قائد انقلاب اسلامی نے 11 دسمبر 2013 کو اپنے خطاب میں معاشرے میں ثقافت کے مقام و منزلت اور اس کی اہمیت کو اپنے خطاب میں پہلے نکتہ کے عنوان سے پیش کیا اور مقننہ، عدلیہ اور مجریہ کے سربراہان کے ثقافتی ماضی و خدمات اور اسی طرح ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے اکثر اراکین کے ثقافتی میدان میں ہمدردانہ اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کونسل سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں ثقافت کے موضوع کو نمایاں کرنے اور اس کو حقیقی مقام و منزلت تک پہنچانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیگی اور ضروری اقدامات کرے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافت اور ثقافتی اقدار کو قوم کا تشخص، پہچان اور روح قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ثقافت در حقیقت سیاست اور اقتصاد کی ذیلی شئے نہیں ہے بلکہ سیاست اور اقتصاد ، ثقافت کے ذیل میں آتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں تمام اہم موضوعات اور مسائل کے سلسلے میں ثقافتی امور کو ملحوظ رکھے جانے سے متعلق اپنی ماضی کی سفارشات پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض اوقات ممکن ہے کہ فیصلے اور منظور شدہ قوانین، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور علمی ہوں لیکن ان کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں جس کی اصل وجہ ثقافتی امور پر عدم توجہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ثقافتی سرگرمیوں کے لئے منصوبہ بندی ضروری ہے اور یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ملک کی ثقافت خود بخود آگے بڑھے گی چاہے وہ عام ثقافت ہو یا ممتاز شخصیات کی ثقافت ہو یا یونیورسٹی سے متعلق ثقافت ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ثقافتی مسائل کے سلسلے میں حکومت کے رہنما کردار اور نگرانی کے لازمی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کی عام ثقافت کے بارے میں ملک کے مختلف ادارے ذمہ دار ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی مسائل میں حکومت کے رہنما رول اور نگرانی کو باغ کے خوبصورت پھولوں پر باغباں کی نگرانی سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ پھولوں کے رشد و نمو اور پانی، روشنی اور ہوا سے درست استفادہ کی غرض سے باغ سے فرسودہ اور خشک گھاس پھوس کو صاف کر دیا جاتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حساس اور گمراہ کن ثقافتی معاملات کا مقابلہ کرنے کو حکومت کی نظارتی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک کی عام ثقافت اور ثقافتی مسائل کے بارے میں ہم سب کے دوش پر شرعی اور قانونی ذمہ داری عائد ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافت کو عوامی شراکت و حصہ داری پر منحصر قراردتے ہوئے فرمایا کہ ثقافتی مسائل کو عوام کے حوالے کرنے کا مطلب حکومت کے رہنما کردار اور نظارتی ذمہ داری کی نفی نہیں ہے اور اسی طرح ثقافتی میدان میں حکومت کی موجودگی عوام کی موجودگی سلب کرنے کے معنی میں بھی نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مغرب کی طرح ثقافتی آزادی کے سلسلے میں بعض غیر ذمہ دارانہ بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب مغربی ممالک مرد و عورت کے اختلاط جیسے غلط ، غیر منطقی اور غیر معقول مسائل کو مرد اور عورت کی مساوات کا پیمانہ قرار دینے پر اصرا کرتے ہیں تو ہم اسلام کی اعلی اور گرانقدر اقدار کے نفاذ پر اصرار کیوں نہ کریں؟
قائد انقلاب اسلامی نے دوسرا نکتہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے مقام و منزلت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل حضرت امام خمینی (رہ) کا ایک عظیم شاہکار ہے جو ملک کی ثقافت کا سب سے اعلی اور بہترین مرکز ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں ملک کی اہم اور مؤثر علمی اور ثقافتی شخصیات کی موجودگی کو اس کونسل کا قوی اور مضبوط پہلو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہی مسئلہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ ملک کی ثقافت کا معاملہ سیاسی نشیب و فراز کے تابع نہ ہو اور ملک کی ثقافتی پیش قدمی میں ہمیشہ ثبات اور دوام قائم رہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس کونسل کے اراکین ملک کی ثقافتی پالیسیوں کے سلسلے میں کونسل کے مؤثر مقام و منزلت پر یقین رکھتے ہوں اور اسے اصلی مرکز کے عنوان سے تسلیم ہوں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی کونسل کے اجلاسوں میں اراکین کی پیہم اور دائمی شرکت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کو بنیادی اور اساسی موضوعات پر توجہ مبذول کرنا چاہیے اور جزوی مسائل میں نہیں الجھنا چاہیے۔ قائد انقلاب اسلامی نے تیسرے نکتہ کے طور پر ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے منظور شدہ قوانین کے اجراء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ثقافتی کونسل کے قوانین پرحتمی طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

سب سے پہلے تو میں خوش آمدید کہتا ہوں آپ تمام محترم بھائیوں اور بہنوں (1) کو۔ آپ کی بلند ہمتی کی دعا کرتا ہوں آپ کی پیہم اور مربوط مساعی کی خاطر اور اس مجموعے سے متعلق امور کے بارے میں آپ کی خاص توجہ کے باعث۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ آپ کی مدد فرمائے اور آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ ہمیں اللہ تعالی کی نصرت و ہدایت کی احتیاج ہے صحیح فکر و نظرئے تک رسائی میں بھی اور ہماری نظر میں جو کچھ درست ہے اور جس کا ہم نے فیصلہ کیا ہے اس پر عملدرآمد کے سلسلے میں بھی خداوند عالم سے ہم قوت و توانائی اور نصرت و امداد کے طلبگار ہیں۔ ہمیں اللہ کو وسیلہ قرار دینا چاہئے، اللہ سے طلب نصرت کرنا چاہئے۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنی تمام توانائيوں اور قوت و طاقت کو بروئے کار لائیں، برکت دینا اور مدد کرنا اللہ کا کام ہے۔ ہمارے سامنے جو اہم ثقافتی امور ہیں ان شاء اللہ آپ کی ہمت اور سعی و کوشش سے جامہ عمل پہنیں گے۔
میں نے چند نکتے نوٹ کئے ہیں جو آپ دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا ہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ ہے معاشرے میں ثقافت کے موضوع پر خاص توجہ دینے اور اس کی اہمیت کے اظہار کا۔ بحمد اللہ آپ سب علمی و ثقافتی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں لہذا اس موضوع کو آپ کے سامنے بیان کرنا، اس کی تشریح کرنا اور موشگافی ضروری نہیں ہے۔ بحمد اللہ ہمارے سارے حکام ایسے ہیں جو علم و ثقافت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ثقافتی میدان کے سپاہی ہیں۔ جناب ڈاکٹر روحانی جو ہمارے صدر جمہوریہ ہیں، سیاسی رہنما سے پہلے ایک علمی و ثقافتی شخصیت ہیں۔ ہم اس پہلو سے اور اس حیثیت سے انہیں برسوں سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ہم سنہ انیس سو ستر کے عشرے کے اوائل سے تاحال انہیں علمی و ثقافتی شخصیت کے طور پر جانتے ہیں۔ بحمد اللہ عدلیہ، مقننہ اور مجریہ تینوں شعبوں کے سربراہ انہی خصوصیات کے مالک ہیں۔ آپ سب علم و ثقافت کے شعبے سے وابستہ افراد ہیں۔ در حقیقت آپ کی سب سے پہلی اور اولیں شناخت یہی ہے کہ آپ علمی و ثقافتی میدان کے کارکن ہیں۔ لہذا ملک کی ثقافت اور ثقافتی اقدار کے بارے میں آپ کے سامنے کچھ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اس موضوع کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے پر آپ کی توجہ کے ہم طالب ہیں۔ آپ جس شعبے میں جہاں کہیں بھی ہیں، بحمد اللہ آپ سب کے سب خاص اثر و رسوخ کے مالک ہیں، آپ کے پاس پلیٹ فارم ہے۔ آپ معاشرے میں اور ملک کے علمی حلقے میں ثقافت کے مسئلے کو اس کا صحیح مقام دلانے کے لئے اپنی اس پوزیشن اور اثر و رسوخ کا استعمال کیجئے۔ یہ بہت اہم ہے۔ ثقافت قوم کی شناخت کا درجہ رکھتی ہے۔ ثقافتی اقدار ہی کسی قوم کی روح اور حقیقی تصویر سمجھے جاتے ہیں۔ ساری چیزیں ثقافت کی بنیاد پر تعمیر کی جاتی ہیں۔ ثقافت، معیشت و اقتصاد کی ذیلی شئے نہیں ہے بلکہ اقتصاد و سیاست اسی ثقافت کے ذیل میں اور ضمن میں آتے ہیں۔ اس نکتے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم ثقافت کو دیگر شعبوں اور میدانوں سے سلب نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا (2) کہ ہم نے یہ کہا ہے کہ اقتصادی و غیر اقتصادی تمام اہم مسائل میں ثقافتی پہلو ضرور شامل رہنا چاہئے، (3) تو اس کا مطلب یہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر معیشت کے شعبے میں، اگر سیاست کے میدان میں، اگر تعمیر و ترقی کے وادی میں، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں، پیداوار اور علمی پیشرفت کے شعبے میں ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے ثقافتی لوازمات اور نتائج پر ضرور نظر رکھنا چاہئے۔ بیشک یہ بڑا کام ہے، معاشی و اقتصادی منصوبہ بڑا اہم منصوبہ ہے لیکن ممکن ہے کہ اس سے کچھ ایسے نتائج برآمد ہوں جن سے ملک کو نقصان پہنچ جائے، ثقافت کا معاملہ اس انداز کا ہوتا ہے۔ تمام معاملات میں ثقافتی پہلو کو مد نظر رکھنا ہے اور اسے ہرگز فراموش نہیں کرنا ہے۔
ثقافتی کاموں کے لئے منصوبہ بندی بھی بہت ضروری ہے۔ یہ توقع رکھنا درست نہیں ہے کہ ملک کی عمومی ثقافت، دانشور طبقے کی ثقافت، یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز وغیرہ کی ثقافت خود بخود مطلوبہ اور مستحسن شکل اختیار کر لے، ایسا نہیں ہوتا، اس کے لئے منصوبہ بندی ضروری ہے۔ نظارت و نگرانی اور جائزے وغیرہ کے سلسلے میں ابھی میں بات کروں گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک کے حکام سماج کی ثقافتی رہنمائی کے سلسلے میں خود کو لا تعلق رکھیں۔ جیسا کہ جناب صدر محترم (4) نے اشارہ کیا، حکومت اور عہدیداروں کا فرض ہے کہ معاشرے کی عمومی ثقافت پر توجہ رکھیں۔ توجہ دیں کہ ہم کس جانب بڑھ رہے ہیں، کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، کیا ہونے والا ہے، اگر رکاوٹیں در پیش ہوں تو انہیں برطرف کیا جائے، رکاوٹوں کو، تخریبی عناصر کو، مفسد عوامل کو قابو میں کیا جائے۔ اگر ہم کسی ماہر اور تجربہ کار باغباں سے کہیں کہ اس گلشن کے خس و خاشاک کو صاف کر دو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس باغ کے غنچہ و گل کے نمو کو روکنا چاہتے ہیں۔ یا اگر ہم باغباں سے یہ کہیں کہ وہ گلشن کے عطرانگیز پھولوں کو ان کے فطری انداز میں نمو کرنے کا موقعہ دو، پانی، ہوا اور آفتاب کی روشنی سے بہرہ مند ہونے دو لیکن خیال رکھو کہ خس کو خاشاک اور جھاڑیاں نہ اگنے پائیں، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو غنچوں اور پھولوں کا نمو متاثر ہوگا۔ ہم بعض ثقافتی چیزوں کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور ملک کے حکام سے جن میں ثقافتی اور دیگر شعبوں کے حکام سب شامل ہیں، یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ ان باتوں کا سد باب کریں تو اس کی وجہ یہی ہے۔ یعنی ثقافتی برائیوں کی مخالفت الگ چیز ہے اور ثقافتی نمو اور پسندیدہ ثقافتی امور کا فروغ اور ترویج ایک الگ چیز ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ میں نے وزیر ثقافت و اسلامی ہدایت سے اس بارے میں کچھ باتیں کہی ہیں، جناب روحانی صاحب سے بھی اس بارے میں گفتگو ہوئی ہے اور آپ کی خدمت میں بھی میں عرض کر رہا ہوں کہ حکومت کی ایک نظارتی ذمہ داری یہ ہے کہ ثقافتی میدان کی برائیوں اور رکاوٹوں پر نظر رکھے۔ آپ فرض کیجئے کہ معاشرے میں ایک اہم مسئلہ موجود ہے جس کا نام ہے طلاق۔ اب اگر معاشرے میں کچھ ایسے علل و اسباب اور امور ہوں جن کا نتیجہ کنبے کی بنیادوں کے تزلزل اور شوہر اور زوجہ کے طلاق کی صورت میں سامنے آتا ہوں تو یقینی طور پر آپ کو ان علل و اسباب کا سد باب کرنا ہوگا۔ یعنی معاشرے میں طلاق کی شرح کو قابو میں رکھنے کے لئے ان امور پر توجہ ضروری ہے۔ ان چیزوں کا سد باب کرنا ہوگا جو فطری طور پر نوجوانوں کو، لڑکوں اور لڑکیوں کو کنبے کی تشکیل سے روگرداں کر دیں، گھریلو ماحول سے منحرف اور شریک حیات سے لا تعلق بنا دیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں فطری طور پر ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوگی، کچھ چیزوں کی مخالفت کرنی ہی ہوگی۔ یہ رہا ایک اہم نکتہ۔
تو ہماری شرعی ذمہ داری ہے، قانونی فرض ہے کہ ملک کی ثقافت پر ملک کے عمومی کلچر پر توجہ دیں۔ البتہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اخبارات و جرائد میں اور تقاریر میں کچھ لوگ 'حکومتی دین' اور 'حکومتی ثقافت' جیسی اصطلاحات استعمال کرکے در حقیقت حکومت کی نظارتی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایک طرح سے مخالفت ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ لیجئے صاحب! یہ لوگ تو دین کو بھی حکومتی چیز بنا دینا چاہتے ہیں، ثقافت و کلچر کو بھی سرکاری بنا دینا چاہتے ہیں! یہ کس قسم کی باتیں ہیں؟! دینی حکومت اور حکومتی دین میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حکومت عوام کاک حصہ ہے۔ حکومتی دین یعنی عوام کا دین۔ عوام جس دین کے پیروکار ہیں حکومت بھی اسی دین کی ماننے والی ہے۔ بلکہ حکومت پر دین کی تبلیغ و ترویج کی قدرے زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔ جس انسان کے پاس جتنی سکت اور توانائی ہے اسے اتنی محنت کرنی ہے۔ عالم دین کو اپنی توانائی استعمال کرنی ہے، یونیورسٹی سے وابستہ شخصیت اپنی توانائی کو بروئے کار لائے، جس انسان کے پاس کوئی پلیٹ فارم ہے جو عوام کے درمیان خاص اثر و رسوخ رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ ان سب سے زیادہ توانائی حکومت کے پاس ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ اسے اپنی توانائی استعمال کرنی ہے اور فضیلت کی باتوں کی ترویج اور رکاوٹوں کا سد باب کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ معاشرے کی معیشت کی طرح ثقافت کا بھی کوئی نگراں اور سرپرست ضروری ہے۔
آپ اقتصاد کے مسئلے میں بھی یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ معیشت عوام کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے، میں بھی اسی نظرئے کا حامل ہوں اور آئين کی دفعہ چوالیس کی تشریح میں میں نے اسے بیان بھی کیا ہے (5)۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت یہ اجازت دے گی کہ کوئی شخص اقتصادی شعبے میں سرگرمیاں انجام دے اور اس شعبے پر اپنی اجارہ داری قائم کر لے جس سے عوام الناس کو نقصان ہو۔ آپ ایسے شخص کو روکیں گے، اجارہ داری قائم کرنے کی کوششوں پر روک لگائیں گے، حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں دیں گے۔ حالانکہ آپ یہ مانتے ہیں کہ اقتصاد حکومتی اور سرکاری نہیں عوامی ہونا چاہئے۔ میں تو شروع سے ہی یہی موقف رکھتا ہوں، یعنی اس زمانے میں بھی جو عمائدین حکومت سرکاری معیشت کی کوششوں میں مصروف تھے، میں اس سے متفق نہیں تھا۔ میں انہیں مثالیں بھی دیتا تھا (6)۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے معیشت پر نگرانی و نظارت کی حمایت سبھی کرتے تھے۔ بلکہ بسا اوقات تو حکومت کی مداخلت بھی لازمی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ فرض کیجئے کہ کسی خاص اقتصادی کام اور عمل کے لئے لوگوں میں کوئی رغبت نہیں ہے، سرمایہ کار اس میدان میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتا، تو ایسی صورت حال میں حکومت کی ذمہ داری کیا ہے؟ ظاہر ہے آپ کو خود سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ مثال کے طور پر ملک کو کسی چیز کی ضرورت ہے۔ لیکن سرمایہ کار اور تاجر اپنے خاص حساب کتاب کے پیش نظر اس میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے، اس کے لئے اس کام کی انجام دہی دشوار ہے، اسے اس میں زیادہ فائدہ نہیں نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں آپ کیا کریں گے؟ آپ خود امپورٹ کریں گے، خود تیار کریں گے۔ تو دوسرے تمام شعبوں میں جس طرح حکومت نواقص کو دور کرتی ہے، خامیوں کا ازالہ کرتی ہے، انحراف کو روکتی ہے، اسی طرح ثقافت کے شعبے میں بلکہ اس شعبے میں بدرجہا زیادہ توجہ اور محنت کے ساتھ حکومت کو اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنی ہے۔ میں نے اقتصاد کا ذکر مثال کے طور پر کیا ہے۔ تو ثقافت کے شعبے میں حکومتی اداروں کی فعالیت کا مطلب عوام سے سرگرمیوں کا حق سلب کر لینا نہیں ہے۔ جناب ڈاکٹر روحانی صاحب نے بجا طور پر فرمایا (7)۔ ثقافت کا دارومدار عوام پر ہوتا ہے۔ عزاداری کی یہ مجلسیں، یہ تقریریں، یہ ادبی انجمنیں، یہ علمی تنظیمیں، حکومتوں کے ذریعے تو وجود میں نہیں آ سکتیں۔ یہ کہاں ممکن ہے؟ یہ نماز جماعت، ملکی سطح پر انجام پانے والے یہ گوناگوں ثقافتی کام۔ اگر حکومتیں یہ سارے کام انجام دینا چاہیں بھی تو ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ عوام کا کام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ انہی عوامی کاموں اور امور میں کوئی ایسا عمل بھی انجام پا رہا ہے جو سماجی سطح پر منفی نتائج و اثرات کا باعث بنے گا، لیکن پھر بھی آپ کچھ نہ کریں، آپ کہہ دیں کہ ہم مداخلت نہیں کریں گے۔ جی نہیں، ایسی صورت میں ضروری ہے کہ مداخلت کی جائے، رہنمائی کی جائے، کام کیا جائے۔ بعص اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض افراد جو کسی بھی ادارے میں کسی عہدے پر بھی نہیں ہیں، ذمہ دار افراد نہیں ہیں، بڑے غیر ذمہ دارانہ انداز میں بات کرتے ہیں، ثقافتی آزادی وغیرہ جیسے موضوعات کے بارے میں وہی باتیں کرتے ہیں جومغربی ملکوں میں عام ہیں، حالانکہ حقیقت امر کچھ ہی ہے۔ مغربی معاشروں میں اپنے ثقافتی اقدار پر اصرار ہمارے معاشروں میں اپنے اقدار کی پابندی پر کی جانے والی تاکید سے کم نہیں زیادہ ہے۔ آپ کسی ملک کی مثال لے لیجئے جہاں صدر جمہوریہ کے اعزاز میں دئے جانے والے لنچ یا ڈنر میں یہ طے ہے کہ خاص قسم کی شراب پی جائے گی۔ اب اگر مہمان صدر یہ کہہ دے کہ میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں تو اس ملک میں وہ پروگرام ہی کینسل کر دیا جائے گا۔ ڈنر یا لنچ کا پروگرام ختم کر دیا جائے گا۔ ایسا ہو چکا ہے۔ یہ چیز ہم نے اپنی زندگی میں حود دیکھی ہے۔ آپ سارے لوگ یا آپ میں بیشتر افراد اس سے واقف ہیں۔ اگر کوئي شخص ٹائی لگائے بغیر کسی سرکاری تقریب میں شامل ہونا چاہے تو اعتراض کریں گے کہ یہ پروٹوکول کے خلاف ہے، اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آپ کو ہر حال میں یا نیک ٹائي لگانی ہے یا بو ٹائی لگانی ہے۔ یہ آخر کیا ہے؟ یہ ثقافت ہی تو ہے۔ اس پر وہ اس قدر بضد رہتے ہیں، اس قدر اس کے پابند ہیں۔
مرد و زن کے باہمی اختلاط کا جہاں تک معاملہ ہے جسے انہوں نے مساوات اور برابری کا نام دیا ہے اور جو حقیقت میں مساوات اور برابری ہرگز نہیں ہے، یہ انتہائی مضر اور زہر آلود اختلاط ہے جس نے دنیا کے معاشروں کو اور سب سے بڑھ کر مغربی معاشروں کو اپنا شکار بنایا ہے۔ اب مفکرین اور دانشور رفتہ رفتہ اس بات کا ادراک کر رہے ہیں کہ یہ غلط راستہ ہے۔ یہ ایسا راستہ ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔ یعنی یہ حرکت اسی طرح جاری رہنے والی ہے، ابھی سیر اور مطمئن نہ ہونے والی انسانی ہوس اس گمراہ سفر کو تا ابد جاری رکھے گی۔ تو وہ مرد و زن کے باہمی اختلاط کو اپنا اصول مانتے ہیں، اگر آپ اس سے متفق نہ ہوں تو وہ آپ کو چلتا کر دیں گے، آپ کو مسترد کر دیں گے، آپ کی مذمت بھی کریں گے، یعنی وہ اپنی ان چیزوں پر جو نامعقول اور غیر منطقی چیزیں ہیں، بضد ہیں اور ان کی پابندی کرتے ہیں۔ ماسکیوریڈ بال نامی جشن جو جو مغربی ملکوں میں بہت عام ہیں اور جن میں نہ معلوم کیسی کیسی بدکاریاں اور رسوائیاں ہوتی ہیں اور جن کی داستان بہت طویل ہے، وہ اس پر سختی سے کاربند ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی ثقافتی چیزوں پر ہم سے زیادہ بضد رہتے ہیں، ان کے پابند رہتے ہیں، حالانکہ یہ اقدار نہیں بلکہ اقدار مخالف چیزیں ہیں۔ تو پھر ہم اپنی ثقافت اور ثقافتی اقدار پر اصرار اور ان کی پابندی کیوں نہ کریں؟! معلوم یہ ہوا کہ ثقافت کا مسئلہ اور اس پر توجہ دینے کا معاملہ بے حد اہم ہے، اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری ملک کے حکام کی ہے اور یہ آپ کی کونسل اس سلسلے میں سب سے مناسب اور بہترین جگہ ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ اس کونسل کا مسئلہ ہے۔ سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب بھی ہمارے عظیم الشان امام خمینی کے بے نظیر کارناموں میں سے ایک ہے۔ پہلے ثقافتی انقلاب کمیشن تھا۔ پھر امام خمینی کو ثقافتی انقلاب کونسل کی تجویز دی گئی۔ امام خمینی نے بلا تامل اس تجویز کو قبول کر لیا(8)۔ آپ نے بڑا ٹھوس حکمنامہ بھی جاری کیا۔ اس وقت میں صدر مملکت تھا میں نے بعد میں ان سے سوال کیا کہ کیا اسے قانونی شکل دے دی جائے تو امام خمینی نے فرمایا کہ ہاں اس پر عمل ہونا چاہئے (9) یعنی اسے قانون کا درجہ دینے کا حکم دیا۔ یہ امام خمینی کے عظیم کارناموں میں سے ایک ہے۔ جناب روحانی صاحب نے بجا فرمایا کہ یہ سب سے اعلی اور بہترین مرکز ہے۔ واقعی کوئی بھی حکومت خود کو ایسے ادارے سے بے نیاز نہیں قرار دے سکتی۔ یہ بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اس کونسل کی سب سے بڑی پونجی آپ لوگ ہیں جو اس کونسل کے رکن ہیں۔ واقعی یہ جو ادارہ تشکیل پایا ہے، اس میں ارکان ہیں وہ بہترین افراد ہیں۔ کونسل کا سربراہ صدر مملکت ہوتا ہے جو ملک کی مجریہ کا سربراہ ہے۔ کونسل کے سربراہ کے معاونین میں پارلیمنٹ اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ شامل ہیں۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ یہ افراد عموما علم و ثقافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ہوتے ہیں، ایسے افراد ہیں جنہیں ثقافتی شعبے کا درد ہے۔ ان کی نظر میں ثقافت کا مسئلہ انتہائی اساسی اور کلیدی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس کے دیگر ارکان بھی بڑے اہم افراد ہیں۔ اس کونسل کی ایک بہت ہی خاص بات اور انہائی اہم پہلو یہ ہے کہ کونسل ثقافت کو سیاسی حلقوں اور دھڑوں کی سطح پر آنے والے تغیرات کے تابع نہیں ہونے دیتی۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ ثقافت کا مسئلہ روزمرہ کے سیاسی تغیرات سے محفوظ رہے۔ تمام حکومتوں کے زمانے میں ثقافت کی پوزیشن مستحکم رہی ہے۔ اس کے بعض ارکان کبھی کبھی تبدیل ہوتے ہیں لیکن اس سے کونسل کا ڈھانچہ متاثر نہیں ہوتا۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ملکی ثقافت پائیداری اور دوام کے ساتھ اپنی ڈگر پر آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کونسل کے اندر بھی بہت سے بنیادی کام انجام پائے ہیں جن کا میں اپنے معروضات میں اشارتا ذکر کروں گا۔ کونسل سے متعلق اپنی گفتگو میں اس بات پر میں تاکید کرنا چاہوں گا کہ کونسل کے ارکان اس ادارے کی صلاحیت و اہمیت کو باور کریں، یہ باور کریں کہ یہ کونسل ملکی ثقافت کا محور و مرکز ہے۔ یہ باور کریں کہ ملک کے ثقافتی امور کا کمانڈ اینڈ کنٹرول اس کونسل کے ہاتھ میں ہے، ثقافتی شعبے کی پالیسی سازی کی جگہ یہی کونسل ہے۔ کونسل کے ارکان کو اس پر توجہ دینا چاہئے۔ ارکان ہمیشہ اپنی موجودگی کا ثبوت دیں، دائمی طور پر نظر آئیں اور خود کونسل ایک ادارے کی حیثیت سے بھی ہمیشہ اپنی موجودگی ثابت کرے۔ اس ادارے میں کبھی تعطیل نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ سربراہان مملکت غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں، سفر پر رہتے ہیں، اس کی وجہ سے کونسل کی سرگرمیاں معطل نہیں ہونا چاہئے۔ کونسل کا کام جاری رہنا چاہئے، کونسل کے مینجمنٹ کا جو ڈھانچہ رکھا گیا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ ادارے کا کام کبھی بھی رکنے نہ پائے۔ یہ اس ادارے سے متعلق کچھ باتیں تھیں۔ جہاں تک ادارے سے منظور ہونے والی تجاویز اور قراردادوں کا مسئلہ ہے تو اس بارے میں میرا بھی یہی کہنا ہے کہ کلیدی و اساسی مسائل پر کام کیا جائے۔ جیسا کہ گزشتہ چند سال کے دوران کونسل نے اسی نہج پر کام کیا ہے۔ ماضی میں ہمیں اس بات پر تشویش تھی کہ بسا اوقات جزوی اور فروعی مسائل کونسل کا خاصا وقت لے لیتے ہیں۔ اسی کے عشرے میں جب میں خود بھی اس کونسل میں تھا، ہمارے سامنے ایک بڑی مشکل یہی تھی کہ کسی ایک شخص کے مسئلے پر اچھا خاصا وقت صرف ہو جاتا تھا اور اساسی و کلیدی کام یونہی باقی رہ جاتے تھے۔ بحمد اللہ اب یہ صورت حال نہیں ہے۔
تیسرا اہم مسئلہ ہے عملدرآمد کی گیرنٹی کا۔ اس کونسل میں منظور ہونے والی باتوں پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ اگر عملدرآمد کے لئے آپ باقاعدہ کوئی سسٹم ترتیب دیتے ہیں تو بہت بہتر ہے اور اگر فرض کیجئے کہ اس کونسل سے منظور ہونے والی قراردادوں اور تجاویز پر عملدرآمد کا کوئی اجرائی سسٹم نہیں بن پاتا ہے تب بھی اس کونسل میں صدر مملکت کی موجودگی، مقننہ کے سربراہ کی موجودگی جو حسب ضرورت قانون سازی کے مراحل انجام دے سکتا ہے، اسی طرح وزراء اور دیگر عہدیداروں کی موجودگی بھی اپنے آپ میں عملدرآمد کی گیرنٹی ہے۔ مثال کے طور پر آپ فرض کیجئے کہ جامع علمی روڈ میپ تیار ہوا، حقیقت میں اس کونسل کا ایک بڑا کارنامہ جامع علمی روڈ میپ کی تدوین ہے، یہ بہت بڑا کام ہوا ہے اور اس پر عملدرآمد کے لئے بہترین منصوبہ کی گئی ہے۔ جب ایسا کوئی منصوبہ یا روڈ میپ سامنے آتا ہے تو اجرائی اداروں کو اپنے حصے کے امور کی ذمہ داری سنبھالنا چاہئے۔ اسی طرح آپ ثقافتی منصوبہ بندی سے متعلق دستاویز کی مثال لے لیجئے! جس کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ یہ پوری ہو چکی ہے یا پوری ہونے والی ہے۔ اس کے لئے بھی اجرائی بندوبست ضروری ہے تاکہ اس پر عملدرآمد ہو سکے۔ اسی طرح اسلامی یونیورسٹی سے متعلق دستاویز، یا تعلیم و تربیت کے شعبے میں بنیادی تبدیلی سے متعلق دستاویز ہے جس پر عملدرآمد کے سلسلے میں وزیر تعلیم و تربیت کو اپنے فرض کا احساس کرتے ہوئے عمل کرنا چاہئے، یا ملک میں غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے افراد سے متعلق دستاویز ہے، اس جلسے میں میں نے خود بھی شرکت کی تھی، یہ بڑی اجھی دستاویز تیار ہوئی ہے۔ اس مسئلے پر عملدرآمد کی ذمہ داری نائب صدر کی ہے۔ مختصر یہ کہ کونسل کے ارکان اور ثقافتی و علمی ادارے عملدرآمد کی ذمہ داری قبول کریں اور یہ باور کریں کہ ہم نے اس کونسل کو مرکزی چھاونی کا درجہ دیا ہے۔ چھاونی کا لفظ ہو سکتا ہے کہ سماعتوں پر بار ہو کیونکہ یہ ایک جنگی و فوجی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ کہیں کہ چھاونی تو فوجی شعبے کی چیز ہوتی ہے، آپ ثقافتی مسائل میں بھی جنگی و فوجی فکر کو داخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ ثقافتی کارزار، فوجی پیکار سے اگر زیادہ اہم اور زیادہ خطرناک نہیں ہے تو کمتر بھی نہیں ہے۔ اسے ذہن میں رکھئے، البتہ آپ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ واقعی یہ میدان کارزار ہے۔ فوجی چھاونی میں یہ ہوتا ہے کہ اس میں اجرائی امور کے لئے الگ سے کوئی یونٹ نہیں ہوتی۔ اس کو مختلف یونٹیں دی جاتی ہیں فوجی اصطلاح میں یوں کہنا چاہئے کہ چھاونی کی آپریشنل کمانڈ میں دی جاتی ہیں۔ جب ہم فوجی چھاونی تشکیل دیتے ہیں تو مثال کے طور پر پاسداران انقلاب فورس کہے گی کہ ہمارے یہ فوجی دستے فلاں چھاونی کی آپریشنل کمانڈ میں ہیں اور ان کے سپورٹ کی ذمہ داری فلاں یونٹ یا فلاں ادارے کی ہے، لیکن ان یونٹوں کے استعمال کرنے اور ان کی رہنمائی کرنے کا اختیار چھاونی کو ہوتا ہے۔ تو یہاں کونسل میں اس طرح کی صورت حال ہونا چاہئے۔
بہرحال جو روڈ میپ اور دستاویزات یہاں تیار کئے جا رہے ہیںوہ بہت اہم اور معیاری ہیں، ان میں سے بعض کا میں نے ذکر کیا ہے، ان کے علاوہ بھی بہت سے دستاویزات ہیں جو یہاں تدوین پا چکے ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ کونسل ہائیر ایجوکیشن سے متعلق دستاویز، یا وزارت صحت سے متعلق دستاویز یا وزارت تعلیم و تربیت سے متعلق دستاویز تیار کرکے اس ادارے کے حوالے کر دے اور مطمئن ہوکر بیٹھ جائے۔ کونسل کو چاہئے کہ اس دستاویز پر عملدرآمد ہونے اور عملدرآمد کی کیفیت پر بھی نظر رکھے، کام مکمل ہوجانے تک نگرانی کرے یا پھر کم از کم اس وقت تک ضرور نظر رکھے جب تک اس پر باقاعدہ عملدرآمد کا سلسلہ نہ شروع ہوجائے۔ یعنی ہماری نظر میں عملدرآمد کی گیرنٹی کے تعلق سے بھی کونسل کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔
چوتھا مسئلہ جس میں گفتگو کرنا چاہوں گا، ثقافتی یلغار سے متعلق ہے۔ ہم نے چند سال قبل ثقافتی یلغار کا موضوع اٹھایا۔ کچھ لوگ اس بات کے انکاری تھے، کہتے تھے کہ کیسی یلغار؟! رفتہ رفتہ انہیں محسوس ہوا کہ یہ بات صرف ہم نہیں کہہ رہے ہیں، کچھ اور بھی غیر مغربی ممالک ثقافتی یلغار سے فکرمند ہیں اور ان کا بھی کہنا ہے کہ مغرب ثقافتی یلغار کر رہا ہے۔ اس کے بعد یہ نوبت ہوئی کہ خود یورپی ممالک کہنے لگے کہ امریکا ہمارے اوپر ثقافتی یلغار کر رہا ہے۔ آپ نے بھی یقینا دیکھا اور پڑھا ہوگا کہ یورپ والے کہہ رہے ہیں کہ امریکی فلموں اور امریکی کتابوں نے کس طرح ہمیں ثقافتی یلغار کا نشانہ بنایا ہے اور وہ کس طرح ہماری ثقافت کو نابود کر رہا ہے۔ تو ثقافتی یلغار ایک حقیقت ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں البتہ میں اعداد و شمار کے معاملے میں ذرا احتیاط برتنے کا عادی ہوں لہذا میں کہتا ہوں کہ سیکڑوں کی تعداد میں ذرائع ابلاغ اور ویب سائٹیں دنیا میں سرگرم عمل ہیں جن کا نشانہ ایران ہے! باقاعدہ ایران کو نشانہ قرار دیکر سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں، یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتی ہوں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی ملک کا ریڈیو یا ٹی وی چینل اپنے انداز میں کام کر رہا ہے، صورت حال یہ نہیں ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فارسی زبان میں پروگرام تیار کرتے ہیں، فارسی زبان کے افراد کے نظام الاوقات کو مد نظر رکھ کر پروگرام پیش کئے جاتے ہیں، ہمارے مسائل گہری نظر رکھی جاتی ہے اور انہی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے پروگرام ترتیب دئے جاتے ہیں۔ یعنی بالکل واضح ہے کہ اس کا نشانہ ہم ہیں۔ یہی نہیں وہ خود بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں، انہیں اس سے انکار نہیں ہے۔ تو ثقافتی یلغار ایک حقیقت ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ہماری قوم کی سوچ پر، طرز فکر اور طرز زندگی پر، جوانوں، نوجوانوں اور بچوں پر اثرانداز ہوں۔ کمپیوٹر گیم بھی اسی منصوبے کا حصہ ہیں۔ ملک میں جو ویڈیو گیم اور کمپیوٹر گیم باہر سے آ رہے ہیں وہ بھی اسی سازش کا حصہ ہیں۔ میں نے بہت تاکید کی ہے کہ ہمیں داخلی سطح پر پرکشش اور بامعنی کمپیوٹر گیم تیار کرنا چاہئے۔ میں نے بعض حکام سے اس سلسلے میں بڑی سفارش بھی کی۔ البتہ بحمد اللہ بظاہر یہاں اس سلسلے میں بھی ایک فیصلہ کیا گيا ہے۔ اب کوشش کیجئے کہ اس فیصلے پرعملدرآمد ہو۔ ہمارے احباب نے ایک ذمہ دار اور سرگرم عمل ادارے میں بڑی اچھی 'گڑیا' تیار کی۔ اس پر سب سے پہلا رد عمل مخالفین یعنی غیر ملکیوں کی طرف سے آیا۔ انہوں نے اس پر بات کی کہ ایرانیوں نے 'باربی ڈال' کے مقابلے پر اپنی الگ گڑیا تیار کی ہے۔ لیکن پوری طرح کامیابی نہیں ملی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کے کام میں خامی یہ رہی کہ آپ نے ایک خاص نام سے ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو گڑیا کی شکل میں پیش کر دیا۔ آپ نے جو گڑیا پیش کی ہے اسے ہمارے بچے پہچانتے ہی نہیں۔ ہم جو ثقافتی لگاؤ اور رجحان کی بات کرتے ہیں تو وہ یہی چیز ہے۔ آپ نے جو گڑیا پیش کی وہ بس ایک گڑیا ہے۔ لیکن جب بچہ دیکھتا ہے کہ فلموں میں جو اسپائیڈر مین نظر آتا ہے وہ دوکان پر گڑئے کی شکل میں موجود ہے تو بچہ ماں باپ سے ضد کرتا ہے کہ ہمارے لئے یہ کھلونا خریدئے۔ یہ ہے ثقافتی لگاؤ اور وابستگی۔ آپ نے گڑیا تو بنائی لیکن آپ کو چاہئے تھا کہ اس گڑیا کے ساتھ دس بیس کارٹون فلمیں بھی بناتے تا کہ اس گڑیا اور اس کھلونے کو بچے پہچان پاتے تو وہ بازار سے یہ کھلونے خریدتے۔ جب اس کا تعارف نہیں کرایا جائے گا تو ظاہر ہے کہ ڈیمانڈ بھی نہیں رہے گی اور کمپنی دیوالیہ ہو جائے گی۔ چنانچہ یہ کمپنی دیوالیہ ہو بھی گئی۔ یعنی اس میں بڑی باریک بینی کی ضرورت ہے۔ تو کہنے کامقصد یہ ہے کہ اس شکل میں ثقافتی یلغار ایک حقیقت ہے۔
غیر ملکی زبانوں کی درسی کتب۔ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت غیر ملکی زبانوں اور خاص طور پر انگریزی زبان کی تعلیم کا رواج کافی بڑھ گیا ہے۔ مختلف کوچنگ سنٹر کھل گئے ہیں۔ یہ کوچنگ سنٹر ہیں۔ تمام درسی کتابیں جو ماڈرن روش پر اور اچھے انداز میں انگریزی زبان میں تیار کی گئی ہیں، یہ کتابیں مغربی طرز زندگی کی تبلیغ بھی کرتی ہیں، ان میں پیش کیا جانے والا طرز زندگی انگریزوں کا طرز زندگی ہے۔ جب ہمارے بچے اور ہمارے نوجوان ان کتابوں کو پڑھیں گے تو صرف زبان نہیں سیکھیں گے بلکہ ممکن ہے کہ وہ زبان بعد میں بھول جائیں لیکن کتابیں پڑھتے وقت مغربی طرز زندگی کی جو تصویر بچوں کے ذہن میں منقوش ہو جاتی ہے (10) وہ ذہن سے نہیں مٹتی۔ اس انداز سے کام ہو رہا ہے۔
اس کے سلسلے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اس سلسلے میں ہمیں دو کام کرنا چاہئے۔ ایک تو ہے محنت اور دوسرے ہے خلاقانہ صلاحیت کا استعمال۔ یہ دو چیزیں اور یہ دو اہم باتیں مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کام کرنا ہے اور کام خلاقانہ انداز میں انجام دینا ہے۔ اس سلسلے میں قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، وزارت ثقافت و اسلامی ہدایت کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ میں جناب جنتی صاحب (11) سے بھی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ بات کہہ چکا ہوں۔ ہمارے سامنے ایک اہم کام ہے کتابوں کی تدوین اور کتابوں کا ترجمہ۔ آپ جائزہ لیجئے اور غور کیجئے کہ دنیا میں ضبط تحریر میں آنے والی کون سی چیزیں ایرانی نوجوان کے لئے لازمی ہیں۔ ایسی کتابوں کا ترجمہ کروائیے، پیسے خرچ کیجئے اور ان کتابوں کو فارسی میں منتقل کیجئے۔ جس طرح دوسرے افراد یہ کام کر رہے ہیں۔ میں کتابوں سے بڑ شغف رکھتا ہوں، کتابیں بہت پڑھتا ہوں، نشر و اشاعت کے بازار میں آنے والی نئی کتابوں کے بارے میں میرے پاس کافی اطلاعات ہیں۔ بہت کام ہو رہا ہے، سرمایہ دار خاصہ پیسہ خرچ کرتا ہے مترجم کو دیتا ہے کہ فلاں کتاب ہمارے لئے ترجمہ کر دو! ایسے ہی ایک صاحب سے میں نے سوال کیا کہ آپ مترجم سے رجوع کرتے ہیں یا مترجم آپ سے رجوع ہوتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم مترجم کے پاس جاتے ہیں۔ انہوں نے بالکل بجا کہا۔ مترجم کی تلاش کی جاتی ہے کہ وہ کتابوں کا ترجمہ کرے۔ آپ بھی یہ کام کیجئے۔ کتاب کا ترجمہ کیجئے، کتابوں کی تصنیف کروائیے، فلمیں بنائیے! آج ہمارے پاس فلمسازی کے میدان میں کافی توانائی ہے۔ میں نے حال ہی میں، چند روز قبل جناب ڈاکٹر روحانی صاحب سے عرض کیا کہ میں نے ایک فلم دیکھی ہے جو واقعی فلمسازی کے فن اور اسلوب کے اعتبار سے ہالیوڈ کی بہترین فلموں کے معیار کی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ آج ملک میں ہمارے پاس یہ استعداد اور صلاحیت موجود ہے جس کے ذریعے ہم اپنا پیغام دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں، درست باتوں کو منعکس کر سکتے ہیں۔ فلم بڑی پرکشش اور جاذب نظر چیز ہے۔ سنیما میں بڑی کشش ہے، یہ غیر معمولی ابلاغیاتی ذریعہ ہے۔ یعنی اس وقت تاثیر کے اعتبار سے سنیما اور فلم سے بہتر کچھ نہیں ہے۔ اس میدان میں آپ کام کیجئے، جدت عملی کا مظاہرہ کیجئے، کھلونے اور کمپیوٹر گیم بھی اسی طرح بہت اہم ہیں۔ گڑیا بہت اہم ہے۔ یہ چیزیں بہت ضروری ہیں۔ ہمارے بچوں کا سب سے پسندیدہ کھلونا ہے بندوق۔ بھئی! امریکی جو اس کام میں ہمارے اجداد کے بھی باپ ہیں، آج پشیمان ہیں، سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ کیا کریں؟! ہمارے بچے 'گلی ڈنڈا' جیسا کھیل کھیلتے تھے جس میں جسم متحرک رہتا تھا۔ ایک طرح کی ورزش اور کسرت تھی۔ اسی طرح جو لیکریں کھینچ کر گھر بناتے تھے اور ایک پیر پر اچھلتے ہوئے ایک خانے سے دوسرے خانے میں جاتے تھے، ہمارے بچوں کے کھیل یہ تھے۔ اب ہم نے ان بچوں کو لاکر انٹرنیٹ پر بٹھا دیا ہے۔ نہ جسمانی تحرک ہے، نہ کسرت ہے، ان کا ذہن اغیار کے نظریات کے حصار میں ہے۔ آپ بھی نئے نئے کھیل تیار کیجئے! ان کا پرچار کیجئے! آپ ہمارے بچوں کے یہی پرانے کھیل ترویج کیجئے! یہ اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ اسے پھیلانے کی کوشش کیجئے! یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم مغرب والوں کو دیکھیں کہ وہاں کون سا کھیل رائج ہے اور ہم بھی وہی کھیل پسند کرنے لگیں۔ میں ان کھیلوں کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہتا تاہم اختصار سے یہ کہنا ہے کہ ہمارے پاس بہت سے کھیل ہیں جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں (12)۔ ہمارا کھیل چوگان ہے جسے لوگوں نے اب اپنے نام کر لیا ہے (13)۔ یہ کھیل آپ رائج کیجئے۔ روایتی کسرت بہت پرکشش اور فنکارانہ کسرت ہے، اس کی ترویج کیجئے! ان کو عام کیجئے، انہیں بڑھاوا دیجئے تا کہ بچے ان میں دلچسپی لیں۔ ہمارے بچے، میرے پوتے پوتیاں انٹرنیشنل فٹبال کے کھلاڑیوں اور ستاروں کے ناموں سے بخوبی واقف ہیں، ان کے نام دہراتے رہتے ہیں۔ ایک کسی کا پرستار ہے تو دوسرا کسی اور کا فین ہے۔ کوئی کسی غیر ملکی ٹیم کا لباس پہنتا ہے تو کوئی کسی اور ٹیم کا لباس پہنتا ہے۔ لیکن اگر آپ کسی معاصر سائنسداں کا نام لیجئے تو وہ نہیں پہچانیں گے، نام سن کر بھی وہ نہیں سمجھ سکتے کہ یہ کون ہے۔ یہ بری بات ہے۔ اس پر ہمیں واقعی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ثقافتی یلغار کے مسائل میں ہمیں چاہئے کہ ان چیزوں کے ملک میں وارد ہونے کے وقت ہی بلکہ وارد ہونے سے پہلے ہی باخبر ہو جائیں۔ فرض کیجئے کہ دنیا میں کوئی فکر یا روش رفتہ رفتہ رائج ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ہمارے یہاں بھی پہنچے گی۔ مواصلاتی ٹکنالوجی کا دور ہے۔ اپنے گرد ہم حصار تو کھینچ نہیں سکتے۔ کوئی بھی چیز ملک میں وارد ہونے سے پہلے ہی آپ سوچ لیجئے کہ اس کا حکیمانہ اور مدبرانہ مقابلہ کیسے کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ ہر چیز کو مسترد کر دیں۔ ایسا نہیں ہے، کبھی کبھی کوئی ایسی چیز بھی رائج ہوتی ہے جسے ہم قبول کر سکتے ہیں۔ کبھی وہ چیز ایسی ہے کہ جس میں ہم ضروری اصلاحات کر سکتے ہیں، یا وہ ایسی چیز ہے کہ ہم نے اس میں ذرا سا کچھ اضافہ کر دیا تو اس کی ساری مشکل برطرف ہو گئی۔ دیر سے حرکت میں آنا، تاخیر سے ادراک کرنا، راہ حل کی تلاش میں دیر کرنا، باعث بنے گا کہ آپ ایسی مشکلات سے دوچار ہو جائیں کہ پھر آپ کے پاس ان کے حل کا کوئي راستہ باقی نہ رہے۔ تو میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رہئے، البتہ جب یلغار ہوگی تو ظاہر ہے کہ انسان کو دفاع کرنا ہوگا، اس میں کوئي شک و شبہ نہیں ہے لیکن میری سفارش یہ ہے کہ ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں نہ رہئے۔ جارحانہ انداز اختیار کیجئے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آپ کا موقف درست ہو اور آپ کی حرکت صحیح ہو۔ ثقافتی یلغار کے سلسلے میں سب سے برا رد عمل سراسیمگی ہے، سب سے نقصان دہ جواب بے عملی ہے۔ ثقافتی یلغار پر ہمیں پسپائی اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیشک اس یلغار پر ہم کوئی جوابی کارروائی تو نہیں کر سکے لیکن ہم نے پسپائی بھی نہیں اختیار کی ہے۔ دشمن کی یلغار کو قبول کر لینا بہت بڑی غلطی ہے، اس سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔
پانچواں اہم مسئلہ جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، یونیورسٹی اور تحقیقاتی مراکز میں علم و دانش کا مسئلہ ہے۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ جناب ڈاکٹر روحانی کو میں نے دیکھا کہ اس پر توجہ دے رہے ہیں۔ علم و دانش کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ گزشتہ دس بارہ سال میں ہماری علمی پیشرفت ایک اٹل سچائی ہے، کچھ لوگوں کو اس کا یقین نہیں آیا اور کچھ نے باقاعدہ اس کا انکار بھی کیا۔ ایک صاحب نے، جن کے بارے میں اس نشست میں موجود بعض لوگوں کو اندازہ ہے کہ میری مراد کون صاحب ہیں، میں نام نہیں لینا چاہتا، جب ایٹمی مسئلہ اور سنٹری فیوج مشینوں کا معاملہ شروع شروع میں اٹھا تو مجھے ایک خط لکھا کہ جناب! یہ ساری باتیں غلط ہیں، ان پر آپ یقین نہ کیجئے! یہ بھی لکھا تھا اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شاید اسٹیم سیلز کے بارے میں بھی لکھا تھا، البتہ اس وقت ٹھیک سے مجھے یاد نہیں ہے۔ ان کا خط ہمارے پاس موجود ہے۔ لکھا کہ یہ لوگ آپ کو آکر جو رپورٹیں دیتے ہیں ان پر یقین نہ کیجئے! حقیقت امر یہ نہیں ہے۔ یہ رپورٹیں حقیقت سے دور ہیں! خود یہ صاحب بھی سائنٹسٹ ہیں، میرے معتمد علیہ انسان ہیں، میں انہیں بہت چاہتا ہوں، انہیں یقین نہیں ہو رہا تھا۔ البتہ مجھے یقین ہو گیا تھا اور روز بروز اس یقین کو اور تقویت ملتی گئی۔ کئی سال گزر جانے کے بعد حال ہی میں یہی ایک اجلاس ہوا جس میں ہماری آج کی نشست کے بھی بعض حضرات موجود تھے۔ انہی صاحب نے مجھ سے کہا کہ ہماری یونیورسٹیوں میں ہمارے نوجوان جو ایجادات اور ترقی کر رہے ہیں انہیں پذیرائی نہیں ملتی۔ شکایتیں شروع کر دیں کہ ہمارے نوجوان بڑی محنت کر رہے ہیں، بہت کام ہو رہا ہے لیکن ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا رہی ہے۔ مجھے ان کی وہ بات یاد آ گئی جو کئی سال پہلے انہوں نے کہی تھی کہ ترقی کی یہ باتیں اور رپورٹیں غلط ہیں۔ تو جناب ترقی اور پیشرفت کا معاملہ عین حقیقت ہے، ہم نے دنیا کی علمی پیشرفت کی اوسط رفتار سے تیرہ گنا زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی ہے یہ بالکل حقیقت ہے، یہ بات دوسروں نے کہی ہے، ہمارے مخالفین نے تسلیم کی ہے۔ مختلف شعبوں میں ہمارے نوجوانوں نے بہت بڑے بڑے کام انجام دئے ہیں پیشرفت کی ہے۔ وزیر تعلیم و تربیت اور وزیر صحت سے میری سفارش یہ ہے کہ آپ علمی پیشرفت کی اس رفتار کو کم نہ ہونے دیجئے۔ اس میں جہاں تک ممکن ہو مزید سرعت پیدا کیجئے۔
اس میں رکاوٹ ڈالنے والی ایک چیز ہے یونیورسٹیوں کا سیاست میں کود پڑنا۔ اس پر جناب فرجی دانا صاحب (14) اور جناب ہاشمی صاحب (15) توجہ دیں، یونیورسٹی کو سیاسی دھڑوں کی جولان گاہ نہ بننے دیجئے۔ ہم نوجوان کو سیاسی تغیرات کی ٹرین کے انجن کی حیثیت سے دیکھیں، یہ میرا نظریہ ہے۔ میں نے ایک زمانے میں یہ بات کہی تھی تو بعض صاحبان نے جو یونیورسٹی کی خیر خواہی کا بڑا دم بھرتے ہیں میری سرزنش کی کہ آپ تو ان نوجوانوں میں ہیجان اور اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ جی نہیں، میں اس موقف کا حامی ہوں۔ کسی بھی معاشرے میں سیاسی و سماجی تغیرات کی ٹرین کا انجن نوجوان نسل ہوتی ہے، خاص طور پر اسٹوٹنٹس کا تو یہ مزاج ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے۔ یہ اس سے الگ چیز ہے کہ ہم یونیورسٹی کو سیاسی دھڑوں کی جولان گاہ بنا دیں جن میں کچھ دھڑے اسلامی نظام کے ہی مخالف ہیں یا اسلامی نظام کی پالیسیوں اور سمت و جہت کے خلاف ہیں۔ آپ ضرور اس کا خیال رکھئے اور اس کا سد باب کیجئے۔ اس ضمن میں، میں یہ بھی عرض کر دوں کہ ہم توانائی رکھتے ہیں یہ ہماری قوم کا نعرہ ہے تو آپ اس نعرے کی برعکس صورت حال کو وقوع پذیر نہ ہونے دیجئے۔ یہ کہا گیا کہ ہم علم و دانش کی بلند ترین چوٹیوں پر پہنچ سکتے ہیں، ہم دنیا کا علمی مرکز و محور بن سکتے ہیں، ہم خود کو علمی میدان کی پسپائی سے نجات دلا سکتے ہیں، آج ہم خود کو نجات دلا چکے ہیں جس کا اعتراف ہمارے دشمن اور ہمارے مخالفین بھی کر رہے ہیں کہ ایران سائنس و ٹکنالوجی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ صرف ایٹمی شعبے میں نہیں بلکہ دیگر شعبوں کے بارے میں بھی وہ اعتراف کر رہے ہیں۔ 'ہم کر سکتے ہیں' کا جذبہ جو ہمارے نوجوانوں کے اندر موجزن ہے، اسے ضائع نہ ہونے دیجئے۔ آپ بھی 'ہم کر سکتے ہیں' کا نعرہ دہرائیے اور اس سمت میں اگے بڑھئے! ہم جدید اسلامی تمدن کی تشکیل کر سکتے ہیں، ہم ایسی دنیا تعمیر کر سکتے ہیں جو روحانیت و معنویت سے سرشار ہو اور جو راہ ہدایت پر گامزن ہو۔ ہم یہ کام انجام دے سکتے ہیں، توفیق الہی سے ہم یہ کر کے دکھائيں گے۔
چھٹا نکتہ جو میں نے نوٹ کیا تھا، زبان فارسی سے متعلق ہے۔ مجھے فارسی زبان کی بابت بڑی فکر ہے، بڑی تشویش ہے۔ برسوں پہلے ہم نے اس سلسلے میں کام کیا تھا، اقدامات انجام دئے تھے، ایسے افراد کو تلاش کیا تھا جو سر جوڑ کر بیٹھیں اور مشکل کا حل تلاش کریں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس سلسلے میں صحیح طریقے سے کام نہیں ہو پا رہا ہے اور زبان پر حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی اصطلاحات رائج ہوتی جا رہی ہیں اور اگر کوئی وہ غیر ملکی اصطلاح استعمال نہ کرے بلکہ اس کی جگہ فارسی یا عربی اصطلاح استعمال کر لے تو اسے تمسخرآمیز انداز میں دیکھتے ہیں۔ یہ بہت بری بات ہے۔ یہ عمومی ثقافت کا معاملہ ہے اس کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ دوستو! ایک زمانے میں زبان فارسی قدیمی زمانے کے قسطنطنیہ سے لیکر اس زمانے کے استانبول سے لیکر بر صغیر ہند تک کے وسیع رقبے کی علمی زبان تھی۔ یہ بات میں پختہ اطلاعات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ حکومت عثمانی کے مرکز 'آستانہ' (16) میں ایک طویل عرصے تک فارسی کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا۔ بر صغیر ہند کی نمایاں ترین علمی شخصیات فارسی زبان میں گفتگو کرتی تھیں۔ جب انگریز برصغیر ہند میں داخل ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ فارسی زبان پر روک لگائی، انہوں نے اپنے مخصوص حربوں اور چالوں کے ذریعے فارسی زبان کا سد باب کرنا شروع کر دیا۔ البتہ آج بھی فارسی زبان وہاں موجود ہے اور اس زبان کے عاشق پائے جاتے ہیں۔ میں نے خود ہندوستان جاکر دیکھا اور بعض افراد وہاں سے ایران آئے اور یہاں ان سے ملاقات ہو چکی ہے، یہ افراد فارسی زبان کے گرویدہ ہیں اور ہم فارسی زبان کے مرکز میں ہوتے ہوئے بھی اس زبان کو فراموش کرتے جا رہے ہیں، اس کی تقویت کے لئے، اسے اور گہرائی تک اتارنے کے لئے، اس کی ترویج کے لئے اور غیر ملکی اصطلاحات کی دراندازی کے سد باب کے لئے ہم کوئی اقدام نہیں کر رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ نئے نئے الفاظ آ رہے ہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ کچھ نئی چیزیں آتی جا رہی ہیں جنہیں ہم نے کبھی نہی‎ سنا۔ کبھی کچھ لوگ کوئی ایسا لفظ استعمال کرتے ہیں کہ میں ان سے کہتا ہوں کہ اس کا مفہوم میری سمجھ میں نہیں آیا، اس کے کیا معنی ہیں؟ جب اس کا ترجمہ کرتے ہیں تب سمجھ میں آ‏تا ہے کہ یہ نیا لفظ وارد ہو گیا ہے اور رفتہ رفتہ عوامی طبقات میں رائج ہو گیا ہے، یہ خطرناک ہے۔ فارسی نام انگریزی حروف میں لکھتے ہیں! آخر کیوں؟ اسے کون استعمال کرنا چاہتا ہے؟ جس شخص کی زبان فارسی ہے وہ یا کوئي غیر ملکی؟ فارسی نام انگریزی حروف میں، یا ایران کی بنی ہوئی مصنوعات کے نام انگریزی زبان میں۔ اس کی تصویریں لوگوں نے مجھے ارسال کی ہیں۔ ایسا کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ اگر آپ کوئي چیز ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں تو فارسی کے ساتھ اس کا انگریزی نام بھی لکھ دیجئے لیکن فارسی نام بھی ہونا ضروری ہے، ہماری اپنی مصنوعات سے فارسی نام ہٹایا نہیں جانا چاہئے۔ جس ملک کے لئے اسے ایکسپورٹ کرنا ہے وہاں کی زبان میں بھی نام لکھ دیا جائے، یہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن ایک چیز ہے جو ملک کے اندر تیار ہو رہی ہے اور ملک کے اندر ہی استعمال کی جا رہی ہے تو اس پر کوئی اور زبان لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ نرسری کے بچوں کے اسکول بیگ پر انگریزی الفاظ یا جملہ لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کھلونے کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے۔ مجھے واقعی حیرت ہوتی ہے۔ یہ ایسی باتیں جن کے سلسلے میں آپ کے دوش پر سنگین ذمہ داریاں ہیں۔ فارسی زبان کے استعمال کے سلسلے میں، میرے ذہن میں کچھ مثالیں ہیں لیکن انہیں پیش نہیں کرنا چاہتا، کمپنی کا نام، پروڈکٹ کا نام، دوکان کا نام! اسی طرح کی چیزوں کے نام تواتر سے غیر ملکی اور خاص طور پر انگریزی زبان میں رکھے جا رہے ہیں۔ میں اسے خطرناک سمجھتا ہوں۔ ضروری ہے کہ سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب اور متعلقہ افراد اس سلسلے میں سنجیدگی سے اقدامات کریں اور حکومت اس چیز کا سختی سے نوٹس لے۔ نوٹس لینے اور مقابلہ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان فورا تلخی پر اتر آئے اور سخت گیرانہ اقدامات شروع کر دے۔ آپ مقابلہ کیجئے، سد باب کیجئے لیکن حکیمانہ و مدبرانہ انداز میں، غور و فکر کیجئے کہ اس کے سد باب کا کیا مناسب طریقہ ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ تھا۔ ہیومن سائنسز کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ بشریات (humanities اس زمرے میں بہت سے شعبہ ہائے علم شامل ہیں جیسے لسانیات، ادب، تاریخ فلسفہ، فنیات، موسیقی، مذہب، قانون، علم آثار قدیمہ، سماجیات اور سیاسیات وغیرہ) کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ جناب ڈاکٹر حداد عادل صاحب نے جو آج غالبا یہاں موجود نہیں ہیں، اس سلسلے میں بڑی اچھی اور تفصیلی رپورٹ مجھے دی ہے جس میں انہوں نے اپنے زیر نگرانی کام کرنے والی ٹیم کے ذریعے اس شعبے میں انجام پانے والی قابل تعریف تحقیقات کے بارے میں بتایا ہے (17)۔ بعض افراد کو شکایت ہے کہ اس ٹیم کی کارکردگی کا کوئی ثمرہ سامنے نہیں آ رہا ہے، اسے کونسل میں پیش کیا جانا چاہئے۔ میری نظر میں سب سے بنیادی کام یہ ہے کہ 'بشریات' کے شعبے میں بنیادی تبدیلی کا علمی و منطقی پیمانہ تیار ہوئے۔ یہ بڑا کلیدی کام ہے جو پہلے انجام پانا چاہئے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ تھا۔
آخری مسئلہ ہے سماجی برائیوں اور ان برائیوں کے ثقافتی اسباب و علل کا۔ میں نے طلاق کے مسئلے کا ذکر کیا، منشیات کی طرف اشارہ کیا، مالی بدعنوانی کا ذکر کیا، جرائم کا ذکر کیا۔ دشمنوں کی ثقافتی یلغار کا ایک تخریبی اثر یہی بینکوں سے مسلحانہ ڈکیتیوں میں اضافہ ہے۔ ہم نے یہ چیز سب سے پہلے فلموں میں دیکھی، اس پر جناب ضرغامی صاحب (18) توجہ دیں، اب یہی چیز ہمارے یہاں رونما ہو رہی ہے، اس سے انہیں طریقے معلوم پڑتے ہیں۔ ہمیں بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ ہم کیا قدم اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں ان مشکلات کو سمجھنا ہوگا۔ ایک اور مسئلہ ہے آبادی کا۔ یہ ایسا خطرہ ہے کہ جس کے بارے میں گہرائی سے انسان غور کرے تو بدن کانپنے لگتا ہے، آبادی کا مسئلہ جو ہے، میرے خیال میں چند باتیں میں نے جناب ڈاکٹر ہاشمی صاحب (19) سے بھی کہی ہیں، جناب روحانی صاحب سے تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے۔ آبادی کے مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دیجئے۔ ملک میں نوجوانوں کی آبادی کم ہو رہی ہے۔ یہ حالات رہے تو ہم ایسی صورت حال میں پہنچ جائیں گے کہ پھر اس مشکل کا علاج نہیں ہو سکے گا۔ یعنی یہ معاملہ ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں ہم کہہ دیں کہ دس سال بعد اس پر توجہ دیں گے۔ یہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ اگر جوان نسل بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئی تو پھر اس مشکل کو حل کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ سب کو کامیاب فرمائے، آپ سب کی حفاظت کرے، میں نے جو باتیں عرض کیں، ان شاء اللہ آپ اس پر توجہ دیں گے۔
یہاں ہم ڈاکٹر حبیبی صاحب کو بھی یاد کریں گے، گزشتہ نشست میں جب ہم سب یہاں جمع ہوئے تو جناب ڈاکٹر حبیبی صاحب بھی علالت و کمزوری کے باوجود تشریف لائے تھے اور میں نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ اللہ آپ سب کو حفظ و امان میں رکھے، یہاں جو یہ علمی ہستیاں ہیں ان کی قدر و منزلت کو سمجھنا چاہئے، آپ کے اندر نوجوانی کی جو انرجی اور توانائی ہے اس کی اہمیت و افادیت کو سمجھنا چاہئے۔ جن کے اندر جوان کا جوش و جذبہ ہے، تخلیقی جذبہ ہے ان کی قدر کرنا چاہئے۔

والسّلام و عليكم و رحمةالله‌

۱) محترمہ كبرى‌ خزعلى‌
۲) صدر مملکت کا قائد انقلاب اسلامی کی اس تاکید کی طرف اشارہ کہ اہم منصوبوں کے لئے ثقافتی اتاشی پر توجہ دی جائے۔
۳) منجملہ 'سند چشم انداز' سے موسوم طویل المیعاد ترقیاتی منصوبے کے پانچویں مرحلے کے پروگرام کی کلی پالیسیوں کا ابلاغ (۱۳۸۷/۱۰/۲۱)
۴) صدر جمہوریہ کا اس بات کی طرف اشارہ کہ کونسل کو ثقافتی امور پر نگرانی کے لئے ایک ڈپارٹمنٹ کی ضرورت ہے۔
۵) آئین کی دفعہ چوالیس کی کلی پالیسیوں کے ابلاغ کا عمل (۱۳۸۴/۳/۲)
۶) منجملہ ۱۳۶۲/۵/۲۸
۷) صدر مملکت کا ثقافتی امور میں عوامی شراکت کی ضرورت کی طرف اشارہ
۸) سوال و جواب کا کنایہ ہے۔ ‌
۹) سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب کے سربراہ کو امام خمینی کا خط، کونسل میں پاس ہونے والے منصوبوں اور تجاویز پر عملدرآمد پر تاکید (۱۳۶۳/۱۲/۶)
۱۰) متاثر ہو جانا، ‌
۱۱) وزير ثقافت و اسلامی ہدایت‌
۱۲) منجملہ ۱۳۷۵/۱۰/۸
۱۳) سنہ دو ہزار تیرہ میں یونسکو کی ہیریٹیج کمیٹی کے ذریعے چوگان کا جمہوریہ آذربائیجان کے نام سے رجسٹریشن کر لئے جانے کی طرف اشارہ ہے۔
۱۴) وزير سائنس، تحقيقات و ‌ٹکنالوجی
۱۵) وزير صحت و میڈیکل ایجوکیشن‌
۱۶) خلافت عثمانیہ کے دور میں شهر استانبول کا لقب ‌
۱۷) سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب کے زیر نگرانی بشریات کے ارتقاء اور بنیادی تبدیلی کے لئے تشکیل دی جانے والی کمیٹی۔ جس کی تشکیل سنہ دو ہزار نو میں انجام پائی۔
۱۸) ایران کے قومی نشریاتی ادارے کے سربراہ جو جلسے میں موجود تھے۔
۱۹) وزیر صحت و میڈیکل ایجوکیشن ‌