1393/05/01 ہجری شمسی مطابق 27 جولائی 2014 کو تہران میں حسینیہ امام خمینی میں ڈھائی گھنٹے تک چلنے والی اس ملاقات میں طلبہ نے اپنے مطالبات، تجاویز اور طلبہ برادری کے مسائل بیان کئے۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے طلبہ برادری کی مدبرانہ و ناقدانہ اور ذمہ دارانہ سوچ، مطالبات پیش کرنے کے جذبے اور جوش و خروش کی تعریف کرتے ہوئے غزہ کے واقعات کے عوامل و اسباب کا جائزہ لیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ ناقابل تصور جرائم اس بھیڑیا صفت اور طفل کش حکومت کی ماہیت کا حصہ ہیں جس کا واحد علاج اس حکومت کی نابودی اور تباہی ہے اور اس وقت تک فلسطینیوں کی ٹھوس مسلحانہ مزاحمت اور اس مزاحمت کے دائرے میں غرب اردن تک کی توسیع اس وحشی حکومت کا سامنا کرنے کا واحد موثر طریقہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: صیہونیوں کے جرائم کی امریکا اور مغرب کی جانب سے بے شرمانہ حمایت ایک اہم تجربہ ہے جسے مغرب کے سلسلے میں اپنی سوچ، شناخت اور برتاؤ میں ہم سب کو مد نظر رکھنا چاہئے اور ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ امریکا کی اصلی ماہیت اور حقیقت یہی ہے اور ملت ایران یوم القدس کے موقعے پر اپنے پرشکوہ احتجاج سے ثابت کر دیگی کہ وہ مظلوموں کی مددگار اور ظالموں سے بر سر پیکار ہے۔
غزہ میں فلسطینی عوام کو در پیش مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ واقعات کھلے وحشی پن اور آہنی شکنجے والی پالیسی کا مظہر ہیں جو غیر قانونی اور جعلی صیہونی حکومت نے اپنی عمر کے چھیاسٹھ سال کے دوران اختیار کر رکھی ہے اور بار بار بڑے گستاخانہ انداز میں اس پر عملدرآمد اور ناز کرتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: جیسا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتے تھے، اسرائیل کو مٹ جانا چاہئے البتہ اسرائیل کی نابودی جو واحد حقیقی راہ حل ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس علاقے کے یہودی عوام کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس منطقی کام کے لئے عملی تدبیر موجود ہے جسے اسلامی جمہوریہ ایران نے عالمی اداروں میں پیش کیا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس عملی تدبیر کے مطابق جسے دنیا کی قوموں کی تائید بھی حاصل ہے، اس علاقے میں زندگی بسر کرنے والے عوام جو یہاں کے اصلی باشندے ہیں، ایک ریفرنڈم میں شرکت کرکے اپنی پسندیدہ حکومت کا انتخاب کریں اور اس طرح غاصب اور جعلی صیہونی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ البتہ فضل پروردگار سے اس بے رحم اور قاتل حکومت کی نابودی تک مقتدرانہ مقابلہ، ٹھوس اور مسلحانہ مزاحمت اس خانماں سوز حکومت کے سلسلے میں واحد مناسب روش ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌‌الله‌‌ الرّحمن‌‌ الرّحیم‌‌
و الحمد لله رب العالمین و الصلاة و السلام على سیدنا محمد و آله الطاهرین

اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ زمانے کے اس موڑ پر ہمارا ملک باایمان، جوش وجذبے سے سرشار، صاحب فکر و خرد اور کلیدی مسائل میں اپنی ایک رائے رکھنے والے نوجوانوں کی اس عظیم صنف سے بہرہ مند ہے۔ آج کی یہ نشست بڑی اچھی رہی۔ آج کی گفتگو کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ دوستوں کی ان تقاریر کی تفصیلات سے متعلق ہے جو یہاں کی گئیں۔ واقعی ان تقاریر میں بڑی اچھی باتیں اور بڑے اچھے نکات تھے۔ ممکن ہے کہ یہ حقیر کچھ باتوں سے اتفاق کرے اور کچھ باتوں سے اتفاق نہ کرے، تقاریر کے مضمون کا مسئلہ ایک الگ چیز ہے۔ قابل تعریف جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ طلبہ کے اس گروہ کے اندر جوش و جذبہ اور اپنے مطالبات پیش کرنے کی جرئت ہے۔ یہ چیز ان چند تقاریر سے بالکل نمایاں ہو گئی۔ یہ چیز بہت اہمیت رکھتی ہے۔ جو مطالبات پیش کئے گئے، ممکن ہے کہ اس میں بعض منطقی اور معقول نہ ہوں، بعض قابل عمل نہ ہوں، بعض قابل قبول نہ ہوں۔ لیکن مطالبات کو پیش کرنے کی یہ جرئت، اپنی مانگ سامنے رکھنے، اپنی فکر پیش کرنے، تنقید کرنے اور تجویز دینے کا جذبہ، اپنے آپ میں بہت پسندیدہ شئے ہے۔ البتہ تمام امور میں اخلاقیات، دیانتداری اور شرعی ضوابط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ناانصافی سے پرہیز کرنا چاہئے، قول بغیر علم یعنی ناواقفیت میں کوئی بات کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ یہ ساری چیزیں اپنی جگہ پر بالکل درست ہیں۔ تاہم جو چیز بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان طالب علم کے اندر مطالبات پیش کرنے کا جذبہ ہو اور جوش و خروش نظر آئے، ہمیشہ میدان میں سرگرم عمل اور مسائل سے باخبر رہے۔ آج بحمد اللہ مجھے یہ خصوصیات صاف دکھائی دے رہی ہیں۔
چند منٹ ہم ان نکات اور مطالب کے بارے میں بات کریں گے جو دوستوں نے اپنی تقاریر میں بیان کئے۔ پہلی بات تو یہی ہے جو میں نے عرض کی کہ مجھے اپنے ان نوجوان طالب علموں کا جوش و جذبہ دیکھ کر جن میں بیشتر طلبہ یونینوں کے نمائندے تھے، بڑی خوشی ہوئی۔ میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ان کے اندر امید و نشاط، جوش و جذبہ، مطالبات کو پیش کرنے کی جرئت صاف طور پر نظر آتی ہے۔ ان شاء اللہ یہ جذبہ اسی طرح قائم رہے گا اس وقت تک جب آپ خود آکر اہم عہدوں کو سنبھالیں گے۔ آگے چل کے ملک کے عہدیدار اور ملک کو چلانے والے آپ ہی لوگ ہوں گے۔ ان شاء اللہ آپ کے اندر یہی ناقدانہ نظر، مطالبات کو سامنے رکھنے کا یہ جذبہ فریضے اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ، اسی طرح باقی رہے گا۔ اگر ایسا ہوا تو ملک یقینا ساحل نجات تک پہنچ جائے گا۔
دوستوں نے کچھ نکات بیان کئے جو میری نظر میں بہت اہم اور قابل توجہ ہیں۔ ملکی ضرورتوں اور احتیاج کو مد نظر رکھے بغیر اور ان سے ہم آہنگی قائم کئے بغیر علمی و سائنسی تحقیقات کا مسئلہ جو کئی لوگوں نے اپنی تقاریر میں اٹھایا، بالکل صحیح بات ہے اور اس پر ہم بھی بارہا تاکید کر چکے ہیں۔ آج ہمارے ملک کے اندر، ہماری یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کے اندر علمی و سائنسی کاوشیں اور تحقیقات بڑی کامیاب، با رونق اور قابل تعریف ہیں، تاہم سب اس بات پر توجہ رکھیں کہ علم در حقیقت عمل کا مقدمہ اور تمہید ہے۔ نفع بخش علم وہی ہے جو ملک کے کام آئے اور ملک کی مشکلات کے حل میں مددگار واقع ہو۔ اگر ہمارا ریسرچ پیپر آئی ایس آئی (1) یا دیگر اداروں کی ویب سائٹ پر پبلش ہو جائے یا لوگ اس سے رجوع ہونے لگیں، تو بیشک یہ علمی قدردانی ہے لیکن ہمارا آخری ہدف یہ نہیں ہے۔ علمی کام ملکی ضرورتوں کے دائرے میں انجام پانا چاہئے۔ یہ باتیں دوستوں نے اپنی تقاریر میں کہیں، میں بھی اس پر تاکید کرتا ہوں۔ اعلی تعلیمی شعبے کے عہدیداران یہاں موجود ہیں، ان شاء اللہ وہ اس نکتے پر توجہ دیں گے۔
ایک اور اہم نکتہ جو دوستوں کی تقاریر میں موجود تھا اور بالکل صحیح بات بھی ہے لہذا میں خود بھی اس پر زور دینا چاہوں گا، وہ اقتصادی انتظامی روش اور معاشرے کی ثقافت کے باہمی رابطے کی بات ہے۔ یہ کہ انیس سو نوے کےعشرے میں اصلی یلغار اقتصادی شعبے پر تھی لیکن ہم نے ثقافتی یلغار کا مسئلہ موضوع بحث بنایا، درست خیال ہے۔ ہم اس کی تردید نہیں کرتے، لیکن ثقافت کو ہمیشہ ہمیں بنیادی اور حیاتی مسئلے کی حیثیت سے دیکھنا ہوگا اور ہر سطح پر اس پر توجہ دینی ہوگی۔ اس زمانے میں اقتصادی پالیسیوں پر بھی اعتراضات کئے جا رہے تھے۔ لیکن جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت تھی اور آج بھی بیحد اہمیت ہے ثقافتی رجحان اور سمت و جہت ہے۔ البتہ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اقتصادی پالیسیوں اور طرز عمل کا ثقافت پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح اس کی برعکس صورت حال بھی دیکھنے میں آتی ہے۔
ایک اور مسئلہ جزوی اور فروعی حیثیت سے پیش کیا گیا جبکہ میری نظر میں یہ فروعی مسئلہ نہیں بلکہ انتہائی اہم معاملہ ہے، وہ نوجوانوں کی شادی کا معاملہ ہے۔ ہمیں یہ توقع تھی کہ آپ کا یہی رد عمل ہوگا (2)، نوجوانوں کی شادی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ مجھے یہ خوف ہے کہ شادی کے مسئلے میں یہ بے اعتنائی جو بد قسمتی سے آج کم و بیش موجود ہے، آگے چل کر ملک کے لئے بڑے ناگوار نتائج کی باعث بنے گی۔ آپ نے لازمی ملٹری سرویس کا موضوع اٹھایا، میری نظر میں ملٹری سرویس کوئی دشوار مسئلہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں بھی غور کیا جا سکتا ہے، کام کیا جا سکتا ہے۔ لازمی ملٹری سرویس کو شادی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرکے اس سرویس کے دورانئے کو کم کرنا اس مشکل کا حل نہیں ہے۔ اس کے لئے دوسرے طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ ایک مشکل ہے۔ شادی کا جذبہ عملی اقدام کی منزل تک پہنچنا چاہئے۔ یعنی شادی ہونی چاہئے۔ یہ جو اللہ تعالی فرماتا ہے: اِن یَکونوا فُقَرآءَ یُغنِهِمُ اللهُ مِن فَضلِه،(۳) یہ وعدہ حداوندی ہے۔ جس طرح ہمیں اللہ کے دوسرے وعدوں پر یقین ہے اس وعدے پر بھی یقین رکھنا چاہئے۔ شادی اور گھر بسانا، اس بات کا باعث نہیں بنا ہے اور نہیں بنتا کہ افراد تنگ دستی میں مبتلا ہو جائیں۔ یعنی شادی کی وجہ سے کوئی معاشی دشواری میں مبتلا نہیں ہوتا، بلکہ شادی کی وجہ سے ممکن ہے کہ گشائش ہو۔ شادی کے مقدمات فراہم کرنے کے لئے طالب علمی کا دور بہت مناسب ہوتا ہے۔ میری نظر میں شادی کے مسئلے پر خود نوجوانوں کو، خاندان کے سرپرست اور یونیورسٹی سے متعلق عہدیداروں کو غور کرنا چاہئے، اور مناسب فیصلہ کرنا چاہئے۔ تاخیر سے شادی جو آج بد قسمتی سے رائج ہو گئی ہے اور خاص طور پر لڑکیوں میں تو یہ چیز بالکل نہیں ہونی چاہئے۔ شادی کے سلسلے میں بعض تصورات اور کچھ غلط چیزیں رائج ہو گئی ہیں، آپ یہ غلط رواج ختم کیجئے۔ یہ بھی بہت اہم چیز ہے جس پر میں تاکید کرنا چاہوں گا۔ البتہ ماضی میں بھی ایسا تھا کہ شادی کے لئے کچھ نیکوکار اور مومن افراد سامنے آتے تھے، بیچ میں رابطے کا کام کرتے تھے، مناسب لڑکوں اور لڑکیوں کے بارے میں لوگوں کو بتاتے تھے، اس طرح شادی ہو جاتی تھی۔ یہ چیز اب بھی ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں معاشرے کے اندر واقعی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دوستوں کی تقاریر میں ایک اور بھی اہم نکتہ تھا اور جو سوالات طلبہ نے مجھ سے اشارتا دریافت کئے ہیں ان میں بھی یہ نکتہ تھا۔ طلبہ سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ اگر آپ قائد انقلاب اسلامی کے ساتھ طلبہ کی ملاقات کے وقت موجود ہوتے تو کیا کہتے؟ اس پر طلبہ کے جوابات آئے ہیں، میرے پاس سو صفحات یا اس سے بھی زیادہ صفحات کی ایک کتاب لائی گئی ہے جس میں طلبہ کے نظریات درج ہیں۔ میں نے وہاں بھی دیکھا کہ یہ سوال موجود تھا (4)۔ سوال یہ تھا کہ طلب علموں اور طلبہ یونینوں کے سیاسی نظریات کو کس طرح قائد انقلاب کے نظریات سے ہم آہنگ کیا جائے؟ یہ سوال یہاں بھی الگ انداز سے پوچھا گیا۔ میری نظر میں یہ سوال بہت مناسب نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عوام الناس جو موقف یا نظریہ اختیار کریں، اسی طرح طلبہ جو ہراول دستوں میں شمار ہونے والی صنف سے تعلق رکھتے ہیں، جب کوئی موقف اپنائیں تو لازمی طور پر وہ قائد انقلاب اسلامی کے نظریات سے ماخوذ اور اسی کو منعکس کرنے والا ہو۔ یہ ضروری نہیں ہے۔ آپ ایک صاحب فکر، صاحب ایمان اور مسلمان انسان کی حیثیت سے غور کیجئے، اپنے فریضے کا احساس کیجئے، تجزیہ کیجئے افراد کے بارے میں، مکاتب فکر کے بارے میں، پالیسیوں کے بارے میں، حکومتوں کے بارے میں، آپ اپنا موقف طے کیجئے، اپنا نظریہ قائم کیجئے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ منتظر رہیں کہ کسی شخص کے بارے میں، کسی واقعے کے بارے میں، کسی کے فعل کے بارے میں یا کسی پالیسی کے بارے میں قائد انقلاب اسلامی کا موقف کیا ہوتا ہے، اب اس کے بعد آپ اسی کی بنیاد پر اپنا نظریہ قائم کریں۔ نہیں، اس طرح تو کام ٹھپ ہو جائیں گے۔ قائد انقلاب کے کچھ فرائض ہیں اور اللہ تعالی نے اگر مدد کی اور توفیقات سے نوازا تو وہ اپنے فرائض پر عمل کرے گا۔ اسی طرح آپ کی بھی ذمہ داریاں ہیں، آپ منظرنامے کو دیکھئے، خود فیصلہ کیجئے، لیکن 'معیار' تقوا ہونا چاہئے۔ تقوی سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی کی حمایت و طرفداری یا اعتراض و مخالفت میں، اسی طرح تنقید یا تعریف میں ذاتی خواہشات کے تابع نہ رہئے۔ اگر اس چیز کو آپ نے مد نظر رکھا تو پھر کسی بھی سیاسی حلقے، سیاسی واقعے یا حکومت کے بارے میں تنقید بھی ٹھیک ہے، طرفداری بھی مناسب ہے اور تعریف بھی بجا ہے۔ البتہ اگر کسی مسئلے میں اس حقیر نے رائے زنی کی ہے اور کچھ لوگ جو حسن ظن رکھتے ہیں، انہوں نے اس رائے کو قبول کر لیا تو ممکن ہے کہ یہ چیز بھی ان اسباب میں شامل ہو جائے جو کسی بھی چیز کی شناخت میں موثر ہوتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں کی اب اظہار خیال اور اپنا موقف طے کرنے کی ذمہ داری ختم ہو گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے، ہر شخص کو چاہئے کہ دیکھے، غور کرے اور اپنا جو فریضہ ہے اس پر عمل کرے۔ میں نے عرض کیا کہ تقوا کو ملحوظ رکھنا معیار ہے۔ یعنی ہمیں ذاتی خواہش سے متاثر نہیں ہونا چاہئے، اگر ہم تنقید کر رہے ہیں، اگر کسی کی طرفداری اور حمایت کر رہے ہیں، اگر کسی اقدام کی یا کسی پالیسی کی تائید یا تردید کر رہے ہیں حقیقت میں احساس ذمہ داری کے تحت اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر یہ عمل انجام دینا چاہئے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔
دوستوں میں سے ایک صاحب نے کہا کہ طلبہ کی آنکھوں سے نیند چھین لی گئی ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے، واقعی اگر ایسا ہو کہ تشویش طالب علم کو اتنا زیادہ مضطرب اور حساس بنا دے۔ ویسے میں یہ کہوں گا کہ آپ صحیح وقت پر مناسب مقدارمیں نیند ضرور لیجئے! آنکھوں سے نیند اڑا دینے کا محاورہ بڑا اچھا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہو تو ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہوگی۔ اگر واقعات کے سلسلے میں ہم اس طرح حساس رہیں گے تو اس سے ہمیں مسائل اور تغیرات کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔
میں نے جو باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے نوٹ کی ہیں وہ دو تین حصوں پر مشتمل ہیں۔ ہر حصے کے بارے میں وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے چند جملے عرض کروں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم طالب علم کو ملک و ملت کے بیدار ضمیر کا آئینہ قرار پانے والے مجموعے کا حصہ مانتے ہیں۔ امر واقعہ بھی یہی ہے۔ اگر کسی معاشرے میں طلبہ کے اندر اپنی فکری جہت ہے، تحرک اور کچھ خواہشات ہیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس معاشرے کا رجحان کیا ہے، یہ سلسلہ ساری دنیا میں ہے۔ طالب علم کا تعلق ان اصناف سے ہے جو قوم کے بیدار ذہن اور رجحان کی عکاسی کرتی ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ طالب علم در پیش مسائل اور معروضی حالات کے سلسلے میں مکمل احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا موقف طے کرے۔ اپنی پوزیشن، اپنے گرد و پیش کے حالات، اندیشوں، مواقع، مخالفین اور مخالفتوں کو صحیح طور پر پہچانے۔ البتہ ہمیں یہ توقع نہیں ہے کہ طالب علم درس و مطالعہ اور علمی کام چھوڑ کر صرف سیاسی امور میں مصروف ہو جائے۔ نہیں، یہ مراد نہیں ہے۔ ہمیں بس یہ توقع ہے کہ مسائل کو کھلی آنکھوں سے، احساس ذمہ داری کے ساتھ اور پرامید ہوکر دیکھے۔ ہمیں طالب علم سے اس بات کی توقع ہے۔
بعض مسائل جو آج ہمارے سامنے ہیں، ہمارے گرد و پیش کے مسائل ہیں، ہمارے علاقے کے مسائل ہیں۔ علاقے کے مسائل ملکی مسائل سے غیر مربوط نہیں ہیں۔ اس وقت ایک انتہائی اہم اور کلیدی مسئلہ غزہ اور فلسطین کا مسئلہ ہے۔ غزہ کے مسائل اور غزہ کے عوام پر آج جو کچھ بیت رہی ہے، ماضی میں بھی یہ یہی سب کچھ ہوا ہے، اس کا دو زاویوں سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک زاویہ تو یہ ہے کہ اس سے صیہونی حکومت کی حقیقی ماہیت ظاہر ہوتی ہے، پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت حقیقت میں کیا ہے؟ میری نظر میں یہ پہلو اتنا زیادہ اہم نہیں ہے۔ کیونکہ صیہونی حکومت ایک ایسی حکومت ہے جو اپنی غیر قانونی تشکیل کے آغاز سے ہی ننگی جارحیت و تشدد پر استوار ہے، وہ اس کا انکار بھی نہیں کرتی، شروع ہی سے ظلم و زیادتی اور استبداد کو اس نے اپنے طرز عمل کا حصہ قرار دیا، صیہونی ہر جگہ اسے بیان بھی کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں، ان کی سیاست ہی یہی ہے۔ سنہ 1948 میں اس غیر قانونی اور جعلی حکومت کی تشکیل سے لیکر اب تک 66 سال کے اس عرصے میں صیہونی حکومت کی پالیسی ہی یہ رہی ہے۔ البتہ اس حکومت کے وجود کو رسمی طور پر تسلیم کئے جانے اور استعماری طاقتوں کی طرف سے علاقے اور دنیا پر اسے مسلط کئے جانے سے قبل بھی صیہونیوں نے فلسطین میں بے شمار جرائم انجام دئے، لیکن اس 66 سال کے عرصے میں ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے بھی انہوں نے جو بھی بس میں تھا انجام دیا، اور ایک حکومت کی طرف سے عوام پر جتنے بھی مظالم کا تصور انسانی ذہن کر سکتا ہے انہوں نے ان کا ارتکاب کیا اور انہیں کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہے۔ یہ صیہونی حکومت کی حقیقت و ماہیت ہے۔ اس کا کوئی علاج بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس حکومت کا وجود ختم ہو جائے۔ صیہونی حکومت کی نابودی کا مطلب اس علاقے کے یہودی عوام کا قتل عام کرنا نہیں ہے، یعنی امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے جو یہ موقف اختیار کیا کہ اسرائیل کو نابود ہو جانا چاہئے(5) تو یہ بالکل انسان دوستانہ موقف ہے، ہم نے اس کا لائحہ عمل بھی دنیا کے سامنے پیش کر دیا، جس پر کوئی بھی کسی طرح کا منطقی اعتراض نہیں کر سکا۔ ہم نے کہا کہ جو عوام اس علاقے میں آباد ہیں اور یہیں کے رہنے والے ہیں، ان کا تعلق اسی سرزمین سے ہے، ایک استصواب رائے میں حصہ لیں، ان کی رائے دریافت کی جائے، ریفرنڈم کرایا جائے۔ اس خطے کی حکومت کا تعین ریفرنڈم کے ذریعے ہو، عوام اس کا تعین کریں، صیہونی حکومت کی نابودی کا یہ مطلب ہے، اس کا یہ لائحہ عمل ہے۔ یہ ایسا موقف ہے جس کی معقولیت کو دنیا سمجھتی ہے اور اس کا ادراک کرتی ہے، یہ ایک قابل عمل منصوبہ ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ اور بعض دیگر عالمی اداروں کے کردار کی نشاندہی بھی کی، اس پر بحث بھی ہوئی۔ یعنی یہ وحشی اور درندہ صفت حکومت جس کی پالیسی یہ ہے کہ عوام کے ساتھ سنگدلی اور بے رحمی سے پیش آئے۔ انسان کشی، طفل کشی، رہائشی علاقوں پر حملہ اور انہدامی کارروائی جس کے لئے کوئی خاص بات نہیں ہے اور جو اپنے ان اعمال کا انکار کرنے کی بھی زحمت نہیں کرتی، اس کا علاج اسے ختم اور نابود کر دیئے جانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ دن آ جائے اور یہ حکومت نابود ہو جائے تو چہ بہتر! لیکن جب تک یہ جعلی حکومت قائم ہے اور نابود نہیں ہو جاتی اس وقت تک کیا کرنا چاہئے؟ راہ علاج یہ ہے کہ اس حکومت کے مقابلے میں استقامت اور مسلحانہ مزاحمت کی جائے، صیہونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینیوں کی طرف سے قدرت و طاقت کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ کوئی اس خیال میں نہ رہے کہ اگر غزہ سے میزائلوں کے حملے نہ ہوتے تو صیہونی حکومت نرم پڑ جاتی، ایسا ہرگز نہ ہوتا۔ آپ ذرا دیکھئے کہ یہ حکومت غرب اردن کے علاقے میں کیا کر رہی ہے؟! غرب اردن میں تو کوئی میزائل نہیں ہے، کوئی ہتھیار نہیں ہے، کوئی بندوق نہیں ہے، وہاں تو عوام الناس کے پاس واحد ہتھیار پتھر کے ٹکڑے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ صیہونی حکومت وہاں کیا کر رہی ہے؟! جہاں تک دشمن کا بس چلتا ہے وہ عوام کے گھروں کو مسمار کر رہا ہے، ان کے باغات کو تباہ کر رہا ہے، عوام کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہے، انہیں ذلت و خواری میں مبتلا کئے ہوئے، ان کی توہین کرتا ہے، اگر ضرورت پڑے تو ان کی پانی کی سپلائی کاٹ دیتا ہے، بجلی کی سپلائی روک دیتا ہے، وہ تو یاسر عرفات جیسے آدمی کو بھی برداشت نہ کر پایا جنہوں نے صیہونیوں کا بہت ساتھ دیا۔ ان کا بھی محاصرہ کر لیا، توہین کی، زہر دیکر انہیں بھی ختم کر دیا۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم صیہونیوں کے سامنے طاقت کا استعمال نہ کریں تو وہ رحمدلی کا مظاہرہ کریں گے، کسی کا لحاظ کریں گے، حقوق کا خیال رکھیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اس حکومت کی نابودی سے قبل ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ فلسطینی اپنی دفاعی طاقت کو بروئے کار لائیں، اگر انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا تو اس بات کا امکان ہے کہ ان کا مد مقابل فریق یعنی یہی گرگ صفت حکومت کچھ نرم پڑے۔ چنانچہ آج آپ دیکھئے کہ جنگ بندی کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے، یعنی سراسیمگی طاری ہو گئی ہے۔ انسانوں کو قتل کرتی ہے، بچوں کی جانیں لیتی ہے، حد درجہ قسی القلبی کا مظاہرہ کرتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اندر سے کمزور بھی ہے۔ یعنی کوئی مشکل اور سخت مرحلہ در پیش ہو تو بری طرح الجھ جاتی ہے۔ چنانچہ آج جنگ بندی کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے میرا نظریہ ہے اور میرا کہنا یہ ہے کہ غرب اردن کے علاقے کو بھی غزہ پٹی کی طرح مسلح ہونا چاہئے، ان کے پاس بھی طاقت ہونا ضروری ہے۔ جن لوگوں کو فلسطین کے مستقبل سے دلچسپی اور لگاؤ ہے، اگر وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آج یہ سب سے بڑا کام ہے، وہاں کے عوام کو بھی ہتھیار فراہم کرنا چاہئے۔ فلسطینیوں کی مشکلات اور رنج و الم کو کم کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ فلسطینیوں کی طاقت میں اضافہ کیا جائے، وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکیں۔ ورنہ رام ہو جانے، اطاعت و فرمانبرادری اور معذرت خواہانہ روش سے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا نہیں ہے، اس بھیڑیئے کی خوں آشامی اور درندگی میں کوئی کمی نہیں آئیگی۔
دنیا کے عوام کا فریضہ یہ ہے کہ سیاسی حمایت کریں، اس میں تو کوئی شک و شبہ ہے ہی نہیں۔ چنانچہ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی ممالک، بلکہ غیر اسلامی ممالک میں بھی عوامی تحریکیں شروع ہو گئی ہیں۔ ان شاء اللہ یوم قدس پر دنیا ملت ایران کے با عظمت جوش و خروش کا مشاہدہ کرے گی۔ یوم قدس کے موقع پر ملت ایران ایک بار پھر ثابت کر دیگی کہ ایران کے اندر فلسطین کے لئے کیسا جوش و جذبہ موجزن ہے۔ مٹھی بھر لوگوں نے نہ غزہ نہ لبنان کا نعرہ لگاکر اس حقیقت کے برخلاف ایک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایسا نہیں ہے، ملت ایران کا یہ عقیدہ ہے کہ مظلوم کا دفاع کیا جانا چاہئے:۔ کونوا لِلظالِمِ خَصماً و لِلمَظلومِ عَوناً؛(۶) یہ ملت ایران کی مرضی اور دلی خواہش ہے جس کا ان شاء اللہ مظاہرہ کیا جائے گا۔ یہ غزہ کے قضیئے کے سلسلے میں ایک فکر اور ایک نقطہ نگاہ ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے بھی اہم میری نظر میں جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ آج استکباری محاذ اور اس میں سر فہرست امریکا ان مجرمانہ اقدامات، ناقابل بیان تشدد اور اس المیئے کی حمایت کر رہا ہے۔ میری نظر میں یہ اس قضیئے کے سلسلے میں گہرائی سے سوچنے کا پہلو ہے، یہ بہت اہم ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج مغرب کی تسلط پسند طاقتیں یعنی مغرب کی چند دولتمند حکومتیں جن میں سر فہرست امریکی حکومت ہے اور اس کی پشت پر خبیث برطانوی حکومت ہے، یہ سب ظالم، غاصب اور سنگ دل صیہونی حکومت کی حمایت میں مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے۔ کھلے عام حمایت کر رہی ہیں۔ کس چیز کی حمایت کر رہی ہیں؟ اس انسانی المئے کی حمایت کر رہی ہیں جس کو کوئی بھی منصف مزاج انسان اور کوئی بھی عام آدمی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ایک چھوٹا سا علاقہ، غزہ نام کی بالشت بھر زمین اور اس پر جنگی جہازوں، میزائلوں، زمینی فوج اور ٹینکوں کے یہ حملے! ان عوام کے خلاف گوناگوں اقسام کے ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں، واقعی یہ بڑی حیرت انگیز چیز ہے۔ اتنے سارے بچے قتل کر دئے جائیں، اتنے سارے گھر مسمار کر دئے جائيں، لوگوں کی خود اپنے گھر اور وطن میں زندگی اتنی تلخ اور اذیت ناک بنا دی جائے! اور یہ صاحبان اس کی حمایت کریں، اس کا دفاع کریں۔ کس منطق اور کس دلیل کے تحت؟! امریکی صدر کی مضحکہ خیز دلیل کے تحت جو یہ فرماتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنی سلامتی کا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے؟! تو کیا فلسطینیوں کو اپنی سیکورٹی کے دفاع کا حق نہیں ہے؟ کیا یہ دلیل اور عذر قابل قبول ہے کہ کوئی حکومت کسی چیز کو اپنی سیکورٹی فرض کر لے اور پھر اس کے دفاع کے نام پر ان بے گناہ عوام کی جان کو آ جائے جو اس کے مکمل محاصرے میں ہیں؟ اس دلیل اور عذر لنگ کے بارے میں تاریخ کیا فیصلہ کریگی؟ اس سامراجی ملک کے عہدیدار سمجھ نہیں رہے ہیں کہ ان کی اس حمایت کی وجہ سے کیا ہو رہا ہے؟ وہ خود اپنی، اپنے ملک اور اپنی حکومت کی عزت و آبرو کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں! بڑی بے شرمی سے کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ ہم تو اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں، علاقے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس حقیقت کی طرف ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کرتے۔ نہیں بتاتے کہ اس خطرناک اور تخریبی عنصر (اسرائیل) کے ہاتھوں کیسا بھیانک المیہ رقم کیا جا رہا ہے؟!
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج لبرل ڈیموکریسی کا نقطہ نگاہ یعنی وہ فکری نظام جو اس وقت مغربی ممالک میں نافذ ہے، اس میں اخلاقیات کی ہلکی سی بھی رمق نہیں ہے۔ اخلاقی اقدار کی اس میں کوئی جگہ نہیں ہے، اس کے اندر انسانیت اور انسانی جذبے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے وہ خود کو رسوا کر رہے ہیں، آج دنیا کی اقوام کی نگاہ میں بھی اور آئندہ نسلوں کی نگاہ میں بھی جو اس بارے میں فیصلہ کرنے والی ہیں۔ ہمیں اس چیز کو اہم تجربے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور امریکا کو اس کی روشنی میں پہچاننا چاہئے۔ یہ ہے امریکا اور یہ ہے لبرل جمہوریت پر استوار نظام۔ اس چیز کا ہمارے اقدامات میں، ہمارے برتاؤ میں، ہمارے فیصلوں میں اثر پڑے گا اور بیشک اثر پڑنا بھی چاہئے۔ آج اسلامی جمہوریہ کے مد مقابل جو محاذ کھڑا ہے اور مختلف مسائل اور امور میں اسلامی جمہوری نظام کے لئے مشکلات کھڑی کرتا ہے وہ یہی امریکا ہے اور یہ اس کی حقیقت ہے، یہ اس کی اصلی ماہیت ہے۔ انسانوں کے قتل عام پر، بے گناہ اور بے سہارا لوگوں کے قتل عام پر کچھ بولنا تو در کنار الٹے اس ظالم کا دفاع کر رہا ہے جو اتنے بھیانک جرائم انجام دے رہا ہے، جو غزہ میں انجام پانے والے وحشیانہ جرائم کا ذمہ دار ہے۔ یہ چیز ہمیشہ ہماری نظر میں ایک معیار اور کسوٹی کی حیثیت سے محفوظ رہنا چاہئے۔ یعنی ملت ایران، نظریاتی ادارے، ہمارے طلبہ، روشن خیال افراد اور دانشور اسے کبھی فراموش نہ کریں۔ یہ ہے امریکا۔ یہ ہے مغربی طاقتوں کا نظام اور اس کی فکری بنیادیں جو لبرل دیموکریسی سے عبارت ہیں۔ یہی محاذ آج اسلامی جمہوری نظام کے مقابلے میں کھڑا ہے۔
آج انسانی حقوق کے سلسلے میں پوری طرح بے اعتنائی برتنے والے سیاستداں یہی ہیں جو ان ملکوں میں حکومت کر رہے ہیں۔ انسان، انسانی حقوق، بشر اور بشریت سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ غزہ کے بحران اور اس جیسے دیگر معاملات میں ان کا رویہ اس بات کی محکم دلیل ہے۔ نہ انہیں انسانی حقوق پر یقین ہے، نہ وہ انسانی وقار اور انسان کی عزت و آبرو پر کوئی عقیدہ رکھتے ہیں، وہ کسی چیز کو نہیں مانتے۔ واحد چیز جو انہیں عزیز ہے اور جسے وہ دل سے پسند کرتے ہیں وہ پیسہ اور طاقت ہے، اس کے علاوہ ان کی کوئی نہ سوچ ہے نہ فکر۔ آزادی، انسانی حقوق اور اس جیسے دیگر مسائل کے بارے وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ سب آزادی کا مذاق اور انسانی حقوق کی تضحیک ہے۔
ہم یہ باتیں امریکا، امریکی صدر اور امریکی حکام کو نصیحت کے طور نہیں کہہ رہے ہیں۔ یہ باتیں ہم اپنے لئے کر رہے ہیں کہ اپنے تجزیوں میں، اپنے فیصلوں میں اور اپنے اقدامات میں ہمیں پہلے سے یہ انداوہ رہے کہ کس قماش کے لوگوں سے ہمارا واسطہ ہے، ہمارے سامنے جو لوگ ہیں کس طرح کے افراد ہیں، ان کی سوچ کیا ہے؟ اس طرح ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ کیسی روش اختیار کی جائے۔ یہ بہت اہم ہے کہ ہمارے ذہن میں مغرب کے آج کے روئے کا صحیح تجزیہ اور اس کے بارے میں صحیح سمجھ ہو۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے ان کا مقابلہ، اسلامی انقلاب سے ان کا تصادم، اسلامی تحریک اور اسلامی بیداری کے سلسلے میں ان کی مخالفت ان کی دراز مدتی پالسی کا حصہ ہے۔ سامراجی محاذ کی دراز مدتی پالیسی یہ ہے کہ قوموں کو غلام بنا لیا جائے، ان کے مستقبل کو اپنے چنگل میں جکڑ لیا جائے اور قوموں کے مفادات اور خواہشات پر کوئی توجہ نہ دی جائے۔ یہ عالمی استکبار کی دراز مدتی پالیسی ہے۔ اس پر توجہ رہنا چاہئے۔ امریکا مخالف نعرے، مغرب مخالف نعرے اور استکبار کے خلاف نعرے جو ہمارے وطن عزیز میں گونجتے ہیں، اسی حقیقت کا شاخسانہ ہیں۔ امریکا مخالف نعرے اور مغرب کے خلاف نعرے سن کر کوئی اس تصور میں نہ پڑے کہ یہ بغیر کسی منطقی وجہ کے ایک تعصب آمیز عمل انجام دیا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اسلامی انقلاب میں امریکا مخالف سوچ اور مغرب مخالف نقطہ نظر ایک صحیح تجربے پر استوار نقطہ نظر ہے، ایک منطقی اور معقول سوچ پر استوار ہے، بالکل صحیح اندازے اور تخمینے پر استوار ہے۔ میں نے اس دن یہیں پر ملک کے کارکنوں، اہلکاروں اور عہدیداروں سے اپنی ملاقات میں (7) میں کہا کہ دشمن کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ ہمارے فکری مراکز اور اسٹریٹیجک اداروں میں خلل ایجاد کر دے۔ جب اندازے اور تخمینے لگانے والے فکری مراکز میں خلل پڑ جائے گا تو صحیح اعداد و شمار سے بھی غلط نتیجہ نکلے گا۔ یعنی پھر تجربات کا بھی کوئی اثر باقی نہیں رہ جائے گا۔ جب اندازے اور تخمینے لگانے والا نظام ہی صحیح کام نہ کر رہا ہو تو پھر تجربات کا بھی کوئی فائدہ نہیں مل پاتا۔
آپ غور کیجئے، ہمارے اپنے ملک میں، گزشتہ سو سال، اسی نوے سال کے دوران مغرب والوں اور مغربی تہذیب و ثقافت کے علمبرداروں کا کیا رویہ رہا؟ مغرب سے چوٹ کھانے کے تجربات کی ہمارے پاس کمی نہیں ہے۔ ملک میں کچھ مغرب نواز، مغرب زدہ یا مغرب کے دلدادہ روشن خیال افراد جو آنکھوں کے سامنے ان تجربات کے موجود ہونے کے باوجود ان سے سبق نہیں لیتے، انہوں نے دیکھا ہے کہ مغربی حکومتوں نے رضاخان کو لاکر ہمارے ملک پر مسلط کر دیا، برطانیہ کے ذریعے اس ملک میں عجیب و غریب رضاخانی ڈکٹیٹرشپ قائم ہوئی۔ اس ملک پر ایک مستبد، بے عقل اور ملکی اقدار اور شناخت سے بے خبر شخص کو مسلط کر دیا۔ پھر انیس سو چالیس کے عشرے میں انہیں طاقتوں ںے ایران پر قبضہ بھی کر لیا، بلکہ ایک طرح سے انہوں نے ایران کو آپس میں تقسیم کر لیا۔ وہ تیل بھی لے گئے، اس ملک پر غیر منصفانہ معاہدے بھی مسلط کر گئے، انہوں نے ہی 19 اگست کی بغاوت بھی کروائی اور ایک قومی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جو تمام تر عیوب کے باوجود یہ مثبت پہلی رکھتی تھی کہ عوامی رائے کی بنیاد پر تشکیل پائی تھی۔ اس حکومت کو نابود کر دیا۔ انہوں نے ہی تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک کو منحرف کر دیا اور قدرتی ذخائر پر دوبارہ قابض ہو گئے۔ انہوں نے ہی طویل عرصے تک ایران پر محمد رضا کی آمرانہ حکومت مسلط رکھی اور اس کی بے دریغ حمایت کی۔ ملک میں محمد رضا کی تیس سال سے زیادہ عرصے کی حکومت کے دوران، ملک کی مادی و معنوی دولت نیلام کی جاتی رہی، قوم کو جاں بلب کرکے رکھ دیا۔ لوگوں کو غربت کی زنجیروں میں جکڑے رکھا، جہالت کی تاریکی میں محبوس رکھا، ملک کے تمام شعبوں اور اداروں میں کرپشن پھیلا دیا۔ ملکی ثقافت کو، عوام کے دین و مذہب کو، سب کو تباہ کر دیا۔ یہ سب کچھ انہیں مغربی حکومتوں کی حمایت و پشت پناہی سے ہوا۔ ملت ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے، ایرانی عوام کی تحریک کا راستہ روکنے کے لئے ان سے جو بھی بن پڑا انہوں نے کیا۔ صدام کی مدد کی، انہی مغربی حکومتوں نے، اسی برطانیہ نے، اسی امریکا نے، اسی فرانس نے کیمیائی بم دیئے، اسے گوناگوں عسکری وسائل فراہم کئے۔ یہ سب ہمارے تجربات ہیں۔ مغرب زدہ روشن فکر افراد کے اندازوں اور تخمینوں کا نظام چونکہ مختل ہو جاتا ہے لہذا ان تجربات سے سبق نہیں لیتا، ان سے استفادہ نہیں کرتا، اس کی بنیاد پر نتیجہ اخذ نہیں کرتا۔
اسلامی انقلاب کی ایک اہم ترین خدمت اور کامیابی یہ رہی کہ اس نے ملک کے اندر عقلی بنیادوں پر کام کرنے کی روش کا احیاء کیا۔ آپ جیسے نوجوان طلبہ اگر علاقائی مسائل کا آج تجزیہ کرنے کے عادی ہیں، مسائل کی موشگافی کرتے ہیں، دشمن کی نشاندہی کرتے ہیں، علاقائی مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں اور پھر اس پر قائم رہتے ہیں، تو یہ ملک کے اندر عقلی بنیادوں پر کام کرنے کی روش کی علامت ہے۔ یہ چیز ہمیں انقلاب سے ملی ہے۔ دریں اثنا کچھ افراد ایسے ہیں جو اسی پہلے والی حالت پر لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ تمام مغرب زدہ حلقے، وہ حلقے جو مغرب کے گرویدہ ہیں، قوم کی تحقیر کرتے ہیں، ملک کے اندر موجود چیزوں کی تحقیر کرتے ہیں، قومی شناخت اور ثقافت کی تحقیر کرتے ہیں، مغرب کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہی مغرب والے پھر آئیں اور تمام ملکی امور، ثقافت اور پالیسیوں کے بارے میں معیار طے کریں اور کسوٹی متعارف کرائیں۔ یہ جو مٹھی بھر افراد ملک کے باہر، ملت ایران کے انہیں دیرینہ دشمنوں کے زیر سایہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کام کر رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں وہی غفلت کا عالم، لا علمی کے عالم میں فیصلے کرنے کی روش اور وہی گمراہ کن شیطانی طرز عمل دوبارہ بحال ہو جائے۔ ایسے افراد کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ موجودہ روش اور پیشرفت کا انداز عقلی بنیادوں پر استوار ہے۔ میں خاص طور پر طلبہ کے سلسلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا، یہ سفارش کروں گا کہ عزیز طلبہ علمی سرگرمیوں کے ساتھ ہی ساتھ دینی مسائل کے بارے میں بھی اور گوناگوں سیاسی امور کے بارے میں بھی اپنا مطالعہ بڑھائيں، معلومات کو مستحکم بنائیں۔ اپنے اندر تجزیئے کی صلاحیت بڑھائيں۔ البتہ آج میں نے طلبہ کے جو بیان سنے ان میں بڑے اچھے اور نمایاں نکات تھے۔ یعنی واقعی یہ بڑی خوشی کا مقام ہے اور اس پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ تاہم اس میدان میں جہاں تک ممکن ہو آپ کام کیجئے۔ آج تو میں ملک کے گوناگوں مسائل پر بحث نہیں کر سکا، ان مسائل پر گفتگو اب طلبہ سے آئندہ ہونے والی ملاقات میں یا دیگر طبقات سے ہونے والی ملاقاتوں میں ہوگی اور کچھ باتیں عرض کروں گا۔ تاہم اتنا ضرور کہوں گا کہ طالب علوم کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے گوناگوں مسائل کے سلسلے میں، سماجی مسائل کے بارے میں، اقتصادی مسائل کے سلسلے میں اور سیاسی مسائل کے تعلق سے اپنا تجزیہ اور نظریہ رکھتے ہوں اور عوام الناس کو اس سے آگاہ کریں۔ یعنی عوام کو طلبہ کے تجزیوں اور تبصروں سے فائدہ پہنچنا چاہئے، طالب علم کی تجزیاتی صلاحیت ایسی ہونی چاہئے۔ اس کا دارومدار مطالعے پر ہوتا ہے، لہذا مطالعہ کیجئے، آپس میں بحث کیجئے۔ جو باتیں دوستوں نے یہاں بیان کیں ان میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا فیصلہ خود طلبہ کی نشستوں میں اور طلبہ کی آزاد بحثوں میں ہو۔ میں نے یہ نکات نوٹ کر لئے ہیں۔ ہم نے آزاد اندیشی کے پلیٹ فارم کی تشکیل کا موضوع اٹھایا، اس کا تقاضا ہی یہ ہے کہ یونیورسٹی کے ماحول میں طلبہ آزادانہ بحث کریں۔ بہت سی باتیں جو دوستوں نے یہاں بیان کی ہیں، ان سے آگے کی حکمت عملی کا راستہ واضح ہوتا ہے۔ (متعلقہ حکام کو چاہئے کہ) طلبہ کی اس گفتگو کے مثبت اور منفی نکات کو سمجھیں۔
ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا کہ طلبہ کے درمیان بحث و مباحثہ اچھی چیز ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مخالف رائے رکھنے والے کی بات کو برداشت کرنے کی توانائی ہو۔ اگر کوئی مخالف رائے رکھتا ہے تو اس پر بہت حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے، غضبناک ہونے کی ضرورت نہیں ہے، انسان کو اس پر فکرمند نہیں ہونا چاہئے۔ مخالف رائے نظر آئے تو ان تینوں مذکورہ حالتوں میں کوئی بھی طاری نہیں ہونی چاہئے۔ اگر انسان کو مخالف رائے پر حیرانی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہے اور اسے اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ کوئی اس سے اختلاف رائے بھی کر سکتا ہے۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟! کوئی بھی انسان ہو، کوئي بھی فکر ہو، کوئی بھی رخ ہو، کوئی بھی فیصلہ یا حلقہ ہو اس کی مخالفت کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مخالفت کرنے والے یقینا غلطی پر ہوتے ہیں۔ کچھ خامیاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے کچھ لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ لہذا مخالفت کرنے والے کو دیکھ کر ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہئے۔ اسی طرح ہمیں مخالفت پر خشمگیں بھی نہیں ہونا چاہئے، غصہ نہ ہوں کہ کیوں ہماری مخالفت کی گئی۔ نہیں، مخالفت کوئي ناقابل فہم چیز نہیں ہے، قابل قبول چیز ہے۔ اس پر گھبرانا بھی نہیں چاہئے، مخالف نظریہ دیکھ کر گھبرا جانے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے موقف کی درستگی اور استحکام کی بابت مطمئن نہیں ہے۔ ہمارے پاس منطقی روش ہے ہم اس منطقی روش کی بنیادوں کو مستحکم کریں، بحث و مباحثے میں حصہ لیں، بحث کریں۔ طلبہ کے اندر یہ جذبہ ہونا چاہئے۔ بنابریں اس وقت طلبہ کا جو ماحول ہے وہ اسی جوش و جذبے کے ساتھ جاری رہے، لوگ ایک دوسرے کے خیالات کو تحمل کریں، آپس میں بات کریں، بحث کریں، بنیادوں کو مضبوط بنائیں، عملی میدان میں اپنے جملہ اقدامات کے لئے تقوا کو بنیاد قرار دیں اور فکری میدان میں اسلامی حدود کو محلوظ رکھیں، دشمن کی شناخت رکھیں اور اس کی جانب سے استعمال کی جانے والی معاندانہ روشوں سے باخبر رہیں۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو کامیابیاں عطا کرے، انقلاب کے اہداف کی تکمیل کے لئے آپ نوجوانوں کی حفاظت کرے، آپ کی توفیقات میں روز بروز اضافہ کرے اور آپ سارے نوجوان اپنے انقلاب کے لئے اور اپنے وطن کے لئے اچھے مستقبل کے ضامن بنیں۔

و السلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌‌

۱) انسٹی ٹیوٹ فار سائنٹیفک انفارمیشن آئی ایس آئی
۲) طلبہ نے اظہار مسرت کیا
۳) سوره‌‌ نور، آيت نمبر 32 کا ایک حصہ جس کا ترجمہ ہے: اگر وہ تنگ دستی میں ہیں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے مستغنی بنا دے گا۔
۴) ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے اپنے قارئین سے یہ سوال پوچھا تھا کہ اگر آپ قائد انقلاب اسلامی سے طلبہ کی ملاقات میں موجود ہوتے تو قائد انقلاب اسلامی کے سامنے کیا اہم نکات پیش کرتے؟ پورے ملک سے اس سوال کے جواب آئے جو ایک کتاب کی شکل میں قائد انقلاب اسلامی کی خدمت میں پیش کئے گئے۔
۵) صحیفه‌‌ امام، جلد ۱۵، صفحہ ‌‌۱۳۰
۶) نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کے مکتوب نمبر 47 سے ماخوذ
۷) ملک کے اعلی عہدیداروں سے قائد انقلاب اسلامی کا خطاب مورخہ 16 تیر 1393 مطابق 7 جولائی 2014