اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کی اور آپ کے لا محدود فضائل میں سے کچھ کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے استقامتی معیشت کی کلی پالیسیوں پر عملدرآمد اور داخلی صلاحیتوں اور توانائیوں پر تکیہ کئے جانے کو اقتصادی مسائل کے حل کا صحیح راستہ قرار دیا اور فرمایا کہ جہاں بھی ہم نے جوش و جذبے سے سرشار، با اخلاص و با ایمان نوجوانوں کی صلاحیتوں اور خلاقانہ جدت عملی پر تکیہ کیا اور ان کی قدر و قیمت کو سمجھا، وہاں ترقی کے خروشاں چشمے ابلنے لگے، چنانچہ ایٹمی و طبی شعبوں، اسٹیم سیلز، نینو ٹکنالوجی اور دفاعی صنعتوں کے میدانوں کی زبردست ترقی اس حقیقت کے عملی نمونے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ انہی حقائق اور زمینی سچائی کے مد نظر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے اس جملے کا مطلب سمجھا جا سکتا ہے کہ 'امریکا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا'۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر ہم داخلی صلاحیتوں کو حرکت میں لائیں اور مقامی توانائيوں پر تکیہ کریں تو امریکا اور دیگر بڑی طاقتیں عسکری و غیر عسکری کسی بھی سطح پر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گي اور دباؤ ڈال کر ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکیں گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بڑی طاقتوں کو جان لینا چاہئے کہ ملت ایران کبھی گھٹنے ٹیکنے والی نہیں ہے کیونکہ یہ ایک زندہ قوم ہے اور ملک کے نوجوان بالکل صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم
الحمد لله و صلّى الله على رسوله و ءاله الأطهرین الأطیبین.

تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں، آپ یہ طولانی سفر طے کرکے یہاں تک آئے، یہ آپ کی مہربانی ہے، آپ کی آمد سے عید کا یہ دن حقیقی معنی میں عید کا دن بن گیا۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس دن کے عظیم مولود کی برکت سے ملت ایران اور خاص طور پر ایلام سے تشریف لانے والے آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں پر اپنے روحانی و مادی الطاف کا نزول فرمائے، آپ سب رحمت پروردگار کے مستحق قرار پائیں اور اللہ کی خاص ہدایت و رہنمائی آپ کے شامل حال ہو۔ ماضی میں ایلام کے بارے میں، اس علاقے کے شہروں میں بسنے والے اور قبائل کی صورت میں زندگی گزارنے والے عوام پر ہمیشہ الطاف الہیہ کا جو سایہ رہا ہے اس کا ہم نے نزدیک سے مشاہدہ کیا ہے، مقدس دفاع کے دوران بھی اور اس کے بعد تاحال یہاں کی عمومی اور ہمہ گیر مجاہدت و قربانی اور استقامت و جانفشانی، معمولی بات نہیں ہے۔ عوامی طبقات کے لئے یہ چیزیں مایہ افتخار ہوتی ہیں، بحمد اللہ یہ افتخار آپ کے اندر ہمیشہ موجود رہا ہے، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ آپ پورے یقین سے باور کر لیجئے خاص طور پر آپ نوجوانوں کو اطمینان ہونا چاہئے کہ یہ ملک آپ کا ہے، مستقبل آپ کا ہے، اس عظیم ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے آپ کو اپنے توانا اور مضبوط کاندھے پیش کرنے ہیں۔ جس طرح ماضی میں اس زمانے کے نوجوانوں نے یہی کام کیا اور قومی وقار، ملکی خود مختاری، دین و ایمان اور قومی تشخص کا دفاع کیا۔ اس کا بہترین نمونہ ایلام کے عوام ہیں۔ میں نے اس خطے کے لوگوں کی جانفشانی کو قریب سے دیکھا ہے۔ سنہ انیس سو اسی اکیاسی میں، جب انتہائی سختیوں کا زمانہ تھا، ہماری پوری قوم میدان عمل میں کھڑی تھی، سب تعاون کر رہے تھے، جبکہ آپ کے صوبے اور آپ کے علاقے کے دانشور اور اہم رہنما پیش پیش رہتے تھے۔ یہ صورت حال بھی بدستور جاری ہے۔ ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ مدد فرمائے اور توفیقات میں اضافہ کرے کہ ہمارے عہدیدار جن کے دوش پر فرائض ہیں، اپنے فرائض کو بنحو احسن انجام دیں۔ بیشک وہ پوری کوشش کر رہے ہیں، وہ مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہیں، ان سے سب کو تعاون کرنا چاہئے، سب مدد کریں کہ یہ کام انجام پائے۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے مگر اس عظیم ہستی کے تمام پہلو اب بھی سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ زبان و قلم سے اب تک حضرت امیر المومنین سلام اللہ علیہ کے جو فضائل بیان کئے گئے ہیں آپ کے فضائل وہیں تک محدود نہیں ہیں، یہ تو فضائل کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ نبی اکرم سے یہ حدیث منقول ہے کہ میرے بھائی علی کے فضائل اتنے ہیں کہ «لا تُحصى‌»(۲) - انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی انسان ان فضائل کا احاطہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یہ فضائل انسانی فہم و ادراک کی حدود سے بالاتر ہیں۔ یہ ہے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت۔ ظاہر ہے ہمیں کسی آئیڈیل اور نمونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں حضرت امیر المومنین کی شخصیت پر نگاہ ڈالنا چاہئے۔ اس حقیر کی نظر میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی کے کچھ باب ایسے ہیں جن پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے، خواہ وہ اہل قلم حضرات ہوں، محققین ہوں یا ہم جیسے افراد جو امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی سے وابستہ ابواب کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، اس بارے میں غور و فکر کرتے ہیں، میری نظر میں اس عظیم شخصیت کے چار پہلو ایسے ہیں جو سر فہرست ہیں، میں اجمالی طور پر ان کا ذکر کروں گا۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی کے ان ابواب میں ایک اہم باب ہے آپ کے روحانی مقامات، یعنی آپ کا عقیدہ توحید، آپ کا مقام بندگی، تقرب الی اللہ کی عظیم منزلت، آپ کا اخلاص، یہ ایسی بلندیاں ہیں جن کی وسعت اور کنہ (3) و حقیقت ہماری رسائی سے بالاتر ہے۔ ہمارے بزرگ علما، شیعہ و سنی مفکرین یہاں تک کہ غیر مسلم دانشور بھی حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت کے اس پہلو کے سامنے اعتراف عاجزی کرتے ہیں، یہ درخشاں اور جگمگاتا ہوا پہلو ایسا ہے کہ لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، کوئی بھی اس پہلو کا احاطہ کرنے کی توانائی نہیں رکھتا۔ یہ تو ہے شخصیت کا ایک پہلو۔ سنی عالم دین ابن ابی الحدید جب توحید کے موضوع پر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا خطبہ نقل کرتے ہیں تو برجستہ کہتے ہیں کہ خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اس فرزند پر فخر ہونا چاہئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے کتنے انبیاء پیدا ہوئے ہیں۔ مگر ابن ابی الحدید یہ بات امیر المومنین علی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو اپنے اس فرزند پر فخر کرنا چاہئے اور یہ کہنا چاہئے کہ : تم نے عرب کے دور جاہلیت میں توحید کے سلسلے میں ایسے نکات بیان کر دیئے جو نبط کے دور جاہلیت میں، میں بھی بیان نہیں کر سکا، میں یہ حقائق پیش نہیں کر سکا۔(4) یہ جملے ایک معتزلی سنی عالم دین کے ہیں۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی اور شخصیت کا ایک باب ہے جس کے بے شمار ناشناختہ پہلو ہیں۔ واقعی یہ ایک بحر بیکراں ہے۔
ایک اور باب حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی مجاہدتوں کا باب ہے، یہ مجاہدت و فداکاری در حقیقت ایثار کا نقطہ کمال ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اسلام کے لئے، دین کے لئے، پیغمبر اسلام کی زندگی کی حفاظت کے لئے، دین پیغمبر کی پاسداری کے لئے، امت اسلامیہ کی عظمت و وقار کے لئے ایثار و قربانی کا جو نمونہ پیش کیا وہ واقعی انسانی قوت و استعداد سے بالاتر ہے۔ بچپن سے ہی آپ نے پیغمبر اسلام کو اپنے استاد اور تربیت کنندہ کی حیثیت سے دیکھا، آپ نے پیغمبر اسلام کے سائے میں نشونما کے مراحل طے کئے، بچپن میں ہی آپ نے اسلام قبول کیا، مکے کے ان انتہائی دشوار تیرہ برسوں میں، اس کے بعد مدینے کی جانب ہجرت کے انتہائی سخت مرحلے میں اور پھر مدینے میں پیغمبر اکرم کی دس سالہ حیات طیبہ کے دوران، ان جنگوں میں اور ایثار و قربانی کے ان مراحل میں، ہر جگہ یہ انسان ایثار و قربانی کے بام ثریا پر کھڑا نظر آتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد بھی یہی سلسلہ رہا۔ امیر المومنین علیہ السلام کا صبر و ضبط بھی آپ کا ایثار تھا، جملہ اقدامات فداکاری سے عبارت تھے، آپ کا تعاون مثالی ایثار تھا، خلافت قبول کرنا بھی ایثار تھا، خلافت کی محدود مدت میں آپ نے جو کچھ کیا سب ایثار کا نمونہ ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ایثار اور قربانیوں کی کتاب ہر دیکھنے والے کے لئے ایک طویل اور ضخیم کتاب ہے، جو انسان کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ ایک انسان عزم راسخ کے ساتھ راہ خدا میں اپنی جان، اپنا مقام و مرتبہ، اپنی توانائیاں، اپنے جملہ امور سب کچھ قربان کر دیتا ہے! ہمارے اور ہم جیسے افراد کے تصور سے بھی یہ چیزیں بہت بالاتر ہیں۔ یہ بھی حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی کا ایک عظیم باب ہے جو تحریر کیا جائے تو ضخیم کتاب ہو جائیگی۔
تیسر اہم باب خلافت کے دوران حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا طرز عمل ہے۔ آپ کا ذاتی، سماجی اور حکومتی سلوک اور برتاؤ ہے۔ ذاتی زندگی میں علی علیہ السلام حکومت کے دوران دنیا سے لا تعلقی اور زہد کا نمونہ ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھ میں بڑا عظیم ملک تھا۔ مشرق بعید سے لیکر مصر اور افریقا کے دیگر علاقوں تک اس وسیع وعریض خطے پر ایک بڑی اور دولت مند مملکت تھی جو امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھ میں تھی۔ اتنے وسیع و عریض ملک کا مالک اور حاکم اپنی ذاتی زندگي، غربت و افلاس میں بسر کرتا ہے۔ پہننے کے لئے صرف ایک لباس ہے، سوکھی ہوئی جو کی روٹی آپ کی غذا ہے، تمام مادی لذتوں سے بیگانہ ہے۔ اپنی حکومت کے عہدیداروں اور رفقائے کار سے آپ فرماتے ہیں: اِنَّکُم لا تَقدِرونَ عَلى‌ ذلِک؛ (۵) تم اس طرح زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ بالکل بجا فرمایا ہے حضرت نے۔ کوئی بھی اس طرح زندگی نہیں بسر کر سکتا۔ واقعی کتنی حیرت کی بات ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام حکومت کے دوران اس انداز سے ذاتی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انتہائی معمولی قسم کا گھر، معاشی حالت ایک غریب و نادار انسان جیسی۔ لیکن عظیم کارناموں کی یہ طویل فہرست! آپ کا سماجی طرز سلوک، حق و انصاف قائم کرنے کی آپ کی مہم، حکم خداوندی کے نفاذ کے لئے آپ کی استقامت و ثابت قدمی، واقعی ان ساری عظمتوں کے سامنے انسان ششدر ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ کون ہستی ہے؟ یہ ساری چیزیں مولائے کائنات کے روحانی اور معنوی مقامات سے ہٹ کر، آپ کے سیاسی طرز عمل کے دائرے میں آتی ہیں۔ دنیا کے ارباب اقتدار اور حکمراں کس طرح زندگی گزارتے رہے ہیں اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے کیسی زندگی بسر کی؟ یہ بھی زندگی کا ایک عظیم باب ہے جس کی کوئی اور نظیر نہیں ہے اور نہ کوئی مثال ملے گی۔ حکومت کے دوران امیر المومنین کا زہد اور دنیا سے بے رغبتی، آپ کا ذاتی برتاؤ اور آپ کی عبادت، سب بے مثال ہیں۔ امام زین العابدین علیہ الصلاۃ و السلام کی خدمت میں لوگوں نے عرض کیا کہ یابن رسول اللہ! آپ خود کو اتنی سختی میں کیوں ڈالتے ہیں، اپنے آپ پر اتنا دباؤ کیوں ڈالتے ہیں، اس طرح عبادت کرتے ہیں، انتہائی درجے کا زہد اختیار کرتے ہیں، اتنے روزے رکھتے ہیں، بھوک کی شدت کو تحمل کرتے ہے؟ امام سجاد علیہ السلام رونے لگتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں وہ میرے جد امیر المومنین کے مقابلے میں کیا ہے؟! میرا عمل کہاں اور ان کا عمل کہاں؟! یعنی امام زین العابدین علیہ السلام اپنی زندگی، عبادت اور زہد کو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے زہد و عبادت اور ذاتی زندگی کی نسبت بہت معمولی اور کم رتبہ سمجھتے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ تیسرا اہم باب ہے۔
چوتھا باب اس ہدف سے عبارت ہے جو عوام الناس کے تعلق سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی حکومت کے زمانے میں معین فرمایا، یہ بڑا اہم اور اساسی نکتہ ہے۔ میں اس نکتے پر تھوڑی گفتگو کرنا چاہوں گا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم میری اطاعت کرو تو میں تمہیں بہشت میں لے جاؤں گا۔ نہج البلاغہ میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے خطبے کی عبارت یہ ہے؛ فَاِن اَطَعتُمونى فَاِنّى حامِلُکُم اِن شاءَ اللهُ عَلى‌ سَبیلِ الجَنَّة؛ فرماتے ہیں کہ اگر تم نے میری بات سنی اور اس پر عمل کیا تو میں تمہیں ان شاء اللہ جنت میں لے جاؤں گا؛ وَ اِن کانَ ذا مَشَقَّةٍ شَدیدَةٍ وَ مَذاقَةٍ مَریرة؛ (6) حالانکہ یہ عمل بہت سخت، دشوار اور تلخ ہے۔ یہ سفر آسان سفر نہیں ہے۔ یہ ہے امیر المومنین علیہ السلام کا ہدف۔ لوگوں کو بہشت میں لے جانے کا عمل انسانوں کی فکری دنیا میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے، روحانی و قلبی وادیوں میں بھی اس کا اثر ضروری ہوتا ہے اور لوگوں کی سماجی زندگی میں بھی کام ضروری ہوتا ہے۔ میں اس نکتے پر اس لئے تاکید کر رہا ہوں کہ کبھی کبھی سننے میں آتا ہے کہ کچھ لوگ گوشہ و کنار میں تقریر کرتے ہیں، بیان دیتے ہیں تو ہدایت و رہنمائی اور دینی معارف کی تبلیغ کے بارے میں بھی رائے زنی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جناب! لوگوں کو جنت میں لے جانا تو ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ جی ہاں، آپ کی ذمہ داری ہے، آپ کا فرض ہے۔ اسلامی حکمراں اور دیگر حکمرانوں کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے۔ اسلامی حکمراں اس فکر میں رہتا ہے کہ لوگوں کے بہشت میں جانے کا راستہ ہموار ہو جائے، لوگ حقیقی سعادت تک پہنچیں، لوگوں کی آخرت سنور جائے۔ لہذا وہ راستوں کو ہموار کرتا ہے۔ یہ طاقت کے استعمال، سختی اور دباؤ کا معاملہ نہیں ہے، یہ مدد کرنے کا مسئلہ ہے۔ انسانی فطرت خود بخود ہی سعادت و نیک بختی کی جانب مائل ہوتی ہے، ہمیں تو بس راستہ ہموار کرنا ہے، ہمیں عوام کے لئے اس سفر کو آسان بنانا ہے تاکہ وہ خود کو بہشت تک پہنچا سکیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے، یہ ذمہ داری حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے دوش پر اٹھائی، آپ کو اپنی اس ذمہ داری کا شدت سے احساس ہے کہ عوام الناس کو بہشت میں لے جانا ہے۔
اسلامی معاشرہ ایسا معاشرہ ہے، اگر مادی میدانوں میں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرے تو بلا شبہ اس میدان میں بھی بلندیوں پر پہنچ جائے گا۔ علمی اعتبار سے بھی، صنعتی اعتبار سے بھی، معاشی اعتبار سے بھی، سماجی روابط کے اعتبار سے بھی، دنیاوی عزت و شرف کے اعتبار سے بھی اور قومی و عالمی ساکھ کے اعتبار سے بھی بام ثریا پر پہنچا جا سکتا ہے۔ مگر ہمارا سارا مقصد اور نصب العین بس یہی نہیں ہے، صرف یہی ہدف نہیں ہے۔ اگر دنیا میں ہماری زندگی ایک بہترین زندگی ہو لیکن جب موت کی گھڑی آئے تو ہماری بدبختی اور روسیاہی کا دور شروع ہو جائے تو پھر ایسی زندگی کا کیا فائدہ؟ امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں فرماتے ہیں: اَمِتنا مُهتَدینَ غَیرَ ضالّینَ، طائِعینَ غَیرَ مُستَکرِهین؛ (7) کہتے ہیں کہ پروردگارا! مجھے ایسی حالت میں اس دنیا سے اٹھا اور موت دے کہ میں ہدایت یافتہ رہوں، گمراہ نہ رہوں، مجھے ایسے عالم میں اس دار فانی سے اٹھا کہ میں شوق و رغبت کے ساتھ اس دنیا میں جاؤں۔ اس گزرگاہ سے شوق و رغبت کے ساتھ کون گزرے گا؟ وہی جو دوسری سمت کی دنیا کے سلسلے میں آسودہ خاطر ہو۔ آپ نے دیکھا کہ ہمارے نوجوان، اس زمانے کے نوجوان، جنگ کے میدانوں میں کس طرح والہانہ انداز میں دفاع وطن کے لئے آگے بڑھتے تھے۔ انہیں فوجی آپریشنوں میں جن کا ذکر کیا گیا (8)۔ ایلام کے علاقے میں بھی، خوزستان کے علاقے میں بھی، مغربی صوبوں میں بھی، ان نوجوانوں نے کہاں کہاں نہیں اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے، موت کو بازیچہ بنا کر رکھ دیا، خطرات کو کبھی خاطر میں نہیں لائے۔ کیونکہ ان کے قلوب حقائق سے آشنا تھے۔ جب انسان کی نگاہیں دوسری دنیا کو دیکھ رہی ہوں، ان نعمتوں کا مشاہدہ کر رہی ہوں تو پھر آخرت کے بارے میں وہ آسودہ خاطر ہو جاتا ہے، پرسکون زندگی بسر کرتا ہے، بڑی آسانی سے قربانیاں دیتا ہے، مشکلات پڑیں تو صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بے جگری سے پرخطر وادیوں میں اتر جاتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ یہ ہے اصلی قضیہ۔
اگر ہمیں دنیاوی مقصد میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو ہمیں اپنے ایمان کو مستحکم کرنا ہوگا، اپنے عقیدے کو، اپنے عمل کو آخرت بنانے کے لئے مستحکم کرنا ہوگا۔ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں لوگوں کو جنت میں لے جانا چاہتا ہوں، یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں نہی عن المنکر کرنا چاہئے، امر بالمعروف پر عمل کرنا چاہئے، ملک میں نیکیوں اور نیک اعمال کے وسائل فراہم کرنا چاہئے، شر اور برائیوں کے اسباب کو سامنے سے ہٹا دینا چاہئے، یہ حکومت کے عہدیداروں کی ذمہ داری ہے۔ جو چیزیں انسان کو بہشت سے قریب کرتی ہیں ان میں ایک عوام الناس کی معیشتی صورت حال کو بہتر کرنا ہے۔؛ کادَ الفَقرُ اَن یَکُونَ کُفرا (9) جس معاشرے میں غربت و مفلسی ہو، بے روزگاری ہو، ایسی معیشتی مشکلات ہوں جنہیں حل کرنا ممکن نہ ہو، طبقاتی فاصلہ ہو، تفریق و امتیاز ہو، طبقات کے درمیان خلیج پائی جاتی ہو، وہاں دین و ایمان کی آسودگی نہیں ہوگی۔ افلاس انسانوں کو بدعنوانی میں مبتلا کر دیتا ہے، کفر کے راستے پر دھکیل دیتا ہے۔ افلاس کی بیخ کنی ضروری ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں اور اقتصادی اقدامات کو حکام سنجیدگی سے اپنے ایجنڈے کی ترجیحات میں شامل کریں۔ الحمد للہ اس وقت حکام ان مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دے رہے ہیں۔ فکروں کو منظم کرنے، صحیح راستے کی شناخت اور پھر درست سمت میں پیش قدمت کی ضرورت ہے۔
ہم نے خود کفیل معیشت کی بات کی۔ خود کفیل معیشت سے مراد یہ ہے کہ ہم اگر داخلی توانائیوں پر، اپنے نوجوانوں کی خلاقی صلاحیتوں پر، اپنے عوام کے زور بازو اور ذہنی استعداد پر اعتماد کریں تو خود کو بیرونی دشمنوں کے احسان، تکبر اور اکڑ سے نجات دلا سکتے ہیں اور یہی صحیح راستہ بھی ہے۔ خود کفیل یا مزاحمتی معیشت سے مراد یہ ہے کہ ہم جائزہ لیں، ملک کے اندر موجود بیکراں صلاحیتوں کی نشاندہی کریں، ان کی شناخت کریں، پھر صحیح منصوبہ بندی کے ذریعے ان صلاحیتوں اور توانائیوں کو متحرک کریں، انہیں بروئے کار لائيں۔ میں نے ایک دو دن قبل ایک تقریر میں (10) کہا کہ ہم نے جب بھی اپنے نوجوانوں کی خلاقی صلاحیتوں اور استعداد پر بھروسہ کرکے کوئی کام شروع کیا ہے، صلاحیتوں کا چشمہ یکبارگی ابل پڑا اور پیشرفت ہوئی۔ ایٹمی مسائل کے معاملے میں بھی، دواؤں کی پیداور کے مسئلے میں بھی، مختلف امراض کے علاج کے سلسلے میں بھی، اسٹیم سیلز کے معاملے میں بھی، نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی، دفاعی صنعت سے وابستہ پروجیکٹوں میں بھی، جہاں بھی ہم نے سرمایہ کاری کی اور اپنے ان مخلص، صاحب ایمان اور فرض شناس نوجوانوں پر تکیہ کیا، اس کی قدر و قیمت کا احساس کیا وہاں ہمیں پیشرفت ملی۔ ہمیں اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے۔ اقتصادی شعبہ بھی اس سے مستثنی نہیں ہے۔ اقتصادی استعداد اور توانائیوں کو فعال اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے، یہی ملک کی ترقی کا راستہ ہے۔ اسی صورت میں ہمارا ملک مادی و معاشی اعتبار سے بھی، عالمی ساکھ کے اعتبار سے بھی، قومی وقار کے اعتبار سے بھی اور خود اعتمادی کے لحاظ سے بھی نیز روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بھی بلندیوں پر پہنچے گا۔ ہمیں امیر المومنین علیہ السلام نے اس راستے سے روشناس کرایا ہے۔ انہی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے اس جملے کی گہرائی کو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ امریکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا (11) امام خمینی نے امریکا کا نام صرف مثال کے طور پر لیا۔ یعنی بیشک امریکا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، جیسا کہ آج تک وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا، اسی طرح دوسری طاقتیں بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ وہ بھی کوئی حماقت کرنے کی جرئت نہیں رکھتیں۔ کوئی حماقت نہیں کر سکتیں کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ فوجی حملہ نہیں کر سکتیں، اس کا وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ واقعی وہ کسی بھی شعبے میں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ وہ ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکتیں۔ ملت ایران کو پسماندگی میں گرفتار نہیں رکھ سکتیں، ملت ایران پر اس طرح دباؤ نہیں بنا سکتیں کہ بخیال خویش ملت ایران کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر لے جائیں، ملت ایران کبھی بھی گھٹنے ٹیکنے والی نہیں ہے۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے عوام بیدار ہیں۔ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے نوجوان صحیح راستے پر گامزن ہیں۔ کچھ لوگ ہیں ہمارے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو بس کچھ خامیوں اور برائیوں کو ہی دیکھتے ہیں۔ بیشک کچھ خامیاں ہیں، ایسا نہیں ہے کہ کوئی کمی نہیں ہے، ہمیں بھی اس کی اطلاع ہے، مگر آپ ایران کے عوام کو مجموعی طور پر دیکھئے اور ہمارے نوجوانوں کا کلی طور پر جائزہ لیجئے تو ہمارا ماحول دینی ماحول نظر آئے گا، ہمارے لوگ دین، وطن، اسلام، قرآن، روحانیت اور قومیت سے گہری رغبت رکھنے والے دکھائی دیں گے۔ اس ماہیت اور شناخت کو نظر انداز اور فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ بحمد اللہ ہمارے نوجوان بہت اچھے نوجوان ہیں۔ ہماری ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے ان اچھے نوجوانوں کی مدد کریں کہ وہ اچھے ہی بنے رہیں، اچھی طرح پیشرفت کریں اور اپنے ملک کے لئے اچھے اور صاحب کمال ثابت ہوں۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے بزرگوار امام خمینی کی روح مطہرہ کو ہم سے خوشنود رکھے۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے شامل حال رکھے اور ہمارے شہیدوں کو انبیاء و اولیا ء کے ساتھ محشور فرمائے۔

والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌

۱) ایلام کے عوام کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد اسلامی نظام کے اہداف اور ولی امر مسلمین سے تجدید میثاق کے لئے 'ولی امر مسلمین سے عہد' کے زیر عنوان ایک کارواں کی شکل میں تہران میں واقع حسینیہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ میں جمع ہوئے تھے۔
۲) بحارالانوار، جلد ۲۶، صفحہ ۲۲۹
۳) حقیقت
۴) شرح نهج‌البلاغه، جلد‌۷، صفحہ‌۲۳
۵) نهج‌البلاغه، مکتوب ۴۵
6) نهج‌البلاغه، خطبه‌ ۱۵۶
7) صحیفه‌ى سجّادیّه، دعا ۴۰
8) حجّت‌الاسلام والمسلمین سیّدمحمّدتقى لطفى (امام جمعه‌ ایلام اس صوبے میں ولىّ ‌فقیه کے نمائندے) نے اپنی رپورٹ میں مقدس دفاع کے دوران مختلف اہم آپریشنوں جیسے فتح میمک، عاشورا، نصر۲، نصر۴، فتح‌المبین، محرّم، والفجر۱ والفجر۳، والفجر۵، والفجر۶، عاشورا۲ و کربلاى‌۱ میں ایلام کے عوام کے قابل قدر کردار کی پر روشنی ڈالی۔
9) بحارالانوار، جلد‌۲۷، صفحہ۲۴۷
10) 21 اردیبہشت 1393 مطابق 11 مئی 2014 کو قائد انقلاب اسلامی نے پاسداران انقلاب فورس کی ایرواسپیس یونٹ کی ایجادات اور مصنوعات کی نمائش کا معائنہ کیا اور حاضرین سے خطاب کیا۔
11) صحیفه‌ امام خمینی، جلد‌۱۰، صفحہ‌۵۱۶