قائد انقلاب اسلامی نے حکومت اور عہدیداروں کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی معاملے میں ریڈ لائن کا خیال رکھا جانا چاہئے اور ملت ایران کے حقوق کے سلسلے میں ایک انچ بھی پسپائی نہیں ہونا چاہئے۔
1392/08/29ہجری شمسی، مطابق 20 /11/2013 عیسوی بدھ کے روز رضاکار فورس کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے 'بسیج' کو ملت ایران کی عظمت کا آئينہ اور ملک کی انتہائی کارساز داخلی قوت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی نظام، انقلاب اور وطن عزیز سے محبت کرنے والوں کے لئے 'بسیج' باعث مسرت، امید بخش اور قابل اعتماد ہے جبکہ اسلامی نظام کے دشمنوں، بدخواہوں اور کینہ رکھنے والوں کے خوف و ہراس کا سبب ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے رسول کی نواسی ثانی زہرا حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کے عظیم کارنامے کے موقع پر منائے جانے والے 'ہفتہ بسیج' کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ 'زینبیہ جہاد' تحریک کربلا کے سلسلے کی وہ کڑی ہے جو اس تحریک کو مکمل کرتی ہے بلکہ ایک اعتبار سے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا جہاد کربلا کے عظیم واقعے کو نئی زندگی عطا کرنے اور اسے محفوظ بنا دینے والا عنصر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے عظیم کارمانے کی گہرائی کا موازنہ صرف عاشور کے عظیم کارنامے سے کیا جا سکتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلام اور عالم انسانیت کی اس عظیم خاتون نے تمام مصیبتوں اور تلخ واقعات کے سامنے سربلند اور محکم پہاڑ کی مانند استقامت کا مظاہرہ کیا اور ایک ابدی قائد اور نمونہ عمل بن گئیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اہل کوفہ کے درمیان، اسی طرح ابن زیاد کے دربار اور شام میں یزید کے دربار میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے آہنی عزم کی عکاسی کرنے والے فصیح و بلیغ خطبوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ عظیم خاتون عز و وقار کا پیکر بن گئی جیسے عاشور کے دن حضرت امام حسین علیہ السلام عز و وقار کی تصویر بن گئے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پیشرفت اور عظیم اسلامی تمدن کی تشکیل کے لئے اسلامی نظام کے گوناگوں مقاصد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ اہداف مرحلے وار اور تدریجی طور پر پورے ہوں گے اور قائدین، مفکرین اور حکام ان مراحل کا تعین کر رہے ہیں تا کہ اس کے بعد اجتماعی پیش قدمی کا عمل شروع ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے استکباری نظام کا مدبرانہ اور دانشمدانہ مقابلہ کرنے کے لئے استکباری نظام کے خصائص، کارکردگی اور پالیسیوں سے واقفیت کو لازمی قرار دیا اور فرمایا کہ تسلط پسندانہ نظام کے خصائص کی صحیح شناخت اور ادراک کے بغیر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے دانشمندانہ منصوبہ بندی ممکن نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:۔
بسم الله الرّحمن الرّحيم
والحمدلله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الاطيبين الاطهرين المنتجبين سيّما بقيّةالله فى الارضين. السّلام عليك يا اباعبدالله و على الارواح الّتى حلّت بفنائك عليك منّى سلامالله ابداً ما بقيت و بقى اللّيل و النّهار و لا جعله الله آخر العهد من زيارتك، السّلام على الحسين و على علىّ بنالحسين و على اولاد الحسين و على اصحاب الحسين، الّذين بذلوا مهجهم دون الحسين عليه السّلام.

یہ جلسہ بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ بسیج (رضاکار فورس) ہماری قوم کی عظمتوں کا مظہر اور ملک کی انتہائی کارساز داخلی توانائی ہے۔ یہ جلسہ کمانڈروں کا جلسہ ہے، اس میں دسیوں ہزار 'بسیجی' کمانڈر جمع ہوئے ہیں۔ عوامی رضاکار فورس کی عظیم کثرت کا اندازہ اس اجتماع سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ آپ اسلامی نطام، انقلاب اور ملک کے لئے مایہ افتخار و مسرت، امید کی کرن اور تکیہ گاہ ہیں جبکہ بدخواہوں، دشمنوں اور کینہ پروروں کے لئے باعث اضطراب و ہراس ہیں۔
ہفتہ رضاکار فورس کا تاریخ اسلام کے عظیم کارنامے کے ان ایام میں پڑنا بھی بہت اچھا اور قابل قدر اتفاق ہے۔ میں نے جس عظیم کارنامے کی طرف اشارہ کیا ہے وہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا عظیم کارنامہ ہے جنہوں نے کربلا کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ بلکہ ایک اعتبار سے بی بی زینب کبری سلام اللہ علیہا نے جو شجاعانہ کارنامہ انجام دیا وہ واقعہ عاشور کی حفاظت و بقا کی ضمانت قرار پایا۔ جناب زینب کبری نے جو کارنامہ سرانجام دیا اس کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ تاریخ کے دیگر بڑے واقعات کا اس سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اس کا موازنہ خود واقعہ کربلا سے کرنا چاہئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں کارنامے یکساں وزن اور اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ عظیم ہستی، اسلام بلکہ تاریخ بشریت کی یہ با عظمت خاتون مصیبتوں کے پہاڑ کا ثابت قدمی اور سرخروئی سے سامنا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ کتنے سانحے دیکھے لیکن اس پیکر صبر کی آواز میں بھی کبھی لڑکھڑاہٹ نہیں آئی۔ دشمنوں اور تلخ واقعات کے سامنے آپ صبر و پائیداری کا کہسار بن گئیں۔ آپ نمونہ عمل قرار پائیں، سراپا درس بن گئیں، ہمیشہ پیش پیش رہیں۔ بازار کوفہ میں، اسیری کے عالم میں آپ نے وہ متحیرکن خطبہ ارشاد فرمایا: «يا اَهلَالكوفَةِ يا اَهلَ الخَتلِ و الغَدرِ اَ تَبكونَ، اَلا فَلا رَقأَتِ العَبرَةُ وَ لاهَدَأَتِ الزَّفرَةُ اِنَّما مَثَلُكُم كَمَثَلِ التِى نَقَضَت غَزلَها مِن بَعدِ قُوَّةٍ اَنكاثاً» الی آخرہ؛(۱) ایک ایک لفظ، محکم فولاد کی مانند، معانی آب رواں کی مانند دل و جان کی گہرائیوں میں اترتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان انتہائی ناموافق حالات میں ثانی زہرا نے امیر المومنین کے لب و لہجے میں گفتگو کی، دلوں، جانوں اور تاریخ کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ الفاظ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے نقش ہو گئے۔ آپ نے اسیری کے عالم میں لوگوں سے اس انداز میں خطاب فرمایا ہے۔ اس کے بعد کوفے میں ابن زیاد کے سامنے اور چند ہفتے کے بعد شام میں یزید کے سامنے بھی ایسے محکم انداز میں بات کی کہ دشمن کو رسوا بھی کر دیا اور دشمن کی جانب سے ڈھائے گئے مظالم اور مصائب کو بھی ہیچ ثابت کر دیا۔ تم اپنے گمان باطل میں خاندان پیغمر کو مغلوب، رسوا اور ذلیل کرنا چاہتے ہو؟! لِلّهِ العِزَّةُ وَ لِرَسولِهِ وَ لِلمُؤِمنين.(۲) زینب عزت و وقار کا پیکر بنی ہوئی ہیں۔ جس طرح روز عاشور کربلا میں حسین ابن علی علیہ السلام عزت و وقار کا پیکر بن گئے تھے۔ واقعات و مظالم کے بارے میں آپ کا نقطہ نگاہ دوسروں سے بالکل مختلف تھا۔ اتنے مظالم ڈھانے کے بعد دشمن آپ کی سرزنش کرنا چاہتا ہے تو فرماتی ہیں: ما رَاَيتُ اِلّا جَميلاً؛(۳) زیبائی کے علاوہ میں نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ شہادت ہوئی، داغ اٹھائے، لیکن سب کچھ راہ خدا میں تھا، اسلام کی حفاظت کے لئے تھا، رہتی تاریخ تک ایسی تحریک کو وجود بخشنے کے لئے تھا جو ہمیشہ امت کو سبق دیتی رہے کہ اسے کیا کرنا ہے، کیسے آگے بڑھنا ہے اور کیسے مقابلہ کرنا ہے؟ یہ ہے جناب زینب کا عظیم کارنامہ، یہ ہے ولی خدا کا وقار۔ زینب کبری اولیاء اللہ کی صف میں شامل ہیں۔ آپ کی عزت اسلام کی عزت ہے۔ آپ نے اسلام کو عزت عطا کی قرآن کو وقار بخشا۔ ہمارے اندر اتنی قوت پرواز نہیں ہے، وہ ہمت و حوصلہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ عظیم ہستی ہمارا نمونہ عمل ہیں، ہماری یہ بساط نہیں ہے۔ لیکن بہرحال ہماری حرکت و پیش قدمی کی سمت وہی ہونا چاہئے جس سمت میں جناب زینب کے قدم بڑھے ہیں۔ ہمارا نصب العین اسلام کا وقار، اسلامی معاشرے کی توقیر اور انسان کا احترام ہونا چاہئے۔ یعنی بعینہ وہی چیز جسے اللہ تعالی نے پیغمبروں پر نازل ہونے والی شریعتوں اور دینی احکامات میں معین فرمایا ہے۔
گفتگو کے پہلے حصے میں آپ عزیز رضاکاروں اور پیارے نوجوانوں کی خدمت میں اختصار کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور دیگر اولیائے الہی کے اندر یہ جذبہ اور یہ قوت صبر، ان کی صداقت کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ ان ہستیوں نے اللہ سے کئے گئے عہد کو صدق دلی سے پورا کیا، اپنے قلب کو پوری صداقت و سچائی کے ساتھ راہ خدا میں وقف کر دیا، یہ بہت اہم چیز ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس صداقت و سچائی کو اولیائے الہی کے لئے بھی لازمی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:۔ : وَ اِذ اَخَذنا مِنَ النَّبِيّينَ ميثاقَهُم وَ مِنكَ وَ مِن نوحٍ وَ اِبرهيمَ وَ موسى وَ عيسى ابنِ مَريَمَ وَ اَخَذنا مِنهُم ميثقاً غَليظاً، لِيَسئَلَ الصَّدِقينَ عَن صِدقِهِم؛(۴) اے پیغمبر ہم نے آپ سے عہد لیا ہے اور نوح، ابراہیم، موسی اور عیسی سے میثاق لیا ہے، تمام انبیاء سے عہد لیا ہے، یہ عہد انتہائی اہم اور محکم عہد ہے۔ 'لیسئل' کے لفظ میں جو پہلا 'لام' ہے وہ ہم طلبہ کی زبان میں 'لام' عاقبت کہا جاتا ہے جو اس عہد و پیمان کا نتیجہ بیان کرتا ہے۔ تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان عظیم پیغمبروں سے اس عہد کے تعلق سے برتی جانے والی سچائی و صداقت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ یعنی ہمارے عظیم الشان پیغمبر اور دیگر انبیائے الہی سے بارگاہ خداوندی میں سوال کیا جائے گا اور انہیں اس عہد و پیمان کے تعلق سے اپنی صداقت و سچائی کو پیش کرنا ہوگا کہ انہوں نے کس حد تک صداقت برتی ہے۔ یہ تو رہا پیغمبروں کے سلسلے میں۔ عام انسانوں اور مومنین کے سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے: مِنَ المُؤمِنينَ رِجالٌ صَدَقوا ما عهَدُوا اللهَ عَلَيهِ فَمِنهُم مَّن قَضى نَحبَهُ وَ مِنهُم مَن يَنتَظِر وَ ما بَدَّلُوا تَبديلاً، لِيَجزِىَ اللهُ الصَّدِقينَ بِصِدقِهِم و يُعَذِّبَ المُنافِقينَ اِن شاء.(۵) عظیم انبیائے الہی کے سلسلے میں صادق کے مد مقابل کافر کو قرار دیا گیا ہے۔ 'و اعدّ للکافرین عذابا الیما' (6)۔ یہاں مومنین کے مسئلے میں، صادقین کے مد مقابل منافقین کا ذکر کیا گيا ہے۔ ان الفاظ کے انتخاب میں خاص نکات مضمر ہیں۔ ہم سے اور آپ سے اس عہد کے بارے میں پوچھا جائےگا جو ہم نے اللہ سے کیا ہے، ہم نے اللہ سے ایک عہد کیا ہے۔ اس آیہ شریفہ میں - مِنَ المُؤمِنينَ رِجالٌ صَدَقوا ما عهَدوا الله عَلَيهِ - اس عہد کا ذکر ہے جو مومنین نے اللہ سے کیا ہے اور مومنین میں سے بعض نے اس عہد کو بخوبی پورا کر دیا ہے اور اپنے عہد کے پابند رہے ہیں، ثابت قدم رہے ہیں، یہ وہی عہد ہے جس کا ذکر چند آیت قبل اسی سورے میں ہوا ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے:۔ «و لَقَد كانوا عهَدُوا اللهَ مِن قَبلُ لا يُوَلّونَ الاَدبار»؛(۷) ان نکات پر ہم سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ سے عہد کیا تھا کہ دشمن کا سامنا ہونے پر فرار نہیں ہوں گے، دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائيں گے۔ محاذ چھوڑ دینا، دشمن کے سامنے مغلوبانہ پسپائی اختیار کر لینا ان چیزوں میں ہے جن سے قرآن نے تاکید کے ساتھ روکا ہے۔ فوجی جنگ ہو، سیاسی جنگ ہو یا اقتصادی پیکار ہو، جب بھی مقابلہ آرائی کا موقعہ آ جائے، دشمن کے مقابل ڈٹ جانا چاہئے، دشمن کے عزم پر آپ کے عزم کو غلبہ حاصل ہونا چاہئے، دشمن کے ارادے پر آپ کے ا رادے کو فتح ملنا چاہئے۔ اور یہ چیز ممکن بھی ہے۔ کسی بھی طرح کے کارزار اور پیکار میں دشمن کو پیٹھ دکھانا اور ہزیمت اٹھانا اسلام اور قرآن کے نقطہ نگاہ سے ممنوع ہے۔
ہم نے 'فاتحانہ لچک' کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ کچھ لوگوں نے اس سے اسلامی نطام کے اہداف اور مقاصد سے دستبرداری کے معنی اخذ کئے ہیں، بعض دشمنوں نے بھی اسے بہانہ بناکر اسلامی نظام پر یہ الزام عائد کر دیا کہ اسلامی نظام اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ یہ غلط مفہوم تھا، اس بات کو غلط انداز سے سمجھا گیا۔ 'فاتحانہ لچک' سے مراد ہے مطلوبہ ہدف کو حاصل کرنے کے لئے فنکارانہ نرمی دکھانا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ راہ خدا پر چلنے والا جو گوناگوں اور مختلف اسلامی اہداف کی جانب گامزن ہے، جیسے بھی ممکن ہو وہ مختلف روشیں استعمال کرکے خود کو منزل مقصود تک پہنچائے۔ وِ مَن يُوَلِّهِم يَومَئِذٍ دُبُرَهُ اِلّا مُتَحَرِّفاً لِقِتالٍ اَو مُتَحَيِّزاً اِلى فِئَةٍ فَقَد بآءَ بِغَضَبٍ مِنَ الله؛(۸) ہر طرح کا اقدام اور پیش قدمی میدان جنگ کی مانند بس مطلوبہ ہدف تک رسائی کے لئے ہونا چاہئے جس کا تعین پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ کچھ اہداف ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران ہر مرحلے میں کچھ خاص اہداف حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہا ہے۔ پیشرفت حاصل کرنے کے لئے، بام ثریا پر قدم رکھنے کے لئے، عظیم اسلامی تمدن کی تشکیل کے لئے ہمیں محنت کرنا چاہئے اور اس منزل تک خود کو پہنچانا چاہئے۔ البتہ مرحلہ بہ مرحلہ ہے، رفتہ رفتہ آگے بڑھنا ہے۔ مفکرین، ہادیان کرام، رہنما اور متعلقہ حکام ان مراحل کا تعین کرتے ہیں جس کے بعد اجتماعی پیش قدمی کا آغاز ہوتا ہے۔ سب کی یہ کوشش ہونا چاہئے کہ ہر مرحلے کے پہلے سے طے شدہ اہداف کے مطابق ہم آگے بڑھیں۔ عوام الناس، عزیز رضاکار، سیاسی کارکن سب اسے ہمیشہ یاد رکھیں۔
یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں قدم آگے بڑھانا ہے، پیش قدمی کرنا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظام جنگ پسندی کی بات کر رہا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظام دنیا کے تمام ممالک سے متصادم ہونے کا ارادہ رکھتا ہے؟ کبھی کبھی اس طرح کی باتیں ملت ایران کے دشمنوں کی زبان سے سننے کو ملتی ہیں، خاص طور پر ہمارے علاقے کا منحوس اور ہمیشہ بھونکنے والا کتا یعنی صیہونی حکومت یہ مہمل بیانی کرتی ہے کہ ایران ساری دنیا کے لئے خطرہ ہے۔ ایسا نہیں ہے، یہ دشمن کی بات ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی روش اس کے بالکل برعکس ہے۔ دنیا کے لئے خطرہ تو وہ شیطانی طاقتیں اور شرپسند قوتیں ہیں جو شر اور شیطنت کے علاوہ کچھ جانتی ہی نہیں۔ ان میں سب سے پیش پیش صیہونی حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقتیں ہیں۔ اسلامی نطام نے قرآن سے جو سبق لیا ہے، پیغمبر اسلام سے جو درس لیا ہے، امیر المومنین سے جو تعلیمات حاصل کی ہیں ان کا ماحصل: اِنَّ اللهَ يَأمُرُ بِالعَدلِ وَ الاِحسنِ؛(۹) انصاف، نیکوکاری اور کار خیر انجام دینا۔ امیر المومنین نے فرمایا ہے کہ سب کے ساتھ نیکی کرو کیونکہ: «اِمّا اَخٌ لَكَ فى دينِك اَو شَبيهٌ لَكَ فى خَلقِك»،(۱۰) ہر انسان یا تو تمہارا برادر دینی ہے، یا پھر تمہارے جیسا انسان ہے۔ یہ ہے اسلامی سوچ اور طرز فکر۔ ہم تمام انسانوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، سب سے مہر و محبت کا برتاؤ کرنا چاہتے ہیں، ہم تمام انسانوں سے اور تمام اقوام سے دوستانہ اور پرخلوص تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی حکومت ایک سامراجی حکومت ہے، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے تعلق سے دشمن، بدخواہ اور کینہ پرور حکومت ہے لیکن اس کے باوجود امریکی عوام کی جب بات آتی ہے تو ان سے ہمیں کوئی دشمنی اور عناد نہیں ہے۔ ہماری نظر میں وہ بھی دیگر اقوام کی مانند ہیں۔ اسلامی نظام جس چیز کا کھلا ہوا مخالف ہے وہ ہے استکباریت۔ اسلامی نظام کی مخالفانہ پالیسیاں استکباری نظام کے لئے ہیں۔ ہم استکبار کے مخالف ہیں، ہم استکبار اور سامراج سے لڑتے ہیں۔ استکبار ایسا لفظ ہے جو قرآن میں بھی وارد ہوا ہے، یہ لفظ فرعون جیسے افراد اور گروہوں کے لئے استعمال ہوا ہے جو حق و حقیقت کے مخالف ہیں۔ استکباریت ماضی میں بھی تھی اور آج بھی ہے۔ تمام ادوار میں استکباریت کا ڈھانچہ یکساں ہے البتہ اس کی روش اور اس کی خصوصیات ہر دور میں بدلتی رہتی ہیں۔ آج بھی استکباری نظام موجود ہے، آج دنیا میں استکباری نظام کی سرغنہ ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت ہے۔ استکبار کی ہمیں پہچان ہونا چاہئے، اس کی خصوصیات کا ہمیں علم ہونا چاہئے، استکبار کے طرز عمل اور طرز فکر سے ہمیں باخبر ہونا چاہئے تاکہ اس کے سلسلے میں ہم دانشمندی کے ساتھ تدارک کر سکیں۔ ہم کسی بھی شعبے اور میدان میں غیر دانشمندی کے اقدام کے مخالف ہیں۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ تمام میدانوں میں، تمام منصوبوں کے سلسلے میں، تمام فیصلوں اور پالیسیوں میں خواہ وہ انفرادی سطح کی ہوں یا اجتماعی اور سماجی سطح کی، دانشمندی اور تدبر سے کام لیا جانا چاہئے۔ اگر ہم میدان سے باخبر نہیں ہوں گے، اگر ہم دوست اور دشمن کو نہیں پہچانیں گے، اگر تسلط پسندانہ نظام کی ہمیں مکمل معلومات نہیں ہوگی، اگر ہم استکبار سے واقف نہ ہوں گے تو پھر ہم کیسے حکمت و تدبر سے کام کر سکیں گے؟ ہم صحیح منصوبہ بندی کیسے کر سکیں گے؟ تو شناخت اور معلومات ضروری ہے۔
استکبار کے سلسلے میں، میں جو چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ موجودہ دنیا کے استکبار کے روئے اور طرز عمل کی خصوصیات اور معیارات ہیں اور یہ خصوصیات ماضی کے ادوار اور گزشتہ صدیوں میں استکبار کا جو رویہ اور طرز عمل رہا ہے اس سے مماثلت رکھتے ہیں۔ استکباری نظام کی ایک خصوصیت ہے تکبر اور خود کو سب سے برتر سمجھنا۔ استکباری ٹیمیں، یعنی ان لوگوں کا گروپ جو کچھ ملکوں کی سربراہی کرتے ہیں، یا کسی بین الاقوامی سسٹم کی قیادت کرتے ہیں جس میں بعض ممالک شامل ہیں اور ان کے امور اس سسٹم کے سربراہ کے ہاتھ میں ہیں، جب ان لوگوں کا گروپ خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے، خود کو تمام امور کا محور و مرکز گمان کرتا ہے تو بقیہ ملکوں اور انسانوں اور چیزوں کو ذیلی اور ضمنی شئے سمجھنے لگتا ہے، عالمی سطح پر یہ بہت غلط اور بڑی خطرناک سوچ ہے۔ جب بھی کوئی گروہ خود کو برتر اور محور سمجھنے لگتا ہے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ گروہ دیگر انسانوں اور اقوام کے امور میں مداخلت کو اپنا مسلمہ حق مانتا ہے۔ جو چیز اس گروہ کی نظر میں قابل عمل ہے وہ چاہتا ہے کہ سب اسے قبول کریں، اس پرعمل کریں۔ اگر کسی ایسی چیز کو جسے وہ مناسب سمجھتا ہے دوسرے ممالک قبول کرنے سے انکار کر دیں تو یہ گروہ اپنا یہ حق محفوظ سمجھتا ہے کہ ان کے امور میں مداخلت کرے، اپنی مرضی ان پر مسلط کرے، ان پر دباؤ ڈالے، ان کے ساتھ زبردستی کرے۔ یہ متکبرانہ سوچ اس بات کا باعث بنتی ہے کہ یہ گروہ خود کو قوموں کے امور کا مالک و مختار سمجھے، دنیا کی باگڈور سنبھالنے والا حاکم سجمھے، خود کو ساری دنیا کا آقا تصور کرے۔ آپ امریکی حکام اور عمائدین حکومت کے بیانوں میں سنتے ہیں کہ وہ امریکی اقتدار کی بات اس طرح کرتے ہیں کہ گویا ساری دنیا کے مالک ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم اجازت نہیں دے سکتے کہ فلاں کام انجام پائے، ہم فلاں شخص کو اس عہدے پر دیکھنا یا نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہمارے علاقے کے بارے میں اس طرح بات کرتے ہیں کہ گویا یہ ان کی ملکیت ہے۔ صیہونی حکومت کے بارے میں ایسے بات کرتے ہیں کہ گویا علاقے کی قومیں اس جعلی اور مسلط کردہ حکومت کو قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ خود مختار قوموں اور حکومتوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں کہ گویا انہیں زندہ رہنے کا حق ہی نہیں ہے۔ خود کو ساری دنیا سے بالاتر تصور کرنا، بنی نوع آدم کے درمیان، قوموں اور تنظیموں کے درمیان خود کو منفرد مقام و منزلت کا مالک سمجھنا، استکبار کی ماہیت کا بنیادی عنصر تصور کرنا، یہی سب سے بڑی مشکل ہے۔
اس تمہید کی روشنی میں استکبار کی ایک خاص پہچان اور خصوصیت یہ سامنے آتی ہے کہ استکبار حق و صداقت سے انکاری ہے۔ نہ حق بات کو تسلیم کرتا ہے، نہ قوموں کا حق دینے کا قائل ہے، مطلق طور پر حق سے گریزاں رہتا ہے۔ عالمی سطح کی بحثوں اور مذاکرات میں ایسا بہت ہوتا ہے کہ کوئی حق بات کہی جاتی ہے مگر امریکا کسی وجہ سے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے، گوناگوں طریقوں سے اس حق بات کو مسترد کرتا ہے، اسے قبول کرنے سے کتراتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہمارے آج کے مسائل ہیں جن کا تعلق ایٹمی سرگرمیوں اور جوہری صنعت سے ہے۔ اس سلسلے میں ایک حق بات سامنے ہے۔ اگر کوئی انسان حق پسند ہو، مدلل اور منطقی بات قبول کرنے والا ہو تو جب اس کے سامنے دلائل پیش کئے جائیں تو ضروری ہے کہ انہیں قبول کرے، لیکن استکبار مدلل بات قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ حق بات سنتا ہے لیکن ماننے کو تیار نہیں ہے۔ یہ اس کی ایک خصلت ہے۔ اسی طرح وہ قوموں کے حقوق کو بھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتا، یہ بات اس کی حلق سے نیچے اترتی ہی نہیں کہ قوموں کو انتخاب کا حق ہے، جس طرح ان کا دل چاہے عمل کرنے کا انہیں حق ہے، جو معیشت وہ چاہیں اور جو سیاست وہ پسند کریں اس کا انتخاب کر سکتی ہیں، استکبار قوموں کو یہ دینے پر تیار نہیں ہے، وہ اپنی مرضی مسلط کرنے کے در پے رہتا ہے۔
استکبار کی ایک اور خصلت یہ ہے کہ قوموں کے حق میں اور عام انسانوں کے سلسلے میں ہر جرم و شیطنت کو جائز سمجھتا ہے، انہیں ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتا۔ عصر جدید میں یہ استکبار کی بہت بڑی مشکل ہے۔ عصر جدید سے مراد ہے علمی پیشرفت کا دور، خطرناک ہتھیاروں کا دور۔ جب سے یہ ہتھیار ان استکباری طاقتوں کو ملے ہیں دنیا کی قوموں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ استکباری طاقتوں کی نظر میں ان انسانوں کی جان و مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے جو ان کے تابعدار نہ ہوں، جو ان کے سامنے سر بسجود نہ ہوں، جو ان کے حاشیہ بردار نہ ہوں۔ اس کی مثالوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ایک مثال، امریکا کے اصلی باشندوں کے ساتھ ان استکباری عناصر کا سلوک ہے۔ یہی ملک کہ آج جس کے مالیاتی ذخائر، وسیع وسائل، بے مثال جغرافیائی محل وقوع، سب پر ان کا قبضہ ہے جو اس سرزمین کے اصلی باشندے نہیں ہیں، یہاں کسی زمانے میں اصلی باشندے ہوا کرتے تھے، ان کے ساتھ ایسا بے رحمانہ برتاؤ کیا گیا، ایسا نفرت انگیز رویہ اختیار کیا گیا کہ یہ جدید امریکا کی تاریخ کا انتہائی سیاہ باب بن گیا۔ خود انہوں نے اس بارے میں بہت کچھ لکھا ہے، جو قتل عام کئے، جو مظالم ڈھائے، ان کے بارے میں لکھا ہے۔ بعینہ یہی سب کچھ برطانیہ والوں کے ہاتھوں آسٹریلیا میں انجام پایا۔ آسٹریلیا میں انگریز مقامی لوگوں کا جانوروں کی طرح، کنگاروؤں کی طرح تفریحا شکار کرتے تھے۔ ان کی نظر میں انسانی جان کی کوئی وقعت ہی نہیں تھی۔ یہ بھی یک مثال ہے۔ اسی طرح کی سیکڑوں مثالیں ہیں جو خود ان کی اپنی کتابوں میں، خود ان کی لکھی ہوئي تاریخ کی کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور مثال سنہ انیس سو پینتالیس میں انجام پانے والی بمباری ہے جس میں امریکیوں نے جاپان کے دو شہروں کو ایٹم بم گراکر نابود کر دیا۔ لاکھوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس کے کئی گنا لوگ اس وقت سے لیکر آج تک ریڈیو ایکٹیو لہروں کی وجہ سے جو برسوں تک نکلتی رہیں، جسمانی طور پر معذور اور گوناگوں امراض میں مبتلا ہوئے۔ آج تک اس کے تباہ کن اثرات اور مشکلات باقی ہیں۔ ان کے پاس اس انسانیت سوز جرم کی کوئی بھی مناسب وجہ نہیں تھی۔ میں آگے چل کر اس بارے میں گفتگو کروں گا۔ بڑی آسانی سے ایٹم بم گرا دئے۔ دنیا میں اب تک دو بار ایٹم بم استعمال کئے گئے ہیں اور دونوں دفعہ یہ کام امریکیوں نے کیا جو آج خود کو دنیا میں ایٹمی مسائل کا مالک و مختار سمجھتے ہیں۔ ان کا دل تو بہت چاہتا ہے کہ ماضی کے یہ واقعات فراموش کر دئے جائیں لیکن یہ بھلائے جانے والے جرائم نہیں ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کی جانیں چلی گئیں، لیکن امریکیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انسانی جانیں ان کے لئے بے وقعت ہیں، استکباری طاقتوں کے لئے جرائم کا ارتکاب کوئی بڑی بات ہی نہیں ہے۔ انہوں نے ویتنام میں موت کا ننگا ناچ پیش کیا۔ عراق میں ان کے سیکورٹی اداروں اور ان اداروں کے لئے کام کرنے والی بلیک واٹر جیسی ایجنسیوں نے جن کی طرف میں نے اسی سال اشارہ بھی کیا تھا (11)، مجرمانہ اقدامات انجام دئے، پاکستان میں بغیر پائلٹ کے طیاروں کی مدد سے اب بھی جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں، افغانستان میں بمباری کرتے ہیں، جرائم انجام دیتے ہیں، جہاں بھی ان کا بس چلتا ہے اور ان کے مفادات کا تقاضا ہوتا ہے وہ کوئی بھی مجرمانہ فعل انجام دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ قتل، ایذارسانی کسی چیز سے پرہیز نہیں۔ گوانتانامو جیل امریکیوں کی ہی ہے اور آج بھی اس میں کچھ قیدی موجود ہیں۔ دس گیارہ سال سے انہوں نے کچھ لوگوں کو دنیا کے مختلف علاقوں سے شبہے میں گرفتار کرکے وہاں پہنچا دیا اور بغیر کسی عدالتی کارروائی کے انہیں بے حد سخت حالات میں رکھا ہے! عراق میں ابو غریب جیل امریکیوں کی ایک جیل تھی۔ قیدیوں پر کتے چھوڑ دیتے تھے، اس طرح کی ایذائیں دیتے تھے۔
قوموں کے ذخائر اور وسائل کو لوٹنا ان کے لئے بڑا آسان کام ہے۔ سیاہ فاموں کا اغوا اور گرفتاری تاریخ کے بڑے دردناک اور ہولناک واقعات ہیں۔ امریکا کا تسلط پسندانہ نظام اور اس کی مانند دیگر طاقتیں چاہتی ہیں کہ ان باتوں کا ذکر نہ کیا جائے۔ ایک مثال افریقی مردوں اور عورتوں کو غلامی اور کنیزی کی زنجیر میں جکڑنا تھا۔ بحر ایٹلانٹک سے اپنے جہاز لیکر جاتے تھے مغربی افریقا کے ملکوں جیسے گامبیا وغیرہ کے ساحلوں پر یہ جہاز لنگرانداز ہوتے تھے، پھر ان ملکوں میں ایسے ہتھیار لیکر داخل ہوتے تھے جو وہاں کے مقامی لوگوں کے پاس نہیں تھے۔ سیکڑوں بلکہ ہزاروں مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو پکڑ لیتے تھے اور ان جہازوں میں جانوروں کی طرح انہیں بھر کر امریکا لے جاتے تھے کہ انہیں غلام بنائیں۔ آزاد انسان جو اپنے گھر میں معمول کی زندگی بسر کر رہا تھا، اپنے شہر اور سماج میں زندگی گزار رہا تھا، اسے گرفتار کر لیتے تھے۔ اس وقت امریکا میں جو سیاہ فام ہیں انہی غلاموں کی نسل سے ہیں۔ امریکیوں نے کئی صدی تک یہ استبداد کیا۔ اس کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئ ہیں یہ کتاب روٹس (12) ان ہولناک جرائم کا نمونہ پیش کرنے کے لئے بہت اچھی کتاب ہے۔ آج کا انسان ان چیزوں کو کیسے فراموش کر سکتا ہے؟! آج اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی سیاہ فاموں اور سفید فاموں کے درمیان امتیاز و تفریق کا ماحول موجود ہے۔
استکبار کی ایک اور خاص خصلت جو اس کی شناخت کا جز ہے، فریب دہی اور منافقانہ روش ہے۔ اس پر توجہ دیجئے! جن جرائم کا ابھی میں نے ذکر کیا، وہ اپنے پروپیگنڈے میں ان کی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان جرائم کو انسانیت کی خدمت کا لباس پہناتے ہیں! یہ استکباری نطام جو تمام اقوام پر تسلط قائم کرنے کی فکر میں ہے، اس روش کو اپنی پوری زندگی میں باقاعدگی سے اور ‏عام طور پر استعمال کرتا ہے۔ جرائم کی توجیہ کی روش اور جرائم کو خدمت کا روپ دینے کی روش! جاپان پر بمباری کے معاملے میں، یعنی ہیروشیما اور ناگاساکی میں جو دو بم پھٹے ان کے تعلق سے جب امریکی معذرت خواہی کرتے ہیں تو ان کے الفاظ کچھ اس طرح ہوتے ہیں:۔ بیشک ہم نے جو دو بم ان دو شہروں پر گرائے پہلے ہی مرحلے میں ان سے دسیوں ہزار یا شاید لاکھوں افراد مارے گئے لیکن یہ دوسری عالمی جنگ ختم کرنے کی قیمت تھی۔ اگر ہم امریکی یہ بم نہ گراتے تو جنگ جاری رہتی اور اس بمباری میں اگر دو لاکھ انسان نابود ہوئے تو دوسری صورت میں بیس لاکھ لوگ مارے جاتے۔ بنابریں ہم نے یہ بم گراکر خدمت انجام دی ہے! آپ غور کیجئے! امریکی اپنے رسمی پروپیگنڈے میں یہ باتیں کہتے ہیں۔ اس واقعے کو اب شاید پینسٹھ سال ہو گئے ہیں، ہمیشہ وہ یہی بات دہراتے رہے ہیں اور یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ان کی ایک فریب دہی، عیاری، منافقت اور بڑی عجیب و غریب دروغگوئی ہے، یہ کام استکباری نظام کے علاوہ کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ دونوں بم انیس سو پینتالیس کے موسم گرما میں ان دو شہروں پر گرے اور وہ انسانیت سوز جرم رونما ہوا، حالانکہ اس سے چار مہینہ پہلے یعنی انیس سو پینتالیس عیسوی کے موسم بہار کے آغاز میں ہی ہٹلر جو عالمی جنگ کا اصلی ستون تھا خودکشی کر چکا تھا، اس سے دو روز قبل مسولینی یعنی اٹلی کا صدر جو جنگ کا دوسرا اہم ستون تھا، گرفتار کیا جا چکا تھا اور جنگ عملی طور پر ختم ہو چکی تھی۔ جاپان جو اس جنگ کا تیسرا ستون تھا، دو مہینہ پہلے ہی اعلان کر چکا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کے لئے آمادہ ہے۔ یعنی کوئی جنگ باقی تھی ہی نہیں لیکن یہ بم گرے اور منفجر ہوئے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ بم بنائے جا چکے تھے تو کہیں ان کا تجربہ کیا جانا ضروری تھا۔ ایک اسلحہ انہوں نے تیار کیا تھا، اس کے تباہ کن اثرات کو وہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کا تجربہ کہاں کیا جائے؟ بہترین موقعہ اور محل یہی ہے کہ جنگ کے بہانے ان بموں کو لاکر ہیروشیما اور ناگاساکی کے بے گناہ عوام پر گرا دیا جائے تا کہ پتہ چل سکے کہ بم صحیح کام کرتا ہے یا نہیں! یہ ہے ان کی عیاری اور ان کا نفاق۔
وہ دعوی کرتے ہیں کہ بڑے انسان دوست ہیں۔ ایران کے مسافر بردار طیارے کو فضا میں مار گراتے ہیں، تقریبا تین سو مسافر ہر چیز سے بے خبر موت کی نیند سو جاتے ہیں، تلف ہو جاتے ہیں اور امریکی اظہار ندامت کا ایک لفظ بھی زبان پر لانے کو تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو تمغہ عطا کرتے ہیں! حالیہ ہفتوں کے دوران آپ نے سنا کہ امریکیوں نے صدر سے لیکر دیگر عہدیداروں تک سب نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کیسا ہنگامہ مچایا، شام کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے کیمیائی حملہ کیا ہے۔ مجھے یہ فیصلہ نہیں کرنا ہے کہ کیمیائی حملہ کس نے کیا ہے، البتہ قرائن سے معلوم پڑتا ہے کہ یہ کام دہشت گرد گروہوں کا ہے لیکن بہرحال انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے یہ حملہ کیا ہے۔ آسمان سر پر اٹھا لیا کہ کیمیائی حملہ ہماری ریڈ لائن ہے! اسے دس بار یا شاید اس سے بھی زیادہ دفعہ امریکیوں نے کہا ہے لیکن اسی امریکی حکومت نے، ریاستہائے متحدہ کی اسی حکومت نے ایران پر صدام کی جانب سے کئے جانے والے مجرمانہ حملوں پر اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر نہ صرف یہ کہ ذرہ برابر مخالفت نہیں کی بلکہ پانچ سو ٹن مہلک اور خطرناک کیمیائی مادہ جسے مسٹرڈ گیس میں تبدیل کیا جا سکتا تھا، صدام نے امریکا سے امپورٹ کیا اور امریکا نے اس کی مدد کی۔ آج بھی اس زمانے کے ہمارے بہت سے عزیز نوجوان اس کے مہلک اثرات میں مبتلا ہیں اور برسوں سے بستر علالت کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں۔ صدام نے کچھ اور جگہوں سے بھی یہ مادہ خریدا تھا۔ لیکن پانچ سو ٹن مہلک کیمیائی مادہ جس سے مسٹرڈ گیس بنائی جا سکتی ہے صدام نے امریکا سے حاصل کیا اور اسے استعمال کیا۔ اس کے بعد جب سلامتی کونسل میں صدام کے خلاف قرارداد پاس ہونے والی تھی تو امریکا نے اسے پاس ہونے سے روک دیا۔ اسی کو کہتے ہیں منافقانہ روش۔ یہاں تو کیمیائی ہتھیار ریڈ لائن ہو گئی لیکن جب یہی کیمیائي ہتھیار آزاد و خود مختار اسلامی نظام کے خلاف استعمال کیا گيا، امریکی رعب میں نہ آنے والی قوم کے خلاف استعمال کیا گيا تو پھر یہ استعمال جائز ہو گیا بلکہ اس میں مدد اور تعاون کرنا بھی ٹھیک ہو گیا۔ یہ استکبار کی کچھ عادتیں اور خصلتیں ہیں، البتہ اس کی مکمل شناخت میں اور بھی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ استکبار جنگ افرزوی کرتا ہے، اختلافات کے بیج بوتا ہے، خود مختار حکومتوں سے بار بار الجھتا ہے، یہی نہیں اگر ایک خاص طبقے کے مفادات کا تقاضا ہو تو خود اپنے ملک کے عوام پر چڑھ دوڑنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ ایران کے خلاف جنگ میں انہوں نے صدام کی جتنی ممکن تھی مدد کی۔ میں نے صرف کیمیائی ہتھیاروں کی مثال دی ہے۔ وہ صدام کو اطلاعات بھی فراہم کرتے تھے، اس زمانے میں صدام کے انٹیلیجنس چیف نے بعد میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں ہفتے میں تین دفعہ بغداد میں واقع امریکی سفارت خانے جاتا تھا اور وہ مجھے بند لفافہ دیتے جس میں ایران کی مسلح فورسز کی نقل و حرکت سے متعلق سیٹیلائٹ اطلاعات ہوتی تھیں۔ اس سے ہمیں معلوم ہو جاتا تھا کہ ایرانی فورسز کہاں پر ہیں۔ اس طرح کی مدد انہوں نے کی تھی۔
اسلامی نظام کا سامنا ان خصلتوں والے استکبار سے ہے۔ اسلامی نظام کے مقابل دنیا کی قومیں نہیں ہیں، عوام نہیں ہیں، انسان نہیں ہیں، اسلامی نظام کے مد مقابل استکبار ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل، حضرت نوح علیہ السلام، عظیم انبیائے الہی اور پیغمبر اسلام کے زمانے سے آج تک یہی سلسلہ رہا ہے۔ حق کے سامنے استکباری محاذ ہمیشہ سد راہ بنا ہے۔ کیوں؟ عالمی استکبار سے اسلامی نظام کی مقابلہ آرائی کیوں ہے؟ اس لئے کہ جن خصوصیتوں کا ہم نے ذکر کیا ان کے حامل استکبار کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ اسلامی جمہوری نظام جیسے کسی بھی نظام حکومت کو برداشت کرے۔ کیونکہ اسلامی جمہوری نظام تو بنیادی طور پر عالمی استکبار کے خلاف معرض وجود میں آنے والا نظام ہے، یہ نظام تشکیل پایا، نمو کے مراحل سے گزرا اور آج عالمی استکبار کے لئے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ تو عالمی استکبار اسے کیسے برداشت کر سکتا ہے؟! اسی صورت میں برداشت کرے گا جب اس پر مایوسی طاری ہو جائے گی۔ ملت ایران، ایران کے نوجوان، ہمارے کارکن، کسی بھی جذبے کے تحت خواہ وہ غیر اسلامی جذبہ ہی کیوں نہ ہو اپنے وطن سے محبت کرنے والے افراد کچھ ایسا کریں کہ دشمن پر مایوسی طاری ہو جائے، دشمن کو قنوطیت میں مبتلا کر دینے کی ضرورت ہے۔ استکباری نظام کے لئے اور ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت کے لئے آج یہ ناقابل برداشت صورت حال ہے کہ دنیا کے انتہائی اہم اور حساس علاقے میں مغربی ایشیا کے علاقے میں جو دنیا کا اتنہائی اہم اور منفرد پوزیشن کا حامل علاقہ ہے، اس علاقے میں جو سیاسی اعتبار سے بھی بہت اہم ہے، اقتصادی نظر سے بھی بے مثال اہمیت رکھتا ہے، یہاں رونما ہونے والے واقعات و تغیرات کا ساری دنیا پر اثر پڑتا ہے، اس علاقے میں ایک ایسا ملک، ایک ایسا نظام حکومت اور ایک ایسی قوم نمودار ہوئی ہے جو خود کو اس سپر پاور کا تابعدار تسلیم کرنے پر ہرگز تیار نہیں ہے، خود مختاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، اس نطام کی گوناگوں طریقوں سے مخالفت کی جاتی ہے، اس کا راستہ روکا جاتا ہے، مشکلات اور سختیاں پیدا کی جاتی ہیں لیکن یہ اسلامی نظام ان سب کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے اور اس علاقے میں امریکا کے اثر و نفوذ کو اس طرح چیلنج کر رہا ہے کہ خود امریکی بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ نظام اپنا اثر و رسوخ وسیع سے وسیعتر کرتا جا رہا ہے اور علاقے کی قوموں کے لئے نمونہ اور مثالیہ بن گیا ہے۔ اس تلخ حقیقت کو برداشت کرنا ان کے لئے بڑا دشوار کام ہے۔ وہ تو یہ تاثر عام کرنا چاہتے تھے کہ قوموں کی زندگی کا انحصار امریکا پر ہے لیکن ایک قوم ایسی بھی سامنے آئی ہے جو نہ فقط یہ کہ امریکا پر منحصر نہیں ہے بلکہ امریکی عناد اور مخاصمتوں کا سامنا کرتے ہوئے پوری طرح محفوظ ہے۔ امریکی جو بھی کر سکتے تھے انہوں نے روز اول سے ہی انجام دیا لیکن کوئي اثر نہیں ہوا، یہ نظام روز بروز زیادہ قوی ہوا اور اس نے نمو کی منزلیں طے کیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت نے روز اول سے انقلاب کے خلاف جو معاندانہ رویہ اپنایا اور مختلف صدور نے یعنی کوئی یہ نہ کہے کہ فلاں صدر کے زمانے میں یہ کام ہوا تھا لیکن موجودہ صدر کے زمانے میں ایسا نہیں ہوا، بالکل نہیں، سب یکساں ہیں۔ سب نے اسلامی نظام سے دشمنی برتی۔ الگ الگ زمانوں میں الگ الگ صدور اقتدار میں آئے لیکن فطرت اور سرشت سب کی ایک ہی رہی۔ انہوں نے پہلے تو ہمارے ملک کے اندر نسلی اور قومیتی اختلافات کو ہوا دی، پھر بغاوت کروانے کی کوشش کی، اس کے بعد عراق کو اکسا کر حملہ کروا دیا، پھر ہمارے دشمن یعنی حکومت صدام کی جنگ میں بھرپور مدد کی، اس کے بعد پابندیوں کا شگوفہ چھوڑا، اس کے بعد دنیا کے ابلاغیاتی ذرائع کو اسلامی نظام کے خلاف صف آرا ہونے کے لئے ورغلایا۔ یہ سارے کام الگ الگ صدور کے زمانے میں ہوئے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ موجودہ امریکی صدر کے زمانے کی بات ہے کہ سنہ دو ہزار نو میں جب (ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد) آشوب کا ماحول تھا، اس وقت ایک سوشل نیٹ ورک جو آشوب اور فتنے کو ہوا دینے میں معاون ہو سکتا تھا، مرمت کی غرض سے اپنا کام روکنے والا تھا، امریکی حکومت نے اس سے مطالبہ کیا کہ مرمت کا کام ملتوی کر دے، اسے یہ امید تھی کہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے اور فیس بوک اور ٹویٹر جیسی سوشل ویب سائٹوں کی مدد سے اسلامی جمہوری نظام کا تختہ الٹا جا سکتا ہے۔ یہ احمقانہ خیالات ان کے دماغ میں تھے۔ انہوں نے اس سوشل ویب سائٹ کی مرمت کا کام ملتوی کروا دیا کہ ابھی اس کو چھوڑو اور وہ کام انجام دو جو زیادہ ضروری ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کے مقابل تمام وسائل استعمال کئے۔ پابندیاں بھی انہی حربوں کا جز ہیں، پابندیاں بھی ان کا ایک ہتھیار ہیں جو وہ اسلامی جمہوری نظام کو شکست دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ملت ایران کو پہچان ہی نہیں سکے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ ہمارے عوام کے اندر موجزن جذبہ ایمانی اور باہمی اتحاد کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اپنی گزشتہ غلطیوں سے سبق نہیں لیتے۔ اسی لئے وہ آس لگا بیٹھے تھے کہ پابندیوں اور گوناگوں دباؤ سے ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر لے جائیں گے۔ یہ ان کی بہت بڑی بھول تھی۔ ماضی کے ان پینتیس برسوں میں ملت ایران کا یہ دائمی تجربہ رہا ہے کہ دشمن کی ریشہ دوانیوں کے سد باب کا واحد طریقہ ہے قوم کی استقامت اور قومی طاقت۔ یہ واحد طاقت ہے جو دشمن کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ البتہ دشمن تو پھر دشمن ہے۔ وہ اپنا ہر حربہ آزماتا ہے، جیسا کہ میں نے عرض کیا؛ وہ پابندیوں کے حربے کو استعمال کرتا ہے اور اس نے استعمال کیا بھی ہے۔ تو ہمیں وہ راستہ معلوم ہونا چاہئے جو ہمیں ہماری منزل تک پہنچا سکتا ہے۔
میں 'بسیج' (رضاکار فورس) کے سلسلے میں بھی چند جملے عرض کرنا چاہوں گا اور پھر خارجہ پالیسی سے متعلق مسائل کے بارے میں گفتگو کروں گا۔ 'بسیج' جیسا کہ میں نے عرض کیا ملک اور اسلامی نظام کے لئے باعث افتخار ہے، کیوں؟ کیونکہ 'بسیج' کے معنی ہیں ملک اور قوم سے متعلق اساسی امور اور معاملات میں عوام الناس کی بھرپور سرگرم شراکت۔ جب ملک اور حکومت کو عوام کی معیت حاصل ہو، جب عوام ساتھ کھڑے ہوں اور کسی سمت میں قدم بڑھائيں تو فتح یقینی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ملکوں کو ضرب وہاں لگتی ہے اور شکست وہاں ہوتی ہے جہاں عوام کی حمایت نہ ہو یا عوام میں اتحاد کا فقدان ہو۔ جہاں عوام میدان عمل میں پیہم موجود ہوں اور عوامی صفوں میں اتحاد و یگانگت ہو، وہاں فتح و کامرانی یقینی ہے۔ 'بسیج' اسی عوامی حمایت و معیت کا مظہر ہے۔ میدان عمل میں عوام کی موجودگی اور شراکت کا آئینہ ہے۔ 'بسیج' کو اس نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
صداقت و سچائی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو 'بسیج' اس امتحان پر پوری اتری ہے۔ مسلط کردہ جنگ کے دوران، مقدس دفاع کے دوران جو ہمارے ملک کے لئے بڑے سخت اور دشوار ایام تھے، بسیج ہر امتحان پر پوری اتری۔ مقدس دفاع کا دور گزر جانے کے بعد جو مسائل اور معاملات در پیش ہوئے اور آج تک جو امور سامنے آ رہے ہیں ہر موقعے پر 'بسیج' اپنی صداقت کا کامیاب مظاہرہ کر رہی ہے۔ رضاکار فورس اور رضاکار ٹیموں نے ثابت کر دیا کہ ان میں صداقت و سچائی پائی جاتی ہے۔ البتہ رضاکار فورس ہماری نگاہ میں اسی ادارے تک محدود نہیں ہے، بڑی تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں جن کے دل آپ کے ساتھ ہیں، آپ کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتے ہیں، آپ کا احترام کرتے ہیں، آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، آپ کی زحمات و خدمات اور آپ کی جدوجہد کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں، اقدار کے پابند ہیں، ایسے لوگ بھی ہماری نظر میں 'بسیجی' ہیں۔ میدان عمل میں موجود رہنا بہت اہم بات ہے، 'بسیج' کی توانائياں اور صلاحیتیں بڑی کارساز اور گرہیں کھولنے والی ہیں۔ آج بحمد اللہ رضاکار فورس کے اندر نمایاں علمی ہستیاں، اعلی درجہ کے فنکار، سماجی شخصیات، سیاسی رہنما، سماجی کارکن اور بااثر افراد کی کوئی کمی نہیں ہے۔ 'بسیج' اب تک مسلسل ارتقائی عمل طے کرنے والی تنظیم ثابت ہوئی ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔
میری سفارش یہ ہے کہ رضاکار فورس کی استعداد اور صلاحیتوں کو مزید فروغ دیجئے۔ اس کے لئے کچھ لوازمات ضروری ہیں، جیسے اخلاقی لوازمات، فعل و عمل سے متعلق لوازمات اور سلوک و برتاؤ کے لوازمات۔ اخلاقی لوازمات سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنے اندر اعلی اسلامی اخلاقیات کو پروان چڑھائیں۔ صبر و تحمل انہی اخلاقیات کا جز ہے، بخشش و درگزر کر دینا انہی اخلاقیات کا جز ہے، ان اخلاقیات کا جز ہے حلم و بردباری، ان اخلاقیات کا جز ہے تواضع۔ ہمیں اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کرنا ہوں گی۔ برتاؤ اور سلوک کے تقاضوں اور لوازمات کی بات کی جائے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم جب عوام الناس سے روبرو ہوں، جب سماج میں اور دیگر انسانوں کے سامنے آئیں تو انہی اخلاقیات کو ملحوظ رکھیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: ' لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک رکھئے کہ جو بھی آپ کو دیکھے بے ساختہ کہے کہ یہ امام جعفر صادق کے اصحاب ہیں (13)۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں امام جعفر صادق علیہ السلام پر۔ آپ ہمارے لئے باعث زینت بنئے۔ تمام عزیز بسیجیوں (رضاکاروں) کا برتاؤ، آپ نوجوانوں، آپ پاکیزہ افراد، آپ پاکدل انسانوں کا برتاؤ لوگوں کے ساتھ ایسا ہو کہ لوگ فخریہ کہیں کہ یہ اسلامی نظام کی آغوش کے پروردہ افراد ہیں۔ آپ اسلامی نظام کی جانب، اسلامی جمہوری نظام کی طرف لوگوں کے قلبی رجحان اور دلی لگاؤ کا باعث بنئے۔ یہ سماجی خصوصیات، یہ مجاہدانہ خصائص اور یہ عملی صفات حتمی طور پر آپ کے اندر موجود ہوں۔ اپنے اندر نیک صفات کی تقویت کیجئے، معاشرے اور سماج کے سلسلے میں محبت آمیز اور جذبہ خدمت سے سرشار انداز اپنائیے، تمام محاذوں پر پوری سنجیدگی سے کام کیجئے، علم و دانش کے میدان میں بھی، عوامی خدمات کے شعبے میں بھی، کام اور روزگار کے شعبے میں بھی، سیاست اور قومی پیداوار کے شعبے میں بھی، جہاں بھی آپ موجود ہوں، پوری لگن کے ساتھ، تھکن اور سستی کے احساس سے خود کو دور رکھتے ہوئے کام کیجئے، تساہلی سے اجتناب کیجئے۔ یہ عظیم تنظیم جس کے دسیوں ہزار کمانڈر آج یہاں جمع ہوئے ہیں، حقیقت میں ملک کی ہر شعبے میں مثبت اور تعمیری رخ پر پیشرفت کی ضامن بن سکتی ہے۔ یہ تنظیم اور یہ فورس ثبات و استحکام کو یقینی بنا سکتی ہے، اسلامی نظام کا وقار بڑھا سکتی ہے، چنانچہ آج بھی یہ فورس اسلامی نظام کے رعب و دبدبے کی ضامن ہے، اس فورس پر اسلامی نظام کو فخر ہے۔
چند جملے حالیہ مسائل کے بارے میں اور ان چہ میگوئیوں کے تعلق سے بھی عرض کرنا چاہوں گا جو آج کل خارجہ سیاست کے بارے میں، ایٹمی مسائل کے تعلق سے اور ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں سنائی دے رہی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میری تاکید ہے کہ مجریہ کے شعبے کے حکام کی حمایت کی جائے، میں نے ہمیشہ حکومت کی حمایت کی ہے، داخلی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اور خارجہ سیاست اور سفارت کاری کے شعبے سے وابستہ حکام سب کی حمایت و مدد ہمارا فرض ہے۔ میں خود بھی مجریہ کا عہدیدار رہ چکا ہوں، اجرائی میدان میں کام کر چکا ہوں، اس شعبے کے کاموں کی دشواری اور سنگینی کو اپنے پورے وجود سے محسوس کرتا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ ملک کو چلانا بڑا دشوار کام ہے۔ لہذا ان حکام کو حمایت اور پشت پناہی کی ضرورت ہے، میں ان کی مدد کرتا رہوں گا، ان کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھوں گا۔ یہ قضیئے کا ایک پہلو ہے جو مسلمہ اور یقینی ہے۔ دوسری طرف میری تاکید یہ ہے کہ ایٹمی حقوق سمیت ملت ایران کے جملہ حقوق کی حفاطت کی جانی چاہئے۔ میری تاکید ہے کہ ملت ایران کے حقوق کے معاملے میں ایک قدم کی بھی پسپائی نہیں ہونا چاہئے۔ ہم ان مذاکرات کی فروعی باتوں اور تفصیلات میں نہیں پڑتے، بس کچھ ریڈ لائنیں ہیں اور کچھ حدود ہیں جنہیں ہر حال میں ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ میں نے حکام کو بتا دیا ہے اور ان کی ذمہ داری ہے کہ ان حدود کو ملحوظ رکھیں۔ دشمنوں کی دھونس دھمکی اور مخالفین کی اکڑ سے ہرگز پریشان نہ ہوں اور ذرہ برابر بھی ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات سب ذہن نشین کر لیں کہ ملت ایران کے خلاف جو پابندیاں عائد کی گئیں ان کی بنیادی وجہ امریکی استکبار کی کینہ پروری ہے۔ امریکیوں کا کینہ، اونٹ کا کینہ ہے۔ ان کا ارادہ یہ ہے کہ ملت ایران پر دباؤ بڑھائیں، اس امید پر کہ ملت ایران گھٹنے ٹیک دے۔ یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ ملت ایران دباؤ اور سختیوں سے کسی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیک سکتی۔ آپ نے اس قوم کو پہچانا ہی نہیں، یہ تو وہ قوم ہے جو اللہ کی مدد سے ہر دباؤ اور سختی کا مقابلہ کرنے کی توانائی رکھتی ہے اور آپ کی دھمکیوں اور سختیوں کو اپنے لئے سنہری مواقع میں تبدیل کر لیتی ہے، ملت ایران آئندہ بھی اللہ کی مدد سے یہی کام کرے گی۔
اقتصادی شعبے سے متعلق فیصلوں میں، اقتصادی منصوبوں میں ہمارے یہاں کچھ خامیاں رہیں جن کی وجہ سے دشمن آج یہ محسوس کر رہا ہے کہ پابندیوں جیسے حربوں کی مدد سے رخنہ اندازی کی جا سکتی ہے۔ یہ ہمارے لئے ایک موقعہ ہے کہ اپنی ان خامیوں کی نشاندہی کریں اور پھر ان کا سد باب کریں۔ ان شاء اللہ یہ خامیاں دور کر لی جائیں گی۔ پابندیوں سے امریکا کا کوئی مقصد پورا ہونے والا نہیں ہے۔ وہ یاد رکھیں اور مجھے لگتا ہے کہ انہیں خوب معلوم ہے، یہ بات میں اس لئے کہتا ہوں کہ انہیں پابندیوں کے بے اثر ہونے کا علم ہے کہ وہ فوجی کارروائی کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ اگر پابندیوں سے آپ کا مقصد پورا ہو رہا ہے تو پھر فوجی کارروائی کی دھمکی دینے کی آپ کو کیا ضرورت ہے؟ ان دھمکیوں سے پتہ چلتا ہے کہ پابندیوں سے ان کا مقصد پورا نہیں ہو رہا ہے، پابندیاں کارگر نہیں ہیں۔ اسی لئے وہ فوجی حملے کی دھمکی دینے پر مجبور ہیں۔ البتہ فوجی کارروائی کی ان کی یہ دھمکیاں بڑی مذموم اور نفرت انگیز ہیں، کبھی ان کا صدر اور کبھی کوئی اور عہدیدار فوجی حملے کی دھمکی دیتا ہے۔ فوجی حملے کی دھمکیاں دینے کے بجائے جائیے اپنی بدحال اور خستہ حال معیشت کی خبر لیجئے۔ جائیے کوئی راہ حل تلاش کیجئے کہ آپ کی حکومت پندرہ دن، سولہ دن تک شٹ ڈاؤن کرنے پر مجبور نہ ہو، اپنے قرضے ادا کرنے کی فکر کیجئے، معاشی سرگرمیوں کو پٹری پر لانے کی کوشش کیجئے!
آپ یقین جانئے، جیسا کہ میں نے عرض کیا، ملت ایران دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ «اِمّا اَخٌ لَكَ فى دينِك اَو شَبيهٌ لَكَ فى خَلقِك»(۱۴) کی اساس پر برتاؤ کرتی ہے، سب کا احترام کرتی ہے۔ لیکن جارحیت کرنے والوں کے خلاف ملت ایران کی جوابی کارروائی ایسی ہوگی کہ وہ ہمیشہ کے لئے پشیمان ہو جائیں گے۔ جارح کو یہ قوم ایسا طمانچہ رسید کرے گی کہ وہ کبھی فراموش نہیں کر پائے گا۔ امریکی حکام صیہونی حکومت کے سامنے اور صیہونیوں کے سرمایہ دارانہ نیٹ ورک کے سامنے اپنا فریضہ سمجھتے ہیں کہ کچھ لن ترانیاں کریں، کچھ نہ کچھ بولتے رہیں، یہ ان کے لئے بڑی ذلت و رسوائی کا مقام ہے۔ صیہونی حکومت تو ایسی حکومت ہے جس کی بنیادیں نہایت کمزور اور متزلزل ہیں۔ صیہونی حکومت کی تقدیر زوال اور سرنگونی ہے۔ صیہونی حکومت ایک مسلط کردہ حکومت ہے، اسے طاقت کے بلبوتے پر ایجاد کیا گیا ہے۔ طاقت کے بلبوتے پر وجود میں آنے والی کوئی بھی شئے دوام نہیں پا سکتی، چنانچہ اس حکومت کو بھی دوام نہیں ہے۔ وہ لوگ جو صیہونی سرمایہ دارانہ نیٹ ورک کے مقروض ہیں اور اس مفلوک الحال صیہونی حکومت کا دفاع کر رہے ہیں، یہ عمل ان کے لئے بڑی رسوائی و ذلت کی بات ہے۔ بعض یورپی حکام بھی بد قسمتی سے چاپلوسی میں مصروف ہیں۔ جاتے ہیں ان افراد کے پاس جنہیں انسان کہنا بھی مناسب نہیں ہوگا، صیہونی حکومت کے عہدیدار واقعی درندوں جیسے ہیں، انہیں انسان تسلیم نہیں کیا جا سکتا، خوش آمدیں کرتے ہیں، اپنی توہین کرتے ہیں اور اپنی قوم کی بے عزتی کرواتے ہیں۔ ایک زمانے میں یورپ میں فرانس کی قوم کا نام روشن ہوا کیونکہ اس زمانے کے فرانسیسی صدر نے برطانیہ کو اس لئے یورپ کے مشترکہ بازار میں قدم نہیں رکھنے دیا کہ وہ امریکا کا فرمانبردار تھا۔ اس سے فرانس کا قد اونچا ہوا، ساری دنیا میں فرانس کی عزت و اعتبار میں اضافہ ہوا کیونکہ وہ امریکا کے خلاف ڈٹ گیا اور امریکا کی حاشیہ برداری کرنے والے برطانیہ کو یورپ کے مشترکہ بازار میں داخل نہیں ہونے دیا۔ قوم کا قد اور اعتبار اس طرح بڑھتا ہے۔ آج اسی ملک کے حکام امریکا کے سامنے ہی نہیں بلکہ نجس و منحوس صیہونیوں کے سامنے بھی بچھے جاتے ہیں۔ یہ فرانس کے عوام کے لئے شرم کی بات ہے، البتہ اس کا تدارک انہیں خود کرنا ہے۔
نوجوانوں سے بھی چند جملے عرض کر دوں۔ نوجوانو! بلا شبہ اس ملک کا مستقبل تابناک اور امید افزا ہے۔ یہ نظام آپ کا ہے۔ آپ اپنے وطن عزیز اور اپنی قوم کو افتخار کی بلند چوٹیوں پر پہنچا سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ آپ اس سرزمین پر جدید اسلامی تمدن کے کامل نمونے کو وجود بخشیں گے تا کہ آپ اپنے عظیم فرائض سرانجام دے سکیں۔ آپ دینی جذبے کو تقویت پہنچائیے، تقوی کا راستہ اختیار کیجئے، عفت و پاکدامنی کو اور روحانی و قلبی پاکیزگی کو جہاں تک ممکن ہو اپنے درمیان عام کیجئے۔ آج کے نوجوان کو دین کی ضرورت ہے، تقوا کی ضرورت ہے، علم کی ضرورت ہے، جذبہ عمل کی ضرورت ہے، دیانت داری و پاکدامنی کی ضرورت ہے، سماجی خدمات انجام دینے کی ضرورت ہے، ورزش کی ضرورت ہے۔ آج کے نوجوان کو ان چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔ آپ عزیز بسیجیوں (رضاکاروں) کو چاہئے کہ اپنے اندر ایسا کر دکھانے کی صلاحیت پیدا کیجئے۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ، اس اجتماع پر اور پورے ملک کے بسیجیوں پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ پروردگارا! ملت ایران کو روز بروز سربلندی و سرفرازی کی نئی چوٹیوں پر پہنچا۔ پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ ہمارے اس اجتماع سے ہمارے عظیم الشان امام خمینی کی روح مطہرہ کو راضی و خوشنود فرما۔ شہدا کی ارواح مطہرہ کو ہم سے خوش رکھ۔ پالنے والے محمد و آل محمد کا صدقہ، حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہمیں حضرت کے اعوان و انصار اور آپ کے راستے پر چلتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والوں میں قرار دے۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته

۱) لهوف، صفحہ ۱۴۶؛ الاحتجاج، جلد ۲، صفحہ ۳۰۳
۲) سورهى منافقون، آیت نمبر ۸ کا ایک حصہ
۳) لهوف، صفحہ ۱۶۰
۴) سورهى احزاب، ساتویں آیت اور آیت نمبر آٹھ کا ایک ٹکڑا
۵) سورهى احزاب، ۲۳یں آیت اور آیت نمبر چوبیس کا ایک ٹکڑا
۶) سورهى احزاب، آیت نمبر آٹھ کا ایک ٹکڑا
۷) سورهى احزاب، آیت نمبر پندرہ کا ایک ٹکڑا
۸) سورهى انفال، آیت نمبر سولہ کا ایک ٹکڑا
۹) سورهى نحل، آیت نمبر نوے کا ایک ٹکڑا
۱۰) نهجالبلاغه مکتوب نمبر 53 سے ماخوذ
۱۱) 25 مئی 2011
۱۲) معاصر امریکی مصنف، الیکس ہیلی کی تحریر
۱۳) منجملہ، الكافى، جلد۲، صفحہ ۲۳۳
۱۴) نهجالبلاغه مکتوب نمبر 53 سے ماخوذ