28/11/92 ہجری شمسی مطابق 17 فروری سنہ 2014 کو پیر کے دن صوبہ مشرقی آذربائیجان کے صدر مقام تبریز اور دیگر شہروں سے ملاقات کے لئے تہران آنے والے ہزاروں لوگوں سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اتحاد اور استقامت، 11 فروری کے جلوسوں کے دو کلیدی پیغام تھے۔ 18 فروری سنہ 1978 کو اہل تبریز کے تاریخ ساز قیام کی چھتیسویں سالگرہ کی مناسبت سے ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کا آغاز 11 فروری کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے جلوسوں میں عوام کی پرجوش اور وسیع شرکت پر اظہار تشکر سے کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عظیم الشان ملت ایران کی توصیف، قدردانی اور تشکر سے زبان قاصر ہے تاہم سب سے پہلے تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہم سجدہ شکر بجا لاتے ہیں جو دلوں کو دگرگوں اور نیتوں اور ارادوں کو تبدیل کرنے والا ہے۔ اس کے بعد ہم پورے ملک کے عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے 11 فروری کو دنیا والوں کے سامنے اسلامی انقلاب کا نمایاں، پرشکوہ اور زندگی سے سرشار چہرہ پیش کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے مارچ 2013 میں ایرانی سال کے آغاز کے موقعے پر مشہد مقدس کی اپنی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سابق حکومت کے بعض عہدیداروں اور موجودہ حکومت کے بعض حکام کا یہ خیال ہے کہ اگر ہم ایٹمی مسئلے میں امریکا سے مذاکرات کریں تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، ایٹمی مسئلے میں مذاکرات پر ان کے اصرار کو دیکھتے ہوئے میں نے کہا کہ میں مخالفت نہیں کروں گا لیکن اسی وقت میں نے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ میں پرامید نہیں ہوں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پرامید نہ ہونے کی وجوہات و علامات اب بتدریج سامنے آنے لگی ہیں اور اس کی سب سے واضح دلیل ملت ایران کے خلاف امریکی حکام اور سنیٹروں کے پست اور گستاخانہ بیان ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران نے اس سال گیارہ فروری کے جلوسوں میں اس گستاخی کے جواب میں امریکی حکام کے منہ پر طمانچہ مارا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی اس مکرر تاکید کا حوالہ دیا کہ ایٹمی مسئلہ محض ایک بہانہ ہے اور فرمایا کہ اگر بفرض محال کسی دن ایٹمی مسئلہ امریکا کی خواہش کے مطابق حل ہو جائے تو پھر امریکی دیگر مسائل کو اٹھائیں گے اور آج سب دیکھ رہے ہیں کہ امریکی حکومت کے ترجمان ایران کی دفاعی و میزائیلی طاقت اور انسانی حقوق جیسے مسائل کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں فرمایا کہ جو عمل وزارت خارجہ اور حکومتی عہدیداروں نے ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں شروع کیا ہے وہ جاری رہے گا اور ایران نے جو کام شروع کیا ہے اس کی مخالفت ہرگز نہیں کرے گا لیکن یہ بات سب یاد رکھیں کہ امریکا کو بنیادی طور پر اسلامی انقلاب اور اسلام سے عناد ہے اور یہ دشمنی مذاکرات سے ختم ہونے والی نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله‌ الرّحمن ‌الرّحيم

تبریز اور آذربائیجان سے آنے والے تمام بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ بھائیوں اور بہنوں نے شدید سردی کے ان موسم میں اس طولانی سفر کی زحمت گوارا کی اور ہمارے اس حسینیہ میں تشریف لاکر یہاں کی فضا کو ان تاریخی ایام میں جوش و جذبے سے معمور کر دیا۔ تمام بھائیوں اور بہنوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا شہیدوں کے باعظمت خاندانوں، علمائے کرام، اعلی رتبہ حکام اور تبریز کے محترم امام جمعہ جناب شبستری صاحب کا جنہوں نے اس عظیم شہر اور اس باعظمت صوبے کے شایان شان خدمات انجام دیں اور بدستور انجام دے رہے ہیں۔
اپنے معروضات کے آغاز میں، میں چند جملے عظیم الشان ملت ایران کے شکرئے کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا اس شکوہ اور وقار کے لئے جس کا مظاہرہ انہوں نے گيارہ فروری کو (اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے جشن میں) کیا۔ زبان اس کی توصیف اور تشکر سے قاصر ہے۔ سب سے پہلے تو اس پر ہمیں حمد و شکر کے لئے پروردگار عالم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونا چاہئے جو دلوں کو دگرگوں کر دینے والا اور دلوں اور ارادوں کو بدل دینے والا ہے۔ ان ساری چیزوں کا انحصار ارادہ خداوندی پر ہے۔ دوسرے مرحلے میں ہمیں ملک بھر کے عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے 11 فروری (کی تقریب) کو اس نمایاں، زندگی سے معمور اور پروقار انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس کے بعد ہم 18 فروری کے واقعے کی مناسبت سے کچھ گفتگو کریں گے۔
ہمارا آج کا یہ اجتماع اور تبریز اور صوبہ آذربائیجان کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے آپ عزیزوں سے ہماری یہ ملاقات 18 فروری کے واقعے کی مناسبت سے ہو رہی ہے۔ اٹھارہ فروری کا دن صرف ایک نام نہیں ہے، اس سے پہلے کے دیگر ایام جیسا دن نہیں ہے، اس دن کا واقعہ اتفاقیہ طور رونما ہو جانے والا واقعہ نہیں ہے۔ اٹھارہ فروری ایک عظیم تاریخی واقعے کا آئینہ ہے جو سنہ 1356 ہجری شمسی مطابق 1978 عیسوی میں آج کے دن یعنی اٹھارہ فروری کو پیش آیا۔ یہ گوناگوں مفاہیم کا حامل واقعہ تھا۔ اس نشست میں موجود نوجوانو! میرے عزیزو! میرے بچو! آپ نے اٹھارہ فروری کے واقعے کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا ہے لیکن اٹھارہ فروری کے واقعے کا سبق آج بھی اسی طرح زندہ ہے، اس واقعے کی عبرتیں آج بھی زندہ ہیں۔
اس عظیم واقعے میں کئی عظیم مفاہیم مضمر ہیں۔ سب سے پہلی چیز ہے اہل تبریز اور آذربائیجان کے عوام کے مزاج اور اخلاقی خصوصیات کا انعکاس اور مظاہرہ، یہ بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنی خصلتوں اور اخلاقی خصوصیات سے واقف ہونا چاہئے۔ اغیار بیٹھ کر کوتاہ فکری اور تنگ نظری کے ساتھ حقائق میں رد و بدل کرکے ایرانیوں کے اخلاقیات پر خامہ فرسائي کرتے ہیں! لہذا ہمیں خود اس طرح کے واقعات کے آئینے میں خودشناسی کی کوشش کرنا چاہئے۔ اٹھارہ فروری کے اس واقعے میں، تبریز کے عوام نے اپنی جن خصوصیات اور صفات کا مظاہرہ کیا ان میں سب سے پہلی خصوصیت گہرا دینی عقیدہ ہے، دوسری خصوصیت دینی حمیت ہے، تیسری خصوصیت شجاعت ہے۔ اس کے بعد وقت کی نباضی اور واقعات کی درست شناخت کی خصوصیت ہے۔ یہ کسی بھی بستی اور آبادی کی بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ صاحب ایمان ہو، اس کے اندر شجاعت ہو، جرئت عمل رکھتی ہو اور موقع و محل سے بخوبی آشنا ہو۔ مناسب وقت اور محل سے پہلے یا بعد میں اقدام انجام پائے تو اپنا اثر کھو دیتا ہے۔ اہل تبریز نے بالکل صحیح وقت پر اٹھارہ فروری کا واقعہ رقم کیا۔ یہ خصوصیات بے حد اہم ہیں۔ تبریز اور آذربائیجان کے لوگوں میں یہ خصوصیات اٹھارہ فروری سے پہلے بھی موجود تھیں اور اب تک قائم ہیں، چنانچہ بعد میں رونما ہونے والے واقعات کو اس کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان خصوصیات کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ اسلامی عقیدہ، غیرت دینی، شجاعت، جرئت عمل رکھنا، پیش پیش رہنا، صف شکن ہونا، اعلی اہداف کے حصول کی راہ میں کارہائے نمایاں کرنا اور جدت عملی کا مظاہرہ کرنا، وقت کی نزاکت کو سمجھنا، موقعہ و محل سے واقف ہونا، مناسب وقت پر مناسب اقدام کرنا۔ یہ سب اٹھارہ فروری کے واقعے کی برکتیں اور نشانیاں ہیں جن سے تبریز اور آذربائيجان کے عوام کی نمایاں خصوصیات اور صفات تاریخ کے آئينے میں مجسم ہو گئيں۔
اٹھارہ فروری کے واقعے کا دوسرا کلیدی نکتہ اس حقیقت کا انعکاس ہے کہ ملک کے مختلف شعبوں کے باہمی رابطے اور وابستگی کی کیا برکتیں ہیں۔ قم کہاں واقع ہے اور تبریز کہاں ہے؟ ایک واقعہ قم میں رونما ہوا (1)۔ جن لوگوں نے یہ مجرمانہ فعل انجام دیا ان کی خواہش تھی کہ یہ واقعہ ذہنوں میں باقی نہ رہے، اسے فراموش کر دیا جائے۔ دفعتا قم سے بہت دور ایک مقام یعنی تبریز میں عوام اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور قم کے واقعے کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ 9 جنوری کے واقعے کا چہلم قم والوں کو منانا تھا لیکن ان کے بجائے اہل تبریز نے منا لیا۔ ( اس اقدام پر) ظالم و جابر طاغوتی حکومت سراسیمگی میں مبتلا ہو گئی۔ اس نے تبریز کے عوام کے خلاف بڑے احمقانہ انداز میں کارروائی کی اور کچھ لوگ شہید ہو گئے۔ اس وقت جو پروپیگنڈا حکومت نے کیا وہ بڑا ہی بچکانہ تھا، حکومت نے اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ یہ واقعہ ہو گیا تو اس کا چہلم یزد کے عوام نے منایا۔ دیکھئے یہی ملک کے مختلف خطوں کی باہمی وابستگی ہے۔ پھر تو ایک سلسلہ چل پڑا۔ انقلاب کے شہیدوں کا چہلم منانے کی یہ جدت عملی آپ نے پیش کی اور پھر اس کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یزد، شیراز، بوشہر اور ملک کے بقیہ خطوں میں۔ یہ اٹھارہ فروری کے واقعے کا دوسرا اہم نکتہ ہے۔
تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر اس زمانے میں انیس 9 جنوری کے دن اہل قم سے کوئی کہتا یا اٹھارہ فروری کے دن تبریز کے عوام سے کوئی یہ پیشین گوئی کرتا کہ آپ نے جو عمل انجام دیا ہے وہ ایک عظیم انقلاب پر منتج ہوگا تو کسی کو یقین نہ آتا لیکن ایسا ہوا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی قوم ہمت سے کام لے، میدان میں ڈٹ جائے، پسپا نہ ہو تو پہاڑوں کو اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور کر سکتی ہے، کرشمہ اور معجزہ کر سکتی ہے اور واقعی یہ معجزہ وقوع پذیر ہوا۔ میرے عزیزو! میرے نوجوانو! غور کرو، مطالعہ کرو، انقلاب کے رونما ہونے کے عمل کا جائزہ لو۔ انبیاء کے معجزوں سے حد درجہ مشابہت اور مماثلت رکھنے والا واقعہ اسلامی انقلاب کی کامیابی ہے۔ کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات تھی کہ امریکی تسلط میں جکڑے ہوئے، مغربی ثقافت کے اسیر، طاقتور بین الاقوامی دشمنوں کی مٹھی میں گرفتار معیشت رکھنے والے، عسکری اعبتار سے کمزور، عالمی پوزیشن کے اعتبار سے بالکل تنہا ملک کے عوام یکلخت مادی طاقتوں کے تمام مظاہر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور مادہ پرستی میں ڈوبی ہوئی دنیا میں اسلام کا پرچم بلند کر دیتے ہیں، مشرق و مغرب یعنی سوویت یونین اور امریکا کے مد مقابل، جو سو معاملات میں شدید باہمی اختلاف رکھنے کے باوجو دایک مسئلے میں پوری طرح متفق تھے اور وہ مسئلہ تھا اسلامی انقلاب کو زک پہنچانا، اس ملک کے عوام کھڑے ہوتے ہیں اور کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، دشمنوں کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ان چیزوں پر کسے یقین آ سکتا ہے؟ لیکن ایسا ہوا، یہ ایک سبق ہے۔ اٹھارہ فروری کا ایک اہم سبق ہمارے لئے، آپ کے لئے اور تمام ملت ایران کے لئے یہ ہے کہ بڑے سے بڑا واقعہ، بڑی سے بڑی رکاوٹ اور دنیا کی کوئی بھی طاقت ثابت قدم قوم کے عزم راسخ کے مقابل ٹک نہیں سکتی۔ اٹھارہ فروری کو رونما ہونے والے اس واقعے کے سلسلے میں، آذربائیجان کے عوام کی توصیف میں اور اہل تبریز کی تعریف میں بیان کرنے کو بہت کچھ ہے۔ اس واقعے کے بعد بھی آج تک آذربائیجان کے لوگوں کے اندر وہی جذبہ، وہی احساس، وہی فرض شناسی، وہی احساس ذمہ داری اور وہی وفاداری موجود ہے۔ گوناگوں حالات اور مختلف مواقع پر اہل تبریز کی کارکردگی درخشاں رہی ہے۔ یہ سبق یاد رکھنے اور محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے عرض کیا کہ سب سے پہلی چیز ہے مقامی اور داخلی توانائیوں کی شناخت، دوسری چیز ہے ملک کے مختلف شعبوں کا ایک دوسرے سے رابطہ اور ہم آہنگی اور یہی وہ اہم چیز پر جس پر دشمنوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایرانی قومیتوں کو جو اب تک تمام واقعات و حوادث میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہی ہیں، انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیں۔ یہ بات ایرانی عوام بخوبی اپنے ذہن میں رکھیں۔ ہمارے یہاں ترک ہیں، عرب ہیں، فارس ہیں، لر ہیں، بلوچ ہیں، کرد ہیں، ترکمن ہیں گوناگوں قومیتیں ایران بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، ایک چیز ہے جو ان تمام کے درمیان مشترکہ طور پر اور یکساں انداز میں موجود ہے اور وہ ہے اسلامی مملکت ایران کا اقتدار۔ اسی نے ان تمام قومیتوں کو پرچم اسلام کے نیچے اور ایران کو اس پرکشش نام پر ایک دوسرے سے متصل کر رکھا ہے۔ آج انہیں ایک دوسرے سے الگ کر دینے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ اس سے سب آگاہ رہیں، سب ہوشیا رہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو گھات میں بیٹھے ہیں۔ سازشیں اور منصوبے تیار کر رہے ہیں کہ ایرانی قومیتوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دیں۔ 18 فروری کے واقعے سے ملنے والا اتحاد، ہمدلی، ہمدردی اور یگانگت کا پیغام ہمارے ذہن سے کبھی فراموش نہیں ہونا چاہئے۔ یہ تو رہا دوسرا اہم نکتہ۔ تیسرا اہم نکتہ ہے قوم کے ارادے کی کرشماتی طاقت۔
اب ہم بائیس بہمن (اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ کی تاریخ 11 فروری) کے مسئلے کی طرف پھر لوٹتے ہیں اور اسلامی انقلاب کے مسئلے کی طرف پلٹتے ہیں جو کل بھی ہمارا اہم مسئلہ تھا، آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ہر سال گیارہ فروری کے جشن گزشتہ سال کے جشن سے زیادہ پرشکوہ انداز میں منعقد ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ اس کا الگ الگ تجزیہ کرتے ہیں لیکن یہ تجزئے میز کے پیچھے بیٹھ کر خیالی دنیا میں لکھے جانے والے تجزئے ہیں، عوام کے اندر جو حقائق ہیں وہ کچھ اور ہی ہیں۔ جو لوگ باریک بینی اور توجہ کے ساتھ سڑکوں کے مناظر کا جائزہ لیتے ہیں، خاص کیمروں کی مدد سے شرکاء کی تعداد کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں، انہوں نے ہمیں کئی رپورٹیں دی ہیں، ان رپورٹوں کے مطابق گزشتہ سال انقلاب کی سالگرہ پر منائے جانے والے جشن میں شرکت کرنے والوں کی تعداد اس سے پہلے کے سال کی نسبت زیادہ تھی۔ انہی افراد نے جو بڑی باریک بینی سے بالکل درست یا تقریبا صحیح اندازے اور رپورٹ پیش کرتے ہیں، بتایا کہ اس سال جلوسوں میں عوام کی شرکت گزشتہ سال سے کافی زیادہ تھی۔ یہ جملہ جو بار بار دہرایا جاتا ہے اس کے بارے میں ممکن ہے کہ کوئی یہ خیال کرے کہ یہ تو بس رسمی طور پر ادا کیا جانے والا جملہ ہے کہ ہر سال گزشتہ سال سے بہتر ہوتا ہے۔ لیکن یہ رسمی جملہ نہیں بلکہ عین حقیقت ہے۔ یہ حقیقت ہمارے سامنے کیا ثابت کرتی ہے؟ اس حقیر کا خیال یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی سالگرہ کا جشن بھی خود اس انقلاب کی مانند ایک بے مثال حقیقت ہے۔ یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ جس طرح اسلامی انقلاب دنیا کے انقلابوں کی پوری تاریخ میں خود دشمنوں کے اعترافات کے مطابق مختلف پہلوؤں سے بے مثال تھا، انقلاب کی سالگرہ کا جشن بھی ایسا ہے کہ جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ہے۔ دنیا کے ملکوں میں انقلابوں کی سالگرہ کا جشن عام طور پر جو ہم ٹی وی پر اور خبروں میں دیکھتے تھے ایک رسمی سی تقریب ہوتی تھی، دو سال، تین سال اور چار سال بعد بے جان سا پروگرام ہوتا تھا۔ یہاں یہ معاملہ نہیں ہے۔ عوام جشن مناتے ہیں، صرف تہران میں نہیں، تمام صوبوں کے مراکز میں، صرف مراکز ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے تمام شہروں میں۔ صرف پہلے سال، دوسرے سال، پانچ سال بعد اور دس سال بعد نہیں بلکہ پینتیس سال بعد بھی۔ کیا یہ حیرت انگیز چیز نہیں ہے؟ انقلاب کو 35 سال گزر چکے ہیں جو لوگ انقلاب کی کامیابی کے پہلے ہی سال میں پیدا ہوئے وہ آج پینتیس سال کے ہو چکے ہیں۔ یعنی نوجوانی کے دور سے گزر چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انقلاب کی سالگرہ ہر سال زیادہ جوش و خروش سے، زیادہ جذبہ استقامت کے ساتھ، اسلامی انقلاب کے اہداف و مقاصد کے تئیں زیادہ احساس ذمہ داری کے ساتھ اور زیادہ قوت و وقار کے ساتھ منائی جاتی ہے؛ کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے؟ دشمن کے ذرائع ابلاغ زبانی طور پر جو بھی کہیں مگر ان کے تھنک ٹینک بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں کیا صورت حال ہے۔ جو لوگ بنظر غائر حالات کا جائزہ لے رہے ہیں انہیں بخوبی علم ہے کہ اس قوم کا، اس انقلاب کا، ان جذبات کا اور اس قوت ایمانی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
عوام کی زبان سے جو نعرے سنائی دیتے ہیں وہ کس طرح کے نعرے ہیں؟ انقلاب کے صراط مستقیم پر اور سیدھے راستے پر ثابت قدم رہنے کے نعرے ہیں۔ ہر جگہ یہی منظر ہے۔ پورے ملک میں جو نعرے لگ رہے ہیں وہ استقامت و پائیداری کے نعرے ہیں۔ یعنی گیارہ فروری کے جلوسوں میں شرکت کرکے اس حقیقت کو عملی طور پر پیش کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے اس وعدے کو اِن تَنصُروا اللهَ يَنصُركُم وَ يُثَبِّت اَقدامَكُم؛(۲) پورا کر دیا ہے۔ اللہ تعالی آپ کے قدموں میں ثبات پیدا کرتا ہے، آپ کے اندر استواری و استحکام پیدا کرتا ہے، آپ کو پسپائی پر مجبور ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے یہ وعدہ الہی ہے جو ملت ایران کے سلسلے میں جامہ عمل پہن رہا ہے۔ آپ نے دین خدا کی نصرت کی تو اللہ تعالی نے آپ کو ثبات قدم عنایت فرمایا ہے۔ اس سال کا یہ پینتیس سالہ جشن ثبات قدم کا آئینہ ہے۔
اس جشن کا پیغام کیا ہے؟ آپ عوام الناس کے نعروں پر غور کیجئے! عوام کے نعروں کا پیغام سمجھنے اور اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا جو نقطہ نگاہ ہے اس کے مطابق گیارہ فروری کے جلوسوں سے دو اہم پیغام ملے ہیں۔ ایک ہے استقامت و ثابت قدمی کا پیغام اور دوسرے اتحاد و یکجہتی کا پیغام۔ استقامت کا کیا مطلب ہے؟ استقامت کا مطلب یہ ہے کہ ملت ایران اپنے اہداف و مقاصد پر ثابت قدمی سے قائم ہے۔ ہمارے کچھ 'اثباتی' اہداف بھی ہیں اور کچھ 'انکاری' اہداف بھی ہیں۔ ہمارے اثباتی اہداف یہ ہے کہ ہم سماجی انصاف کی فکر میں ہیں، ملک کو گوناگوں معاملات میں ہم عوامی شراکت و موجودگی کی فکر میں ہیں، ہمیں اسلام کی فکر ہے، ہم اسلامی تعلیمات پر عمل آوری کو ملک کی سعادت و کامرانی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ ہم خود منحصر معیشت کی کوشش میں ہیں، ہم اغیار کے غلبے سے آزاد ثقافت، حقیقی اور اصلی اسلامی و ایرانی ثقافت کی کوشش میں ہیں۔ ہم مظلوم کو پناہ دینے اور ظالم کے سامنے سینہ سپر رہنے کے قائل ہیں، ہم ملک کی ترقی و پیشرفت کی فکر میں ہیں، ہم علمی میدان میں ملک کی درخشش کے خواہاں ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک علم کے میدان میں، معیشت کے میدان میں، ثقافت کے میدان میں، سماجی معاملات میں، اخلاقیات میں، روحانیت و معنویت کے میدان میں پیش پیش رہے۔ ہمارے انقلاب کے اثباتی پیغام اور اہداف یہ ہیں۔ ہمارے انقلاب نے انکاری اہداف اور پیغام بھی پیش کر دئے ہیں۔ انکاری پیغام یہ ہے کہ ہم زور زبردستی کے سامنے ہرگز نہیں جھکیں گے، غنڈہ ٹیکس کسی کو ادا نہیں کریں گے، تسلط پسندانہ نظام کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
تسلط پسندانہ نطام کا مطلب یہ ہے کہ مادی وسائل، اسلحہ، دولت اور اس طرح کی دیگر چیزیں حاصل کرنے والی کچھ طاقتیں ساری دنیا کو اپنا محکوم بنا لینا چاہتی ہیں اور آج تسلط پسندانہ نظام کا نمونہ ہے امریکی حکومت۔ ایرانی قوم نے اپنی انقلابی تحریک میں بھی اعلان کیا، بعد کے واقعات کے دوران بھی واشگاف الفاظ میں کہا، مسلط کردہ جنگ کے دوران بھی اپنا فیصلہ سنا دیا اور گیارہ فروری کے جلوسوں میں بھی دو ٹوک انداز میں یہ پیغام دے دیا کہ ہم امریکا کی زبردستی اور باج خواہی کے سامنے جھکنے والے نہیں ہیں، اسے غنڈہ ٹیکس دینے والے نہیں ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو میک اپ کے ذریعے اور آرائش کے ذریعے امریکا کے چہرے کی بدنمائی اور وحشت انگیزی کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ اسے ہمارے عوام کے سامنے ایک انسان دوست اور دوستی کے لئے مائل حکومت کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ لاکھ کوشش کر لیں انہیں کامیابی ملنے والی نہیں ہے۔ کم از کم گزشتہ ستر اسی سال کی تاریخ میں ویسے امریکا کی اس سے پہلے کی تاریخ میں بھی بیان کرنے کی بہت سی چیزیں ہیں لیکن میں وہ بحث نہیں چھیڑنا چاہتا، اسی ستر اسی سالہ تاریخ پر آپ نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ امریکا نے کیا کیا ہے؟ جو جنگیں امریکا نے بھڑکائیں، ان جنگوں میں اور دیگر جنگوں میں جس طرح بے گناہ افراد اور معصوم شہری مارے گئے، دنیا کے مشرق و مغرب میں ڈکٹیٹروں کی امریکا اور یورپ نے جس طرح حمایت و پشت پناہی کی ہے، ان میں ایک مثال ایران کے محمد رضا پہلوی کی ہے۔ اسی طرح ایشیا کے ملکوں میں، افریقی ملکوں میں، لاطینی امریکا کے ملکوں میں فوجی اور غیر فوجی حکومتوں کی جو سرپرستی کی ہے، جنہوں نے برسہا برس تک خود اپنے عوام پر مظالم ڈھائے ہیں، عوام کا خون چوسا ہے، قوم کی دولت لوٹی ہے، عوام کو تھکا مارا لیکن پھر بھی ان کی حمایت امریکا کی ترجیحات میں شامل رہی۔ عالمی دہشت گردی کی پشت پناہی، سرکاری دہشت گردی کی حمایت۔ یہ جرائم پیشہ غاصب صیہونی حکومت جس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا ہے، دسیوں سال سے امریکا اس کی بے دریغ حمایت کر رہا ہے۔ جو بے گناہ انسانوں کو قتل کرتی ہے، گھروں کو مسمار کرتی ہے، ظلم ڈھاتی ہے، نوجوانوں کو، عورتوں کو، مردوں کو، بچوں کو عقوبت خانوں میں بند رکھتی ہے، بیروت پر حملہ کرتی ہے اور صبرا و شتیلا کو نابود کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کیسے کیسے جرائم انجام دیتی ہے لیکن اس کے ان سارے اقدامات کو امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ یہ سب امریکا کے سیاہ ریکارڈ میں درج ہے۔ عراق پر حملہ اور دسیوں ہزار انسانوں کا قتل عام، ہمیں صحیح اعداد و شمار نہیں معلوم ہیں ورنہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ان چند برسوں میں امریکا نے براہ راست یا بالواسطہ طور پر تقریبا دس لاکھ عراقیوں کی جانیں تلف کیں۔ میں اس تعداد پر اصرار نہیں کرتا تاہم کم از کم دسیوں ہزار انسان عراق میں لقمہ اجل بنے جبکہ ایک انسان کی جان بھی قیمتی ہے۔ افغانستان میں کسی اور انداز سے موت کا بازار گرم کیا گیا۔ قاتل کمپنیاں، ٹارگٹ کلنگ کرنے والی ایجنسیاں، جن میں سے ایک کا نام بھی میں نے اپنی تقریر میں لیا تھا، 'بلیک واٹر' ان کمپنیوں کا کام ہے انسانوں کو قتل کرنا، ان ایجنسیوں کو بے گناہ عوام پر مسلط کر دیا۔ یہی جرائم پیشہ قاتل تکفیری گروہ اسی امریکی حکومت کی دین ہیں جو آج کچھ جگہوں پر آپس میں ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ امریکا اس طرح کی حکومت ہے۔ یہ امریکا کے عوام اور امریکی قوم کی بات نہیں ہے، وہاں کے عوام تو دیگر ممالک کے عوام کی ہی مانند ہیں، ہماری گفتگو امریکی حکومت کے بارے میں ہے۔ بحث امریکی حکومت کی ہے۔ اس کریہ المنظر چہرے کو میک اپ سے کیونکر بدلا جا سکتا ہے اور اس کی شبیہ کو سنوار کر ایرانی عوام کے سامنے کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟
ہم ایرانی عوام نے کیسے کیسے حالات کا سامنا کیا؟ اٹھائیس مرداد (مطابق 18 اگست) کی بغاوت کے بعد تقریبا پچیس، چھبیس، تیس سال تک 18 اگست سنہ 1953 سے لیکر سنہ 1979 تک اور پھر اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سے لگاتار ملت ایران کے ساتھ کیسا مذموم برتاؤ کیا گیا، کیسی ایذائیں دی گئیں، کیسی خبیثانہ حرکتیں کی گئی ہیں؟! اس وقت ہمارے عوام کے سامنے پابندیوں کی مثال ہے، یہ سلسلہ انقلاب کے شروع سے ہی چلا آ رہا ہے۔ انقلاب کے اوائل میں جو بھی اس تحریک کے خلاف کچھ کرتا امریکی حکومت اس کی مدد کرتی تھی۔ خواہ وہ بائیں بازو سے تعلق رکھتا ہو، دائیں بازو سے تعلق رکھتا ہو، فوجی ہو، سویلین ہو ان کی نظر میں اس کا کوئی فرق نہیں تھا۔ اسلامی جمہوری نظام کے خلاف جس کے اندر بھی کچھ جذبات تھے، کچھ عزائم تھے خواہ قومیتی بنیاد پر یا کسی اور وجہ سے اس کی حتی الامکان مدد کی جاتی تھی۔ اس سلسلے میں تازہ ترین مثال وہ ہے جو عوام نے سنہ 2009 میں اپنی آنکھ سے دیکھی۔ امریکی صدر نے انتہائی بے شرمی کے ساتھ کھڑے ہوکر تہران میں آشوب پھیلانے والوں کی حمایت کا اعلان کیا، حالیہ دنوں میں پھر انہوں نے حمایت شروع کر دی ہے۔ اس حکومت کی سیاہ کاریوں کی فہرست اس طرح کی طولانی فہرست ہے۔ آج ان کے مذموم عزائم جو انہوں نے چھپا رکھے تھے رفتہ رفتہ آشکارا ہو رہے ہیں۔ میں نے اس سنہ 1392 ( 21 مارچ 2013 الی 20 مارچ 2014) ہجری شمسی کے پہلے دن مقدس شہر مشہد میں آٹھویں امام علیہ السلام کے روضہ اقدس میں اعلان کر دیا کہ مجھے اعتراض نہیں ہے۔ بعض حکام گزشتہ حکومت میں بھی اور موجودہ حکومت میں بھی یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ہمیں ایٹمی مسئلے میں امریکیوں سے مذاکرات کرنا چاہئے تا کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ کا اصرار ہے تو جائیے اس مسئلے کے بارے میں گفتگو کیجئے! لیکن میں نے آغاز سال کی اسی تقریر میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میں پرامید نہیں ہوں، میں مخالفت تو نہیں کروں گا لیکن مجھے کوئی امید بھی نہیں ہے۔ اب آپ دیکھئے! امریکیوں کے پے در پے آنے والے گھٹیا بیانوں کا جائزہ لیجئے! بے غیرت امریکی سنیٹر صیہونیوں سے پیسہ لیتا ہے تاکہ امریکی سینیٹ کے اندر ہماری قوم کو صریحی طور پر گالیاں دے! صرف توہین نہیں باقاعدہ گالیاں دیتا ہے۔ اس ملک کے مختلف سطح کے عمائدین کی بھی یہی روش ہے؛ ملت ایران کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں۔ البتہ گیارہ فروری کو ایرانی عوام نے انہیں زوردار تھپڑ رسید کر دیا۔ اس سال عوام کے عظیم الشان پرجوش اجتماع کی ایک وجہ یہی تھی کہ عوام نے دیکھا کہ گستاخ، ڈھیٹ، توسیع پسند، دریدہ دہن اور بے ادب امریکی حکام سے ان کا سامنا ہے تو عوام کی غیرت دینی انہیں میدان میں کھینچ لائی تاکہ وہ دشمن کو بتا دیں کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا ہم ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں! ملت ایران نے بائیس بہمن (11 فروری) کے جلوسوں میں ہم سب کو، اس حقیر کو، مختلف حکام کو، ملک کا نظم و نسق چلانے میں صدق دلی سے خدمت کرنے اور زحمتیں اٹھانے والے افراد کو، خواہ وہ خارجہ سیاست کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں یا داخلی سیاست کے میدان میں مصروف کار ہوں، یہ پیغام دیا کہ آپ سب مطمئن رہئے، ملت ایران پورے استحکام کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے، آپ دشمن کے مقابلے میں خود کو بالکل کمزور نہ سمجھئے! عظیم الشان ملت ایران کا ایک اہم پیغام یہی تھا۔ یہ بات میں نے اس سال کے آغاز میں ہی کہی تھی اور اس کے بعد بھی اور اس سے پہلے بھی یہ بات بار بار کہتا رہا ہوں کہ ایٹمی مسئلہ تو ایک بہانہ ہے، اگر یہ مسئلہ کبھی بفرض محال امریکا کی منشا کے مطابق حل ہو گیا تو کوئی دوسرا شگوفہ چھوڑ دیا جائے گا۔ چنانچہ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی حکومت کے ترجمان انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں، میزائل کے مسئلہ، اسلحہ کے مسئلہ وغیرہ کی باتیں کر رہے ہیں۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے! امریکیوں کو شرم نہیں آتی انسانی حقوق کی بات زبان پر لاتے ہوئے۔ دنیا میں کوئی بھی انسانی حقوق کی پاسداری کی بات کرتا ہے تو کرے لیکن امریکیوں کو تو یہ دعوی کرنے کا حق نہیں ہے، کیونکہ انسانی حقوق کے سلسلے میں ان کا ریکارڈ سیاہ ہے۔ انسانی حقوق کو جس انداز سے انہوں نے پیروں تلے روندا ہے اس کا غالبا نوے فیصدی یا اسی فیصدی حصہ دنیا کے لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہے۔ وہی دس بیس فیصدی جس سے لوگ واقف ہیں ایک ضخیم کتاب کے اوراق کو سیاہ کر دینے کے لئے کافی ہے۔ گوانتانامو جیل سے سب واقف ہیں، عراق کی ابو غریب جیل کے بارے میں سب کو معلوم ہے، بلیک واٹر کمپنی کو سب دیکھ چکے ہیں، وعدہ خلافیوں کا تماشا سب دیکھ چکے ہیں، دروغگوئی سے سب واقف ہیں، ساری دنیا نے یہ چیزیں دیکھی ہیں اور وہ ہیں کہ اب بھی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں اور انہیں شرم بھی نہیں آتی! واقعی ان کے روئے کا یہ گھٹیاپن بڑی عجیب چیز ہے۔
میں آپ کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ گفتگو کا جو سلسلہ ہماری وزارت خارجہ نے اور ہمارے حکام نے شروع کیا ہے وہ جاری رہے گا۔ ایران نے جو وعدہ اور عہد کیا ہے اسے ہرگز نہیں توڑے گا۔ بیشک ہمارے حکام اپنی کوشش کریں، اپنا کام بخوبی انجام دیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکیوں کے دل میں اسلامی انقلاب کی دشمنی ہے، وہ اسلامی جمہوریہ کے دشمن ہیں، آپ عوام نے جو پرچم بلند کیا ہے وہ اس کے دشمن ہیں اور یہ عناد ان چیزوں سے ختم ہونے والا نہیں ہے، اس دشمنی سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قومی اقتدار اور داخلی توانائیوں پر تکیہ کیا جائے، ملک کے داخلی ڈھانچے کو زیادہ سے زیادہ مستحکم بنایا جائے۔ ہم اس نہج پر جتنا بھی کام کریں کم ہے۔
میں نے اس دن بھی عرض کیا کہ ان شاء اللہ بہت جلد مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا۔ ملکی مشکلات کا حل مزاحمتی معیشت کی منزل تک پہنچنا یعنی داخلی توانائیوں پر انحصار اور تکیہ کرنا ہے۔ ہمیں غیروں سے آس نہیں لگانا چاہئے، ہمارے اندر خود توانائی موجود ہے، ہمارے پاس سرمایہ اور دولت موجود ہے، افرادی سرمایہ بھی ہے، دنیا میں ہمارا افرادی سرمایہ اور افرادی قوت اگر عدیم المثال نہیں تو کم نظیر ضرور ہے۔ اسی طرح ہمارے زمین دوز ذخائر اور وسائل بھی غیر معمولی ہیں۔ دنیا ہماری محتاج ہے، جتنی احتیاج دنیا کو ہماری ہے ہم دنیا کے اتنے محتاج نہیں ہیں۔ آج دنیا تیل اور گیس کے محور پر چکر کاٹ رہی ہے۔ اس اعتبار سے دنیا کی کوئی بھی فہرست تیار کی جائے تو ہم سر فہرست ہی ہوں گے۔ ہم نے یہ بات اس سال کے آغاز میں مشہد میں بھی کہی تھی کہ تیل اور گیس دونوں ذخائر کی بنیاد پر دیکھا جائے تو ہم دنیا میں پہلے مقام پر ہیں۔ حال ہی میں محترم عہدیداروں نے مجھے ایک رپورٹ پیش کی ہے کہ گیس کے ذخائر کے اعتبار سے اگر ہم اب تک دوسرے نمبر پر تھے تو اب پہلے نمبر پر آ گئے ہیں۔ گیس کی دولت کے اعتبار سے ہم ایک سال اور ڈیڑھ سال پہلے تک اگر دوسرے نمبر پر تھے تو آج ہمارا پہلا نمبر ہے۔ یہ ہمارے ذخائر ہیں اور دنیا کو ان کی سخت ضرورت ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ ذرا سی مسکراہٹ دیکھی تو غیر ملکی کمپنیاں ٹوٹ پڑی ہیں، سب یہاں آنا چاہتی ہیں۔ امریکی آخر کب تک اپنی اس ضد پر قائم رہ سکیں گے؟ اگر ہم اپنی توانائیوں کو بروئے کار لائیں تو ان کی مزاحمت کمزور پڑ جائے گی۔ اس کا آپ یقین رکھئے! جب تک ہم دوسروں سے آس لگائے رہیں گے، جب تک ہم بس یہ دیکھتے رہیں گے کہ پابندیوں میں کتنی کمی ہوئی، کتنی پابندیاں ہٹیں، فلاں امریکی عہدیدار نے اپنے بیان میں یہ بات کہی کہ نہیں کہی؟ جب تک ہمارا ہم و غم یہ چیزیں ہوں گی ہمیں کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ ہمارا ملک ایک عظیم ملک ہے، ہماری قوم ایک طاقتور قوم ہے، ہماری قوم عظیم ثقافت کی مالک قوم ہے، صلاحیتوں سے سرشار قوم ہے، ہمارے پاس خداداد سرمایہ بھی بے پناہ مقدار میں ہے، خوش قسمتی سے ہمارے حکام بھی دردمند افراد ہیں، وہ کام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، ہمیں چاہئے کہ ان کی مدد کریں، ان کے لئے دعائے خیر کریں،اس کے ساتھ ہی حکام کے لئے میری تاکید یہ ہے کہ وہ داخلی توانائیوں پر توجہ دیں، داخلی افرادی قوت پر اعتماد کریں، اس لا متناہی داخلی سرچشمے کو اور بھی خروشاں اور فیض بخش بنانے کی کوشش کریں۔ اگر اس میں کامیابی مل گئی تو تمام بند دروازے اپنے آپ کھلنے لگیں گے۔ ہمیں اس انداز سے آگے بڑھنا ہے، ہمیں اس طرح کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری نیت پاک ہے، ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارا ہدف خوشنودی پروردگار ہے، ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالی کی خوشنودی اس ملک کی ترقی اور اس قوم کی سربلندی میں ہے اور ہم اسی ہدف کے لئے کام کر رہے ہیں، اللہ تعالی ہماری مدد کرے گا۔ چنانچہ قرآن کریم کی اس آیہ شریفہ میں ارشاد ہوتا ہے؛ـ اِن تَنصُروا اللهَ يَنصُركُم؛ اگر تم اللہ کی نصرت کروگے یعنی دین خدا کی مدد کروگے تو اس کے دو نتیجے نکلیں گے؛ پہلا نتیجہ ہے کہ «يَنصُركُم»، اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ «وَ يُثَبِّت اَقدامَكُم»، تمہارے قدموں میں تزلزل پیدا نہیں ہونے دیگا، تمہیں پسپائی پر مجبور نہیں ہونے دے گا۔ آپ یقین رکھئے، ایرانی قوم تمام میدانوں اور تمام شعبوں میں ان شاء اللہ اپنی فتح کا جشن منائے گی اور تمام بدخواہ اور کینہ پرور لوگ اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھیں گے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ خداوند عالم آپ تمام عزیز عوام کو، تبریز اور آذربائیجان کےعوام کو، تمام ملت ایران کو اپنی عنایات، ہدایات اور نصرت و اعانت کے سائے میں رکھے۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته

۱) 9 جنوری کا اہل قم کا تاریخی قیام
۲) سوره‌ محمّد، آیت ۷
۳) آٹھ فروری 2014 کو فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں سے ملاقات