منگل 1393/05/07 ہجری شمسی مطابق 29 جولائی 2014 کو تہران ميں عيد الفطر کي مناسبت سے ملک کے اعلي حکام، اسلامي ملکوں کے سفيروں اور عوام کےمختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں نے قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي سے ملاقات کي۔ قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے اس موقع پر اپنے خطاب ميں فرمايا کہ اسلامي دنيا کو اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، پوري توانائي سے غزہ کے مظلوم عوام کي ضرورتوں کي تکميل ميں کام لينا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا کہ افسوس کہ آج اسلامي تعليمات کے برخلاف سياسي محرکات اور اقتدار پسندي نے امت اسلاميہ کو اختلاف و تفرقے سے دوچار کرديا ہے ۔ آپ نے اسلامي ملکوں کے رہنماؤں، قائدين اور حکام کو اختلاف و تفرقے کے عوامل سے بچنے اور ايک طاقتور و توانا امت واحدہ کي تشکيل کي دعوت ديتے ہوئے فرمايا کہ اگر اقتدار پسندي، وابستگي اور بدعنواني کے نتيجے ميں اسلامي دنيا اختلاف و تفرقے ميں نہ پڑے تو دنيا کي کوئي بھي سامراجي طاقت اسلامي ملکوں کے خلاف جارحيت اور اسلامي حکومتوں سے باج گزاري کا مطالبہ کرنے کي جرائت نہيں کرسکتي ۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
 
بسم ‌الله ‌‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
و الحمد لله‌ ربّ العالمین و صلّى الله‌ على محمّد و آله الطّاهرین‌

مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں جو اس دوستانہ نشست میں تشریف فرما ہیں، مہمانوں اور اسلامی ملکوں کے سفیروں کو بھی تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں، آپ سب کو یہ عید بہت مبارک ہو۔ مبارکباد پیش کرتا ہوں عظیم الشان ملت ایران، دنیا بھر کے تمام مسلمانوں اور صاحب ایمان اور آزاد منش اقوام کو۔
بزرگان دین کے فرمودات اور تصانیف کی روشنی میں عید فطر کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ یہ امت واحدہ کی عید ہے۔: اَلَّذى جَعَلتَهُ لِلمُسلِمینَ عیدا(۱) یہ تمام مسلمانوں کی عید ہے۔ اس سے مراد دین مقدس اسلام کی امت ساز نظر اور پیغمبر اکرم کی امت ساز تعلیمات ہیں۔ بہت سی اسلامی تعلیمات جو ہمیں نظر آتی ہیں ان میں امت واحدہ کی تشکیل کی کاوشوں کی علامات بالکل نمایاں ہیں۔ آج امت اسلامیہ میں انتشار کا عالم ہے۔ اس انتشار کا مطلب الگ الگ اسلامی مسلکوں میں تقسیم ہو جانا نہیں ہے (2)۔ یہ تقسیم تو فطری چیز ہے اور امت واحدہ کی تشکیل میں یہ حائل بھی نہیں ہے۔ بنیادی مسائل اور فروعی موضوعات کے بارے میں نظریات اور خیالات میں اختلاف کے باوجود امت واحدہ کی تشکیل ہو سکتی ہے۔
آج جس چیز نے مسلمان بھائیوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے وہ سیاست ہے، سیاسی اہداف اور تسلط پسندانہ عزائم ہیں۔ مسلم ممالک ان اہداف و عزائم سے کنارہ کشی کرکے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یہ اسلامی ممالک میں حکومتی عہدوں پر فائز افراد، بااثر شخصیات اور سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو حقیقی معنی میں ایسی طاقت منصہ وجود پر نمودار ہوگی جو تمام جارح اور مستکبر طاقتوں سے بڑی اور عظیم ہوگی۔ اگر ایسا ہو جائے تو کوئی بھی کسی اسلامی ملک کے ساتھ زیادتی نہیں کر سکے گا، کوئی بھی طاقت اسلامی ممالک سے اور مسلم حکومتوں سے غنڈہ ٹیکس نہیں وصول کر سکے گی۔ اگر ہم ایک ساتھ رہیں، اگر ہم اپنے اشتراکات پر توجہ مرکوز کریں اور ان پر تکیہ کریں، اگر خود غرضی، طاقت کی بھوک، بدعنوانی اور اغیار کی غلامی ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہ کرنے پائے تو ایسی طاقت وجود میں آئے گی جو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے حقوق کے دفاع اور احتیاجات کی تکمیل پر قادر ہوگی۔ لیکن افسوس آج یہ چیز نہیں ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے جو اہم مسئلہ ہے وہ غزہ اور فلسطین کا مسئلہ ہے۔ آخر کیوں جارح صیہونی صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس تباہ کن ہتھیار، طیارے، میزائل، بم اور بارود ہے، اپنا حق سمجھتے ہیں کہ ایک اسلامی ملک کی ایک آبادی پر اس طرح حملہ آور ہو جائیں کہ ساری دنیا میں ہر دیکھنے والے کا دل رو پڑے؟ آپ نے مغربی ملکوں میں ہونے والے مظاہروں کو دیکھا ہے۔ البتہ یہ اس حقیقت کا نتیجہ ہے جو ذرائع ابلاغ عامہ پر لگے خفیہ سینسر سے گزر کر عوام الناس تک پہنچ گئی۔ ورنہ خفیہ سینسر عوام تک حقائق کو پہنچنے کہاں دیتے ہیں؟! غزہ کی صورت حال کی جو تصویر مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ پیش کر رہے ہیں امر واقعہ اس سے کہیں زیادہ تلخ اور دلخراش ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ دیکھئے کہ اتنی سی آگاہی نے کس طرح ان ملکوں کے عوام کے دلوں کو دہلا دیا جو اسلام سے بالکل بھی بہرہ مند نہیں ہیں۔ یہ سانحہ اتنا تلخ اور اس قدر اندوہناک ہے۔ لیکن عالم اسلام کے پاس آج اتنی طاقت نہیں ہے کہ اس جارحیت پر، اس درندگی پر (3)، اس خوں آشامی پر، جس کا ارتکاب صیہونی کر رہے ہیں، کوئی رد عمل ظاہر کرے اور اسے رکوانے کی کوشش کرے! یہی وجہ ہے کہ غزہ کے عوام اکیلے پڑ گئے ہیں۔ سامراجی طاقتیں جو مشرق وسطی کے قلب میں صیہونیت کے وجود سے بہت مطمئن ہیں اور اسی کے ذریعے اپنے توسیع پسندانہ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ مظلوم کی حمایت نہیں کر رہی ہیں بلکہ بڑی بے غیرتی کے ساتھ ظالم کا ساتھ دے رہی ہیں۔ اس موقع پر عالم اسلام کا فرض ہے کہ کچھ کرے۔
عالم اسلام کے لئے اور اسلامی حکومتوں کے لئے ہمارا پیغام یہ ہے کہ اپنی توانائیوں کو، اپنے عمومی، ملی اور حکومتی وسائل کو بروئے کار لائیے اور مظلوم کی حمایت کیجئے۔ دشمن کو دکھا دیجئے کہ عالم اسلام جارحیت اور درندگی پر خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ مسلم حکومتوں کے لئے ہمارا یہ پیغام ہے۔ ہم بعض اسلامی حکومتوں سے مختلف سیاسی و غیر سیاسی معاملات میں اگر ممکنہ طور پر کچھ اختلاف رائے رکھتے ہیں تو ہم سب کو اس معاملے میں سارے اختلافات بھلا دینے چاہئیں۔ ایک مظلوم قوم کی صورت میں امت اسلامیہ کا ایک عضو ایک خونخوار و خوں آشام بھیڑئے کے پنجے میں تڑپ رہا ہے، سب کو اس کی مدد کے لئے آگے بڑھنا چاہئے، یہ ہمارا موقف ہے۔ آج غزہ کا مسئلہ عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ جو پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے: مَن اَصبَحَ وَ لَم یَهتَمَّ بِاُمورِ المُسلِمین فَلَیسَ بِمُسلِم (۴)، تو اس مسئلے کو تمام عالم اسلام کی ترجیحات میں سر فہرست رکھا جانا چاہئے۔ عوام الناس، اقوام، حکومتیں، بالخصوص ملکوں کے اعلی حکام، اعلی حکومتی عہدیدار سب کو اس پرغور و خوض شروع کر دینا چاہئے۔ دو کام کرنا چاہئے؛ ایک ہے مظلومین کی مدد، اس مدد سے مراد یہ ہے کہ ان کے لئے بنیادی وسائل اور امکانات کا بندوبست کیا جائے، آج انہیں غذائي اشیاء کی ضرورت ہے، دواؤں کی احتیاج ہے، اسپتال کی ضرورت ہے، پانی کی ضرورت ہے، بجلی کی ضرورت ہے، دشمن ان کا ہتھیار چھین لینا چاہتا ہے، تا کہ جب بھی اس کا دل چاہے اور موڈ بن جائے کوئی بھی عذر لنگ پیش کرکے ان پر حملہ کر دے اور وہ اپنے دفاع میں کچھ بھی کرنے سے عاجز ہوں، یہ دشمن کی خواہش ہے۔ دشمن کی اس ناحق خواہش کے مقابلے میں عالم اسلام کا عزم نمایاں ہوکر سامنے آنا چاہئے۔ یہ تو پہلا کام ہے جو انجام دیا جانا چاہئے، یہ مظلوم کی مدد کا معاملہ ہے؛ وَ لِلمَظلومِ عَونا (۵) مظلوم کے مددگار بنئے، مظلوم کی نصرت و مدد کیجئے۔ یہ مدد اور یہ نصرت تمام عالم اسلام کا فرض ہے۔ مسلم حکومتوں کے سفراء یہاں تشریف رکھتے ہیں، ہم یہیں سے مسلم حکومتوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئیے غزہ کے عوام کے لئے امداد رسانی کے مسئلے میں اور اس راستے میں صیہونی حکومت کی جانب سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کو اکھاڑ پھینکے کے مسئلے میں، متحد ہو جائیں، مل کر کام کریں اور انہیں ہر طرح کی ضروری مدد بہم پہنچائیں۔
دوسرا فریضہ ہے ان لوگوں کی مخالفت کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا جو اس ظلم، اس سنگین تاریخی ستم، اس نسل کشی، انسان کشی اور جرائم کے ارتکاب میں اس بے شرمی و بے بحیائی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ واقعی انسان ان کی اس بے حیائی پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے، یہ معصوم شہریوں کے قتل عام کی توجیہ پیش کرتے ہیں، دلائل اور بہانے لاتے ہیں، یہ کیسے بے غیرت لوگ ہیں! معصوم بچوں کے قتل، معصوم و مظلوم نونہالوں کے قتل عام کا جواز پیش کرتے ہیں، اس قدر بے شرم ہیں یہ لوگ! جو لوگ یہ جرائم انجام دے رہے ہیں، وہ تو گنہگار ہیں ہی، وہ جرائم میں ملوث ہیں لیکن وہ تنہا نہیں ہیں۔ وہ لوگ بھی ان کے شریک جرم ہیں جو آج صیہونیوں کی حمایت کر رہے ہیں، خواہ وہ امریکا اور برطانیہ وغیرہ جیسے استکباری ممالک کے حکام ہوں یا اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے جو کسی بھی طرح خواہ سکوت اختیار کرکے یا اپنے غیر منصفانہ بیانوں اور تبصروں کے ذریعے ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ تمام عالم اسلام، جملہ مسلم حکومتوں اور ساری مسلم اقوام کا فریضہ ہے کہ ان کی مخالفت کریں، ان کامقابلہ کریں، ان سے اپنی بیزاری کا اعلان کریں، ان سے اعلان نفرت کریں، اس موقف اور طرز عمل پر ان کی سرزنش کریں، یہ عمومی فریضہ ہے۔ انہیں الگ تھلگ کر دینا چاہئے، اگر ممکن ہو تو اقتصادی حربے بھی استعمال کئے جائیں، سیاسی سطح پر کارروائی کی جائے، یہ امت مسلمہ کا فرض ہے۔
ملت ایران نے بحمد اللہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان میدانوں میں عزم محکم کے ساتھ پورے قد سے کھڑی ہے، اس کو ہم ثابت کر چکے ہیں۔ اس جارحیت کے سلسلے میں اور اس خباثت اور اس دشمنی کے معاملے میں ملت ایران کوئی رواداری برتنے والی نہیں ہے، نہ ہی کسی طاقت اور سیاسی رہنما کا لحاظ کریگی، اپنی بات دو ٹوک انداز میں بیان کرتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو ایران کے عوام اس شدید گرمی میں، روزہ رکھ کر، مرد عورتیں سب پورے ملک میں سڑکوں پر نکل پڑے اور اپنی آواز ساری دنیا کے کانوں تک پہنچائی۔ یہ ضروری اور واجب عمل تھا جسے ایرانی عوام نے بخوبی انجام دیا۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ ضروری ہوگا یہ قوم اس کے لئے ثابت قدم نظر آئے گی۔ ان شاء اللہ اس قوم کے اہداف اور امت اسلامیہ کے اعلی مقاصد اللہ کی توفیقات کے نتیجے میں پایہ تکمیل تک پہنچیں گے اور دشمنوں کی آرزو ان کے دل میں ہی رہ جائے گی۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ ہمیں ہمارے فرائض سے باخبر اور ان کی انجام دہی میں کامیاب کر۔

والسّلام علیکم و رحمةالله‌ و برکاته‌

۱) من لایحضره الفقیه، جلد‌۱، صفحہ‌۵۱۲، باب صلاة العیدین، نماز عید فطر میں پڑھی جانے والی دعائے قنوت کا ایک حصہ
۲) مسالک اور جماعتیں
۳) درندگى‌
۴) علل‌الشرائع، صفحہ ۱۳۱؛ « جو شخص نئے دن کے آغاز پر مسلمانوں کے امور کی فکر نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے۔»
۵) نهج‌البلاغه، مکتوب نمبر ۴۷