16 شہریور 1392 ہجری شمسی مطابق آپ نے فرمایا کہ تمام حکام کو چاہئے کہ ہر فیصلے اور موقف میں تین عناصر یعنی بلند اہداف اور آرزوؤ، عمومی و کلی اسٹریٹیجی اور زمینی حقائق کو ضرور مد نظر رکھیں۔ آپ نے فرمایا کہ حکام کو چاہئے کہ دانشمندانہ طرز عمل اور مستقبل کے تئیں بھرپور امید کے ساتھ اسلامی نظام کے اندرونی ڈھانچے کی تقویت، مشکلات کے ازالے اور اصولوں کے تئیں مکمل التزام کی جانب حرکت کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے جملہ مسائل اور واقعات کا جامع اور ہمہ گیر نقطہ نگاہ سے جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ ایک اہم واقعہ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل ہے جو گردبادوں کے دور اور مادیت کی جانب بڑھنے والی دنیا میں اسلام کے اصولوں کی بنیاد پر رونما ہوا جو کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی فتح کے فورا بعد سے اسلامی نظام کے خلاف دشمنوں کے معاندانہ اقدامات کا سلسلہ شروع ہو جانے کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اس دشمنی کی اصلی وجہ اسلام ہے۔ 
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمارا یہ خیال ہے کہ امریکی، شام میں بہت بڑی بھول کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنے اوپر پڑنے والی ضرب کا احساس کریں گے اور یقینی طور پر نقصان اٹھائیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران کا اسلامی جمہوری نظام تیس سال سے جاری دشمنیوں اور سازشوں کا سامنا کرنے کے بعد موجودہ علاقائی حالات میں نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہوا بلکہ طاقت، اثر و نفوذ اور توانائیوں کے اعتبار سے بہت مضبوط ہو چکا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نطام کی تشکیل سے وابستہ حقائق اور تمام تر دشمنیوں اور معاندانہ محاذ بندیوں کے باوجود اس نظام کی طاقت میں روز افزوں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام حکام کو چاہئے کہ ہر فیصلے اور موقف میں تین چیزوں یعنی اہداف اور آرزوؤں، کلی اسٹریٹیجی اور زمینی حقائق کو ضرور مد نظر رکھیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بعض تلخ حقائق جو ہمارے راستے میں رکاوٹ کی طرح موجود ہیں ہماری پیش قدمی کو روکنے نہ پائیں بلکہ درست طرز فکر کے ساتھ ان رکاوٹوں کو دور یا ان کو عبور کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے پہلے عشرے میں عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بھی اسی روش کے مطابق عمل کیا، امام خمینی نے حقائق سے کبھی بھی منہ نہیں موڑا اور اصولوں پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی وہی ہستی ہیں جس نے فرمایا کہ صیہونی حکومت ایک سرطانی پھوڑا ہے جسے مٹا دیا جانا چاہئے اور آپ نے صیہونی حکومت کے مسئلے میں کبھی بھی تقیہ نہیں کیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:۔
بسم ‌اللَّه ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌

تمام محترم حضرات، علمائے کرام اور ملک بھر میں نمایاں مقام رکھنے والے علمائے دین کو جو یہاں تشریف فرما ہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔ حالانکہ آئین میں ماہرین کی کونسل (مجلس خبرگان) کا فریضہ طے شدہ فریضہ ہے لیکن اس کے باوجود اس نشست کا منعقد ہونا اور آپ حضرات کا جمع ہونا اس بات کا باعث بنا کہ ملک کے مختلف شعبوں کے بارے میں اور مختلف پہلوؤں کے بارے میں گوناگوں انداز سے بحث ہو۔ آپ حضرات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ محترم حکام بھی اجلاس میں تشریف فرما ہیں، خوش قسمتی سے صدر محترم اور بعض دیگر حکام بھی اس کونسل کے رکن ہیں، اس سے یہ امید بڑھ جاتی ہے کہ آپ حضرات کے خیالات پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا۔ ہم بھی جہاں تک ممکن ہے اور جہاں تک ہماری ذمہ اداری اور توانائی کا دائرہ ہے اس کے اندر رہتے ہوئے یہ کوشش کریں گے کہ جو چیزیں آپ حضرات کے پیش نظر ہیں ان کے سلسلے میں مدد کریں۔
یہ نکتہ بھی بیان کر دینا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اجلاس کے آغاز میں شہیدوں کی تشییع جنازہ کا جو عمل انجام پایا، یہ بڑا اہم اور بامعنی عمل تھا(2)۔ لوگ جب دیکھیں گے کہ محترم اور بزرگ شخصیات مجلس خبرگان کے سربراہ اور دیگر حضرات شہدا کے جنازے اور شہدا کے تابوت کا خاص احترام کر رہے ہیں، ان شہدا کا احترام کر رہے ہیں جنہیں وہ پہچانتے نہیں بلکہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ شہدائے راہ انقلاب ہیں، یہ شہدائے راہ حق ہیں، ان کی تشییع جنازہ میں شرکت کر رہے ہیں تو یہ ہمارے معاشرے کے لئے ایک اہم درس ہوگا۔ میں یہ عرض کروں گا کہ ہمارے ملک کو اور ہمارے معاشرے کو برسہا برس تک شہیدوں کی یادوں کو تازہ رکھنے اور شہیدوں کے راستے کو نمایاں رکھنے کی ضرورت ہے۔
میرے ذہن میں، آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے جو نکات ہیں ان میں ایک نکتہ تو یہی ہے کہ اسلامی نظام میں منصوبہ سازی اور فیصلے کرنے کے عمل میں الگ الگ سطح پر فائز ہم عہدیداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کے مختلف مسائل اور امور کا جامع اور طویل المیعاد نقطہ نگاہ کے ساتھ جائزہ لیں۔ ظاہر ہے کہ گوناگوں واقعات جو ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہیں رونما ہوتے ہیں، خواہ وہ علاقے کی سطح کے تغیرات ہوں یا عالمی سطح کی تبدیلیاں ہوں یا ملکی سطح پر رونما ہونے والے واقعات ہوں۔ اسلامی نظام اور اس نظام کے حکام اور اسے قائم رکھنے والے ستون کا درجہ رکھنے والے عہدیداروں کی عوام الناس کے تعلق سے کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ یعنی یہ مناسب نہیں ہے کہ کوئی واقعہ رونما ہو اور ہم اسی کی رو میں آکر کوئي اقدام کریں اور کوئی موقف اپنا لیں، یہ درست نہیں ہے۔ ایسا کرنے کا مطلب ہے اسلامی نظام کو کبھی کسی طرف اور کبھی کسی اور سمت میں گھسیٹنا۔ ضروری ہے کہ جملہ واقعات و تغیرات کے سلسلے میں جامع اور دوررس نظر اپنائی جائے۔ بحمد اللہ ملک میں ہمیشہ یہی انداز فکر حکمفرما رہا ہے۔ حکام اوائل انقلاب سے اب تک اس سے غافل نہیں رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہنا چاہئے اور گوناگوں واقعات کے سلسلے میں اسی روش کے مطابق ہمیں موقف اختیار کرنا ہوگا، واقعے کی ماہیت کو سمجھنا ہوگا۔
گوناگوں واقعات کے گردبادوں کے بیچ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل عمل میں آئی، یہ بات بارہا کہی جا چکی ہے لیکن ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وہ نظام جس کا نعرہ عوام الناس کی زندگی میں، معاشرے اور ملک میں دین خدا کا نفاذ ہو، جس کا نعرہ سماجی زندگی کو شریعت خداوندی، دین الہی، اور اصول و اقدار ملکوتی کے مطابق ڈھالنا ہو، ایسے نظام کا اس دنیا میں معرض وجود میں آنا جو دو تین صدیوں سے تیزی کے ساتھ مادہ پرستی کی جانب بڑھتی رہی ہے، کسی معجزے سے کم نہں ہے، یہ ایک معجزہ ہوا ہے۔
اسلامی نظام کی تشکیل کے وقت سے ہی اسلام کو تکیہ گاہ بنانے کی مخالفت شروع ہو گئی۔ صرف یہ نہ کہیں کہ ملک کی خود مختاری یا استکباری نظام کے خلاف محاذ آرائی کی پالیسی ان کی دشمنی کا سبب بنی، بیشک اصلی اور حقیقی سبب یہی ہے لیکن جہاں تک استکبار سے مقابلے کا تعلق ہے تو اس کا درس ہمیں اسلام سے ملا ہے، ہماری جمہوریت کا سرچشمہ اسلام ہے، بارہا یہ بات بھی عرض کی جا چکی ہے کہ جب ہم دینی جمہوریت کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جمہوریت اور دین کے دو الگ الگ مفاہیم کو آپس میں ضم کرکے یہ نیا مرکب مفہوم اخذ کیا گيا ہے۔ ہماری جمہوریت کا سرچشمہ دین ہے، ہمیں اسلام نے یہ راستہ دکھایا ہے، اسلام کی رہنمائی کی برکت سے ہم اسلامی جمہوری نظام تک پہنچے ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہے گا۔ ساری دشمنیاں اسلام پر مرکوز ہیں، اگر اس نظام سے اسلام کو الگ کر دیا جائے، حذف کر دیا جائے تو ظاہر ہے کہ جو چیز اس اسلام سے نکلی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی یا بہت کمزور ہو جائے گی، پھیکی پڑ جائے گی۔ مسائل کا اس زاویہ فکر سے جائزہ لینا چاہئے۔ دنیا میں کئی محاذ آرائیاں ہیں اور بہت سی محاذ آرائیوں میں ہم ایک فریق کی حیثیت رکھتے ہیں، ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمارا مد مقابل فریق کون ہے؟ کیا ہے؟ کیوں دشمنی اور عناد برت رہا ہے؟ اس کے مقابلے میں ہمیں استقامت و مزاحمت کیوں کرنا ہے؟ ان چیزوں کا وسیع النظری کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: اَفَمَن يَمشى مُكِبّاً عَلى‌ وَجهِهِ اَهدى‌ اَمَّن يَمشى سَوِيّاً عَلى‌ صِراطٍ مُستَقيم؛(۳) اس میں «سَوِيّاً عَلى صِراطٍ مُستَقيم» کا مطلب یہی ہے کہ آنکھیں کھلی رکھی جائیں، بصیرت و دانش سے کام لیا جائے، تمام پہلوؤں کو زیر غور لایا جائے اور دیکھا جائے کہ اصلی ہدف کیا ہے اور اس ہدف تک رسائی کا درست راستہ کیا ہے، اس راستے میں ہمارے سامنے آنے والے حقائق کیا ہے؟ ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں فیصلہ کرنا اور آگے بڑھنا ہے۔
آج آپ دیکھئے! ہمارے علاقے میں گوناگوں واقعات و تغیرات رونما ہو رہے ہیں۔ کئی سال سے تا حال استکباری نظام مغربی ایشیا کو اپنی جولان گاہ اور غارت گری کا مرکز بنائے ہوئے ہے۔ علاقے میں استکباری طاقتوں کی موجودگی اور ریشہ دوانیوں کے باوجود اسلامی بیداری کی لہر اٹھی۔ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اسلامی بیداری کی لہر ختم نہیں ہوئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بعض ممالک میں جو واقعات رونما ہو رہے ہیں ان کو دیکھ کر ہم یہ کہیں کہ اسلامی بیداری ختم ہو گئی۔ اسلامی بیداری کوئی خالص سیاسی واقعہ نہیں ہے، یہ کوئي کودتا یا اقتدار کی منتقلی کا عمل نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر ایک حکومت بنی اور دوسری حکومت نے آکر اس کا خاتمہ کر دیا۔ اسلامی بیداری در حقیقت ایک طرح کی آگاہی و شعور کی کیفیت ہے، اسلام پر استوار خود اعتمادی کی کیفیت ہے جو اسلامی معاشروں میں پیدا ہوئی ہے۔ شمالی افریقا میں خاص تقاضوں کے تحت، مصر میں، تیونس میں یا سوڈان میں کچھ واقعات و تغیرات ہوئے ہیں، دوسری جگہوں پر بھی اس کے لئے زمین ہموار ہے۔ ان واقعات کی بنیاد پر یہ سوچنا درست نہیں کہ اسلامی بیداری کی لہر مٹ چکی ہے۔ یہ ایک اٹل سچائی کی مانند معاشروں میں حالات کی ظاہری تہہ کے نیچے اب بھی متحرک ہے۔ لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ جس ملک میں اسلام پسندی اور اسلام نوازی کی بات ہوتی ہے، عوام اسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں جس کا رجحان اسلام کی جانب ہو، یہ اسلام کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان اور اسلام کی وسیع پذیرائی کی علامت ہے۔ بنابریں اسلامی بیداری کا واقعہ بڑا عظیم واقعہ ہے جو رونما ہو۔ استکبار کی تمام تر سازشوں اور کوششوں کو باوجود یہ تبدیلی رونما ہوکر رہی، حلانکہ سامراج کسی صورت اسے برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ دوسرے محاذ کی جانب سے رد عمل تو آئے گا۔ آج جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ دشمن محاذ کا رد عمل ہے، ہمارے خطے کے مشرقی حصے یعنی پاکستان اور افغانستان سے لیکر مغربی ایشیا کے آخری حصے یعنی شام اور لبنان تک، یہ رد عمل ہم دیکھ رہے ہیں۔ استکباری محاذ نے جس میں سب سے نمایاں امریکی حکومت ہے، اس نے اس علاقے میں اپنے کچھ مفادات معین کر رکھے ہیں، استکباری پالیسیوں اور عزائم کے تحت۔ یعنی انیسویں صدی کی اپنی استعماری پالیسیوں کے تحت، البتہ جدید شکل میں۔ اس وقت استکباری طاقتوں کی کوشش یہ ہے کہ اپنے انہی مفادات کے دائرے میں علاقے کے جملہ مسائل کو نمٹائیں۔ شام کا معاملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، بحرین کا قضیہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اس علاقے میں سامراجی طاقتوں کی موجودگی، جارحانہ اور توسیع پسندانہ ہے۔ اس کی مخالفت میں جو آواز بھی اٹھے اسے وہ کچل دینا چاہتے ہیں، البتہ بحمد اللہ اب تک وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے اور آئندہ بھی انہیں کامیابی نہیں ملے گی۔
یہ علاقہ دولت و ثروت سے مالامال ہے اور بڑا اہم اور حساس جغرافیائی اور قدرتی محل وقوع رکھتا ہے، ظاہر ہے اس علاقے پر ان کی حریصانہ نظروں کا مرکوز ہونا فطری ہے۔ ان کی نگاہیں گڑی ہوئی ہیں، اگر انسان ان کی باتوں اور ان کے اب تک کے عمل کا جائزہ لے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ اس علاقے کو ایسی شکل میں ڈھالیں کہ اس میں محوری حیثیت صیہونی حکومت کی ہو، یہ علاقہ ان کی جاگیر ہو جائے اور ان کی مطلق فرمانروائی ہو، وہ اس کوشش میں ہیں۔ آپ اسی شام کے مسئلے میں دیکھئے! انہوں نے حال ہی میں جو شگوفہ چھوڑا ہے، وہ کیمیائی ہتھیاروں کا مسئلہ ہے۔ وہ اپنی لفاظی اور چرب زبانی سے تو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انسان دوستی کے جذبے کے تحت وہ اس مسئلے میں دخل اندازی کرنا چاہتے ہیں، لیکن دنیا میں کون ہے جسے اس دعوے کا جھوٹ نہ معلوم ہو؟ یہ بات بالکل طے شدہ ہے کہ امریکی سیاستدانوں کے لئے جس چیز کی ذرہ برابر اہمیت و وقعت نہیں ہے وہ انسان دوستی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گوانتانامو جیل اور اس سے پیشتر عراق کے ابو غریب جیل میں کئی ہزار قیدیوں کو بغیر کسی چارج شیٹ کے صرف الزام اور شبے کی بنیاد پر برسوں قید رکھا، آج بھی کچھ لوگ جیل میں بند ہیں۔ کیا اسے انسان دوستی کہتے ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس علاقے میں عراق کے حلبچہ اور ہمارے ملک کے سردشت وغیرہ علاقوں پر صدام کی وسیع کیمیائی بمباری کو دیکھا اور 'ٹک ٹک دیدم دم نکشیدم' کے مصداق بنے رہے۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے تو اس مجرمانہ فعل میں مدد بھی کی۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ امریکیوں نے کیمیائی ہتھیار عراقی حکومت کو نہیں دئے بلکہ دیگر مغربی ملکوں نے دئے جن کے بارے میں مصدقہ اطلاعات ہمارے پاس ہیں تب بھی امریکیوں نے اپنی آنکھ سے یہ سب کچھ دیکھا، انہیں سب کچھ معلوم تھا لیکن مہر بلب رہے۔ یہ ہے ان کا انسان دوستانہ جذبہ۔ افغانستان میں اور پاکستان میں وہ شادی کی بارات پر گولیوں کی بوچھار کر دیتے ہیں، بہتوں کو ہلاک کر دیتے ہیں، عراق میں انہوں نے کئی لاکھ افراد کو مار ڈالا، آج بھی ان کے عناصر یہی مجرمانہ حرکتیں انجام دے رہے ہیں اور امریکا سانس تک نہیں لیتا۔ انسان دوستی کا مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں کوئی بھی امریکیوں کی بات کا یقین کر سکے۔ بہرحال وہ چرب زبانی کرتے ہیں، لفاظی کرتے ہیں، یہ باتیں کرتے ہیں تا کہ اپنے اقدامات کی توجیہ پیش کریں۔ البتہ ہمارا خیال یہ ہے کہ امریکی بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں، وہ اپنے اوپر پڑنے والی ضرب کا درد ضرور محسوس کریں گے، یقینی طور پر اس قضیئے میں وہ نقصان اٹھائیں گے، اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ہیں علاقے کے حالات۔
اسلامی جمہوری نظام جو حوادث کے گردباد کے بیچ معرض وجود میں آیا اور اس کے بعد برسوں سے مخالفتوں اور دشمنیوں کا سامنا کر رہا ہے اور نہ صرف یہ کہ وہ کمزور نہیں ہوا، کمرنگ نہیں ہوا بلکہ روز بروز زیادہ قوی تر ہوتا جا رہا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران پچیس سال اور تیس سال قبل کی صورت حال کے مقابلے میں طاقت و پیشرفت، اثر و نفوذ اور داخلی توانائیوں کے اعتبار سے بہت بدل چکا ہے، اس کے نعرے بڑے گہرے اور مستحکم نعرے ہیں۔ اس معجزنما اور کرشماتی ماضی کے ساتھ اور علاقے میں دشمن کی سازشوں کے پیش نظر اسلامی جمہوری نظام کو یقینا یہ علم ہے کہ اسے آگے کیا کرنا ہے۔ ہمارے خیال میں ہمارا فرضہ، ملک کے اعلی حکام کا فرضہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کا فرضہ یہ ہے کہ ان تین عناصر کو تمام فیصلوں اور اقدامات میں ضرور پیش نظر رکھیں۔ پہلا عنصر ہے اسلامی جمہوری نطام کے اہداف اور امنگیں، یہ اہداف اور اعلی مقاصد کبھی بھی بے توجہی کا شکار نہ ہونے پائیں، اسلامی جمہوری نظام کے اعلی مقاصد کا خلاصہ ہے اسلامی تمدن کی تشکیل۔ اسلامی تمدن یعنی ایسی فضا اور ماحول جس میں انسان روحانی اعتبار سے اور مادی اعتبار سے رشد و نمو کی منزلیں طے کر سکے اور ان مطلوبہ منزلوں تک پہنچ سکے جہاں پہنچانے کے لئے اللہ نے انسان کو خلق کیا ہے۔ اچھی زندگی گزارے، باوقار زندگی بسر کرے، معزز انسان ہو، صاحب اختیار انسان ہو، عزم و ارادے کا مالک ہو، خلاقانہ صلاحیتوں سے بہرہ مند ہو، عالم طبیعت میں کچھ تعمیری کام انجام دے۔ یہ ہے اسلامی تمدن جو اسلامی جمہوری نظام کا ہدف اور اسلامی جمہوریہ ایران کا نصب العین ہے۔
دوسرا اہم عنصر وہ راستے اور طریقے ہیں جو ہمیں ان اہداف اور اعلی مقاصد تک پہنچاتے ہیں۔ کلی اور عمومی حکمت عملی۔ اس حکمت عملی اور ان طریقوں کی شناخت حاصل کرنا چاہئے۔ اسلام پسندی پر تکیہ کرنا، مختلف معاملات میں خود کو ظالم یا مظلوم ہونے سے بچانا، یہ جو ارشاد ہوا کہ كُونا لِلظّالِمِ خَصماً و لِلمَظلُومِ عَوناً،(۴) یہ فریضہ ہے، یہ کلی حکمت عملی ہے۔ اسی طرح عوام الناس کے رائے پر تکیہ کرنے کی حکمت عملی۔ اسی طرح کے دوسرے طریقے ہیں۔ یہ دراز مدتی اور اساسی پالیسیاں اور حکمت عملی ہے جو اسلامی جمہوری نطام نے اپنے اہداف اور اعلی مقاصد، عمومی عمل، عمومی سعی و کوشش، عمومی ابتکار عمل، قومی اتحاد، وغیرہ تک رسائی کے لئے اپنائی ہے۔
تیسرا عنصر ہے زمینی حقیقت۔ حقائق کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ میں نے ماہ مبارک رمضان میں اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں اور کارکنوں کے اجلاس میں عرض کیا کہ ہم حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے امنگوں اور اعلی مقاصد کی تکمیل کو اپنا مطمح نظر قرار دینا چاہتے ہیں۔ حقائق کو بھی درست انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو حقائق ہماری قوت میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں انہیں بخوبی پہچاننا چاہئے، جو حقائق خامیوں اور نقائص کی نشاندہی کرتے ہیں انہیں بھی سمجھنا چاہئے، پیشرفت کے عمل میں رکاوٹ بننے والے حقائق کا بھی ادراک ہونا چاہئے، حقائق کو صحیح شکل اور انداز میں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ میں نے چند حقائق کا ذکر کیا، یہ ہمارے شیریں حقائق ہیں، صرف نقائص اور خامیوں کو نہیں دیکھنا چاہئے۔ بہترین دماغوں کی موجودگی، خلاقانہ صلاحیت رکھنے والے سرگرم عناصر کی موجودگی، نوجوان نسل میں وسیع پیمانے پر موجزن دینی و روحانی جذبات، دینی و اسلامی نعروں کا اصلی صورت میں باقی رہنا، علاقے اور دنیا میں ایران کا روز افزوں اثر و نفوذ، یہ حقائق ہمارے سامنے ہیں، ان حقائق کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ تلخ حقائق بھی ہیں، جیسے ایک انسان کی پوری زندگی تلخ و شیریں تغیرات و واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ شیریں حقائق کو سہارا بناکر اور انہیں تقویت پہنچا کر انسان کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ تلخ حقائق کا تدارک ہو یا ان پر قابو پایا جائے۔
ان تینوں عناصر کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ یعنی اعلی اہداف کو نگاہ سے دور نہ ہونے دیجئے، حکمت عملی کو نظر انداز نہیں نہ ہونے دیجئے اور حقائق کو بھی پیش نظر رکھئے۔ اگر ہم حقائق کو مد نظر نہیں رکھیں گے تو درست انداز میں پیشرفت نہیں کر سکیں گے، تاہم حقائق کا وجود ہمیں اپنے راستے سے ہرگز منحرف نہ کرنے پائے۔ یعنی اگر راستے میں کوئی چٹان موجود ہے اور ہم یہ دیکھ کر بیچ راستے سے لوٹ گئے تو ہم نے غلطی کی ہے، اسی طرح اگر انسان اس چٹان کو نظر انداز کرتے ہوئے بے جھجک آگے بڑھتا جائے تو یہ بھی غلطی ہے۔ لیکن اگر ہم نے دیکھا، اس چٹان کے گرد و پیش کا جائزہ لیا، غور کیا کہ اس چٹان کے پہلو سے کوئی راستہ نکالا جا سکتا ہے یا خود اس چٹان کو راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے تو یہ بالکل درست روش ہوگی، حقائق کے سلسلے میں درست طرز فکر ہوگا۔ یہ وہی روش ہے جسے ہمارے عظیم الشان امام خمینی نے اس انقلاب کے پہلے مرحلے یعنی شروع کے انتہائی فیصلہ کن اور بے حد حساس دس سال کے دوران آزمایا۔ امام خمینی نے حقائق سے کبھی چشم پوشی نہیں کی لیکن کبھی پسپائی کا راستہ بھی اختیار نہیں کیا، کبھی حکمت عملی کو فراموش نہیں کیا۔ آپ جائزہ لیجئے امام خمینی کی صورت حال، امام خمینی کی زندگی کا، امام خمینی کے نعروں کا، ہمارے عظیم الشان امام خمینی وہ انسان ہیں جنہوں نے صیہونی حکومت کے مسئلے میں کسی کے سامنے تقیہ اختیار نہیں کیا۔ صیہونی حکومت ایک سرطانی پھوڑا ہے اسے مٹا دیا جانا چاہئے، یہ امام خمینی کا جملہ ہے۔ امریکا کے سفارت خانے پر مسلم نوجوانوں، مسلم طلبہ کا حملہ اور امریکیوں کے جاسوسی کے آلات اور دستاویزات پر قبضہ، اسے امام خمینی نے 'انقلاب دوم' قرار دیا جو آپ کی نظر میں 'انقلاب اول' سے بھی زیادہ اہم تھا، یہ امام خمینی کا جملہ ہے۔ یہ امام خمینی کی باتیں ہے اور یہ امام خمینی کی روش ہے۔ جنگ کے سلسلے میں فرمایا کہ فتنہ کی بیخ کنی تک جنگ ہوگی، یہ امام خمینی کا جملہ ہے۔ اور لوگ کہتے تھے کہ 'فتح ملنے تک جنگ' لیکن امام خمینی کا جملہ تھا 'فتنے کی بیخ کنی تک جنگ'۔ اسی استقامت و پائیداری نے اس نظام کی بنیادوں کو استحکام بخشا۔
جو افراد اس راستے سے نابلد تھے اور انہوں نے اپنے ملک میں کسی اور انداز سے عمل کیا تھا، انہوں نے استکباری طاقتوں کا دل جیتنے کے لئے اپنے اصولوں کو خیرباد کہہ دیا، اپنے بنیادی نعروں کو بھی فراموش کر دیا، آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس حال کو پہنچے؟! یہ وہ لوگ ہیں کہ مثال کے طور پر اگر مصر میں اسرائیل کے خلاف جہاد کا نعرہ باقی رہتا، اگر وہ امریکا کے وعدوں اور اس کے مہروں کے بہکاوے میں نہ پڑتے تو یہ انجام نہ ہوتا، یقینی طور پر یہ نہ ہوتا کہ مصری قوم کو تیس سال تک ذلیل و خوار کرنے والا ڈکٹیٹر جیل سے رہا ہو جائے اور وہ لوگ جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے تھے انہیں سزائے موت سنائے جانے کے امکانات کی باتیں ہونے لگیں! یہ چیز ہرگز نہ ہوتی۔ جو لوگ میدان میں جمع ہو گئے اور انہی منتخب افراد کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے، اگر اصولی موقف اختیار کیا گیا ہوتا تو ان مخالفین کی نصف تعداد بلکہ ان کی اکثریت منتخب افراد کے ساتھ ہوتی، یہ ایسے لوگ نہیں تھے جو دشمن ہوں، مخالف رہے ہوں۔ انسان جب اصولی موقف سے پیچھے ہٹ جاتا ہے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ ان چیزوں کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے۔
جہاں تک مشکلات کا سوال ہے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، مشکلات ہمیشہ سے رہی ہیں، تمام ممالک میں مشکلات موجود ہیں، یعنی اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ فلاں ترقی یافتہ ملک میں، یا فلاں یورپی ملک میں، فلاں مغربی ملک میں، فلاں دولت مند ملک میں، فلاں بڑی آبادی والے ملک میں، فلاں کم آبادی والے ملک میں کوئی مشکل نہیں ہے تو یہ سوچ غلط ہے۔ مشکلات ہر جگہ ہیں۔ قوم کے جو کام ہوتے ہیں ان کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ مشکلات پیش آتی ہیں۔ حکام اور عہدیداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ مشکلات کا ازالہ کریں اور پیشرفت کا عمل جاری رکھیں۔ بعض افراد مشکلات کو دوسروں کی مدد سے، دوسروں کے سہارے سے، دوسروں کو رشوت دیکر، غیروں کے مقابلے میں ذلت و رسوائی اٹھا کر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ بعض دیگر افراد ایسا نہیں کرتے بلکہ مشکلات کو اپنے زور بازو سے، ملکی صلاحیت و توانائی سے حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہمیں نظام کے داخلی ڈھانچے کی تقویت کو اہمیت دینا چاہئے، سب سے اہم کام یہی ہے۔ ہمیں اپنے کو اندرونی طور پر مستحکم بنانا چاہئے۔ پختہ فکر اور دانشمندانہ و عاقلانہ نظر سے داخلی استحکام کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ علمی ترقی کے ذریعے، معیشت کے فروغ اور درست انتظامی اقدامات کے ذریعے یہ ہدف حاصل ہو سکتا ہے اور ہماری نظر میں یہ اقدامات ہمارے امکان میں ہیں۔
آج آپ دیکھئے! جب دشمن ہمارے آئل سیکٹر پر دباؤ ڈالتا ہے تو ہم مشکل میں پڑ جاتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ کے زمانے کے بعد اور جنگ ختم ہونے کے بعد سے تا حال ہم تیل پر اپنا انحصار کم نہیں کر سکے ہیں۔ اگر ہم تیل پر اپنا انحصار کم کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو آئل سیکٹر پر پڑنے والے دباؤ سے ہمارے لئے اتنی دشواریاں پیدا نہ ہوتیں۔ بنابرین ہمیں محاسبہ نفس کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے آپ کو اس بات کے لئے آمادہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی مشکلات کو خود اپنی توانائیوں سے حل کریں۔
اس وقت بحمد اللہ ایک تازہ دم حکومت تشکیل پائی ہے۔ موجودہ صورت حال میں یہ ایک مثبت پہلو ہے کہ تازہ دم حکومت نے باگڈور سنبھالی ہے، نئی فکر کے ساتھ، نئی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ، نئے نظریات کے ساتھ، ایسے افراد کے ساتھ جو توانائیوں سے آراستہ ہیں، کام کا آغاز کرنے کے لئے تیار ہیں، امور کو آگے لے جانے اور مذکورہ اہداف کی سمت پیش قدمی کے لئے آمادہ ہیں۔ صدر محترم اسلامی انقلاب کے مختلف شعبوں میں سرگرم رہنے والے تجربہ کار عالم دین ہیں۔ یہ بھی ایک اہم پہلو ہے۔ کام کا تقاضا یہ ہے کہ سب مدد کریں۔ میں اپنا فریضہ سمجھتا ہوں، ہم نے ہر حکومت کی مدد کی، تمام حکومتوں کی حمایت کی، اس حکومت کی بھی ہم یقینا مدد کریں گے اور حمایت کریں گے، دیگر عہدیدار اور حکام بھی ایسا ہی کریں گے۔ البتہ میری جانب سے حکومتوں کی مدد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان حکومتوں کے جملہ اقدامات اور کاموں سے ہم اتفاق رائے رکھتے تھے، ایسا نہیں ہے، مختلف ادوار میں الگ الگ حکومتیں رہیں، ہم نے ان سب کی حمایت کی، سب کے سلسلے میں ہمارے کچھ اعتراضات بھی رہتے تھے، لیکن ان اعتراضات کی وجہ سے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم حکومت کو 'غیر' سمجھیں اور حکومتوں سے تعاون اور ان کی مدد کرنا بند کر دیں جو لازمی امر ہے۔ حمایت اور مدد کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے، ہم دعا کرتے ہیں، سفارش کرتے ہیں، نصیحت کرتے ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے۔ 'النَّصيحَةُ لأَئِمَّة المُؤمِنين' (مومنین کے رہنماؤں کو نصحیت کرنا چاہئے) یعنی خیر خواہانہ باتیں اور تجاویز، اب ممکن ہے کہ خیر خواہانہ باتیں بعض اوقات تلخ اور تند بھی ہوں، کام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عہدیدار جنہیں تند و تیز تنقیدوں کا نشانہ بنایا جائے وہ اس پر درست انداز سے سوچیں، بلکہ اس پر خوش ہوں کیونکہ یہ تند و تیز باتیں ان کے فائدے میں ہیں۔ بہرحال جب میں ملک کے حالات کو دیکھتا ہوں، ملک کے مستقبل کا جائزہ لیتا ہوں تو ان تمام تر مشکلات کے باوجود جن کا ذکر دوستوں نے اپنی تقاریر میں کیا اور ان مشکلات کے باوجود جن کا ذکر انہوں نے نہیں کیا، میں بہت بہتر مستقبل دیکھ رہا ہوں۔ ہمارا راستہ روشن راستہ ہے، ہمارے اہداف طے شدہ اہداف ہیں، ہمیں بخوبی علم ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ اعلی اہداف تک رسائی کا راستہ بھی واضح اور معین ہے۔ ہماری حکمت عملی میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے، سب کچھ واضح ہے کہ کیا کرنا چاہئے۔
اس عرصے میں علاقائی و عالمی محاذ بندی بھی واضح ہو چکی ہے۔ بیشک فنکارانہ اور فاتحانہ نرمی و لچک تمام سیاسی میدانوں میں ایک مطلوبہ اور قابل قبول روش ہے لیکن یہ فنکارانہ سعی و کوشش ریڈ لائن کو عبور کرنے، بنیادی اسٹریٹیجی سے انحراف اور اعلی اہداف سے بے اعتنائی کے معنی میں نہیں ہونا چاہئے، ان چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ ہر حکومت، ہر شخصیت اور ہر انسان کی اپنی روش ہوتی ہے، جدت عملی ہوتی ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں گے اور معاملات آگے بڑھیں گے۔ میں بہت پرامید ہوں اور یہ مانتا ہوں کہ جو مشکلات موجود ہیں خواہ وہ اقتصادی مشکلات ہوں، سیاسی مشکلات ہوں یا سیکورٹی سے متعلق مسائل ہوں یا ان سے بڑھ کر جو ثقافتی مشکلات ہیں جو اقتصادی مشکلات سے زیادہ گہری اور اہم ہیں البتہ ممکن ہے کہ بعض اقتصادی امور کی فوریت زیادہ ہو، بہرحال یہ ساری مشکلات حل ہو سکتی ہیں اور ہم یہ راستہ طے کرنے پر قادر ہیں۔ اللہ تعالی سے ہم نصرت و مدد کی دعا کرتے ہیں۔
میں یہ بات بھی عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ اس نکتے پر توجہ رہے کہ دشمنان اسلام اور خاص طور پر علاقے میں اسلامی نظام کے دشمنوں کا ایک اہم حربہ فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلاف و نفاق ہے، شیعہ سنی تنازعہ ہے۔ اس پر آپ ضرور توجہ رکھئے۔ اس سلسلے میں دو قسم کے مہرے اور ایجنٹ سرگرم عمل ہیں۔ ایک گروہ شیعہ ایجنٹوں کا ہے اور دوسرا گروہ سنی مہروں کا ہے۔ ایک گروہ دین سے منحرف تکفیریوں کا گروہ ہے اور دوسرا گروہ دشمن کے لئے کام کرنے والے ان لوگوں کا ہے جو شیعہ کے نام پر دوسروں کے جذبات کو مشتعل کرتے ہیں، منافرت کی توجیہ کرتے ہیں اور فتنے کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ جو جماعت، جو ادارہ اور جو حکومت بھی اس بڑے فریب میں گرفتار ہوئی اور اس قضیئے میں مبتلا ہوئی، جس گروہ نے بھی یہ غلطی کی وہ یقینی طور پر اسلامی تحریک اور اسلامی نظام کو نقصان پہنچائے گا اور خاص طور پر اس کا نقصان ہمارے ملک کو پہنچے گا۔ میں تاکید کرتا ہوں تمام بزرگ علمائے کرام سے، خواہ وہ شیعہ علما ہوں یا اہل سنت علمائے کرام، خواہ ایران میں رہنے والے علما ہوں یا دیگر علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں، اس بات کا خیال رکھیں کہ اسلامی مسلکوں کا اختلاف اس بات کا باعث نہیں بننا چاہئے کہ ہم اپنے ہی خلاف ایک نیا محاذ قائم کر لیں اور اصلی دشمن سے جو اسلام کا دشمن ہے، جو آزادی کا دشمن ہے، جو علاقے کے عوام کی فلاح و بہبود کا دشمن ہے، اس سے غافل ہو جائیں۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم سب کی مدد فرمائے اور حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کی دعائيں ہمارے اور آپ کے شامل حال رہیں۔۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

۱) یہ ملاقات تین اور چار ستمبر کو چوتھے دور کی ماہرین کی کونسل 'مجلس خبرگان' کے چودہویں رسمی اجلاس کی مناسبت سے انجام پائي۔
۲) عراق ایران جنگ کے دوران مفقود ہو جانے والے سپاہیوں کی تلاش کی مہم انجام دینے والی ایران کی مسلح فورسز کی کمیٹی کی عراقی سرحد کے اندر تلاش و جستجو میں بانوے شہیدوں کے جنازے فاؤ اور جزیرہ مجنون کے علاقوں میں ملے۔ یہ جنازے شلمچہ سرحد سے ایران لائے گئے جبکہ اس کے عوض اکسٹھ عراقی سپاہیوں کے جنازے عراقی حکام کو سونپے گئے۔ دو ستمبر کو امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم شہادت کے موقعے پر تہران میں ان شہیدوں کی تشییع جنازہ ہوئی۔
۳) سوره‌ى ملك، آیت ۲۲
۴) نهج البلاغه، مکتوب نمبر ۴۷
۵) 24 جون سنہ 2013