جمہوری نظام کو معدوم کر دیں گے۔ اس دن سے لیکر آج تک کے اس چونتیس سال کے عرصے میں ان تمام تر دشمنیوں کے باوجود ملت ایران نے پیشرفت کی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ کی بنیادوں میں کوئی تزلزل پیدا نہیں کر سکے بلکہ وہ اسلامی جمہوری نظام کی تیز رفتار ترقی کا بھی سد باب کرنے میں ناکام رہے۔ آج ہم ایسے شعبوں میں خاصی ترقی کر چکے ہیں کہ انقلاب کے ابتدائی برسوں میں جن کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ الطاف الہیہ، نصرت خداوندی، بھرپور عوامی شراکت اور ان حکام کی انتھک محنتوں کا ثمرہ ہے جنہوں نے اس عرصے میں بلا وقفہ کام کیا ہے۔ اس ملک اور اس قوم کی کامیابی کا راستہ اسلام پر عمل آوری ہے، اسلامی اصولوں کی پابندی ہے، اسلامی اقدار پر پابندی ہے، امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ سے ملنے والی میراث، ان کی نصیحتوں، ہدایات اور روشن راستے کے تئیں مکمل التزام کا ثمرہ ہے۔ میں تمام محترم حکام سے گزارش کروں گا کہ ملک کی مشکلات کو برطرف کرنے کے تعلق سے اپنے باہمی تعاون کو پہلے سے زیادہ بڑھائیں۔ حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے مابین بھرپور تعاون ہو۔ عالم اسلام کے حالات، علاقے اور دنیا کے حالات بے حد پیچیدہ ہیں۔ پوری دنیا میں سیاسی حالات، اقتصادی حالات اور سیکورٹی کی صورت حال سب پر مشکلات کا سایہ ہے۔ ہمارے اپنے خطے میں لا تعداد مشکلات ہیں، اسلامی ممالک کی مشکلات اپنی جگہ، علاقے میں صیہونی حکومت کے وجود کی صورت میں مسلط بحران اپنی جگہ ہے جو پینسٹھ سال سے بے گناہ عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، فلسطین کے اصلی باشندوں کے خلاف لگاتار جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ یہ مشکلات پینسٹھ سال قبل کی نہیں بلکہ آج بھی موجود ہیں۔ لوگوں کے گھروں کو مسمار کرتے ہیں، باپ کی آغوش میں بچے کو قتل کر دیتے ہیں، نوجوان کو اس کے گھر سے گھسیٹتے ہوئے لے جاتے ہیں اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتے ہیں، لوگوں کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے برسوں جیل میں بند رکھتے ہیں، اگر کسی کو عدالت سے سزا ہوئی ہے تو سزا کی مدت گزر جانے کے بعد بھی رہا نہیں کرتے۔ یہ برتاؤ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اس سرزمین کے اصلی مالک ہیں۔ یہ جرائم نہیں ہیں؟ یہ مظالم نہیں ہیں؟ یہ اس علاقے میں رونما ہونے والے جرائم کا محض ایک پہلو ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ علاقے میں اس ظالم حکومت کو دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ ہیں ہمارے علاقے کے حالات۔
اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے روشن موقف کے ساتھ، بھرپور وسائل کے ساتھ، بہترین مستقبل کے واضح آثار کے ساتھ، بڑے کام انجام دینے ہیں۔ سب سے پہلے تو داخلی مشکلات کا ازالہ کرنا ہے۔ بڑی محنت ہوئی ہے۔ میں لازمی سمجھتا ہوں کہ جناب احمدی نژاد کی حکومت کا شکریہ ادار کروں ان وسیع خدمات اور اہم کاموں پر جو اس حکومت نے انجام دئے ہیں۔ ابھی اور بہت سے کام ہیں جنہیں حکام کو آئندہ انجام دینا ہے۔ ملک کی پیشرفت کا یہ سلسلہ، ملت ایران کی پیشرفت کا یہ سلسلہ، اسلامی جمہوری نظام کی پیشرفت کا یہ سلسلہ کسی بھی جگہ پر ٹھہرنے والا نہیں ہے۔ ان شاء اللہ توفیق خداوندی سے یہ سارے کام انجام پائیں گے۔
جناب روحانی صاحب جیسا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں اشارہ کیا، بہت پہلے سے مختلف شعبوں میں اسلامی نظام کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ خواہ وہ مقدس دفاع کا زمانہ ہو، پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم ہو یا قومی سلامتی کی سپریم کونسل کا ادارہ، ہر جگہ ان کے دوش پر کثرت سے ذمہ داریاں رہی ہیں۔ آپ نے یہ تمام خدمات انجام دیں۔ آج انہیں یہ افتخار حاصل ہے کہ عوام کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرکے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ان کی مدد فرمائے، ان کی ہدایت فرمائے، ان کی دست گیری کرے۔
سب کو چاہئے کہ ان سے بھرپور تعاون کریں۔ میں تمام سیاسی حلقوں سے درخواست کرتا ہوں، تاکید کرتا ہوں، اسی طرح تمام بااثر شخصیات سے گزارش کرتا ہوں جو عوام کے اندر اپنا اثر و نفوذ رکھتی ہیں کہ حکام، انتظامیہ اور صدر محترم کی بھرپور مدد کریں کہ وہ اپنے سنگین فرائض کو بنحو احسن انجام دیں اور جو توقعات عوام نے ان سے وابستہ کر رکھی ہیں ان پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ تمام حاضرین محترم کو، تمام ملت ایران کو، دنیا بھر میں ہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو اپنی توفیقات سے نوازے۔ مجھے امید ہے کہ رمضان کے اس مبارک مہینے میں برکات الہیہ ہم سب کے شامل حال رہیں گی اور ہمارے شہدا کی ارواح طیبہ اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی روح مطہر ہم سے راضی و خشنود ہوگی۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌

۱) بقره: ۱۴۳