قائد انقلاب اسلامی نے ہفتہ حکومت کی مناسبت سے ہونے والی اس سالانہ ملاقات میں پسندیدہ حکومت کی خصوصیات منجملہ اخلاقی و اعتقادی صحتمندی، عوامی خدمت کے جذبے، انصاف پسندی، اقتصادی سلامتی، بدعنوانی سے مقابلہ، قانون پسندی، حکمت و دانش پر ارتکاز اور داخلی صلاحیتوں پر بھروسے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ معیشت اور علم و دانش کو ترجیحات میں رکھئے اور افراط زر پر قابو پاکر عوام کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل، پیدواری شعبے کے فروغ، معاشی شعبے میں استحکام اور چہل پہل اور عوام کے اندر مستقبل کے تئیں امید میں اضافہ کیجئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے شام کے خلاف فوجی جارحیت کی امریکی دھمکی کو پورے علاقے کے لئے حتمی المئے سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ ہر طرح کی مداخلت اور جنگ افروزی جنگ کی آگ بھڑکانے والے کے نقصان میں جائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کے حساس اور بحرانی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مصر کے امور میں مداخلت کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن ہم مصر کے عوام کے قتل عام کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ آپ نے کہا کہ ہم مصر کے عوام کے قتل عام کی جو مسلح بھی نہیں تھے مذمت کرتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس قتل عام کا سبب جو کوئی بھی ہو اسلامی جمہوریہ ایران کی نظر میں قابل مذمت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مصر میں خانہ جنگی سے شدت کے ساتھ اجتناب کیا جانا چاہئے کیونکہ مصر میں خانہ جنگی پورے عالم اسلام اور علاقے کے لئے المئے سے کم نہیں ہوگی۔ قائد انقلاب اسلامی نے جمہوریت اور عوام کے ووٹ کو مرکزی درجہ دئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ مصر کےعوام نے برسوں کی استبدادی حکومت کے بعد اسلامی بیداری کی برکت سے شفاف اور صحتمند انتخابات کا انعقاد کیا اور جمہوریت کا یہ عمل رکنے والا نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:۔

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

اپنے تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں (1)۔ ہفتہ حکومت کی مناسبت سے جو اس سال نئی حکومت کی تشکیل کے موقعے پر آیا ہے، مبارک باد پیش کرتا ہوں آپ تمام دوستوں، آپ سب خواتین و حضرات اور صدر محترم کو۔ ہفتہ حکومت ایک مناسب موقعہ ہوتا ہے مجریہ کے عہدیداروں، ذمہ دار افراد اور کارکنان کو مبارک باد پیش کرنے اور ان کی خدمات کی قدردانی کرنے کا۔ میں بھی اس موقعے سے استفادہ کرتے ہوئے مختلف سطح پر کام کرنے والے مجریہ کے عہدیداروں اور کارکنان کو مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا۔ آپ سب کے لئے اللہ تعالی سے خدمات انجام دینے کی توفیقات کی دعا کرتا ہوں۔ سب سے دلچسپ نکتہ یہ ہے ہر سال منائے جانے والے اس ہفتہ حکومت کے دوران ہر گفتگو، ہر بیان اور ہر تحریر دو فرزانہ اور خدمت گزار شہیدوں (صدر محمد علی رجائی، وزیر اعظم محمد جواد با ہنر) کے ناموں سے آراستہ نظر آتی ہے۔ یہ بڑی بامعنی بات ہے کہ ان گزشتہ برسوں کے دوران ہر حکومت اور تمام عمائدین حکومت ان دونوں خدمت گزار شہیدوں کی یاد کو یوم حکومت اور ہفتہ حکومت کی زینت سمجھتے رہے ہیں، انہوں نے گزرتے ہوئے وقت اور رونما ہونے والے گوناگوں واقعات کو ان دو عظیم ہستیوں کی شہادت کی قدر و قیمت اور مخلصانہ و خاکسارانہ خدمت کی قدر و منزلت کو طاق نسیاں کی زینت بنا دینے کا موقعہ نہیں دیا۔
میں پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کو اپنے مجوزہ وزراء کے ناموں کی فہرست پیش کرنے میں صدر محترم کی سرعت عمل پر ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں جانتا تھا اور میں دیکھ رہا تھا کہ اس سلسلے میں ان کا کتنا اصرار تھا اور دل ہی دل میں میں ان کی اس بات پر تعریف کر رہا تھا کہ جتنی جلد ممکن ہو وہ کابینہ تشکیل دے دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ خوش قسمتی سے وہ کامیاب بھی ہوئے اور حلف برداری کے بعد ابتدائی لمحات میں ہی ذرہ برابر وقت ضائع کئے بغیر انہوں نے مجوزہ وزرا کے نام پارلیمنٹ کو پیش کر دئے۔ میں پارلیمنٹ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے اکثریت سے اور بعض وزراء کے سلسلے میں تو بہت ہی نمایاں اکثریت کے ساتھ اعتماد کا ووٹ دیا اور اس طرح حکومت اور پارلیمنٹ نے کام کا آغاز کر دیا۔ یہ جذبہ عمل اور دونوں شعبوں کی مستحسن ہم آہنگی کی علامت ہے۔ یہ دونوں ہی خصوصیات ایسی ہیں جو میری نظر میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ دونوں شعبوں کی ہم آہنگی کے سلسلے میں بھی جو اس پہلے مرحلے پر بہت نمایاں طور پر نظر آئی ہے اور اسی طرح بلا وقفہ کام کے سلسلے میں بھی۔
میں امید کرتا ہوں کہ آپ کی یہ ٹیم، یہ حکومت اپنی مہارتوں اور خوبیوں کو منصہ ظہور میں لائے، انہیں پیش کرے۔ صدر محترم نے جس امید کا ذکر کیا کہ بڑے اور نمایاں کاموں کے سلسلے میں اور رکاوٹوں کو عبور کر لینے کے سلسلے میں عوام الناس کے دلوں میں پیدا ہوئی ہے اور بڑھ رہی ہے، ان شاء اللہ آپ اپنی خوبیوں اور مہارتوں کا مظاہرہ کرکے اس میں مزید اضافہ کریں گے۔ بلا شبہ خود روحانی صاحب کا وجود بھی اس ٹیم کی بہت اہم خوبی ہے۔ جناب روحانی صاحب انقلاب کے پرانے خدمت گزاروں میں ہیں، انقلابی جدوجہد کا طویل ریکارڈ رکھتے ہیں، چونتیس سال کے دوران اپنے اچھے اور بجا موقف سے انہوں نے خود کو متعارف کرایا ہے اور بحمد اللہ آج محترم، پسندیدہ اور قابل اعتماد صدر جمہوریہ کی حیثیت سے وہ اجرائی شعبے کی باگڈور سنبھال رہے ہیں۔ ان کا جو ماضی ہے اور ان کے جو بیانات اور تقاریر ہیں ان سے انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ ان کے اندر عزم راسخ پایا جاتا ہے، اللہ نے چاہا تو ان کے رفقائے کار میں بھی یہی عزم ہوگا اور وہ جملہ امور کو بہترین انداز میں اور صحیح سمت میں لے جانے میں کامیاب ہوں گے۔ میں ان کے لئے بھی دعا کرتا ہوں اور آپ تمام حضرات کے لئے دعا گو ہوں کہ اللہ آپ کو کامیاب کرے اور آپ بہترین اور پسندیدہ حکومت کی کارکردگی پیش کر سکیں، اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
اس شروعاتی نشست میں ہم آپ تمام عزیزوں کے ساتھ ان معیاروں اور خصوصیات پر ایک نظر ڈالنا چاہتے ہیں جو آج کے زمانے میں ایک پسندیدہ حکومت کے لئے لازمی ہیں۔ ہمارا یہ دعوی تو نہیں ہے کہ ہماری حکومت پوری طرح اور حقیقی معنی میں ایک اسلامی حکومت ہے، میں خود کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے اندر بے شمار خامیاں اور نقائص نظر آتے ہیں، جب ہماری نظر صدر اسلام کے مقدس و پاکیزہ عہدیداروں پر پڑتی ہے جنہوں نے صدر اسلام کا وہ زریں دور ہمیں ہدیہ کیا، تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری یہ بساط ہی نہیں ہے کہ ہم اس دور جیسی پسندیدہ حکومت تشکیل دے سکیں۔ تاہم ہمارے اس زمانے میں حالات کے مطابق جسے اسلامی حکومت کا نام دیا جا سکتا ہے، اس کی کچھ خصوصیات اور اس کے کچھ معیار ہیں جن میں سے میں بعض کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ البتہ یہ نئی باتیں نہیں ہیں، آپ خود ان سے واقف ہیں، لیکن جو باتیں ہمیں معلوم ہیں ان کا اعادہ اور یاددہانی ہمیشہ مفید ہوتی ہے۔ ان کا بار بار جائزہ لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
سب سے پہلی خصوصیت عقیدہ و اخلاقیات سے متعلق ہے۔ خاص طور پر اعلی درجہ حکام کے لئے عقیدہ و اخلاقیات کی پاکیزگی لازمی ہے جو معاشرے کے حقائق پر گہری نظر اور صحیح طرز فکر سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ہے پہلا معیار اور پہلی خصوصیت۔ خوش قسمتی سے درست عقیدے اور حق کی شناخت میں ہم کسی طرح کی غلط فہمی اور تردد سے دوچار نہیں ہیں۔ اسلامی مآخذ کے علاوہ جن سے مختلف افراد گوناگوں نتائج اخذ کر سکتے ہیں اور رائے قائم کر سکتے ہیں، ہمارے پاس ہمارے عظیم الشان امام خمینی کے فرمودات موجود ہیں۔ امام خمینی کی شخصیت سے ہم سب عقیدت رکھتے ہیں اور ہمارے درمیان انہیں قبول عام حاصل ہے۔ امام خمینی کی تقاریر کا مجموعہ، امام خمینی کے موقف اور فیصلوں کا مجموعہ اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی ہدایات و احکامات کا مجموعہ ہمارے پاس ہے۔ یہ ہے معیار اور اہم خصوصیت۔ اس پر یقین و اعتقاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب بھی غلطی ہو تو انہی معیاروں کی کسوٹی پر اپنی کارکردگی کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ اسے کہتے ہیں عقیدے اور فکر کی سلامتی۔ اسلامی انقلاب کے اصول اور اقدار بھی یہی ہیں۔ انقلاب کے بنیادی اصول انہی تقاریر میں موجود ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ اگر ہم ان کی مکمل پابندی کر سکیں اور قلبی طور پر ان سے وابستگی پیدا کر سکیں اور اسی قلبی وابستگی کی بنیاد پر منصوبہ بندی کریں تو میری نظر میں یہ بہت اچھی صورت حال ہوگی اور ہم یقینی طور پر ترقی کریں گے۔
قلبی وابستگی اور عقیدے کے سلسلے میں میں جن باتوں پر خاص توجہ دیتا ہوں ان میں ایک اللہ تعالی کی ذات پر یقین و عقیدے کا مسئلہ ہے، اللہ کے وعدوں پر ایقان و اطمینان کا مسئلہ ہے، یہ ایسی باتیں ہیں جن کے سلسلے میں ہمیشہ میری تاکید رہتی ہے کہ ہرگز کوتاہی اور غفلت نہیں ہونا چاہئے۔ جب اللہ تعالی نے صریحی الفاظ میں ہم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ «اِن تَنصُرُوا اللهَ يَنصُركُم»،(۲) «وَ لَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُه»،(۳) جب اس انداز سے اللہ تعالی نے واشگاف لفظوں میں اور تاکید کے ساتھ ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اگر تم اس کے دین کی حمایت کروگے، راہ خدا پر چلوگے اور اس کی مدد کروگے تو اللہ بھی تمہاری نصرت فرمائے گا، تو ہمیں اس وعدے پر یقین رکھنا چاہئے، ہمیں اسی انداز سے عمل کرنا چاہئے۔ جس نے اس کا عملی تجربہ نہیں کیا ہے ممکن ہے وہ اس حقیقت سے بیگانہ ہو، اس کے ذہن میں یہ چیز بعید معلوم ہو لیکن ہم اور آپ تو باقاعدہ تجربہ کر چکے ہیں، ہم تو مشاہدہ کر چکے ہیں کہ کس طرح ایک امر محال، ممکن بن گیا، اس سے بڑی محال بات کیا ہوگی کہ خالی ہاتھ انسان سڑک پر نکل پڑے اور اسی طرح سڑکوں پر عوام کی زبردست موجودگی کے نتیجے میں ظالم و جابر حکومت جسے دنیا کی تمام طاقتوں کی پشت پناہی حاصل تھی، ریت کی دیوار کی مانند ڈھیر ہو جائے اور اس کی جگہ ایک اسلامی نظام کی تشکیل عمل میں آئے۔ وہ بھی ایسا نظام جو مغربی معیاروں اور اصولوں نہیں بلکہ ان سے ہٹ کر اسلامی اور فقہی اصولوں پر استوار نظام ہے۔ کون تصور کر سکتا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ ہوا اور بظاہر محال دکھائی دینے والی یہ چیز عملی بن گئی۔
انقلاب کے اوائل میں ہی شورشوں کا مسئلہ جو مقدس دفاع کے آغاز سے قبل پیش آیا، ایک الگ ہی داستان ہے۔ یہ ایسی شورش تھی جس کی بیرون ملک سے حمایت ہو رہی تھی، آپ کو تو یاد ہی ہوگا، ملک کے مشرقی حصے میں، مغربی حصے میں، شمالی خطے میں، جنوبی علاقے میں، ہر جگہ یہ نسلی، قومیتی اور قبائلی شورشیں تھیں۔ کون سا ملک اور کون سی حکومت ایسی ہوگی جس کی نئی نئی تشکیل عمل میں آئی ہے، جس کے پاس نہ فوج ہو، نہ مسلح فورسز ہوں، نہ باقاعدہ سیکورٹی ادارے ہوں لیکن اس کے باوجود ان مسائل اور بحرانوں کا ڈٹ کر سامنا کرے اور ان پر غلبہ پانے میں کامیاب بھی ہو جائے؟ یہ کام اسلامی جمہوریہ نے انجام دیا ہے۔
مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع بھی اس کی ایک اور مثال ہے۔ یہ بات ہزار دفعہ بلکہ ہزاروں بار بیان کی جا چکی ہے لیکن پھر ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کو بار بار یاد کریں۔ مسلط کردہ جنگ صرف ہمارے ایک ہمسایہ ملک کی جارحیت نہیں تھی، یہ ہمارے خلاف ایک بین الاقوامی جنگ تھی تمام تر وسائل اور ذرائع کے ساتھ۔ انہوں نے اپنی پوری کوشش کی، ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن آٹھ سال بعد بھی وہ ہماری زمین کا ایک انچ حصہ بھی اپنے قبضے میں رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ کوئی معمولی بات ہے؟ اسی طرح دوسرے بھی گوناگوں مسائل اور حقائق ہیں۔ یہ ایسے وعدے ہیں جو پورے ہو چکے ہیں۔«اِن تَنصُروا اللهَ ينصُركُم» کو اگر اوروں نے قرآن میں صرف پڑھا ہے تو ہم نے اس کا اپنی زندگی میں مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے۔ بنابریں آپ اللہ پر اعتماد رکھئے، اللہ کے لئے کام کیجئے! اللہ کی حوشنودی کو اپنا نصب العین قرار دیجئے! آپ یقین رکھئے کہ اللہ نئے راستوں کو کھول دے گا۔ یہی ہمہ جہتی مشکل جس کا ذکر جناب روحانی صاحب نے کیا، انسان دیکھتا ہے کہ ٹکراؤ، تصادم اور تضاد کی کیفیت ہے لیکن یکبارگی دیکھنے میں آتا ہے کہ اللہ نے چشم زدن میں ساری مشکل حل کر دی۔ آپ کسی چیز پر کچھ سامان لادنا چاہتے ہیں، درجن بھر رکاوٹیں ہیں، انسان یہ کام انجام نہیں دے پا رہا ہے لیکن اچانک کوئی اس کام کا ماہر آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہلکی سی جنبش سے یہ کام انجام دے دیتا ہے۔ یعنی ان تمام مسائل اور امور کو درست عالمانہ و دانشمندانہ روش اور نقطہ نگاہ کی مدد سے البتہ جس کی بنیاد اللہ کی بارگاہ میں توسل، اللہ پر اعتماد، اللہ سے آس اور طلب عنایت ہو، آگے لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ میرا عقیدہ ہے۔ یہ بھی ایک معیار اور اصول ہے۔ اللہ پر اعتماد اور روحانیت و معنویت سے انس۔ میں آپ سے گزارش کروں گا البتہ اس کی ضرورت تو نہیں ہے کیونکہ اس پر پہلے ہی عمل کیا جا رہا ہے، کہ قرآن سے اپنا رابطہ مستحکم رکھئے، روزانہ قرآن کریم کی تھوڑی تلاوت کیجئے، دعا و مناجات سے اور اللہ سے اپنی وابستگی مستحکم کیجئے۔ اس سے آپ پر پڑنے والے دباؤ میں کمی آئے گی، دشواریوں میں کمی آئے گی، آپ کے اندر جوش و جذبہ پیدا ہوگا، یہ عمل آپ کو بڑی رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرےگا، یعنی عقیدہ رکھنے والے انسان کو یہ عمل وجد میں لا دیتا ہے۔ یہ بہت اہم عمل ہے، نافلہ نمازوں وغیرہ کا تو خیر اپنا الگ ہی مقام ہے۔
دوسرا اہم اصول اور معیار خدمت خلق ہے۔ خدمت کا جذبہ جو اسلامی حکومت کا اصلی نعرہ اور ہدف ہے، حقیقت میں دیکھا جائے تو اس سے ہٹ کر ہمارے وجود کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ ہم عوام الناس کی خدمت کرنے کے لئے آئے ہیں، لہذا کوئی بھی شئے ہمیں اس فریضے سے غافل نہ کرنے پائے۔ بے شک ہم سب کی اپنی پسند ہے، اپنی دلچسپی ہے، سیاسی میدان میں، سماجی میدان میں، ہمارے کچھ دوست ہیں، کچھ دشمن ہیں، یہ سب کچھ حاشئے کی باتیں ہیں، متن قضیہ خدمت ہے۔ ہمیں یہ موقعہ نہیں دینا چاہئے کہ حاشئے کی چیزیں اصل متن کو ہی متاثر کر دیں۔ خدمت کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وقت بہت محدود ہے۔ چار سال یا ایک اور زاوئے سے دیکھیں تو آٹھ سال کا عرصہ بہت محدود ہے، بجلی کی سی رفتار سے گزر جاتا ہے۔ میں نے اسی کمرے میں یا اس دوسرے کمرے میں سابقہ حکومتوں سے جن میں خود آپ کے درمیان موجود بعض افراد بھی شامل رہ چکے ہیں، یہی بات بار بار کہی کہ آپ حکومت کے ابتدائی ایام میں بھی اسی نہج پر سوچئے کہ وقت بجلی کی سی رفتار سے گزر جاتا ہے، اب انسان اپنے بیتے ہوئے چار سال پر نظر ڈالتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ گویا ایک دن جتنی مدت میں یہ چار سال بیت گئے۔ تَمرُّ مَرَّ السَّحاب -(۴) لیکن اسی محدود وقت کے اندر لا محدود مواقع ہیں۔ یعنی ہر گھنٹہ آپ کے لئے ایک بہترین موقعہ ہے۔ رونما ہونے والا ہر واقعہ آپ کے لئے ایک موقعہ ہے، آپ کے ذہن میں پیدا ہونے والا نیا خیال اور نئی فکر سب آپ کے لئے بہترین مواقع ہیں۔ ان مواقع کو ضائع نہ ہونے دیجئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کام مجاہدانہ انداز میں کیجئے۔ مجاہدانہ انداز سے مراد یہ نہیں کہ قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ ہم آپ میں سے بہتوں کے ساتھ ایک عرصے سے کام کرتے آئے ہیں، مختلف شعبوں میں ہمارا تعاون رہا ہے، آپ میرا مزاج جانتے ہیں، میں قانون کو نظر انداز کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے والا آدمی نہیں ہوں، لا قانونیت کی سختی سے مخالفت کرتا ہوں، تاہم میرا نظریہ یہ ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دو طرح سے کام کیا جا سکتا ہے۔ ایک ہے خاص دفتری انداز اور دوسرا ہے مجاہدانہ انداز۔ مجاہدانہ انداز سے کام کرنے کا مطلب ہے، رکاوٹوں کو عبور کرنا، چھوٹی چھوٹی مشکلات کو بہت بڑا نہ سمجھ بیٹھنا، اہداف اور امنگوں کو فراموش نہ ہونے دینا، سمت اور رخ کو ہمیشہ درست رکھنا، جذبہ عمل کے ساتھ کام کرنا، یہ ہے مجاہدانہ انداز کی خصوصیت ہے۔ تو کام مجاہدانہ انداز میں کرنا چاہئے تاکہ حقیقی معنی میں لوگوں کی خدمت ہو سکے۔
تیسرا اہم اصول اور اہم معیار ہے انصاف۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے، ان گزشتہ برسوں کے دوران آپ میں سے بعض حضرات کی موجودگی میں بھی میں کہہ چکا ہوں کہ انصاف و مساوات سے عاری پیشرفت کو میں پیشرفت نہیں مانتا۔ ہم نے اس موجودہ عشرے کو پیشرفت و مساوات کے عشرے سے موسوم کیا ہے۔ انصاف و مساوات سے عاری ترقی کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آج آپ مغربی سماجوں میں دیکھ رہے ہیں۔ دولت و طاقت اور سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے آج وہ جس مقام پر ہیں وہ اس دور کی آخری سطح تصور کی جاتی ہے، یہ چیزیں ان کے پاس حد سے سوا ہیں لیکن اس کے باوجود آپ دیکھ رہے ہیں کہ انصاف و مساوات کا فقدان ہے۔ وہ عدالتی انصاف کے میدان میں، فلموں اور تشہیراتی پروگراموں میں تو بہت کچھ کہتے ہیں، حالانکہ ان میں بھی تقریبا اسی فیصدی باتیں جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں، عدالتی نظام کے سلسلے میں جو اطلاعات ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف باتیں ہیں، مغرب میں حالات کچھ اور ہیں۔ لیکن اقتصادی میدان میں عدم مساوات تو بالکل نمایاں ہے۔ بہتیرے ہیں جو بھکمری کا شکار ہیں، بعض ملکوں میں کچھ افراد مائنس دس ڈگری درجہ حرارت کی وجہ سے سردی سے مر جاتے ہیں، یا چالیس ڈگری کی چلچلاتی دھوپ میں گرمی کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں! چالیس ڈگری درجہ حرارت میں انسان مر کیسے جاتا ہے؟ کیا اس کے علاوہ کوئی وجہ ہے کہ اس کے پاس گھر نہیں ہے، چالیس ڈگری کے درجہ حرارت میں سڑک کے کنارے پڑا ہے، پانی بھی نہیں مل پاتا اور گرمی سے ہلاک ہو جاتا ہے؟ یہ حالات ہیں، اور دوسری طرف دیکھئے تو افسانوی دولت و ثروت کے ذخائر بھی اسی مغرب میں ہیں۔ یہ ناانصافی ہے۔ ہم یہ صورت حال نہیں چاہتے۔ اسلام نے ہمیں ایسی ترقی کا حکم نہیں دیا ہے۔ بیشک پیشرفت کی ہمیں ضرورت ہے۔ آج مغرب میں جس چیز کو ترقی کہا جاتا ہے ہم اسے پیشرفت کا نام دیتے ہیں، اس پیشرفت میں مساوات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ پیشرفت کے ساتھ انصاف کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ آپ قرآن میں غور کیجئے تو تمام انبیاء کو مبعوث کیا گیا، آسمانی صحیفے نازل کئے گئے، اسی طرح دوسرے بھی بہت سے امور انجام پائے «لِيَقُومَ النّاسُ بالقِسط»(۵)۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا گيا کہ سماج میں انصاف قائم ہو۔ تو یہ بھی ایک اہم اصول اور اہم معیار ہے جسے مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک اہم معیار اور اصول ہے اقتصادی پاکدامنی اور بدعنوانی سے مقابلہ۔ حکومتی عہدہ طاقت اور دولت کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس منزل پر پہنچنے کے بعد گوناگوں وسوسے انسان کو گھیر لیتے ہیں۔ آپ خود کو نہ دیکھئے جو دیندار ہیں، بلند مقام پر فائز ہیں، ان وسوسوں کا قوت ارادی سے مقابلہ کرتے ہیں لیکن آپ سے نچلی سطح پر جو لوگ ہیں ممکن ہے وہ ان وسوسوں پر غلبہ نہ پا سکیں۔ آپ بہت محتاط رہئے، آپ اپنی بصیرت آمیز نظر اس پورے ادارے پر اس انداز سے دوڑاتے رہئے جو آپ کے زیر نگرانی ہے اور جس کا انتظام آپ کو سونپا گیا ہے، کہ کسی بھی گوشے میں کوئی اقتصادی گڑبڑ پیدا نہ ہو، یہ وسوسے اپنا کام نہ کر سکیں۔ سب سے پہلے نگراں ادارے اور احتساب سے متعلق ادارے وارد عمل ہوں، ظاہر ہے ہمارے ملک میں کچھ نگراں ادارے ہیں، احتساب کے ادارے ہیں، ان کی ذمہ داری ہے نگرانی کرنا، ان میں کچھ کا تعلق پارلیمنٹ سے ہے، کچھ کا تعلق عدلیہ سے ہے، کچھ کا تعلق مجریہ ہے۔ جیسے مجریہ کے آڈٹ ادارے ہیں۔ ان اداروں کا کام شروع ہونے سے پہلے ہی آپ اپنے ماتحت ادارے کو بے داغ بنانے کی کوشش کیجئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کی دائمی توجہ رہے، ہرگز غفلت نہ برتئے۔ میں بسا اوقات ان احباب اور عہدیداروں سے نشستوں میں گفتگو کے دوران ایک مثال دیتا ہوں، میں کہتا ہوں کہ قلعے وغیرہ جیسی عمارتوں میں نگرانی کے لئے ایک مخصوص ایک سرچ لائٹ ہوتی ہے جو مسلسل گھومتی رہتی ہے۔ آپ کی نگاہ بھی اسی طرح ہمیشہ گھومتی رہنی چاہئے۔ یعنی کہیں کوئی خلا پیدا نہ ہو۔ ہمیشہ نگرانی کرتے رہئے، ہمیشہ محتاط رہئے۔ بدعنوانی واقعی دیمک کا کام کرتی ہے۔ آپ ہرگز یہ موقعہ نہ دیجئے کہ بدعوانی، رشوت ستانی، اقربا پرستی، اسراف، فضول خرچی وغیرہ جیسی برائیاں آپ کے ادارے میں پھیلیں۔ جناب ڈاکٹر روحانی صاحب نے اقتصادی امور میں جس علاج اور راہ حل کی بات کی اس کا ایک حصہ کفایت شعاری اختیار کرنے اور بدعنوانی کے سد باب کی صورت میں انجام پا سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ بعض اخراجات اضافی اور بلا وجہ ہوتے ہیں، حرام تو نہیں ہیں لیکن غیر ضروری ہیں۔ غیر ضروری خرچ بھی شاید ایک طرح سے حرام ہی ہو لیکن بہرحال اسے صریحی طور پر حرام قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ اضافی اور غیر ضروری ہے۔ اس کا سد باب ہونا چاہئے۔ اس روش پر چل کر بہت سے بڑے کام انجام دئے جا سکتے ہیں۔ واقعی مجریہ کے شعبے میں کارکنوں اور ملازمین کی اکثریت بڑی محنتی، پاکدامن اور نیک افراد کی ہے۔ لیکن اگر کسی ادارے میں ایک دو یا دس افراد ایسے بھی ہوں جو بدعنوانی میں مبتلا ہوں تو وائرس اور دیمک کا کام کرتے ہیں۔ اس خدمت گزار ادارے کی ساری زحمتیں اور محنتیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اچھے کارکن بھی بدنام ہوتے ہیں اور ان کی ساری زحمتوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ بدعنوانی ماحول کے سکون و اطمینان کو ختم کر دیتی ہے۔
ایک اور اہم اصول، قانون کی بالادستی کا ہے۔ قانون کی بالادستی تسلیم کرنا بہت اہم ہے۔ قانون ریل کی پٹری کی مانند ہوتا ہے، اگر آپ اس پٹری سے اتر گئے تو آپ کو یقینی طور پر نقصان پہنچے گا۔ کبھی قانون میں کوئی نقص ہوتا ہے، کبھی اس میں کچھ خرابی ہوتی ہے لیکن اس ناقص قانون کی بھی اگر خلاف ورزی شروع ہو جائے اور قانون کو نظر انداز کرکے منمانی کرنے کا سلسلہ چل پڑے تو اس ناقص قانون کی خلاف ورزی کے عواقب اس پر عمل کرنے سے پیش آنے والی مشکلات سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوں گے۔ اس فکر کو ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے۔ اداروں کے اندر یہ فکر عام ہونا چاہئے۔ ترقیاتی منصوبوں اور قراردادوں کا احترام بھی قانون کے احترام کے زمرے میں آتا ہے۔ جیسے کلی پالیسیاں، 'چشم انداز' سے موسوم ترقیاتی منصوبہ، اسی طرح مختلف کونسلوں کی قراردادیں جیسے ثقافتی انقلاب کونسل کی قراردادیں، سائبر کونسل کی قراردادیں، جن کے بارے میں کل یا پرسوں جناب ڈاکٹر روحانی سے میری مختصر گفتگو ہوئی، آئندہ اس بارے میں مزید بات چیت ہوگی، سپریم سائبر کونسل جس کے بارے میں اسی کمرے میں شاید تین چار گھنٹے کے چار اجلاس ہوئے عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے سربراہوں کی موجودگی میں، سب سے بیٹھ کر گفتگو کی اور اس کونسل کی تشکیل عمل میں آئی، ظاہر ہے یہ بہت اہم ادارہ ہے، اس کی کچھ قراردادیں ہیں، ان قراردادوں اور تجاویز کو معتبر سمجھنا چاہئے اور ان پر عمل کرنا چاہئے۔ یہ قانون پسندی اور قانون پرستی اگر رائج ہو جائے تو یقینی طور پر بہت سی مشکلات اور خامیاں دور ہو جائیں گی۔
کلی پالیسیوں میں سے ایک کا تذکرہ میں یہاں بھی کر دینا مناسب سمجھتا ہوں، یہ دفتری نظام کو بنیادی طور پر تبدیل کرنے کی پالیسی ہے جسے منظوری مل چکی ہے اور اس کے ابلاغ کا عمل بھی انجام پا چکا ہے۔ واقعی ہم دفتری نظام میں دیرینہ مشکل اور خامیوں سے دوچار ہیں۔ ان پالیسیوں کو تشخیص نظام کونسل میں بھی زیر غور لایا جا چکا ہے اور اس کے بھی ابلاغ کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ میری نظر میں یہ پالیسیاں بہت اچھی ہیں، ان پر عمل درآمد کے لئے اجرائی منصوبہ تیار کرنے اور اس پر عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ انتہائی اہم مسائل میں ہے اور بد قسمتی سے اب تک التواء کا شکار رہی ہے، اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔
ایک اور اہم اصول اور معیار جملہ امور اور کاموں میں تدبر اور عقل و بینش پر کاربند رہنا ہے۔ ماہرین کی سطح پر کاموں کا جائزہ، صحیح مطالعہ، جملہ پہلوؤں، نتائج اور اثرات کا احاطہ، یہاں تک کہ اظہار خیال کے بھی جملہ نتائج پر پہلے سے غور کرنا، یہ سب لازمی ہے۔ کیونکہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی عہدیدار کا اظہار خیال ہی جو خاص مقام و منصب کا حامل ہے، جس کے پاس کوئی پلیٹ فارم ہے، اتنے گہرے اثرات مرتب کرتا ہے کہ بعد میں ان اثرات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے تو کئی گنا زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ واقعی اس سے گوناگوں مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔ بنابریں بہت سوچ سمجھ کر ہی کوئی بیان دینا چاہئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر ہم کسی بڑے عہدے پر ہیں، کوئی اہم منصب ہمارے پاس ہے اور کسی چیز کے بارے میں ہمارے ذہن میں کوئی خیال پیدا ہوتا ہے تو بغیر اس پر ماہرین کی رائے جانے، بغیر اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لئے، رائے عامہ کے سامنے اسے پیش کر دیں۔ کیونکہ اس سے کبھی کبھی ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ پھر اسے کنٹرول کر پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر تفکر و تدبر سے کام کیا جائے تو اسی کو دانشمندی اور عقل پسندی کہا جائے گا۔ حکمت و تدبر کی ایک شق یہی ہے کہ ملکی امور میں ماہرین کی رائے اور ان کی صلاحیتوں پر توجہ دی جائے۔ الحمد للہ ملک کے اندر ماہرین کی صلاحیت و توانائی کا جہاں تک تعلق ہے تو ہم بہت مالامال ہیں۔ اگر ہم ان صلاحیتوں سے استفادہ کریں، اسلامی انقلاب کے بعد نکھر کر سامنے آنے والی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں تو یقینا اس سے ہمیں فائدہ ہوگا۔
ایک اور اہم معیار اور اصول ملک کی داخلی صلاحیتوں اور توانائیوں پر تکیہ کرنا ہے۔ ہم بیرونی دنیا کی طرف دست نیاز دراز نہ کریں۔ یہ ہماری سفارش ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیرونی دنیا کے پاس جو وسائل ہیں ہم ان سے استفادہ نہ کریں، ان دونوں چیزوں میں خلط ملط نہ ہونے پائے! ہماری داخلی توانائی جتنی ہے ہم اس سے زیادہ کی امید باہر کی دنیا سے نہ لگائیں۔ ملکی مراکز، اداروں اور اسلامی جمہوری نظام کے باہر ایک بہت بڑا محاذ موجود ہے جو تیس پینتیس سال سے اسی کوشش میں ہے کہ انقلاب کی بنیادوں کو مستحکم نہ ہونے دے، اسلامی جمہوری نظام میں پائیداری نہ آنے دے، اسے ترقی کی شاہراہ پر آگے نہ بڑھنے دے، مختلف شعبوں میں اسے آئيڈیل اور مثالیہ نہ بننے دے۔ دشمن نے اب تک جو معاندانہ رویہ روا رکھا ہے اس کے بعد اس سے محبت اور دوستی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کے وسائل سے استفادہ نہ کیا جائے، ہمارا کہنا یہ ہے کہ ان پر اطمینان نہ کیجئے! اعتماد نہ کیجئے! ان سے آس نہ لگائيے! داخلی وسائل پر تکیہ کیجئے! ملک کے اندر اس کثرت سے وسائل دستیاب ہیں کہ خواہ اقتصادی شعبے میں، ثقافتی شعبے میں یا دیگر شعبوں میں اگر ہم انہی وسائل کی جستجو کریں اور ان سے بخوبی استفادہ کرنے میں کامیاب ہوں تو ہمیں سارے مسائل کا حل مل جائے گا۔ یعنی ملک کے اندر موجود وسائل اور امکانات کو دانشمندانہ طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان وسائل کی شناخت اور نشاندہی کی ضرورت ہے۔ اس سے دنیا میں ہمارا قد بڑھے گا۔ عالمی معاملات میں دنیا کے ہر ملک کا حصہ اور شراکت اس کی داخلی توانائیوں کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ آپ داخلی طور پر جتنے زیادہ مقتدر ہوں گے، عالمی امور میں آپ کا مقام اور آپ کی شراکت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ ہمیں یہ ہدف پورا کرنا ہوگا۔ خوش قسمتی سے ان گزشتہ برسوں میں ہم نے اس سلسلے میں کامیابی حاصل کی ہے، یعنی ان برسوں میں اسلامی نطام کی قوت و طاقت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے، آج اس کے شواہد اور اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔
تو یہ چھے سات معیار اور اصول تھے جو میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہ رہا تھا۔ البتہ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ باتیں آپ کے لئے نئ نہیں ہیں، یہ تو ان معلوم باتوں کی یاددہانی ہے جو بہت اہم اور لازمی ہیں۔
دو تین نکتے اور بھی آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ ہمیں ترجیحات کو ملحوظ رکھنا ہوگا، آپ ابھی تازہ دم ہیں، میدان عمل میں آپ نے ابھی قدم رکھے ہیں، آپ کے پاس جو وسائل ہیں وہ لا محدود نہیں ہیں۔ آپ کا حوصلہ و ہمت بھی لا متناہی تو نہیں ہے، آپ کو دستیاب وقت بھی لامحدود نہیں ہے۔ تو پھر آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ترجیحات کیا ہیں؟ تمام امور پر توجہ ضروری ہے، کسی بھی معاملے کو تعطل میں ڈال کر چھوڑا نہیں جا سکتا، بلکہ آپ کو ان امور کی نشاندہی کرنی ہوگی جن کی اہمیت و ضرورت زیادہ ہے۔ میری نظر میں دو مسئلے ایسے ہیں جن پر ہمیں خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک ہے معیشت کا مسئلہ اور دوسرے علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کا مسئلہ۔ معیشت و علم یہ دونوں میری نظر میں ایسی چیزیں ہیں جنہیں سب سے اہم ترجیحات کے زمرے میں رکھنا چاہئے۔ آپ بھی مجریہ کی حیثیت سے اس پر توجہ دیں اور دیگر شعبے بھی بھی اس پر دھیان دیں۔
اقتصادی شعبے میں بحمد اللہ آج بہترین انفراسٹرکچر موجود ہے جو چند سال قبل نہیں تھا۔ گزشتہ دس بارہ سال کے دوران ملک کے اندر انفراسٹرکچر کے سلسلے میں بڑا کام ہوا ہے، لہذا اس سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اقتصادی شعبے میں سب سے پہلی ضرورت ہے ثبات و استحکام پیدا کرنا اور اس شعبے کے تلاطم کو ختم کرنا۔ یعنی یہ جو تلاطم ہے خواہ وہ عوام الناس کی نفسیات کی سطح پر یا پھر بازار میں، اسے مناسب تدبیروں سے حل کرنا چاہئے، البتہ آپ کے بیانوں، پالیسیوں اور آپ نے جو اقدامات کئے ہیں ان سے واضح ہے کہ آپ یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ ایک اور اہم مسئلہ ہے افراط زر کو کنٹرول کرنے اور عوام الناس کی اشیائے ضروریہ کی فراہمی کا۔ یہ ترجیحی مسائل ہیں جن پر سب سے پہلے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قومی پیداوار کو فروغ دینا، یہ سب ہماری معیشت کے بنیادی مسائل ہیں۔ ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بیشک مشکلات بھی ہیں، بعض مشکلات بلکہ بیشتر مشکلات کا ذکر جناب (صدر) ڈاکٹر روحانی نے کر دیا۔ ہم بھی کم و بیش ان مشکلات سے باخبر ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ مشکلات موجود ہیں، آپ کو یہ جائزہ لینا ہے کہ ان مشکلات سے گلو خلاصی کی کیا صورت ہے۔ اگر آپ اقتصادی شعبے میں یہ استحکام پیدا کرنے، انفلیشن کو کنٹرول کرنے اور قومی پیداوار میں رونق لانے میں کامیاب ہو گئے، تو یہی اقتصادی جہاد کا سرآغاز ہوگا جس کا ذکر ہم نے آغاز سال میں کیا تھا اور عوام و حکام سے جس کی گزارش کی تھی۔ البتہ اقتصادی جہاد چھے مہینے، ایک سال اور دو سال کا کام نہیں ہے، اس کے لئے طویل المیعاد تحریک کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت سے، عوام یا مجھے یا کسی بھی منصف مزاج آدمی کو یہ توقع ہرگز نہیں ہے کہ کوتاہ مدت میں ہی تمام اقتصادی مشکلات کا ازالہ کرے۔ توقع بس یہ ہے کہ حل کی جانب پیش قدمی کا سلسلہ شروع ہو جائے، لوگوں کو یہ محسوس ہو جائے کہ مشکلات کے ازالے کی سمت ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں اور جملہ مسائل کو حکیمانہ و مدبرانہ نقطہ نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اقتصادی شعبے کے تعلق سے بہت سی چیزیں ہیں تاہم انہیں یہاں بیان کرنے کا وقت نہیں ہے۔ میں پائيدار اور خود منحصر معیشت کے موضوع پر بھی گفتگو کرنا چاہوں گا۔ خود منحصر اور پائیدار معیشت کی بنیادیں ہیں اور ایسے اقتصاد کی پالیسیاں تیار ہو چکی ہیں۔ مشاورت کے لئے انہیں تشخیص مصلحت نظام کونسل میں بھیجا گیا ہے، وہاں ان کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ مزاحمتی اور خود منحصر معیشت مالیاتی کٹوتی کے معنی میں نہیں ہے، اپنے خول میں سما جانے کے معنی میں نہیں ہے۔ اس کا بڑا منطقی اور وسیع مفہوم ہے جو قابل فہم اور قابل دفاع مفہوم ہے۔ مشکلات کا حل بھی اسی میں ہے۔ ہمیں ملک میں ایسی معیشت قائم کرنا ہے جو بین الاقوامی بحرانوں اور مدوجزر کے سامنے پائيدار ہو، تزلزل کا شکار نہ ہو، یہ بہت ضروری ہے۔ البتہ اس کے خاص شرائط ہیں۔ ان شاء اللہ یہ تشخیص مصلحت نطام کونسل سے گزر کر آئے گی۔ یہ کتنی اچھی بات ہے کہ جناب ڈاکٹر روحانی صاحب بھی تشخیص مصلحت نظام کونسل کے رکن ہیں، وہاں آپ تاکید کریں کہ یہ عمل جلد از جلد مکمل ہو۔ علم و دانش کے میدان میں ہم نے تقریبا دس گیارہ سال قبل ایک تحریک شروع کی۔ یہ بڑی اچھی مہم شروع ہوئی ہے۔ مجھے جو رپورٹیں مل رہی ہیں ان کے مطابق اس مہم کی رفتار میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ روز اول جب ہم نے علمی تحریک، علمی میدان میں بے نیازی و خود انحصاری کی مہم اور سافٹ ویئر تحریک کا موضوع اٹھایا تو مجھے بھی یقین نہیں تھا کہ پیشرفت اور علمی ترقی کے لئے ہمارے ملک کے اندر اتنی وسیع صلاحیتیں موجود ہیں، لیکن بعد میں ہم نے دیکھا کہ یہ توانائیاں چاروں طرف سے چشموں کی مانند جوش مارنے لگیں۔ آج آپ دیکھئے ہمارے تحقیقاتی مراکز، ہماری تجربہ گاہیں، ہمارے سائنس و ٹکنالوجی پارک، ہماری یونیورسٹیاں، سائنس و ٹکنالوجی کے مختلف میدانوں میں چشموں کی مانند جوش مار رہی ہیں۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔ یہ مہم معاشی شعبے میں بھی ہماری اساسی اور کلیدی مدد کر سکتی ہے۔ یعنی اگر ہم سائنس و ٹکنالوجی کی اس مہم کو اس طرح آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ اسے اقتصادی شکل دے سکیں تو یقینی طور پر معاشی میدان میں یہ چیز تیل کی فروخت اور خام مال کی فروخت سے ہمارے لئے بہت بہتر اور نفع بخش ہوگی۔
اس سال ماہ رمضان کی ایک ملاقات میں، اب مجھے یاد نہیں ہے کہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے ملاقات تھی یا طلبہ سے ہونے والی ملاقات تھی، ان میں سے کسی ایک ملاقات میں، حاضرین میں سے ایک صاحب نے تقریر کی اور ایک چیز کا تعارف کروایا، جس سے ملک کو حاصل ہونے والی آمدنی کئی گنا زیادہ ہے۔ چونکہ مجھے یاد نہیں ہے لہذا بتا تو نہیں سکتا لیکن میں نے نوٹ کر رکھا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی آپ سمجھئے کہ تیل کی آمدنی سے یا گیس کی آمدنی سے زیادہ ہے۔ اگر ہم اس چیز پر کام کریں جس کی دنیا میں مانگ بھی بہت زیادہ ہے، لوگ بڑی دلچسپی رکھتے ہیں، ہمارے لئے اس کی پیداوار میں کوئی مشکل بھی نہیں ہے، تو اس سے ہمیں بڑی آمدنی ہو سکتی ہے۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری اقتصادی مشکلات اور معاشی مسائل کا ایک بنیادی حل یہ ہے کہ ہم علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی پر تکیہ کریں۔
علمی میدان میں ہمارے لئے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آج جو تیز رفتار پیشرفت جاری ہے اس میں ہرگز کوئی کندی پیدا نہ ہو، خاص طور پر حکومت اس بات کا خیال رکھے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ وطن عزیز کے منصوبوں کی تو شروعاتی ترجیحات کا جز ہے۔ یعنی علمی پیشرفت کے موضوع پر خاص طور سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بیشک علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے کی پیشرفت کی ذمہ داری بنیادی طور پر وزارت علوم اور وزارت صحت کی ہے لیکن انڈسٹری کی وزارت، ایگری کلچر کی وزارت اور دیگر وزارتیں بھی اس میدان میں تعاون کر سکتی ہیں اور انہیں مدد کرنا چاہئے۔ یعنی واقعی ہماری یونیورسٹیاں، علمی مراکز، تحقیقاتی مراکز، وزارت صنعت، وزارت ٹرانسپورٹ، وزارت پیٹرولیم، وزارت زراعت، یہ گوناگوں وزارتیں جو فنی امور سے سروکار رکھتی ہیں، ان کے لئے ضروری ہے اور یہ ان کے امکان میں بھی ہے کہ اس طرح مل کر کام انجام دیں کہ تحقیقاتی مراکز کے اندر سے علم و دانش کا شیرہ اور نچوڑ باہر نکلے، متعلقہ ادارے اور سسٹم کو کام کرنے پر مجبور کر دیں۔ یہ جو میں نے عرض کیا کہ علمی معاملے میں دو اہم نکات ہیں تو ان میں ایک نکتہ سائنس و ٹکنالوجی کی زنجیر کی تمام کڑیوں کو مکمل کرنے سے متعلق ہے۔ یعنی ہمیں نظرئے اور آئیڈیا کے مرحلے سے سائنس کے مرحلے تک، پھر ٹکنالوجی کے مرحلے تک، اس کے بعد پیداوار کے مرحلے تک اور پھر بازار کی دہلیز تک اس پوری چین کو مکمل کرنا ہے۔ ورنہ اگر ہم نے تحقیقاتی کام تو انجام دیا، ٹکنالوجی کی منزل تک بھی پہنچ گئے لیکن وسیع پیمانے پر پیداوار کی منزل تک نہیں پہنچ سکے، یا اس کے لئے کوئی بازار تلاش نہیں کیا گيا ہے تو اس سے ہمیں نقصان پہنچے گا۔ تو ان تمام مراحل کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ علمی عمل کی یہ زنجیر پیداوار اور بازار کی منزل تک مکمل ہونا چاہئے۔ یعنی نظریں تمام کڑیوں پر مرکوز رہیں۔ یہ ایک نکتہ ہے۔ دوسرا نکتہ ٹکنالوجی بیسڈ کمپنیوں سے متعلق ہے۔ الحمد للہ اس وقت ٹکنالوجی بیسڈ کمپنیوں کی تعداد اچھی خاصی ہے، جہاں تک ممکن ہو آپ ٹکنالوجی بیسڈ کمپنیوں کو فروغ دیجئے!
ثقافت اور خارجہ پالیسی کے باب میں بھی ہمارے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ ہے البتہ ہم اس بارے میں متعلقہ افراد سے گفتگو کریں گے۔ خارجہ پالیسی کے سلسلے میں ڈاکٹر روحانی نے بڑے اچھے نکات بیان کئے۔ میں نے جناب ظریف صاحب (6) کا ایک انٹرویو سنا، میں نے جتنا حصہ سنا بہت اچھا تھا۔ وقار، حکمت اور مصلحت کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنے ان تین نعروں، وقار، حکمت اور مصلحت کو بخوبی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس پر عملدرآمد میں کامیاب ہو گئے تو ہماری خارجہ پالیسی اس مقام پر پہنچ جائے گی جو ہمارے ملک کی ضرورت ہے اور جو اسلامی جمہوری نظام کے شایان شان ہے۔ ثقافتی شعبے میں بھی ہمارے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ ہے۔
علاقائی مسائل کے بارے میں بھی اختصار سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ جناب ڈاکٹر روحانی نے بھی کہا؛ ہمارا علاقہ بڑا حساس علاقہ ہے اور آج کل بڑے بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔ مصر کے جو حالات ہیں ان کے تعلق سے ہم ہرگز مصر کے داخلی امور میں مداخلت کرنے پر مائل نہیں ہیں لیکن مصری عوام کا جس طرح قتل عام کیا جا رہا ہے اس سے چشم پوشی بھی نہیں کر سکتے۔ ہم اس قتل عام کی مذمت کرتے ہیں۔ اس قتل عام کا ذمہ دار جو کوئی بھی ہو۔ اس طرح بے گناہوں پر جن کے ہاتھوں میں ہتھیار بھی نہیں ہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عوام الناس ہیں لیکن ان کے ہاتھوں میں اسلحہ ہے، کسی نظام سے بر سر پیکار ہیں، ایسے میں حکومت کے پاس بہانہ ہوتا ہے، تو یہ صورت حال بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان پر گولیوں کی بوچھار کر دینا اور سیکڑوں بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق ہزاروں لوگوں کو ڈھیر کر دینا مطلقا قابل مذمت عمل ہے۔ مصر کے سلسلے میں ہماری خواہش یہ ہے کہ خانہ جنگی سے شدت کے ساتھ اجتناب کیا جائے۔ میں نے عید الفطر کے دن بھی کہا کہ ہماری ایک بڑی تشویش اور فکرمندی کی بات یہ ہے کہ خدانخواستہ مصر میں عوامی گروہوں کے مابین حقیقت میں خانہ جنگی نہ شروع ہو جائے! یہ عالم اسلام اور علاقے کے لئے بہت بڑا المیہ ہوگا۔ نصب العین جمہوریت اور عوامی خواہشات کی بالادستی ہونا چاہئے۔ اس ملک میں استکبار اور استبداد کی باہمی حکمرانی کی طویل مدت کے بعد اسلامی بیداری کی برکت سے عوام الناس کو حقیقی معنی میں انتخابات میں شرکت کا موقعہ ملا۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ یہ عمل متوقف ہو جائے اور حالات گزشتہ منزل پر پہنچ جائیں۔
شام کے مسئلے میں یہ عرض کر دوں کہ امریکا نے دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ وہ مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایسا ہوا تو یہ علاقے کے لئے بہت بڑا المیہ ہوگا اور یقینی طور پر امریکیوں کو اس کا نقصان اٹھانا پڑےگا۔ وہ بخوبی سمجھ لیں کہ یقینی طور پر انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ جس طرح انہیں عراق میں نقصان اٹھانا پڑا، جس طرح افغانستان میں نقصان اٹھانا پڑا، اسی طرح یہاں بھی نقصان اٹھانا پڑےگا۔ شام یا کسی بھی ملک میں بیرونی ملک کی فوجی مداخلت، جنگ افروزی کےعلاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں دے سکتی۔ ان کے تعلق سے قوموں کی نفرت اور بڑھے گی۔ اس علاقے میں ان کی بدنامی اور بڑھے گی۔ ان کے سامنے کوئی واضح مستقبل بھی نہیں ہے۔ یعنی واقعی یہ علاقہ بارود کے ڈھیر کی مانند ہے۔ اگر یہاں ایک چنگاری اٹھی تو کوئی نہیں جانتا کہ اس چنگاری سے بھڑکنے والی آگ کا دائرہ کہاں تک جائے گا۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس علاقے کو امریکا، صیہونزم اور دیگر بدخواہوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ ہمارے وطن عزیز کو، ہماری قوم کو، ہماری حکومت کو، ہمارے صدر کو اپنی نصرت و مدد کے سائے میں رکھے تا کہ وہ اپنے فرائض پر عملدرآمد کر سکیں۔

والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته‌

۱) قانونی امور میں صدر جمہوریہ کی مشیر، محترمہ الهام امين ‌زاده‌
۲) سوره‌ محمد، آيت‌ ۷
۳) سوره‌ حج، آيت ۴۰
۴) نهج‌البلاغه، حكمت ۲۱
۵) سوره‌ حديد، آيت ۲۵
۶) وزير خارجه‌