شعرا و خطباء کے اس اجتماع سے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں معصومہ دو عالم کی ولادت کی مبارکباد پیش اور اسی دن بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی بھی پیدائش کو انتہائی اہم حسن اتفاق سے تعبیر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علہیا کی زندگی سے انسانی معاشرے کو سب سے بڑا سبق سعی و کوشش اور پاکیزہ زندگی گزارنے کا ملا۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام الناس کے عقائد پر ضرب لگانے کی اسلامی انقلاب کے دشمنوں کی وسیع کوششوں اور پیچیدہ مواصلاتی ذرائع کی مدد سے اسلامی نظام اور ملت ایران کو اس کے افتخار آمیز راستے سے ہٹا دینے کی مساعی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن کا مقصد اسلام کو جھکانا اور دنیا میں شیعہ معاشرے اور شیعہ تعلیمات کو مثالیہ بننے سے روکنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

سیدہ، طاہرہ، معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت اور انقلاب کے رہبر عظیم القدر کے یوم ولادت کی آپ تمام عزیز بھائیوں، بوستان محبت اہل بیت اور ولایت خاندان پیغمبر کے گلشن کے نغمہ سرا بلبلوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں۔ یہ ہمارے حق میں اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے کہ تواتر کے ساتھ پے در پے ولادتوں، شہادتوں اور سوانح زندگی کی یہ مناسبتیں اسلامی و شیعہ معاشرے کے لئے سرچشمہ الہام و تعلیمات ہیں۔ جس کی بہت قدر کرنے کی ضرورت ہے۔ ولادت امیر المومنین کے موقعے پر، ولادت پیغمبر، ولادت امام حسن، ولادت امام حسین، ولادت حضرت فاطمہ زہرا کے موقعے پر ان ضوفشاں نجوم اور ان رہنما پرچموں کی یاد دلوں میں تازہ ہو جاتی ہے، جو بڑی قابل قدر بات ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ انوار فاطمی سلام اللہ علیہا کی یہ محفل برسوں سے منعقد ہوتی آ رہی ہے، جو ہمیں مستفیض کرتی ہے، ہمارے کام کے ماحول اور ہماری زندگی کی فضا کو بلکہ پورے ملک کے ماحول کو معطر کرتی ہے۔(1)
اس میں کوئي شک نہیں کہ انسان کا محدود ذہن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جیسی ملکوتی اور آسمانی ہستیوں کی شخصیات کے پہلوؤں کے ادراک سے قاصر ہے۔ جو اشعار دوستوں نے یہاں پیش کئے ان میں بھی اس نکتے کا ذکر تھا۔ عقلیں یہ توانائی کہاں رکھتی ہیں کہ روحانی پہلوؤں کا احاطہ کریں، ان کی قدر و منزلت کا ادراک کریں یا ان کا اندازہ لگائيں مگر ان (ہستیوں کے) طرز زندگی کو نمونہ عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے جو روحانی مرتبے ہیں وہ الگ حقائق ہیں، تاہم ان کی جو روش زندگی ہے وہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے، یہ ایک الگ چیز ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فضیلتوں کے اس دوسرے پہلو یعنی ان ہستیوں کی ظاہری روش کو ہم اپنے اندر پوری طرح اتار لینے پر قادر ہیں، لیکن اس راستے پر قدم تو رکھا ہی جا سکتا ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: اَلا وَ اِنَّکُم لا تَقدِرونَ عَلی ذلِک وَ لکِن اَعینونی بِوَرَعٍ وَ اجتِهادٍ وَ عِفَّةٍ وَ سُدادٍ (۲) حضرت نے اس بلند مقام پر فائز ہونے اور بے پناہ وسائل تک رسائي کے باوجود زاہدانہ زندگی بسر کرنے کی اپنی روش کی تشریح کے بعد فرمایا: آپ لوگ میری طرح زندگی نہیں بسر کر سکتے مگر آپ میری مدد کر سکتے ہیں، کیسے؟ اپنے ورع اور پرہیزگاری سے، گناہوں سے اجتناب کے ذریعے، اپنی سعی و کوشش اور جفاکشی کے ذریعے، حالانکہ یہ چیزیں تو ہم سب کا فریضہ ہیں۔ حضرت نے ہمارے لئے اہداف کا تعین فرما دیا، انفرادی اور شخصی اہداف کا بھی تعین کر دیا اور سماجی و سیاسی و اجتماعی اہداف کو بھی مشخص فرما دیا۔ ذاتی و شخصی ہدف کے اعتبار سے دیکھا جائے تو انسانی وقار کے اعلی مقام پر پہنچنا ہمارا ہدف ہے، سب سے یہ وعدہ کیا گيا ہے کہ انہیں یہ بلند اور لامحدود پرواز کی توانائی عطا کی جائیگی۔ آپ نوجوانوں کے اندر یہ توانائی ہم جیسوں سے زیادہ ہے۔ یہ اعلی انفرادی و شخصی اہداف ہیں۔
بڑے سماجی اہداف میں پاکیزہ اسلامی زندگی اور اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے، وہ معاشرہ جس میں لوگوں کو یہ موقعہ فراہم ہو کہ اس اعلی مقصود کی جانب بآسانی گامزن ہو سکیں، ایک آباد معاشرہ، آزاد معاشرہ، خود مختار معاشرہ، اعلی اخلاقیات سے آراستہ معاشرہ، اتحاد و یکجہتی رکھنے والا معاشرہ، متقی و پرہیزگار معاشرہ۔ یہ اسلامی معاشرے کے اہداف ہیں۔ ایسی دنیا کہ جو آخرت کا مقدمہ ہے، ایسی دنیا جو انسان کا ہاتھ پکڑ کر جنت تک پہنچا دے، ایسی دنیا کا قیام اسلام کا اعلی سیاسی و سماجی ہدف ہے۔ ان چیزوں کا خاکہ ہمارے سامنے کھینچ دیا گیا ہے، اب اس منزل تک پہنچنے کا راستہ دیکھنا ہے کہ کیا ہے؟ اس منزل تک رسائی کیسے ممکن ہے؟ اسی طرح فرماتے ہیں؛ «اَعینُونی» میری مدد کرو۔ یہ امیر المومنین کا کلام ہے کہ میری مدد کرو۔ یعنی امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی، اپنا جہاد اور محنت و جفاکشی سب کچھ جس مقصد کے لئے صرف کیا وہ تاریخ میں بشریت کے لئے ایک ایسی ہی دنیا کا قیام ہے۔ میری مدد کرو کہ یہ ہدف پورا ہو جائے۔ کیسے مدد کرو؟ بورع و اجتھاد، پاکیزگی اور سعی و کوشش سے۔ یہاں تساہلی ممنوع ہے، بے کار بیٹھنا منع ہے، تھک ہار کر بیٹھ رہنے کی مناہی ہے، قنوطیت اور مایوسی پر پابندی ہے۔ یہ عظیم عمل اگر انجام پا جائے گا تو پھر آپ حقیقی معنی میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے قلب مبارک کو شاد کرنے میں کامیاب ہوں گے، آپ حضرت امیر المومین کے قلب مبارک کو خوش کریں گے، کیونکہ ان عظیم ہستیوں نے اپنی ساری زندگی اسی ہدف کے لئے صرف کر دی۔ اسی مقصد کے تحت پوری زندگی سعی پیہم میں بسر کر دی۔

میرے عزیزو، میرے نوجوانو! آج ہم ملت ایران کو یہ موقعہ حاصل ہوا ہے، کل فراہم نہیں تھا، کل بڑی دشواریاں تھیں، آج اسلامی جمہوریہ کے دور میں یہ موقعہ ملک کے عوام کو حاصل ہوا ہے کہ آگے بڑھیں، صحیح سمت و نہج پر آگے بڑھیں، بہترین انداز میں زندگی بسر کریں، مومنانہ زندگی گزاریں، عفت و پاکیزگی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ گناہوں کے راستے مسدود ہو گئے ہیں، نہیں، گناہ کا راستہ بھی کھلا ہے، لیکن اچھی زندگی گزارنے کا راستہ، مومنانہ زندگی جینے کا راستہ اور عفت و پاکیزگی کا راستہ بھی پرچم اسلام کے زیر سایہ روشن اور کھلا ہوا ہے۔ اس انداز کی زندگی جینے کا اپنا الگ مزہ ہے اور اس کی کچھ اپنی سختیاں اور دشواریاں بھی ہیں۔ کَذلِکَ جَعَلنا لِکُلِ‌ نَبَیٍّ عَدُوًّا شَیاطینَ الاِنسِ وَ الجِنِّ یوحی بَعضُهُم اِلی‌ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا؛(۳) پیغمروں کے راستے کے مقابلے میں ہمیشہ دشمن بھی موجود تھے، یہ دشمن کون لوگ ہوتے تھے؟ شیاطین انس اور شیاطین جن۔ تو انسانوں اور جنوں پر مشتمل شیطانوں کے اس طویل و عریض محاذ کے سامنے مومنین کی فولادی اور مستحکم صف کھڑی ہوتی ہے۔ ملت ایران نے اس کو آزمایا ہے اور ثابت ہو گیا کہ دشمنوں پر غلبہ پایا جا سکتا ہے، چنانچہ آج تک ملت ایران کامیابی سے ہمکنار ہوتی آئی ہے۔ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی سے ہمیں سبق ملتا ہے سعی و کوشش کا، محنت و مشقت کا، پاکیزہ زندگی بسر کرنے کا، چنانچہ معصومہ دو عالم کی پوری زندگی روحانیت و نور و پاکیزگی سے عبارت ہے۔: الطُّهرَةِ الطّاهِرَةِ المُطَهَّرَةِ التَّقیَّةِ النَّقیَّةِ [الرَّضیَّة] الزَّکیَة؛(۴) معصومہ کی پاکیزگی، تقوا اور نورانیت ہی شیعہ تاریخ پر اور شیعہ تعلیمات و معارف پر سایہ فگن رہی ہے۔
اس نشست میں جو بات میں خاص طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں اس کا تعلق شعراء و خطباء کی عظیم ذمہ داریوں سے ہے۔ برادران عزیز! یہ قصیدہ خوانی، نوحہ خوانی اور خاندان پیغمبر کی مدح سرائی جو بہت بڑا افتخار ہے اور بحمد اللہ ہمارے معاشرے میں یہ چیز بخوبی رائج ہے، اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہ سلسلہ پہلے بھی تھا مگر محدود پیمانے پر تھا، آج پورے ملک میں یہ دسترخوان بچھا ہوا ہے، یہ میدان پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ ملک بھر میں ہزاروں افراد آج ذوق و فن اور گوناگوں اسلوب بیانی اور شیوہ تکلم کو بروئے کار لاتے ہوئے اس میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ یہ ایک بہترین موقعہ ہے۔ جب بھی کوئی موقعہ حاصل ہوتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ ذمہ داری بھی ضرور ہوتی ہے۔ جب تک آپ لوگوں سے خطاب نہیں کر رہے ہیں اس وقت تک آپ کی ذمہ داری کی حدیں کچھ اور ہوتی ہیں، مگر جب آپ عوام سے مخاطب ہونے لگے ہیں تو فطری بات ہے کہ ذمہ داری کا دائرہ وسیع تر ہو جائیگا اور اتنا ہی وسیع ہوگا جتنا وسیع آپ کے خطاب کا دائرہ ہوگا۔(5) اگر آپ عوام الناس سے خطاب کر رہے ہیں، اپنے فن، اشعار، آہنگ اور آواز کے ذریعے عوام الناس سے خطاب کر رہے ہیں تو ظاہر ہے آپ کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں۔ تمام مواقع اور امکانات اپنے ساتھ کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بھی ضرور رکھتے ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ ان فرائض کو بحسن و خوبی ادا کریں۔ اگر ملک کے خطبا اور نوحہ و قصیدہ گو شعرا کی صنف اپنے فرائص کو کما حقہ ادا کر لے جائے تو ملکی سطح پر عمیق تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
میں نے بارہا عرض کیا کہ کبھی کبھی محفلوں اور مجلسوں میں پڑھے جانے والے اشعار کو اگر آپ حسن ادائیگی کے ساتھ پیش کرتے ہیں، جب کوئي سبق آموز اور تعمیری قطعہ آپ پڑھتے ہیں تو اس کا اثر ہماری دو گھنٹا اور تین گھنٹے کی تقریر سے زیادہ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ دیکھنے میں آتا ہے، بنابریں آپ کے پاس بہترین موقعہ ہے۔ اگر ہزاروں کی تعداد میں موجود یہ شعرا و خطبا، مذہبی اشعار پڑھنے والے ثناخواں حضرات محافل و مجالس میں، عوام سے خطاب کے دوران اپنے پروگراموں کے دوران، اشعار پیش کرتے وقت ان ضوابط کو ملحوظ رکھیں اور اس عظیم عمل کے اصولوں پر عمل کریں تو پھر آپ دیکھئے کہ ملک میں کیا تبدیلی آتی ہے۔ ہمارے دشمن سیکڑوں وسائل کی مدد سے، سیکڑوں زبانوں کی مدد سے، گوناگوں ذرائع کی مدد سے عوام الناس کے عقائد اور نظریات کو دگرگوں اور تباہ کر دینے کی سازش پر گامزن ہیں۔ ان کا پہلا نشانہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے اور دوسرے نمبر پر ان کی نظریں عالم اسلام پر ہیں۔ عوام میں بھی بہت سے لوگ سمجھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں کہ دشمن کیا چالیں چل رہا ہے؛ ٹی وی چینل، ریڈیو نشریات، جدید الیکٹرانک مواصلاتی ذرائع وغیرہ۔ کچھ چالیں ایسی ہوتی ہیں جن کی زیادہ معلومات ہم لوگوں (حکام) کو ہوتی ہے، عوام کو پتہ نہیں چلتا کہ کیسے کیسے پیچیدہ منصوبے ہمارے ملک کے خلاف تیار کئے گئے ہیں کہ عوام الناس کے افکار کو منحرف کیا جائے، قوم کی سمت و جہت کو بدل دیا جائے، اسلام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے، عالم اسلام میں شیعہ معاشرے کو اور شیعہ افکار و تعلیمات کو نمونہ عمل بننے سے روکا جائے، اس کے لئے بڑی کوششیں ہو رہی ہیں۔
دشمن جس پیمانے پر کام کر رہا ہے اس کے مقابل ہمارے پاس کچھ منفرد اور استثنائی وسائل و امکانات ہیں۔ بیشک دشمن کو انٹرنیٹ کے ذریعے بھی جواب دیا جا سکتا ہے، اسی سے ملتے جلتے دیگر وسائل کی مدد سے بھی جواب دیا جا سکتا ہے، البتہ ان کے اقدامات اور ریشہ دوانیاں بہت بڑے پیمانے پر ہیں۔ مگر ہمارے پاس بھی کچھ اپنے انفرادی اور استثنائی وسائل و ذرائع ہیں۔ ایک مثال تو یہی آپ کا فن ہے، یہی آپ شعراء و خطباء ہیں، یہی شعراء اور شعر خوانوں کی صنف ہے۔ آپ لوگوں کے رو برو ہوکر اور آمنے سامنے ہوکر اپنی باتیں اور پیغام کو منتقل کرنے کے لئے اپنے اس فن کو بروئے کار لاتے ہیں وہ بھی اتنے بڑے پیمانے پرے، یعنی شعراء کی تعداد دو چار اور دس بیس نہیں بلکہ ملک بھر میں یہ تعداد ہزاروں میں ہے، یہ ہمارے پاس ایک منفرد ذریعہ ہے۔ یہ منبر استثنائی وسائل میں سے ہے۔ یہ مجلسیں، یہ مذہبی تقریبات اور پروگرام، یہ انجمنیں سب انفرادی چیزیں ہیں۔ اگر منبر پر بیان کی جانے والی باتیں، اگر اشعار کا مضمون، اگر انجمنوں کے نوحے مناسب اور شائستہ مضامین سے پر ہوں تو دنیا کا کوئی بھی ابلاغیاتی ذریعہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بالکل استثنائی اور انفرادی چیز ہے۔ اسے کہتے ہیں موقعہ، اس موقعے کو ہرگز ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے، اس ذریعے کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہئے۔
اس موقعے کو گنوانے سے بھی بری بات یہ ہے کہ ہم اسے غلط مقصد کے لئے استعمال کریں۔ اگر ہمارا مذہبی جلسہ اور قصیدہ خوانی کی محفل یا مجلس عزا کا نتیجہ یہ ہو کہ لوگ منبر کے پاس سے اٹھیں تو مستقل کے تئیں ان کا یقین متزلزل ار امید معدوم ہو تو ہم نے در حقیقت اس موقعہ کو ضائع کر دیا ہے اور اس نعمت کی ناقدری کی ہے۔ اگر ہماری مجلس اور محفل سے لوگ اس کیفیت کے ساتھ اٹھیں کہ ان کی معلومات میں حالات اور فرائض کے تعلق سے ان کی اطلاعات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے تو ہم نے یہ موقع گنوایا ہے۔ اگر خدانخواستہ ہماری یہ نشست اتحاد پر ضرب لگانے والی ہو تو ہم نے اس موقع کو ضائع کیا ہے۔ اگر ہمارا انداز بیان یا ہماری گفتگو کا ماحصل ایسا ہو جو ہمارے دشمنوں کے اہداف کی تکمیل میں مددگار ثابت ہو تو ہم نے اس نعمت خداوندی کی ناقدری کی ہے بَدَّلوا نِعمَتَ اللهِ کُفراً (۶) نعمت کو ہم نے بدبختی میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس طرف سے بہت محتاط اور ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ دنیا کے حالات اور عالم اسلام کے مسائل سے واقفیت رکھنے والے لوگوں کے لئے یہ حقیقت روز روشن کی مانند عیاں ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ اختلاف ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک اہم حربہ اور ترپ کا پتہ ہے۔ ہمارے دشمنوں کے ہاتھ میں موجود ایک تلوار یہی ہمارے مسلکی اختلافات ہیں۔ اختلافات کو برملا بیان کرنا، عقائد سے متعلق مخالفتوں کو اعلانیہ طور پر ظاہر کرنا، کینہ و کدورت پیدا کرنے والی باتیں اٹھانا، ایسی چیز ہے جس سے ہمارے دشمن کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اب اگر ہم نے ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ہمارے دشمنوں کے مقاصد کی تکمیل ہو تو یہ عمل «بَدَّلوا نِعمَتَ اللهِ کُفراً» کا مصداق ہوگا۔ مذہبی اجتماعات اور مجالس میں مذہبی منافرت کو ہوا نہیں دینا چاہئے، اس کو آخر کتنی بار دہرایا جائے؟ میں نے بارہا یہ بات مکرر کہی ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ آپ اگر ایسے شخص کی ہدایت کرنا چاہتے ہیں جو آپ کے مکتب فکر کو نہیں مانتا اور آپ کے عقیدہ حقہ کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کے لئے آپ کو کیا کرنا چاہئے؟ کیا آپ سب سے پہلے اس کے دینی مقدسات کی توہین شروع کر دیں گے، اس کی تنقیص اور اس کے خلاف بدکلامی شروع کر دیں گے؟ یہ روش تو اسے آپ سے بالکل ہی دور کر دیگی اور اس کی ہدایت و رہنمائی کے امکانات کو بالکل ختم کر دیگی۔ اس کا یہ طریقہ ہرگز نہیں ہے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں، شیعہ مسلک پر کیسی یلغار ہو رہی ہے۔ استکباری طاقتوں کے وہ آلہ کار جنہوں نے اس سے پہلے شیعہ و سنی نام بھی نہیں سنا تھا وہ بھی اپنی تشہیراتی مہم میں بار بار یہ باتیں دہراتے ہیں کہ ہاں ایران تو شیعہ ملک ہے، علاقے کا شیعہ گروپ، فلاں ملک کی شیعہ تنظیم!!! بار بار شیعہ سنی اختلاف کی بات کرتے ہیں، آخر کیوں؟ اس لئے کہ انہیں مسلمانوں کے درمیان کینہ و کدورت کی آگ بھڑکانے کا بہترین ذریعہ مل گیا ہے۔ بیشک ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم علی کے شیعہ ہیں، ہمیں اس پر ناز ہے کہ ہم نے ولایت اہل بیت کے مقام و منزلت کو سمجھا ہے۔ ہمارے عظیم الشان امام خمینی نے ولایت امیر المومنین کا پرچم اپنے ہاتھوں سے اٹھایا مگر یہ عمل ایک ایسا عمل قرار پایا جس پر شیعہ و غیر شیعہ سب کو احساس فخر ہو، انہیں اپنے مسلمان ہونے پر ناز ہو۔ مگر اب ہم کوئی ایسا کام انجام دیں کہ یہی احساس افتخار اور شیعہ مسلک کے سلسلے میں عالم اسلام کا یہی لگاؤ اور رجحان بغض و کینہ اور دشمنی و عناد میں تبدیل ہو جائے تو یہ در حقیقت دشمن کی خواہش کی تکمیل ہے۔ ایسا نہیں ہونے دینا چاہئے۔ یہ بیحد اہم نکتہ ہے۔ اس کا بہت خیال رکھئے، آپ کو یہ بات دوسروں سے زیادہ ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ہم ایسا کوئی بھی کام نہ کریں جس سے ہمارے دشمن کی مقصد برآری ہو، اس کی تلوار کو صیقل نہ کریں۔ ہمارے بزرگان، ہمارے علماء، ہمارے مراجع تقلید، عالم اسلام کی عظیم ہستیاں ہمیشہ ہمیں اس کی نصیحت کرتی رہی ہیں۔ یہ بڑا اہم اور کلیدی نکتہ ہے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ مذہبی تقاریب کی فضا میں بہت احتیاط کیجئے کہ کہیں ایسا کوئی فعل سرزد نہ ہو جو شرعی حدود کے باہر ہو، اس کا بہت خیال رکھئے۔ مجالس و محافل کا ماحول پاکیزہ اور طاہر ماحول ہوتا ہے۔ اس پاکیزہ ماحول میں ان لوگوں کا طور طریقہ شامل نہ ہونے پائے جو کسی چیز کے پابند نہیں رہنا چاہتے۔ ایسے لوگوں کی آلودگی مذہبی اور دینی تقاریب میں داخل نہ ہو، اس کا بہت خیال رکھئے۔ یہ پاکیزہ اور طیب و طاہر ماحول ہے۔ اس طرح کے مقامات کی طہارت کا خیال رکھئے، یہ ایسا ماحول ہے جہاں ہم شعری زبان میں اسلامی تعلیمات کو پیش کرتے ہیں۔
ہماری یہ کوشش ہونا چاہئے کہ ہمارے اشعار کا مضمون اور اس کے مندرجات سبق آموز ہوں۔ خواہ وہ محفل ہو یا مجلس۔ سب کے لئے اشعار کے مضامین کا انتخاب اس انداز سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ سبق آموز ہو۔ انقلاب کے جوش و جذبے اور ہیجان کے زمانے میں محرم کا مہینہ آیا جو طاغوتی شاہی حکومت کا آخری محرم تھا تو اسی محرم و صفر کے بعد اسلامی انقلاب فتح سے ہمکنار ہو گیا۔ مختلف شہروں میں مذہبی انجمنیں نوحہ خوانی کر رہی تھیں اور نوحوں میں بھی کسی فصیح و بلیغ خطبے کی طرح عوام الناس کے لئے بیداری اور بصیرت کا پیغام ہوتا تھا۔ یہ کیفیت ہمیشہ قائم رہنا چاہئے۔ نوحوں کو پرمغز بنائیے۔ نوحہ خواں جو کام کرتا ہے وہ بہت پرکشش اور جاذب نظر ہے۔ نوحہ خوانی کی یہ روایت بہت اہم ہے۔ یہ شیعہ سماج کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ دوسری جگہوں پر مذہبی تقاریب اور رسومات میں یہ بات نہیں ہے۔ یہ ہماری انفرادی خصوصیت ہے۔ اس کو پرمغز بنائیے، فکر انگیز بنائیے۔ ان چیزوں پر اگر توجہ دی جائے تو خطبا و شعرا کی یہ صنف ایرانی معاشرے کی فکری و عملی اصلاح کے عمل میں ہراول دستے کا رول حاصل کر لیگی۔ یہ ہدف پورا ہو سکتا ہے چنانچہ آج بھی انسان دیکھتا ہے کہ ہر جگہ کچھ ذمہ دار اور فرض شناس شعرا و خطبا موجود ہیں جو بڑے اچھے اشعار اور بہترین اسلوب میں پیش کرتے ہیں جن کا بڑا اثر بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے مخاطب افراد کو بیدار کرتے ہیں، آگاہ کرتے ہیں، یہ ایسا عمل صالح ہے جس کے مساوی کوئی اور صدقہ جاریہ معاشرے کی پیشرفت میں اہم اور قیمتی نہیں قرار پا سکتا۔ اللہ کی بارگاہ میں اس طرح کے نیک اعمال بہت چیدہ چیدہ ہیں جن کی اتنی زیادہ اہمیت ہے، یہ بڑا اہم کام ہے۔ بحمد اللہ آپ کے پاس یہ خداداد نعمتییں ہیں۔ اچھی آواز، حسن ادائیگی، اچھی طرز، ان خصوصیات کے ساتھ آپ یہ مضامین بھی شامل کر لیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا تو اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کے اہداف و مقاصد کی تکمیل کے سلسلے میں بڑی پیشرفت ہوگی۔
خوش قسمتی سے آج ہمارے پاس اچھے اشعار کی کمی نہیں ہے۔ اچھے شعرا، دیندار شعرا، گوناگوں مسائل کے میدانوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں، بہترین اشعار کہتے ہیں، آج بھی ان میں سے بعض کے اشعار کا ہم نے لطف اٹھایا، محظوظ ہوئے، بڑے اچھے اشعار تھے۔ ماضی میں یہ رواج تھا کہ شعراء حضرات اشعار زبانی پڑھتے تھے، اب یہ قید باقی نہیں رہی تو آپ کا کام اور بھی آسان ہو گیا ہے۔ آپ جیب سے کاغذ نکالتے ہیں۔ اچھے اشعار کاغذ سے دیکھ کر پڑھے جا سکتے ہیں۔ تو یہ اللہ کی بڑی نعمت ہے جو ہمیں حاصل ہے۔
شعرا، نوحہ خواں اور خطباء کی صنف، ان وسیع صلاحیتوں کے ساتھ، ان امکانات کے ساتھ میری نظر میں ہمارے ملک اور ہمارے عوام کے لئے ایک عظیم نعمت خداوندی ہے۔ جو شعرا شعر کہتے ہیں اور نوحہ خواں و 'شعر خواں' حضرات کا راستہ آسان کرتے ہیں وہ واقعی بہت بڑا کام انجام دے رہے ہیں۔ میں اللہ کی بارگاہ میں آپ سب عزیزوں کے لئے، خاص طور پر نوجوانوں کے لئے جن کے سامنے وسیع میدان موجود ہے، توفیقات کی دعا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو ماجور و مثاب فرمائے اور حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کی نظر عنایت آپ سب پر ہو۔
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌

۱) یہ نشستیں سنہ انیس سو چوراسی سے منعقد ہو رہی ہیں۔
۲) نهج‌البلاغه، مکتوب ۴۵
۳) سوره‌ انعام، آیه‌‌۱۱۲
۴) کامل الزیارات، ص‌۳۱۰
۵) سوره‌ ابراهیم، آیه‌ ۲۸