کرج کے علاقے فردیس میں واقع صنعتی کامپلیکس کے مختلف حصوں کا معائنہ کرنے کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے اس انڈسٹریل کامپلیکس کے ڈائریکٹروں، مینیجروں، دیگر عہدیداروں اور ملازمین کے جوش و جذبے سے چھلکتے اجتماع سے خطاب میں محنت کش طبقے کے افراد اسی طرح پیداواری شعبے میں سرگرم عمل دیگر عناصر کے احترام کو اسلامی تعلیمات کا جز قرار دیا اور ایرانی عوام کی قابل تعریف توانائیوں اور صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ قومی عزم اور مجاہدانہ انتظام و انصرام محض روا‎ں سال کا ہی نعرہ نہیں بلکہ ہمارا دائمی نعرہ اور وطن عزیز کے تشخص، وقار اور تابناک مستقبل کا آئینہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ڈیڑھ گھنٹے تک ایران پاؤر پلانٹ پروجیکٹس مینیجمنٹ کامپلیکس کے مختلف شعبوں کی توانائیوں اور کارکردگی کے ثمرات کا معائنہ کیا اور پھر ہزاروں کی تعداد میں جمع ڈائریکٹروں، مینیجروں، دیگر عہدیداروں اور ملازمین سے خطاب میں بابرکت مہینے رجب المرجب کی آمد کا حوالہ دیا اور اس مہینے کو عبادت و مناجات، ذکر و دعا اور اللہ کی جانب توجہ مرکوز کرنے کا مہینہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم‌

اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس اقتصادی اور صنعتی مرکز میں جو خاص اہمیت کا حامل ہے آپ عزیزوں کے جوش و جذبے سے معمور اس اجتماع میں شرکت کرنے اور 'یوم محنت کشاں' کی مناسبت سے جو ہمیشہ ہمارے لئے بڑی اہم مناسبت رہی ہے، آپ عزیزوں سے ملاقات کی توفیق عطا فرمائی۔ آج میرے لے دگنی خوشی کا دن ہے۔ میں اس طرح عرض کروں کہ پورے سال کے پروگراموں میں میرے لئے خاص کشش رکھنے والا ایک پروگرام یوم محنت کشاں کی مناسبت سے ملک کے محنت کش طبقے سے ملاقات کا پروگرام ہے۔ اس مناسبت پر اس سال اس فعال اور پیش رفتہ مرکز مپنا کے مشاہدے کا موقعہ بھی ملا جو بحمد اللہ ملک کے اندر کام اور عمل کے خوبصورت پہلوؤں اور خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ یہ دونوں باتیں مل کر آج میرے لے دگنی خوشی کا باعث بنی ہیں۔ آج کا یہ دورہ بڑا اچھا اور مفید دورہ رہا، آپ عزیزوں سے ملاقات بھی بڑی اہم اور قابل قدر رہی۔
ماہ رجب کی آمد کا موقعہ ہے۔ ماہ رجب بندگی و اطاعت پروردگار کا مہینہ ہے، ذکر و مناجات کا مہینہ ہے۔ اس ملک میں رہنے والے ہم تمام لوگ جنہیں قوم و ملت کے مستقبل سے دلچسپی ہے، یہ نظریہ اور یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی مدد سے، اس کی نصرت و ہدایت سے بڑے کام انجام دیئے جا سکتے ہیں، دور رس نتائج کے حامل قدم اٹھائے جا سکتے ہیں۔
میں دو باتیں اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک بات تو کام اور محنت کش طبقے کے تعلق سے ہے۔ ایک چیز جس پر ہم نے ہمیشہ زور دیا، جس پر ہمیشہ تاکید کی اور جس کے بارے میں دل کی گہرائیوں سے ہمارا ایمان ہے کہ ملک کے لئے، وطن عزیز کی عمومی ثقافت و کلچر کے لئے اس کا وجود ناگزیر ہے، وہ محنت و جفاکشی اور محنت کش طبقے کا احترام ہے۔ محنت کش کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ انبیائے الہی بھی محنت کشوں کے زمرے میں ہیں۔ یہی حقیقت بھی ہے۔ آپ کے اس مجموعے کے اندر بھی، مینیجر ہیں، پروجیکٹ تیار کرنے والے افراد ہیں، ایسے افراد ہیں جو کام کو وسعت دیتے ہیں، اس کی کوالٹی پر نظر رکھنے والے عہدیدار ہیں اور اس کے نتیجے میں محنت کش طبقے کو خاص احترام حاصل ہے، جس میں تعلیم یافتہ ملازمین بھی شامل ہیں، ماہر کاریگر بھی شامل ہیں، تجربہ کار افراد بھی شامل ہیں اور عام مزدور بھی شامل ہیں، سب کے سب محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ خود کام بہت محترم شئے ہے۔ اور یہی اسلامی نقطہ نگاہ ہے۔ اسی پاس و احترام کی بنیاد پر امور کو آگے بڑھایا جانا چاہئے۔ ہم اگر محنت کش کے حقوق اور قدر و منزلت کی بات کرتے ہیں تو اس کی وجہ محنت و مشقت کے لئے یہی خاص احترام ہونا چاہئے۔ حقیقت امر یہی ہے کہ تمام ادوار میں انسانی تمدن اور مادی پیشرفت، اسی طرح ہر انسان کا درونی و روحانی ارتقاء کام اور محنت و مشقت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ عمل اور کام لازمی ہے، سعی و کوشش ناگزیر ہے۔ آج خوش الحان قاری نے جس آیہ کریمہ کی ہمارے سامنے تلاوت کی:۔ وَ اَن لَیسَ لِلاِنسانِ اِلّا ما سَعی؛(1) یعنی آپ کی کامیابیوں کا انحصار آپ کی سعی و کوشش اور محنت و عمل پر ہے۔ ہر سطح پر اسی انداز سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ کام کرنا ضروری ہے۔ مالکان اور محنت کش طبقے کے ما بین معاندانہ رشتہ اور اس طرح کی باتیں امر واقعہ کی غلط تصویر ہے۔ سب کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ یہ ٹکراؤ اور تصادم والی سوچ جو مغربی نظریات میں حکمفرما نظر آتی ہے، یہ صرف مارکسسٹوں سے مختص نہیں ہے، مارکسسٹوں سے پہلے بھی مغربی نظریات میں ٹکراؤ اور تصادم کی یہ سوچ موجود تھی، یہ سوچ اسلام کے نقطہ نظر سے ناقابل قبول ہے۔ اسلام میں دلوں کو جوڑنے کی دعوت دی گئی ہے، اتحاد اور مل جل کر رہنے کی دعوت دی گئی ہے، تعاون اور مل کر کام کرنے کی دعوت دی گئی ہے، ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی کا جذبہ رکھنے اور ایک امداد باہمی کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ تمام سرگرمیوں اور کاموں میں اسلامی نقطہ نگاہ اور مکتب فکر کی بنیاد ہے۔ البتہ تعاون اور امداد باہمی کی بھی حدیں معین ہیں، اس کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں، ہر کسی کے اپنے حقوق ہیں جن کا پاس و لحاظ کیا جانا چاہئے اور یہ چیز اسلامی حکومت کے زیر سایہ ہی جامہ عمل پہن سکتی ہے۔ ٹکراؤ کی سوچ غلط ہے، اسلام تعاون اور مل جل کر کام کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ایسا طرز فکر ہے جو ہماری زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام امور میں، جملہ مسائل میں موجود ہونا چاہئے۔ جو بھی کسی انسان یا معاشرے کے فکری، ذہنی یا وجودی پہلو کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے اس کا مقابلہ ناگزیر ہے۔ مگر اصلی اور فطری روش تعاون، امداد باہمی، ہم آہنگی اور اتحاد کی روش ہے۔ یہ اسلام کا نقطہ نگاہ ہے۔ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ معاشرے کے محنت کش طبقے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے، اس کا احترام کیا جائے۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ جو شخص بھی کسی کام کی انجام دہی میں مصروف ہے، اپنا کام بخوبی انجام دے رہا ہے وہ رحمت و عنایت خداوندی کا حقدار ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:۔ رَحِمَ اللهُ اِمرَءً عَمِلَ عَمَلاً فَأَتقَنَه، جو شخص اپنا کام بنحو احسن انجام دیتا ہے اس پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہوتا ہے۔ یہ تو رہا پہلا نکتہ ان دو اہم نکات میں جو میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا تھا۔
دوسرا نکتہ اس عظیم حقیقت سے تعلق رکھتا ہے کہ جس کا ایک خوبصورت منظر 'مپنا' صنعتی کامپلیکس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پیداوار، بار آوری اور نتیجہ خیزی کی حقیقت جو ہمیشہ علم و دانش، ذہانت و لگن، جدت عملی اور عزم راسخ کا ثمرہ ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے اس کامپلیکس میں ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہم پورے ملک کی پیش قدمی کے عمل کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
قومی عزم اور مجاہدانہ انتظام و انصرام کو سنہ 93 (ہجری شمسی مطابق 21 مارچ 2014 الی 20 مارچ 2015) کا نعرہ قرار دیا گیا ہے۔ مگر یہ صرف سنہ 93 سے مختص نہیں ہے، یہ تو ہماری ماہیت کا حصہ ہے، یہ ہمارے مقام و منزلت کا جز ہے، یہ ہمارے مستقبل کی ضمانت ہے اور یہ ہمارے مقدر کا خاکہ کھینچنے والی خصوصیت ہے۔ اگر قومی عزم ہوا، اگر مجاہدانہ انتظام و انصرام کا سلسلہ رہا تو معیشت بھی ترقی کریگی، ثقافت بھی پیشرفت کی شاہراہ پر آگے بڑھےگی اور پھر جس قوم کے پاس پیشرفتہ معیشت اور اعلی ثقافت ہو وہ اوج ثریا پر پہنچ جائے گی، پھر اس کی کوئی توہین نہیں کر سکتا۔ انقلاب سے قبل کئی عشروں تک ہماری تحقیر کی گئی، درخشاں ماضی رکھنے والی قوم، اتنی پرانی تہذیب کی وارث قوم، گہری ثقافت کے زیور سے آراستہ قوم جس کی تاریخ مختلف میدانوں کے دانشوروں اور مفکرین سے سجی ہوئی ہے، اس کی یہ حالت ہوئی کہ ملک کے حکام اہم اور کلیدی امور مملکت کے لئے اپنے افراد کو برطانیہ کے سفارت خانے اور امریکا کے سفارت خانے بھیجتے تھے کہ برطانیہ کے سفیر اور امریکا کے سفیر سے اجازت حاصل کریں۔ کسی قوم کی اس سے زیادہ بے عزتی ہو سکتی ہے؟! جس زمانے میں مغربی دنیا میں اور یورپ میں علم و دانش عنقا تھی، جس زمانے میں ان ممالک پر جہل کی تاریکی سایہ فگن تھی، ایران میں فارابی، ابن سینا، محمد بن زکریا رازی، شیخ طوسی اور انہی جیسی دیگر عظیم ہستیاں اپنے کمالات کی روشنی بکھیر رہی تھیں۔ یہ ہے ہمارا ورثہ اور یہ ہے ہمارا ماضی۔ ہم تحقیر اور توہین کے مستحق نہیں تھے، ہمیں بڑی طاقتوں کو اس بات کا موقعہ ہرگز نہیں دینا چاہئے تھا کہ آکر ہماری معیشت کو اپنے چنگل میں جکڑ لیں، ہمارا تیل لوٹ کر لے جائیں، ہمارے ذخائر کو غارت کریں، سیاسی و سماجی اعتبار سے بھی ہماری قوم کی تذلیل کریں، لیکن یہی ہوا۔ اب اگر ملت ایران چاہتی ہے کہ اپنا مقام حاصل کر لے، تو اس کا مقام واضح اور طے شدہ ہے۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ ہماری قوم کو اس مقام پر پہنچنا ہے جہاں دنیا بھر سے علم و دانش کے پیاسے، علمی مدارج طے کرنے کے لئے فارسی زبان سیکھنے پر مجبور ہوں۔ یہ طے شدہ مقام و منزلت ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس مقام تک پہنچنے میں ہمیں پچاس سال لگ جائیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اگر ہمیں اس طے شدہ مقام تک پہنچنا ہے تو اس کا راستہ یہ ہے کہ علم و دانش سے، ہوش و خرد سے، سعی و کوشش کی عظیم توانائی سے، خلاقانہ صلاحیتوں سے اور عزم راسخ سے استفادہ کرتے ہوئے ہر شعبے میں آگے بڑھیں اور ہر مقام پر ان خصوصیات کو بروئے کار لائیں۔ ہمیں اپنی معیشت کو بلندیوں پر لے جانا ہے اور معاشی ترقی، ثقافتی رشد و نمو کے بغیر نہ ممکن ہے اور نہ ہی فائدے مند۔ ثقافت کو بھی بلندی ملنا چاہئے، ارتقائی مراحل سے گزرنا چاہئے۔ چنانچہ اس سال کا جو نعرہ ہے وہ در حقیقت ہماری زندگی کا ایجنڈا ہے، ہمارا دائمی نعرہ ہے۔ آج خوش قسمتی سے 'مپنا' کامپلیکس سمیت ملک کی اقتصادی و صنعتی کمیونٹی میں جو مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہے، یہ چیز عملی طور پر مشاہدے میں آ رہی ہے۔ مجھے کچھ رپورٹیں بھی ملی تھیں مگر آج میں نے قریب سے ان چیزوں کو دیکھا جن کے بارے میں میں نے ان رپورٹوں میں پڑھا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوار امام خمینی نے جو 'ہم انجام دینے کی توانائی رکھتے ہیں' کا نعرہ بلند کیا وہ حقیقی نعرہ تھا، صرف لفاظی نہیں تھی، بلکہ یہ زمینی سچائی تھی۔ جو اہم کام اور اقدامات، ایک زمانے میں ہمارے بعض عہدیداروں کی نظر میں بھی ناممکن دکھائی دیتے تھے، آج اس کامپلیکس میں آسانی اور تسلسل کے ساتھ انجام پا رہے ہیں۔
میں کبھی نہیں بھولوں گا، سنہ 1980 کے عشرے کے اوائل میں، میں ملک کا صدر تھا۔ ہمارے ملک میں ایک جگہ پر جس کا میں نام نہیں لوں گا، ایک گیس پاور پلانٹ تھا جو ادھورا تھا۔ ہم حکام سے اصرار کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ آئیے اس بجلی گھر کو ہم خود ہی مکمل کر لیتے ہیں۔ متعلقہ حکام میرے پاس آئے، ان میں بعض اب بھی بقید حیات ہیں اور بعض اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، وہ آئے اور کہنے لگے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ بلا وجہ پریشان نہ ہوئیے، عبث محنت نہ کیجئے۔ میرے پاس آئے تھے یہ سمجھانے اور مجھے باور کرانے کہ ہم یہ کام نہیں کر پائیں گے، ہمیں فلاں کمپنی سے اور دنیا کی فلاں فیکٹری سے مدد لینی ہوگی۔ ظاہر ہے وہ جنگ کا زمانہ تھا، جنگ کا زمانہ شدید دباؤ اور سختیوں کا زمانہ تھا، کڑی پابندیوں کا زمانہ تھا۔
آج ملک کے ان نوجوانوں نے، ماہر کارکنوں نے، مجاہدانہ انداز سے کام کرنے والے ڈائریکٹروں نے گیس پاور پلانٹ کی تعمیر میں ملک کو انتہائی بلند مقام پر پہنچا دیا ہے۔ دنیا میں ہم چھٹے نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ ایک کمپنی امریکا میں ہے، ایک کمپنی جرمنی میں ہے، ایک کمپنی فرانس میں ہے، ایک کمپنی اٹلی میں ہے، ایک کمپنی جاپان میں ہے اور دنیا میں چھٹا نمبر خود آپ کا ہے۔ آپ گیس پاور پلانٹ تعمیر کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ ان برسوں میں ہم سے کہا جاتا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ مگر محنت و لگن سے، بلند ہمتی اور توکل علی اللہ کے ذریعے، با صلاحیت افراد کو ترغیب دلاکر، اس عزم راسخ کے ذریعے جس کا مظاہرہ ہمارے اعلی عہدیدار کرتے ہیں، یہ کارنامہ سرانجام پایا۔ عزیزان گرامی! میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج جس سطح پر آپ ہیں، ملک کو ا س سے دس گنا زیادہ اوپر لے جائیے، یہ بھی حد امکان میں ہے، اسے بھی عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ بعض چیزیں ہیں جنہیں کمزور قوت ارادی کے مالک افراد اور کوتاہ بیں افراد سمجھ نہیں پاتے، ان کا ادراک نہیں کر پاتے، چونکہ انسانی مزاج سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے، چونکہ نصرت خداوندی سے آگاہ نہیں ہیں، چونکہ عزم راسخ کی قدر و قیمت کا علم نہیں رکھتے، لہذا ہمارے وجود میں پنہاں ان صلاحیتوں کے انکاری ہیں۔ یہ بھی ہماری قوم کے دامنگیر ہو جانے والی ایک مصیبت ہی ہے۔ اس ملک پر اغیار کے برسوں جاری رہنے والے اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی تسلط کی وجہ سے عوام کو یہ باور کرا دیا گیا تھا کہ ایرانیوں کے پاس صلاحیت ہی نہیں ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ کتنی بڑی خیانت ہے! ایرانیوں کی صلاحیت دنیا کی اوسط استعداد سے بہتر ہے۔ ایرانی نوجوان، ایرانی استعداد، ساری دنیا میں اعلی انسانی صلاحیتوں کے زمرے میں آتی ہے، مگر یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ نہیں یہاں تو کوئی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ یہ اسلامی انقلاب سے قبل کے دور کی بات ہے اور انقلاب کے ابتدائی برسوں میں بھی کچھ افراد ایسے بھی مل جاتے تھے جن کے ذہن ہنوز ان توہمات سے پاک نہیں ہوئے تھے۔
میں ایک اور واقعہ آپ عزیزوں کو بتانا چاہوں گا۔ میرے پاس ایک صاحب آئے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ سڑکیں اور شاہراہیں تعمیر کرنے کے جو پروجیکٹ ہمارے یہاں چل رہے ہیں انہیں آگے نہ بڑھایا جائے، بار بار یہی کہتے تھے کہ ہمارے یہاں پروجیکٹ ڈائریکٹر نہیں ہیں، پروجیکٹ ڈائریکٹر کا فقدان ہے، کچھ مثالیں بھی انہوں نے دیں۔ کسی بھی قوم کو پسماندگی کی گہرائیوں میں الجھا دینے والا ایک سبب یہی طرز فکر اور سوچ ہے۔ بحمد اللہ آپ کے اس مجموعے میں سارے محنت کش افراد، سارے عہدیدار اور سارے ڈئریکٹر اور ڈیزائنر سب بہترین انداز سے کام کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں آج یہ 'مپنا' کامپلیکس مایہ ناز کامپلیکس میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے آپ پر ملک کو بھی ناز ہے اور خود آپ کو بھی ناز ہے کہ آپ اس استعداد کو متحرک کرنے اور نکھارنے میں کامیاب ہوئے، آپ نے دوست اور دشمن سب کے سامنے اپنی اس استعداد کا مظاہرہ کیا، آپ سب فخر کرنے کے حقدار ہیں۔ آپ سب کے سب، جہاں کہیں بھی ہیں، جس عہدے پر بھی فائز ہیں، لیبر ہیں، ڈائریکٹر ہیں، عہدیدار یا منصوبہ ساز ہیں، آپ سب کو افتخار کرنا چاہئے کہ اتنے پرکشش اور با عظمت کامپلیکس کو وجود عطا کرنے میں آپ نے ہاتھ بٹایا۔ بیشک اس کامپلیکس اور اس جیسے دیگر مراکز کی بھرپور پشت پناہی کی جانی چاہئے۔ پشت پناہی کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومتی ادارے یہ التزام رکھیں کہ ان کامپلیکسوں کی تیار کردہ مصنوعات جیسی غیر ملکی مصنوعات امپورٹ نہ کریں۔ ۔ یہ بھی مزاحمتی معیشت کا ایک اہم جز ہے، جس پر ہم خاص تاکید کر رہے ہیں۔ مزاحمتی معیشت کا بنیادی ستون ہے داخلی پیداوار۔ اگر داخلی پیداوار کو فروغ دینا ہے تو ضروری ہے کہ اس کی مدد و اعانت بھی کی جائے اور اس کے نمو کی راہ میں رکاوٹ بننے والی چیزوں کا سد باب کیا جائے، اس کی مصنوعات اور پیداواری اشیاء کے لئے بازار تیار کیا جائے اور اس کے جیسی غیر ملکی مصنوعات کو کنٹرول کیا جائے۔ میں ممنوع کا لفظ استعمال نہیں کر رہا ہوں۔ میری مراد یہ ہے کہ اس کا بڑی باریکی کے ساتھ حساب کتاب کیا جائے، ایسے کانٹریکٹ کے سلسلے میں بھی جو مپنا اور اس جیسے دیگر صنعتی مراکز غیر ملکی فرموں سے کر رہے ہیں، حکومت مدد کرے۔ ہم نے عرض کیا کہ ہماری معیشت 'درون زا' یعنی داخلی توانائیوں اور وسائل پر انحصار کرنے والی اور 'برون گرا' یعنی بیرونی دنیا کے قدم سے قدم ملاکر چلنے والی ہونی چاہئے۔ ہمیں داخلی طور پر نمو کے مراحل طے کرنے ہیں، اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے، توسیع پیدا کرنی ہے۔ لیکن ہماری نظریں باہری دنیا پر بھی مرکوز ہونی چاہئے۔ عالمی بازار میں ہمارا حق ہے۔ ہمیں اپنی بلند ہمتی کی مدد سے اور اپنی جدت عملی کے سہارے ان منڈیوں میں اپنی جگہ بنانی ہے اور یہ حکومت کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے، مختلف حکومتی شعبے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مجاہدانہ مینیجمنٹ سے مراد ہے خود اعتمادی اور نصرت الہی پر بھرپور اعتماد۔ میں نے اپنے معروضات کے آغاز میں ہی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا ذکر کیا اور ماہ مبارک رجب کے سلسلے میں مبارکباد پیش کی تو اس کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں تمام امور میں اللہ تعالی پر توکل اور اس سے طلب نصرت کرنا چاہئے، ہمیں نصرت خداوندی پر بھروسہ ہونا چاہئے۔ جب آپ اللہ سے مدد مانگتے ہیں تو وہ آپ کے لئے مسدود راستے بھی کھول دیتا ہے۔: وَ مَن یَتَّقِ اللهَ یَجعَل لَهُ مَخرَجًا ، وَ یَرزُقهُ مِن حَیثُ لایَحتَسِب (2) اس آیت میں اور اسی طرح دوسری آیتوں میں جس رزق کی بات کی گئی ہے وہ گوناگوں شکلوں میں ہمیں اور آپ کو حاصل ہوتا ہے۔ کبھی اچانک آپ کے ذہن میں بجلی سے کوندھتی ہے اور بالکل نیا راستہ نظر آنے لگتا ہے، یہ بھی رزق الہی ہے۔ کبھی کبھی انتہائی سختیوں کے عالم میں، یکبارگی آپ کا دل امیدوں سے لبریز ہو جاتا ہے، یہ بھی رزق الہی ہے۔ بنابریں اللہ کی نصرت پر بھروسہ کرنا لازمی ہے، عقل و دانش کو بروئے کار لانا ضروری ہے، جو مزاحمتی معیشت کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے اور متعلقہ مقامات پر اس کی تشریح بھی کر دی گئی ہے۔ نالج بیسڈ صنعتی مراکز جس کی ایک نمایاں مثال خود آپ کا یہ صنعتی کامپلیکس ہے، اسی طرح لگن سے کام کرنا، کام کو کبھی بھی کمتر یا نچلے درجے کا نہیں سمجھنا چاہئے، جو کامیابیاں ملی ہیں ان پر اکتفا نہ کیجئے، مزید ترقی و پیشرفت کا جذبہ پیدا کیجئے، ایک منزل پر پہنچ کر مطمئن ہو رہنا ہمارے اندر جمود پیدا کر سکتا ہے۔ ہمیں جدت عملی کی ضرورت ہے، نئے راستوں پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، شارٹ کٹ راستوں کو اپنانا ضروری ہے۔
میں نے جو باتیں آپ کے سامنے عرض کرنے کے لئے نوٹ کی تھیں، میں نے دیکھا کہ یہاں پہلے ہی ان پر توجہ دی جا رہی ہے۔ ایک تو تحقیق و توسیع کا مسئلہ ہے جو بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ بحمد اللہ ہم نے دیکھا کہ یہاں ایک بڑے حصے کو تحقیق و توسیع سے مختص کیا گیا ہے۔ ایک اور مسئلہ ہے باہمی تعاون اور مختلف شعبوں کی توانائیوں اور صلاحیتوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے اور مربوط کرنے کا۔ ایک شعبے کو دوسرے شعبے کی تفصیلات سے باخبر رہنے کا۔ جو توانائیاں اور امکانات آج 'مپنا' کے پاس ہیں ان کی خبر ملک کے دیگر سرگرم عمل اقتصادی و صنعتی مراکز کو ہے؟ ان کو اس کی اطلاعات ہیں؟ کیا ملک کی یونیورسٹیاں 'مپنا' کی گنجائش اور استعداد سے باخبر ہیں؟ البتہ دوستوں نے جو رپورٹ پیش کی ہے؛ (3) اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ کامپلیکس کن شعبوں میں کام کر رہا ہے۔ تاہم میں اس موضوع پر، یعنی ایک دوسرے کے وسائل اور امکانات سے استفادہ کرنے اور آپس میں متصل رہنے کے موضوع پر خاص تاکید کرنا چاہوں گا۔ سب ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں اور ایک دوسرے کی اس مدد و اعانت کے نتیجے میں ملک کو ترقی ملے۔ ایک اہم نکتہ ڈائریکٹر جنرل علی آبادی نے اپنی گفتگو میں بیان کیا جس پر خود میں بھی بڑی تاکید کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ جس شعبے میں بھی ہم خود کو مضبوط کر لیں گے وہاں پابندیاں بے اثر ہو جائیں گی۔ بالکل بجا فرمایا۔ پابندیاں وہاں کام کرتی ہیں جہاں آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں۔ جس شعبے میں بھی آپ خود بھرپور انداز سے متحرک ہیں اور ترقی کر رہے ہیں، وہاں دشمنوں کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ پابندیاں بے سود ہیں، لا حاصل ہیں، بلکہ احمقانہ کام ہیں۔ اس کی واضح مثال بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم کی ہے جس کی ہمیں تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر کے لئے شدید ضرورت تھی۔ ملک کے اندر اس کا ذخیرہ ختم ہونے کے قریب تھا، یہ ری ایکٹر بند ہونے والا تھا، ملک کی ضرورت کے تحت یہاں جو نیوکلیئر میڈیسن تیار کی جاتی تھی اس کی پیداوار بھی رک جانے والی تھی، ملک کے لوگ اس دوا سے محروم ہو جانے والے تھے۔ حکام بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم مہیا کرنے کی فکر میں لگ گئے۔ بیس فیصدی افزودہ یورینیم کے معاملے میں دنیا کی بڑی طاقتوں اور ان مین سر فہرست امریکا نے جو تماشا کیا وہ بڑا دلچسپ اور طولانی ہے، انہوں نے جو جو حرکتیں کیں وہ سننے سے تعلق رکھتی ہیں! ہم بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم خریدنے کے لئے تیار تھے، مگر وہ بھانت بھانت کے بہانے تراشتے تھے کہ اس سودے میں رکاوٹ قائم رہے۔ یہ نوبت ہوئی کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم اسے خود تیار کرنا ہے۔ ان لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایران یہ کام کر لے جائے گا۔ بیس فیصدی افزودہ یورینیم تیار کر لیا گیا تب بھی انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایران اس افزودہ یورینیم کو نیوکلیائی ایندھن میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، یعنی ایدھن کے طور پر استعمال ہونے والی سلاخیں اور فیول پلیٹس تیار کرنے میں کامیاب ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ کے نوجوان ماہرین نے آپ ہی جیسے نوجوان سائنسدانوں نے اپنی ذہانت سے، اپنی اختراعی قوت سے، اپنی انتظامی صلاحیتوں سے یہ کارنامہ بھی کر دکھایا۔ جب ساری دنیا نے دیکھ لیا اور سمجھ لیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران یہ ٹکنالوجی حاصل کر چکا ہے، پیداواری مرحلے تک پہنچا چکا ہے اور اس کے ثمرات سے استفادہ کرنے کی منزل میں ہے تو اب بھاگ دوڑ شروع ہو گئی، کوئی ملک کہتا ہے کہ ہم سے خرید لیجئے، دوسرا کہتا ہے کہ ہم فروخت کرنے کے لئے تیار ہیں مگر آپ خود اس کی پیداوار روک دیجئے، ایسی ہے یہ دنیا! اسلامی نظام اور دنیا کے دیگر نظاموں کے مقابل دنیا کی چھوٹی بڑی طاقتوں کا سارا دباؤ اور سارے نخرے اس نظام کے ضعف اور خامیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ جہاں بھی آپ کمزور ہوں گے، ان کے نخرے شروع ہو جائيں گے، مگر جہاں آپ مضبوط پوزیشن میں ہوں گے، قدرتمند ہوں گے، خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے، وہاں یہ طاقتیں آپ سے مودبانہ انداز میں بات کرنے پر مجبور ہوں گی، وہاں آپ سے عقل و منطق کے مطابق برتاؤ کریں گی۔ یہ تمام مشکلات کا حل ہے۔ ملک کا نمو داخلی توانائیوں کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی پیدواری صلاحیت کو، اپنی معیشت کو، اپنے مستقبل کو خود اپنے ہاتھوں مستحکم بنانا ہوگا۔ ملت ایران صاحب استعداد قوم ہے، اس کے اندر توانائياں موجود ہیں، ہماری افرادی قوت لا محدود ہے، اسی طرح ہمارے قدرتی ذخائر بھی بے حد وسیع پیمانے کے ہیں۔ اللہ تعالی آپ سب کی توفیقات میں اضافہ کرے، ہم تمام حکام کو اور اسی طرح عوام کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں پر عمل کرنے میں کامیاب کرے۔

والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌

1) سوره‌ نجم، آیه‌ ۳۹
2) سوره طلاق، آیات ۲ و ۳
3) محنت و سماجی رفاہی امور کے وزیر جناب علی ربیعی اور 'مپنا' انڈسٹریل گروپ کے مینیجنگ بورڈ کے چیئرمین عباس علی آبادی