بسم الله الرّحمن الرّحیم
سب سے پہلے تو میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ اس حقیر کے لئے انتہائی شیریں اور دلنشیں واقع ہونے والی نشستوں میں سے ایک ہے۔ اس دسترخوان سے ہم ہمیشہ اس طرح اٹھتے ہیں جیسے کوئی انسان ایسے پر تکلف دسترخوان سے اٹھے جس پر انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوں لیکن معدے کی گنجائش اور شکم سیری اس کی اجازت نہ دے کہ ان ساری غذاؤں کو نوش کرے، نتیجتا شکم سیر تو ہو جائے مگر مزید رغبت و تشنگی کے باوجود اٹھنا پڑے۔ گنجائش ختم ہو چکی ہے لیکن آپ کا کلام سننے کی رغبت اور اشتہا ابھی باقی ہے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ انسان آج دیکھتا ہے کہ بحمد اللہ ملک میں شعر و سخن کا سلسلہ اور شعراء کی صنف روز بروز ارتقائی عمل طے کر رہی ہے۔ آج کی اس محفل کے اشعار کا، دس سال قبل اور بارہ سال قبل کی محفلوں کے اشعار سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ بحمد اللہ بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔
امام حسن علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس محفل میں موجود بعض دوستوں نے اس عظیم ہستی کا ذکر کیا (1)۔ ہم با برکت شبہائے قدر کی آمد کو بھی یاد کریں گے۔ شبہائے قدر کی منزلت کو سمجھئے، یہ بڑا باعظمت دریچہ ہے جو ہمارے اور آپ کے لئے کھلتا ہے۔ ہم اس دریچے سے بہنے والی مقدس روحانی باد نسیم کے سامنے خود کو پہنچا سکتے ہیں اور اس سے بہرہ یاب ہو سکتے ہیں۔ آپ سب سے یہ حقیر دعا کا متمنی ہے۔ خدا آپ سب کو کامیاب کرے۔
چند جملے شعر کی بابت عرض کرنا چاہوں گا۔ شعر در حقیقت شاعر کے افکار، شاعر کے احساسات، شاعر کی قلبی واردات، شاعر کی باتوں اور مافی الضمیر کا آئینہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے شاعر کو ایسی قوت عطا کی ہے جس کی مدد سے وہ حروف و کلمات کی بندش کے ذریعے، مناسب آہنگ اور شائستہ و اثر انگیز انداز میں اپنے افکار کو، اپنے نظریات کو، اپنے احساسات کو، اپنی دلی واردات کو بیان کرتا ہے۔ اسے کہتے ہیں شعر۔ بنابریں شعر کا سب سے پہلا استعمال یہ ہے کہ وہ شاعر کی باطنی چاہت اور پیاس کو تسکین دیتا ہے۔ یہ شاعر کی ایک معنوی تخلیق ہے جو کچھ مفاہیم کو، کچھ معانی کو اور کچھ حقائق کو اپنے باطن کی گہرائیوں سے نکال کر باہر لاتی ہے اور وہ اپنی قلبی بے چینی کو بیان کرتا ہے۔ لہذا اگر شاعر شعر کو اپنا درد بیان کرنے، اپنی فکرمندی اور دلی کیفیت کو منعکس کرنے کا ذریعہ قرار دے تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ شعر کی فطری اور اولیں شکل ہی یہی ہے۔ شاعر کلمات کی مدد سے اپنی باطنی کیفیت کو بیان کرتا ہے، لیکن یہ شعر کی با عظمت افادیت نہیں ہے۔ شعر کا عظیم افادی پہلو وہ اثر ہے جو آپ کے شعر سے، سننے والوں پر مرتب ہوتا ہے۔ آپ اپنے اس شعر سے سننے والوں کی باطنی دنیا میں اپنی جگہ بناتے ہیں۔ ہر انسان کی اپنی باطنی دنیا ہوتی ہے، یہ انسان کی خصوصیت ہے، ہر انسان کا ایک باطن ہوتا ہے، رازوں کو محفوظ رکھنے کی ایک خلوت گاہ ہوتی ہے، ان کے پاس ایک خودی ہوتی ہے۔ آپ اپنے اشعار کی مدد سے اس خلوت گاہ میں وارد ہو جاتے ہیں، اس باطنی دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسے غذا فراہم کرتے ہیں۔ یہ شعر کا انتہائی اہم استعمال اور افادی پہلو ہے۔ آپ انسان کی اس خلوت گاہ میں، اس کے انتہائی خاص اور نجی لمحات کو، جو آپ کا مخاطب واقع ہوا ہے، اس مرحلے، اس منزل اور انسانی وجود کے اس مقام پر اپنے اشعار کی مدد سے شاداب، پاکیزہ، منزہ، لطیف اور امید و نشاط سے بھرپور قائم رکھ سکتے ہیں۔ اسے آپ فکری غذا فراہم کر سکتے ہیں، اس کی رہنمائی کر سکتے ہیں، کیونکہ انسان کی خلوت گاہ در حقیقت اس کا تدبر و تفکر کا گوشہ ہے۔ ہر انسان کے وجود میں ایک فکری گوشہ ہوتا ہے۔ اب اگر آپ کے شعر میں وہ رسائی و نفوذ کی قوت پیدا ہو گئی اور وہ اس فکری گوشے تک، انسانوں کی ذہنی خلوت گاہ تک پہنچ جانے میں کامیاب ہوا تو آپ کے یہ اشعار ان انسانوں کے فکری گوشے کی مستقل بنیاد قرار پا سکتے ہیں۔ یہ آپ کے اشعار کا انتہائی اہم افادی پہلوی ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ کیونکہ یہی خلوت گاہ اور یہی گوشہ فکر انسان کی جلوت (2) اور ظاہری شکل کی تعمیر میں موثر ہوتا ہے۔ انسان کے نظریات اور اہم فیصلے اسی فکری گوشے اور اسی خلوت گاہ میں پروان چڑھتے ہیں۔ اسی فکری گوشے اور اسی خلوت گاہ سے انسان اپنا صحیح یا غلط سفر شروع کرتا ہے اور اچھے یا برے راستے پر قدم رکھتا ہے۔ یہ ادراک کرنے اور فیصلہ کرنے کا مقام ہے، یہ انسان کے اصلی تشخص کی تشکیل کی جگہ ہے۔ آپ اس جگہ پر خود کو پہنچا سکتے ہیں اور اپنا اثر ڈال سکتے ہیں۔ یہ شعر کا انتہائی اہم استعمال ہے۔ یہ خلوت گاہ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ آج شیطانی قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ انسانوں، اپنے مخاطب افراد، عوام الناس اور اقوام کے اس فکری گوشے اور اس خلوت گاہ میں دراندازی کریں۔ ان میں اپنی بعض اقدار اور عادات و اطوار کو جا گزیں کر دیں، بلکہ اسے اپنے اقدار اور اپنے افکار کی گرفت میں لے لیں۔ اگر آپ اپنے اندر یہ ہنرمندی پیدا کر سکیں اور ایسا قبول عام حاصل کر سکیں کہ آپ کو آپ کے مخاطب افراد کی فکری وادی اور فکری گوشے میں جگہ مل جائے اور آپ اس جگہ کو روحانیت اور ایسے جذبات سے پر کر دیں جو انسان کے اندر امید و نشاط پیدا کرتے ہیں اور اسے متحرک ہونے اور آگے بڑھنے پر آمادہ کرتے ہیں تو گویا آپ نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ہمارے بزرگ شعراء سیکڑوں سال سے یہ مہم انجام دیتے آ رہے ہیں۔ آپ غور کیجئے! شیخ سعدی، مولانا روم، حافظ، فردوسی اور خاقانی ہماری معنوی دنیا میں، ہمارے ذہن و خیال میں موجود ہیں۔ سیکڑوں سال سے ہمارے معاشروں کی فکری دنیا پر ان کا مکمل اثر و نفوذ رہا ہے۔ انہیں ہستیوں نے قومی ثقافت کی اصلی تصویر اور تشخص کو قائم رکھا ہے اور ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کیا ہے۔ آج یہ عظیم ذمہ داری ہمارے شعرا کے دوش پر ہے۔ اگر انسانوں کے اس فکری گوشے اور اس خلوت گاہ کو محفوظ کر لیا جائے اور آپ کی صنف اس سلسلے میں موثر انداز میں اپنا رول ادا کر سکے تو سماجی اصلاحات کے سلسلے میں پرامید ہوا جا سکتا ہے۔ سماجی مسائل کو بھی اس طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ یعنی انسانوں کی اگر باطنی اور اندرونی طور پر اصلاح ہو گئی، انہیں صحیح سمت مل گئی، ان کے اندر جذبات متحرک ہو گئے، امید کی کرن جاگ اٹھی، نشاط کا جذبہ بیدار ہو گيا تو یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ برائیوں کی اصلاح ہوگی اور سماجی آداب و اطوار اپنی صحیح جگہ حاصل کر لیں گے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جو آپ شعراء حضرات کے لئے بہت قیمتی موقع بھی ہے۔ میرا تو ماننا یہ ہے کہ شعر و سخن کا یہ ہنر اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو خاص عطیہ ہے۔ کیونکہ بہت سے افراد ایسے ہوں گے جو اچھی فکری صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن یہ کارآمد ہنر ان کے پاس نہیں ہے، ان کے پاس یہ شائستہ اور احاطہ کر لینے والی آواز اور انداز نہیں ہے کہ اپنی فکر و نظر کو بآسانی منتقل کر سکیں۔ آپ کے پاس آواز ہے، اگر آپ اسے بنحو احسن بروئے کار لا سکیں تو میری نظر میں یہ بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔
شعر کے سلسلے میں ایک اور اہم پہلو اس کی سماجی تاثیر ہے۔ شعر در حقیقت قومی تشخص کا محافظ ہے، قومی شناخت کا پاسباں ہوتا ہے۔ قوموں کے تشخص سے مراد ہے ان کی ثقافتی خصوصیات اور ثقافتی اوصاف۔ یہ چیزیں کسی بھی قوم کے ثقافتی تشخص کو وجود عطا کرتی ہیں۔ یہ ثقافتی تشخص، بنیاد کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر کسی قوم سے یہ تشخص لے لیا جائے تو وہ قوم مٹ جائے گی۔ حقیقت میں نابود ہو جائے گی۔ ممکن ہے کہ کسی جغرافیائي محل وقوع میں اس کا وجود باقی رہے لیکن اس کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی، وہ موجود تو ہوگی لیکن اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہوگا۔ ثقافتی تشخص کسی بھی جماعت اور قوم کی زندگی کا درجہ رکھتا ہے۔ شعر اس ثقافتی تشخص کو تقویت پہنچاتا ہے، اسے غذا فراہم کرتا ہے، اسے سنوارتا ہے، اگر ثقافتی تشخص کے سلسلے میں ہم اپنی تاریخ کے شعراء کو دیکھتے ہیں جو شہرہ آفاق ہیں، تو ہم پاتے ہیں کہ ان کے پیغامات بڑے قیمتی ہیں۔ ان میں توحید کا پیغام ہے، اللہ پر یقین رکھنے کا پیغام ہے، نیکوکار بننے کا پیغام ہے، واقعی اس موضوع پر جو منظوم کلام ہے وہ انتہائی حیرت انگیز بھی ہے۔ حقیر کو دیگر اقوام کے اشعار کا علم نہیں ہے، بعض کے بارے میں کچھ معلومات ہیں۔ مگر واقعی فارسی شعر، بوستان سعدی، فردوسی کا شاہنامہ، نظام کا مخمس، دیوان حافظ، مولانا روم کی مثنویاں، حکمت آمیز باتوں سے معمور ہیں، حقیقت میں حکمت آمیز باتیں ان میں موجزن نظر آتی ہیں، ان کتب میں اعلی افکار اور انتہائی ممتاز خیالات کے موتی رکھے ہوئے ہیں۔ یہ چیزیں ہماری قوم کے تشخص کو متعارف کرانے میں کامیاب رہی ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے پاس آج جو امتیازات و افتخارات ہیں وہ اسی ثقافتی تشخص کی دین ہیں۔ اگر یہ ثقافتی تشخص نہ ہوتا تو ہمارا انقلاب کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پاتا۔ اگر یہ ثقافتی تشخص نہ ہوتا تو امام خمینی جیسا قائد جس نے ایک تحریک شروع کی اور پھر اسے منزل مقصود تک پہنچایا، وجود میں نہ آ پاتا۔ ہمارے عظیم الشان قائد اسی ثقافت کا ثمرہ تھے۔ یہی ثقافتی تشخص معاشرے میں امام خمینی جیسی شخصیت کی پرورش کرتا ہے، لہذا اس کی حفاظت کرنا چاہئے۔ اس کی حفاظت آپ کے ہاتھوں سے ہو سکتی ہے۔ شاعری کو اس کا محافظ ہونا چاہئے۔ یہ تشخص در حقیقت وہی روحانی معقولیت ہے جس پر ہم تاکید کرتے رہے ہیں، ہم نے روحانی معقولیت اور معاشرے کی اجتماعی فکر و خرد پر تکیہ کیا ہے۔ ثقافتی تشخص در حقیقت یہی معقولیت اور اجتماعی فکر و خرد ہے۔ آپ اپنی شاعری میں اسے ملحوظ رکھئے، اس کی حفاظت کیجئے۔ اعلی اسلامی اخلاقیات کو، روحانی و الوہی و اسلامی حمکت کو، توحید کے عقیدے کو، اللہ پر توکل کو، انصاف اور صداقت کو اسی طرح ان تمام اوصاف کو جو فارسی کے قابل فخر اشعار میں موجود ہوتے ہیں آپ مد نظر رکھئے۔ اگر یہ جذبہ آج کے شعرا میں پیدا ہو جائے اور اس پر توجہ دی جائے تو اس مرکزی سرمائے پر ہونے والے حملوں کو وہ بآسانی دیکھ سکیں گے۔
بعض لوگوں کے یہاں یہ مشکل ہے کہ وہ بیرونی یلغار کو دیکھ ہی نہیں پاتے، سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اس بات کا انہیں قطعا احساس و ادراک نہیں کہ ایک محاذ موجود ہے جو ہماری قوم کے ملی، اسلامی و ثقافتی تشخص کو ختم کر دینے کے در پے ہے۔ اتنی علامتیں، نشانیاں اور آثار ہیں مگر وہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ شاعر کہتا ہے؛
وین گلّه را نگر که چه آسوده میچرد(3)
آسودہ خاطر ہوکر گھاس چرنے میں مصروف ہیں، بالکل متوجہ نہیں ہیں۔ ان کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے۔ شاعر چونکہ فنکارانہ مزاج رکھتا ہے اور اسی وجہ سے اس کی نگاہیں بہت تیز ہو جاتی ہیں، جب اس کے اندر یہ تشویش ہے اور یہ درد ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس یلغار کو فطری طور پر ضرور محسوس کر لیگا اور پھر اس حملے کا سد باب کرنے کی فکر میں لگ جائے گا۔ یہ بہت بڑا اور اہم کام ہے۔ عقل و روح کی تخلیق کرنے والے خالق کے نام پر اس قوم کی جان و خرد کا دفاع کرتا ہے۔ یہ اس عظیم اور گراں قدر فن یعنی شعر کی خصوصیات ہیں۔ البتہ اس کا دائرہ کار صرف ایک قوم نہیں بلکہ پورا انسانی معاشرہ ہے، یعنی پوری انسانیت کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آج کی دنیا میں تمام انسانی اقدار پر یلغار کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ مادی اقدار پر بھی اور معنوی اقدار پر بھی۔ قوموں کی خود مختاری پر یلغار، اقوام کی دولت و ثروت پر یلغار، اقوام کے دین و ایمان پر یلغار، اقوام کی عزت و آبرو اور اخلاقیات پر یلغار کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ جارحیت کے لئے یہ دروازے بڑی طاقتوں نے سائنس و ٹکنالوجی کی مدد سے کھولے ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی سے انہوں نے دولت بھی کمائی، اور پھر وسیع تشہیراتی وسائل بھی ان کے پاس ہیں۔ آج وہ دنیا کے ساتھ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اور بڑی آسانی سے حقائق کو مسخ کرکے رکھ دیتے ہیں۔
آپ یہ فرض کیجئے کہ دنیا کے کسی گوشے میں ایک انسان قتل کیا جاتا ہے، بلکہ کبھی ایک نوجوان قتل کیا جاتا ہے تو ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ لیکن غزہ پر ہونے والے حملوں میں آپ اندازہ کیجئے کہ کئی دن ہو گئے کہ طیارے جاتے ہیں (حملہ کرتے ہیں اور ان حملوں میں) شاید سو سے بھی زائد افراد جن میں بڑی تعداد مظلوم اور معصوم بچوں اور خواتین کی ہے، مارے جاتے ہیں۔ مگر ان کے لئے گویا کوئی بات ہی نہیں ہے۔ کاش صرف اتنا ہوتا کہ اس کی ان کے لئے کوئی اہمیت نہ ہوتی۔ امریکا اور برطانیہ جیسا کہ خبروں میں ہم نے دیکھا، یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ان حملوں کے حامی ہیں۔ آج کی دنیا ایسی ہے۔ اگر مفادات حاصل ہوتے ہیں تو پھر ہر بدی، ہر انحراف، ہر پستی، ہر بدعنوانی، ہر نجاست اور ہر غلاظت کی حمایت کی جائے گی اور اس میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں ہوگا۔ اگر مفادات کے لئے سازگار نہ ہوں تو ہر پاکیزگی، تقدس اور طہارت و صداقت کی مخالفت کی جائے گی، اس کا سد باب کیا جائے گا، اس پر وحشیانہ انداز میں حملہ کیا جائے گا، یہ ہے آج کی اس دنیا کا عالم۔
جو انسان شاعر ہے، یعنی لطیف شعور و فہم و ادراک اور زبردست قوت اظہار و قوت بیان رکھتا ہے، اس مسئلے میں اس کی ذمہ داری کیا ہے؟ اسے کیا کرنا چاہئے؟ آپ حکمت آمیز باتوں کو بیان کرنے: اِنَّ مِنَ الشِّعرِ لَحِکمَة -(4) کے علاوہ حقیقی مصداق قرار پا سکتے ہیں: «وَ لَمَنِ انتَصَر بَعدَ ظُلمِه»(5) یا «وَ انتَصَروا مِن بَعدِ ما ظُلِموا»(6) کا۔ اسی آیہ کریمہ کے ذیل میں شعراء کے بارے میں بات کی گئی ہے: وَ انتَصَروا مِن بَعدِ ما ظُلِموا آپ اس کے مصداق قرار پا سکتے ہیں۔ آپ «انتصار»(7) کیجئے۔ مظلوم محاذ کی مدد کے لئے آگے بڑھئے، حقیقت بیان کیجئے، بات کو منظر عام پر لائیے، اپنے اشعار کی مدد سے حقیقت کو برملا کیجئے۔ آپ اس میدان میں اپنے اشعار سے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اس امتیاز کا حاصل ہونا نعمت الہیہ ہے اور ساتھ ہی حجت خداوندی بھی ہے۔ ہر نعمت کا شکر ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور جب حجت تمام ہو جائے تو عمل ضروری ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ اس نشست میں موجود برادران و خواہران گرامی اس پہلو پر آئندہ اور بھی توجہ دیں گے۔ حالانکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے نوجوان شعرا، ہمارے انقلاب کے شعرا، حقیقت میں بڑا اچھا کلام پیش کر رہے ہیں، بڑے اچھے اشعار سنا رہے ہیں۔ البتہ یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے شعراء کے اندر شعر کا فن مستحکم ہو۔ ہم یہ سفارش ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ شعر صرف مفاہیم کا نام نہیں، صرف مضمون سے عبارت نہیں ہے، فنکارانہ اسلوب، ترکیبوں کی چستی اور اس کی ہنرمندانہ شکل بھی اصلی شرط ہے، اسی صورت میں شعر کو اثر اور دوام ملتا ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کی توفیقات میں اضافہ کرے، آپ کی تائيد فرمائے، آپ ہمیشہ اقدار، مقدسات اور حق و صداقت کی خدمت میں مصروف رہیں۔ آج کی شب جو اشعار پڑھے گئے اس سے واقعی ہم محظوظ ہوئے۔ اللہ تعالی آپ کی آواز میں روز بروز زیادہ گرمی تاثیر پیدا کرے۔
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
۱) نواسہ رسول حضرت امام حسن علیہ السلام کے یوم ولادت کی مناسبت سے منعقد ہونے والی محفل میں کچھ شعراء نے اپنا منظوم کلام پیش کیا۔
2) ظواہر
3) اوحدى. دیوان اشعار؛ «گرگ اجل یکایک از این گلّه میبرد / وین گلّه را نگر که چه آسوده میچرد»
4) من لایحضره الفقیه، جلد ۴، صفحہ ۳۷۹
5) سوره شوری، آیت نمبر 41 کا ایک حصہ، ترجمہ: اور جو بھی ستم کا نشانہ بننے کے بعد مدد مانگے۔
6) سوره شعرا، آیت نمبر 227 کا ایک حصہ۔ ترجمہ: ظلم و ستم کا نشانہ بننے کے بعد انہوں نے مدد مانگی ہے۔
7) نصرت و مدد